آج ہمارے معاشرے میں مہمانوں کی آمد پر میزبان کا بہت بد دلی سے مہمان نوازی کرنا ہماری آخرت کی بربادی بھی بن سکتا یہ سب دین سے دوری کی بناء پر ہے اگر ہم علم دین سیکھیں مہمان نوازی کے حقوق سیکھیں تو ہم کبھی بھی مہمان کو برا بھلا یا نا پسند نہ کریں مہمان نوازی کرنے کا خود حضور ﷺ نے کثیر احادیث مبارکہ میں حکم دیا۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

2۔ آدمی کا اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جانا مسنون ہے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

3۔ ایک بستر آدمی کے لیے، ایک اس کی اہلیہ کے لیے، تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا (اگر ہو تو وہ) شیطان کے لیے ہے۔ (مسلم، ص 889، حديث:2084)

4۔ضیافت کا حق تین دن ہے، اس کے بعد مہمان جو کچھ پائے گا، وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔(بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

5۔ مہمان کی ایک رات (مہمان نوازی کرنا) واجب ہے۔ اگر مہمان صبح تک اس کے گھر رہا (اور اس نے مہمانی نہ کی) تو یہ اس (صاحب خانہ) پر قرض ہے۔ مہمان چاہے تو اس کا مطالبہ (کر کے وصول) کر لے، چاہے تو چھوڑ دے۔


حقوق العباد کا معنیٰ اور اہمیت: حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں فرد یا جماعت کا ضروری حصہ جبکہ حقوقُ العباد کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تمام کام جوبندوں کو ایک دوسرے کے لئے کرنے ضروری ہیں۔ ان حقوق کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ نے یہی ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے معاف نہ ہوں گے۔ ان حقوق میں مہمانوں کے حقوق بھی شامل ہیں۔ اسلام میں مہمان نوازی کو ایک اعلی مقام حاصل ہے یہاں تک کہ ان حقوق کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ آقا جان ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

آئیے اب مہمانوازی کی فضیلت کے بارے میں تھوڑا جانتے ہیں تاکہ مہمانوں کے حقوق صحیح انداز میں ادا کرنے کا جذبہ ملے۔

مہمان نوازی کی فضیلت پر احادیث:

(1) جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)

(2) جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

مہمانوں کے بہت سے حقوق ہیں چند یہاں بیان کئے جا رہے ہیں۔

مہمانوں کے حقوق:

1۔خوشی کا اظہار: مہمان کا پہلا حق تو یہ ہے کہ اس کے آنے پر میزبان خوشی کا اظہار کرے اور جوش بھرے انداز میں اپنی حیثیت کے مطابق اس کا استقبال کرے۔

2۔عزت دینا: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو عزت دے۔ اسکا احترام کرے اسے آرام دہ جگہ پر بٹھائے اور اس کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئے۔

3۔مہمان سے بات چیت کرنا: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو تنہا نہ چھوڑے بلکہ اسکے ساتھ بات چیت کرے تاکہ وہ اجنبیت یا اکیلا پن محسوس نا کرے۔

4۔اچھا کھانا کھلانا: میزبان کو چاہیے کہ اپنی حیثیت کے مطابق مہمان کو اچھا کھانا کھلائے۔خود اسکے برتن میں کھانا ڈال کر دے لیکن اسے بار بار زیادہ کھانے پر مجبور نہ کرے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہمان میزبان کے کہنے پر زیادہ کھا لے اور بیمار ہو جائے اور جب تک مہمان کھانا نہ کھا لے دسترخوان نہ اٹھائے۔

5۔اچھے بستر کا انتظام: اگر مہمان میزبان کے گھر رات گزارے تو میزبان کو چاہیے کہ اسکے لیے موسم کی مناسبت سے اچھے صاف ستھرے اور آرام دہ بستر کا انتظام کرے تاکہ مہمان سکون سے رات گزار سکے اور اسے کوئی تکلیف پیش نہ آئے۔

6۔ذاتی معاملات میں دخل اندازی: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ دے۔

7۔دروازے تک رخصت کرنا: مہمان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ میزبان اسے دروازے تک رخصت کرنے جائے اسے ڈھیروں دعائیں دے کر رخصت کرے۔ فی امان اللہ کہے اور اسے دوبارہ آنے کی دعوت بھی دے۔

مہمان نوازی کے فوائد: مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔ مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

خلاصہ کلام: لہذا ان سب باتوں سے پتا چلا کہ مہمانوں کے حقوق کیا ہیں،اسلام میں ان کی کیا اہمیت و فضیلت ہے اور یقینا ان سب باتوں سے مہمان نوازی کا جذبہ بھی بڑھتا ہو گا۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے اور مہمانوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


(1) نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی عزت کرے۔  (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

(2) سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائیں۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

(3) جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ مہمان کی عزت کرے ایک رات اس کا جائزہ ہے اور تین دن کے بعد صدقہ ہے مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

(4) مہمان کے آنے کے بعد اس کی خیریت معلوم کرے۔ اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں مہمان کو زحمت نہیں رحمت سمجھتے ہیں۔

(5) مہمان کا خندہ پیشانی سے استقبال کرے مہمان کی رہائش کا انتظام کرے کہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔


اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے: روایت ہے حضرت یحیی ابن سعید سے انہوں نے سعید ابن مسیب کو فرماتے سنا کہ رحمن کے خلیل ابراہیم لوگوں میں پہلے وہ ہیں جنہوں نے مہمانوں کی مہمانی کی۔ (مراۃ المناجیح، 6/329)

اس طرح کہ آپ سے پہلے کسی نے مہمان نوازی کا اتنا اہتمام نہ کیا جتنا آپ نے کیا آپ تو بغیر مہمان کھانا ہی نہ کھاتے تھے۔

1۔ مہمان کے حقوق میں سے پہلا حق اس کا احترام ہے اور اس سے مراد مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنا ہے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اور اس کے ہاتھ دھلاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

2۔ مہمان کے حقوق میں سے دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔ اس کی عزت کرنا اس کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

3۔ مہمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی مہمانی کر کے اس سے کوئی جزا یا شکریہ نہ چاہنا۔ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، جَنّۃُ الْخُلْداور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔ (کنز العمال، جز9، 5/110، حدیث:25878)

4۔ اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا یہ بھی مہمان کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔

5۔ مہمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا اور اس کو الوداع کرتے وقت دروازے تک چھوڑ کر آنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

مہمان ملاقاتی کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے، پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہ آیا تھا۔ (مرقات)اس میں اور بہت حکمتیں ہیں آنے والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔

آخر میں اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں مہمانوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور صحیح معنوں میں ہمیں ان کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


فرمان نبوی ہے کہ اس شخص کے پاس خیر و برکت نہیں جس میں مہمان نوازی نہیں۔ (مسند امام احمد، 2/142، حدیث: 17424)

مہمان کی فضیلت اور کھانا کھلانے کے بارے میں حدیث پاک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضور ﷺ سے حج مبرور کے متعلق پو چھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: کھانا کھلانا اور شیر یں گفتاری۔ (معجم اوسط، 5/74، حدیث: 6618)

مہمان کی تلاش کے لئے نکل جایا کرتے: حضرت ابراہیم علیہ السّلام جب کھانا کھانے کا ارادہ فرماتے تو میل دو میل مہمان کی تلاش میں نکل جایا کرتے تھے آپ کی کنیت ابو الضیفان تھی اور آپ کی صدق نیت کی وجہ سے آج تک ان کی جاری کردہ ضیافت موجود ہے، کوئی رات نہ گزرتی مگر آپ کے ہاں تین سے لے کر 10 اور 100 کے درمیان جماعت کھانا نہ کھاتی ہو۔

مہمان کی فضیلت پر شاعر نے کیا خوب کہا: میں مہمان کو کیوں نہ محبوب سمجھوں اور اس کی خوشی سے راحت محسوس کیوں نہ کروں! کہ وہ میرے پاس اپنا رزق کھاتا ہے اور اس پر میرا شکریہ ادا کرتا ہے۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے: نیک کے کھانے کے علاوہ کسی کا کھانا نہ کھاؤ اور نیک پرہیزگار کو کھلانے کے علاوہ کسی کو نہ کھلاؤ۔

دعوت قبول کرنا سنت موکدہ ہے، نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اگر مجھے گائیں یا بکری کی پتلی سی پنڈلی کی بھی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اور اگر مجھے جانور کا دست ہدیہ کیا جائے تو میں قبول کر لوں گا۔ (بخاری، 2/ 166، حدیث: 2567)

میزبانی کے آداب:

کھانا پیش کرنے میں جلدی کریں کیونکہ مہمان کی تعظیم و خاطر میں شمار ہے اس میں اکرام بھی ہے اور اس میں اکرامِ ضیف کا حکم بھی ہے کہ شاید وہ بھوکا ہو اور اسے کھانے کی ضرورت ہو۔

حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جلد بازی کا کام شیطان کا ہے، لیکن پانچ چیزوں میں جلدی کرنا سنت ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہمان کے لیے کھانا لانے میں جلدی کرنی چاہیے۔

کھانا دسترخوان پر بقدر ضرورت لائیں کہ ضرورت سے کم لانا بخل میں داخل ہے۔

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے، مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا میرے آقا کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی اپنے پیارے حبیب ﷺ کے گھر کا مہمان بنائے اور ہمیں مہمانوں کی خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرمائے اور بار بار ہمیں میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں مدنی آقا ﷺ کا مہمان بننے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

مہمان کسے کہتے ہیں؟ کسی کے ہاں فیاضت یا دعوت میں عارضی قیام کے لیے آنے والا شخص، وہ شخص جو عارضی قیام کے لیے کسی کے گھر یا مہمان خانے میں آکر اترے اسے مہمان کہتے ہیں۔

مہمان نوازی خیر و برکت ہے: تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں مہمان ہوں اس گھر میں خیر و برکت اس طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چھری بلکہ اس سے بھی تیز۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)

پیاری اسلامی بہنوں! اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی گئی۔

مہمان کے حقوق:

مہمان کے ساتھ تواضع اور تکریم سے پیش آنا چاہیے۔

مہمان کی خدمت بذات خود اپنے ہاتھوں سے کریں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مہمان کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جاتے وقت صاحب خانہ کم از کم گھر کے دروازے تک اس کے ساتھ جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

مہمان کی عزت کی جائے۔

مہمان کا اچھے سے استقبال کیا۔

پیاری بہنو! سنا آپ نے کہ مہمان کے ساتھ تواضع اور تکریم سے پیش آنا چاہیے جیسا کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو مہمان کی خاطر تواضع کرے اس کا جائزہ ایک دن اور ایک رات ہے اور فیاضت تین دن تک ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے اور اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ یہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے اسے حرج میں ڈال دے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان ہے: جب کو ئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

مہمان کی آؤ بھگت کرنا اس کی دلجوئی کرنا اور اس کو کھلانا پلانا سب سنت ہے اور اس کے بارے میں بہت سے فضائل وارد ہیں، مثلاً مہمان کی آمد پر 10 لاکھ رحمتیں اور 10 لاکھ برکتیں آتی ہیں۔ خدمت کرنے والے کی قبر 70 ہزار فراخ(کھلی) ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں بھی حضرت لوط حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کا واقعہ سورہ ذاریات اور حضرت لوط کا واقعہ سورہ حجر میں بیان ہوا ہے۔

پیاری بہنو! حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے اس وقت تک کھانا تناول نہیں فرماتے جب تک کسی مہمان کو شریک نہ کر لیتے ایک بار دو تین دن گزر گئے کوئی مہمان نہ ملا چند روز یونہی گزرے تھے کہ اللہ کے فرشتے حاضر ہوئے آپ علیہ السلام چونکہ مہمان کے منتظر تھے اس طرف توجہ ہی نہیں رہی کہ یہ فرشتے ہیں کھاتے پیتے نہیں آپ نے ایک بچھڑا ذبح کر کے بھون کر ان کے سامنے رکھا جب ان کے معزز مہمان نے کھانے کی طرف رغبت نہ دی تو اس وقت آپ کی اس طرف توجہ آئی کہ یہ فرشتے ہیں۔ سبحان اللہ! یہ تھا ہمارے نبیوں کا طریقہ۔

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا بھی سنت ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

اے ہمارے پیارے اللہ! ہمیں مہمان کی خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اور بار بار میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں میں پیارے آقا ﷺ کا مہمان بننے کے ساتھ سعادت نصیب فرما۔ آمین


پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اکرام کرے۔  (بخاری، 4/105، حدیث: 6018) حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار بارگاہ رسالت میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ نے ایک یہودی سے ادھار غلہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زرہ گروی رکھ کر ادھار غلہ لیا۔(مسند البزار، 9/315، حدیث: 3863ملخصاً)

مہمان باعث خیر و برکت ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فرمایا: بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اسی طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چھری بلکہ اس سے بھی تیز۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)پیاری پیاری اسلامی بہنو! بیان کردہ حدیث میں اونٹ کی کوہان کی مثال دی گئی، چونکہ اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے لہٰذا اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی گئی۔

مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشنے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

مہمان باعث رحمت: دس فرشتے سال بھر تک گھر میں رحمت بناتے ہیں۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی جب اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی لذیذ غذائیں جنۃ الخلد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنز العمال، جز9، 5/110، حدیث:25878)

سبحٰن اللہ! کسی کے گھر مہمان تو کیا آتا ہے گویا اللہ کی رحمت کی چھماچھم برسات شروع ہو جاتی ہے اس قدر اجر و ثواب الله الله! ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک، دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وہال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتا ہے حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مہمان نوازی کرنا سنتِ مبارکہ ہے، احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ ہمارے پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

مہمان باعث خیر و برکت ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اسی طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چھری، بلکہ اس سے بھی تیز۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے: سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

اے ہمارے پیارے اللہ! ہمیں خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اور بار بار میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں میں میٹھے میٹھے مدنی آقا ﷺ کا مہمان بننے کی سعادت نصیب فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین

جانِ عالَم ﷺ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ آپ ﷺ کی کامل حیات تا صبحِ قیامت ہر حوالے سے لوگوں کے لیے نمونہ ہے یہاں تک کہ سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کا ہر ہر گوشہ ہی روشن و منور ہے چنانچہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مہمانوں کے چند حقوق بیان کیے جا رہے ہیں:

1) خاطر تواضع: مہمان کا ایک حق یہ ہے کہ اس کی خاطر تواضع کی جائے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیئے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

2) تکریم و ضیافت: مہمان کا اکرام و ضیافت بھی اس کا ایک حق ہے۔ حضرت ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن اس کی پوری خاطر داری کرے، اپنے مقدور بھر اس کے لیے تکلف کا کھانا تیار کرائے) اور ضیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد جو موجود ہو وہ پیش کرے) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

3) خدمت: خدمت حقِ مہمان کے ساتھ ساتھ سنّتِ مبارکہ بھی ہے۔ اس کی فضیلت میں آقا کریم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔ (تمہید الفرش، ص 18) لہذا مہمان کی خدمت میں تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا جائے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

4) مدد کرنا: مسلمان پر مہمان کی مدد کرنا بھی لازم اور مہمان کے حقوق میں سے ہے۔ حضرت مقدام ابن معدیکرب سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سُنا: جو کسی قوم کا مہمان ہو پھر مہمان محروم رہے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد کرنا لازم ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مہمانی اس کے مال اور کھیت سے حاصل کرے۔ (مراۃ المناجیح، 6/95)

5) دروازے پر الوداع کرنا: مہمان کا یہ بھی حق ہے کہ اسے دروازے تک جا کر رخصت کیا جائے اس میں مہمان کا احترام بھی ہے اور یہ سنتِ مبارکہ بھی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو تمام حقوق بالخصوص مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


دینِ اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ہر ایک کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور اس پر خوشخبری و وعیدات بیان کی گئی ہیں کہ حقوق اللہ پر بھی اتنی وعیدات نہیں ہیں جتنی حقوق العباد پر بیان کی گئی ہیں چاہے کوئی بادشاہ ہے چاہے فقیر حقوق العباد کا معاملہ سب کے لیے یکساں بیان کردیاگیا ہے اسی طرح مہمان کے بھی میزبان پر کچھ حقوق لازم ہیں جن کو بجالانا میزبان کی ذمہ داری ہے۔

اچھے انداز میں مہمان نوازی کرنا عمدہ اخلاق اور تہذیب کی علامت ہے، انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی خصلت ہے، اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت مولی علی کرّم اللہُ وجہہ الکریم ارشاد فرماتے ہیں: مجھے تین چیزیں بڑی پیاری ہیں: (1) مہمان کی خدمت (2) گرمی کے روزے اور (3) تلوار سے جہاد۔ (مراۃ المناجیح، 3/293) مہمان کی عزت کرنا اللہ پاک کی عزت کرنا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 20/272) مہمان کے حقوق جو علما نے ذکر فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں کچھ حقوق کے تحت آتے ہیں اور کچھ آداب ہیں کہ ہمیں ان کا خیال رکھناچاہیے:

1) میزبان کے لیے ایک ادب یہ ہے کہ مہمان کی خاطرتواضع میں جلدی کرے اور مہمان کو پتہ نہ چلنے دے اس ڈر سے کہ وہ منع نہ کردے۔

2) جب مہمان آئے تو اسے کھانا جلد کھلایا جائے۔

3) مہمان کو کھانے کے لیے نرمی سے بلانا چاہیے۔

4) میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے کھانا کھانے پر خوش ہو اس کے کھانا ترک کرنے پر خوش نہ ہو۔

5) مہمان کو وداع کے وقت کچھ دور تک پہنچانے جائے یہ سنت بھی ہے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)