لالچ باطنی بیماریوں میں سے ایک خطرناک بیماری ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے اور جو لالچ جیسی بیماری سے بچ گیا وہ کامیاب ہوگیا، جیسا کہ قرآن پاک میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل

لالچ ہوتی کیا ہے اس کا مطلب کیا ہے پہلے یہ جان لیتے ہیں لالچ کی تعریف کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو نا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 190)

جس طرح آیت مبارکہ میں لالچ سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی لالچ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

جیساکہ حدیث مبارکہ ہے: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)

لالچ کے نقصانات: لالچ کے نقصانات بیشمار ہیں جیسے: لالچ انسان کو اندھا کردیتا ہے، لالچ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے، لالچ کی نحوست کے سبب دل سے خوف خدا نکل جاتا ہے،لالچ کی وجہ سے انسان اپنوں کا دشمن بن جاتا ہے،لالچ کے سبب بندہ لوگوں کے احسانات کو بھلا دیتا ہے،لالچ فتنوں کو جگاتا ہے،لالچ اچّھے برے کی تمیز بھلادیتا ہے،لالچ انسان کو ظلم پر ابھارتا ہے،لالچ دنیا وآخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بنتا ہے،لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا اور لالچ کا انجام انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ الغرض لالچ کی تباہ کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ الامان والحفیظ۔

لالچ سے متعلق حکایت: ایک غریب آدمی کے3 بیٹے تھے،جو کچھ اسے دال روٹی نصیب ہوتی خود بھی کھاتا اور انہیں بھی کھلاتا۔ ان میں سے ایک بیٹا باپ کی غربت اور دال روٹی سے خوش نہیں تھا چنانچہ اس نے ایک مالدار نوجوان سے دوستی کرلی اور اچھا کھانا ملنے کے لالچ میں اس کے گھر آنے جانے لگا۔ایک دن ان کے درمیان کسی بات پر ناراضی ہوگئی۔مالدار دوست نے اپنی امیری کے غرور میں اسے خوب مارا پیٹا اور اس کے دانت توڑ ڈالے۔تب وہ غریب دل ہی دل میں توبہ کرتے ہوئے کہنے لگا:میرے باپ کی پیار سے دی ہوئی دال روٹی اس مار دھاڑ اور ذلت کے نوالے سے بہتر ہے،اگر میں اچّھے کھانے پینے کی لالچ نہ کرتا تو آج اتنی مار نہ کھاتا اور میرے دانت نہیں ٹوٹتے۔ (حرص، ص 218)

اس حکایت میں ہمارے لیے بھی عبرت ہے لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ جتنا اللہ پاک نے ہمیں نوازا ہے ہم اسی پر قناعت کرنا سیکھیں اللہ پاک نے جس کا جتنا رزق لکھ دیا ہے اسے وہ مل کر رہے گا لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی زیور، ص 111)

پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہوتوچاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرے تو اللہ کریم اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2418)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حرص و لالچ جیسی بری آفت سے محفوظ فرمائے۔

دل میں حرص و ہوس و خواہش دنیا نہ رہے آپ کا عشق رہے غیر کا خطرہ نہ رہے

آپ کی یاد ہو سر میں کوئی سودا نہ رہے دل مدینہ رہے اور دیر و کلیسا نہ رہے

نور ایماں سے مرا سینہ منور کردو دل میں عشق رخ پرنور کا جذبہ بھردو