عبدالحنان
(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ گلزارِ حبیب سبزہ زار لاہور ، پاکستان)

قرآن کریم
ایسی کتاب ہے کہ جو انسان کے اعمال، رویوں اور دیگر معاملات کو بہت ہی جامع و
حکیمانہ مثالوں سے وضاحت کرتا ہے ان مثالوں کا مقصد انسان کی اخلاقی و روحانی
تربیت کرنا اور اس کے عقائد و نظریات کو درست کرنا ہے ایک دانا شخص ان آیات بیّنہ میں
غور و فکر کر کے اپنی دُنیاوی و اُخروی زندگی کو کامیاب بناتا ہے۔ قرآن مجید و
فرقان حمید میں مختلف مقام پر مختلف انداز میں منافقین کے اعمال کا تذکرہ کیا اور
ان کے کردار، رویوں اور ان کے انجام کو مثال دے کر بیان کیا۔
قارئین کرام!
آئیے منافقین کے اعمال کی چندقرآنی مثال کا مطالعہ کرتے ہیں۔
(1)
کان، آنکھ، زبان، سب بیکار: مَثَلُهُمْ
كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ
اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ
بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸) ترجمہ کنزالعرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ
روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ ان کا نور لے گیا اور
انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔بہرے، گونگے، اندھے ہیں
پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (پارہ1، البقرۃ17،18)
تفسیر: اس میں
وہ منافق داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی
روشنی کو ضائع کردیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہوگئے اور وہ بھی جنہیں
فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے
فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق کو سننے ، ماننے، کہنے اور دیکھنے
سے محروم ہوگئے تو کان، زبان، آنکھ سب بیکار ہیں۔ (صراط الجنان، ج1، ص82)
(2)
تاریکیوں میں بھٹکے متحیر شخص کی طرح: اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ
بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ
الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) ترجمہ کنزالعرفان: یا (ان کی مثال) آسمان سے اترنے والی
بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ سے
موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو گھیرے
ہوئے ہے۔ (پارہ1، البقرہ19)
(3)
دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیوں کی طرح:وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْؕ-وَ
اِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ
مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ
فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۴) ترجمہ کنزالعرفان: اور جب
تم انہیں دیکھتے ہو توان کے جسم تجھے اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں توتم ان
کی بات غور سے سنو گے( حقیقتاً وہ ایسے ہیں ) جیسے وہ دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی
لکڑیاں ہیں ،وہ ہر بلند ہونے والی آواز کو اپنے خلاف ہی سمجھ لیتے ہیں، وہی دشمن
ہیں تو ان سے محتاط رہو، اللہ انہیں مارے،یہ کہاں اوندھے جاتے ہیں؟ (پارہ28، المنٰفقون4)
تفسیر: اے
مسلمانو! جب تم منافقین جیسے عبد اللّٰہ بن اُبی وغیرہ کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم
تمہیں اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی بات غور سے سنو گے حالانکہ
حقیقت میں وہ ایسے ہیں جیسے دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیاں جن میں بے جان
تصویر کی طرح نہ ایمان کی روح، نہ انجام سوچنے والی عقل ہے۔ (صراط الجنان، ج10،
ص163)
قارئین کرام!
قرآن کریم میں بیان کردہ منافقین کی مثالیں انتہائی گہری اور نصیحت آموز ہیں جو
منافقین کے کردار و رویوں کو واضح کرتی ہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان آیات میں
غور و فکر کرے اور اپنے اعمال کو اخلاص اور عمل کے ساتھ مضبوط بنائے۔
اللہ پاک ہمیں
پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے قرآن مجید کو صحیح معنوں میں پڑھنے
اور اس کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین
احمدحسن
صدیق ( درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

اللہ تبارک
وتعالی نے بندوں کی ہدایت کیلیے کم وبیش ایک لاکھ 24 ہزار انبیا کرام علیہم الصلوۃ
والسلام کو بھیجا جنہوں نے لوگوں کو نیکی کی دعوت دی اور برائی سے منع کیا اسی طرح
اللہ تعالی نے آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائیں جو کہ بندہ کی راہنمائی کا ذریعہ ہیں
ان میں سے قران پاک جو اللہ پاک کی طرف سے محفوظ کلام ہے اس میں لوگوں کے لیے بے
شمار ہدایات اور نصیحتیں موجود ہیں جو کہ صراط مستقیم کا سبب بنتی ہیں زندگی کے
مختلف پہلوؤں میں قرآن پاک ہماری جا بجا راہنمائی کرتا رہتا ہے مختلف انداز میں
ہماری تربیت کرتا رہتا ہے کبھی واضح طور پر تو کبھی کنایہ الفاظ میں تو کبھی
مثالوں کے ذریعے اسی طرح قرآن پاک میں جہاں مثالوں کے ذریعے مختلف چیزوں کو
سمجھایا گیا ہے ان میں سے ایک منافقین بھی ہیں کہ جن کی نفاق اور ان کی عادت و
اطوار کو مثالوں کے ذریعے سمجھایا گیا ہے قران پاک میں مختلف جگہوں پر یہ مثالیں بیان کی گئی ہیں یہاں چند درج ذیل
ہیں:
(1)
ہدایت کے بعد اس کو ضائع کرنے والے : مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ
مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) ترجمہ کنزالایمان:ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے
آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ
کچھ نہیں سوجھتا ۔(سورہ بقرہ آیت نمبر: 17)
وضاحت : یہ ان
لوگوں کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اُس پر قدرت بخشی پھر
انہوں نے اسے ضائع کردیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ،ان کا انجام حسرت و افسوس
اور حیرت و خوف ہے اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل
میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کردیا ۔ (تفسیر صراط الجنان)
(2)
ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والے : اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ
ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ
مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹)ترجمہ کنزالایمان:یا جیسے آسمان سے اترتا پانی
کہ اس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں
کڑک کے سبب موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔(سورہ بقرہ آیت نمبر
19)
وضاحت :ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ
مثال بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ
کرنے میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و
بارش کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب
اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی
اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو
کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے
اور بیگانے، مخلص اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔
(3)
خوب باتیں بنانے والے:وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْؕ-وَ اِنْ یَّقُوْلُوْا
تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ
صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى
یُؤْفَكُوْنَ(۴)
اور جب تو انہیں دیکھے ان کے جسم تجھے بھلے
معلوم ہوں اور اگر بات کریں تو تو ان کی بات غور سے سنے گویا وہ کڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئی ہر بلند آواز
اپنے ہی اوپر لے جاتے ہیں وہ دشمن ہیں تو ان سے بچتے رہو اللہ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ (پ28،
المنٰفقون:4)
وضاحت:عبد
اللہ بن ابی صحت مند، خوبْرُو اورخوش بیان آدمی تھا اور اس کے ساتھ والے منافقین
قریب قریب ویسے ہی تھے،جب یہ لوگ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو خوب باتیں بناتے
جو سننے والے کو اچھی معلوم ہوتی تھیں ،چنانچہ اس آیت میں مسلمانوں کو ان کی
حقیقت بتائی گئی کہ اے مسلمانو! جب تم منافقین جیسے عبد اللہ بن اُبی وغیرہ
کودیکھتے ہو توان کے جسم تمہیں اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی بات
غور سے سنو گے حالانکہ حقیقت میں وہ ایسے ہیں جیسے دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی
لکڑیاں جن میں بے جان تصویر کی طرح نہ ایمان کی روح، نہ انجام سوچنے والی عقل ہے۔

قرآن مجید میں
اللہ تعالیٰ نے منافقین کی حالت اور ان کے کردار کو سمجھانے کے لیے مختلف مثالیں
بیان فرمائی ہیں۔اس
مضمون میں ان مثالوں کے ساتھ ان کا ترجمہ
کنزالایمان اور تفسیر صراط الجنان سےمختصر وضاحت پیش کی گئی ہے۔
(1)
آگ جلانے والے کی مثال: مَثَلُهُمْ
كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ
اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) ترجمہ کنزالایمان: ان کی کہاوت اس کی سی ہے جس
نے آگ جلائی، پھر جب اس نے اس کے گرد روشن کیا، اللہ ان کے نور کو لے گیا اور
انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔ (سورۃ البقرہ: 17)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال منافقین کی حالت بیان کرتی ہے جو بظاہر ایمان
لاتے ہیں لیکن ان کے دل کفر کی تاریکی میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ ان کے اعمال وقتی روشنی کی طرح ہوتے ہیں جو جلد ہی ختم ہو جاتی ہے۔
(2)
بارش کے وقت خوف زدہ لوگوں کی مثال: اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ ترجمہ کنزالایمان: یا جیسے آسمان سے برسی ہوئی
بارش جس میں اندھیریاں
اور گرج اور چمک ہو۔ (سورۃ البقرہ: 19)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال
منافقین کے دل کی بے یقینی کو بیان کرتی ہے، جو ایمان اور کفر کے درمیان الجھن کا شکار
رہتے ہیں۔ وہ ہر وقت خوف اور شک میں مبتلا رہتے ہیں۔
(3)
پتھر پر مٹی کی مثال: فَمَثَلُهٗ
كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ترجمہ کنزالایمان: تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے
ایک صاف پتھر کہ اس پر مٹی ہو، پھر اس پر زور کا مینہ پڑا تو اسے نرا پتھر کر
چھوڑا۔ (سورۃ البقرہ: 264)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال
ان لوگوں کے لیے ہے جو دکھاوے کے لیے نیک اعمال کرتے ہیں۔ ان کے اعمال کی بنیاد
مضبوط نہیں ہوتی، لہٰذا یہ کسی فائدے کے بغیر ختم ہو جاتے ہیں۔
(4)
گدھے کی مثال: مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا
التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا ترجمہ کنزالایمان: جنہیں توریت اٹھوائی گئی پھر انہوں نے نہ اٹھائی، ان
کی کہاوت گدھے کی سی ہے جو کتابیں لادے ہوئے ہو۔ (سورۃ الجمعہ: 5)
خلاصہ
از تفسیر(صراط الجنان): یہ منافقین
اور ان لوگوں کی حالت بیان کرتی ہے جو علم رکھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے، ان
کا علم بے فائدہ رہتا ہے۔
(5)
شیطان کے بہکانے کی مثال:
كَمَثَلِ
الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ ترجمہ کنزالایمان: ان کی کہاوت شیطان کی سی ہے جب اس نے
آدمی سے کہا کہ کافر ہو جا۔ (سورۃ الحشر: 16)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال
منافقین کی دھوکہ دہی کو بیان کرتی ہے جو دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں اور خود کو بری
الذمہ قرار دیتے ہیں۔
(6) اندھے اور بینا کی مثال:مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى
وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ-اَفَلَا
تَذَكَّرُوْنَ۠(۲۴) ترجمہ کنزالایمان: دونوں فریق کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا اور
دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا ان دونو ں کا حال ایک سا ہے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے ۔(سورہ ھود: 24)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال مومن اور منافق کے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ مومن بصیرت رکھتا ہے جبکہ منافق گمراہی میں اندھا ہے۔
(7)
لکڑیوں کی مثال: كَاَنَّهُمْ
خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌؕ- ترجمہ
کنزالایمان: گویا وہ تکیہ لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں۔ (سورۃ المنافقون: 4)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان):یہ منافقین
کی بے عملی اور بے فائدہ زندگی کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں
لیکن اندرونی طور پر کھوکھلے ہیں۔
محمد
عمر فاروق عطّاری (درجہ ثالثہ، جامعۃُ المدینہ ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)

الله پاک کے
سب سے آخری نبی ، محمد عَرَبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الله تعالیٰ کی طرف سے
پیغامِ حق لائے اور مسلسل دینِ حق کی دعوت دیتے رہتے۔ لوگ اسلام کی حقانیت سے
متعارف ہوئے اور جن کے نصیب میں اسلام کی دولت سے مستفید ہونا تھا انھوں نے اسلام
قبول کیا لیکن بعض لوگوں نے بظاہر تو کلمہ پڑھا لیکن دل سے ایمان نہیں لائے ، یہ
وہ ازلی بدبخت منافقین تھے جو مسلمانوں کے حلیے میں ملبوس تھے ، زبان سے کہتے تھے
کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے لیکن درحقیقت ان کے دل میں موجود نفاق کے سبب وہ ایمان نہیں لائے تھے ، منافقین کے
اس عمل کو اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید فرقان حمید میں یوں ذکر فرماتا ہے :
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ
اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ(۸) یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ
مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ
مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)
ترجمہ کنز
العرفان: اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئے
ہیں حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ یہ لوگ اللہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا
چاہتے ہیں حالانکہ یہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں۔ان کے
دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا اور ان کے لئے ان
کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔ (پ1، البقرۃ: 8تا 10)
منافقوں کے دل
کفر،بد عقیدگی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے
عداوت و دشمنی سے بھرے ہوئے تھے ،اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِن چیزوں میں اس طرح
اضافہ کر دیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی تاکہ کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز
نہ ہو سکے۔ ( تفسیر صراط الجنان البقرہ آیت نمبر : 10)
منافقین کی
چند مزید قرآنی مثالیں ملاحظہ ہوں:
(1)
منافقین اور اصلاح: اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا
قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙ-قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ
مُصْلِحُوْنَ(۱۱) اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(۱۲) ترجمہ کنز العرفان: اور
جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے
ہیں ۔ سن لو:بیشک یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں (اس کا)شعور نہیں۔(سورہ
بقرہ آیت نمبر 11 اور 12)
منافقوں کے
طرزِ عمل سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام فسادیوں سے بڑے فسادی وہ ہیں جو فساد پھیلائیں
اور اسے اصلاح کا نام دیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اصلاح کے
نام پر فساد پھیلاتے ہیں اور بدترین کاموں کو اچھے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔ (
تفسیر صراط الجنان ،البقرہ آیت نمبر 11-12 )
(2)
منافقین کی مثال آگ جلانے کی سی ہے: مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ
مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا
یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸) ترجمہ کنز العرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے
جس نے آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ ان کا نور
لے گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔بہرے،
گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ ( سورہ بقرہ آیت نمبر 17-18 )
(3)
منافقین کی مثال بارش کی سی ہے: اللہ
تعالیٰ قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ
بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ
الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) ترجمہ کنز العرفان: یا (منافقین کی مثال) آسمان سے اترنے
والی بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ
سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو
گھیرے ہوئے ہے۔ ( سورہ بقرہ آیت نمبر 19)
اللہ تعالیٰ
ہمیں ان آیات سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم الانبیاء
و المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
فخر
ایوب (درجۂ ثالثہ ضیاء العلوم جامعہ شمسیہ رضویہ سلانوالی ضلع سرگودھا ،
پاکستان)

قراٰنِ مجید
تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اس کا
ہر حکم حق اور علم و حکمت کا انمول موتی ہے۔ قراٰنِ کریم ایسی جامع کتاب ہے جو
زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی کرتی ہے۔ہر وہ شخص جس کے دل میں ہدایت کی طلب ہو
اپنے فہم کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ قراٰنِ مجید نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر23سال کی مدت میں حالات و واقعات اور ضروریات کے پیش نظر
نازل ہوا۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ علیہ السّلام کا سامنا منافقین سے ہوا جو اسلام
کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرتے تھے، اللہ پاک نے مختلف مقامات پر
منافقین کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ آیئے! قراٰنِ کریم سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ
اللہ پاک نے منافقین کی منافقت، ان کے اعمال اور ان کے کردار کو کس طرح بیان فرمایا
ہے:
(1)منافقین
کی مثال آگ روشن کرنے والے کی مثل ہے: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی
اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ
وَتَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّایُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ
لَایَرْجِعُوْنَۙ(۱۸)﴾ ترجَمۂ کنز
العرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس
پاس کو روشن کر دیا تو اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،
انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں
گے۔(پ1، البقرۃ: 17، 18)
یہ مثال ان
منافقین کی ہے جنہوں نے ایمان کا اظہار کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی
کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی کہ جنہیں
فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق واضح کر دیا مگر انہوں نے فائدہ
نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب وہ حق سننے، ماننے، کہنے اور راہِ حق دیکھنے
سے محروم ہوئے تو کان آنکھ زبان سب بیکار ہیں۔(دیکھئے: خزائن العرفان، ص7)
(2)منافق
آسمانی بجلی کی چمک میں حیران مسافر کی مثل ہیں: ﴿اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ
ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ
مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَاللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) یَكَادُ
الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَاِذَاۤ
اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْؕ-
اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰)﴾ ترجمہ ٔ کنزالعرفان: یا (ان کی مثال) آسمان سے اترنے
والی بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ
سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو
گھیرے ہوئے ہے۔ بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک کرلے جائے گی۔ (حالت
یہ کہ) جب کچھ روشنی ہوئی تو اس میں چلنے لگے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا تو
کھڑے رہ گئے اور اگراللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں سلَب کر لیتا۔ بیشک اللہ
ہر شے پر قادر ہے۔(پ1،البقرۃ: 19، 20)
یہ دوسری مثال
بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے
میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و بارش
کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا
ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام
کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کفر کی
تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے اور بیگانے،مخلص
اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔ منافقوں کی اسی طرح کی حالت سورۂ نور آیت نمبر48
اور 49میں بھی بیان کی گئی ہے۔(صراط الجنان،1/83، 84)
(3)منافقین
خشک اور بےکار لکڑی کی مثل ہیں: اللہ
تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿وَاِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ
اَجْسَامُهُمْؕ-وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ
مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ
فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۴)﴾ ترجَمۂ کنز العرفان: اور
جب تم انہیں دیکھتے ہو تو ان کے جسم تجھے اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں توتم
ان کی بات غور سے سنو گے(حقیقتاً وہ ایسے ہیں) جیسے وہ دیوار کے سہارے کھڑی کی
ہوئی لکڑیاں ہیں، وہ ہر بلند ہونے والی آواز کو اپنے خلاف ہی سمجھ لیتے ہیں، وہی
دشمن ہیں تو ان سے محتاط رہو، اللہ انہیں مارے، یہ کہاں اوندھے جاتے ہیں؟(پ28،المنٰفقون:4)
قراٰنِ کریم
نے منافقین کو”خُشُبٌ
مُّسَنَّدَةٌ“ سے تشبیہ دے کر ان کی
لغویت کو عیاں کر دیا خشب کا معنی لکڑی ہے جبکہ مسندہ کا معنی جسے دیوار کے ساتھ
کھڑا کر دیا گیا ہو جب تک لکڑی کار آمد ہوتی ہے اس سے شہتیر کڑی یا کواڑ وغیرہ
بنائے جاتے ہیں صرف بےکار لکڑی کو دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا جاتا ہے زیادہ سے زیادہ
آگ جلانے کے کام آسکتی ہیں۔
مذکورہ بالا آیات
میں اللہ پاک نے منافقین کی حقیقت کو عیاں فرمایا ہے مختلف مثالوں سے اور ان کے
اعمال بھی کفار کے اعمال کی طرح بے وقعت ہیں کیونکہ جب کوئی منافق مرتا ہے تو اس
کے ساتھ کافر والا معاملہ ہی پیش آتا ہے۔