علما کی صحبت کے فضائل

Thu, 27 Aug , 2020
3 years ago

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح ترا طالح کند

نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے برے لوگوں کی صحبت برا بنا دیتی ہے ۔

قرآن پاک میں ہے*إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ۔۔ترجمة اللہ عزوجل سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں

حدیث*ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم اس کے متعلق کیا ارشاد ہے جو کسی قوم سے محبت رکھتا ہے اور ان کے ساتھ ملا نہی یعنی ان کی صحبت حاصل نہی ہوئ یا اُس نے اِن جیسے اعمال نہی کیے تو ارشاد فرمایا آدمی اس کے ساتھ ہے جس سے اسے محبت ہے(صیح البخاری؛حدیث؛٦١٦٩،ج،4،صحفہ148) اس حدیث معلوم ہوتا ہے کہ اچھوں سے محبت اچھا بنادیتی ہے اور اس کا حشر اچھو ں کے ساتھ ہوگا اور بدوں کی محبت برا بنادیتی ہے اور اس کا حشر ان کے ساتھ ہوگا۔

ایک عالم کی صحبت کے بڑے فوائد ہیں کہ انسان اس سے بہت کچھ دینی معلومات کے حوالے سے سیکھ کر نہ صرف اسے خود اختیار کر سکتا ہے بلکہ دوسروںس کی نجات کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔

حدیث :بڑو ں کے پاس بیٹھا کرو علماء سے باتیں پوچھا کرو اور حکما سے میل جول رکھو (الجامع الصغیر ؛الحدیث: ٣۵٧٧،صحفہ ٢١٨)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: ’’اچھی مجلس اور بُری مجلس کی مثال اس طرح ہے جیسے خوشبو بیچنے والا اور بھٹی جھونکنے والا۔ خوشبو بیچنے والا یا تو تمہیں خوشبو دے گا یا تم اس سے خوشبو خرید لو گےیا تم اس سے پالو گے اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑے جلائے گا، یا تم اس سے بُری بُو پالوگے ‘‘۔

اللہ تعالی کے نیک بندوں کی صحبت میں رہنا چاہیے، ان کی محفلوں میں شریک ہونا چاہئے، اس کے بے شمار فائدے ہیں، انسان تو ظاہر ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ،جانور بھی بزرگوں کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے اصحاب کہف کا کتا ان کی صحبت میں رہ کر ان کے قصہ کا جزء اور حصہ بن گیا اور قرآن کریم نے اصحاب کہف کے ساتھ ان کے کتے کا بھی ذکر کیا ہے ۔

اور علماء کی صحبت سے نیکی اور بدی کی پہچان ہوگی علماء کی صحبت کی برکت سے خوف خدا میں اضافہ ہوگا اور علماء کی صحبت سے نماز روزہ حج زکاة درست ہوتی ہے علماء کی صحبت سے ایمان کی حفاظت ہوتی ہے اور جنت میں جب جنتیوں کو حکم ہوگا کی مانگو تو سب علماء سے سوال کریں گے کہ کیا مانگیں اس وقت بھی لوگ علماء کے محتاج ہونگے۔

امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہے کہ بزگوں کا مقولہ ہے کہ علماء ہی انسان ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


علمائے دین عوام الناس کےلئے  علم دین کا سر چشمہ ہوتے ہیں جن سے علوم دین کے پیاسے اپنی علم کی پیاس بجھاتے ہیں اور یہ ان کے لیے راہ ہدایت کے ستارے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر وہ اپنے زندگی کے اسفار طے کرتے ہیں۔

زندگی میں بندہ جن کی صحبت اختیار کرتا ہے تو انہی کا اثر بھی اس کی زندگی پر پڑتا ہے اسی لئے پیارے آقا مدینہ والے مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے علماء کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہے

حدیث پاک میں آتا ہے کہ: عالم بنو یا طالب علم بنو یا علماء کو سننے والے بنو یا علم و علماء سے محبت رکھنے والے بنو اور پانچویں نہ بننا ہلاک ہو جاؤ گئے۔ (مجمع الزوائد جلد 1 صفحہ 328)

علمائے دین کی صحبت اختیار کرنے کے بےشمار فوائد ہیں جیسا کہ حضرت سیدنا فقیہ ابو لیث سمرقندی رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ جوشخص عالم کی مجلس میں جائے اس کو سات فائدے ملتے ہیں جو کہ کچھ ترمیم و اضافہ جات کے ساتھ ذیل میں درج ہیں۔

1۔حدیث کی رو سے ایسا شخص جو عالم کی صحبت اختیار کرنے والا ہو وہ اس حالت میں عبادت کے اندر ہوتا ہے۔(فضیلت العلم و العلما صفحہ نمبر 8)

2۔۔ایسا شخص علم دین کا ذخیرہ حاصل کر لیتا ہے۔

3۔۔ایسا شخص رب کی رحمتوں کے نزول کی جگہ ہوتا ہے ۔

4۔۔ علماء کی صحبت میں بیٹھنے سے بندہ مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور گناہوں سے بچا رہتا ہے۔

5۔۔نیکیاں کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور گناہوں سے نفرت بڑھتی ہے۔

6۔۔ایسا شخص بروز قیامت بفضلہ تعالٰی علماء کرام کی شفاعت پائے گا (احیاء العلوم جلد نمبر 1 صفحہ 26 )

7۔۔علماء کی زیارت کرنا ایک سال کے نماز و روزہ سے بہتر ہے۔ (فیضان علم و علماء صفحہ نمبر 15 )

8۔علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انکی صحبت میں بیٹھنے والے کو انبیاء کی میراث (علم) میں سے بڑا حصہ ملتا ہے۔(فیضان علم و علماء صفحہ نمبر 18)

9۔۔علماء کی صحبت میں رہنے والے کے عقائد میں مضبوطی ہوتی ہے۔

10۔۔علماء کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے مردہ دلوں کو زندگی ملتی ہے۔(فیضان علم و علماء صفحہ 28،29 مع ترمیم و اضافہ جات)

حکمران علماء کے قدموں میں:

ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید نے حضرت ابو معاویہ رضی اللہ عنہ کی دعوت کی جبکہ وہ آنکھوں سے معذور تھے۔جب آفتابہ (ڈھکنےدار دستہ لگا ہوا لوٹا) اور چلمچی (ہاتھ منہ دھونے کا برتن) ہاتھ دھونے کے لیے لائے گئے تو ہارون الرشید نے چلمچی خدمتگار کو دی اور آفتابہ خود لے کر ان کے ہاتھ دھلائے اور آپ نے کہا کہ جانا کون آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہے؟فرمایا کہ نہیں،عرض کی گئی کہ ہارون الرشید ! بزرگ دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمانے لگے جیسی آپ نے علم کی عزت کی ایسی ہی اللہ تعالی آپ کی عزت کرے۔ہارون الرشید نے کہا کہ اس دعا کے لیے ہی میں نے یہ کیا ہے۔(ملفوظات اعلی حضرت صفحہ نمبر 145 )

حکیم لقمان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی اپنے بیٹے کو نصیحت:

مروی ہے کہ حضرت لقمان رحمۃاللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے تو علماء کی مجالس کو لازم کر اور حکماء کا کلام غور سے سن کیونکہ بے شک اللہ عزوجل مردہ دل کو حکمت کے نور سے زندہ فرماتا ہے جیسے مردہ زمین کو موسلادھار بارش کے ذریعے زندہ کرتا ہے۔(فضیلت العلم والعلماء صفحہ نمبر 9)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں علماء کی صحبت میں رہ کر علم دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سارے علماء کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان بزرگ ہستیوں کے طفیل اللہ ہماری ہمارے والدین، پیرومرشد،اساتذہ کرام اور ساری امت کی مغفرت فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و علی آلہ و صحبہ اجمعین و بارک و سلم۔

ہم کو اے عطار سنی عالموں سے پیار ہے۔

ان شاءاللہ دو جہان میں اپنا بیڑا پار ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحبت کے اثرات سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا، حدیثِ مبارَکہ کے ساتھ ساتھ بزرگانِ دین نے بھی اس پر بہت کچھ ارشاد فرمایا ہے، یہ حقیقت ہے کہ آدمی جس  طرح کے لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے، لہٰذا علَما کی صحبت میں بیٹھنے والا علم سے مَحبّت کرنے والا بن جاتا ہے۔ صحیح العقیدہ عالم کی صحبت میں بیٹھنا دین پر استقامت اور عقائد کی دُرُسْتی و ایمان کے لئے سلامتی ہے جو کہ ایک مسلمان کا قیمتی سرمایہ اور دارَین کی فلاح کا باعث ہے۔علمائے کرام کی صحبت علم اور تقویٰ تک پہنچنے کا وسیلہ ہے، جس کے سبب بندہ اللہ پاک کے حضور بزرگی اور ابدی سعادت کا مستحق ہوجاتا ہے کہ حضرت سیّدناامامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ اس بلند مقام پر کیسے پہنچے، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں بخل نہیں کیا اور نہ ہی ان سے استفادہ کرنے میں شرم محسوس کی۔([1])

علما کی صحبت کے فوائد

٭فقیہ ابواللّیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص عالم کی مجلس (صحبت) میں جائے اس کو سات فائدے حاصل ہوتےہیں اگرچہ اس سے استفادہ نہ کرے:(1) طلبہ میں شمار کیا جاتا ہے(2) جب تک اُس مجلس میں رہنا ہے گناہوں اور فسق و فجور سے بچتا ہے (3)جب گھر سے نکلتا ہے تو اس پر رحمت نازل ہوتی ہے (4)اس رحمت میں کہ جلسۂ علم پر نازل ہوتی ہے شریک ہوتا ہے (5)جب تک علمی باتیں سنتا ہےتو اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں (6)فرشتے ان کے عمل سے خوش ہوکرانہیں اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں تو وہ بھی ان میں ہوتا ہے اور(7) اس کا ہر قدم گناہوں کا کفارہ، درجات کی بلندی اور نیکیوں میں زیادتی کا سبب بن جاتاہے([2]) ٭علما کی صحبت علما کی زیارت کے حُصول کا بھی ذریعہ ہے کہ حضرت سیّدناامام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا کہ عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے بہتر ہے([3])٭بندہ جب تک علما کی صحبت میں رہتا ہے تو عبادت میں ہے جیسا کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہما سے روایت ہے علما کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے([4]) ٭باعمل علماء کی صحبت آدمی کو باعمل بنادیتی ہے اور بارہا دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان توبہ کی طرف مائل ہوجاتا ہے نمازوں کا شوق اور گناہوں سے بچنے کی رغبت بڑھنے لگتی ہے اللہ پاک اپنا خوف اور خشیت ان کے دلوں میں رکھ دیتا ہے ٭علماکی صحبت کا انتخاب گویاروئے زمین کی مقدّس جگہوں کا انتخاب ہے کہ فرمانِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ہےکہ علما کی مجالس (صحبت ) سے الگ نہ رہو اس لئے کہ اللہ نے رُوئے زمین پر علما کی مجالس سے مکرّم کسی مٹی کو پیدا نہیں فرمایا۔([5])

علماء کی صحبت سے مزید تعلیم و تربیت، بردباری و عاجزی، علما کی شفاعت، جنّت کا حصول، اللہ کا محبوب بننے ، شیطان سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ، بُرے لوگوں کی صحبت وجہالت اور قیامت کے روز ملنے والی حسرت سے بچاؤ جیسے فوائد ملتے ہیں۔

([1] )درمختار، 1/127 ([1] )تنبیہ الغافلین ،ص237 ماخوذاً([1] )منہاج العابدین ، ص11 ([1] ) کنز العمال،5/64،رقم:28572([1] )احیاء العلوم،1/460۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں



([1] )درمختار، 1/127

([2] )تنبیہ الغافلین ،ص237 ماخوذاً

([3] )منہاج العابدین ، ص11

([4] ) کنز العمال،5/64،رقم:28572

([5] )احیاء العلوم،1/460


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دنیا میں کامیاب شخص کی صحبت کے اپنے فائدے ہیں۔ مثلا اگر کوئی شخص کامیاب تاجر کی صحبت اختیار کرتا ہے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتا ہے تو نتیجتاً وہ بھی ایک کامیاب تاجر بن جاتا ہے۔

اس طرح اگر کوئی بہادروں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس شخص میں بھی بہادری کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا۔ اسی طرح اگر کوئی سست آدمی محنتوں کی صحبت میں رہتا ہے تو بالاخر وہ بھی محنتی بن جاتا ہے۔

الغرض ہر شخص کی صحبت کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی ہیں۔ جو شخص ان کی صحبت میں بیٹھتا ہے۔

وہ شخص اچھا تاجر بھی بنتا ہے، بہادر بھی بنتا ہے، سستی کاہلی سے نجات پار کر چست اور محنتی بھی بنتا ہے۔ اور وہ بزرگ ہستیاں علمائے کر ام ہیں ،ان کی صحبت کے بہت سارے دنیوی اور اخروی فوائد ہیں۔حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:

عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز ، ہزار بیماروں کی عبادت اور ہزار جنازوں میں حاضر ہونے سے بہتر ہے۔

کسی نے عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورقرات قرآن ؟ یعنی کیا علم کی مجلس میں حاضر ہونا قرات قرآن سے بھی افضل ہے؟ فرمایا: آیا(کیا) قرآن بے(بغیر) علم کے۔ نفع بخشتا ہے؟یعنی فائدہ قرآن کا بے علم کے حاصل نہیں ہوتا۔(فیضانِ علم و علما، صفحہ ۱۸)

حضرت سیدنا امام غزالی علیہ الرحمۃ نے روایت کیا ہے: عالم کو ایک نظر دی کھنا سال بھر کی نماز روزہ سے بہتر ہے۔

مزید مجلس علما کے ساتھ فائدے :

حضرت سیدنا فقیہ ابواللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص عالم کی مجلس میں جاوے اس کو سات فائدے حاصل ہوتے ہیں، اگرچہ اس سے استفادہ (یعنی اپنی کوشش سے کوئی فائدہ حاصل )نہ کرے۔

۱۔ اوّل: جب تک اس مجلس میں رہتا ہے گناہوں اور فسق و فجور سے بچتا ہے۔

۲۔دوم : طلبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

۳۔ سوم : طالبِ علم کا ثواب پاتا ہے۔

۴۔ چہارم: اس رحمت میں کہ جلسہ علم ( علم کی مجلس)پر نازل ہوتی ہے شریک ہوتا ہے۔

۵۔ پنجم : جب تک علمی باتیں سنتا ہے ، عبادت میں ہے

۶۔ششم: جب کوئی دقیق ( مشکل) بات ان (علما) کی اس کی سمجھ میں نہیں آتی تو دل اس کا ٹوٹ جاتا ہے اور شکستہ دلوں ٹوٹے دل والوں) میں لکھا جاتا ہے (حاشیہ)

۷۔ ہفتم: علم و علمأ کی عزت اور جہل و فسق (بے علمی و برائی) کی ذلت سے واقف ہوجاتاہے۔

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: جو ثواب کہ عالم کی زیارت اور اس کی مجلس میں حاضر ہونے پر موعود (یعنی جس ثواب کا وعدہ) ہے۔(وہ) اس سے علاوہ ہے۔(فیضانِ علم و علما، صفحہ ۲۸)

اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کی صحبت اختیار کرنے کی ، خدمت کرنے اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جیسوں کی صحبت میں بیٹھیں گے ویسوں کے جیسے بن جائیں گے۔ برے لوگوں کی صحبت سے ہماری ذات میں برائیاں اپنی جگہ بناتی ہیں جبکہ اچھے لوگوں کی صحبت سے ہماری ذات میں اچھائیاں جگہ لیتی ہیں۔

اچھے لوگوں میں سرِ فہرست وہ علمائے دین ہیں جو کہ سنی ہوں صحیح عقیدہ رکھتے ہوں اور شریعت کے پابند ہوں۔ ایسے لوگوں کی صحبت تو ضرور اپنانی چاہیے کہ علم میں اضافہ تو ہوگا ہی ساتھ میں اپنی تربیت بھی ہوگی، حلم اور صبر جیسی صفت آئیں گی، وقار بھی بلند ہوگا، بات کرنے کا سلیقہ آئے گا، آداب سے آگاہی ملے گی،اور بھی بہت ساری اچھائیاں لینے کو ملیں گی۔

ان کی مجلس میں بیٹھنے سے ان پر رحمتوں کی جو برسات ہوتی ہے اس کے کچھ چھینٹے ہم پر آجائیں گی۔ علما پر رحمتوں کی برسات کے بارے میں ترمذی شریف کی حدیث پاک ہے : تحقیق  اللہ اور اُس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹى اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلى یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائى سکھاتا ہے۔ ( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، ۴/  ۳۱۱، حدیث : ۲۶۹۰،فیضان علم و علما)

 حضرت سیِّدُنا فقیہ ابواللیث سمرقندى رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ جو شخص عالم کى مجلس میں جائے اُس کو سات فائدے حاصل ہوتے ہیں اگرچہ اُس سے استفادہ (یعنی اپنی کوشش سے کوئی فائدہ حاصل) نہ کرے۔

(1) : جب تک اُس مجلس میں رہتا ہے گناہوں اور فسق وفُجور سے بچتا ہے۔

(2) : طلَبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

(3) : طلب علم کا ثواب پاتا ہے۔ 

(4) : اُس رحمت میں کہ علم کی مجلس پر نازل ہوتى ہے شریک ہوتا ہے۔

(5) : جب تک علمى باتیں سنتا ہے عبادت میں ہے۔

(6) : جب کوئى مشکل بات اُن(علما) کى اِس کى سمجھ میں نہیں آتى تو دل اس کا ٹوٹ جاتا ہے اور ٹوٹےدل والوں میں لکھا جاتا ہے۔

(7) :  علم وعلما کى عزت اور جہل وفسق(بے علمی وبرائی) کى ذلت سے واقف ہوجاتا ہے۔

مولانا نقی علی خان رحمة الله عليه اس قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : جو ثواب کہ  عالم کى زیارت اور اُس کى مجلس میں حاضر ہونے پر موعود(یعنی جس ثواب کا وعدہ) ہے(وہ)اس سے علاوہ ہے۔

سبحان اللہ! علما کی زیارت کا ثواب اور ان کی مجلس میں شرکت کرنے کا ثواب ملاحظہ کیجیے :

امام غزالى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی نے روایت کیا کہ عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کى نماز وروزہ سے بہتر ہے۔(منھاج العابدین، الباب الاول، ص۱۱)

اور حضرت سیِّدُنا ابوذر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کى حدیث میں ہے :  عالم کى مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز، ہزار بیماروں کى عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسى نے عرض کیا : یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور قراءتِ قرآن؟ یعنى کیا علم کى مجلس میں حاضر ہونا قراءتِ قرآن سے بھى افضل ہے؟ فرمایا : کیا قرآن بغیر علم کے نفع بخشتا ہے؟ یعنی قرآن کا فائدہ بغیر علم کے حاصل نہیں ہوتا۔

اللہ پاک ہمیں برے لوگوں کو چھوڑ کر نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجےمگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ۔(سورۃ النحل ، آیت ، 43)

ایک عالم کی صحبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:اعمال میں جلدی کرلو اندھیری رات کی طرح فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے ،آدمی صبح کو مؤمن ہوگا اور شام کو کافر ،اور شام کو مؤمن ہوگا اور صبح کوکافر ، آدمی اپنے دین کو دنیا کے فائدے کے بدلے بیچ دے گا ۔(صحیح مسلم )

اسی طرح اس مفہوم کی روایت دیگر صحابہ سے بھی ثابت ہیں۔

اب انسان سوچتا ہے کہ عقل انسانی تو دن بدن ترقی کرتی جارہی ہے تو بھلا یہ کیوں اور کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کا شعور اتنا گر جائے لوگ ایک دن میں متعدد بار اپنا دین بدلیں گے تو اسکی ایک وجہ تو حدیث میں مال کا فتنہ بیان ہوئی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ علم اٹھ جائے گا اورجہالت ،زنا اور شراب نوشی بڑھ جائے گی ،آدمی کم ہوجائیں گے اور عورتیں بڑھ جائیں گی حتی کہ 50عورتوں کا ایک ہی نگران ہوگا ۔(صحیح بخاری )

اب علم کیسے اٹھے گا ؟دوسری حدیث میں فرمایا: اللہ تعالی لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر علم نہیں نکالے گا بلکہ علم چلاجائے گا علماء کے چلے جانے سے ،حتی کہ کوئی عالم باقی ہی نہیں رہے گا ،پھر لوگ اپنے رہبر و پیشوا جہال کو بنالیں گے ،لوگ ان سے مسائل پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے ،ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کر ڈالیں گے ۔(صحیح بخاری)

اس حدیث سے علماء کی صحبت کی اہمیت بالکل واضح ہوگئی ،ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ غیر عالم کو وہ حیثیت و مرتبہ دے دینا جو ایک عالم کا ہونا چاہئے اور ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا گمراہی کا سبب ہے۔

عالم کی صحبت کے فوائد تو احادیث کی روشنی میں واضح ہوگئے ،اب ایک ایسا انسان جو عالم تو نہیں مگر نیک ہے اس کی صحبت بھی مفید ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ یعنی مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے آئینہ کی طرح ہے ۔

(سنن ابوداؤد)

قارئین خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب ایسے مؤمن کی صحبت اختیار کی جائے گی اور ہر مؤمن ایسا بننے کی کوشش کرے گا تو ایسی صحبت کس حد تک مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

اسی طرح ایک نیک مؤمن انسان کی صحبت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی قابل غور ہے ،چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ، یعنی : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے مؤمن آدمی کے کسی کی صحبت مت اختیار کر، اور تیرا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی نہ کھائے۔(سنن ابوداؤد )

لہذا ہماری حد درجہ ترجیحی بنیادوں پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہماری صحبت اور ہمارے اہل مجلس علماء ہوں ،یا کم از کم نیک صالح مؤمن کی صحبت ضرور اختیار کی جائے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے، عالم کی زیارت کرنا، اس کے پاس بیٹھنا، اس سے باتیں کرنا اور اس کے ساتھ کھانا عبادت ہے۔( فردوس الاخبار2/375۔ حدیث 7119)

مشہور مقولہ ہے ”الصحبة الموثرۃیعنی محبت اثر اندازہوتی ہے، علمائے کرام کی صحبت سے بے شمار فوائد ملتے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں ۔

علم کے موتی ملتے ہیں۔

عقائد و اعمال کی اصلاح ہوتی ہے،

کردار و افکار میں پاکیزگی آتی ہے

اخلاق و عادات اچھے ہوتے ہیں۔

طبیعت میں عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے۔

ایمان کی حفاظت کا ذہن ملتا ہے۔

عبادت کا ذوق ملتا ہے،

اللہ کی معرفت اور رضا کا جام ملتا ہے

خوف خدا عشقِ الہی و عشقِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ملتا ہے۔

گناہوں کے امراض سے شِفا ملتی ہے۔

علم پر عمل کا جذبہ ملتا ہے۔

اسی لیے تو کہا جاتا ہے۔

صحبت صالح ترا صالح کنت

صحبت طالع ترا طالع کند

یعنی اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی صحبت برا بنادیتی ہے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں علما کی صحبت اختیار کرکے اللہ کی رحمت پلک جھپکنے کی مقدار بھی جدا نہیں ہوتی۔( نصیحتوں کے مدنی پھول بوسیلہ احادیث رسول ص 16)

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

تَرجَمۂ کنز الایمان:اے لوگوں اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو (پارہ 14 سورہ النحل آیت 43)

علما کی صحبت سے اس آیت کریمہ پر عمل کی توفیق ملتی ہے علما کی صحبت سے وہ علم حاصل ہوتا ہے جو سینکڑوں کتب کے مطالعے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے :جو شخص علما ءکی مجلس میں کثرت سے شریک ہوتا ہے اس کی زبان کی رکاوٹ دور ہوجاتی ہے ، ذہن کی الجھنیں ختم ہوجاتی ہیں، جو کچھ وہ حاصل کرتا ہے وہ اس کے لیے باعث مسرت ہوتا ہے اس کا علم اس کے لیے ایک ولایت ہے اور فائدہ مند ہوتا ہے۔( مکاشفۃ القلوب ، باب 87 ص557)

تفسیر کبیر میں ہے عالم کی صحبت میں حاضر ہونے میں کم از کم سات فائدے ہیں، خواہ علم حاصل کرے یا نہ کرے۔

۱۔ وہ شخص طالب علموں میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کا سا ثواب پاتا ہے۔

۲۔جب تک اس کی مجلس میں بٹھا رہے گا گناہوں سے بچا ر ہے گا۔

۳۔ جس وقت یہ اپنے گھر سے طلبِ علم کی نیت سے نکلتا ہے ہر قدم پر نیکی پاتا ہے۔

۴۔ علم کے حلقے میں رحمتِ الہی نازل ہوتی ہے جس میں یہ بھی شریک ہوجاتا ہے۔

۵۔ یہ علم کا ذکر سنتا ہے جو کہ عبادت ہے۔

۶۔ وہاں جب کوئی مشکل مسئلہ بنتا ہے جو اس کی سمجھ میں نہیں آتا اور اس کا دل پریشان ہوتا ہے تو حق تعالیٰ کے نزدیک منکسیر القلوب (عاجز و بے بس لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے)

۷۔ اس کے دل میں علم کی عزت اور جہالت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔( تفسیر کبیر پارہ ۱، سورة البقرہ تحت آلایہ 31۔ 103/۱)

چنگے بندے دی محبت یارو جویں دکان عطاراں

سودا بھاویں مل نہ لئے ہلے آوزڑں ہزاراں

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحبت  ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو نیک راہ پربھی چلا سکتی ہے، اللہ کے قریب بھی کرسکتی ہے دور بھی ، صحبت کا اثر حق ہے اس لیے ایسی صحبت اختیار کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردے اور آج کے دور میں وہ صحبت علمائے کر ام کی ہے اس لیے علمائے کرام کی صحبت کا حکم دیا گیا، علمائے کرام کی صحبت کے بہت فوائد ہیں ادنی فائدہ یہ ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والا گناہ پر قائم نہیں رہتا ہے توفیق تو بہ مل جاتی ہے اور شقاوت سعادت سے تبدیل ہوجاتی ہے۔(بخاری کی روایت ج۲، ص ۹۴۸)

اس کو یوں سمجھو کہ آگ کے پاس بیٹھو گے تو حرارت ملے گی برف کے پاس بیٹھو گے تو ٹھنڈک پہنچے گی اور عطار کی دکان پربیٹھنے سے خوشبو اور کوئلے کی دکان پربیٹھنے سے خوشبوؤں اور کوئلے کی دکان پر بیٹھنے سے کپڑے سیاہ ہوں گے ایسے ہی علمائے کرام کے پاس بیٹھو گے تو علم میں اضافہ ہوگا اور رب کے قریب ہونگے اس لیے مولانا روم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :کہ جو خدا کی بارگاہ میں بیٹھنا چاہے وہ خدا کے محبوبوں کے پاس بیٹھے اس کو خدا کی بارگاہ میں بیٹھنے کے نظارے آئیں گے۔

جو اللہ کے پاس بیٹھنے کی لذت پانا چاہے وہ علمائے كرام کے پاس بیٹھے ،اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ کنزالایمان، اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔(التوبہ 119)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں علمائے کرام کی مجلس سے الگ نہ رہو اس لیے کہ اللہ عزوجل نے روئے زمین پر علمائے کرام کی مجلس سے مکرم کسی کو پیدا نہ فرمایا اس لیے ہمیں ایسی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو دین و دنیا آخرت میں ہمیں فائدہ پہنچائے اور وہ علمائے کرام کی صحبت ہے جس طرح قطرہ دریا میں مل کر دریا ہوجاتا ہے اور علمائے کرام کی صحبت کا فائدہ یہ ہے کہ علمائے کرام کی صحبت ناقص کو کامل بنادیتی ہے اس لیے علمائے کرام کی صحبت اختیار کرنا چاہیے کہ ا سکے بہت فائدے ہیں کہ ہمیں اپنے دین کے بارے میں وہ علم ملتا ہے جو شاید ہم نہیں جانتے او ر اس علم کی بدولت ہم اپنے دین کو پہنچانے گے، بلکہ ان کی صحبت کی وجہ سے صحیح غلط حق و باطل میں فرق کرسکیں گے اپنی تمام فرائض و اجبات حقو ق اللہ بھی صحیح ادا کر پائیں گے جیسا کہ ان کو اد اکرنے کا حق ہے۔

اللہ عزوجل ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں کے پاس بیٹھنا نصیب فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


حضرتِ سیدنا حاتم اصم  رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا شقیق بلخی علیہ الرحمۃ القوی کے شاگرد تھے، ایک دن استاد صاحب نے ان سے پوچھا۔ آپ 30 سال سے میر ی صحبت میں ہیں اتنے عرصے میں کیا حاصل کیا؟ تو حضرت سیدنا حاتم علیہ الرحمۃ نے عرض کی۔ ’’ میں نے علم کے 8 فوائد حاصل کیے جو میرے لیے کافی ہے اور مجھے امید ہے کہ ان پرعمل کی صورت میں میری نجات ہے۔ حضرت سیدنا شقیق رحمۃ اللہ علیہ نے ان فوائد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فوائد یوں بیان کیے ج،ان میں سے چند یہ ہیں۔

پہلا فائدہ :

میں نے لوگوں کو بنظرِ غور دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی محبوب و معشوق ہے، جس سے وہ عشق و محبت کا دم بھرتا ہے، لیکن لوگوں کے محبوب ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ مرض الموت تک ساتھ دیتے ہیں اور کچھ قبر تک پھر تمام واپس لوٹ جاتے ہیں اور اسے قبر میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں او ران میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ قبر میں نہیں چاتا، لہذا میں نے غور غور و فکر کے بعد دل میں کہا، بندے کا سب سے اچھا محبوب اور بہترین دوست تو وہ ہے جو اس کے ساتھ قبر میں جائے اور وہاں کی وحشت و گھبراہٹ میں اس کا غم خوار بنے، تو مجھے سوائے نیک اعمال کے کوئی اس قابلِ نظر نہ آیا تو میں نے نیک اعمال کو اپنا محبوب بنالیا، تاکہ یہ میرے لئے قبر میں چراغ بن جائے، وہاں میرا دل بھلائے اور مجھے تنہا نہ چھوڑے۔

دوسرا فائدہ :

میں نے دیکھا کہ ہر آدمی دنیا کا مال و دولت جمع کرنے اور اسے ذخیر ہ کرنے میں مشغول ، تو میں نے اللہ عزوجل کے اس فرمان ِلازوال میں غور کیا۔ مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ- ترجمہ کنزلایمان:جو تمہارے پاس ہے ہوچکے گا اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس ہے وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔(پ ۱۴،النحل ۔۹۶)

پس میں نے جو کچھ جمع کیا تھا اللہ عزوجل کی رضا کے لیے فقرا ء و مساکین میں تقسیم کردیا تاکہ رب کریم عزوجل کے پاس ذخیرہ ہوجائے۔(اور مجھے فائدہ پہنچے)

تیسرا فائدہ :

میں نے دیکھا کہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور نفسانی خواہشات کی جانب بڑی تیزی سے بڑھتے ہیں، تو پھر میں نے اللہ عزوجل کے اس فرمان پر غور کیا۔ وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۴۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا ۔ تو بے شک جنّت ہی ٹھکانا ہے( النٰزعٰت،40،41)

اور میرا ایمان ہے کہ قرآن کریم حق اور اللہ عزوجل کا سچا کلام ہے، پس میں نے اپنے نفس کی مخالفت شروع کردی، ریاضت اور مجاہدات کی طرف مائل ہوا اور نفس کی کوئی خواہش پوری نہ کی یہاں تک کہ وہ اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے راضی ہوگیا اور اپنا سر جھکا دیا۔

چھٹا فائدہ :

میں نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کی برائی بیان کر تے ہیں اور خوب غیبت کا شکار ہوتے ہیں، اس کے اسباب پر غور کیا تو معلوم ہوا تو یہ سب حسد کی وجہ سے ہورہا ہے، اور اس حسد کی اصل وجہ شان و عظمت ، مال و دولت اور علم ہے تو اس میں نء قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں غور کیا۔ -نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا (۳۲) تَرجَمۂ کنز الایمان: ہم نے اُن میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا(الزخرف ، 32)

تو میں نے اس بات کو باخوبی جان لیا، شان و عظمت کی تقسیم اللہ عزوجل نے ازل سے فرمادی ہے، اس لیے میں کسی سے حسد نہیں کرتا۔ اور رب کریم عزوجل کی تقسیم و تقدیر پر راضی ہوں۔

جب حضرت شقیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ ۸ فوائد سنے تو ارشاد فرمایا: اے حاتم اللہ عزوجل آپ کو ان پر عمل کرنے کی توفیق سے مالا مال فرمائے، میں نے تو رات ، انجیل ، زبور اور قرآن مجید کی تعلیمات میں غور کیا تو ان تمام کتابوں کو ان فوائد پر مشتمل پایا تو جو خوش نصیب ان پر عمل کرے تو گویا اس نے ان چاروں کتابوں پر عمل کیا۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


علمائے کرام کی شان اور فوائد سب لوگ جانتے ہیں اسی طرح علمائے كرام كی صحبت کے فوائد بہت ہیں، اگر تاریخ میں نظر ڈالی جائے تو بے شمار واقعات ایسے ملتے ہیں جن سے علمائے کر ام سے کسی کا ایمان بچ جاتا ہے یا کسی کو ولایت کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے یا کسی کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے۔

اس ضمن میں ایک حکایت آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد شریف کی طرف آرہے تھے کہ راستے میں ایک چور کھڑا کسی مسافر کا انتظار کررہا تھا کہ اس کو لوٹ لے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب اس کے قریب پہنچے تو پوچھا ، تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا کہ کہ دیہاتی ہوں ، مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نےکشف کے ذریعے ا س کی مصیبت اور بدکرداری کو لکھا ہوا دیکھ لیا اور اس چور کے دل میں خیال آیا، شاید یہ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہیں، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیال کا علم ہوگیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ میں عبدالقادر ہوں۔

تو وہ چور سنتے ہی فورا آپ رحمہ اللہ علیہ کے مبارک قدموں پر گر پڑا اور اس کی زبان پر ”اے میرے سردار عبدالقادر میرے حال پر رحم فرمائیے جاری ہوگیا“، آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اور اس کی اصلاح کے لیے بارگاہِ الہی میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی ، اے عبدالقادر اس چور کو سیدھا راستہ دکھا دو اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اسے قطب بنادو،، چنانچہ آپ کی نگاہ فیض رساں سے وہ قطبیت کے درجے پر فائز ہوگیا۔

اس حکایت سے عبدالقادر کی شان اور علمائے کرام کی صحبت کے فوائد واضح ہوگئی ۔

فوائد:

ایمان کی حفاظت ہوتی ہے۔

علم حاصل ہوتا ہے۔

نیک کام کرنے کی او ر گناہ سے بچنے کی توفیق ملتی ہے ۔

اللہ او راس کے رسول صلی اللہ تعلی علیہ وسلم کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے ۔

حلال کمانے اور حرام سے بچنے کا ذہن لتا ہے ۔

لڑائی اور جھگڑے ، جھوٹ غیبت، گالی گلوچ وغیرہ سے بچنے اور در گزر ، معا ف کرنے، ایثار کرنے کے جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


قر آن مجیدکی سو رۃ فا طر کی آیت نمبر28میں اللہ تعالی نے فر ما یا: اہل علم نے کہا یہ آیت علماء کی شان بیان کر تی ہے اور اس امتیاز کو حاصل کر نے کیلئے اللہ سے تقوی اور خشیت ضروری ہے۔ یا د رکھو کہ علم محض جان لینے کا نام نہیں خشیت و تقوی کا نام ہے۔ عالم وہ ہے جو رب سے تنہائی میں ڈرے اور اس میں رغبت رکھے اور اس کی نا راضگی سے بچے۔ سورہ زمرمیں اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا: پو چھو بھلا علماء اور جہلاء برابر ہو سکتے ہیں؟ حا لا نکہ نصیحت تو عقلمند ہی حا صل کر تے ہیں۔ فضیلت علم و علماء کا باب امام بخاری نے کتاب العلم میں قا ئم کیا ہے۔ باب العلم قبل القول والعمل اس میں حضر ت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی کہ جو کوئی حصول علم کیلئے نکلتا ہے اللہ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے(مسلم)

حضر ت سیدنا کمیل بن زیاد علیہ رحمۃ رب العباد سے مر وی ہے کہ ایک دن امیر المومنین مولا مشکل کشا ، شہنشاہ اولیا حضرت سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم میرا ہا تھ پکڑ کر ایک قبر ستان کے کنا رے چلنے لگے یہاں تک کہ جب ہم ایک کھلے میدان میں پہنچے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایک جگہ بیٹھ کر سا نس لینے لگے۔ پھر کچھ دیر بعد فر مانے لگے:’’اے کمیل بن زیاد!دل بر تنوں کی طرح ہیں اور ان میں بہتر ین دل وہ ہے جو بات کو زیادہ یاد رکھے۔ یہ بات یاد رکھو!کہ لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:

1۔ عالم ربانی 2۔ راہ نجات پر چلنے والا طالب علم دین اور 3۔ وہ بے وقوف اور جاہل لوگ جو ہر سنی سنائی بات کی پیروی کرنے لگ جا تے ہیں، ہر ہوا کے ساتھ بدل جاتے ہیں،نور علم سے اپنے قلب و باطن کو روشن کرنے سے محروم رہتے اور کسی مضبوط ستو ن کو ذریعہ حفا ظت نہیں بناتے ہیں۔علم مال سے بہتر ہے، علم تیری حفاظت کر تا ہے جبکہ ما ل کی تجھے حفا ظت کر نی پڑ تی ہے۔ علم پھلانے سے بڑھتا ہے جبکہ مال خرچ کرنے سے گھٹتاہے۔

عا لم سے لوگ محبت کرتے ہیں۔ عالم علم کی بدولت اپنی زند گی میں اللہ عزوجل کی ا طا عت بجالا تا ہے۔ عالم کے مر نے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر با قی رہتا ہے جب کہ ما ل کا فا ئدہ اس کے زوال کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے اور یہی معاملہ مالداروں کا ہے کہ دنیامیں مال ختم ہو تے ہی ان کا نام تک مٹ جاتا ہے اس کے برعکس علماء کا نام رہتی دنیا تک با قی رہتا ہے۔

ما لداروں کے نا م لینے والے کہیں نظر نہیں آ تے جبکہ علما ئے دین کی عزت اور مقام ہمیشہ لو گوں کے دلوں میں قائم رہتی ہے۔ ہا ئے افسوس! پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہا تھ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرمایا:

یہاں ایک علم ہے کا ش تم اسے اس کے اٹھانے والوں تک پہنچا دو، ہا ں تم اسے ذہین و فطین کو پہنچا دو گے جس پر اطمینا ن نہیں رہا، دین کو دنیا کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے یا پھر وہ اہل حق کے سا منے تو سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے لیکن اس میں کوئی بصیرت نہیں۔ ایسے علم والے کے دل میں پہلی ہی دفعہ شک جگہ بنا لیتا ہے نہ اسے کامیا بی ملتی ہے اور نہ ہی دوسرا کامیاب ہوتا ہے جسے یہ علم سکھاتا ہے۔ وہ لذات و خواہشات میں منہمک رہتا ہے۔ شہوات کی زنجیر وں میں جکڑ ا ہوتا ہے یا مال ودولت کے جمع کرنے میں لگا رہتا ہے اور یہ دونوں شخص دین کی طرف بلانے والے نہیں ان دونوں کی مثال تو چرنے والے جانور کی سی ہے۔ اس طرح علم بھی ایسے لوگوں کے ساتھ مرجاتا ہے مگر اللہ جانتا ہے کہ زمین اللہ کے حق کو دلائل کے ساتھ قائم کرنے والوں سے کبھی خالی نہیں ہوتی تا کہ اللہ کی حجتیں اور اس کے واضح دلائل ضا ئع نہ ہو جا ئیں۔ایسے نفوس قدسیہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے لیکن اللہ کے ہا ں ان کی قدرومنزلت بہت زیادہ ہے۔ ان کے ذریعے اللہ اپنی حجتوں کا دفاع فرماتا ہے یہاں تک کہ پھر ان کی مثل لوگ آکر ان کی جگہ یہ فر یضہ انجام دیتے ہیں اور وہ ان کے دلوں میں شجر حق کی آ بیاری کرتے ہیں پھر حقیقی علم ان کے پاس آتا ہے جس سے جاہلوں کو وحشت ہوتی ہے انہیں اس سے انسیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے جسم تو دنیا میں ہوتے ہیں لیکن ان کی روحیں اعلی منا ظر کے سا تھ معلق ہوتی ہیں۔ یہی لوگ اللہ کے شہروں میں اس کے نائب اور اس کے دین کی دعوت دینے والے ہیں۔

آہ!آہ! ان کی زیارت کا کس قدر شوق ہے! میں اللہ عزوجل سے اپنی اور آپ کی بخشش کا سوال کرتا ہوں۔ اب اگر تم چاہو تو کھڑ ے ہو جائو(کتا ب کا نام اللہ والوں کی با تیں جلد :۱ )

حضر ت ابو امامہ با ہلی رضی اللہ تعالی عنہ فر ما تے ہیں ، حضو ر پُر نو ر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی با رگاہ میں دو آدمیو ں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عالم تھا اور دوسرا عبادت گزار ، تو حضو ر اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: "عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر ہے پھر سر کا ر دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرما یا " اللہ تعا لی ، اس کے فر شتے ، آسمانو ں اور زمین کی مخلوق حتی کہ چیو نٹیا ں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیا ں، لوگوں کو دین کا علم سکھا نے والے پر درود بھجتے ہیں (تر مذی ، کتاب الجنا ئز ،۱۱۔باب ، ۲/۲۹۶، الحدیث : ۳۹۵ ، صراط الجنا ن جلد نمبر ۸ صفحہ نمبر ۴۴۰۔)

یہ ساری فضیلتیں اس وجہ سے ہیں کہ علماء کی وجہ سے لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوم خیبر میں حضرت علی اللہ تعا لی عنہ کو جھنڈا دیتے ہو ئے وصیت کی تھی کہ جنگ کرنے سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دو اگر آدمی کو بھی راہ ہدایت مل گئی تو یہ سرخ اونٹو ں سے بھی زیا دہ قیمتی متا ع ہو گی۔علما میں سے اہل تقو یٰ علمائے باطن اور دل والوں کی فضیلت کے معترف تھے۔ چنا نچہ ،

حضرت سید نا امام شا فعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی شیبا ن راعی کے سا منے اس طر ح بیٹھے جس طر ح طالب علم مکتب میں بیٹھتا ہے اور پو چھتے کہ " اس معاملے کا حکم کیا ہے ؟" کسی نے آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ سے عرض کی : " حضور ! آپ جیسا عظیم شخص اس بدوی سے پو چھتا ہے؟" فر ما یا : " بے شک اسے اس چیز کی تو فیق ملی ہے جس سے ہم غا فل ہیں۔"

حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل علیہ رحمۃاللہ اور حضرت سید نا یحییٰ بن معین علیہ رحمۃ اللہ المبین حضرت سید نا معروف کر خی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پا س آ تے جا تے اور ان سے مسا ئل پو چھتے تھے حا لا نکہ وہ علم ظاہر میں ان دونوں کے ہم مرتبہ نہیں تھے اور ایسا کیونکر نہ ہو کہ جب آقائے دو عالم ، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خد مت میں عر ض کی گئی کہ اگر ہمیں کو ئی ایسا معاملہ در پیش ہو جس کا حکم کتاب و سنت میں نہ پائیں تو کیا کریں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: " نیک لو گوں سے پو چھ لیا کرو اور ان سے مشورہ کیا کرو۔"

اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ علمائے ظا ہر زمین اور ملک کی زینت ہیں جبکہ علمائے باطن آ سما نو ں اور ملکوت کی زینت ہیں( احیا ء العلوم جلد نمبر : ۱ )

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں