عبدالمنان عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
حرم
سے کیا مراد ہے؟حرم سے مراد خانہ
کعبہ کے ارد گرد کئی کلومیٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر
اسے ممتاز کردیا گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموما ًاس کی پہچان
ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے
لئے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے: ابن ماجہ عیاش بن
ابی ربیعہ مخزومی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
نے فرمایا: ’’یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حُرمت کی پوری
تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے ہلاک ہو جائیں
گے۔
(1)قتل
نہ کرنا:خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ
تعالیٰ نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل وجرم
کرکے حدودِحرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد
قائم کی جائے گی۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ’’اگر میں
اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں
تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 97، ص714)
(2)گھاس
نہ اکھیڑنا: حرم کی حد کے
اندر تر گھاس اُکھیڑنا، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف
دینا حرام ہے۔ ’’ سنن ابن ماجہ ‘‘ ، أبواب المناسک، باب فضل
مکۃ، الحدیث : 311، ج3، ص519
(3)ادب
کرنا: مکہ معظمہ میں جنگلی کبوتر
بکثرت ہیں ہر مکان میں رہتے ہیں ، خبردار ہرگز ہرگز
نہ اڑائے، نہ ڈرائے، نہ کوئی ایذا پہنچائے بعض ادھر ادھر کے لوگ جو مکہ میں
بسے کبوتروں کا ادب نہیں کرتے، ان کی ریس نہ کرے مگر بُرا
انھیں بھی نہ کہے کہ جب وہاں کے جانور کا ادب ہے ۔ (بہار
شریعت ،ج1،ص 1086)
(4)خشوع
و خضوعداخل ہونا۔ جب حرم مکہ کے
متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں شرم گناہ سے نیچی کیے خشوع و خضوع سے
داخل ہو اور ہوسکے تو پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے
اور بہتر یہ کہ دن میں نہا کر داخل ہو، حیض و نفاس والی عورت کو بھی
نہانا مستحب ہے۔ (’ صحیح مسلم ‘‘ ، کتاب الحج، باب تحریم مکۃ وتحریم
صیدھا ۔۔۔ إلخ، الحدیث : 3153، ص706)
(5)مکہ
میں داخل ہونا۔ جب مکہ معظمہ میں
پہنچ جائے تو سب سے پہلے مسجدالحرام میں جائے۔ کھانے پینے، کپڑے
بدلنے، مکان کرایہ لینے وغیرہ دوسرے کاموں میں مشغول نہ
ہو، ہاں اگر عذر ہو مثلاً سامان کو چھوڑتا ہے تو ضائع ہونے کا اندیشہ
ہے تو محفوظ جگہ رکھوانے یا اور کسی ضروری کام میں مشغول ہوا تو حرج
نہیں اور اگر چند شخص ہوں تو بعض اسباب اُتر وانے میں
مشغول ہوں اور بعض مسجدالحرام شریف کو چلے جائیں ۔ المسلک المتقسط ‘‘
، ( باب دخول مکۃ )، ص167