بیٹی، دل کا سکون، روح کی راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ جو رشتہ ماں باپ اور بیٹی کے درمیان ہوتا ہے، وہ سراپا محبت و قربانی کا نام ہے۔ لیکن جب اس رشتے کو نبی کریم ﷺ جیسے شفیق باپ کی شفقت نصیب ہو، تو وہ رشتہ مثال بن جاتا ہے۔

زمانۂ جاہلیت کا وہ دور بھلا کون بھول سکتا ہے جب بیٹی کو زندہ درگور کر دینا باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ دلوں میں رحم مفقود تھا اور بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ ایسے اندھیرے وقت میں نبی مہربان ﷺ نے بیٹی کو رحمت کا درجہ دیا، عزت و احترام کا تاج پہنایا، اور دنیا کو سکھایا کہ بیٹی نہ صرف قابل محبت ہے، بلکہ جنت کا دروازہ ہے۔

آپ کی اپنی بیٹیوں سے محبت عام محبت نہ تھی۔ جب وہ آتیں، تو چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی، زبان پر دعائیں آ جاتیں اور دل سے محبت چھلکنے لگتی۔ یہ وہ محبت تھی جس میں باپ کی شفقت، نبی کی عظمت اور روحانی قربت کے رنگ ایک ساتھ جھلکتے تھے۔نبی کریمﷺ اپنی تمام بیٹیوں سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتے خصوصا خاتون جنت، حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے یہ حضور پاک ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ آپ کا نام مبارک فاطمہ جبکہ زہرا اور بتول آپ کے القابات ہیں۔

‌سب سے زیادہ محبوب: حضرت مجمع بن عمیر تیمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے عرض کی گئی: حضور ﷺ کو کون زیادہ محبوب (یعنی پسندیدہ) تھا؟ فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہا، پھر عرض کی گئی: مردوں میں سے ؟ فرمایا! ان کے شوہر، جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بہت روزے رکھنے والے اور کثرت سے قیام کرنے والے ہیں۔ (ترمذی، 5/468، حدیث: 3900)

جگر گوشہ رسول: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور ایک روایت میں ہے، ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشكاة المصابيح، 2/436، حدیث: 6139)

نانائے حسنین ﷺ اپنی شہزادی حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بےحد محبت فرماتے تھے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ جب آپ تشریف لاتیں تو حضور ﷺ آپ کا مرحباً بابنتی یعنی خوش آمدید میری بیٹی! کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔ (بخاری، 2/507، حدیث: 3623)

بیٹیاں نعمت بھی ہیں اور رحمت بھی۔ نبی کریم ﷺ کی حضرت فاطمہ سے محبت اس بات کا روشن پیغام ہے کہ بیٹی کو عزت، محبت اور مقام دینا سنت مصطفیٰ ہے۔ آج اگر ہم اپنی بیٹیوں سے سچی محبت کریں، ان کے حقوق پہچانیں اور ان کو عزت دیں، تو ہم نہ صرف ایک بہتر معاشرہ بنا سکتے ہیں، بلکہ حضور پاک ﷺ کی محبت کے حقیقی وارث بھی بن سکتے ہیں۔

اللہ ہمیں بھی اپنے گھروں کی بیٹیوں سے محبت، شفقت اور حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین