اللہ کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(بخاری جلد 4 ص 105 حدیث نمبر6019)

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے:حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مراۃالمناجیح ج6 ص 52) علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطال ج4ص118)

مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔(شرح النووی علی المسلم ج2ص 18)

مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔([ابن ج4 ص51 حدیث 3356]) حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہےاس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔([مرۃ االمناجیح ج 6 ص 67])

(2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

(3)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔([کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878])

میزبان کے لئے آداب:

(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل (Fruit) بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ (Medical Point of View) سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ (Delicious)کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔([احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً])

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


شریعت مطہرہ نے ہر کام کے کچھ اصول و ضوابط بیان کئے ہیں جن کو پیشِ نظر رکھنے سے دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں اور یہ ہمارے پیارے دین اسلام کا خاصہ ہے کہ یہاں قرآن و سنت، تہذیب، ملکی قوانین کے پیش نظر ہر چیز کے جدا جدا حقوق و آداب بیان کئے جاتے ہیں آج ہم مہمان کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے تاکہ ہم ان حقوق کو پڑھ کر یاد کرلیں اور عمل کی سیڑھی چڑھنا بھی نصیب ہو۔  چند حقوق بیان کئے جاتے ہیں

مہمان کے حقوق میں سے ہے کہ مہمان کی آمد پر خوش ہوا جائے اچھے الفاظ و انداز سے استقبال کیا جائے ۔

ان وفد عبد القیس قدموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مرحبا بالوفد الذین جاءوا غیر خزایا ولا ندمی

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب عبدالقیس کا وفد آیا تو آپ نے فرمایا وفد کو خوش آمدید تم ہمارے پاس آنے پر رسوا ہوگے نہ ہی شرمندہ ۔ (بخاری شریف، کتاب الادب، باب قول الرجل : مرحبا، جلد8 صفحہ 41، حدیث 6176، دار طوق النجاۃ)

مہمان کی عزت کی جائے حدیثِ پاک میں ہے : اذا جاءکم الزائر فاکرموہ جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اسکی تعظیم کرو ۔(مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:156، حدیث:330)

مہمان کو کھانا پیش کیا جائے اور خرچ کرنے میں تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کے پاس کوئی مہمان آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو اہل خانہ کے گناہ بخشوا کر جاتا ہے۔ (مسند الفردوس ،صفحہ 432، حدیث 3896،)

مہمان کے ساتھ عزت و تکریم کے ساتھ پیش آیا جائے ۔ لا خیر فیمن لایضیف اس بندے میں کوئی بھلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا ۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:155، حدیث:329)

آئیے مہمان کے چند مزید حقوق سنئے:

مہمان کی میزبانی میں جلدی کرنا۔ میزبانی اپنے ہاتھ سے کرنا کہ اس طرح مہمان مانوس ہوگا۔ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرانا

کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے۔

*مہمانوں کے کھانے سے مسرور ہونا اور نہ کھانے سے مغموم ہونا کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام آ جائے

*مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا تاکہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ از راہ تکلف اس سے روکیں گے۔

*مہمان کی واپسی کے وقت دروازے تک الوداع کہنا۔

مہمان کے حقوق میں سے ہے۔

حضور سیدی داتا گنج بخش علیہ الرحمہ نے مہمان نوازی کے چند حقوق بیان فرمائے ہیں:لکھتے ہیں: جب مہمان آئے تو نہایت خندہ پیشانی سے ( یعنی مسکرا کر پرجوش انداز میں) استقبال کیجئے،،عزت کی جگہ پر بٹھائیے،مہمان کا آنا بھی حق کی جانب سے سمجھے جانا بھی حق کی جانب سے سمجھے اور مہمان کو بندۂ حق سمجھے(یعنی یہ سمجھے کہ مہمان اللہ پاک کی مرضی سے آیا ہے جب واپس جائے تو یہی خیال کرے اور مہمان کو اللہ پاک کا بندہ جان کر مہمان نوازی کرے پھر دیکھئے کیسے مہمان نوازی کا مزہ دوبالا ہوتا ہے)

اگر مہمان تنہائی چاہے تو اس کیلئے اہتمام کردے۔اگر مہمان کو جلوت کی ضرورت ہے (یعنی مہمان کا دل چاہے کہ کوئی اس کے پاس بیٹھے باتیں کرے تو) میزبان اس کے پاس بیٹھے اس کے ساتھ اچھی اچھی باتیں کرے۔اگر مہمان کو اچھے کپڑے مہیا کرنے کی طاقت ہو تو وہ بھی کرے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو تکلف نہ کرے ۔

یہ بیان کرنے کے بعد داتا صاحب علیہ الرحمہ نے ایک بڑا پیارا اور دلنشیں ادب بیان فرمایا۔

سنیئے داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میزبان کو چاہیے کہ اس کے شہر میں جو (عاشقانِ رسول) علمائے کرام اللہ پاک کے نیک بندے رہتے ہیں اپنے مہمان کو ان سے ملوانے کیلئے بھی لے کر جائے۔(کشف المحجوب، کشف الحجاب التاسع۔۔۔الخ، باب الثانی والعشرون۔۔الخ، صفحہ407)احیاء العلوم میں ہے

کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے :2کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے 3مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے

4جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے۔

5مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔(احیاءالعلوم، ج2،ص21)

اللہ کریم ہمیں مہمان نوازی کے آداب سیکھ کر خوب مہمان نوازی کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! کوئی بھی اچھی خصلت اور  روایت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو - دنیا کی تمام تہزیبوں اور ثقافتوں میں جو اچھی عادات ورسوم رواج ہیں اسلام میں ان کے بارے میں تعلیمات موجود ہیں ۔ اعلی اخلاقی اقدار اور روایات میں سے بہترین روایت مہمان نوازی ہے دین اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے مہمان نوازی کی ترغیب دلائی گئ ہے اور مہمان نوازی کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔

جیسا کہ 1-حدیث پاک میں ہے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (آدمی کو تین بستر بنانے چاہیے!) (1) ایک اپنے لیے (2)ایک اپنی زوجہ کیلئے (3)اور تیسرا مہمان کیلئے ۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب مایستحب من اتخاذ..... الخ، جلد2، صفحہ :199،حدیث 372)

2-رسول ذیشان مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفا یعنی جو اللہ پاک پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کیا کرے. (بخاری، کتاب الادب من کان یومن باللہ.... الخ، صفحہ :1500،حدیث 6018)

3-ابوشریح سے مروی ہے میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری آنکھوں نے دیکھا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ ارشاد فرمارہے تھے: " جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسائے کی تکریم کرے - اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کےدن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر (یعنی پہلے دن خوب اعزازواکرام کے ساتھ) تکریم کرے - کسی نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! "جائزہ" کیا ہے"

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ایک دن رات (مہمان کا خصوصی ) اعزاز اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے (بخاری، الادب المفرد، ص 259)

4-امام بخاری رحمہ اللہ نے مہمان اور اہل خانہ کے ساتھ رات کو عشا کے بعد گفتگو کرنے"کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے - اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں تشریف لے گئے پھر اپنے مہمانوں کے پاس واپس تشریف لائے اور ان کے ساتھ رات کا کھانا کھایا ۔ (صحیح بخاری،کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السرمع الضیف والاھل، ج1ص24)

میزبان پہ فرض ہے کہ مہمان کی عزوآبرو کا لحاظ رکھے- اسے قولی فعلی یا کسی طریقے سے تکلیف دینے سے گریز کرے حتی کہ اس کے سامنے ایسی احادیث اور اقوال کو بھی بیان نہ کرے جس سے اسے شرمندگی ہو اور کوشش کرے کہ مہمان خوش وخرم رخصت ہو۔

5-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا - آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ازواج کے پاس اس کاکھانا منگانے کیلئے ایک آدمی کو بھیجا - تو انہوں نے جواب دیا ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کون ہے؟ جو اس مہمان کو اپنے ساتھ لے جایا یہ فرمایا کہ کون ہے؟ جو اس کی میزبانی کرےایک انصاری نے عرض کیا کہ میں (یارسول اللہ) پس وہ اپنی زوجہ کے پاس لے گیا اور اس سے کہا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے مہمان کی خوب خاطر کرنا اس نے کہا ہمارے پاس تو صرف بچوں کا کھانا ہے تو انصاری نے کہا تم کھانا تیار کرو اور چراغ روشن کرو بچے اگر کھانا مانگیں تو انہیں سلادینا اس بی بی نے کھانا تیار کرکے چراغ روشن کیا اور بچوں کو سلادیا پھر وہ گویا چراغ کو ٹھیک کرنے کیلئے کھڑی ہوئی - مگر اسے گل کردیا اب وہ دونوں میاں بیوی مہمان کو یہ دکھاتے رہے کہ کھانا کھارہے ہیں حالانکہ (درحقیقت ) انہوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری جب وہ انصاری صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں آے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک تمھارے کام سے بڑا خوش ہوا پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود حاجت مند ہیں اور جو اپنے نفس کی حرص سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے - (صحیح بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب قول اللہ:{ویؤثرون علی أنفسهم ولو..... } ج5،ص34، رقم الحدیث3798. )

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کرنےوالا بناے اور جو ہم نے احادیث طیبہ کی روشنی میں مہمانوں کے حقوق پڑھنے کو ملے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہے حضور صلی  اللہ علیہ والہ وسلم مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے تھے اور ان مہمانوں کے ساتھ نہآیت ہی خوشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہمانوں کے حقوق بھی بیان فرمائے آئیے میں آپ کے سامنے چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں ۔

مہمان کے ساتھ دروازے تک جانا : (1) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4258 )

مہمان کا احترام کرنا : (2) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)

مہمان کی خاطر تواضع کرنا: (3) حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اوریومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رہے۔ ‘‘۔ ( فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308)

مہمان سے نفرت نہ کرنا: (4)مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ سے بغض رکھتا ہے اللہ اسے ناپسند کرتا ہے ۔ ( احیاء العلوم جلد 2 صفحہ 41)


مہمان نوازی اچھے اخلاق اور تہذیب کی علامت اور اسلام کے اداب میں سے ہے جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اتنی تیزی سے اتی ہے جتنی تیزی سے چھری اونٹ کا کوہان کاٹ دیتی ہے میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے کھانا کھانے پر خوش ہو اس کے کھانا چھوڑنے سے مسرور نہ ہو مہمان کی وجہ سے گھر میں خیر و برکت اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اترتی ہے الغرض مہمان کی عزت و تکریم اور اس کی خدمت میں فائدہ ہی فائدہ ہے

مہمان کی تعظیم ایمان کا تقاضا(1) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلح رحمی کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کرے یا خوش رہے (بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف حدیث 6138(

مہمان کو تکلیف نہ دو(2) مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اللہ عزوجل اسے ناپسند کرتا ہے۔ (شعب الایمان للبھیقی کی باب فی اکرام الضعیف حدیث 95 99)

مہمان کا اکرام(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور یوم اخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ( بخاری مسلم)

مہمان نمازی سے محروم ہو تو کیا کریں(4) جامع صغیر ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے جو شخص کسی قوم کے مہمان بنے اور وہ مہمان نوازی سے محرومی کی حالت میں صبح کرے تو اس کی مدد کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے حتی کہ وہ اپنی رات کی مہمانی کا حق ان کی زراعت اور مال میں سے لے سکتا ہے (جامع صغیر سیوطی حدیث)(2984 )


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم اور ترغیب دیتا ہے کھانا پیش کرنا تو ایک ادنی پہلو ہے اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورت کی دیکھ بھال بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدر اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہے گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کوزحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دسترخواہ سکڑ گۓ ہیں آۓ آج میں آپ کو مہمان کے حقوق بتانے کی کوشش کرتا ہوں اللہ پاک سے دعا ہے کہ مجھے حق اور سچ بیان کرنے کی توفیق عطاء فرمائے مہمان نوازی کے بہت سے فوائد ہے جن میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں

نمبر 1: مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تووہ بھی ہمارے ساتھ عزت اور احترام والا سلوک کریں گے ۔

نمبر *2 مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے جب ہم آپ دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں

نمبر 3: مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا انتظام کرنا چاہیے

نمبر 4: مہمانوں کی تکریم جزوایمان ہے کہ اگر کوئی شخص ان سے اہانت آمیز برتاؤ کرے تو میزبان پر فرض ہے کہ مہمان کی جانب سے مدافعت کرے کیونکہ اس سے خود میزبان کی توہین ہوتی ہے چنانچہ مہمان نوازی کے متعلق حدیث پاک ملاحظہ

حدیث پاک : ہو فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہےکہ آدمی جب اللہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتاہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دہتا ہے جو پورے سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے کہ اسکو جنت کی پاکیزہ غذائیں جنتہ الخلد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔ ( کنزالعمال *الحدیث*25878 )

اللہ پاک ہمیں مہمان کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے امین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں فی زمانہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غور وفکر کرتا ہے تو بہت ساری چیزوں اور لوگوں سے اس کا تعلق و واسطہ ہوتا ہے تو اسلام نے  قرآنِ مجید اور احادیث میں ان کے حقوق بیان کئے ہیں جیسے نماز کا طریقہ ادائیگی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے اسی طرح حج و عمرہ زکوٰۃ و عیدین کا طریقہ کار وغیرہ بیان کیا گیا اور ان کے آداب و حقوق بھی بیان ہوئے

آج ہم مہمان کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔ مہمان کے حقوق درج ذیل ہیں :

ایک روایت میں ہے : ان وفد عبد القیس قدموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مرحبا بالوفد الذین جاءوا غیر خزایا ولا ندمی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب عبدالقیس کا وفد آیا تو آپ نے فرمایا: وفد کو خوش آمدید تم ہمارے پاس آنے پر رسوا ہوگے نہ ہی شرمندہ ۔ (بخاری شریف، کتاب الادب، باب قول الرجل : مرحبا، جلد8 صفحہ 41، حدیث 6176، دار طوق النجاۃ)

اس سے پتہ چلا مہمان کو اچھے انداز سے ویلکم کرنا چاہیے اور اس کے استقبال میں خوبصورت جملے کہنے چاہیے۔ ایک روایت میں ہے : اذا جاءکم الزائر فاکرموہ جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اسکی تعظیم کرو (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:156، حدیث:330)

حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرے اور جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ حق بولے یا سکوت کرے یعنی بُری بات زبان سے نہ نکالے اورجو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ’’ المجعم الکبیر ‘‘ ، (الحدیث : 135، ج 16 ، ص 332)

ان دونوں حدیثوں سے پتہ چلا کہ مہمان کی عزت کرنی چاہیے اور اس کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ ایک روایت میں ہے

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کے پاس کوئی مہمان آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو اہل خانہ کے گناہ بخشوا کر جاتا ہے۔ (مسند الفردوس ،صفحہ 432، حدیث 3896،)

اس حدیث پاک سے پتہ چلا مہمان کے آنے کا تو فائدہ ہی فائدہ ہے ۔ ایک حدیث پاک میں ہے : لا خیر فیمن لایضیف

اس بندے میں کوئی بھلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:155، حدیث:329)

اسی طرح ایک حدیث پاک میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔ (سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ، باب الضیافۃ،الحدیث: 3358 ،ج 2 ،ص 52۔)

اس سے پتہ چلا واپسی پر مہمان کو دروازے تک رخصت کیا جائے۔

اللہ کریم ہم سب کو تمام حقوق سیکھ کر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


مہمان نوازی ہماری ثقافت اور مذہب دونوں میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام میں مہمانوں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے، اور اس حوالے سے قرآن و حدیث میں متعدد احکامات اور روایات موجود ہیں۔ یہاں مہمانوں کے حقوق پر ایک مختصر مضمون پیش کیا گیا ہے:

مہمان نوازی کسی بھی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے اور اس سے انسانیت اور اخلاقیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں مہمانوں کے حقوق اور ان کی عزت و تکریم پر زور دیا گیا ہے۔ خاص طور پر اسلام میں، مہمان نوازی کو ایک عظیم نیکی قرار دیا گیا ہے۔

اسلام میں مہمان نوازی: اسلامی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی قدر قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں مہمان کو خوش آمدید کہنا، اس کے آرام و سکون کا خیال رکھنا، اور اس کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرنا صاحب خانہ کی ذمہ داری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کیسے اپنے مہمانوں کے لئے بہترین انتظام کرتے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی۔ ان کی مہمان نوازی کے واقعہ کو قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ . ترجمہ : اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔ جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا، سلام ناشنا سا لوگ ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جو موٹا تازہ بچھڑا ان کے پاس تھا اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔ (الذاریات 24)

مہمانوں کے حقوق: 1. استقبال اور عزت: مہمان کا استقبال خوشی اور مسکراہٹ کے ساتھ کرنا چاہئے اور اس کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔

2. راحت کا خیال: مہمان کو ہر ممکن آرام اور سکون فراہم کرنا چاہئے، جیسے کہ اسے صاف ستھرا بستر اور تازہ ہوا مہیا کرنا۔

3. کھانے پینے کا اہتمام: مہمان کے لئے مناسب اور لذیذ کھانے کا انتظام کرنا چاہئے، چاہے گھر کے معمولی وسائل ہی کیوں نہ ہوں۔

4. وقت کی قدر: مہمان کو ایسے وقت میں بلانا چاہئے جب میزبان کے لئے سہولت ہو، اور اس کی موجودگی سے میزبان کو تکلیف نہ ہو۔

5. مناسب رخصتی: مہمان کو رخصت کرتے وقت اس کی مزید ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور اسے عزت کے ساتھ الوداع کہنا چاہئے۔

آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض مرتبہ وفود کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد فرماتے۔ ایک دفعہ قبیلہ قیس کا وقد آپ صلی اعلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی الم نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا، چناں چہ انصاران مہمانوں کو لے گئے۔ صبح وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی ہم نے دریافت فرمایا: تمہارے میزبانوں نے تمہاری کیسی خدمت کی ، انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی الیم بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے ، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔

انس بن مالک سے مروی ہے۔ کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا يأكل وحده رسول اللہ صلی علیم اکیلے کھانا تناول نہیں فرمایا کرتے تھے۔ (25 مكارم الأخلاق ومعاليها ومحمود طرائقها، لأبي بكر محمد بن جعفر الخرائطي السامري (المتوفى: 327هـ)، تقديم وتحقيق: أيمن عبد الجابر البحيري، دار الآفاق العربية، القاهرة، الطبعة: الأولى، 1419 هـ - 1999 م، باب ما جاء في إطعام الطعام وبذله للضيف وغيره من أبناء السبيل، ص 119)

نتیجہ:

مہمان نوازی ایک ایسی صفت ہے جو معاشرے میں محبت، بھائی چارے اور انسانیت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ نہ صرف مہمان کے لئے بلکہ میزبان کے لئے بھی باعث برکت ہوتی ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، اور ہمیں چاہئے کہ ہم ان تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے مہمانوں کی خدمت کو اپنے لئے اعزاز سمجھیں۔

مہمان نوازی کے یہ اصول نہ صرف ہمارے مذہبی فرائض ہیں بلکہ ایک بہتر اور پرامن معاشرے کی تشکیل کے لئے بھی ضروری ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے گھروں کو مہمانوں کے لئے ایک پناہ گاہ بنائیں اور ان کی خدمت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

پیارے اسلامی بھائیو اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے بخاری،ج4،ص105، حدیث:6019 )

نبیّ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء، حدیث:1641)

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ علیہ السلام نے مجھے ایک یہودی سے ادھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زِرہ گروی رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔( مسند البزار، ج 9، حدیث: 3863)

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878)

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مہمان نوازی اچھے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی علامت ہے۔ اور اسلام کے آداب میں سے ہے مہمان کی عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضع کرنا انبیاء اکرام علیہم السلام کی سنت اور اولیاء عظام رحمھم اللہ تعالی کی خصلت امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے تین چیزیں بڑی پیاری ہیں۔

1مہمانوں کی خدمت

2 گرمی کے روزے

3 تلوار سے جہاد

فتاوی رضویہ شریف میں ہے : مہمان کا اکرام عین اکرام خدا ہے جب کبھی آ جائے تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اس کی خاطر مدارت کرنی ۔

1۔مہمان نوازی سنت ابراھیمی :ترجمہ کنز الایمان : اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراھیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشنا سا لوگ ہیں پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا پھر اسے ان کے پاس رکھا کیا کیا تم کھاتے نہیں ۔ پ 26 الذاریات/آیت 26 تا 27)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے : مفسرین نے فرمایا کہ حضرت ابراھیم بہت ہی مہمان نواز تھے بغیر مہمان کے کھانے تناول نہ فرماتے اس وقت ایسا اتفاق ہوا کے پندرہ روز سے کوئی مہمانا نہ آیا تھا آپ اس غم میں ان مہمانوں کو دیکھتے ہی آپ نے ان کے لیے کھا نہ لانے میں جلدی کی چونکہ آپ کے یہاں گائے بکثرت تھی اس لیے بچھڑے کا بھونا ہوا گوشت سامنے لایا گیا، (تفسیر خزائن العرفان پ 12 آیت نمبر (29)

( 2مہمان کا اکرام) مہمان کے اکرام کا مطلب یہ ہے کہ خندہ پیشانی سے اس کا خیبر مقدم کیا جائے اگر کھانے کا وقت ہو تو بقدر استطاعت کھانے سے اس کی تواضع کی جائے بلکہ ایک حدیث کی رو سے یہ بھی مہمان کا حق ہے کہ اگر استطاعت ہو تو پہلے دن اس کے لیے خصوصی کھانا تیار کیا جائے جس کو حدیث. میں (جائزہ) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری عن ابی شریح رضی الله عنه)

البتہ ان تمام باتوں میں محض رسمیات نام و نمور اور تکلفات سے پرہیز کرنا چاہیے- مہمان کے اکرام کا سب سے اول مطلب یہ ہے کہ اس کو محض آرام پہنچانے کی فکر کی جائے ۔ لہذا اگر اسے کھانے سے تکلیف ہو تو محض رسم کی خاطر کھانے پر اصرار کرنا اکرام کے خلاف ہے اس صورت میں اس کا اکرام یہی ہے کہ اس کے آرام اور منشا کو مد نظر رکھا جائے۔

( 3فرمان مصطفے صلی الله عليه وسلم)

اللہ کے محبوب دانائے غیوب نے فرمایا : : مہمان کہ لیے تکلیف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اورجو مہمان سے نفرت کرتا ہے۔ واللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اور جو شخص اللہ جل سے نفرت کرتا ہے اللہ عزوجل اسے ناپسند کرتا ہے (البحر زخار بمسند البراز الحدیث 2513ج6)

فقیر و غنا کے لیے غنا قبول کرنا سنت ہے بعض آسمانی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک میل چل کر مریض کی عیادت کرو دو میل چل کر جنازہ میں شریک ہوں تین مل جل کر دعوت قبول کرو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے بکرے کے پائے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا (صحیح بخاری کتاب الباب باب القلیل من الھبھ الحدیث 287ص202)

(4مہمان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ) حضرت سیدنا ! ابو ہریرہ ر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله عز وجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ۔اسے چاہیے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص الله عز وجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ اورقیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی۔بات کرے یا خاموش رہے . ) ) بخاری کتاب الادب وباب اکرام الفيف الخ حدیث نمبر 6138)

(5 دوست کو کھانا کھلانے کی برکت ) حضرت سیدنا سلام بن مسكين عليه رحمة الله المتین حضرت سیدنا ثابت سے روایت فرماتے ہیں ایک مرتبہ چند لڑکے لکڑیا کاٹنے کے لیے جنگل کی طرف جا رہے تھے۔ جب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قریب سے گزرے تو آپ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا : و اپسی پر ان میں ایک لڑکا ہلاک ہو جائے گا جب ان کی واپسی ہوئی تو سب سلامت تھے اور کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا تھا حواریوں نے عرض کی یا نبی علیہ السلام اپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکا ہلاک ہو جائے گا لیکن اس سب بالکل سلامت ہیں فرمایا ان لڑکوں کو میرے پاس بلاؤ جب وہ حاضر خدمت ہوئے تو اپ علیہ السلام نے فرمایا اپنے سروں سے لکڑیوں کے گٹے اتار دو سب نے لکڑیاں نیچے اتار دی فرمایا اب انہیں کھولو جب اکٹھے کھولے گئے تو اس میں سے ایک گٹے میں ایک بہت خوفناک مردہ اژدھا ایک کانٹے سے الجھا ہوا تھا آپ علیہ السلام نے اس لڑکے سے پوچھا تم نے کون سی بڑی نیکی کی ہے اس نے عرض کی میں نے اج کوئی بڑی نیکی نہیں کی ہاں اتنا ضرور ہے کہ اج ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست اپنے ساتھ کھانا نہیں لایا تھا تو میں نے اس سے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیا لڑکے کے بعد سن کر اپ علیہ السلام زبان سے فرما رہے تھے بس اتنی سی نیکی کی وجہ سے آج تو ہلاک ہونے سے محفوظ رہا۔ (عیون الحکایات جلد دوم مترجم ص335،336 )


پیارے پیارے اسلامی بھائیو دین اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے یہاں تک کہ اس نیک عمل کو ایمان کی بنیاد تقاضوں میں شامل کیا گیا ہے)  حدیث پاک میں ہے کہ ہمارے اقا مولا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (من کان یؤمن باللہ والیوم الاخرفلیکرم ضیفا) یعنی جو اللہ پاک پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کیا کرے ) (سبحن اللہ)

دیکھیےکیسی پیاری بات ہے رسول ذیشان مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑ کر ذکر فرمایا ) گویا یہ بتا دیا کہ مہمان کی عزت کرنا مسلمان کی اچھے انداز میں خاطر داری کرنا ایمان کا بنیادی تقاضہ ہے جو مسلمان ہے جو بندہ اللہ پاک پر ایمان رکھتا ہے قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے اخلاق میں بنیادی بات شامل ہونا ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کیا کریں)

(مہمان کی عزت و تکریم کرنا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقف اجنبی فقیر اور غنی کا فرق کےبغیر مطلقا مہمان کی عزت و تکریم کو ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا ہے(عربی کاترجمہ) ابو شریح العدوی سے مروی ہے-

میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے- جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرما رہے تھے۔ جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے - اور جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر-یعنی پہلے دن خوب اعزاز و کرام کے ساتھ تکریم کرے- کسی پوچھا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائزہ کیا ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دن رات (مہمان کا خصوص) اعزاز و اکرام کرنا مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہےاور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے اور جو شخص اللہ پر اور اخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہےاسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے ۔ ( دارالبشائر السلامیتہ بیروت الطبعتہ-1409- 1989 صفحہ-259)

مہمان نوازی کے آداب: حدیث پاک میں ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اذاجاءکم الزائرفاکرموہ جب تمہارے پاس کوئی مہمان ائے تو اس کی تکریم کرو(مسندالفردوس جلد 2 صفحہ432حدیث3896)

یہاں دیکھیں ہمیں حکم دیا گیا کہ مہمان کی تکریم کرو اس کی عزت کرو اب اس عزت کا کیا مطلب ہےوہ کون کون سے کام ہیں جو ہم اپنے مہمان کے لیے کریں گے تو اسے مہمان کی تکریم کہا جائے گا اس تعلق سے قران کریم میں ایک عظیم مہمان نواز کی بے مثال مہمان نوازی کو بیان کیا گیا ہے۔ ( مکارم الاخلاق للخرائطی -باب ماجاءفی اکرام الضیف. الخ جلد 2صفحہ 156 حدیث330(مہمان گناہ بخشواجاتا ہے)

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے - جب کوئی مہمان کسی کے یہاں اتا ہے تو اپنا رزق لے کر اتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(سبحان اللہ)

کیا شان ہے: بعض دفعہ لوگ مہمان کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں ایسوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ مہمان جب آتا ہے تو آپنا رزق لے کر اتا ہے جب جاتا ہے تو صاحب کانہ کے گناہ بخشواجاتا ہے۔

دعا کرتےہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو مہمان کی مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مہمان کی عزت اور ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور مہمان کی اچھی طرح خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین آمین ثم آمین جزاک اللہ خیرا


دین اسلام ایک پاک اور منزہ مذہب ہے اس میں ہر ایک کی عزت اور حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے چاہے وہ حقوق دینی لحاظ سے ہوں یا دنیاوی لحاظ سے ہوں۔ہر ایک کو اس کے منسب کے و عہدے کے لحاظ سے اسکا حق دیا جاتا ہے انہیں حقوق میں سے ایک حق مہمان کا حق بھی ہے جسے دین اسلام نے ایک احسن انداز میں بیان کیا ہے۔

آئیے مہمان کے حقوق کے بارے میں 5احادیث مبارکہ پڑھیے اور پر عمل کرنے کی بھی نیت کرلیجئے ۔

(1) گھر کے دروازے تک جائے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد:6,حدیث نمبر:4258)

(2) مہمان کا اکرام کرے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، کہ رسول الله صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص اللہ (عز وجل) اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ (عز وجل) اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے اور جو شخص اللہ (عزوجل) اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ بھلی بات بولے یا چپ رہے۔(صحیح مسلم، كتاب الإيمان باب الحث على إكرام الجار إلخ،الحديث : 77(38) ، ص44)

(3) مہمان کی خاطر تواضع (عاجزی) کرنا۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِی اللهُ تَعَالَى عَنْہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: “ جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(کتاب:فيضان رياض الصالحین جلد:3,حدیث نمبر:308)

(4) مہمان کی تعظیم کرنا : حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے ہی روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ

مہمان کی تعظیم کرے، جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے رشتہ دار سے صلہ رحمی کرے، جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(کتاب:فيضان رياض الصالحین جلد:3,حدیث نمبر:314)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے مہمانوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے انکا ادب احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم