خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61

تکبر ایک باطنی گناہ ہے۔ یہ انسان کی دنیا و آخرت کو برباد کر دیتا ہے۔ اسی تکبر کی وجہ سے ابلیس (جو کہ ہزاروں سال عبادت کر کے معلّم الملائکہ یعنی فرشتوں کا استاد بن گیا تھا) بھی تباہ و برباد ہو گیا اور جہنم اس کا دائمی ٹھکانا قرار پایا۔ قراٰن و حدیث میں تکبر کی مذمت میں بہت کلام موجود ہے۔ انہیں میں سے آج ہم پانچ فرامین ِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں۔ چنانچہ

(1) اللہ پاک کا ناپسندیدہ بندہ: شَہَنْشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عبر ت نشان ہے : اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں )اوراِتراکرچلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)

(2)جنّت میں داخل نہ ہو سکے گا: تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا ( یعنی تھوڑ اسا ) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الایمان ،باب تحریم الکبر و بیانہ ، حدیث : 147 ، ص 60 )

(3) قیامت میں رُسوائی: سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(4) لوگوں کی نظروں میں ذلیل: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بڑائی (تکبر) کرتا ہے اللہ اس کو پست کرتا ہے، وہ لوگوں کی نظر میں ذلیل ہے اور اپنے نفس میں بڑا ہے، وہ لوگوں کے نزدیک کتے یا سوئر سے بھی زیادہ حقیر ہے۔( شعب الإیمان، باب في حسن الخلق، فصل في التواضع،6/ 276حدیث:8140)

(5)اللہ کی نظرِ رحمت سے محرومی: اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب من جرثوبہ، من الخیلاء، 4/42،حدیث: 5788)

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں تکبر جیسی مہلک باطنی بیماری سے بچائے اور عاجزی و انکساری کی لازوال دولت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جس طرح کچھ نیکیاں ظاہِری ہوتی ہیں جیسے نماز اورکچھ باطِنی مثلاً اِخلاص۔اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اوربعض باطِنی جیسے تکبُّر۔امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں:ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد، رِیا اور تکبُّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔ (منہاج العابدین،ص13 ملخصاً)

تکبر کی تعریف:تكبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات للراغب،ص421)تکبر کی اقسام اور احکام: (1)اللہ پاک کے مقابلے میں تکبر۔تکبر کی یہ قسم کفر ہے۔ (2)اللہ پاک کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر۔تکبر کی یہ قسم بھی کفر ہے۔ (3)بندوں کے مقابلے میں تکبر۔یعنی اللہ پاک اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی پر تکبر کرنا،اس طرح کہ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جان کر اس پر بڑائی چاہنا اور مساوات یعنی باہم برابری کو ناپسند کرنا۔ یہ صورت اگرچہ پہلی دو صورتوں سے کم تر ہے مگر یہ بھی حرام ہے۔ (احیاءالعلوم،3/425،424ماخوذاً)

احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے، 5 احادیث آپ بھی ملاحظہ کیجئے:

(1) متکبّرین کے لئے رُسوائی: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہرجانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ”بُولَس“ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں”طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ“پلائی جائے گی۔(ترمذی، 4/ 221،حدیث:2500)

(2) تکبر اللہ کی صفت: نبیِّ اکرم نورِمجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: کبریائی میری چادر ہے۔ لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔(مستدرك ،1/ 235، حدیث: 210) مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : کبر سے مراد ذاتی بڑائی ہے۔ چادر فرمانا ہم کو سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر دو آدمی نہیں پہن سکتے یوں ہی کبریائی سوائے میرے (یعنی اللہ کے)دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔(مراٰة المناجیح، 6/ 659 ملتقطاً)

(3) ٹخنے سے نیچے پاجامہ لٹکانا: رحمتِ الٰہی سے محروم ہونے والوں میں متکبر بھی شامل ہوگا،اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو تَکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اُس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔ (بخاری، 4/ 46، حدیث: 5788) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اِسبال(یعنی تہبند اور پائنچے وغیرہ ٹخنوں سے نیچے رکھنا) اگربراہِ عُجب وتکبر ہے (تو) حرام ورنہ مکروہ اور خلافِ اَولیٰ۔ (فتاوی رضویہ ،22/167 )

(4) جنت میں داخل نہ ہو سکے گا: تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی (یعنی تھوڑا سا بھی) تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔( مسلم، ص61، حدیث:266) حضرت علامہ علی قاریرحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ جنت میں کوئی داخل نہ ہوگا بلکہ تکبر اور ہر بری خصلت کے سبب عذاب بھگتنے کے ذریعےیااللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہو گا۔ (مرقاةالمفاتيح، 8/828، 829، تحت الحدیث: 5107 )

(5)رسولُ اللہ کی مجلس سے دور:فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دُوروہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اُڑانے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی : مُتَفَیْہِق کون ہیں؟ تو آپ علیہ السّلام نے اِرشاد فرمایا:اِس سے مراد ہر تَکَبُّر کرنے والا شخص ہے۔ (ترمذی،3/410،حدیث:2025)

میٹھےمیٹھےاِسلامی بھائیو!ذرا سوچئے کہ اِس تکبر کا کیا حاصل! محض لذّتِ نفس،وہ بھی چند لمحوں کے لئے!جبکہ اس کےنتیجے میں اللہ ورسول کی ناراضی، مخلوق کی بیزاری،میدانِ محشر میں ذلت ورُسوائی ،رب کی رحمت اور اِنعاماتِ جنت سے محرومی اور جہنم کا رہائشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے ! غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سربلندی کی چوٹی پر پہنچایا ہے، ہاں ! ذلّت کی پستیوں میں ضرور گرایا ہے۔

تکبر کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اگر تکبر، علم، عبادت و ریاضت، مال و دولت، حسب و نسب، عہدہ و منصب، کامیابی و کامرانی،حسن و جمال کی وجہ سے ہےتویہ سب نعمتیں تو اللہ پاک نے دی ہیں، اس پر تکبر کرنا کیسا ؟ اگر خدانخواستہ اس تکبر کی وجہ سے کل بروزِ قیامت رب کریم ناراض ہو گیا اور جہنم میں شدید آگ کا عذاب دیا گیا، تو اسے کیسے برداشت کریں گے؟

اللہ پاک دیگر باطنی امراض کے ساتھ ساتھ تکبر جیسے موذی مرض سے بھی بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


گناہوں کی دو قسمیں ہیں: 1۔ ظاہری،2۔ باطنی

ظاہری گناہوں کی بنسبت باطنی گناہوں سے بچنا انتہائی مشکل ہے۔ انہی باطنی گناہوں میں سے ”تکبر“بھی ایک کبیرہ گناہ ہے۔ جس انسان میں تکبر پایا جائے وہ دنیا و آخرت میں تباہ و برباد ہے۔

تکبر کیا ہے؟: خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننا تکبر کہلاتا ہے۔

تکبر کے نقصانات: تکبر کرنے والا حرام کا مرتکب ہے۔ تکبر کرنے والا اللہ پاک کو ناراض کرنے والا ہے۔ تکبر کرنے والے کو اللہ پاک پسند نہیں کرتا۔ تکبر کرنے والے پر نصیحت اثر نہیں کرتی۔

احادیث طیبہ:

آقائے دو جہاں ، نبی آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (1) جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہو وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔(صحیح مسلم ، حدیث :147 ، ص 60)

(2) بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال دو گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد،حدیث،4174)

(3) قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹی کی مانند اٹھایا جائے گا ، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی ، انہیں جہنم کے ”بَولس“نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آجائے گی ، انہیں جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی ، حدیث: 250 ، ص221)

(4) جو تکبر کرے اللہ پاک اسے ذلیل کردے گا ، پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خود کو بڑا سمجھتا ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کُتّے اور خِنزیر سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔(کنز العمال ، 3/50 ، حدیث: 5734)

(5) اللہ پاک متکبرین یعنی مغروروں اور اِترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔(کنز العمال ،3/210، حدیث : 7727)

تکبر سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ مگر کیسے؟ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باطنی مرض سے لازماً خود کو بچایا جائے، ورنہ ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ اس لیے جو اپنے اندر یہ مرض پائے تو اس کا فوراً علاج کرے۔

احادیثِ کریمہ میں جو تکبر کے علاج بیان کیے گئے ان میں سے دو علاج درج ذیل ہیں:(1) اپنے کام خود کرنا۔(2) عاجزی اختیار کرنا اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھنا۔ ان دو نسخوں پر عمل کیا جائے تو اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔

اللہ پک تمام مسلمانوں کو تکبر سے نجات عطا فرمائے۔ (اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )


تکبر : خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61 ( امام راغب اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ المفردات للراغب میں لکھتے ہیں:ذلک ان یّری الانسانُ نفسه اکبر من غیرہ یعنی کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات للراغب ص 697 (

تکبر کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا ( یعنی تھوڑا سا )بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ حدیث 147 ، ص 60 ) حضرت علامہ علی قاری رحمۃُ الله علیہ لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہوگا ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہوگا بلکہ تکبر اور ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہوکر جنّت میں داخل ہوگا ۔(مرقاة المفاتیح، کتاب الاداب باب الغضب والکبر ، 8 / 828 ، 829 (

(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ۔ بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے ۔ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا ۔ اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب البراءة من الکبر، 4 / 457 ،حدیث: 5174 (

(3)بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فلاں شخص کتنا بڑا متکبر ہے ۔ ارشاد فرمایا : کیا اس کے پیچھے موت نہیں ہے۔ (شعب الایمان باب فی حسن الخلق ،2 / 293 ،حدیث: 293 (

(4)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آخرت میں تم میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ محبوب اور میرے زیادہ قریب وہ ہوں گے ۔ جن کے اخلاق اچھے ہوں گے اور وہ لوگ مجھے زیادہ ناپسند اور مجھ سے زیادہ دور ہوں گے ، جو زیادہ بولنے والے ، منھ پھٹ اور متفیھقون ہوں گے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم زیادہ بولنے والے اور منھ پھٹ کو تو جانتے ہیں ۔ لیکن یہ متفیھقون کون ہیں ۔ ارشاد فرمایا تکبر کرنے والے۔(سنن الترمذی کتاب البر و الصلۃ باب ما جاء فی معالی الاخلاق ، 3 / 409 ،حدیث: 2025 (

(5)سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا ۔ اور اللہ پاک کے ہاں ان کی قدرو قیمت نہ ہونے کے سبب لوگ انہیں اپنے قدموں تلے روندتے ہوں گے ۔(موسوعۃ الاعلام ابن ابی الدنیا کتاب التواضح و الخمول ، 3 / 578 ،حدیث: 224 (

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! تکبر ایک بہت ہی خطرناک باطنی گناہ اس کی مذمت پر آپ نے فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو پڑھ ہی لئے ۔ اب اس گناہ کبیرہ سے خود بھی بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دینی ہے اللہ پاک ہمیں اس کبیرہ گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ    پاک نے حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد تمام فرشتوں اور شیطان کوحکم دیا کہ اِن کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے حکمِ خداوندی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔ فرشتوں میں سے سب سے پہلے سجدہ کرنے والے حضرتِ سیِّدُنا جبرائیل پھر حضرتِ سیِّدُنامیکائیل ، حضرتِ سیِّدُنا اِسرافیل پھر حضرتِ سیِّدُنا عِزرَائیل پھر دیگر مقرَّب فرشتے(علیہم السلام) تھے۔ مگر اِبلیس نے انکار کردیا اور تکبر کر کے کافِروں میں سے ہوگیا۔ جب اللہ پاک نے اِبلیس سے اس کے اِنکار کا سبب دریافت فرمایا تو تکبر کر کہنے لگا : اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجمہ کنزالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اس ے مٹی سے بنایا (پ8،الاعراف:12) اللہ ربُّ العزت نے اِبلیس کو اپنی بارگاہ سے دُھتکارتے ہوئے اِرشاد فرمایا : قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان : فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک ۔(پ23 ، صٓ : 77، 78)

جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے ایک تکبر بھی ہے جس کا عِلم سیکھنا فرض ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں : مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ(یعنی باطنی ممنوعات) مَثَلاً تکبر و رِیا وعُجب وحَسَد وغیرہا اور اُن کے مُعَالَجَات(یعنی عِلاج) کہ ان کا عِلم (یعنی جاننا)بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے ۔(فتاوٰی رضویہ مخرجہ، 23/624)

تکبر کسے کہتے ہیں ؟: خُود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔چنانچہ رسولِ اکرم نُورِ مجسّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نا م ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، حدیث : 91، ص61) اِمام راغب اِصفہانی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ذٰلِکَ اَن یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ۔یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المُفرَدات للرّاغب ص697) متکبر کا دل عاجزی جیسی نعمت سے محروم رہ جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے حالانکہ انسان کی اصل بھی مٹی اور آخر بھی مٹی ہے تو پھرتکبر کس بات پر کرنا ۔

5 فرامین مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1) بد ترین شخص: تکبر کرنے والے کو بدترین شخص قرار دیا گیا ہے چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بوسیدہ لباس پہننے والا شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)

(2)قیامت میں رُسوائی: تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت ورُسوائی کا سامنا ہوگا ، چنانچِہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)

(3) ٹخنے سے نیچے پاجامہ لٹکانا:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب من جرثوبہٗ من الخیلائ، 4 /46، حدیث: 5788)

اسی لیے ہمیں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت پر عمل کرنا چاہیے وہ یہ کہ ٹخنوں سے شلوار کو اونچا رکھے ۔امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ ایک مدنی مذاکرے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تم کس کس کو بتاؤں گے کہ میں تکبر کی وجہ سے شلوار کو نیچے نہیں کر رہا لہذا سنت پر عمل کرنا چاہیے ۔

(4)جنّت میں داخِل نہ ہوسکے گا: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، ص60، حدیث : 147) حضرتِ علّامہ مُلّا علی قاری علیہ رحمۃُ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتے گا یا اللہ پاک کے عَفْو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخِل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب الغضب والکبر، 8/828، 829)

(5) اپنا ٹھکانہ جہنَّم میں بنا لے:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لیے کھڑے رہیں ، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔(جامع الترمذي، کتاب الادب، 4/347،حدیث : 2764)

متکبر کو چاہیے کہ وہ شیطان کے انجام سے ہی عبرت حاصل کریں کہ بہت بڑا فرشتوں کا استاد ہونے کے باوجود تکبر کی وجہ سے کافر ہوا اور ان روایات سے سبق حاصل کرے اور تکبر کرنے سے رک جائیے ۔ اسی درخت کو پھل زیادہ لگتا جو جھکا رہتا ہے اسی طرح انسان کو چاہیے کہ عاجزی اختیار کرے اور رب کے ہاں خوف اور ڈر کرے تو آخرت میں جنّت میں ہمیشہ رہے ورنہ تکبر کرنے کی وجہ جہنم میں جائے گا۔ متکبر کو اپنی پیدائش کی حقیقت کی طرف نظر کرنی چاہیے کہ انسان کی حقیقت ایک گندا پانی ہے۔


اللہ پاک تکبر کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)یاد رہے! اپنے آپ کو دوسرے سے افضل سمجھنا تکبر ہے۔(المفردات ، ص439) مثلاً امیر کا غریب کو گھٹیا سمجھنا ، بڑے عُہدے والے کا چھوٹے عُہدے والے کو اپنے سے کم تَر جاننا وغیرہ ۔ تکبر حرام ہے اور عظیم کبیرہ گُنَاہ ہے ۔(فتاوی رضویہ ،23/614) جس کی مذمت پر کئی فرامین مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم وارد ہیں ، آئیے ان میں سے پانچ ملاحظہ کیجئے!

پہلی روایت: اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی اُمتوں میں سے ایک شخص تکبر سے اپنا تہبند گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔ (سنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب التغلیط فی جرّالازار،حدیث:5328،ص2428)

دوسری روایت: اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: اللہ کریم تکبر سے اپنا تہبند لٹکانے والے پر نظرِ رحمت نہیں فرماتا۔(صحیح مسلم،کتاب اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ، حدیث:2085،ص1051)

تیسری روایت: اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔ عرض کی گئی : آدمی تو یہ بات پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہو۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بے شک اللہ پاک جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب تحریم الکبروبیانہ، حدیث:266، ص 694)

چوتھی روایت: اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے :جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا اور جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہو گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب تحریم الکبروبیانہ،حدیث:266،ص694)

پانچویں روایت: نور کے پیکر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے :آدمی تکبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبارین میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی مصیبت پہنچتی ہے جو دوسرے جبارین کو پہنچی تھی۔(جامع الترمذی،ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الکبر،حدیث:2000،ص1852)

پیارے اسلامی بھائیو ! جس طرح تکبر کی مذمت بیان کی گئی یوں ہی اس سے بچنے کے فضائل بھی ہے ،آیئے ایک فضیلت سنئے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص تکبر، خِیانت اور دَین (یعنی قرض وغیرہ)سے بَری ہوکر مرے گا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب التشدید فی الدین،3/144 ، حدیث: 2412)

اللہ پاک کی بارگاہ عالیہ میں دعا ہے کہ ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور عاجزی والے آقا کا صدقہ عاجزی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تکبر کی تعریف ؟:تکبر یہ ایک ناپسند دیدہ عمل ہے ۔جو کہ بہت ہی بُڑا سمجھا جاتا ہے۔کہ تکبر اسے کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو بَڑا سمجھنا اور دوسروں کو اپنے آپ سے چھوٹا سمجھنایعنی حقیر سمجھنا۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک روایت میں ارشاد فرمایا کہ تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ اللہ پاک تکبر کو پسند نہیں فرماتا۔ چنانچہ تکبر کرنے والوں کی مذمت پر اللہ پاک قراٰن مجید میں فرماتا ہے: كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ(۳۵)ترجمۂ کنزالایمان :اللہ یوں ہی مہر کر دیتا ہے متکبر سرکش کے سارے دل پر۔(پ 24، المؤمن: 35)

(1) دو جہاں کے تاجور سلطان بحربر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن تین شخصوں سے نہ کلام فرمائے گا نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی ان پر نظر رحمت فرمائے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا اور وہ تین شخص یہ ہیں: بوڑھا زانی، متکبر فقیر، جھوٹا بادشاہ۔(جہنم میں لےجانےوالےاعمال،حدیث37 ،ص234(

(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ پاک اس بیس سالہ نوجوان کو پسند فرماتا جو کمزوری اور تواضع میں 80 سالہ بوڑھے جیسا ہو اور 60 سالہ بوڑھے کو پسند نہیں فرماتا جو چال ڈھال میں 20 سالہ نوجوان جیسا ہو ۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، حدیث 44،ص235)

(3) حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ آپ رضی اللہُ عنہ بازار سے اس حالت میں گزرے کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے سر پر لکڑیوں کی گٹھڑی اٹھا رکھی تھی۔ تو آپ رضی اللہُ عنہ سے پوچھا گیا جب اللہ پاک نے آپ رضی اللہُ عنہ کو اس سے بے نیاز کردیا ہے تو پھر آپ رضی اللہُ عنہ کو گٹھڑی اٹھانے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ تو آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں نے آپ سے تکبر دور کرنے کے لیے ایسا کیا کیوں کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس کے دل میں رائی کے برابر تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث68،ص239)

(4) سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک متکبرین اور ناز و نخرے سے چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، حدیث28: ، ص233)

(5) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسند دیدہ وہ شخص ہوگا جو تم میں سے اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہوگا۔ اور قیامت کے دن میرے نزدیک سے سب سے قابل نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے، لوگوں سے ٹھٹھا کرنے والے اور مُتَفَیْھِق ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بے ہودہ بکواس بکنے والے اور ٹھٹھا کرنے والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر مُتَفَیْھِق کون ہیں؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث75،ص241)

اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرنے کو توفیق عطا فرمائیں اور تکبر جیسی گندی بیماری سے بھی محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


تکبر کی تعریف:خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔چنانچہ سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ اَلْکِبْرُ بَطرُ الْحَقِّ و غَمطُ النَّاسِ ترجمہ تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ ( المفردات للرّاغب،ص 298)

تکبر کی اقسام: تکبر کی تین اقسام ہیں۔(1) اللہ پاک کے مقابلے میں تکبر کرنا۔ (2) نبی کے مقابلے میں تکبر کرنا۔ (3) بندے کے مقابلے میں تکبر کرنا۔ پہلی دونوں صورتوں میں تو تکبر کرنے والا شخص کافر ہوجائے گا جب کہ تیسری صورت پہلی دونوں صورتوں کے برابر تو نہیں مگر اس کا بھی بہت بڑا گناہ ہے ۔

اللہ پاک تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاجیسا کہ سورۃ نحل میں ارشاد ہوتا ہے ۔ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (پ 14،النحل:23)

متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں سے پانچ ملاحظہ فرمائے۔

(1)حضرت سیدنا ابو سلمہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے ۔کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو اور حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہم کی کوہِ مروہ پر ملاقات ہوئی دونوں حضرات آپس میں گفتگو کرنے لگے، پھر جب حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رونے لگے ۔لوگوں نے پوچھا : اے ابو عبدالرحمٰن ،آپ رضی اللہُ عنہ کو کس چیز نے رولایا ہے ؟ تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ مجھے انہوں نے یعنی حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ،جنہیں یقین ہے کہ انہوں نے سب سے آخری نبی محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے جتنا تکبر ہوگا ۔اللہ پاک اسے منہ کے بل جہنم میں گرائے گا۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث 52،ص236)

(2) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکہ تکبر اور بڑئی چاہنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔(سنن ابی داود ،کتابالادب،حدیث4801،ص1576)

(3) ہم بےکسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہےکہ اللہ پاک ان چار لوگوں کو قطعاً پسند نہیں فرماتا۔(1) کثرت سے قسمیں کھانے والا۔(2) متکبر فقیر (3) بوڑھا زانی (4) ظالم حکمران۔(سنن نسائی،کتاب الزکوٰۃ،حدیث2577 ،ص 2254)

(4)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔ اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوا۔(مسلم کتاب الایمان،باب تحریم الکبر،حدیث،148)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: بَرہائی (یعنی بڑاپن) میری رداء ہے۔ لہذا جو میری ردا ء کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کردوں گا۔(المستدرک،کتاب الایمان،حدیث21،ص235)

جب بھی دل میں تکبر محسوس ہو تو اَعوز باللہ من الشیطٰن الرجیم ، ایک بار پڑھنے کے بعد الٹے کندے کی طرف تین بار تھو تھو کردیجئے۔ انشاء اللہ تکبر جاتا رہے گا ۔ اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان احادیث پر بھی عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تکبر کسے کہتے ہیں ؟:  اپنے آپ کو بڑا جاننا اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ تکبر یہ بہت ناپسنددیدہ عمل ہے ۔اللہ پاک کو تکبر کرنے والا شخص بالکل بھی پسند نہیں ۔ چنانچہ اللہ پاک تکبر کرنے والوں کی بارے میں قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ ترجمعہ ٔ کنزالایمان :اور میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑائی چاہتے ہیں ۔(پ9 ، الاعراف: 146)

اس آیت میں ناحق تکبر کا ثمرہ اور تکبر کرنے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے ۔کہ ناحق تکبر کرنے والے اگر ساری نشانیاں دیکھ بھی لیں تو بھی ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو وہ اسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لے تو اسے اپنا راستہ بنالیتے ہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ تکبر وہ آگ ہے جو دل کی تمام قابلیتوں کو جلا کر برباد کردیتی ہیں ۔خصوصاً جبکہ اللہ پاک کے مقبول بندں کے مقابلے میں تکبر ہو۔ متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے جن میں سے پانچ ملاحظہ ہیں۔

(1)محبوب رب العٰلمین جناب صادق و امین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔ تو عرض کی گئی کہ آدمی تو یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہو۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ جبکہ تکبر تو حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ )جہنم میں لےجانے والے اعمال،حدیث: 6،ص230(

(2)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔)جہنم میں لے جانے والے اعمال، حدیث 8،ص230(

(3)نور کہ پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ آدمی تکبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبارین میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے وہی مصیبت پہنچتی ہے جو دوسرے جبارین کو پہنچتی ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث:11،ص231(

(4)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ متکبر فقیر ،بوڑھا زانی اور اپنے عمل سے اللہ پاک پر احسان جتانے والا جنّت میں داخل نہ ہوگا ۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث: 41، ص235 (

(5) حضرت سیدنا کریب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ کو لے کر ابو لہب کی بھٹی کی طرف لے کر جا رہا تھا کہ انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا: کیا ہم فلاں مقام پر پہنچ گئے ہیں ؟تو میں نے عرض کی کہ آپ رضی اللہُ عنہ اب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ تو انہوں نے ارشاد فرمایا: مجھے میرے والد عباس بن عبدالمطلب رضی اللہُ عنہ نے بتایا :میں اس جگہ پر حضور پاک ،صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تھا ۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص دو چادریں اوڑھے متکبرانہ چال چلتا ہوا آیا۔وہ اپنی چادریں دیکھتا ہوا اس پر اترا رہا تھا۔ اللہ پاک نے اسے اس جگہ زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث: 70، ص 240)

اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک ”تکبر“ بھی ہے ۔ تکبر سے مراد ”خودکو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننا“ ہے۔ چنانچہ رسول اکرم نورِمجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا:  تکبرحق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحريم الكبروبيانہ، حدیث : 91، ص61)

تکبر کرنے والے کی مثال اس غلام کی سی ہے کہ جو بادشاہ کے سامنے اس کا تاج پہن کر اس کے تخت پر بیٹھ جائے اور اس وجہ سے بادشاہ کو شدید غصہ آئے اور وہ غلام سخت ترین سزا کا مستحق ہو جائے۔ اسی طرح اگر کوئی اللہ پاک کی صفتِ کبریائی کو حاصل کرنے کی ناکام کوشش بھی کرے گا تو سزا کا حقدار بنے گا۔ چنانچہ نبی اکرم نورمجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: کبریائی میری چادر ہے۔ لہذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرك للحاكم ، كتاب الايمان، باب اهل الجنۃ المغلوبون۔۔الخ،1/235،حدیث: 210)

تکبر عزازیل راخوار کرد

بزندان لعنت گرفتار کرد

ترجمہ : غرور و تکبر نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا اور لعنت کے طوق میں گرفتار کیا۔

مفسر شہیر ، حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس کے تحت فرماتے ہیں : کبر سے مراد ذاتی بڑائی ہے اور عظمت سے مراد صفاتی بڑائی۔ چادر فرمانا ہم کو سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر دو آدمی نہیں پہن سکتے یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔(مرأة المناجیح، 6/ 659)

تکبر کی مذمت پر کئی احادیثِ مبارکہ موجود ہیں جن میں سے 5 فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں :

(1) جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہیں ہو گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب تحريم الكبر وبیانہ ، ص 21 ، حدیث : 91)

(2)آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبّار (سرکش) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی عذاب پہنچتا ہے جو ان کو پہنچتا ہے ۔(سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء في الكبر، 3/ 403، حدیث: 2007)

(3)بد تر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے بڑے جبار کو بھول جائے۔(سنن الترمذی، کتاب صفۃ القيامۃ، 4/ 203، حدیث: 2452 بتغير قليل)

(4)قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ”بُولَس “نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ”طِیْنَۃُ الْخَبَّالِ “یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/221، حدیث: 2500)

(5) سخت مزاج ، اترا کر چلنے والا، متکبر ، خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے جبکہ اہل جنّت کمزور اور کم مال والے ہیں۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص ، 2/ 272، حدیث : 7030)

جس طرح ظاہری امراض جان لیوا ثابت ہو جاتے ہیں اسی طرح باطنی امراض ایمان لیوا ثابت ہو جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک تکبر بھی ہے اسی لیے اسکا علاج بھی انتہائی ضروری ہے۔ تکبر کے علاج کی دو صورتیں ہیں: (1) علمی علاج: اس سے مراد انسان اللہ پاک کی معرفت حاصل کرے کہ یہ ذات کتنی عظمت و بڑائی والی ہے اور اپنے آپ کو پہچانے کہ خود کتنا ذلیل و حقیر ہے۔ یہ سوچ و فکر تکبر کا خاتمہ اور عاجزی و انکساری کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔(2) عملی علاج : تکبر کا خاتمہ اللہ پاک کی رضا کے لیے تمام تر عاجزی والے اعمال کرنے میں بھی پوشیدہ ہے۔ لہٰذا ہر وہ کام جس میں تکبر کا شبہ بھی ہو تو اس کے برعکس کام کو بطورِ عاجزی لازم کر لیا جائے یہاں تک کہ نفس عاجزی کا پابند ہو جائے ۔ان علاجوں کو اختیار کرنے سے ان شاءاللہ آہستہ آہستہ تکبر کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں تکبر اور اس جیسے تمام تر باطنی امراض سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حقیقی عاجزی و انکساری عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


تکبر ایک باطنی بیماری ہے، جس کے بارے علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تکبر ایسا کبیرہ گناہ ہے جس نے شیطان جیسے عابد وزاہد،جنّت کےخزانچی اور معلّم الملکوت(یعنی فرشتوں کے استاد) کو بارگاہِ الٰہی میں مردود بنادیا۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل کتاب" تکبر" کے صفحہ 16پر ہے: خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ تکبر حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ متکبر(یعنی تکبر کرنے والا)دنیا و آخرت میں اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ناراضی مول لیتا ہے۔

احادیث مبارکہ میں تکبر کی شدید وعیدات بیان ہوئیں ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:۔

(1)جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحيح المسلم ،کتاب الایمان،حدیث:147،ص60) محدّثِ کبیر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: اس فرمانِ عالی کے چند معنیٰ ہیں: ایک یہ کہ دنیا میں جس کے دل میں رائی برابر کفر ہو وہ جنّت میں ہرگز نہ جائے گا، تکبر سے مراد اللہ و رسول کے سامنے غرور کرنا ہے اور یہ کفر ہے۔ دوسرے یہ کہ دنیا میں جس کے دل میں رائی برابر غرور ہوگا وہ جنّت میں اوّلاً نہ جائے گا۔ تیسرے یہ کہ جس کے دل میں رائی برابر غرور ہو گا وہ غرور لے کر جنّت میں نہ جائے گا پہلے رب کریم اس کے دل سے تکبر دور کردے گا پھر اسے جنّت میں داخل فرمائے گا۔(مرآۃ المناجیح ،6 /511)

(2) قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ”بُولَس “نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ”طِیْنَۃُ الْخَبَّالِ “یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/221، حدیث: 2500)

(3)بے شک جہنم میں ایک مکان ہے جس میں متکبرین کو ڈال کر اوپر سے بند کردیا جائے گا۔(مساوي الأخلاق للخرائطي،باب ما جاء في العجب والكبرالخ،ص 233،حديث:577)

(4)اللہ پاک متکبرین(یعنی مغرورں) اور اِترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔(كنز العمال،كتاب الاخلاق،3/210، حدیث : 7727)

(5)بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے زیادہ نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا جو تم میں سے اخلاق میں سب سے اچھا ہوگا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے،لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور مُتَفَيْهِقْ ہیں۔صحابہ کرام نے عرض کی،یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا امذاق اڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ متفیھق کون ہیں؟تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمایا:اس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جامع الترمذي،ابواب البر والصلة،3 / 410،حدیث:2025)

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہئے کہ ہم غور کریں کہیں ہمارے اندر یہ موذی مرض تو نہیں پایا جاتا! اگر خود کو اس باطنی بیماری میں مبتلا پائیں تو فوراً اس کے علاج اور خاتمے کے لئے کوشاں ہو جائیں۔ تکبر کے بارے تفصیلی معلومات،علامات و اسباب اور علاج جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 96صفحات پر مشتمل کتاب "تکبر" مطالعہ فرمائیے۔


دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل کتاب ”تکبر“صفحہ 16 پر ہے: خُود کو افضل اور دوسرے کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے ارشاد فرمایا: الکبر بطر الحق و غمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان، حدیث 91 ،ص 61 (جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔

(1)حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا جس کی وجہ سے ان پر ذلت طاری ہو گی اور انہیں جہنم کے بولس نام کے قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا (گھسیٹا) اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کران پر غالب آجائے گی اور انہیں جہنم کی پیپ پلائی جائے گی۔(ترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ ،4/ 221حدیث:2500)

(2)سرکار عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا جو تم میں سے اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابل نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے جو واہيات بکنے والے ، لوگوں سے ٹھٹھا کرنے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں سے ٹھٹھا کرنے والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ مُتَفَیْہِق کون ہيں؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے ۔(جامع الترمزی،ابواب البر و الصلۃ، 3 / 410،حدیث:2025)

(3)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تا جدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (تھوڑاسابھی) تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہو گا۔(صحیح مسلم کتاب الایمان ،ص 60،حدیث 147)حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں اس سے مراد ( گزشتہ حدیث مبارکہ)ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے بعد یا اللہ کے عفوو کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح ،8/ 828تا829)

(4)مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا بیشک جہنم میں ایک مقام ہےجس میں تکبر کرنے والے کو ڈال کر اوپر سے بند کر دیا جائے گا۔(مساویٔ الاخلاق للخرائطی، ص 234حدیث:577)

(5)اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہیں فرمائے گا ۔(صحیح البخاری، کتاب اللباس ،4/36،حدیث: 5788)

تکبر کا علاج: اپنے رب کریم سے دعا کریں، رب کریم کی بارگاہ میں حاضری کو یاد رکھیئے، اپنے عیوب پر نظر رکھیئے، عاجزی اختیار کریں، اپنا سامان خود اٹھایئے،حق بات تسلیم کریں،اپنی غلطی مان لیجئے ،اپنے کام کود سے کریئے ،غریبوں کی دعوت قبول کریں، لباس میں سادگی اختیار کریئے، دعوت اسلامی کا مدنی ماحول اپنا لیجئے، دعوت اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کیجیئے۔ ان شاءاللہ اگر آپ ان تمام پر عمل کریں گے تو تکبر جیسی بری بلا سے محفوظ رہیں گے۔ اللہ ہم تمام کو تکبر جیسی بیماری سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاطمہ بالخیر فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی آفتاب قادریت مہتاب رضویت حضرت علامہ مولانا أبو بلال محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتھم العالیہ غلامانِ رسول کو سمجھاتےاور نیکی کی دعوت سے مالامال مدنی پھول عطاءفرماتے ہوئے اپنے مجموعہ کلام وسائل بخشش میں فرماتے ہیں:

خوب انساں کو کرتی ہے رسوا ۔۔۔۔۔۔جب زباں بے لگام ہوتی ہے

گر تکبر ہو دل میں ذرہ بھر۔۔۔۔۔۔۔سن لو جنّت حرام ہوتی ہے