تکبر بہت ہی بری چیز ہے۔ اور ایسے شخص کو اللہ رب العزت پسند نہیں فرماتا ہے۔تکبر اپنے آپ کو بڑا اور دوسرے کو اپنے سے حقیر جاننا ہے۔ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِتکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ اور یہ ایک ایسی بیماری ہے۔ جو لوگوں کو مال و دولت ،خوبصورتی، زیادہ طاقتور ہونے، زیادہ علم ہونے، زیادہ نماز و روزہ کرنے ، کی وجہ سے زیادہ آتا ہے۔ تکبر انسان کو کہی کا نہیں چھوڑتا ۔ یہی تکبر انسان کو ایمان بھی چھین لیتا ہے۔ تکبر کی وجہ سے انسان اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ تبکر و غرور کی وجہ سے انسان نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت سے محروم رہتا ہے۔ جبکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی بارگاہ میں عاجزی اور انکساری ایمان کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ کفار لوگوں نے کیا ہے جب بھی کسی نبی و رسول کو اللہ تبارک و ٰ دنیا میں بھیجا ہے تو کفار لوگ اسے انکار ہی کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم لوگ تو اس سے زیادہ مالدار ہے یہ نہایت ہی مفلس ہے یہ نبی کیسے ہو سکتا ہے وہ انبیائے کرام کو بھی اپنے سے کمتر سمجھا اور ہمیشہ اپنی طرح بشر ہی کہتا رہا ہے۔ تکبر و غرور کی وجہ سے مسلمانوں کی تمام تر عبادت و ریاضت سب برباد ہو جاتا ہے ۔ آپ نے سونا ہوگا ابلیس کتنے بڑے عابد و زاہد تھا لیکن حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنے سے حقیر جانا۔ اور اللہ کا فرمان ماننے سے انکار کر دیا ۔ جس کی وجہ سے اللہ نے اسے مردود کر کے جنّت سے باہر کر دیا۔ اور اس کے تمام عمال برباد ہو گیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح بہت سے اسباب ایسے ہیں جن سے بندے کو اللہ پاک کی رحمت و مغفرت حاصل ہو تی ہے اسی طرح بہت سے اسباب ایسے بھی ہیں جن سے بندہ اللہ پاک کے شدید اور دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے ،ان میں سے ایک سبب تکبر بھی ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ کی رحمت سے محروم اور عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23) تفسیر صراط الجنان میں ہے : یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک ان کے دلوں کے انکار اور ان کے غرور و تکبر کو جانتا ہے، بے شک اللہ پاک مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: 23، 5 / 24)

تکبر کی تعریف: یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مومن ہو یا کافر، اللہ پاک اسے پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص60، حدیث: 147(

تکبر کرنے والوں کا انجام:قرآن و حدیث میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ ترجمعہ ٔ کنزالایمان :اور میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑائی چاہتے ہیں ۔(پ9 ، الاعراف: 146) اور ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر ۔(پ24، المؤمن:60)

اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے ، رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن مردوں کی صورت میں چیونٹیوں کی طرح جمع کیے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے بُوْلَس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں طِیْنَۃُ الْخَبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی ( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/221، حدیث: 2500)

حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کوروندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، 2/ 578، حدیث: 224)

حضرت محمد بن واسع رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :میں حضرت بلال بن ابو بردہ رضی اللہُ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا :اے بلال ! آپ کے والد نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی ہے وہ اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ) سے اور وہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب کہتے ہیں ، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔ اے بلال! تم اس میں ٹھہرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری، 6 / 207، حدیث: 7213)

تکبر کی بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی جب تکبر کا شکار ہوتا ہے تو نصیحت قبول کرنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے ،چنانچہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ منافق کے بارے میں فرمایا گیا: وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ(۲۰۶) ترجمۂ کنزالعرفان: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔(پ2،البقرۃ:206)

امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : تکبر کی تین قسمیں ہیں: (1)وہ تکبر جو اللہ پاک کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللہ پاک کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔(2)وہ تکبر جو اللہ پاک کے رسول کے مقابلے میں ہو ،جس طرح کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے ،ہماری ہدایت کے لئے اللہ پاک نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔(3)وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے ،حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، 2 / 707)

تکبر کی تینوں اقسام کا حکم: اللہ پاک اور اس کے رسول کی جناب میں تکبر کرنا کفر ہے جبکہ عام بندوں پر تکبر کرنا کفر نہیں لیکن اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔

تکبر کا ثمرہ اور انجام:اس آیت میں نا حق تکبر کا ثمرہ اور تکبر کرنے والوں کا جو انجام بیان ہوا کہ ناحق تکبر کرنے والے اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں تو بھی وہ ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو وہ اسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنا لیتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ غرور وہ آگ ہے جو دل کی تمام قابلیتوں کو جلا کر برباد کر دیتی ہے خصوصاً جبکہ اللہ پاک کے مقبولوں کے مقابلے میں تکبر ہو۔ اللہ پاک کی پناہ۔ قرآن و حدیث سے ہر کوئی ہدایت نہیں لے سکتا، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ بہت سے لوگوں کو اس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔(پ1،البقرۃ:26)

اللہ پاک سے تکبر کرنا۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر ۔(پ24، المؤمن:60)

اترا کر چلنے والے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ(۱۸) ترجمۂ کنز الایمان: اور کسی سے بات کرنے میں اپنا رخسارہ کج نہ کر اور زمین میں اِتراتا نہ چل بےشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اِتراتا فخر کرتا(پ21،لقمٰن:18)

آیت میں اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا گیا ،اس مناسبت سے یہاں اکڑ کر چلنے کی مذمت پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اکڑکر چلتا ہے،وہ اللہ پاک سے اس طرح ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما، 2 / 461، حدیث: 6002) (2)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جب میری امت اکڑ کر چلنے لگے گی اور ایران و روم کے بادشاہوں کے بیٹے ان کی خدمت کرنے لگیں گے تو اس وقت شریر لوگ اچھے لوگوں پر مُسَلَّط کر دئیے جائیں گے۔( ترمذی، کتاب الفتن، 4 / 115، حدیث: 2268)

اسی آیت سے معلوم ہو اکہ مال و دولت کی کثرت فخر ،غرور اور تکبر میں مبتلا ہونے کاایک سبب ہے۔امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ تکبر کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تکبر کا پانچواں سبب مال ہے اور یہ بادشاہوں کے درمیان ان کے خزانوں اور تاجروں کے درمیان ان کے سامان کے سلسلے میں ہوتا ہے، اسی طرح دیہاتیوں میں زمین اور آرائش والوں میں لباس اور سواری میں ہوتا ہے۔ مالدار آدمی، فقیر کو حقیر سمجھتا اور اس پر تکبر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو مسکین اور فقیر ہے، اگر میں چاہوں تو تیرے جیسے لوگو ں کو خریدلوں ، میں تو تم سے اچھے لوگوں سے خدمت لیتا ہوں ، تو کون ہے؟ اور تیرے ساتھ کیا ہے؟ میرے گھر کا سامان تیرے تمام مال سے بڑھ کر ہے اور میں تو ایک دن میں اتنا خرچ کردیتا ہوں جتنا تو سال بھر میں نہیں کھاتا۔

وہ یہ تمام باتیں اس لیے کرتا ہے کہ مالدارہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے جب کہ اس شخص کو فقر کی وجہ سے حقیر جانتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ فقر کی فضیلت اور مالداری کے فتنے سے بے خبر ہوتا ہے۔ الله تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا اور وہ اس سے فخر و غرور کی باتیں کرتا رہتا تھا۔ (اس سے کہا) میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور افراد کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوں ۔(پ15،الکھف:34)

حتّٰی کہ دوسرے نے جواب دیا:اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ(۳۹)فَعَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جنّتكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًاۙ(۴۰)اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًاترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تو مجھے اپنے مقابلے میں مال اور اولاد میں کم دیکھ رہا ہے۔ تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں گرادے تو وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے۔ یا اس باغ کا پانی زمین میں دھنس جائے پھر تو اسے ہرگز تلاش نہ کرسکے۔(پ15،الکھف:39 تا 41)

تو اس پہلے شخص کا قول مال اور اولاد کے ذریعے تکبر کے طور پر تھا، پھر الله پاک نے اس کے انجام کا یوں ذکر فرمایا:یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے کاش!میں نے اپنے رب کےساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔( پ15،الکھف:42) قارون کا تکبر بھی اسی انداز کا تھا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبر، 3 / 432)

تکبر کے دو علاج: تکبر کے برے انجام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا خطرناک باطنی مرض ہے ،اس لئے جو اپنے اندر تکبر کا مرض پائے اسے چاہئے کہ وہ اس کا علاج کرنے کی خوب کوشش کرے ،اَحادیث میں تکبر کے جو علاج بیان کئے گئے ان میں سے دو علاج درج ذیل ہیں ۔

(1)اپنے کام خود کرنا: چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس نے اپنا سامان خود اٹھایا وہ تکبر سے بری ہو گیا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی التواضع، 6 / 292، حدیث: 8201)

(2) عاجزی اختیار کرنا اور مسکین کے ساتھ بیٹھنا: چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو، اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہارا مرتبہ بلند ہو جائے گا اور تکبر سے بھی بری ہو جاؤ گے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، 2 / 49، حدیث: 5722، الجزء الثالث)

مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر کا علاج:امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (مال و دولت،پیرو کاروں اور مددگاروں کی کثرت کی وجہ سے تکبر کرنا) تکبر کی سب سے بری قسم ہے ،کیونکہ مال پر تکبر کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنے گھوڑے اور مکان پر تکبر کرتا ہے اب اگر اس کا گھوڑا مرجائے یا مکان گرجائے تو وہ ذلیل و رُسوا ہوتاہے اور جو شخص بادشاہوں کی طرف سے اختیارات پانے پر تکبر کرتاہے اپنی کسی ذاتی صفت پر نہیں ، تو وہ اپنا معاملہ ایسے دل پر رکھتا ہے جو ہنڈیا سے بھی زیادہ جوش مارتا ہے، اب اگر اس سلسلے میں کچھ تبدیلی آجائے تو وہ مخلوق میں سے سب سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو خارجی اُمور کی وجہ سے تکبر کرتاہے اس کی جہالت ظاہر ہے کیونکہ مالداری پر تکبر کرنے والا آدمی اگر غور کرے تو دیکھے گا کہ کئی یہودی مال و دولت اور حسن وجمال میں اس سے بڑھے ہوئے ہیں ، تو ایسے شرف پر افسوس ہے جس میں یہودی تم سے سبقت لے جائیں اور ایسے شرف پر بھی افسوس ہے جسے چور ایک لمحے میں لے جائیں اور اس کے بعد وہ شخص ذلیل اور مُفلِس ہوجائے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان الطریق فی معالجۃ الکبر واکتساب التواضع لہ، 3 / 444)

اللہ پاک سب مسلمانوں کو مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

تکبر اور عاجزی سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے لئے کتاب ’’احیاء العلوم (مترجم)‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) جلد تین سے تکبر کا بیان ،اور کتاب ’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔


گناہ عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں: ظاہری یا باطنی اور ان میں سے باطنی گناہ زیادہ ہلاک کن ہے۔ کیونکہ آدمی عموماً ظاہری گناہ کو تو جان لیتا ہے لیکن باطنی بیماری کو محسوس بھی نہیں کرتا لہذا ہمارے لیے ان گناہوں کی معلومات ضروری ہے تاکہ ہم ان سے بچ سکیں۔ ویسے تو باطنی گناہ بہت سے ہیں مگر ان میں سے تکبر بہت ہلاک کن ہے آئیے پہلے تکبر کو جاننے کے لیے پہلے اس کی تعریف ملاحظہ کیجیے پھر اس کی مذمت میں احادیث کا مطالعہ کیجیے تاکہ ہم اس باطنی گناہ سے بچنے میں کامیاب ہو سکیں۔

تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) جس کے دل میں تکبر ہو اسے متکبر کہتے ہیں۔

(1) بد ترین شخص: حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ ہم دافِعِ رنج و مَلال، صاحِب ِجُودو نَوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بَوسیدہ لباس پہننے والا شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)

(2) شَہَنْشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عبر ت نشان ہے : اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں )اوراِتراکرچلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)

(3) قیامت میں رُسوائی: سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آجائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(4)جنّت میں داخلہ نہ ہو سکے گا: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)

(5) خِنزیر سے بدتر: فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جواللہ پاک کے لئے عاجِزی اختیار کرے،اللہ پاک اس ے بُلندی عطا فرمائے گا، وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوگااور جو تکبر کرے اللہ پاک اس ے ذلیل کر دے گا، وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خُود کو بڑا سمجھتاہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کُتّے اور خِنزِیر سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔(کنزالعمال کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال، 2/50، حدیث:5734)


اللہ پاک نے ہمیں پیدا فرمایا کہ ہم اس کی عبادت کریں اس کی اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فرمانبرداری کریں، نیکیوں کو بجا لائیں، ظاہری اور باطنی گناہوں سے اجتناب کریں ۔جس طرح ظاہری گناہ ہوتے ہیں اسی طرح گناہ باطِنی بھی ہوتے ہیں جیسے حسد، ریاکاری،بغض و کینہ۔ انہیں میں سے ایک تکبر بھی ہے۔ خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔(تکبر،ص16) اللہ پاک نے قراٰن مجید فرقانِ حمید کے اندر ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمۂ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23) حدیثوں میں بھی تکبر کی کافی مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ تکبر کی مذمت پر پانچ احادیث گوش گزار ہیں:۔

(1) مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''مگر تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کی تحقیر کا نام ہے۔ (المستدرک ،کتاب الایمان، باب اللہ جمیل و یحب الجمال،1/181،حدیث:77)

(2) مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ،حدیث:5455،ص1051)

(3) حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے :جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا اور جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب تحریم الکبروبیانہ،حدیث:266،ص694)

(4) نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''آدمی تکبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبار ین میں لکھ دیا جاتاہے پھر اسے بھی وہی مصیبت پہنچتی ہے جو دوسرے جبارین کو پہنچی تھی۔(جامع الترمذی،ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الکبر،حدیث: 2000، ص 1852،بدون''یتکبر'')

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :اللہ عزوجل تکبر سے اپنا تہبند لٹکانے والے پر نظرِ رحمت نہیں فرماتا۔(صحیح مسلم،کتاب اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ، ص 1051، حدیث:5463)


اللہ پاک نے ہم کو پیدا فرمایا اور ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کرجہانِ آخِرت کے سفر پر روانہ ہوجانا ہے ۔اس سفر کے دوران ہمیں قبروحشر اور پُلْ صِراط کے نازُک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا ۔ کامیابی اللہ پاک کی اطاعت ، نیکیوں کو بجا لانے اور گناہوں سے بچنے میں ہے ۔جس طرح کچھ گناہ ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اور اسی طرح کچھ گناہ باطِنی بھی ہوتے ہیں جیسے حسد، ریاکاری۔ اسی باطنی گناہوں میں سے تکبر بھی ہے۔ خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) اور تکبر کی مذمت پر قراٰن پاک میں ارشاد ہوتا ہے : اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمۂ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (پ14،النحل:23) حدیثوں میں بھی تکبر کی کافی مذمت فرمائی گئی ہے۔ اس میں سے پانچ حدیثیں گوش گذار ہیں:۔

(1)حضرت حذیفہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے سیّد المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدتریں بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بداخلاق اور متکبر ہیں۔(مسند امام احمد،9/120،حدیث:23517)

(2) حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(3) تاجدارِ رسالت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : متکبر اور برائی چاہنے والا جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(سنن ابی داؤد،ص1076،حدیث:4801)

(4) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147)

(5)امُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ سرورِ عالم نورِ مجسّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ! عاجزی اپناؤ کہ اللہ پاک عاجزی کرنے والوں سے محبّت اور تکبر کرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔(کنزالعمال،2/50،حدیث:5731)

اللہ پاک ہمیں عاجزی اپنانے اور تکبر جیسی مذموم وصف سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں )اوراِتراکرچلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)

آئیے تکبر کے تعلق سے پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں:۔

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(2) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لئے کھڑے رہیں، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(جامع ترمذی،4/347، حدیث: 2764)

(3) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: موسیٰ کے زمانے میں دو آدمیوں نے باہم فخر کیا، ان میں سے ایک(جوکہ کافر تھا)نے کہا ''میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں''اس طرح وہ نو پشتیں شمار کر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علی نبیِّنا و علیہ الصلوۃ و السلام کی طرف وحی بھیجی کہ ''اس سے فرما دیجئے کہ وہ نو کی نو پشتیں(کفر کی وجہ سے)جہنّم میں جائیں گی اور تم ان کے ساتھ دسویں ہو گے۔'' (المعجم الکبیر،20/140،حدیث:285 ،ملخصًا)

(4) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں )اوراِتراکرچلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3 /210، حدیث : 7727)

(5)آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہیں فرمائے گا ۔(تکبر،ص24)

نوٹ: مزید معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ "تکبر" کا مطالعہ بےحد مفید ہے۔


تکبر ایسی ہلاکت خیز باطنی بیماری ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کئی بُرائیوں کو لاتی ہے اور اچھائیوں سے محروم کردیتی ہے ، چُنانچِہ امام محمد بن محمد غزالی  رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : متکبر شخص جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے اپنے مسلمان بھائی کے لئے پسند نہیں کرسکتا ، ایسا شخص عاجزی پر بھی قادر نہیں ہوتا جو تقویٰ و پرہیزگاری کی جَڑ ہے ، کینہ بھی نہیں چھوڑ سکتا ، اپنی عزت بچانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ، اس جھوٹی عزت کی وجہ سے غصہ نہیں چھوڑ سکتا ، حسد سے نہیں بچ سکتا ، کسی کی خیرخواہی نہیں کرسکتا ، دوسروں کی نصیحت قبول کرنے سے محروم رہتا ہے ، لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے الغرض متکبر آدمی اپنا بھرم رکھنے کے لئے ہر بُرائی کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔ (احیاء العلوم ، 3 / 423 ملخصاً)

تکبر کی ابتدا:سب سے پہلے تکبر شیطان نے کیا۔ اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی پیدائش کے بعد تمام فرشتوں اور اِبلیس (شیطان)کوحکم دیا کہ اِن کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے حکمِ خداوندی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔مگر اِبلیس نے انکار کردیا۔ جب اس کے اِنکار کا سبب دریافت فرمایا تو اَکڑ کر کہنے لگا : قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُؕ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۷۶) ترجمہ کنزالایمان: میں اِس سے بہتر ہوں کہ تُو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ۔(پ23 ،سورہ صٓ:76) اِس سے اِبلیس کی فاسِد مُراد یہ تھی کہ اگر حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السّلام آگ سے پیدا کئے جاتے اور میرے برابر بھی ہوتے جب بھی میں انہیں سجدہ نہ کرتا چہ جائیکہ ان سے بہتر ہوکر اِن کو سجدہ کروں (معاذ اللہ عزوجل)۔ اِبلیس کی اِس سرکشی، نافرمانی اور تکبر پر اس کی حسین صورت ختم ہوگئی اور وہ بدشکل رُوسیاہ ہوگیا ،اس کی نُورانیت سَلْب کر لی گئی ۔(تفسیر خزائن العرفان،ص824ملخصاً)

اللہ ربُّ العزت نے اِبلیس کو اپنی بارگاہ سے دُھتکارتے ہوئے اِرشاد فرمایا : قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان : فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک ۔(پ23 ، صٓ : 77، 78) تکبر واقعی بہت بری صفت ہے جو بند کو کہی کا نہیں چھوڑتی۔

تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61)

اب آئیے موضوع کی مناسبت سے تکبر کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٰ پڑھتے ہیں:۔

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :ایک شخص اپنی چادر اوڑھے اکڑ کے چل رہا تھا اور اسے اپنا آپ بڑا پسند آیا اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔( 2… مسلم، کتاب اللباس، باب جرالثوب خیلا ...الخ ، ص 1155، حدیث :2085)

(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک دن اپنا لُعابِ دَہَن اپنی مبارک ہتھیلی پر ڈالا پھر اس پر اپنی انگلی رکھ کر ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:اے ابْنِ آدم! کیا تو مجھے عاجز کرے گا؟ حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز (یعنی نطفے)سے پیدا فرمایا ہے، جب میں نے تجھے تندرست پیدا کیا تو تُو دو چادروں میں(اکڑ کر)زمین کو روندھتے ہوئے چلنے لگا، تونے مال جمع کیا اور خَرْچ کرنے سے باز رہا پھر جب رُوح حلق تک پہنچی تو کہنے لگا:میں صدقہ کرتا ہوں۔ صدقہ دینے کا یہ کون سا وقت ہے؟ (سنن ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب النھی عن الامساک...الخ ،3/ 307، حدیث :2707)

(3)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا جو تم میں سے اَخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دُور وہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے ، لوگوں کا مذاق اُڑانے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں ۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اورلوگوں کا مذاق اُڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ مُتَفَیْہِق کون ہیں ؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : اِس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ ،3/410، حدیث : 2025)

نہ اُٹھ سکے گا قیامت تلک خدا عزوجل کی قسم

کہ جس کو تُو نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا

(4) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)

(5) حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : جو اللہ عزوجل کے لئے عاجزی اختیار کرے اللہ عزوجل اسے بلندی عطا فرمائے گا، پس وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہو گا اور جو تکبرکرے اللہ عزوجل اسے ذلیل کر دے گا، پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہو گامگرخودکو بڑا سمجھتاہو گا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہو جاتاہے۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال، 3/50،حدیث:5734)

غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سربلندی کی چوٹی پر پہنچایا ہے، ہاں ! ذلّت کی پستیوں میں ضرور گرایا ہے۔

حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ایک امیر کو متکبرا نہ چال چلتے ہوئے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ اے احمق!تکبر سے اِتراتے ہوئے ناک چڑھا کر کہا ں دیکھ رہا ہے ؟ کیا ان نعمتوں کو دیکھ رہا ہے جن کا شکر ادا نہیں کیا گیا یاان نعمتوں کو دیکھ رہا ہے کہ جن کا تذکرہ اللہ پاک کے احکام میں نہیں۔ جب اس نے یہ بات سنی تو عذر پیش کرنے حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :مجھ سے معذرت نہ کربلکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کر کیا تم نے اللہ عزوجل کا یہ فرمان نہیں سنا:﴿وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷)ترجمۂ کنز الایمان: اور زمین میں اتراتا نہ چل بے شک ہرگز زمین نہ چیر ڈالے گا اور ہر گز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا۔(پ15، بنی اسرائیل:37)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تکبر و غرور سے بچائے اور عاجزی و انکساری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے ایک    تکبر بھی ہے جس کا عِلم سیکھنا فرض ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں : مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ(یعنی باطنی ممنوعات) مَثَلاً تکبر و رِیا وعُجب وحَسَد وغیرہا اور اُن کے مُعَالَجَات(یعنی عِلاج) کہ ان کا عِلم (یعنی جاننا)بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے ۔(فتاوٰی رضویہ مخرجہ، 23/624)

آیئے سب سے پہلے تکبر کی تعریف جانتے ہیں کہ تکبر کسے کہتے ہیں؟

تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61)

اِمام راغب اِصفہانی علیہ رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ذٰلِکَ اَن یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہ، اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔(المُفرَدات للرّاغب ص697) جس کے دل میں تکبر پایا جائے اس ے ''مُتَکَبِّر ''کہتے ہیں۔

(1) شہنشاہ خوش خصال، پیکر حسن و جمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں) اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)

(2) بد ترین شخص: حضرت حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ ہم دافِعِ رنج و مَلال، صاحِب ِجُودو نَوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بَوسیدہ لباس پہننے والا شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)

(3) قیامت میں رُسوائی: دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(4)خنزیر سے بدتر: نبیِ مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعَظّم ہے : جو اللہ پاک کے لئے عاجِزی اختیار کرے،اللہ پاک اس ے بُلندی عطا فرمائے گا، وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوگااور جو تکبر کرے اللہ پاک اس ے ذلیل کر دے گا، وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خُود کو بڑا سمجھتاہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کُتّے اور خِنزِیر سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ (کنزالعمال کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال، ج ٣، ص٥٠، الحدیث ٥٧٣٤)

(5)جنّت میں داخل نہ ہو سکے گا: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)


تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔

وضاحت: اِمام راغب اِصفہانی علیہ رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ذٰلِکَ اَن یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہ، اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔(المُفرَدات للرّاغب ص697) جس کے دل میں تکبر پایا جائے اس ے ''مُتَکَبِّر ''کہتے ہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات)

(1) متکبرین کے لئےقیامت میں رُسوائی: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(2)اللہ کا ناپسندیدہ بندہ: اللہ پاک متکبرین(یعنی تکبر کرنے والے)اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتاہے۔(کنزالعمال،3/210،حدیث:7727)

(3) مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا متکبر کے لئے اظہارِ نفرت: سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا جو تم میں سے اَخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دُوروہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے ، لوگوں کا مذاق اُڑانے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں ۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اورلوگوں کا مذاق اُڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ مُتَفَیْہِق کون ہیں ؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : اِس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ ،3/410، حدیث : 2025)

(4) بد ترین شخص: حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ ہم سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بَوسیدہ لباس پہننے والا شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)

(5)اللہ کی نظرِ رحمت سے محرومی: سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب من جرثوبہ، من الخیلاء، 4/46،حدیث: 5788)

اللہ کریم ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہم سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گذار کر جہانِ آخرت کے سفر پر روانہ ہو جانا ہے۔ اس سفر کے دوران ہمیں قبر و حشر اور پُل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا۔ اس کے بعد جنّت یا دوزخ ٹھکانا ہوگا۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دارِ آخرت کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح بعض نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے نماز اور کچھ باطنی مثلاً اخلاص۔ اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں۔ جیسے قتل اور باطنی جیسے تکبر وغیرہ۔ آیئے آج ہم تکبر کے موضوع پر کچھ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں۔

تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔

(1) صاحب مدینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147)

(2) شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگارعزوجل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :ظالم اور متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، لوگ انہیں اللہ عزوجل کے معاملے کو ہلکا جاننے کی وجہ سے اپنے قدموں تلے روندتے ہوں گے۔ (تخریج احادیث الاحیاء)

(3) حضرت محمد بن واسع رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ میں بلال بن ابی بردہ کے ہاں گیا اور ان سے کہا کہ تمہارے والد نے مجھے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یہ حدیث سنائی تھی کہ جہنم میں ایک وادی ہے جس کانام’’ ہَبْہَب ‘‘ہے، اللہ پاک اس وادی میں ہر متکبر کو داخل کرے گا، اے بلال! خیال رکھنا کہیں اس وادی کے رہنے والوں میں سے نہ ہوجانا۔(تاریخ مدینہ دمشق ،10/517)

(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ جہنم سے ایک گردن نکلے گی جس کے دو کان، دو آنکھیں اور قوتِ گویائی رکھنے والی زبان ہوگی، وہ کہے گی کہ مجھے تین شخصوں پر مقرر کیا گیا ہے، ہر سرکش متکبر کے لئے ،اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے کے لئے اور تصویریں بنانے والے کے لئے۔(ترمذی ، کتاب صفۃ جہنم، باب ماجاء فی صفۃ النار، 4/259، حدیث:2583)

(5) فرمانِ نبوی ہے: ہمیں سب سے زیادہ محبوب ہمارا سب سے زیادہ مقرب قیامت میں وہ شخص ہوگا جو تم میں سے بہترین اخلاق کامالک ہے اور قیامت کے دن ہمیں سب سے زیادہ ناپسند اور ہم سے سب سے زیادہ دور، لوگوں کا مضحکہ اڑانے والے، بیہودہ گو اورمنہ بھر بھر کر باتیں کرنے والے ہوں گے پوچھا گیا: حضور! یہ کون ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: متکبر ہوں گے۔(تاریخ مدینہ دمشق، 37/397)


محمد جمیل الرحمٰن(درجہ ثالثہ، جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم  سادھوکی لاہور، پاکستان)

Wed, 17 Aug , 2022
2 years ago

جس طرح ظاہری بیماریاں ہوتی ہیں اسی طرح باطنی بیماریاں بھی ہوتی ہے۔ جو بہت خطرناک اور ہلاک کرنے والی ہیں اور انسان کو عذاب نار تک لے جاتی ہیں اور بہت زیادہ مذموم ہیں۔ یہ بیماریاں بھی بہت زیادہ  ہیں جن میں سے ہم ایک بیماری جو باطن سے تعلق رکھتی ہے یعنی تکبر۔ اس کے بارے میں بحث کرتے ہیں:۔

تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ، ص 61،حدیث 147 )

اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)

حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک شخص اپنا پسندیدہ حلہ یعنی لباس پہنے، کنگھاکرکے اِتراتا ہوا چل رہا تھا کہ اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا، اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا رہے گا۔(صحیح البخاری ،کتاب اللباس، باب من جر ثوبہ،۔۔۔۔۔۔الخ،ص 494،حدیث:5789)

حضور صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :تم سے پچھلی اُمتوں میں سے ایک شخص تکبر سے اپنا تہبند گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔(سنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب التغلیط فی جرّالازار،ص 2428، حدیث:5328)

حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :ایک شخص سرخ جوڑا پہنے اس پر اِترا رہا تھا کہ اللہ عزوجل نے اسے زمین میں دھنسا دیا، اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔(الترغیب والترہیب،کتاب الادب،الترغیب فی التواضع، 3/440،حدیث:4481)

آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :اللہ پاک تکبر سے اپنا تہبند لٹکانے والے پر نظرِ رحمت نہیں فرماتا۔(صحیح مسلم،کتاب اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ، ص 1051،حدیث:5463)

محبوبِ رب العزت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ،ص 1051،حدیث:5455)

تکبر کے اسباب:(1) علم (2)عبادت و ریاضت (3)مال و دولت (4) حسب و نسب (5)عہدہ و منصب (6) کامیابی و کامرانی وغیرہ۔ یہ تمام ایسی چیزیں ہے جن کی وجہ سے انسان تکبر کا شکار ہوتا ہے۔ اور پھر انسان ہر کام میں خود کو دوسروں سے افضل تصور کرتا ہے جو کہ بہت مذموم عمل ہے، لہٰذا ہر کسی کو اس برے عمل سے بچنا چاہیئے کیونکہ یہ انسان کو بہت سے نیک اعمال سے دور کر دیتا ہے۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو تکبر جیسی بری بیماری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حدیث میں ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) اور مزید تکبر کی بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی جب تکبر کا شکار ہوتا ہے ، تو نصیحت قبول کرنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔

گناہوں سے مجھ کو بچا یا الہٰی بُری خصلتیں بھی چُھڑا یاالہٰی

(وسائل بخشش)

تکبر نے ابلیس مردود کے دل میں حسد کی آگ بھڑکائی اور اس کی تمام عبادت برباد کرکے رکھ دیئے۔ یاد رکھیئے اللہ پاک اور اس کے رسول کی جناب میں تکبر کرنا کفر ہے جبکہ عام بندوں پر تکبر کرنا کفر نہیں لیکن اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا :میں نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا، آپ فرماتے تھے: فخر اور تکبر اونٹ اور گھوڑے رکھنے والوں میں اور عاجزی بکریاں رکھنے والوں میں ہے۔(صحیح مسلم)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147)

آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اسے جبّار (سرکش) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی عذاب پہنچتا ہے جو ان کو پہنچا ہے۔ (احیاء العلوم)

حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیہ السّلام نے فرمایا: اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جسے اللہ پاک نے کتاب کا علم دیا اور وہ سرکش (متکبر) ہوکر نہیں مرا۔ (احیاء العلوم)

پیارے اسلامی بھائیو ! یقیناً وہ شخص بہت خوش نصیب ہے جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ با عمل اور اخلاص کا پیکر ہو۔

میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو

ہو اخلاص ایسا عطا یا الہٰی (وسائل بخشش)


محمد اریب (درجہ رابعہ،جامعۃ المدینہ فیضان کنز الایمان کراچی،پاکستان)

Wed, 17 Aug , 2022
2 years ago

تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ جس کے دل میں تکبر ہو اسے متکبر کہتے ہیں۔

انسان کی پیدائش بدبودار نُطفے(یعنی گندے قطرے)سے ہوتی ہے انجامِ کار سڑا ہوا مُردہ ہے اور اس قدر بے بس ہے کہ اپنی بھوک ،پیاس، نیند، خوشی ،غم ،یاداشت،بیماری یا موت پر اسے کچھ اختیار نہیں ،اِس لئے اسے چاہے کہ اپنی اصلیّت ، حیثیت اور اوقات کو کبھی فراموش نہ کرے، وہ اس دنیا میں ترقّیوں کی منزلیں طے کرتا ہوا کتنے ہی بڑے مقام ومرتبے پر کیوں نہ پہنچ جائے ، خالقِ کون و مکاں کے سامنے اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے، صاحبِ عقل انسان تواضع اور عاجزی کا چلن اختیار کرتا ہے اور یہی چلن اس کو دنیا میں بڑائی عطا کرتا ہے ورنہ اس دنیا میں جب بھی کسی انسان نے فِرعونیت ، قارونیت اورنَمرودیت والی راہ پکڑی ہے بسا اوقات اللہ پاک نے اسے دنیا ہی میں ایساذلیل وخوار کیا ہے کہ اس کا نام مقامِ تعریف میں نہیں بطورِ مذمت لیا جاتا ہے ۔ لہٰذاعقل و فہم کا تقاضہ یہ ہے کہ اِس دنیا میں اونچی پرواز کے لئے انسان جیتے جی پیوندِ زمین ہوجائے اور عاجزی و اِنکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے پھر دیکھئے کہ اللہ ربُّ العزت اس کو کس طرح عزت وعظمت سے نوازتاہے ا ور اس ے دنیا میں محبوبیت اور مقبولیت کا وہ اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے جو اس کے فضل و کرم کے بغیر مل جانا ممکن ہی نہیں ہے۔

تکبر کی مذمت پر چند احادیث جائیں گی جن کا بغور مطالعہ کرنے اور سمجھنے کی مدنی التجا ہے۔

(1)جنّت میں داخل نہ ہوگا: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔

(2) اللہ کلام نہ کرے گا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :تین شخص ہے جن سے قیامت کے دن اللہ کلام نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ایک روایت میں ہے کہ نہ ان کی طرف نظر کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (1) بوڑھا زانی (2) جھوٹا بادشاہ (3)متکبر فقیر ۔

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حکومت والوں، مال والوں کے پاس تکبر کے اسباب ہوتے ہیں۔ اگر فقیر غرور کرے تو محض دلی خباثت کی وجہ سے ہی کرے گا۔ اس لئے اس کا تکبر بدترین جرم ہے۔

(3) بڑائی اللہ کی چادر ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو ان دونوں میں سے ایک مجھ سے چھننا چاہے گا میں اسے آگ میں داخل کروں گا۔

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: چادر اور تہبند فرمانا ہم کو سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر، ایک تہ بند دو آدمی نہیں پہن سکتے یوں ہی عظمت وکبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔

(4)متکبر کتّے سے زیادہ ذلیل: حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایااے لوگو! تواضع ( یعنی عاجزی و انکساری) اختیار کرو میں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جو خد اکی رضا حاصل کرنے کے لیے تواضع کرتا ہے خدائے پاک اسے بلند فرماتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نظر میں وہ بڑا سمجھا جاتا ہے ۔ اورجو گھمنڈ کرتا ہے اللہ پاک اسے پست کر دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار رہتا ہے اور اپنے تئیں اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے حالانکہ انجام کار ایک دن وہ لوگوں کی نگاہ میں کتے اور سور سے بھی بدتر ہوجاتا ہے ۔

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مؤمنوں کی نگاہ میں ذِلّت مردودیت کی دلیل ہے۔

(5) تکبر سخت تر مہلک چیز : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ وہ نفسانی خواہش ہے جسکی پیروی کی جائے اور وہ بخل ہے جس کی اطاعت ہو اور انسان کو اپنے کو اچھا جاننا۔ یہ ان سب میں سخت تر ہے۔

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: (تکبر سب میں سخت تر ہے۔) کیونکہ ہر عیب سے پاک ہونا، ہر خوبی سے موصوف ہونا اللہ کی صفت ہے، جو اپنے کو ایسا سمجھے وہ اپنے کو خدا کا ہمسر سمجھتا ہے۔

تکبر کی علامات اور علاج کے بارے میں جاننے کے لئے "تکبر" نامی کتاب بہت مفید رہے گی۔ اللہ ہمیں تکبر کے بارے میں جاننے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم