شریعت مطہرہ نے ہر کام کے کچھ اصول و ضوابط بیان کئے ہیں جن کو پیشِ نظر رکھنے سے دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں اور یہ ہمارے پیارے دین اسلام کا خاصہ ہے کہ یہاں قرآن و سنت، تہذیب، ملکی قوانین کے پیش نظر ہر چیز کے جدا جدا حقوق و آداب بیان کئے جاتے ہیں آج ہم مہمان کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے تاکہ ہم ان حقوق کو پڑھ کر یاد کرلیں اور عمل کی سیڑھی چڑھنا بھی نصیب ہو۔  چند حقوق بیان کئے جاتے ہیں

مہمان کے حقوق میں سے ہے کہ مہمان کی آمد پر خوش ہوا جائے اچھے الفاظ و انداز سے استقبال کیا جائے ۔

ان وفد عبد القیس قدموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مرحبا بالوفد الذین جاءوا غیر خزایا ولا ندمی

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب عبدالقیس کا وفد آیا تو آپ نے فرمایا وفد کو خوش آمدید تم ہمارے پاس آنے پر رسوا ہوگے نہ ہی شرمندہ ۔ (بخاری شریف، کتاب الادب، باب قول الرجل : مرحبا، جلد8 صفحہ 41، حدیث 6176، دار طوق النجاۃ)

مہمان کی عزت کی جائے حدیثِ پاک میں ہے : اذا جاءکم الزائر فاکرموہ جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اسکی تعظیم کرو ۔(مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:156، حدیث:330)

مہمان کو کھانا پیش کیا جائے اور خرچ کرنے میں تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کے پاس کوئی مہمان آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو اہل خانہ کے گناہ بخشوا کر جاتا ہے۔ (مسند الفردوس ،صفحہ 432، حدیث 3896،)

مہمان کے ساتھ عزت و تکریم کے ساتھ پیش آیا جائے ۔ لا خیر فیمن لایضیف اس بندے میں کوئی بھلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا ۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:155، حدیث:329)

آئیے مہمان کے چند مزید حقوق سنئے:

مہمان کی میزبانی میں جلدی کرنا۔ میزبانی اپنے ہاتھ سے کرنا کہ اس طرح مہمان مانوس ہوگا۔ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرانا

کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے۔

*مہمانوں کے کھانے سے مسرور ہونا اور نہ کھانے سے مغموم ہونا کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام آ جائے

*مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا تاکہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ از راہ تکلف اس سے روکیں گے۔

*مہمان کی واپسی کے وقت دروازے تک الوداع کہنا۔

مہمان کے حقوق میں سے ہے۔

حضور سیدی داتا گنج بخش علیہ الرحمہ نے مہمان نوازی کے چند حقوق بیان فرمائے ہیں:لکھتے ہیں: جب مہمان آئے تو نہایت خندہ پیشانی سے ( یعنی مسکرا کر پرجوش انداز میں) استقبال کیجئے،،عزت کی جگہ پر بٹھائیے،مہمان کا آنا بھی حق کی جانب سے سمجھے جانا بھی حق کی جانب سے سمجھے اور مہمان کو بندۂ حق سمجھے(یعنی یہ سمجھے کہ مہمان اللہ پاک کی مرضی سے آیا ہے جب واپس جائے تو یہی خیال کرے اور مہمان کو اللہ پاک کا بندہ جان کر مہمان نوازی کرے پھر دیکھئے کیسے مہمان نوازی کا مزہ دوبالا ہوتا ہے)

اگر مہمان تنہائی چاہے تو اس کیلئے اہتمام کردے۔اگر مہمان کو جلوت کی ضرورت ہے (یعنی مہمان کا دل چاہے کہ کوئی اس کے پاس بیٹھے باتیں کرے تو) میزبان اس کے پاس بیٹھے اس کے ساتھ اچھی اچھی باتیں کرے۔اگر مہمان کو اچھے کپڑے مہیا کرنے کی طاقت ہو تو وہ بھی کرے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو تکلف نہ کرے ۔

یہ بیان کرنے کے بعد داتا صاحب علیہ الرحمہ نے ایک بڑا پیارا اور دلنشیں ادب بیان فرمایا۔

سنیئے داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میزبان کو چاہیے کہ اس کے شہر میں جو (عاشقانِ رسول) علمائے کرام اللہ پاک کے نیک بندے رہتے ہیں اپنے مہمان کو ان سے ملوانے کیلئے بھی لے کر جائے۔(کشف المحجوب، کشف الحجاب التاسع۔۔۔الخ، باب الثانی والعشرون۔۔الخ، صفحہ407)احیاء العلوم میں ہے

کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے :2کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے 3مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے

4جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے۔

5مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔(احیاءالعلوم، ج2،ص21)

اللہ کریم ہمیں مہمان نوازی کے آداب سیکھ کر خوب مہمان نوازی کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم