مکہ مکرمہ نہایت بابرکت اور صاحب عظمت شہر ہے جس میں ہر دم رحمتوں کی چھما چھم بارشیں برستی لطف و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا مانگنے والا کبھی محروم نہیں لوٹتا یہ وہ شہر ہے جس کی قسم کو اللہ پاک نے قران پاک میں یاد فرمایا{لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ: مجھے اِس شہر کی قسم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مجھے اِس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔تفسیر صراط الجنان تحت سورہ بلد آیت1

اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ فضائل و کمالات ہیں ان کے ساتھ ساتھ یہاں پر غافل نہیں ہونا چاہیے بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے حرم مکہ کے بہت سے حقوق ہیں ائیے ان میں سے چند کا مطالعہ کرتے ہیں

1) گناہوں سے بچنا:جس طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرم مکہ میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے جس طرح کے ملفوظات اعلی حضرت میں ہے مکہ معظمہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ ایک لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہے( ملفوظات اعلی حضرت صفحہ 236 237)

2) حرم شریف کی گرمی پر صبر: مکہ معظمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن وہاں کی گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور علیہ السلام نے فرمایا یعنی جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم ک آگ اس سے دور ہو جاتی ہے (اخبار مکہ جلد دو صفحہ 311 حدیث 1565)

3) طویل قیام کی ممانعت: وہاں طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے اگر وہاں بدنگاہی کی غیبت چغلی جھوٹ وعدہ خلافی تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر ایک لاکھ بار صادر ہونے کے برابر ہے گناہوں سے محتاط رہنے والوں کے لیے بھی مکہ معظمہ کی ہیبت کے کم ہونے کا خدشہ ہے جس طرح کے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جب حج سے فارغ ہوتے تو لوگوں میں دورہ کرتے ہوئے فرماتے اے اہل یمن یمن چلے جاؤ اہل عراق عراق چلے جاؤ اہل شام اپنے وطن شام لوٹ جاؤ تاکہ تمہارے ذہنوں میں تمہارے رب کے گھر کی ہیبت خوب قائم رہے فتاوی رضویہ مخرجہ جلد 10 صفحہ 288

4) مکہ مکرمہ میں بیماری پر صبر: مکہ مکرمہ میں جانے سے عموما ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے طبیعت کچھ ناراض ہو جاتی ہے مکہ مکرمہ میں برکتوں والی بیماری کی بھی بڑی فضیلت ہے جس طرح کہ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا مفہوم جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے جو عمل وہ پہلے کر رہا تھا بیماری کی وجہ سے نہ کر سکا تو اس سے ان کا اجر ملے گا اگر بیمار مسافر ہو تو اسے دگنا اجر ملے گا اخبار مکہ جلد دو صفحہ 311

5) شکار کی ممانعت: حرم مکہ جس طرح انسانوں کے لیے امن والا ہے اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے اور اسی وجہ سے حرم مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے جس طرح کے تفسیر احمدیہ میں ہے کہ حرم کو اس لیے حرم کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل شکار حرام و ممنوع ہے (ص34)

پیارے پیارے اسلام بھائیو اس کے علاوہ بھی حرم مکہ کے بہت سے حقوق ہیں مثلا وہاں کے لوگوں سے حسن سلوک کرنا وہاں کے تبر کات کو نقصان نہ پہنچانا بے ادبی سے بچنا وغیرہ اگر اللہ پاک کے فضل و احسان سے ہمیں وہاں کی حاضری کی سعادت ملے تو ہمیں ہر حالت میں محتاط ہر کام سوچ سمجھ کر کریں کوئی بھی قدم بغیر سوچے سمجھے نہ اٹھائیں یہ نہ ہو کہ غفلت کی وجہ سے ہم ثواب کے خزانے کے بجائے گناہوں کی گٹھری لے کر آئیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ میں حرم مکہ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


مکہ مکرمہ بہت ہی عظمت اور برکتوں والا شہر ہے ہر عاشق مکہ اس کی حاضری کی آرزو کرتا ہے اور اگر یہ آرزو ثواب کی نیت سے ہو تو یقینا دی دیدارِ مکہ مکرمہ کی ارزو بھی عبادت ہے.

مختصر تعارف مکہ: مکہ مکرمہ اللہ پاک کا بہت ہی پیارا اور پسندیدہ شہر ہے اور یہ وہ مبارک شہر ہے جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سکونت سے مشرف فرمایا اور یہاں ہی آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی . اس شہر کے مشہور مقامات یہ ہیں.کعبہ معظمہ، صفامروا،منٰی مزدلفہ، غارحرا،غار ثور، جبل تنعیم، وغیرہ

قران مجید اور احادیث میں کئی مقامات پر مکہ مکرمہ کا ذکر فرمایا گیا ہے ائیے مکہ مکرمہ کی حرمت و فضیلت قران و حدیث میں پڑھتے ہیں.

1: قرآن میں مکہ پاک کی قسم یاد فرمانا: لَا اُقْسِمُ بِهَذَا البَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا البَلَدِ ترجمہ کنزالعرفان: مجھے اس شہر کی قسم.جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو. (پ:30البلد:2،1)

صراط الجنان میں ان دو ایات کے متعلق ہے کہ اے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم مجھے اس شہر مکہ کی قسم! جب کہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو اے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ مکرمہ کو یہ عظمت اپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے. (صراط الجنان: 679،678/10)

2: مکہ امن والا شہر ہے: قران کریم میں اس شہر کو امن والا فرمایا گیا۔ چناچہ پارہ ایک،سورۃالبقرہ آیت نمبر،126میں ہے. وَاِذْ قَالَ اِبْرٰاهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ترجمہ کنزالعرفان: اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے رب میرے اس شہر کو امن والا کردے.(پ:1البقرہ:126)

3: مکہ مکرمہ کی زمین قیامت تک حرم ہے: حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو!اس شہر کو اُسی دن سے اللہ نے حرم بنا دیا ہے جس دن آسمان و زمین پیدا کیے لہذا یہ قیامت تک اللہ کے حرام فرمانے سے حرام( یعنی حرمت والا) ہے.

ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے

بارش اللہ کے کرم کی ہے

4: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب شہر: حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور تاجدار رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو دیکھا کہ اپ مقام حزوَرہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے اللہ کی قسم! تو اللہ کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے خدا کی قسم اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابنِ ماجہ 518/3،حدیث:3108)

5: رمضان مکہ میں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان معظم ہے. رَمَضَانُ بِمَكَّةَ اَفْضَلـ مِنْ اَلْفِ رَمَضَانَ بِغَيْرِ مَكَّة یعنی:مکہ میں رمضان گزارنا غیر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے. (مسند البزار،303/12، حدیث:6144)

6: مکہ مکرمہ میں فوت ہونے والے کا حساب نہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو حرمین یعنی مکہ یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اس سے بروز قیامت امن والے لوگوں میں اٹھائے گا.

پیارے پیارے اسلامی بھائیو مکہ مکرمہ زادھااللہ شرفًاوتعظیمًا کہ بہت سے نام کتابوں میں درج ہے ان میں سے 10 یہ ہیں:(1)اَلْقَرْيَه(2) اُمُّ القُرىٰ(3) اَلْبَيْتُ الْعَتِيْق (4)اَلْرَّاْسُ (5)مَعَاد (6)اَلْبَلَدُالْاَمين (7)اَلْبَلده(8) اَلْقَادِسِیَّه(9)بَكّه(10) اَلْبَلَد

دعا ہے اللہ پاک ہم سب کو بار بار مکہ شریف کی باادب حاضری نصیب فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔


حرم سے کیا مراد ہے؟حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد کئی کلومیٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے ممتاز کردیا گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموما ًاس کی پہچان ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے لئے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے:  ابن ماجہ عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:   ’’یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حُرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں   گے ہلاک ہو جائیں   گے۔

(1)قتل نہ کرنا:خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل وجرم کرکے حدودِحرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد قائم کی جائے گی۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ’’اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 97، ص714)

(2)گھاس نہ اکھیڑنا: حرم کی حد کے اندر تر گھاس اُکھیڑنا، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں   کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ ’’ سنن ابن ماجہ ‘‘ ، أبواب المناسک، باب فضل مکۃ، الحدیث : 311، ج3، ص519

(3)ادب کرنا: مکہ معظمہ میں جنگلی کبوتر بکثرت ہیں   ہر مکان میں   رہتے ہیں  ، خبردار ہرگز ہرگز نہ اڑائے، نہ ڈرائے، نہ کوئی ایذا پہنچائے بعض ادھر ادھر کے لوگ جو مکہ میں   بسے کبوتروں   کا ادب نہیں   کرتے، ان کی ریس نہ کرے مگر بُرا انھیں   بھی نہ کہے کہ جب وہاں   کے جانور کا ادب ہے ۔ (بہار شریعت ،ج1،ص 1086)

(4)خشوع و خضوعداخل ہونا۔ جب حرم مکہ کے متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں   شرم گناہ سے نیچی کیے خشوع و خضوع سے داخل ہو اور ہوسکے تو پیادہ ننگے پاؤں   اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے اور بہتر یہ کہ دن میں   نہا کر داخل ہو، حیض و نفاس والی عورت کو بھی نہانا مستحب ہے۔ (’ صحیح مسلم ‘‘ ، کتاب الحج، باب تحریم مکۃ وتحریم صیدھا  ۔۔۔ إلخ، الحدیث : 3153، ص706)

(5)مکہ میں داخل ہونا۔ جب مکہ معظمہ میں   پہنچ جائے تو سب سے پہلے مسجدالحرام میں   جائے۔ کھانے پینے، کپڑے بدلنے، مکان کرایہ لینے وغیرہ دوسرے کاموں   میں   مشغول نہ ہو، ہاں   اگر عذر ہو مثلاً سامان کو چھوڑتا ہے تو ضائع ہونے کا اندیشہ ہے تو محفوظ جگہ رکھوانے یا اور کسی ضروری کام میں   مشغول ہوا تو حرج نہیں   اور اگر چند شخص ہوں   تو بعض اسباب اُتر وانے میں   مشغول ہوں   اور بعض مسجدالحرام شریف کو چلے جائیں ۔ المسلک المتقسط ‘‘ ،  ( باب دخول مکۃ )، ص167


اللہ تعالی کامقدس گھر مکہ پاک ہے جس کی بہت زیادہ تعظیم و توقیر کی جاتی ہے اور ہرشخص پر اس کی تعظیم کرنا اور اسکے حقوق ادا کرنا لازم ہے حرم مکہ کے بھی کچھ حقوق ہیں اور دین اسلام میں ان کےحقوق ادا کرنے کو کہا گیا ہے اور دیناسلام میں۔ ان افعال سے بچنے کا بھی درس ملتا ہے جس سےحرم مکہ کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور حرم مکہ کےچند حقوق درج ذیل ہیں ۔

غلہ بند رکھنا ۔ حضرت یعلی بن امیہ روایت کرتے ہیں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرمایا۔ حرم شریف میں غلہ بند رکھنا یہاں بے ادبی كی طرح ھے کے دینی کی طرح ہے۔ (حدیث ابو داؤد جی مرات المناجیح جلد نمبر دو صفحہ 239 )

تعظیم کرنا۔حضرت عیاش ابن ابو ربیعہ مخزومی روایت کرتے۔ ہیں کہ آقا علیہ الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا یہ امت بلائی پر رہے گی جب تک اس حرمت کا بحق تعظیم احترام کریں جب اسے برباد کریں گے ہلاک ہوجائیں گے۔ ( حدیث ابن ماجہ مراتہ المناجیح جلد نمبر چار صفحہ نمبر 242)

ہتھیار اٹھانا : حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ پیارے پیارے اقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے ۔ (حدیث مسلم مرات المناجیح جلد نمبر دو صفحہ نمبر 236

درخت کاٹنا : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں اور سوائے تلاش کرنے والے کے وہاں کی گری چیز کوئی نہ اٹھائے۔( مرأتہ المناجیح جلد نمبر دو صفحہ نمبر 235 )


مکہ المکرمہ نہایت بابرکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقینا ًدیدارِ مکۃ المکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا۔اللہ رب العزت نے بعض رسولوں کوبعض رسولوں پرفضیلت عطاکی ہے۔اسی طرح دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو،مہینوں میں سے ،ماہِ رمضان المبارک کو،راتوں میں سے لیلۃ القدرکی رات کواسی طرح شہروں میں سے مکۃ المکرمہ اورمدینہ منورہ کوفضیلت عطاکی ہے۔شہرِمکہ کی اللہ رب العزت نے قرآنِ پاک میں قسم اٹھائی ہے۔اللہ رب العزت نے اس شہرکی قسم اٹھائی ہے، ترجمہ کنزا لعرفان: مجھے اِس شہر کی قسم،جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ (پارہ 30سورہ البلد)

اس مبارک زمین کو حرم اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین کی بزرگی کی وجہ سے اس کی حدود میں ایسی بہت سی چیزیں حرام قرار دی ہیں جو اور جگہ حرام نہیں ہیں۔ مثلاً حدود حرم میں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور جانوروں کو ستانا وغیرہ درست نہیں۔ !بعض علماء کہتے ہیں کہ زمین کا یہ حصہ حرم اس طرح مقرر ہوا کہ جب حضرت آدم زمین پر اتارے گئے تو شیاطین سے ڈرتے تھے کہ مجھے ہلاک نہ کر ڈالیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت و نگہبانی کے لئے فرشتوں کو بھیجا ان فرشتوں نے مکہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا لہٰذا مکہ کے گرداگرد جہاں جہاں فرشتوں نے کھڑے ہو کر حد بندی کی وہ حرم کی حد مقرر ہوئی اور اس طرح کعبہ مکرمہ اور ان فرشتوں کے کھڑے ہونے کی جگہ کے درمیان جو زمین آ گئی، وہ حرم ہوئی۔

حرمِ مکہ کےآداب : (1)جب حرمِ مکہ کے پاس پہنچیں تو شرمِ عصیاں سے نگاہیں اورسر جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔ (2)حرمِ پاک میں لَبَّیْک و دُعا کی کثرت رکھیں۔ (3)مکۃُ المکرَّمہ میں ہر دَم رَحمتوں کی بارِشیں برستی ہیں۔ (4) وہاں کی  ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔ (5) وہاں اس بات کا خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ ہمارے کسی عمل سے کسی کو بھی کوئی تکلیف نہ پہنچے، (6) حرم پاک کی ہر چیز حتیٰ کہ چیونٹیوں کی بھی تکریم کرنی چاہیئے۔
حرم مکہ کی فضیلت میں آقائے نامدار مدینے کے تاجدار کے کثیر فرامین موجود ہیں لیکن یہاں تین ذکر کرتا ہوں:

1۔ بخاری شریف میں ہے:جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر ِمبارک سات سال یا تیرہ سال یا اس سے کچھ زائد ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا حکم ہوا، اب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ربّ کے حضور سر تسلیم خم کیا اور مکہ مکرمہ تشریف لائے اور بیٹے کی قربانی پیش کرنا چاہی، مگر اللہ پاک نے جنت سے مینڈھا بھیجا،اسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں قربان کیا گیا،اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ شریف تعمیر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر کعبہ شریف کو دوبارہ سے تعمیر کیا۔( بخاری، احادیث الانبیاء، صفحہ 858 تا 860، حدیث 336 خلاصہ)

2۔ حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، میں نے حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقام ِحزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین سے بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، ج3، ص 518، حدیث 3108)

3۔ صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: بنی اسرائیل کی طرف تشریف لانے والے ایک ہزار انبیائے کرام علیہم السلام حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے اور یہ سبدو طویکے مقام پر اپنی نعلین شریف یعنی مبارک جوتے اتار کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوا کرتے تھے۔(سبل الہدیٰ، جلد1، صفحہ 209 تا211 خلاصہ)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فرماتے ہیں :

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا

ارے سر کا موقع ہے او جانے والے


مکہ مکرمہ کی بہت زیادہ فضیلت ہے اور یہ بہت ہی مقدس شہر ہے اور اس شہر کی سب سے بڑی اور خاص بات یہ ہے کہ اس شہر کی فضیلت خود کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھے کہ جس چیز کی فضیلت میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما دے اس کی شان کیسے کم ہو سکتی ہے

نعمتیں بانٹتا جِس سَمْت وہ ذِیشان گیا

ساتھ ہی مُنشِیِ رحمت کا قلم دَان گیا

اور مکہ مکرمہ کی فضیلت خود رب کائنات نے بیان فرمائی چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ٘-وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(پارہ نمبر 20 سورت النمل آیت نمبر91) ترجمۂ کنز الایمان: مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ پوجوں اس شہر کے رب کو جس نے اسے حرمت والا کیا ہے اور سب کچھ اسی کا ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں ہوں ۔

اور مکہ مکرمہ کے بارے میں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حرمت کی تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اس کو ضائع کر دیں گے ہلاک ہو جائے گے (بہار شریعت جلد اول حصہ ششم باب احرام کا بیان صفحہ نمبر 1085)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ذرا مزکورہ حدیثِ مبارکہ میں غور کرے اور دیکھے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی فضیلت کو کیسے بیان کیا• اعلی حضرت نے بھی کیا خوب شعر بیان فرمایا:

حرم کی زَمیں اور قدم رکھ کے چلنا

ارے سر کا موقع ہے اَو جانے والے

ہمیں چاہیے کہ ہم مکہ مکرمہ کے شہر کی تعظیم کرے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس مقدس شہر کی تعظیم کرنے والا بنائے (آمین)

حدیث مبارکہ: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف لاتے تو ذی طوی میں رات گزارتے جب صبح ہوتی غسل کرتے اور نماز پڑھتے اور دن میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے اور جب مکہ مکرمہ سے تشریف لے جاتے تو صبح تک ذی طوی میں قیام فرماتے (بہار شریعت جلد اول حصہ ششم باب احرام کا بیان صفحہ نمبر 1085)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ہمیں اس حدیثِ پاک سے یہ سبق ملا کہ جب بھی مکہ مکرمہ میں داخل ہو خوب پاک صاف ستھرا ہو کر اس مقدس شہر میں داخل ہو اور ہمیں چاہیے کہ ہمیں جب بھی اس مقدس شہر کی حاضری کا موقع ملے تو ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اس مقدس شہر میں داخل ہو

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس مقدس شہر کی اور کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کی حاضری نصیب فرمائے۔ آمین


مکہ المکرمہ نہایت بابرکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقینا ًدیدارِ مکۃ المکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا۔اللہ رب العزت نے بعض رسولوں کوبعض رسولوں پرفضیلت عطاکی ہے۔اسی طرح دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو،مہینوں میں سے ،ماہِ رمضان المبارک کو،راتوں میں سے لیلۃ القدرکی رات کواسی طرح شہروں میں سے مکۃ المکرمہ اورمدینہ منورہ کوفضیلت عطاکی ہے۔ حرمِ کعبہ کے حقوق پر احادیث مبارکہ

1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،میں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:تم میں سے کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔(مسلم)

2۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب مکہ فتح فرمایا تواس روز فرمایا:اس شہر کو اللہ پاک نے اس دن سے حرمت عطا فرمائی جس روز زمین اور آسمان کو پیدا کیا تھا۔یہ اللہ پاک کی حرمت کے باعث تاقیامت حرام ہے اور اس میں جنگ کرنا کسی کے لئے نہ مجھ سے پہلے حلال ہو اور نہ میرے لئے مگردن کی ایک ساعت کے لئے کسی پس وہ اللہ پاک کی حرمت کے ساتھ قیامت تک حرام ہے نہ اس کا کانٹا توڑا جائے اور نہ اس کاشکار بھڑکایا جائے اوراس کی گری پڑی چیز صرف وہ اٹھائے جس نے اعلان کرنا ہو اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔(البخاری)

3۔ حضور نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے: 1۔’’مکے میں رمضان گزارنا غیرِمکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔‘‘ (جمع الجوامع، ج4، ص472، حدیث 12589)

4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضورنبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کوئی شہرایسانہیں جسے دجال نہ روندے سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ان کے راستوں میں سے ہرراستہ پرصف بستہ فرشتے حفاظت کررہے ہیں۔(بخاری)

5۔ مالک بحروبر، قاسم کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا یَدْخُلُ الدَّجَّالُ مَکَّۃَ وَلَا الْمَدِیْنَۃَ‘‘ یعنی مکے اور مدینے میں دجال داخل نہیں ہو سکے گا۔ (مسند احمد بن حنبل، ج10، ص85، حدیث 26106)


حرم زمین کے اس قطعہ کو کہتے ہیں جو کعبہ اور مکہ کے گرداگرد ہے۔ ! اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی عظمت کے سبب اس زمین کو بھی معظم و مکرم کیا ہے۔ اس زمین کو حرم اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین کی بزرگی کی وجہ سے اس کی حدود میں ایسی بہت سی چیزیں حرام قرار دی ہیں جو اور جگہ حرام نہیں ہیں۔

مثلاً حدود حرم میں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور جانوروں کو ستانا وغیرہ جائز نہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت آدم نے جب کعبہ بناتے وقت حجر اسود رکھا تو اس کی وجہ سے چاروں طرف کی زمین روشن ہو گئی چنانچہ اس کی روشنی اس زمین کے چاروں طرف جہاں جہاں تک پہنچی وہیں حرم کی حد مقرر ہوئی قرآن و حدیث کی روشنی میں حرم مکہ کے کچھ حقوق بیان کرنے کی کوشش کروں گا پڑھیے اور علم وعمل میں اضافہ کیجئے

1)حرم امن کی جگہ ہے لہذا حرم میں قتل وغارت کرنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ- ترجمہ کنزالایمان :اور یاد کروجب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔ (سورة بقره آیت نمبر 125)

تفسیر صراط الجنان؛ امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرم کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں کرتے بلکہ چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ مومن اس میں داخل ہو کر عذاب سے مامون ہوجاتا ہے۔ حرم کو حرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل، ظلم اور شکار حرام و ممنوع ہے، اگر کوئی مجرم بھی داخل ہوجائے تو وہاں اسے کچھ نہ کہا جائے گا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: 125، 1 / 87 مدارک، البقرۃ، تحت الآیة125، ص77، ملتقطاً)

2)حرم کی قربانیوں کا احترام کیا جائے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ وَ لَاۤ مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًاؕ ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو حلال نہ ٹھہرا لو اللہ کے نشان اور نہ ادب والے مہینے اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ جن کے گلے میں علامتیں آویزاں اور نہ ان کا مال آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کرکے آئیں اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی چاہتے۔ (سورة مائدہ آیت نمبر 2)

تفسیر صراط الجنان؛ عرب کے لوگ قربانیوں کے گلے میں حرم شریف کے درختوں کی چھال وغیرہ سے ہار بُن کر ڈالتے تھے تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں ہیں اور ان سے چھیڑ خوانی نہ کریں۔ حرم شریف کی اُن قربانیوں کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔

3)حرم میں درخت ،گھاس وغیرہ نا کاٹے جائے بلکہ ان کا احترام کیا جائے۔ روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت نہ رہی لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب جہاد کے لیے بلائے جاؤ تو نکل پڑو اور فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اس شہر کو اللّٰه نے اس دن ہی حرم بنا دیا جس دن آسمان و زمین پیدا کیے لہذا یہ قیامت تک اللّٰه کے حرم فرمانے سے حرام ہے اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے اس شہر میں جنگ جائز نہ ہوئی ۵؎ اور مجھے بھی ایک گھڑی دن کی حلال ہوئی چنانچہ اب وہ تاقیامت اللّٰه کے حرام کئے سے حرام ہے کہ نہ یہاں کے کانٹے توڑے جائیں اور نہ یہاں کاشکار بھڑکایا جائے اور نہ یہاں کی گری چیز اٹھائی جائے ہاں جو اس کا اعلان کرے وہ اٹھائے اور نہ یہاں کی خشک گھاس کاٹی جائے حضرت عباس نے عرض کیا یارسول اللّٰه اذخر کے سواء کہ وہ تو ہاروں اور یہاں کے گھروں میں کام آتی ہے فرمایا سوائے اذخر کے (مسلم،بخاری)

شرح حدیث؛ یعنی حرم کے خود رو درخت تو کیا کانٹے توڑنا بھی جائز۔ نہیں،اذخروکمائت کے سوا وہاں کی سبز گھاس کاٹنا یا اس پر جانور چرانا بھی ہمارے ہاں ممنوع ہے

بعض شارحین نے فرمایا کہ خلا ترگھاس کو کہتے ہیں اور حشیش خشک کو اور بعض کے ہاں اس کے برعکس ہے۔مقصد یہ ہے کہ حرم شریف کی نہ تر گھاس کاٹی جائے نہ خشک کیونکہ خشک گھاس کانٹے کے حکم میں ہے۔ اذخر ایک لمبی گھاس ہوتی ہے جو عرب میں بجائے لکڑی اور کوئلے کے بھٹیوں میں بھی استعمال کی جاتی ہے اور گھر و قبر کی چھتوں میں بھی جیسے ہمارے ہاں گاؤں میں سینٹے و سرکرے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2715)

4)حرم میں بے دینی نہ پھیلائی جائے۔ روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں حرم میں بے دینی کرنے والا اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے(بخاری)

شرح حدیث ؛ بدعقیدہ اور گنہگار دونوں ملحد ہیں،یعنی حدود مکہ مکرمہ میں گناہ کرنے والا یا گناہ پھیلانے والا یا بدعقیدگی اختیار کرنے والا یا رائج کرنے والا کہ اگرچہ یہ حرکتیں ہر جگہ ہی بری ہیں مگر حرم شریف میں بہت زیادہ بری کہ اس مقام کی عظمت کے بھی خلاف ہے اور جیسے حرم میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ایسے ہی ایک گناہ کا عذاب بھی ایک لاکھ ہے اسی لیئے حضرت ابن عباس نے مکہ چھوڑکر طائف میں قیام کیا۔ ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:142)

5)حرم میں غلہ نہ بند کیاجائے۔روایت ہے حضرت یعلٰی ابن امیہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حرم شریف میں غلہ بند رکھنا یہاں بے دینی کرنے کی طرح ہے (ابوداؤد)

شرح حدیث؛ حتکار کے معنے ہیں بوقت ضرورت انسان یا جانوروں کی خوراک کو روکنا تاکہ زیادہ قحط پڑنے پر فروخت کیا جائے،یہ حرکت ہر جگہ ہی جرم ہے کہ اس میں اللّٰه کی مخلوق کی ایذا رسانی ہے مگر مکہ معظمہ میں ایسی حرکت بہت ہی سخت جرم ہے،وہاں احتکار کرنے والا ابوجہل وغیرہ کفار کی طرح ہے جنہوں نے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرکے انہیں ستایا اور روزی ان پر تنگ کی،مکہ معظمہ کا غلہ روکنا ایسا سخت جرم ہے جیسے وہاں رہ کر بے دینی کرنا۔ ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2723)

اللہ عزوجل ہمیں حرم مکہ اور اس سے نسبت رکھنے والی تمام چیزوں کا ادب کرنے اور بار بار کعبہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی باادب حاضری کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبین۔

ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(30) (ترجمہ کنزالایمان:) بات یہ ہے اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لئے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے اور تمہارے لیے حلال کیے گئے بے زبان چوپائے سوا اُن کے جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔(سورۃ الحج، آیت : 30)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو شخص ان چیزوں کی تعظیم کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عزت و حرمت عطا کی ہے تو یہ تعظیم اُس کے لئے بہتر ہے کہ اِس پر اللہ تعالیٰ اُسے آخرت میں ثواب عطا فرمائے گا۔( البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: 30، 6 / 339، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: 30، 6 / 29، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد اللہ تعالیٰ کے اَحکام ہیں خواہ وہ حج کے مَناسِک ہوں یا ان کے علاوہ اور احکام ہوں اوران کی تعظیم سے مراد یہ ہے کہ جو کام کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا وہ کئے جائیں اورجن کاموں سے منع کیا انہیں نہ کیا جائے ۔ دوسراقول یہ ہے کہ یہاں حرمت والی چیزوں سے حج کے مناسک مراد ہیں اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ حج کے مناسک پورے کئے جائیں اور انہیں ان کے تمام حقوق کے ساتھ ادا کیا جائے ۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت ِحرام ، مَشْعَرِ حرام، بلد ِحرام اور مسجد ِحرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: 30، ص738، خازن، الحج، تحت الآیۃ: 30، 3 / 308، ملتقطاً)

مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرنے والے کا انجام: حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کاحق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کوضائع کردیں گے توہلاک ہوجائیں گے۔( سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب فضل مکّۃ، 3 / 519، الحدیث: 3110)

مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں ’’تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ جس بادشاہ نے کعبہ معظمہ یا حرم شریف کی بے حرمتی کی ، ہلاک و برباد ہوگیا، یزید پلید کے زمانہ میں جب حرم شریف کی بے حرمتی ہوئی (تو) یزید ہلاک ہوا (اور) اس کی سلطنت ختم ہوگئی۔( مراۃ المناجیح، باب حرم مکہ حرسہا اللہ تعالٰی، تیسری فصل، 4 / 242-243، تحت الحدیث: 2605۔)

عام بول چال میں لوگ “ مسجدِ حرام “ کو حرم شریف کہتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام شریف حرم محترم ہی میں داخل ہےمگر حرم شریف مکہ مکرمہ سمیت اس کے اردگرد مِیلوں تک پھیلا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ (رفیق الحرمین ، ص89)

داخلی حرم کے احکام:جب حرم مکہ کے متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں شرم گناہ سے بچی کیے خشوع و خضوع سے داخل ہو اور ہو سکے تو پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے اور بہتر یہ کہ دن میں نہا کر داخل ہو، حیض و نفاس والی عورت کو بھی نہانا مستحب ہے۔

مکہ معظمہ کے گردا گرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اُس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اُکھیڑنا ، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ یہاں تک کہ اگر سخت دھوپ ہو اور ایک ہی پیڑ ہے اُس کے سایہ میں ہرن بیٹھا ہے تو جائز نہیں کہ اپنے بیٹھنے کے لیے اسے اُٹھائے اور اگر وحشی جانور بیرون حرم کا اُس کے ہاتھ میں تھا اُسے لیے ہوئے حرم میں داخل ہوا اب وہ جانور حرم کا ہو گیا فرض ہے کہ فوراً فورا چھوڑ دے۔ مکہ معظمہ میں جنگلی کبوتر (1) بکثرت ہیں ہر مکان میں رہتے ہیں، خبر دار ہرگز ہرگز نہ اڑائے ، نہ ڈرائے ، نہ کوئی ایذا پہنچائے بعض ادھر ادھر کے لوگ جو مکہ میں لیے کبوتروں کا ادب نہیں کرتے ، ان کی ریس(نقل) نہ کرے مگر برا جانے۔ انھیں بھی نہ کہے کہ جب وہاں کے جانور کا ادب ہے تو مسلمان انسان کا کیا کہنا! یہ باتیں جو حرم کے متعلق بیان کی گئیں احرام کے ساتھ خاص نہیں احرام ہو یا نہ ہو بہر حال یہ باتیں حرام ہیں۔(بہار شریعت جلد اول، حصہ 6، ص:1105٫1106)

(1) کہا جاتا ہے کہ یہ کبوتر اس مبارک جوڑے کی نسل سے ہیں، جس نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت غار ثور میں انڈے دیئے تھے، اللہ عزوجل نے اس خدمت کے صلہ میں ان کو اپنے حرم پاک میں جگہ بخشی ۔(المرجع السابق ص:1106)

خانۂ کعبہ کی زیارت و طواف ، روضۂ رسول پر حاضر ہو کر دست بستہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت ، حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن کے دیگر مقدس و بابرکت مقامات کے پُرکیف نظاروں کی زیارت سے اپنی روح و جان کو سیراب کرنا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے ، لہٰذا جس خوش نصیب کو بھی یہ سعادت میسر آئے تو اسے چاہئے کہ وہ ہر قسم کی خُرافات و فضولیات سے بچتے ہوئے اس سعادت سے بہرہ وَر ہو۔ ذیل میں حرمین طیبین کی حاضری کے بارے میں چند مدنی پھول پیش کئے جارہے ہیں ، جن پر عمل کرنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ زیارتِ حرمین کاخوب کیف و سرور حاصل ہوگا۔

حرمِ مکہ کےآداب: (1)جب حرمِ مکہ کے پاس پہنچیں تو شرمِ عصیاں سے نگاہیں اور سر جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔ (2)اگر ممکن ہو تو حرم میں داخل ہونے سے پہلے غسل بھی کرلیں۔ (3)حرمِ پاک میں لَبَّیْک و دُعا کی کثرت رکھیں۔ (4)مکۃُ المکرَّمہ میں ہر دَم رَحمتوں کی بارِشیں برستی ہیں۔ وہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہاں کا ایک گناہ بھی لاکھ کے برابر ہے۔ افسوس! کہ وہاں بدنِگاہی ، داڑھی مُنڈانا ، غیبت ، چغلی ، جھوٹ ، وعدہ خِلافی ، مسلمان کی دِل آزاری ، غصّہ و تَلْخ کلامی وغیرہا جیسے جَرائم کرتے وَقت اکثر لوگوں کویہ اِحساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جہنَّم کا سامان کر رہے ہیں۔

مسجدالحرام کے آداب (5)جب خانۂ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو ٹھہر کر صدقِ دل سے اپنے اور تمام عزیزوں ، دوستوں ، مسلمانوں کے لئے مغفرت و عافیت اور بِلا حساب داخلۂ جنّت کی دُعا کرے کہ یہ عظیم اِجابت و قبول کا وقت ہے۔ شیخِ طریقت ، امیراہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں : چاہیں تو یہ دعا مانگ لیجئے کہ “ یااللہ میں جب بھی کوئی جائز دعا مانگا کروں اور اس میں بہتری ہو تو وہ قبول ہوا کرے “ ۔ علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نے فقہائے کرام رحمہم اللہ السَّلام کے حوالے سے لکھا ہے : کعبۃُ اللہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جنت میں بے حساب داخلے کی دُعا مانگی جائے اور درود شریف پڑھاجائے۔ (ردالمحتار ، 3 / 575 ، رفیق الحرمین ، ص91)

(6)وہاں چونکہ لوگوں کا جمِّ غفیر ہوتا ہے اس لئے اِسْتِلام کرنے یا مقامِ ابراہیم پر یا حطیمِ پاک میں نوافل ادا کرنے کے لئے لوگوں کو دھکے دینے سے گُریز کریں اگر بآسانی یہ سعادتیں میسر ہو جائیں تو صحیح ، ورنہ ان کے حصول کے لئے کسی مسلمان کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں۔ (7)جب تک مکّۂ مکرمہ میں رہیں خوب نفلی طواف کیجئے اور نفلی روزے رکھ کر فی روزہ لاکھ روزوں کا ثواب لُوٹیے۔

اللہ کریم ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی باادب حاضری نصیب فرمائے آمین ۔ حرم و حدود حرم کے آداب و احکام کے بارے میں مزید معلومات کیلئے بہار شریعت جلد اول سے حج کا بیان اور امیر اھلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب رفیق الحرمین کا مطالعہ نہایت مفید ہے ۔


(1)حرمِ مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ معظمہ کے اِردگِرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اُس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اُکھیڑنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔(دیکھئے:بہار شریعت، 2/1085)

(2)حرمِ مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔(مراٰۃ المناجیح،4/202)

(3)حرمِ مکہ کی تعظیم کرنا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)

(4)حرم مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: ﴿وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- ترجَمۂ کنزالایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لیے اُس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔ (پ17، الحج: 30)

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت ِحرام، مَشْعَرِ حرام، بلدِ حرام اور مسجد ِحرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔(دیکھئے: صراط الجنان، 6/434)

(5)درخت کاٹنا: حرمِ مکہ میں درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔(مراٰة المناجیح،4/201)

اللہ پاک ہمیں اس مقدس سر زمین کی بار بار حاضری نصیب فرمائے اور اس مبارک مقام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم