گناہوں کی دو قسمیں ہیں: 1۔ ظاہری،2۔ باطنی
ظاہری گناہوں کی بنسبت باطنی گناہوں سے بچنا انتہائی مشکل
ہے۔ انہی باطنی گناہوں میں سے ”تکبر“بھی ایک کبیرہ گناہ ہے۔ جس انسان میں تکبر پایا جائے وہ دنیا و
آخرت میں تباہ و برباد ہے۔
تکبر کیا ہے؟: خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننا تکبر کہلاتا ہے۔
تکبر کے نقصانات: تکبر کرنے والا حرام کا مرتکب ہے۔ تکبر کرنے والا اللہ پاک
کو ناراض کرنے والا ہے۔ تکبر کرنے والے کو اللہ پاک پسند نہیں کرتا۔ تکبر کرنے
والے پر نصیحت اثر نہیں کرتی۔
احادیث طیبہ:
آقائے دو جہاں ، نبی آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (1) جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہو وہ جنّت میں
داخل نہیں ہوگا۔(صحیح مسلم ، حدیث :147 ،
ص 60)
(2) بڑائی میری
چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی
مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال دو گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب
الزھد،حدیث،4174)
(3) قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹی کی
مانند اٹھایا جائے گا ، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری
ہوگی ، انہیں جہنم کے ”بَولس“نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آجائے
گی ، انہیں جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی ، حدیث: 250 ، ص221)
(4) جو تکبر کرے اللہ پاک اسے ذلیل کردے گا ، پس وہ لوگوں
کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خود کو بڑا سمجھتا ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک
کُتّے اور خِنزیر سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔(کنز العمال ، 3/50 ، حدیث: 5734)
(5) اللہ پاک متکبرین یعنی مغروروں اور اِترا کر چلنے والوں
کو ناپسند فرماتا ہے۔(کنز العمال ،3/210، حدیث : 7727)
تکبر سے بچنا انتہائی
ضروری ہے۔ مگر کیسے؟ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا
ہے کہ اس باطنی مرض سے لازماً خود کو بچایا جائے، ورنہ ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ اس لیے
جو اپنے اندر یہ مرض پائے تو اس کا فوراً علاج کرے۔
احادیثِ کریمہ میں جو تکبر کے علاج بیان کیے گئے ان میں سے
دو علاج درج ذیل ہیں:(1) اپنے کام خود
کرنا۔(2) عاجزی اختیار کرنا اور مسکینوں
کے ساتھ بیٹھنا۔ ان دو نسخوں پر عمل کیا جائے تو اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔
اللہ پک تمام مسلمانوں کو تکبر سے نجات عطا فرمائے۔ (اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )