
ایک
عجیب و غريب قوم: منقول
ہے کہ حضرت ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ ایک قوم کے پاس سے گزرے تو دیکھا ان کے پاس
دنیاوی سامان نام کو بھی نہ تھا، انہوں نے بہت سی قبریں کھودرکھیں تھیں، صبح کے
وقت وہاں کی صفائی کرتے اور نماز ادا کرتے پھر صرف سبزیاں کھا کر پیٹ بھر لیتے،
کیونکہ وہاں کوئی جانور موجود نہ تھا جس کا وہ گوشت کھاتے۔ حضرت سید نا ذو القرنین
رحمۃ الله علیہ کو ان کا سادہ انداز زندگی دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی، آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے ان کے سردار سے پوچھا: میں نے تم لوگوں کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ جس
پر کسی دوسری قوم کو نہیں دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ تمہارے پاس دنیا کی کوئی چیز
نہیں ہے اور تم سونا اور چاندی سے بھی نفع نہیں اٹھاتے! سردار کہنے لگا: ہم نے
سونے اور چاندی کو اس لئے برا جانا کہ جس کے پاس تھوڑا بہت سونا یا چاندی آجاتی ہے
وہ انہی کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا: تم لوگ قبریں کیوں
کھودتے ہو؟ اور جب صبح ہوتی ہے تو ان کو صاف کرتے ہو اور وہاں نماز پڑھتے ہو۔ بولا:
اس لئے کہ اگر ہمیں دنیا کی کوئی حرص و طمع ہو جائے تو قبروں کو دیکھ کر ہم اس سے
باز رہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا: تمہارا کھانا صرف زمین کی سبزی کیوں ہے؟ تم
جانور کیوں نہیں پالتے تاکہ ان کا دودھ حاصل کرو، ان پر سواری کرو اور ان کا گوشت
کھاؤ؟ سردار نے کہا: اس سبزی سے ہماری گزر بسر ہو جاتی ہے اور انسان کو زندگی
گزارنے کے لیے اتنی چیز ہی کافی ہے اور ویسے بھی حلق سے نیچے پہنچ کر سب چیزیں ایک
جیسی ہو جاتی ہیں، ان کا ذائقہ پیٹ میں محسوس نہیں ہوتا۔ حضرت ذو القرنین رحمۃ
اللہ علیہ نے اس کی حکمت بھری باتیں سن کر اسے پیش کش کی میرے ساتھ چلو، میں تمہیں
اپنا مشیر (Advisor)
بنالوں گا اور اپنی دولت میں سے بھی حصہ دوں گا۔ مگر اس نے معذرت کر لی کہ میں اس
حال میں خوش ہوں۔ چنانچہ حضرت ذو القرنین وہاں سے تشریف لے گئے۔ (تاریخ مدینہ دمشق،
17/353 تا 355ملخصاً)
ہماری
حالت زار :
پیاری اسلامی بہنو! دنیا سے دل و جان سے محبت ہونے اور آخرت کی الفت میں کمی کی
وجہ سے مسلمانوں کی بھاری تعداد الله الرحیم اور اس کے رسول کریم کی یاد سے دور
ہے، جبکہ گناہوں اور فضولیات کی حرص میں مسرور (یعنی خوش) ہے۔ افسوس صد کروڑ ا
فسوس! آج کی نوجوان اسلامی بہن ساری ساری رات گناہوں بھرے پروگرامز دیکھنے سننے کو
تیار ہے مگر نماز ادا کرنے سے کتراتی ہے، کئی کئی گھنٹے ریموٹ ہاتھ میں پکڑے فلمیں
ڈرامے دیکھنے کا وقت ہے مگر رضائے الہی پانے، اپنی آخرت سنوارنے اور علم دین
سیکھنے کے لئے اپنے ہی علاقے میں ہونے والے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کے
لئے مختلف بہانے ہیں۔ عشق مجازی کو بھڑ کانے والے گندے ناولز پڑھنے کے لئے گھنٹوں
کا وقت ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کو دل نہیں کرتا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ
درست قرآن کریم پڑھنا ہی نہیں آتا اور نہ سیکھنے کا شوق ہے، بری دوستوں کی گندی
صحبت میں گھنٹوں اپنا وقت برباد کرنے کے لئے وقت ہے مگر عاشقان رسول اسلامی بہنوں
کی صحبت میں بیٹھ کر سنت مصطفیٰ ﷺ سیکھنے کا وقت نہیں۔ اس سے پہلے کہ موت آجائے،
بقیہ زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً سارے گناہوں سے سچی توبہ کر لیں اور نیکیاں
کرنے لگ جائیں۔
وہ
ہے عیش و عشرت کا کوئی محل بھی جہاں
تاک میں ہر گھڑی ہو اجل بھی
بس
اب اپنے اس جہل سے تو نکل بھی یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی
جگہ
جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ
عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
علما
سے علم کیوں ضائع ہو جاتا ہے؟ حضرت عبد الله بن سلام رضی اللہ عنہ نے
حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: کون سی چیز علما کے دلوں سے علم کو لے
جاتی ہے جبکہ وہ اسے سمجھ بھی لیتے ہیں اور یاد بھی کر لیتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
لالچ، نفسانی ہوس اور حاجات کی طلب۔ کسی عاقل کا قول ہے کہ انسان کا معاملہ بڑا
عجیب ہے اگر اعلان کر دیا جائے کہ اب ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے تو یہ سن کر اسے دنیا
جمع کرنے کی حرص اتنی نہ ہو گی جتنی اب ہے حالانکہ اب نفع حاصل کرنے کی مدت کم ہے
اور زندگی چند روزہ ہے۔
اے میری بہن! تو
اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ لالچی کو رزق ملتا ہے اور عبادت گزار اس سے محروم
ہوتا ہے۔ اسی کے متعلق شاعر کہتا ہے:
اراک يزيدك الاثراء حرصا على
الدّنيا كأنك لا تموت
فهل لك غايةٌ إن صرت يومًا إليها
قلت حسبى قد رضيت
ترجمہ: میں
تجھے دیکھ رہا ہوں کہ مال داری دنیا پر تیری حرص کو بڑھارہی ہے گو یا تجھے ہی مرنا
نہیں ہے۔
کیا تیری حرص
کی کوئی انتہا بھی ہے جہاں پہنچ کر تو یہ کہے کہ بس یہ کافی ہے اب میں راضی ہوں۔ (احیاء
العلوم، 3/725)
نیکیوں
کی حرص بڑھانے کا طریقہ: اے عاشقان رسول اسلامی بہنو! دولت و
عیش و عشرت آنے جانے والی شے ہے، نیکیوں کی حرص کیجئے اور اپنا یہ ذہن بنائیے کہ
میرے پاس مال کی کثرت ہو یانہ ہو نیکیوں کی ضرور کثرت ہو۔ نیک بننے اور نیکیوں کی
حرص پیدا کرنے کے لئے اللہ والوں کے واقعات پڑھئے۔
حرص
کا علاج: پیاری
اسلامی بہنو! عام طور پر مال ہی کی حرص کی خواہش ہوتی ہے اور اس حرص کی وجہ سے
دیگر کئی طرح کی حرص پیدا ہوتی ہیں، اگر مال کی حرص سے اپنے آپ کو بچا لیا جائے تو
اللہ پاک کی عبادت کرنے، آرام و سکون کی زندگی گزارنے کی صورت بن سکتی ہے۔ مال کی
حرص کا سب سے بڑا علاج قناعت ہے، چنانچہ شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبد المصطفی
اعظمی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: اس قلبی مرض کا علاج صبر و قناعت ہے یعنی جو کچھ
خدا کی طرف سے بندے کو مل جائے اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجالائے اور اس عقیدہ
پر جم جائے کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں رہتا ہے اسی وقت فرشتہ خدا کے حکم سے انسان
کی چار چیزیں لکھ دیتا ہے۔ انسان کی عمر، انسان کی روزی، انسان کی نیک نصیبی،
انسان کی بد نصیبی، یہی انسان کا نوشتہ تقدیر ہے۔ لاکھ سر مارو مگر وہی ملے گا جو
تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے، نفس ادھر ادھر لپکے تو صبر کر کے نفس کی لگام کھینچ لو۔
اسی طرح رفتہ رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اٹھے گا اور حرص ولالچ کا اندھیر
ابادل چھٹ جائے گا۔ (جنتی زیور، ص 111)
دولت
کی حرص دل سے اللہ دور کردے
عشق
رسول دے دے،کر یہ دعا رہے ہیں
تکثیر
مال وزر کی ہرگز نہیں تمنا
ہم
مانگ آپ سے بس،غم آپ کا رہے ہیں
پیاری پیاری
اسلامی بہنو! یہ ذہن بنا لیجئے کہ ہمیں صرف اور صرف نیکیوں کا حریص بننا ہے،
نیکیاں اور صرف نیکیاں کرنی ہیں۔ اللہ پاک کے سچے نبی ﷺ کا فرمان نصیحت نشان ہے:
اس پر حرص کرو جو تمہیں نفع دے۔ (مسلم، ص 2341، حدیث:
4662) حضرت امام ابو زکریا یحیی بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں
فرماتے ہیں: یعنی اللہ پاک کی عبادت میں خوب حرص کرو اور اس پر انعام کا لالچ رکھو
مگر اس عبادت میں بھی اپنی کوشش پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ پاک سے مدد مانگو۔ (شرح
صحيح مسلم للنووى، 8/512، جزء: 61 ملتقطاً)
حضرت مفتی
احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ دنیاوی چیزوں میں قناعت اور
صبر اچھا ہے مگر آخرت کی چیزوں میں حرص اور بے صبری اعلیٰ ہے، دین کے کسی درجے پر
پہنچ کر قناعت نہ کر لو، آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (مراۃ المناجیح، 7/211)
حرص
کا ایک اور علاج! پیاری
پیاری اسلامی بہنو! دعا مومن کا ہتھیار ہے، حرص و طمع کی نحوست سے پیچھا چھڑانے
اور قناعت کی دولت پانے کے لئے بارگاہ الہی میں گڑ گڑا کر دعا کیجئے۔
اللہ پاک کے
سچے نبی ﷺ کا فرمان حقیقت بنیاد ہے: اگر انسان کیلئے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ
تیسری وادی کی تمنا کرے گا اور انسان کے پیٹ کو تو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے اور جو
شخص توبہ کرتا ہے اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
سیٹھ
جی کو فکر تھی اک اک کے دس دس کیجئے
موت
آپہنچی کہ مسٹر جان واپس کیجئے
امام محمد
غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: عیش کچھ وقت کا ہے جو گزر جائے گا اور چند دنوں
میں حالت بدل جائے گی۔ اپنی زندگی میں قناعت اختیار کر، راضی رہے گا اور اپنی
خواہش ختم کر دے، آزادی کے ساتھ زندگی گزارے گا، کئی مرتبہ موت سونے، یا قوت اور
موتیوں کے سبب (ڈاکوؤں کے ذریعے) آتی ہے۔ (احیاء العلوم، 3/298)
یاد رکھئے!
مشقت دونوں میں ہے، حرص میں بھی اور قناعت میں بھی، ایک کا نتیجہ بربادی دوسری کا
آبادی! آپ کو کیا چاہئے؟ اس کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ جو قناعت کرے گا ان شاء اللہ
خوشگوار زندگی گزارے گا۔ جس کے دل میں دنیا کی حرص جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی زندگی
میں بدمزگی بڑھے گی۔
کان
دھر کے سن! نہ بننا تو حریصِ مال وزر
کر
قناعت اختیار اے بہنا! تھوڑے رزق پر
اللہ ہمیں بخل
وکنجوسی اور حرص جیسی مذموم صفات سے محفوظ رکھے اور اپنی راہ میں خوش دلی کے ساتھ
خرچ کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

کچھ گناہ
باطنی ہوتے ہیں جنہیں باطنی بیماریاں کہتے ہیں، جیسے جھوٹ تکبر وغیرہ باطنی
بیماریاں ظاہری بیماریوں سے زیادہ خطرناک ہیں کہ ایک باطنی گناہ بے شمار گناہوں کا
سبب بنتا ہے۔ انہیں میں سے ایک حرص ہے۔ کسی چیز میں حد درجہ دلچسبی کی وجہ سے نفس
کا اس کی طرف راغب ہونا طمع (لالچ) کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کا علاج، ص 190)
عام طور پر
لوگ صرف مال دولت کی طمع رکھنے کو حرص سمجھتے ہیں۔ جبکہ حرص مال دولت کے ساتھ خاص
نہیں ہے۔بلکہ حرص کا جذبہ تو لباس مکان عزت شہرت خوراک ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے کہ
لالچ دل کا حصہ ہےکہ دل کو اسی طرح سے بنایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اُحْضِرَتِ
الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- (پ 5، النساء: 125) ترجمہ: اور دل لالچ کے پھندے
میں ہیں۔ مکمل ہم لالچ سے بچ نہیں سکتے
مگر فرق اتنا ہے کوئی گناہوں کا حریص ہے تو کوئی نیکیوں کا۔ دیکھنا یہ ہے کونسی
لالچ دل میں پیدا ہورہی ہے۔ حرص کی 3 قسمیں ہیں: (١)حرص محمود(٢) حرص مباح اور (٣)حرص
مذموم۔
حرص
محمود: نیک
کاموں کی حرص کا ہونا نماز حج روزہ اور نیک کی دعوت عام کرنےکی حرص محمود ہے۔
ہمارے بزرگان دین صحابہ کرام نیک کاموں کے حریص ہوا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابوہرہرة
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے دریافت فرمایا: آج تم میں سے کس نے
روزہ رکھا؟ تو صدیق اکبر نے عرض کی: میں نے۔ پھر پوچھا: آج کس نے نماز جنازہ میں
شرکت کی؟ تو صدیق اکبر نے کہا: میں نے۔ نبی پاک ﷺ نے پھر پوچھا: آج تم میں سے مسکین
کو کس نے کھلایا؟ اور اس بار بھی آپ نےعرض کی: میں نے۔ پھر نبی پاکﷺ نے پوچھا:
مریض کی عیادت کس نے کی؟ اور اس بار بھی عاشق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں نے۔
تو نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جس میں یہ خصلتیں جمع ہوجائیں وہ داخل جنت ہوگا۔ (حرص، ص
28)
صالحین نیک
کام کے حریص تھے اور ہم فرائض میں بھی پابندی نہیں کرپاتے۔
حرص
مباح: وہ
کام جن کے کرنے پر ثواب نہ ملے اور نہ کرنے پر سزا بھی نہ ہو۔ جیسے عمدہ یا زائد
لباس پہننا اور کھانے کاشوق اگر اس حرص کو پورا کرنے کے لیے چوری یا رشوت کے ذرائع
اپناۓ تو اب بچنا لازم ہے۔
حرص
مذموم: گناہوں
میں دلچسپی لینا جیسے نشے اور جوئے کی حرص وغیرہ یہ مذموم ہے۔ اس کے لیے دعوت
اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے ان شاء اللہ خود بخود نیکیوں سے محبت پیدا
ہوگی۔
کچھ لوگ اچھے
کھانے اور اچھے کپڑے ملنے کی حرص میں امیر لوگوں سے دوستی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان
کے گناہ میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں۔یہاں تک کہ پھر نشے کی عادت میں بھی گرفتار
ہوتے ہیں۔اور یوں انہیں ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر والدین کے لیے بھی وہ پریشانیوں
کا باعث بنتے ہیں۔ اچھا دوست وہ نہیں ہوتا جو اچھے کھانے یا اچھے کپڑے دے کہ نبی
پاک ﷺنے فرمایا: اچھا رفیق وہ ہے کہ جب تو خدا کو یاد کرے تو وہ تیری مدد کرے اور
جب تو بھولے تو وہ یاد دلائے۔ (حرص، ص 219)
اور مال دولت
کی حرص اس قدر بری ہے کہ مال کا حریص نہ پھر کسی کا بھلا دیکھتا ہے نہ نقصان نہ
حلال دیکھتا ہے نہ حرام۔ بس زیادہ مال کمانے میں لگا رہتا ہے۔ اور آخر کار جو اس
کے پاس ہوتا ہے اسے بھی کھو بیٹھتا ہے اور اس کی وجہ سے بڑے بڑے عیوب پیدا ہوجاتے
ہیں۔ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: دو بھوکے بھیڑیے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا
جاۓ اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنا آدمی کو ما ل و جاہ کی حرص اسکے دین کو نقصان
پہنچاتی ہے۔(ترمذی، 4/ 166، حدیث: 2383)
حریص مال دولت
کمانے میں دن رات ایک کر دیتا ہے، حالانکہ کوئی اتنا ہی حاصل کرسکتا ہے۔ جتنا اس
کے نصیب میں ہوگا اور نہ ہی کوئی دوسرا کسی کا نصیب چھین سکتا ہے۔ مال دولت کا
حریص بخل میں بھی پڑ جاتا ہے اور یوں اہل و عیال کو دینے اور زکوٰة صدقات دینے سے
بھی گریز کرنے لگ جاتا ہے۔
حرص کوئی سا بھی
ہو ضرور نقصان پہنچاتا ہے اور اس کا انجام برا ہی ہے۔ جیسے مال کا حریص رسوا ہوتا
ہے۔ ایسے ہی کھانے کا حریص بھی اپنا معدہ تباہ کردیتا ہے۔ اور لباس مکان کا لالچی
بھی ضرور ناجائز ذرائع اختیار کر بیٹھتا ہے۔ دنیا ختم ہونے والی ہے اور اس دنیا کو
جمع کرنا بے وقوفی ہے کہ اگر حلال مال ہو تب بھی بروز محشر کو حساب تو ضرور دینا
ہوگا اور حرام مال کمانے کی صورت میں عذاب ہوگا۔ بہتری اسی میں ہے کہ ضرورت سے
زیادہ مال نہ کمایا جائے۔ مال کس قدر کمانا چاہیے۔ اس پر امام غزالی فرماتے ہیں:
اگر آمدنی سے زیادہ خرچ ہو تو خرچ گھٹاؤ ورنہ جس قدر خرچ ہے اس قدر کماؤ اور باقی
وقت عبادت میں گزارو۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 7)
لہذا مال کی
محبت اپنے دل میں پیدا ہونے نہیں دینی چاہیے۔ نبی پاک ﷺ نے مال کو ترجیح نہیں دی
بلکہ اختیاری فقر کو اپنایا اور اس کی تلقین بھی کی اور یہی دعا بھی اور صحابہ
کرام نے بھی مال جمع نہ کیا۔ لہذا مال دولت کے ذریعے زندگی کی ضروریات کو پورا
کریں، نہ کہ خواہشات کو کہ خواہشات تو بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتیں اور ضروریات
فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے۔

حضرت امام شعبی
رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک اعرابی نے چڑیا کا شکار کیا چڑیا نے اعرابی سے
کہا کہ تیرا کیا مطلب ہے۔ اس نے کہا کہ تجھے ذبح کر کے کھاؤں گا چڑیا نے کہا کہ
مجھ مٹھی بھر سے تیرا شکم سیر نا ہوگا۔ میں تجھے تین باتیں بتاتی ہوں جو تجھے میرے
کھانے سے بہتر ہوں گی: ایک تو ابھی بتاؤں گی، دوسری پیڑ پر جا کر کہوں گی اور
تیسری پہاڑ پر بیٹھ کر بتاؤں گی۔ اس اعرابی نے کہا کہ پہلی بات کیا ہے چڑیا نے کہا
کہ گزری ہوئی بات پر افسوس نہ کرنا اعرابی نے اسے چھوڑ دیا وہ اڑ کر پیڑ پر بیٹھ
گئی۔ شکاری نے دوسری بات پوچھی۔ اس نے کہا جو بات نہ ہو سکتی ہو اس پر یقین نہ
کرنا پھر اڑ کر پہاڑی پر جا بیٹھی اور شکاری سے کہا کہ تو بڑا ہی بد نصیب ہے اگر
مجھے ذبح کرتا تو میرے پیٹ میں سے دو موتی ڈیڑھ ڈیڑھ چھٹانک کے وزنی نکلتے۔ اعرابی
افسوس سے ہاتھ ملنے لگا اور کہا تیسری بات بتا اس نے کہا کہ تو پہلی دونوں باتوں کو
بھول گیا تیسری کیسے بتاؤں مثلاً میں نے کہا تھا کہ گزری بات پر افسوس نہ کرنا مگر
تو نے میرے چھوڑنے پر افسوس کیا میں نے کہا تھا کہ غیر ممکن بات پر یقین نہ کرنا لیکن
تو نے یقین کیا یہ نہ سمجھا کہ میرا گوشت پوست اور پر وغیرہ ملا کر ڈیڑھ چھٹانک
بھی نہ ہوں گے تو میرے پیٹ میں دو موتی اتنے بڑے وزنی کیسے ہوں گے یہ کہہ کر اڑ
گئی۔
یہ مثال آدمی
کے طمع (لالچ) کی زیادتی کی ہے کہ انسان کو طمع (لالچ) کے مارے حق بات نہیں سوجھتی۔
یہاں تک کہ غیر ممکن بات کو بھی مان لیتا ہے۔
ابن سماک کا
قول ہے کہ توقع ایک دل میں رہتی ہے جس سے آدمی کے پاؤں میں پھندا پڑا رہتا ہے اگر
توقع دل سے نکل جائے تو پاؤں بھی پھندے سے نکل جائے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی
اللہ عنہ نے کعب احبار رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ علما کے دلوں سے بعد حفظ علوم کو
کونسی چیز کھو سکتی ہے؟ فرمایا: طمع، حرص اور ضروریات کی طلب۔
معزز قارئین!
ذکر کی گئی حکایت اور اقوال صالحین سے ہمیں معلوم ہوا کہ لالچ اور طمع بہت بری صفت
ہے اور جس بندے کے دل میں یہ صفت ہو اسے درج ذیل نقصانات کا اندیشہ ہے: حق بات کو
سمجھنے سے محرومی۔ خیر و بھلائی اور اطمینان سے محرومی۔ دل سے نور علم کا نکل جانا۔
لہذا ہمیں لالچ جیسی بری صفت سے بچنے کے لیے اللہ کریم کی بارگاہ کرم میں دعا بھی
کرنی چاہیے اور اس صفت سے بچنے اور اسے اپنے دل سے نکالنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
اس بیماری کے
علاج کے لیے امیر اہلسنت دامت برکاتہم کے مدنی مذاکرے سننا بہت مفید ہے ہر ہفتے کو
ہونے والے لائیو مدنی مذاکرہ میں شرکت کی نیت کر لیجیے۔
اللہ کریم ہمیں
اس بری صفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

لالچ، حرص،طمع
اور ہوس ہم معنیٰ الفاظ ہیں یعنی کسی چیز کی حد سے زیادہ خواہش کرنا لہذا کسی چیز
میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے دل کا اس کی طرف راغب ہونا لالچ کہلاتا ہے یہ ایک
باطنی مرض ہے۔
لالچ کی نوعیت
اور اس کے اثرات کے لحاظ سے اسے تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: وہ لالچ جس
پر گناہ ہے، وہ لالچ جس پراجر ہے اور وہ لالچ جس پر نہ اجر ہے نہ گناہ۔
1۔ وہ لالچ جس
پر گناہ ہے: لالچ اگر ناجائز مال، طاقت، شہرت، یا خواہشات نفس کے پیچھے ہو، تو وہ
گناہ کا باعث بن جاتا ہے۔قرآن مجیدمیں اکثر مقامات پر انسان کولالچ کے فتنوں سے
بچنے کی تلقین کی گئی ہے: اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) (پ 30،
التکاثر: 1، 2) ترجمہ: تمہیں
زیادہ سے زیادہ (مال و دولت کی) طلب نے غفلت میں ڈالے رکھا، یہاں تک کہ تم قبروں
میں جا پہنچے۔ مکمل
اسی نسبت رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بخل و حرص سے بچو، اس لیے کہ اسی بخل و حرص نے تم سے پہلے
لوگوں کو ہلاک کردیا۔ اسی بخل و حرص نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپس میں
خون خرابہ کریں اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیں۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576) لہذا بہتات کی طلب ختم نہیں ہوتی، خواہ
انسان موت کے دہانے پر کھڑا ہوا ہو۔
اسی طرح رسول
اللہﷺ نے فرمایا: اگر ابن آدم کے پاس دو وادیاں بھر کر سونا ہو تو وہ تیسری کی
خواہش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ صرف مٹی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
2۔ وہ لالچ جس
پراجر ہے: اگر کسی چیز کی شدید خواہش اللہ کی رضا کے مطابق ہو، تو وہ لالچ نہیں
بلکہ نیک جذبہ بن جاتا ہے اور اس پر ثواب بھی ملتا ہے لہٰذا رضائے الٰہی کے ليے
کيے جانے والے نیک اعمال کا لالچ مستحسن ہے۔ جیسا کہ زیادہ نیکیاں کمانے کی خواہش،علم
حاصل کرنے کی رغبت،خدمت خلق کی تمنا اورآخرت کی کامیابی کی خواہش یہ خواہشات اگر
خلوص کے ساتھ ہوں تو ان پر اللہ کی طرف سے اجر و ثواب ملتا ہے۔
قرآن میں ایسی
کئی آیات ہیں جو انسان کو اس قسم کی مثبت خواہشات اور نیکیوں میں سبقت لینے کی
ترغیب دیتی ہیں، سورۃ آل عمران میں اللہ پاک فرماتا ہے: وَ سَارِعُوْۤا
اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ
جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ
الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ(۱۳۳) (پ 4،
آل عمران:133) ترجمہ: اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت
کی طرف، جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو متقین کے لیے تیار کی گئی
ہے۔ مکمل
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: حسد (رشک) صرف دو آدمیوں سے جائز ہے: ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو
اور وہ اسے حق کے راستے میں خرچ کرتا ہو، اور دوسرا وہ جسے اللہ نے علم دیا ہو اور
وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور دوسروں کو سکھاتا ہو۔ (مسلم، ص 316، حدیث: 1894) اس حدیث میں رشک سے مراد نیک لالچ ہے،
یعنی کسی کی نیکیوں کو دیکھ کر ایسی ہی نیک خواہش رکھنا کہ اللہ ہمیں بھی یہ عمل
نصیب کرے۔
3۔
وہ لالچ جس پر نہ اجر ہے، نہ گناہ یہ وہ خواہشات ہیں جو فطری یا دنیاوی معاملات سے
جڑی ہوتی ہیں، لیکن نہ ہی وہ حرام ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی خاص نیکی کا ثواب ہے،
جیسے:اچھی نوکری، اچھی تعلیم، اچھی زندگی گزارنے کی خواہش،اچھا گھر، اچھا کھانا،
اچھی گاڑی اگر جائز طریقے سے حاصل کیے جائیں تو نہ اس میں ثواب ہے اور نہ گناہ۔یہ
چیزیں اپنی ذات میں نہ بری ہیں نہ اچھی، بلکہ ان کا دار و مدار نیت اور طریقہ کار
پر ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں
ایسی خواہشات کا ذکر درج ذیل انداز میں ملتا ہے: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ
اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ- (پ
8، الاعراف: 32) ترجمہ: کہو! کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام
کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور (کس نے) پاکیزہ رزق کو (حرام کیا)؟۔
مکمل یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دنیاوی زینت (اچھی چیزیں) اللہ کی نعمتیں
ہیں اور اگر جائز طریقے سے حاصل کی جائیں تو نہ ان پر گناہ ہے اور نہ کوئی خاص
ثواب، بلکہ یہ ایک فطری ضرورت ہے۔
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے، اور جو شخص اسے حق کے ساتھ حاصل کرے،
اس کے لیے اس میں برکت ہوگی، اور جو شخص اسے حرام طریقے سے حاصل کرے، وہ ایسے ہوگا
جیسے کھاتا رہے مگر کبھی سیر نہ ہو۔ (بخاری، 4/230،
حدیث: 6441) اس
حدیث میں واضح کیا گیا ہے کہ مال کی خواہش فطری ہے، اور اگر اسے حلال طریقے سے
حاصل کیا جائے تو نہ یہ گناہ ہے اور نہ ہی اس پر کوئی خاص ثواب۔
لالچ
کے اسباب: انسان
کی اس صفت کا زیادہ تر استعمال منفی معنوں میں ہوتاہے۔لہذا اس کے کئی اسباب، ہو
سکتے ہیں، جو انسان کے اندر دنیاوی خواہشات کو بڑھاتے ہیں اور بعض اوقات گناہ کی
طرف بھی لے جا سکتے ہیں ہیں، جیسے دنیا کی حد سے زیادہ محبت، قناعت
اور شکر کی کمی، دوسروں سے مقابلے کی نفسیات، مال و دولت کی محبت اور بخل، فقر و فاقہ کا خوف، دین سے دوری اور آخرت سے غافل ہوجانا، اچھی تربیت کی کمی اور ایسے ماحول میں
پرورش پانا جو برائی کا حامل ہو۔
لالچ
کے نقصانات: لالچ
کے نقصانات درج ذیل ہیں: حرام اور ناجائز
ذرائع اختیار کرنا، حسد اور نفرت پیدا ہونا، دیانت داری اور سچائی ختم ہونا، ذہنی سکون اور برکت کا ختم ہونا، انسانی رشتوں اور اخلاقی اقدار میں خلا، عقل کی خرابی، خود
غرضی اورتکبر کا باعث، اللہ پر
بھروسہ کمزور ہو جانا /اللہ کی تقسیم پر راضی نہ ہونا، دعا
اور عبادت سے دوری، آخرت میں نقصان اٹھانا۔
لمحہ
فکر: انسان
دنیا کی چکاچوند میں اتنا محو ہے کہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کو نظر انداز
کررہا ہے۔دنیا کی خاطر جھوٹ بولتا ہے، دھوکہ دیتا ہے، رشوت لیتا ہے،دوسروں کا حق
مار تاہے۔جو کہ عارضی زندگی ہے۔ اے انسان! رزق اور عزت اللہ پاک کےہاتھ میں ہے، جب
تو ماں کے پیٹ میں 120دن کا ہوتا ہے
تو تیرا رزق اس دن ہی لکھ دیا جاتا ہے وہ تجھے مل کے رہے گا اور عزت اور ذلت اللہ
کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل کرے اگر ساری دنیا مل کر بھی کسی
کو عزت دینا چاہے تو نہیں دے سکتی اگر اللہ نہ چاہے اور اسی طرح اگر ساری دنیا مل
کر بھی کسی کو ذلیل ہونے سے بچائے تو نہیں بچا سکتی اگر اللہ اس کو ذلیل کرنا
چاہے۔ تو سوچ تیری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تمہارا رب تم سے کیا کہہ رہا ہے؟ اس کی
طرف آؤ۔ تمہارا لالچ تو ساری زندگی پورا نہیں ہوگا۔لاکھ پتی بنو گے تو سوچو گے کہ
کروڑ پتی بن جائیں۔ کروڑ پتی بنو گے تو سوچو گے کہ عرب پتی بن جائیں بتاؤ!کہیں کوئی
جگہ ہے جہاں نشان لگاؤ؟کہ یہاں سے بندہ آگے نہیں جاتا۔
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: حقیقی دولت مال کی کثرت میں نہیں، بلکہ نفس کی بے نیازی میں ہے۔ (بخاری، 4/233، حدیث: 6446)
بے شک اللہ جس
کے دل کو غنی کر دے چاہے اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو لیکن وہ پھر بھی غنی ہے اور جس
کا دل غنی نہیں ہے وہ کروڑپتی، کھرب پتی بھی ہو جائےاس کے نفس کی کمینگی نہیں جاتی۔اس
لیے انسان کہتا ہے:ھل من مزید؟ مجھے اور ملے۔
اسی بات
کومیاں محمد بخش اپنے کلام میں یوں بیان کرتےہیں:
مالاں
والے سخی نئیں ہوندے سخیاں مال
نئیں ہوندا
ایتھے
اوتھے دونویں جہانی سخی
کنگال نئیں ہوندا
لالچ یا طمع
سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ہوس
نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوّت
کا بیاں ہو جا، محبّت کی زباں ہو جا

پیارے آقا
مدینے والے مصطفیٰ ﷺ فرماتے ہیں اور یہ ترمذی کی حدیث ہے: دو بھوکے بھیڑیے بکریوں
میں چھوڑ دیئے جائیں وہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و مرتبہ کا لالچ
انسان کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے۔ (ترمذی، 4/ 166،
حدیث: 2383) یعنی اتنی چیر پھاڑ نہیں کرتے جتنا
ہمارا دین برباد ہو سکتا ہے۔
رشتوں
کی بنیاد لالچ پر: جہاں رشتوں کی بنیاد لالچ پر رکھی جاتی ہے وہاں گھر
کا ماحول درست رکھنا ممکن نہیں، گھر کا ماحول اس وقت درست رہتا ہے جب تقوی کو، طہارت
کو، پرہیزگاری کو، عمدہ اخلاق کو، اچھے نظریات کو،ستھرا مزاج کو پیش نظر رکھا جاتا
ہے پھر حالات کچھ اور طرح کے ہوتے ہیں اور حالات بہتر سے بہتر راہ پر گامزن ہوتے
ہیں اور گھر امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔
قول
مفکر:دولت
اور حسن کی لالچ میں کبھی اپنا ایمان خراب مت کرنا کیونکہ دولت دنیا ہی میں ختم ہو
جائے گی اور حسن مٹی میں دفن ہو جائے گا لیکن تمہارا ایمان آخرت تک تمہارا ساتھ دے
گا۔
کرپشن لالچ کی
وجہ سے ہوتی ہے ورنہ سرکاری ملازمین کی تنخوا اس وقت ایسی نہیں ہے کہ جس میں گزارا
نہ ہو سکے ٹھیک ٹھاک گزارا ہوتا ہے ان کے پاس اتنے الاؤنس ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں
سکتے بڑے افسران و عہدہ داران کے پاس اتنی سہولیات ہوتی ہیں کہ شاید 30، 50 لوگوں
کی سرپرستی کر کے ان کو پال سکتا ہے اس کے باوجود کرپشن ہے بھوک کی وجہ سے نہیں ہے
لالچ کی وجہ سے ہے سود کا بازار کیوں گرم ہے بھوک کی وجہ سے ہے؟ نہیں بلکہ لالچ کی
وجہ سے ہے جس آدمی نے سود پر پیسے دیے مالدار تھانہ تبھی سود پر دیے تو کس لیے دیے؟
وجہ لالچ ہے اس ملک میں معاذ اللہ جو جسم فروشی تک دھندے ہیں وہ کس لیے ہیں؟لالچ
کی وجہ سے ہے آج کل دولت کے لیے لوگ لالچ کی راہ پہ چل پڑے ہیں لالچ گناہ کا
دروازہ کھولتا ہے لالچ جھوٹ کا دروازہ کھولتا ہے لالچ کرپشن کا دروازہ کھولتا ہے لالچ
جو ہوتا ہے وہ ہر گناہ کی جڑ بن جاتا ہے لالچ نہ کریں زندگی مختصر سی ہے جتنا اللہ
پاک نے عطا کیا ہے خوش ہوں اور اللہ کا شکر ادا۔
آپ ﷺ نے
فرمایا: تم میں سے کوئی کہنے والا کہتا ہے لالچی انسان ظالم سے زیادہ دھوکے باز
ہوتا ہے حالانکہ اللہ کے نزدیک لالچ سے بڑا ظلم کون سا ہے۔اللہ تعالی اس بات پر ا
پنی عزت و عظمت اور جلال کی قسم بیان فرماتا ہے جنت میں کوئی لالچی اور بخیل داخل
نہیں ہو سکتا۔ (کنز العمال، 3/182، حدیث: 7404)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں لالچ کرنے سے محفوظ رکھے اور اپنے حفظ و ایمان میں رکھے اور ہمارا
خاتمہ ایمان پر ہو، آمین