اللہ پاک نے میزان کے متعلق قرآن کریم میں جابجاہ تذکرہ فرمایا ہے ، ان میں سے چند پڑھیئے:

(1) بھاری پلے والے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)

(2) رائی کے دانے کے برابر: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)

قرآنی تصورِ میزان صرف ترازو یا وزن کا تصور نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا جامع اصول ہے جو انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی نظام تک ہر سطح پر عدل، انصاف، حق و باطل کی پہچان، اور توازن کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس دنیا میں میزان کو قائم رکھنے کا حکم دیا، بلکہ قیامت کے دن بھی اعمال کی میزان پر تول ہونے کی خبر دی۔ آج کا انسان اگر دنیا میں بے چینی، ظلم، اور انتشار سے بچنا چاہتا ہے تو اسے قرآنی میزان کے اصول کو اپنانا ہوگا۔ جہاں نہ زیادتی ہو، نہ کمی، اور ہر معاملے میں انصاف اور توازن ہو۔

اللہ ہمیں قرآن مجید کے میزان کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے، اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم