یہ بات صحیح ہے کہ ہر ملک ہر علاقے اور ہر قوم میں مہمان نوازی کے طور طریقے اور انداز مہمان نوازی قدر مختلف ہوتے ہیں لیکن کسی بھی قوم میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کا عزت و وقار کے ساتھ پرتپاک استقبال کرنا اسے خوش آمدید کہنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کی خوب سے خوب خدمت کرنا ضروری ہےاس لیے کہ دنیا کی ہر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔

مہمان کی تعریف: وہ شخص جو عارضی قیام کے لیے کسی کے گھر یا مہمان خانے میں آکر ٹہرے اور جلدی رخصت ہو جائے اس شخص کو مہمان کہا جاتا ہے ۔

مہمان کے حقوق: 1: حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: کہ "مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ ” جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔"

حضرت ابراھیم علیہ السلام کا نام ہمیں بڑے مہمان نوازوں میں ملتا ہے آپ علیہ السلام بغیر مہمان کے کبھی کھانا تناول نہیں فرماتے اور اگر کسی دن کوئی مہمان نہ آتا تو دروازے پر کھڑے ہوکر کسی بھی گزرنے والے کو مہمان بنا کر گھر میں لے آتے ایک دفعہ اسی طرح آپ علیہ السلام دروازے سے ایک شخص کو مہمان بنا کر لے آئے دسترخوان پر بٹھا کر کھانا سامنے رکھ کر فرمایا جی بسم اللہ کیجئیے تو اس نے کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں میں بسم اللہ نہیں پڑھ سکتا تو آپ علیہ السلام کو غصہ آگیا اور فرمایا کہ جب تو میرے اللہ کو نہیں مانتا تو یہاں تیری ضرورت نہیں تو چلا جا وہ چلا گیا تو اللہ کی طرف سے ندا آئی کہ اے ابراہیم اس دنیا میں اب تک اس کو کون کھلاتا پلاتا رہا ہے اس کا تعلق کس مذہب سے ہے ؟ اس کے اعمال کیا ہیں ؟

اس کا فیصلہ بروز محشر ہوگا اس وقت وہ تیرا مہمان تھا لیکن ایک دن بھی تو اسے نہ کھلا سکا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی بات سن کر گھبرا گئے اور اسے ڈھونڈنے کی غرض سے نکل گئے تھوڑی دور وہ مل گیا تو آپ علیہ السلام اسے دوبارہ گھر لے آئے اور معذرت کرتے ہوئے بڑے احترام و اکرام کے ساتھ اسے کھانا کھلایا جب وہ کھا چکا تو کہنے لگا کہ مجھے تعجب ہے کہ پہلے آپ غصہ ہوکر مجھے گھر سے نکل جانے کا حکم دیتے ہیں اور اب اتنی مہمان نوازی آخر ماجرہ کیا ہے ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس رب کو تو ماننے کے لئے تیار نہ تھا مجھے اسی رب نے تیری مہان نوازی کا حکم دیا تو اس شخص نے سوچا کہ جس کو میں رب نہیں مانتا مجھ پر اس کی اتنی بڑی مہربانی کہ اس نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا اس نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ مجھے بھی اپنے دین میں داخل کردیجیے اور وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا یہ ہے مہمسان نوازی اس کی فضیلت اور اس کے حقوق۔( صحیح بخاری حدیث 6019)


مہمان نوازی ایک اعلی وصف ہے اور اسلام میں اسے بہت پذیرائی حاصل ہے۔  اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(بخاری،ج4،ص105،حدیث:6019)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(ممکنہ حد تک) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص52)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کی اسلام نے مہمان کو کس قدر عزت سے نوازا ہے ۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق مہمان کے کئی حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں

1.خوش آمدید (well come) کرنا: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کہے اور اس کا پر تپاک استقبال کرے۔

2.مناسب طعام و قیام ۔میزبان کو چاہیے کے اپنی حیثیت کے مطابق مہمان کو بہترین کھانا پیش کرے اور اچھی رہائش فراہم کرے .ایک طویل حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک کافر بطور مہمان آیا تو آپ نے اس کی بھی مہمان نوازی کی ( مسلم ۔ کتاب الاشربہ۔ حدیث 2063)

3.مہمان کے ساتھ کھانا : مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سےفرمایا: تم اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھاؤ کیونکہ مہمان اکیلے کھانے سے شرماتا ہے۔(شعب الایمان ۔ حدیث ۔9186)

4.اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی(Interfere) نہ کرنا: مہمان بلکہ کسی بھی انسان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا اس کی دل آزاری اور ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں لہذا اس سے گریز کرنا بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے۔

5.الوداع کرنا :جب مہمان جانے لگے تو بہتر یہ ہے کہ اسے الوداع کہنے دروازے تک چل کر جائے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اچھا طریقہ یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔(ابن ماجہ۔شعب الایمان، حدیث 9202)

الغرض ہر طرح سے اس کا خیال رکھنا اور اسے کسی بھی طرح کی تکلیف سے بچانا ایک مسلمان کے لئے انتہائی اہم ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان حقوق کو ادا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ کریم ہمیں مہمان نوازی اور مہمان کے حقوق اچھے انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم 


اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عظیم ہے

مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ  یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے(بخاری،ج4،ص105،حدیث:6019)

اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔
آئیے اللہ پاک اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنے اور علم دین حاصل کرنے کی نیت سے مہمان کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں:

1. مہمان نوازی میں جلدی کی جائے:
“ حکایت یں اور نصیحتیں کے صفحہ نمبر164 پر لکھا ہے : منقول ہے : جلدبازی شیطان کی طرف سےہے مگر اِن چھ(6) کاموں میں جلدی کرنا شیطان کی طرف سے نہیں وہ یہ ہیں
01: جب نماز کا وقت ہو جائے تو اس میں جلدی کرنا ،
02: مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنا ،
 03: کسی کے مرنے پر اس کے کفن دفن کاانتظام کرنا
04: بچی کے بالغ ہونے پر اس کی شادی کرنا
05: قرض کی ادائیگی کا وقت آجائے تو اُسے جلد ادا کرنا 06: اورکوئی گناہ ہوجائے توفوراً توبہ کرنا ۔
(الروض الفائق،المجلس الثالث عشر فی ذکر جھنم،باب:صفۃالفقیر
،ص:86)

جس نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی اسکی بھی مہمان نوازی کی جائے:ابو الاحوص جشمی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد (مالک بن نضلہ الجشمی رضی اللہ عنہ)سے ر وآیت کرتے ہیں، کہتے ہیں:میں نے عرض کی، یارسول اﷲ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیے کہ میں ایک شخص کے یہاں گیا، اس نے میری مہمانی نہیں کی، اب وہ میرے یہاں آئے تو اس کی مہمانی کروں یا بدلا دوں؟۔ ارشاد فرمایا:بلکہ تم اس کی مہمانی کرو(سنن الترمذي''،کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء في الإحسان والعفو،الحدیث: 2013،ج:3،ص:405)

سنت ابراھیمی پر عمل کرے:میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے(بہار شریعت،حصہ :16،ص:397)

پسند ،ناپسند کا خیال:(ممکنہ صورت میں مہمان کا پسندیدہ کھانے کا انتظام کرے ) بہار شریعت میں ہے کہ مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو(بہار شریعت،حصہ :16،ص:397)

اصرار نہ کرے:میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ اور کھاؤ مگر اس پر اصرار نہ کرے ،کہ کہیں اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ ا س کے لیے مضر ہو

کھانا رکھ کر غائب نہ ہو:میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہوجائے، بلکہ وہاں حاضر رہے

ناراض نہ ہو: مہمانوں کے سامنے خادم وغیرہ پر ناراض نہ ہو اور اگر صاحبِ وسعت ہو تو مہمان کی وجہ سے گھر والوں پر کھانے میں کمی نہ کرے۔

کھانے کے بعد ہاتھ دھلائے :جب کھا کر فارغ ہوں ان کے ہاتھ دھلائے جائیں اور یہ نہ کرے کہ ہر شخص کے ہاتھ دھونے کے بعد پانی پھینک کر دوسرے کے سامنے ہاتھ دھونے کے لیے طشت پیش کرے(المرجع السابق،ص:345)

مہمان رخصت کرنے کا سنت طریقہ :رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الأطعمۃ، باب الضیافۃ،الحدیث:33578،ج:4،ص:52)

اللہ پاک ہمیں جو سیکھا اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم 


اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

(1)ایمان کی علامت: مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ ترجمہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو چاہیے کہ وہ اپنے مہمانوں کی عزت کرے ۔(بخاری، حدیث: 6019)

(2) نبیّ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ ( کشف الخفاء، حدیث: 1641)

(3) فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔(ابن ماجہ، حدیث: 3356)

(4)مہمان نوازی کے فوائد : مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔

مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

(5)۔مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ: افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔

ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتی ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔


مہمانوں کی عزّت و تکریم اور خاطرتواضع  اسلامی معاشرے کی اعلیٰ تہذیب اور بلندیِ اَخلاق کی روشن علامت ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی کی بہت ترغیب دلائی ہے۔ تاجدارِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود مہمانوں کی خاطرداری فرماتے تھےاور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اس کے لئے قَرْض لے لینا بھی ثابت ہے چنانچہ حضرت سیّدناابورافع رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے: ایک بار بارگاہِ رسالت میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلام نے مجھے ایک یہودی سے اُدھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زِرَہ گِروی (Mortgage) رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔ ( مسند البزار،ج 9،ص315، حدیث: 3863ملخصاً)

اس سے ہمیں مہمان نوازی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ آئیے مہمان کے حقوق کے بارے میں پڑھئیے ۔

1) مہمان کے لیے کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے: حديث پاک میں ہے: " جلد بازی شیطان کا کام ہے مگر پانچ چیزوں میں جلدی کرنا سنت ہے جن میں سے ایک مہمان کو کھانا کھلانا بھی ہے۔" (سنن الترمذى ، كتاب البر والصلة ، باب ماجاءفى التاني والعجلة3/407، الحديث:2019)

2) مہمان کے ساتھ حسن سلوک: اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔ (بخاری،ج4، ص105، حدیث:6019)۔ حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص52)

3) مہمان اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے: نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

4) مہمان نوازی کرنا انبیاء و صالحین کی سنت ہے: حضرت ابراہیم علیہ السلام نہآیت ہی مہمان نواز تھے۔آپ علیہ السلام مہمان کے بغیر کھانا تناول نہیں فرماتے تھے ۔ آپ علیہ السلام مہمان کا بہت زیادہ اکرام کیا کرتے تھے ۔۔مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دسترخوان پر اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے اور اچھی گفتگو بھی کی جائے ۔امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔" (شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

5) میزبان مہمان کو بوجھ نہ جانے: میزبان کو چاہیے کہ وہ مہمان کو اپنے بوجھ نہ جانے اور اس کی احسن طریقے سے مہمان نوازی کرے کہ فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم :" جو مہمان نواز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ "(مسنداحمد،ج 6،ص142، حديث:17424)

6) مہمان کو وحشت میں مبتلا نہ کیجئے: علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص118)

7) مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے کہ یہ سنت ہے:حضور نبی رحمت ، شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رحمت نشان ہے:"مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے ۔"(سنن ابن ماجه، كتاب الأطعمة ، باب الضيافة،4/52، الحديث :3358)

مہمان نوازی کے فوائد :مہمان نوازی سے مہمان کے دل میں میزبان کی عزّت اور محبّت بڑھتی ہے، آپس کے تعلّقات مضبوط ہوتے ہیں، رَنجِشیں دور ہوتی ہیں، ربّ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، رزق میں برکت ہوتی ہے، بندۂ مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرکے میزبان کو ثواب کمانے کے مواقع میسّر آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا نصیب ہوتی ہے۔اللہ پاک مہمان کی احسن طریقے سے مہمان نوازی کرنے اور اس کے حقوق ادا کی توفیق عطا فرمائے آمین


مہمان نوازی نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلَّی  اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنّت ِمُبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کِرام علٰی نَبِیِّنا وعلیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی ہے۔اللہ پاک قرآن پاک پارہ 14 سورةالحجر کی آیت نمبر 51 میں ارشادفرماتا ہے ۔وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ* ترجمہ کنز العرفان: اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کااحوال سناؤ۔

شیخ الحدیث و تفسیر مفتی قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ تفسیر صراط الجنان میں ان مہمانوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مہمان کئی فرشتے تھے اور ان میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بھی تھے۔

(جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: 51، ص213)

ابوالضَّیفان حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ عليه السَّلام بہت ہی زیادہ مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے:جس گھر میں مہمان ہو اُس میں خیرو برکت اُونٹ کی کوہان سے گرنے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے۔ (ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث: 3356)

مہمان نوازی کے حقوق:

1:۔رِضائے اِلٰہی کیلئے میزبان کو چاہئے کہ مہمان سے پُر تَپاک اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرے۔

2:۔ خوش دِلی کے ساتھ کھانا یا چائے وغیرہ پیش کرے ۔

3:۔مہمان سے کیسی طرح کی خدمت نہ لے۔

4:۔ایک ہی دستر خوان پر امیر و غریب کو ایک جیسا کھانا پیش کرے ۔

5:۔جب مہمان آئے تو اُس کی اللہ کی رضا کیلے خدمت کرے،

فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :۔

مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔ (تمہید الفرش،ص18)

6:۔مہمان نوازی میں جلدی کی جائے کہ یہاں جلدی کرنا شیطانی کام نہیں۔ (حلیۃ الاولیاء،ج8،ص82، رقم:11437)

7:۔جب مہمان آئے تو اُس کی خدمت میں تنگ دِلی کا مُظاہَرہ نہ کرے کہ فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رِزْق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِِ خانہ کے گُناہ بخشے جانے کا سبب ہوتاہے۔(کنزالعمال، جز9، ج5،ص107،حدیث:25831)

8:۔جب مہمان کَم ہوں توميزبان كو چاہئے کہ مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھائے۔

حکمت: اِس سے اُن کی دل جوئی ہو گی۔ قُوتُ الْقُلوب میں ہے: جو شخص اپنے بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اُس سے حساب نہ ہو گا۔( قوت القلوب،ج2،ص 306)

9:۔میزبان کے لئےمُسْتَحَب ہے کہ کھانے کے دوران کبھی کبھا ر بِلا اِصرار مہمان سےکہے:اور کھائیے! حکمت: یوں مہمان زیادہ رغبت اور مزے سے کھاتا ہے لیکن اِس میں اِصرار کرنا بُرا ہے۔ (بستان العارفین،ص61)

10:۔مہمان جب جانے کی اجازت مانگے تو میزبان اُسے روکنے کے لئے اِصرار نہ کرے۔

حکمت: ہو سکتا ہے مہمان کوئی ضَروری کام چھوڑ کر آیا ہو، زبردستی روک لینے کی صورت میں اُس کا نقصان ہوسکتا ہے۔حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمدبن سِیْرین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں:اپنے بھائی کا اِحتِرام اِس طرح نہ کرو کہ اُسے بُرا معلوم ہو۔ (بستان العارفین،ص61)

11:۔اتباع سنت بجا لاتے ہوۓ مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے ۔

اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل ! ہمیں مہمانوں کی خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرما۔اور بار بار میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بننے کی سعادت نصیب فرما ۔ آمین بجا النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


کوئی بھی اچھی خصلت اور  روایت ایسی نہیں جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو اعلی اخلاقی اقدار اور روایات میں سے ایک بہترین روایت مہمان نوازی بھی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا قصہ بیان فرما کر اس فعل کو محمود قرار دیا ہے اور انکے اس فعل کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو ابوالضیفان کا لقب عطا کیا گیا عرب کے لوگوں کی اچھی عادات میں سے ایک مہمان نوازی بھی ہے عرب کے لوگ باہر سے آنے والے مہمانوں کی ضیافت کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے میں فخر کیا کرتے تھے مہمان نوازی کے بارے میں قرآن و حدیث میں بہت سی تعلیمات موجود ہیں فقہاء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مہمان نوازی کے آداب اور حقوق بیان کئیے ہیں اور اسے حقوق العباد میں سے قرار دیا ہے مہمان کے حقوق میں سے چند ایک حقوق پیش خدمت ہیں ۔

مہمان کا استقبال کرنا :مہمان کا اچھے کلمات اور اچھے انداز میں استقبال کرنے سے دلی مسرت حاصل ہوتی ہے اور باہمی پیار و محبت میں اضافہ ہوتا ہے مہمانوں کے استقبال کو مستحب قرار دیا گیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب عبد القیس کا وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وفد کو خوش آمدید تم ہمارے پاس آنے پر رسوا ہونگے اور نہ ہی شرمندہ ۔ (صحیح البخاری ،جلد8،کتاب الادب،صفحہ 41،حدیث نمبر 6176)

مہمان کی اپنے ہاتھ سے خدمت کرنا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس مہمانوں کی خدمت فرماتے اسی طرح حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بارے قرآن مجید میں ہے ۔ فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ترجمہ: پھر اُسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں ۔ (الذاریات :آیت نمبر 27)

مہمان کے ساتھ گفتگو گپ شپ لگانا : امام بخاری رحم اللہ نے مہمان اور اہل خانہ کے ساتھ رات کو عشاء کے بعد گفتگو کرنے کے نام سے ایک باب قائم کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث ذکر کی ہے جس میں یہ ہےکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے پھر اپنے مہمانوں کے پاس واپس آئے اور انکے ساتھ رات کا کھانا کھایا ۔ (صحیح البخاری: کتاب: مواقیت الصلاۃ ،،جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 24)

مہمان کو تکلیف دینے سے گریز کرنا : میزبان پر یہ فرض ہے کہ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھے اسے قولی فعلی کسی بھی طریقے سے تکلیف دینے سے گریز کرے حتی کہ اس کے سامنے ایسی احادیث اور اقوال کو بھی بیان نا کرے جس سے اسے شرمندگی ہواور کوشش کرے کہ مہمان خوش و خرم رخصت ہو مثال کے طور پر مہمان دستر خوان پر بیٹھا ہو اور میزبان یہ حدیث بیان کردے"کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا"یہ حدیث حکم کے لحاظ سے اگرچہ صحیح ہے لیکن اس موقع پر بیان کرنا ناموزوں اور بے محل ہے ۔ (مسند احمد ،جلد28،صفحہ 422،حدیث 17186)

کھانا بڑوں سے شروع کرنا : اگر میزبان کے ہاں بہت سے مہمان ہوں اور ان کو کھانا وغیرہ پیش کرے تو ان میں سے بڑوں کو فوقیت دے یہ تعلیم ہمیں بہت سی احادیث مبارکہ سے ملتی ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے" حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو پانی پلاتے تو فرماتے بڑے سے یا بڑوں سے شروع کرو"اور اگر عمر میں سب بڑے ہوں تو دائیں طرف سے شروع کرے۔ (مسند ابی یعلیٰ ،جلد4،صفحہ315، حدیث2425)

مہمان کو گھر کے دروازے پر الوداع کرنا : جس طرح مہمان کی آمد پر اسکا اچھی طرح استقبال کرنا چاہئیے اسی طرح اس کو رخصت کرتے وقت خود ساتھ چل کر دروازے تک الوداع کرنا چاہئیے جب حضرت ابو عبید القاسم امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو ابو عبید القاسم فرماتے ہیں جب میں واپسی کےلیے کھڑا ہوا تو آپ بھی میرے ساتھ کھڑے ہو گئے میں نے عرض کی حضور آپ زحمت نا فرمائیں تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا یہ بات مہمان کی تکریم میں سے ہے کہ گھر کے دروازے تک اس کے ساتھ چلے۔ (مناقب الامام احمد ،صفحہ 152)

اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام اور بزرگان دین کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہوئے مہمان نوازی کی توفیق عطا فرمائے اور ایک اچھا میزبان بننے کی سعادت نصیب فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کریم کا ہم پر کس قدر کرم ہے  کہ ہمیں کس قدر حسین دین اسلام عطا فرمایا کہ یہ وہ مذہب ہے جو اپنے اندر آنے والے کو فلاح و کامرانی کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے ۔ہمارا مذہب اسلام ہمیں نہ صرف معاشرتی برائیوں سے روکتا ہے بلکہ ہمیں حسن اخلاق جیسی عظیم نعمت کو اپنانے کا بھی حکم دیتا ہے اسی حسن اخلاق میں جہاں سب کے حقوق شامل ہوتے ہیں وہاں مہمانوں کے حقوق بھی شامل ہیں اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد رکھیں کہ مہمان کے آنے سے زحمت نہیں ملتی بلکہ رب کریم کی رحمت ملتی ہے۔مہمانوں کے حقوق:

(1)حسن سلوک :-اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ مہمان کے آنے سے اللہ کریم کی رحمت بھی گھر میں آتی ہے ۔اور کسی مسلمان کی مہمان نوازی کرنا بھی حسن اخلاق میں شامل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دل سے مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک کریں اور حتی الامکان ان سے مسکراہٹ کے ساتھ بات کریں اور ان وقت بھی دیں۔

(2) مہمان کا استقبال اور ان سے الوداع کرنا :- دین اسلام چونکہ سب سے کامل دین ہے جو ہماری ہر معاملے میں رہنمائی کرتا ہے لہذا دین اسلام نے مہمانوں کے حقوق کے متعلق بھی ہماری رہنمائی کی ہے ۔کسی مسلمان کو چاہیئے کہ جب اس کے گھر کوئی مہمان آئے تو خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے اور جب وہ رخصت ہو تو اس کو دروازے تک چھوڑ کر آئیں ۔حدیث پاک میں آیا ہے :-حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اِکرام کرے۔(مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب الحث علی اکرام الجار۔۔۔ الخ، ص43، الحدیث: 74(47))

(3) مہمانوں کو کھانا کھلانا:- پیارے اسلامی بھائیوں جس طرح مہمان کومے ساتھ حسن سلوک کرنا مہمان نوازی ہے اس طرح مہمان کو کھانا کھلانا بھی اس کے حق میں شامل ہے اور باعث برکت و ثواب ہے۔حضرت ابرہیم خلیل اللہ علیہ اسلام کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ جب تک آپ علیہ السلام کسی کو اپنے ساتھ کھانا نہ کھلاتے تب تک آپ علیہ السلام بھی کھانا تناول نہیں فرماتے تھے ۔اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مہمانوں کو کھانا کھلائیں اور ڈھیروں نیکیاں کمائیں۔

(4) اپنے گھر ٹھہرانا :- پیارے اسلامی بھائیو ایک مہمان کا میزبان پر یہ حق ہے کہ اگر مہمان کو میزبان کے گھر ٹھرانا پر جائے تو خوش دلی سے اس کو اپنے گھر ٹھہرائے اور گھر رہنے کا سامان بھی مہیا کرے مگر یاد رہے کہ میزبان پر بھی لازم ہے کہ وہ اتنی دیر نہ ٹھہرے کہ میزبان کو تکلیف ہو۔

اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم مہمانوں کی مہمان نوازی کرنا یہ تو سنت انبیاء علیہم السلام ہے حضرت ابرہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی بہت مشہور تھی ان کی مہمان نوازی کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہےاسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر بھی قرآن پاک میں موجود ہے اور نبیوں کے سردار آقا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی کے تو کیا ہی کہنے ۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

صلو علی الحبیب صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم


مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان  نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔( شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18 )

‏مہمان نوازی نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنّت ِمُبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کِرام علٰی نَبِیِّنا وعلیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی ہےچنانچہ ابوالضَّیفان حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ عليه السَّلام بہت ہی مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جس گھر میں مہمان ہو اُس میں خیرو برکت اُونٹ کی کوہان سے گرنے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے۔ (ابن ( ماجہ،ج4، ص51، حدیث: 3356 )

مہمان نوازی کی نیّتیں: ٭رِضائے اِلٰہی کیلئے مہمان نوازی کرتے ہوئے پُر تَپاک ملاقات کے ساتھ ساتھ خوش دِلی سے کھانا یا چائے وغیرہ پیش کروں گا٭مہمان سے خدمت نہیں لوں گا ٭اِتِّباعِ سُنّت میں مہمان کو دروازے تک رُخْصت کرنےجاؤں گا۔ (ثواب بڑھانے کے نسخے،ص11)

آداب اور حکمتیں: ٭جب مہمان آئے تو اُس کی خدمت کرے، فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔(تمہید الفرش،ص18) ٭مہمان نوازی میں جلدی کی جائے کہ یہاں جلدی کرنا شیطانی کام نہیں۔ (حلیۃ الاولیاء،ج8،ص82،رقم:11437)٭جب مہمان آئے تو اُس کی خدمت میں تنگ دِلی کا مُظاہَرہ نہ کرے کہ فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رِزْق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِِ خانہ کے گُناہ بخشے جانے کا سبب ہوتاہے۔ (کنزالعمال، جز9، ج5،ص107،حدیث:25831)٭

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے، بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہ حقوقُ اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے  روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم جانتے ہو کہ مُفلِس کون ہے؟صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی:ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازو سامان نہ ہو۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں ) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو اِن میں سے ہر ایک کو ا ُس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اُن کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوگئیں تو اُن کے گناہ اِس پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، ص1394، الحدیث: 59 (2581)

مہمان نوازی نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم کی سُنّت مُبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کِرام علٰی نَبِیِّنا وعلیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی ہے۔ چنانچہ ابوالضَّیفان حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ عليه السَّلام بہت ہی مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جس گھر میں مہمان ہو اُس میں خیرو برکت اُونٹ کی کوہان سے گرنے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے۔ (ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث: 3356)

مہمان نوازی کی نیّتیں:

رِضائے اِلٰہی کیلئے مہمان نوازی کرتے ہوئے پُر تَپاک ملاقات کے ساتھ ساتھ خوش دِلی سے کھانا یا چائے وغیرہ پیش کروں گا۔ مہمان سے خدمت نہیں لوں گا۔ اِتِّباعِ سُنّت میں مہمان کو دروازے تک رُخْصت کرنے جاؤں گا۔ (ثواب بڑھانے کے نسخے،ص11)

سنّتیں، آداب اور حکمتیں: جب مہمان آئے تو اُس کی خدمت کرے، فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔(تمہید الفرش،ص18) مہمان نوازی میں جلدی کی جائے کہ یہاں جلدی کرنا شیطانی کام نہیں۔ (حلیۃ الاولیاء،ج8،ص82،رقم:11437)جب مہمان آئے تو اُس کی خدمت میں تنگ دِلی کا مُظاہَرہ نہ کرے کہ فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رِزْق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِِ خانہ کے گُناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کنزالعمال، جز9، ج5،ص107،حدیث:25831)

جب مہمان کَم ہوں تو ميزبان كو چاہئے کہ مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھائے۔ حکمت: اِس سے اُن کی دل جوئی ہو گی۔قُوتُ الْقُلوب میں ہے: جو شخص اپنے بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اُس سے حساب نہ ہو گا۔( قوت القلوب،ج2،ص 306) میزبان کے لئے مُسْتَحَب ہے کہ کھانے کے دوران کبھی کبھار بِلا اِصرار مہمان سےکہے:اور کھائیے! حکمت: یوں مہمان زیادہ رغبت اور مزے سے کھاتا ہے لیکن اِس میں اِصرار کرنا بُرا ہے۔ (بستان العارفین،ص61)

مہمان جب جانے کی اجازت مانگے تو میزبان اُسے روکنے کے لئے اِصرار نہ کرے۔ حکمت: ہو سکتا ہے مہمان کوئی ضَروری کام چھوڑ کر آیا ہو، زبردستی روک لینے کی صورت میں اُس کا نقصان ہوسکتا ہے۔حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمدبن سِیْرین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں:اپنے بھائی کا اِحتِرام اِس طرح نہ کرو کہ اُسے بُرا معلوم ہو۔ (بستان العارفین،ص61)

میزبان پر لازم ہے کہ دعوت کی جگہ یا کہیں اور بھی گانے باجے وغیرہ کا اِہتِمام ہرگز ہرگز ہرگز نہ کرے کہ یہ گناہ کے ساتھ ساتھ مذہبی مہمانوں کی شِرکت میں بھی رُکاوٹ بنے گا۔ جب کھاکر فارغ ہوں تو مہمانوں کے ہاتھ دُھلائے جائیں۔ ایک ہی دسترخوان پر امیروں اور غریبوں کو ایک جیسا کھانا پیش کرنا چاہئے۔ مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں کے حقوق میں پیش نظر رکھنی چاہئیں:

مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔

مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔

اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا۔

اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔

اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔

مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔

مہمان نوازی کے فوائد:

مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ:

افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مہمان کی مہمان نوازی کرنا ایک میزبان کا حق ہے کیونکہ    لا خیر فیمن لا یضیف جو مہمان نواز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں_احیاء العلوم میں امام غزالی فرماتے ہیں کہ جب مہمان آئے تو اس سے یہ نہ پوچھو کہ کھانا لاؤں بلکہ اگر میسر ہو تو پیش کر دو کیونکہ حضرت سیدنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب تمہارا بھائی تم سے ملنے آئے تو اس سے یہ نہ پوچھو کہ کھانا کھاؤ گے بلکہ کھانا پیش کر دو اگر کھا لے تو ٹھیک ورنہ اٹھا لو۔ (احیاء العلوم جلد2 ص40) آیئے اب مہمانوں کے حقوق سنتے ہیں:

(1) مہمان کا اکرام کرنا: مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دسترخوان پر اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کرے اور اچھی گفتگو کرے حضرت سیدنا امام اوزاعی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کون سا کام مہمان کی تعظیم ہے فرمایا خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا اور اچھی بات کرنا- (احیاء العلوم جلد2 ص63)

(2) مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جانا: حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رحمت نشان ہے کہ مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے- (سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمہ جلد4 ص52)

(3) مہمان کو کھانا کھلانے میں جلدی کرنا: حضرت سیدنا حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جلد بازی شیطان کا کام ہے مگر پانچ چیزوں میں جلدی کرنا سنت ہے:

(1) مہمان کو کھانا کھلانے میں

(2) میت کو دفن کرنے میں

(3) کنواری لڑکی کا نکاح کرنے میں

(4) قرض کی ادائیگی میں

(5) گناہوں سے توبہ کرنے میں

(4) مہمان سے نفرت نہ کرنا: مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ سے بغض رکھتا ہے اللہ اسے ناپسند کرتا ہے۔ (احیاء العلوم جلد 2 ص41)

(5) مہمان کی فرمائش پر خوشی کا اظہار کرنا: حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد معلی میں حضرت سیدنا امام زعفرانی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں تشریف لائے تو حضرت سیدنا امام زعفرانی رحمتہ اللہ علیہ روزانہ خانوں کی فہرست بنا کر اپنی باندی کو دے دیا کرتے ایک دن حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ فہرست لے کر ایک کھانے کا نام اپنے ہاتھ سے اس میں بڑھا دیا حضرت سیدنا امام زعفرانی نے ایک کھانا زائد تیار دیکھ کر کہا میں نے تو اس کا حکم نہیں دیا تھا تو باندی نے وہ رقعہ جس میں حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر تھی ان کی طرف بڑھا دیا جب نظر ان کی تحریر پر پڑی تو بہت خوش ہوئے اور خوشی اور مسرت میں باندی کو ازاد کر دیا ۔ (احیاء العلوم جلد2 ص39)

اس کے علاوہ اور بھی مہمانوں کے بہت سے کو بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند اپ کے سامنے پیش کیے ہیں اور ساتھ ساتھ ایک بات یہ بھی کہ جب کوئی مہمان ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہمیں نفرت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ سنت کی نیت سے اس کی مہمان نوازی کرنی چاہیے تاکہ اللہ تعالی بھی ہمیں پسند کرے اللہ تعالی ہمیں مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ نبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم


              آیت مبارکہ ۔هَلْ أَتَنكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب کیا تمہارے پاس الْمُكْرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سلمًا قَالَ سَلَّمَ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ کے فَقَرَّبَةً إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِيِْ ترجمہ کنز الایمان :ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی جب وہ اس پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشنا سالوگ ہیں پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا پھراسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں۔ ( ۲۶ ) الذاریات : ۲۴ تا ۲۷

اہمیت :جیسے مہمان کے احترام میں میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے ۔ اس لیے اگر کسی مسلمان پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں کوئی مہمان آیا ہو تو دوسرے مسلمان کو چاہیے کہ وہ بھی اس کے مہمان کا احترام کرے تا کہ اس کی عزت و قائم و قائم رہے۔ اور مہمان کی بے عزتی کرنے یا کوئی ایسا کام کرنے سے بچے جس سے مہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے ۔ آئیے چند احادیث ملاحظہ کیجئے:

(مہمان نوازی کرنا :)حضرت ابوالا حوص رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیے کہ میں ایک شخص کے یہاں گیا ، اس نے میری مہمانی نہیں کی ، اب وہ میرے یہاں آئے تو اس کی مہمانی کروں یا بدلا دوں۔ ارشاد فرمایا :بلکہ تم اس کی مہمانی کرو ۔ترمذی ، کتاب البر والصلة باب ما جاء في الاحسان والعفو ، 405/3 حدیث (2013)

(عمدہ کھانا کھلانا .)میزبان کو چاہیے کہ مہمان کےسے اچھا کھا نہ پیش کرے۔ اس کے لیے جانور ذبح کرے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اپنے مہمان کے لیے جانور ذبح کرے وہ جانور دوزخ سے کہ اس کا فدیہ ہو جائے گا۔جامع صغیر ، حرف المیم ، ص 526 ، حدیث 8672 )

( مہمان کے ساتھ حسن سلوک کرنا: )3 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص الله تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے ۔ (مسلم ، کتاب الایمان والنذور، باب الحث علی اکرام الجبار - - - الخ،ص23 حدیث: 74)

( مہمان نوازی کی مدت : )میزبان کے لیے اپنے مہمان کی مہمان نوازی تین دن کرے اور اگر اس سے زیادہ کرے اس تو میزبان کے لیے صدقہ ہے۔ روایت ہے حضرت ابو شریح سے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۔ اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور مہمانی (دعوت ) تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے۔ میمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کر دے ۔ "(مسلم، بخاری) مراۃ المناجج ج 6، ص 66 حدیث نمبر 4059)

( مہمان کو دروازے تک چھوڑنا : )مہمان کو دروازے تک پہنچانے میں اسکا احترام کرے . اس کے ساتھ دروازے تک جائے۔ چنانچہ روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں. رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھرکے دروازے تک جائے ۔(مراة المناجح شرح مشكاة المصابيح ج: 6 ، حدیث نمبر : 4258 )

( تکلف نہ کرنا ) :حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ سے بعض رکھتا ہے۔اللہ عزوجل اسے نا پسند کرتا ہے ۔( شعب الایمان للبیھقی ، باب فی اکرام الضيف ، 94/7 ، حدیث نمبر 9599 )

مہمان کے متعلق آیت مبارکہ ۔۔

هَلْ أَتَنكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب کیا تمہارے پاس الْمُكْرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سلمًا قَالَ سَلَّمَ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ کے فَقَرَّبَةً إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنِ ترجمہ کنز الایمان : ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی جب وہ اس پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشنا سالوگ ہیں پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا پھر اسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں۔ ( ۲۶ ) الذاریات : ۲۴ تا ۲۷)

اہمیت : جیسے مہمان کے احترام میں میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے ۔ اس لیے اگر کسی مسلمان پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں کوئی مہمان آیا ہو تو دوسرے مسلمان کو چاہیے کہ وہ بھی اس کے مہمان کا احترام کرے تا کہ اس کی عزت و قائم و قائم رہے۔ اور مہمان کی بے عزتی کرنے یا کوئی ایسا کام کرنے سے بچے جس سے مہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے ۔

آئیے چند احادیث ملاحظہ کیجئے:

مہمان نوازی کرنا :حضرت ابوالا حوص رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیے کہ میں ایک شخص کے یہاں گیا ، اس نے میری مہمانی نہیں کی ، اب وہ میرے یہاں آئے تو اس کی مہمانی کروں یا بدلا دوں۔ ارشاد فرمایا : بلکہ تم اس کی مہمانی کرو ۔(ترمذی ، کتاب البر والصلة باب ما جاء في الاحسان والعفو ، 405/3 حدیث (2013)

(عمدہ کھانا کھلانا .) میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے سے اچھا کھا نہ پیش کرے۔ اس کے لیے جانور ذبح کرے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اپنے مہمان کے لیے جانور ذبح کرے وہ جانور دوزخ سے کہ اس کا فدیہ ہو جائے گا۔جامع صغیر ، حرف المیم ، ص 526 ، حدیث 8672 )

( مہمان کے ساتھ حسن سلوک کرنا: ) 3 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص الله تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے ۔ (مسلم ، کتاب الایمان والنذور، باب الحث علی اکرام الجبار - - - الخ،ص23 حدیث: 74)

( مہمان نوازی کی مدت : ) میزبان کے لیے اپنے مہمان کی مہمان نوازی تین دن کرے اور اگر اس سے زیادہ کرے اس تو میزبان کے لیے صدقہ ہے۔ روایت ہے حضرت ابو شریح کمبی سے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۔ اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور مہمانی (دعوت ) تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے۔ میمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کر دے ۔ " (مسلم، بخاری) مراۃ المناجج ج 6، ص 66 حدیث نمبر 4059)

( مہمان کو دروازے تک چھوڑنا : )مہمان کو دروازے تک پہنچانے میں اسکا احترام کرے . اس کے ساتھ دروازے تک جائے۔ چنانچہ روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں. رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔ (مراة المناجح شرح مشكاة المصابيح ج: 6 ، حدیث نمبر : 4258 )

( تکلف نہ کرنا )حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ سے بعض رکھتا ہے اللہ عزوجل اسے نا پسند کرتا ہے ۔ ( شعب الایمان للبیھقی ، باب فی اکرام الضيف ، 94/7 ، حدیث نمبر 9599 )