عبدالحنان
(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ گلزارِ حبیب سبزہ زار لاہور ، پاکستان)
قرآن کریم
ایسی کتاب ہے کہ جو انسان کے اعمال، رویوں اور دیگر معاملات کو بہت ہی جامع و
حکیمانہ مثالوں سے وضاحت کرتا ہے ان مثالوں کا مقصد انسان کی اخلاقی و روحانی
تربیت کرنا اور اس کے عقائد و نظریات کو درست کرنا ہے ایک دانا شخص ان آیات بیّنہ میں
غور و فکر کر کے اپنی دُنیاوی و اُخروی زندگی کو کامیاب بناتا ہے۔ قرآن مجید و
فرقان حمید میں مختلف مقام پر مختلف انداز میں منافقین کے اعمال کا تذکرہ کیا اور
ان کے کردار، رویوں اور ان کے انجام کو مثال دے کر بیان کیا۔
قارئین کرام!
آئیے منافقین کے اعمال کی چندقرآنی مثال کا مطالعہ کرتے ہیں۔
(1)
کان، آنکھ، زبان، سب بیکار: مَثَلُهُمْ
كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ
اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ
بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸) ترجمہ کنزالعرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ
روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ ان کا نور لے گیا اور
انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔بہرے، گونگے، اندھے ہیں
پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (پارہ1، البقرۃ17،18)
تفسیر: اس میں
وہ منافق داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی
روشنی کو ضائع کردیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہوگئے اور وہ بھی جنہیں
فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے
فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق کو سننے ، ماننے، کہنے اور دیکھنے
سے محروم ہوگئے تو کان، زبان، آنکھ سب بیکار ہیں۔ (صراط الجنان، ج1، ص82)
(2)
تاریکیوں میں بھٹکے متحیر شخص کی طرح: اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ
بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ
الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) ترجمہ کنزالعرفان: یا (ان کی مثال) آسمان سے اترنے والی
بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ سے
موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو گھیرے
ہوئے ہے۔ (پارہ1، البقرہ19)
(3)
دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیوں کی طرح:وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْؕ-وَ
اِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ
مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ
فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۴) ترجمہ کنزالعرفان: اور جب
تم انہیں دیکھتے ہو توان کے جسم تجھے اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں توتم ان
کی بات غور سے سنو گے( حقیقتاً وہ ایسے ہیں ) جیسے وہ دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی
لکڑیاں ہیں ،وہ ہر بلند ہونے والی آواز کو اپنے خلاف ہی سمجھ لیتے ہیں، وہی دشمن
ہیں تو ان سے محتاط رہو، اللہ انہیں مارے،یہ کہاں اوندھے جاتے ہیں؟ (پارہ28، المنٰفقون4)
تفسیر: اے
مسلمانو! جب تم منافقین جیسے عبد اللّٰہ بن اُبی وغیرہ کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم
تمہیں اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی بات غور سے سنو گے حالانکہ
حقیقت میں وہ ایسے ہیں جیسے دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیاں جن میں بے جان
تصویر کی طرح نہ ایمان کی روح، نہ انجام سوچنے والی عقل ہے۔ (صراط الجنان، ج10،
ص163)
قارئین کرام!
قرآن کریم میں بیان کردہ منافقین کی مثالیں انتہائی گہری اور نصیحت آموز ہیں جو
منافقین کے کردار و رویوں کو واضح کرتی ہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان آیات میں
غور و فکر کرے اور اپنے اعمال کو اخلاص اور عمل کے ساتھ مضبوط بنائے۔
اللہ پاک ہمیں
پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے قرآن مجید کو صحیح معنوں میں پڑھنے
اور اس کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین