یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جیسوں کی صحبت
میں بیٹھیں گے ویسوں کے جیسے بن جائیں گے۔ برے لوگوں کی صحبت سے ہماری ذات میں
برائیاں اپنی جگہ بناتی ہیں جبکہ اچھے لوگوں کی صحبت سے ہماری ذات میں اچھائیاں
جگہ لیتی ہیں۔
اچھے لوگوں میں سرِ فہرست وہ علمائے دین ہیں جو
کہ سنی ہوں صحیح عقیدہ رکھتے ہوں اور شریعت کے پابند ہوں۔ ایسے لوگوں کی صحبت تو
ضرور اپنانی چاہیے کہ علم میں اضافہ تو
ہوگا ہی ساتھ میں اپنی تربیت بھی ہوگی، حلم اور صبر جیسی صفت آئیں گی، وقار بھی
بلند ہوگا، بات کرنے کا سلیقہ آئے گا، آداب سے آگاہی ملے گی،اور بھی بہت ساری
اچھائیاں لینے کو ملیں گی۔
ان کی مجلس میں بیٹھنے سے ان پر رحمتوں کی
جو برسات ہوتی ہے اس کے کچھ چھینٹے ہم پر
آجائیں گی۔ علما پر رحمتوں کی برسات کے بارے میں ترمذی شریف کی حدیث پاک ہے :
تحقیق اللہ اور
اُس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹى اپنے سوراخ
میں اور یہاں تک کہ مچھلى یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو
بھلائى سکھاتا ہے۔ ( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل
الفقہ علی العبادة، ۴/ ۳۱۱، حدیث : ۲۶۹۰،فیضان علم
و علما)
حضرت سیِّدُنا فقیہ ابواللیث سمرقندى
رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ جو شخص عالم کى مجلس
میں جائے اُس کو سات فائدے حاصل ہوتے ہیں اگرچہ اُس سے
استفادہ (یعنی اپنی کوشش سے کوئی فائدہ حاصل) نہ کرے۔
(1) : جب تک اُس مجلس میں رہتا ہے
گناہوں اور فسق وفُجور سے بچتا ہے۔
(2) : طلَبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
(3) : طلب علم کا ثواب پاتا ہے۔
(4) : اُس رحمت میں کہ علم کی
مجلس پر نازل ہوتى ہے شریک ہوتا ہے۔
(5) : جب تک علمى باتیں سنتا ہے عبادت
میں ہے۔
(6) : جب کوئى مشکل بات
اُن(علما) کى اِس کى سمجھ میں نہیں آتى تو دل اس کا ٹوٹ جاتا ہے اور
ٹوٹےدل والوں میں لکھا جاتا ہے۔
(7) : علم وعلما کى عزت اور جہل
وفسق(بے علمی وبرائی) کى ذلت سے واقف ہوجاتا ہے۔
مولانا نقی علی خان رحمة الله عليه اس
قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : جو ثواب کہ عالم کى زیارت اور اُس
کى مجلس میں حاضر ہونے پر موعود(یعنی جس ثواب کا وعدہ) ہے(وہ)اس سے علاوہ ہے۔
سبحان اللہ! علما کی زیارت کا ثواب اور ان کی مجلس میں
شرکت کرنے کا ثواب ملاحظہ کیجیے :
امام
غزالى عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی نے روایت کیا کہ عالم کو ایک نظر دیکھنا
سال بھر کى نماز وروزہ سے بہتر ہے۔(منھاج العابدین، الباب الاول، ص۱۱)
اور حضرت سیِّدُنا ابوذر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کى
حدیث میں ہے : عالم کى مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز، ہزار بیماروں کى
عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسى نے عرض کیا
: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور
قراءتِ قرآن؟ یعنى کیا علم کى مجلس میں حاضر ہونا قراءتِ قرآن سے بھى افضل
ہے؟ فرمایا : کیا قرآن بغیر علم کے نفع بخشتا ہے؟ یعنی قرآن کا فائدہ بغیر
علم کے حاصل نہیں ہوتا۔
اللہ پاک ہمیں برے لوگوں کو چھوڑ کر نیک لوگوں
کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں
کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں