مشہور تابعی بزرگ ، کروڑوں لوگوں کے پیشوا ،  امام المعقول والمنقول، سراج الامۃ امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ اس امت پر ربّ کریم کا ایک عظیم احسان ہیں ۔آپ نے اپنی حیات مستعار کو خدمتِ اسلام کے لئے وقف کردیا،قرآن وسنت پر عمل کے لئے رہنما اصول مقرر کئے اور مسائل و احکام اَخَذ کر کے امت ِمرحومہ کے لئے شریعت پر عمل آسان بنایا۔آپ کے فقہی مذہب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ اسی کے پیروکار موجود ہیں ۔

فقہ حنفی کے مسائل کی تائید و توثیق کے لئے بہت سے اکابر علمائے کرام نے اپنی کُتُب میں وہ احادیثِ مبارکہ اور آثارِطیبہ یکجا کردیئے جو فقہِ حنفی کا ماخذ و مستدل ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فقہ حنفی پرعمل کرنے والے درحقیقت طریقہ نبوی اور سنتِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کرتے ہیں۔حنفی فقہائےکرام اور علمائےعظام نے اسی عنوان پردرج ذیل کُتُب لکھی ہیں:

(1) کتاب الآثار: (شاگردِ امام اعظم ،امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 189ھ)

اس کتاب میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت کردہ احادیث و آثار ذکر فرمائی ہیں اور اس کتاب کی ترتیب میں فقہی منہج اختیار فرمایا ہے، اس کتاب کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے مرویات کا مجموعہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

(2)موطا امام محمد: (محررِ مذہب، امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات:189ھ)

یہ کتاب امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ سے سنی گئی روایات کا مجموعہ ہے لیکن اس میں روایتوں کے بعد زیادہ تر اپنے استاذ امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کےفقہی مذہب کی بھی وضاحت فرمائی ہے ، اس کتاب کی کئی شروحات وحواشی موجود ہیں جس میں حضرت علی بن سلطان قاری حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:1014ھ) کی شرح ’’فتح المغطا شرح الموطا‘‘اور علامہ عبد الحی لکھنوی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:1304 ھ) کا حاشیہ’’التعلیق الممجدعلی موطا الامام محمد‘‘ معروف ہیں۔1431ھ بمطابق 2010ء میں علامہ شمسُ الہدی مصباحی کی شرح ”منائح الفضل و المنن “ کےنام سے منظرِ عام پر آئی،یہ شرح اپنے طرزِ استدلال کے اعتبار سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے ۔

(3)شرح معانی الآثار: (امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات:321ھ)

یہ فقہِ حنفی میں دلائلِ مذہبِ احناف کے حوالے سے بہت عمدہ تصنیف ہے جس میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے احکام اور فقہی مسائل کی احادیث ذکر فرمائی ہیں اور طریقہ یہ اختیار فرمایا ہے کہ سب سے پہلے اپنے فقہی مذہب کے خلاف والوں کی مستدل احادیث ذکر فرمائیں پھر احناف کا مؤقف اور اس کی تائید میں احادیث بیان فرماکر اس کی ترجیح بھی بیان فرمادی ہے، چونکہ یہ فقہی طور پر حنفی تھے اس لئے انہوں نے اکثر احناف کے مؤقف کو ہی دلائل سے راجح قرار دیا ہے البتہ کچھ مسائل میں ان کے تفردات بھی ہیں، اس عظیم کتاب کی بہت شروحات لکھی گئیں جن میں حافظ ابو محمد علی بن زکریا منبجی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 686ھ) کی’’اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب‘‘ اور امام بدر الدین محمود بن محمدعینی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 855ھ) کی دو شروحات ’’نخب الافکار‘‘ اور ’’مبانی الاخیار‘‘ بھی ہیں نیز امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1340 ھ) کی اس پر تعلیقات بھی موجود ہیں اور صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1367ھ) کا شاندارمفصل حاشیہ”کشف الاستار“ اس کتاب کی شروح وحواشی میں خوبصورت اضافہ ہےنیز استاذ الاساتذہ ابن داؤدمولانا عبد الواحد عطاری مدنی دام ظلہ جو کئی درسی کتب کے محشی بھی ہیں، انہوں نے علامہ بدر الدین عینی کی ’’نخب الافکار‘‘، امام اہلسنّت مولانامحدث وصی احمد سورتی (وفات: 1334ھ)اور صدر الشریعہ کے حواشی وتعلیقات سے استفادہ کرتے ہوئے ’’مبانی الابرار‘‘ کے نام سے حاشیہ تحریر فرمایا ہے جو المدینۃ العلمیہ کے شعبہ درسی کتب کی کوششوں سے مکتبۃ المدینہ سے منظرِ عام پر آچکا ہے ۔الحمد للہ

(4)شرح مشکل الآثار: (امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ ، وفات: 321ھ)

یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے فقہی تونہیں کہی جاسکتی لیکن امام یوسف بن موسٰی لمطی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ نے امام ابوالولیدباجی مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ’’مختصرشرح مشکل الآثار‘‘کی جو تلخیص کی ہے اس میں ’’شرح مشکل الآثار‘‘ کی روایتوں سے مذہبِ احناف کا اثبات کیا ہے ، یہ کتاب اس کے لئے اصل اور متن کا درجہ رکھتی ہے اس لئے اس کو بھی دلائلِ مذہبِ احناف میں شمار کیا گیاہے،امام ابوجعفر طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’شرح مشکل الٓاثار‘‘میں بظاہر متعارض نظر آنے والی احادیثِ کریمہ میں تطبیق بیان فرمائی ہے اور طریقہ یہ اختیار فرمایا ہے کہ ہر باب میں جداجدا مؤقف کی تائید کرنے والی احادیث ذکر فرمائیں پھر ان کی ایسی توضیح بیان فرمائی کہ ان کا تعارض ختم ہو، ایک ہزار ( 1,000) سے زیادہ ابواب قائم کئے گئے ہیں البتہ فقہی ترتیب کا التزام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ کتاب کے شروع میں وضو سے متعلقہ احادیث ہیں تو کتاب کے آخر میں بھی، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کتاب میں آپ کامقصد فقہی احکام کااستخراج نہیں تھا البتہ کہیں کہیں فقہی مسائل اختصار وخلاصہ کے ساتھ ملتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کا شمار مذہبِ حنفی کی فقہی کتابوں میں نہیں کیا جاتا۔ ابو الولید سلیمان بن خلف باجی مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 474ھ) نے ’’شرح مشکل الآثار‘‘ کی احادیث کے طرق واسانید کو حذف کیں اور ایک باب کی احادیث ایک ساتھ جمع کرتے ہوئے اسے مرتب کیا پھر امام بدر الدین عینی (وفات: 855ھ) کے استاذ اور صاحبِ غایۃ البیان علامہ اتقانی (وفات: 758ھ ) کے شاگردابو المحاسن یوسف بن موسٰی لمطی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 803ھ )نے (ابو الولید باجی وفات: 474ھ نے جو اختصار کیا تھا )اس کی تلخیص’’المعتصر من المختصر من مشکل الاثار‘‘ نامی کتاب لکھ کر کی جس میں آپ نے اختلافِ ائمہ بالخصوص مذہب احناف کو ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں موجود روایتوں اور دیگر دلائل کی روشنی میں نہ صرف بیان فرمایا ہے بلکہ جہاں جہاں ابوالولید باجی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فقہی مسائل میں مذہبِ احناف پرشبہات وارد کئے تھے ان کے جوابات بھی دیئے ۔

(5)التجرید: (امام ابو الحسین احمد بن محمد جعفر بغدادی قدوری رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات: 428ھ)

یہ کتاب فقہی مسائل میں احناف وشوافع کے اختلاف کی وضاحت میں امام قدوری رحمۃُ اللہِ علیہ کا کئی جلدوں پر مشتمل زبردست فقہی شاہکار ہے جس میں اسلوب یہ اختیار کیا گیا ہے اس کہ کسی بھی مسئلہ میں پہلے امام اعظم ، صاحبین اور دیگر فقہائے احناف کا پھر امام شافعی اور ان کے مذہب کے فقہائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کامؤقف ذکر کیا گیاہے اس کے بعد احناف کے دلائل پھر شوافع کے دلائل اور ان پر شبہات اور احناف کے مؤقف ودلائل پر وارد ہونے والے شبہات کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں ۔

(6)ہدایہ شرح بدایۃ المبتدی: (امام ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات: 593ھ)

یہ فقہِ حنفی کی بہت ہی معروف ومشہور کتاب ہے ، اس کی اہمیت وعظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’کشف الظنون‘‘ کے مصنف حاجی خلیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ (متوفی: 1067ھ) نے اس کی 60 سے زائد شروحات، حواشی اور تعلیقات گنوائی ہیں نیز امام اہلسنّت مولانا شاہ احمدرضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1340ھ) کی ہدایہ اور اس کی شروحات پر تعلیقات جو’’التعلیقات الرضویۃ علی الہدایۃ وشروحہا‘‘کے نام سے راقمُ الحروف کی تحقیق کے ساتھ بیروت کے معروف عالمی اشاعتی ادارےدار الکتب العلمیہ سے شائع ہوئی ہے، اس میں 71شروحات وحواشی وتعلیقات وغیرہ شمار کی گئی ہیں ۔

امام مرغینانی رحمۃُ اللہِ علیہ کا اس کتاب میں اسلوب یہ ہے کہ آپ نے پہلے اپنے مختار مذہب کو ذکر فرمایا ہے پھر اختلافِ ائمہ اور ان کے دلائل پھر آخر میں اپنی دلیل کے ساتھ مخالفین کے دلائل کے جوابات دئیے ہیں، جہاں آپ نے مذہبِ احناف کی تائید میں عقلی دلائل بیان فرمائے ہیں وہیں احادیث وآثار سے بھی دلائل ذکر فرمائے ہیں لیکن بعد میں کچھ مخالفین نے ان احادیث وآثار کے ثبوت وصحت پر اعتراضات کئے تو بہت سے علمائے کرام نے ان کی تخاریج وماخذ کے ثبوت پر کتابیں لکھیں جن میں امام علی بن عثمان ماردینی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 750ھ) کی ’’التنبیہ علی احادیث الہدایۃ و الخلاصۃ‘‘، امام عبد اللہ بن یوسف زیلعی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:762ھ) کی ’’نصب الرایۃ‘‘، امام محی الدین عبد القادر قرشی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 775ھ) کی ’’عنایہ‘‘ اور امام احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 852ھ )کی ’’الدرایۃفی تخریج احادیث الہدایۃ‘‘ شامل ہیں۔

(7)فتح القدیر: (امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد سیواسی المعروف بابن الہمام رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات: 861ھ)

اسے ’’ہدایہ‘‘ کی سب سے بہترین شرح قرار دیا گیاہے جس میں ہدایہ کی عبارتوں کی تشریح کے ساتھ ساتھ، اختلافِ ائمہ بالخصوص فقۂ حنفی کے مسائل کو کتاب وسنت ودیگر دلائل سے نہ صرف ثابت کیا گیاہے بلکہ جہاں احناف کی جانب سے احادیث وآثار سے دی گئی کسی دلیل پر جرح کی گئی ہے تو اس کا جواب بھی دیا گیاہےلیکن علامہ ابن ہمام رحمۃُ اللہِ علیہ کتاب الوکالۃ تک ہی لکھ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی پھر آگے امام شمس الدین احمد قاضی زادہ رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 988ھ) نے ’’نتائج الافکار‘‘ کے نام سے اس بے مثال شرح کو مکمل کیا۔ یہ کتاب دنیا کے کئی مکتبوں نے کئی جلدوں میں تحقیق شدہ شائع کی ہے۔

(8)نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ: (امام عبد اللہ بن یوسف زیلعی رحمۃُ اللہِ علیہ ،متوفی: 762ھ)

یہ دراصل فقہِ حنفی کی بہت ہی مشہور کتاب’’ہدایہ‘‘کی شرح ہے جس میں ہدایہ میں مذکور احادیث وآثار کی نہ صرف تخاریج بلکہ مزید روایتوں کااضافہ،اُن کی سند، حدیث کا حکم اورجرح وتعدیل بھی بیان کی گئی ہےنیز احکام میں احناف کی مؤید روایتوں کا بھی اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ منصف مزاج قاری اس نتیجہ پر پہنچے کہ احناف کے مذہب میں ہرفقہی باب کے مسائل کی دلیل احادیث وآثار سے موجود ہے۔یہ کتاب پاک وہند وعرب کے بیسیوں مکتبوں نے کئی جلدوں میں شائع کی ہے ۔

(9)فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ:(امام علی بن سلطان قاری رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات:1014ھ)

یہ صدر الشریعہ عبید اللہ بن مسعود رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 747ھ) کی کتاب ’’نقایہ‘‘ کی شرح ہے ، علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس کتاب کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ امام طحاوی، امام ابوبکر رازی اور امام قدوری وغیرہ متقدمین احناف نے مذہبِ احناف کے قرآن وسنت سے دلائل ذکر فرمائے، بعد میں آنے والوں نے انہی پر اعتمادر واقتصار کیا توکچھ مخالفین نے مذہبِ احناف پر اعتراضات کئے تو میں نے سوچا کہ ’’نقایہ‘‘ کی ایسی شرح لکھوں جس میں مسائل کی توضیح وتشریح اوراختلافِ ائمہ کے ساتھ ساتھ مذہبِ احناف کے دلائل قرآن وسنت کی روشنی میں ذکر کروں تو میں نے یہ کتاب لکھی۔یہ کتاب پاک وہند کے ساتھ ساتھ بیروت سے 3جلدوں میں تحقیق شدہ شائع ہوچکی ہے۔

(10)فتح المنان فی اثبات مذہب النعمان: (شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات: 1052ھ)

یہ احادیث وآثار سے مذہبِ حنفی کے اثبات میں بہت لا جواب کتاب ہے جو اسی مقصد کے لئے ہی لکھی گئی ہے جیساکہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے ۔ شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نےاس میں مذہبِ احناف کےفقہی احکام کی روایتوں کو ’’مشکوٰۃ المصابیح ‘‘کی طرز پر جمع فرمایا ہے اورساتھ ہی دیگر مذاہب (مالکی، شافعی اور حنبلی) کے مسائل کوبھی آسان اور مختصر انداز میں بیان فرمایا ہے اور احناف کے مؤقف کو احادیث و روایات کے دلائل سے ثابت فرمایا ہے۔

(11)عقود الجواہر المنیفۃ فی ادلۃ الامام ابی حنیفۃ: (علامہ مرتضیٰ زَبیدی رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات: 1205 ھ)

مذہبِ احناف کے احادیث سے تائیدی دلائل میں لکھی گئی کتابوں میں یہ کتاب عمدہ اضافہ ہے جس میں فقہی ترتیب کے مطابق احکام کی وہ روایتیں جو امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہیں اور وہ لفظی یا معنوی طور پر صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں مصنف نے انہیں جمع کرتے ہوئے اس کی اسنادی حیثیت بھی واضح فرمائی ہے اور جہاں کسی روایت پر کلام تھا اس کی تائیدات ذکر فرماکر اس کا جواب بھی دیا ہے ۔

(12)آثار السنن: (امام ابو الخیرمحمد ظہیر احسن نیموی بہاری رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات: 1322ھ )

اس کتاب میں علامہ نیموی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک ہزار 113 ( 1,113) روایتوں کو راوی کے نام اور اس کے ماخذ کے ساتھ ذکرفرمایا ہے نیز ان روایتوں پر اصولِ حدیث کی روشنی میں فنی ابحاث بھی فرمائی ہیں لیکن کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی آپ کا وصال ہوگیا۔ آپ کے بیٹے مولاناعبد الرشیدفوقانی اپنے والد کی تصانیف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے مختلف فنون پر بہت سی کتابیں لکھیں جن میں سے ایک یہ کتاب بھی ہے،اس کا دوسرا جزء 1314ھ میں لکھا اور اس بات کی وضاحت انہوں نے اپنی کتاب ’’التعلیق‘‘ کے پہلے صفحہ پر بھی لکھی ہے لیکن وہ اسے مکمل نہ کرسکے ، تیسرے جزء کی کتابُ الزکوۃ کا کچھ حصہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے پاس ہے لیکن نامکمل ہونے کی وجہ سے اس کو شائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘اس کتاب کو کئی مکتبوں نے شائع کیا ہے، المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کے شعبہ درسی کُتُب کے رکن استاذُ العلماء مولانا احمد رضا شامی صاحب زیدعلمہ نے اس کتاب پرتحقیق وتخریج کا عمدہ کام کیا ہے جو الحمد للہ شائع بھی ہوچکا ہے ۔

(13)صحیح البہاری:(ماہرِ علم توقیت ، ملک العلماءمولانا ظفر الدین محدث بہاری رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات: 1382ھ)

اس کا نام ’’جامع الرضوی ‘‘بھی ہے یہ ملک العلماءکا 6 جلدوں پر مشتمل عمدہ علمی کارنامہ ہے جس کی پہلی جلد میں آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ سے اہلِ سنّت وجماعت کے عقائد کو ثابت کیا گیا ہے بقیہ 5 جلدوں میں فقہی ترتیب کے مطابق فقہِ حنفی کی تائید پر مشتمل احادیث ذکر کی گئی ہیں جس میں عقائد ِاہلسنّت کےساتھ ساتھ احناف کے فقہی مسائل کو بھی دلائل احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔ پہلی جلد 1930ء اور بقیہ 3جلدیں 1932ء -1937ء کے دوران مطبع برقی، پٹنہ سے شائع ہوئی ، مولانامفتی ابوحمزہ محمدحسان عطاری مدنی دام ظلہ نے مکمل کتاب پر تحقیق وتخریج کے کام کا بیڑا اٹھایا اور الحمد للہ اس کی ایک جلد شائع بھی ہوچکی ہے مزید از سر نو اس پر کام کیا جارہا ہے ۔

(14)زجاجۃ المصابیح: (علامہ ابو الحسنات عبد اللہ محدث حیدرآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ، وفات: 1384ھ )

یہ امام خطیب تبریزی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 737ھ) کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کی طرز پر فقہِ حنفی کے مسائل کی احادیث سے تائید اور ان کی تشریح پر مشتمل کتاب ہے جس کے بارے میں خود مصنف عبد اللہ محدث حیدرآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ امام خطیب تبریزی رحمۃُ اللہِ علیہ نے جب ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ میں وہ احادیث ذکر فرمائی ہیں جو امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ کے فقہی مذہب کی تائید میں ہیں تو اکثر میرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ میں بھی اسی طرح کی کتاب لکھوں جس میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے فقہی مذہب کی تائیدی روایتوں کو ذکر کروں لیکن میری بے سر وسامانی مانع رہی اسی دوران خواب میں خاتم النبیین رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی، سلام وجوابِ سلام کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے علم و حکمت بھرے مبارک سینے سے لگالیاجس کی برکت سے میرا شرحِ صدر ہوا اور اس کام کی جملہ مشکلات آسان ہوگئیں تو میں نے یہ کتاب لکھنے کے لئے کمر باندھی اور بحمد اللہ اس کتاب میں ہر حدیث لکھتے وقت نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درودِ پاک پڑھنے کا التزام کیا اور اس کتاب کا نام ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ رکھا۔کتاب کا اسلوب یہ ہےکہ اس میں احکام ومسائل سے متعلق احناف کے مستدلات جمع کئے گئے ہیں البتہ جس طرح ’’مشکوٰۃ‘‘ میں ہر باب کےتحت فصلیں قائم ہیں اس میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہر باب کی ایک ہی فصل ہےاور اس کی ابتدا میں متعلقہ آیات واحادیث پھر ان سے مستنبط احکام، اختلافِ ائمہ،دلائلِ حنفیہ، ان کی وجوہ ترجیح اور دیگر احادیث و آثار سے ان کی تائید بیان کی گئی ہے،احادیث میں پہلےوہ احادیث جو ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہیں وہ لائی گئی ہیں پھرضمنی اور التزامی دلائل ذکر کئے گئے ہیں، یہ کتاب پاک وہندسےمترجم شائع ہوئی ہے لیکن حال ہی میں ترکی کے ایک مکتبہ ’’دار السمان‘‘ نے اسے 5 جلدوں میں تحقیق وتخریج کے ساتھ اور عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔

اب اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے ’’فتح المنان‘‘کا اسلوب اور اس پر المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کی طرف سے کئے گئے کام کاتعارفی جائزہ پیش کرتے ہیں :

اسلوب:

۞حضرت مصنف شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فقہی کتابوں کی طرح کتاب اور ابواب بندی کا قیام نیزابواب اور فصول میں باب الجنائز کے آخر تک’’مشکاۃ المصابیح‘‘ کی طرز کو اپنایا ہے۔

۞ باب الجنائز کے آخر تک ان کا یہ اسلوب ہے کہ پہلے احادیثِ مبارکہ ذکر فرماتے ہیں پھر اس فصل کے آخر میں اس مسئلہ میں فقہائے کرام کے اختلاف کو ذکرکردیتے ہیں۔

۞ مذاہبِ اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) کا آسان انداز میں انہی کی فقہی کتابوں سے دلائل کے ساتھ بیان۔

۞ مذہبِ حنفی کا بیان اور اس کی تائید میں احادیث ِ کریمہ پیش کرتے ہیں۔

۞ احادیثِ کریمہ نقل کرنے کے دوران جہاں لفظ ’’اَخْرَجَ‘‘ استعمال فرمایا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت ’’جامع الاصول‘‘ سے لی گئی ہے ۔

۞ جہاں لفظ ’’رَوَی‘‘ استعمال کیا ہے اس سے مراد ہے کہ یہ روایت ’’کنز العمال‘‘ سے لی گئی ہے۔

احادیث میں ماخذ کتب:

”فتح المنان“ میں جن کتابوں سے احادیثِ مبارکہ لی گئی ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:

(1)موطا امام محمد: امام محمد بن حسن شیبانی (وفات: 189ھ)، (2)سنن الدارمی: امام عبد اللہ بن عبد الرحمٰن دارمی (وفات:255ھ)، (3)جامع الاصول: ابو سادات مبارک بن محمد ابن اثیرجزری (وفات:606ھ)، (4) مشکاۃ المصابیح:امام محمد بن عبد اللہ خطیب تبریزی (وفات:741ھ)، (5) کنز العمال: امام علی متقی ہندی (وفات: 975ھ(۔

فقہ میں ماخذ کتب:

فقہ حنفی : فتح القدیر: امام کمال الدین ابن ہمام حنفی (وفات: 861ھ(۔

فقہ شافعی : شرح الحاوی الصغیر: ابو الحسن علی بن اسماعیل قونوی (وفات: ۷۲۹ھ(۔

فقہ مالکی : رسالۃ ابن ابی زید : ابو محمد عبد اللہ بن زید قیروانی (وفات: 386ھ(۔

فقہ حنبلی : کتاب الخرقی: ابو القاسم عمر بن حسین خرقی (وفات: 334ھ(۔

اس کے علاوہ شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نے چاروں مذاہب کی مختلف کتب سے بھی حوالے دئیے ہیں۔

اس پر کام کرنے کی وجہ:

یہ کتاب لاہور اورملتان سے شائع ہوئی تھی لیکن تصحیح وتحقیق سے خالی تھی، کتاب کی عظمت اس پرمزید کام کی متقاضی تھی لہٰذا اس پر تصحیح،تخریج وتحقیق کاکام شروع کیا گیا، اس سلسلے میں دومخطوطوں کو سامنے رکھ کر کام شروع کیا گیا جن میں سے ایک سندھ کانسخہ تھا اور ایک ہند کا، سندھ والےمخطوطے کو معیار بناتے ہوئے نسخۂ ام بنایا گیا ہے۔

المدینۃ العلمیہ کی طرف سے کئے جانے والے کام:

جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ (دعوتِ اسلامی) کے تخصص فی الحدیث کے طلبائے کرام سے ان کے اساتذۂ کرام مولانا مفتی محمد حسان رضاعطاری مدنی اور مولانا احمد رضا شامی دام ظلہما نے اس پر کام شروع کروایا اور گاہے گاہے ان کی سرپرستی ورہنمائی بھی فرماتے رہےپھر یہ کام المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) منتقل ہوا اور قبلہ مفتی حسان عطاری مدنی زیدعلمہ کی سرپرستی میں راقمُ الحروف کی زیرِنگرانی یہ عظیم کام مکمل ہوکر 2جلدوں میں منظرِ عام پر آچکا ہے ۔

اس کتاب پر تحقیق وتخریج وغیرہ کے حوالے سے جو کام کئے گئے ان کی کچھ تفصیل حسب ِذیل ہے:

(1)تقدیم ومقدمہ: کتاب پر کئے جانے والے کاموں کی تفصیل، مخطوطات کے عکس، شیخِ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ کے حالات اور کتاب میں استعمال ہونے والی اصطلاحات ورموز کا قیام ۔

(2)تشکیل اوراوقاف ورموز:جدید عربی رسمُ الخط کے التزام کے ساتھ ساتھ اوقاف و رموز کا اہتمام اور مشکل الفاظ پر اعراب ۔

(3)تخریج:قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور عبارتوں کی تخریج نیز غیر مطبوعہ اور مخطوطات کی شکل میں موجود کُتُب سے بھی تخاریج کا اہتمام۔

(4)دراسۃ الاسانید: روایتوں اورراویوں کے اعتبار سے احادیث کی تحقیق۔

(5)تراجم:جہاں شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نے کسی شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے وہاں ان کا مختصر تعارف ،اسی طرح کتاب کے مصنف کا نام اور موضوع وغیرہ کابیان ۔

(6)تقابل :پوری کتاب کا سندھی اور ہندی مخطوط کے نسخوں سے تقابل وتصحیح اور ضروری مقامات پر حاشیہ میں اختلافِ نسخ کی وضاحت۔

(7)پروف ریڈنگ:لفظی غلطی کا امکان کم کرنے کے لئے پوری کتاب کی ایک سے زیادہ مرتبہ پروف ریڈنگ۔

(8)فہارس: آیات واحادیث،تراجم اعلام وکتب ، موضوعات ، اشاریات کی فہرستوں نیز مصادر التحقیق کا قیام۔

یہ تمام اور دیگر ضمنی کام مکمل کرکے حسنِ صوری ومعنوی کے ساتھ اس کتاب کو عرب دنیا سے شائع کروانے کا ارادہ ہے، دعاگو ہیں کہ اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طفیل اس کام کو بخیر وخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچائے ،قبلہ مفتی حسان عطاری مدنی اور کتاب پرکام کرنے والے افراد مولانا اکرم عطاری مدنی، مولانا عاصم عطاری مدنی ، مولانا منصور عطاری اور مولانا احمد رضاعمر عطاری مدنی کے علم وعمل میں برکتیں عطافرمائے ، دعوتِ اسلامی اور المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کو مزید ترقی وعروج عطافرمائے اور ہمیں اخلاص کے ساتھ دینِ اسلام ومسلکِ اہلسنّت کی خوب خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمین بجاہ محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

کاشف سلیم عطاری مدنی

المدینۃ العلمیۃ (اسلامک ریسرچ سینٹر)


سنیت کی پہنچان کے اصول

Fri, 1 Aug , 2025
21 days ago

پس منظر

ہند کے صوبے راجستھان کے علاقے مارواڑ سے حافظ محمد عثمان رحمۃ اللہ علیہ جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مند بھی تھے انہوں نے امامِ اہلسنت کو خط لکھا کہ ہمارے علاقے سانبھر میں مولانا احمد علی شاہ حنفی نقشبندی اویسی تشریف لائے ہیں آپ کی کتابوں کے ساتھ ساتھ مولانا احمد علی شاہ صاحب کے بیانات کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے غلط عقیدے اور نظرئیے سے توبہ کرکے صحیح العقیدہ سنی ہوچکے ہیں، آپ اپنے ہر بیان میں صلح کلی والوں (ندوہ والوں) کا ایسا رد کرتے ہیں کہ یہاں کے وہ لوگ جو انہیں صحیح سمجھتے تھے اور ان کے عقیدت مند تھے اب توبہ کرکے ان سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں، آج کل ان صلح کلی والوں کا ایک مولوی یہاں آیا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مولوی احمد علی شاہ صاحب تو خود بد عقیدہ اور جاہل ہیں اور اس کے کہنے سے کچھ لوگ بہک کر اس کے ساتھ بھی ہوگئے ہیں ان کو سمجھایا تو کہتے ہیں کہ اگر مولانا احمد رضا خان صاحب ، مولانا احمد علی شاہ صاحب کے عقائد ونظریات کو درست قرار دے دیں گے تو ہم اپنے نظریات سے توبہ کرکے ان کی بات سنیں گے، لہٰذا آپ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ آپ ارشاد فرمائیں کہ مولانا احمد علی شاہ صاحب آپ کے نظرئیے کے مطابق کیسے ہیں، آپ کے جواب سے امت کو بہت فائدہ ہوگا۔ والسلام

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جواب ارشاد فرمایا: معزز حافظ محمد عثمان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:آپ کا خط تشریف لایا، یاد کرنے کا شکریہ۔ ایک دفعہ مولانا احمد علی شاہ صاحب گھر پر تشریف لائے تھے یہ ان سے پہلی ملاقات تھی پھر عظیم آباد ، پٹنہ، بہار کے جلسے میں ملاقات ہوئی لیکن دونو ں ملاقاتوں میں صرف سلام ومصافحہ ہوا کسی موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی، کسی انسان کے بارے میں گواہی دینا ایک اہم اور نازک معاملہ ہے، میں مولانا احمد علی شاہ صاحب کے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں کررہا بس یہ چاہتا ہوں کہ ان کے جو فضائل آپ کے خط کے ذریعے مختصراًسنے ہیں انہیں تفصیل سے جان لوں ، مولانا صاحب کی حق پسندی سے امید ہے کہ وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش ہونگے کیونکہ صرف غیر مقلدین اور ندوہ والوں کا فتنہ ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ سینکڑوں فتنے ہندوستان میں موجود ہیں ، میں بیس (20) چیزیں لکھتا ہوں جن پر مولانا صاحب اپنی تصدیق فرماکر بھیج دیں۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سنیت کی پہنچان کے اصول

(۱) سید احمد خاں علی گڑھ اور اس کے پیروکارسب کفار ہیں۔

(۲) جو رافضی قرآنِ پاک کو نا مکمل کہے یا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم یا ان کے علاوہ کسی غیر نبی کو، نبی سےافضل مانے،وہ کافر و مرتد ہے ۔

(۳) رافضی تبرائی فقہائے کرام کے نزدیک کافر ہے اور اس کے گمراہ بدعتی اور جہنمی ہونے پر علمائے کرام کا اتفاق ہے۔

(۴) جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اللہ پاک کے قرب کے حوالے سے حضرت سیّدنا صديق اكبر اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما سے زیادہ فضیلت والا سمجھے، وہ گمراہ اور سنت کی خلاف ورزی كرنے والا ہے۔

(۵) جنگِ جمل و صفین میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم حق پرتھے مگر ان کے سامنے آنے والے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی خطا، اجتہادی تھی جس کی وجہ سے ان کے بارے میں برے جملے کہنا سخت حرام ہے اور ان کی شان میں گستاخی کرنا بلا شبہ رافضیت ہےاور ایسا کرنے والااہلسنت سے خارج ہے۔ جو شخص کسی صحابی کی شان میں (معاذ اللہ ) برے جملے کہے یا انہیں بُرا سمجھے یا ان میں سے کسی سے بغض رکھے وہ پکاّ رافضی ہے۔

(۶) صدیوں سے مجتہد مطلق کے درجہ کو کوئی نہ پہنچا اور اس درجہ کو پہنچے بغیر تقلید كرنا فرض ہے،لہذا غیر مقلدین گمراہ اور بددین ہیں۔

(۷) صدیوں سے اہلسنّت چارگروہ :حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی میں ہی ہیں جو ان سے خارج ہے وه بدعتی، جہنمی ہے۔

(۸) وہابیوں کا پہلا استاد ابنِ عبدالوہاب نجدی اور دوسرا اسماعیل دہلوی تقویۃ الایمان كا مصنف ہیں اور دونوں سخت گمراہ بددین تھے۔

(۹) اسماعیل دہلوی کی کتاب ”تقویۃ الایمان“، ”صراطِ مستقیم“، ”رسالہ یکروزی“ اور ”تنویر العینین“ کھلی گمراہیوں اور کفریہ باتوں پر مشتمل ہیں۔

(۱۰ )مولوی اسحٰق دہلوی کی کتاب مائۃ مسائل غلط و مردود مسائل، اہل سنّت اور جمہور كی مخالفت سے بھرپورہے۔

(۱۱) انبیائے کرام اور اولیائے کرام سے مدد مانگنا ، انہیں حاجت کے وقت مدد کے لئے پکارنا یعنی یارسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، یا علی کرم اللہ وجہہ الکریم، یا شیخ عبدالقادر الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہنا اور انہیں اللہ پاک کے فیوض وبرکات جاری ہونے کا ذریعہ سمجھنا بلا شبہ درست اور جائز ہے۔

(۱۲) دنیا کی ظاہری زندگی میں اور اس کے بعدبھی انبیائے کرام علیہم السلام اور اولیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اللہ پاک کی عطا سے تصرف کرتے ہیں اور قیامت تک ان کا یہ فیضان جاری رہے گا۔

(۱۳) مُردوں کا سننا حق ہے ، عام مُردے زندوں کو دیکھتے ہیں، ان كی باتيں سُنتے اور سمجھتے ہیں پھر اولیائے کرام کی شان توبہت بلند ہے۔

(۱۴) پہلے دن سے قیامت تک جو کچھ ہوا یا ہوگا اﷲ پاک نے ایک ایک ذرّے کا حال اپنے آخری نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو بتادیا، لہٰذا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم ان تمام غیب کی باتوں کو شامل ہے۔

(۱۵) اسماعیل دہلوی کے رسالہ ”یکروزی“ اور گنگوہی کی کتاب ”براہین قاطعہ“ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے جھوٹ بولنے کو جو ممکن مانا گیا ہے، یہ کھلی گمراہی ہے۔ پوری امت کا اس پر اجماع واتفاق ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا جھوٹا ہونا“ یقیناً محال بالذات یعنی کسی بھی صورت ممکن ہی نہیں ہے۔ مسئلہ ”خلفِ وعید“ کولےکر جو اللہ سبحانہ وتعالی کے جھوٹ بولنے کو ممکن بتایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت میں ان دونوں کاان کے اس ناپاک خیال سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

(۱۶) شیطان کے علم کو (معاذ اﷲ) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علم سے بڑھ کر سمجھنا جیسا کہ گنگوہی کی کتاب”براہین قاطعہ“ میں ہے، یہ کھلی گمراہی اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی واضح توہین ہے۔

(۱۷) میلاد شریف کی محفل میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کی خوشی میں تعظیماً کھڑا ہونا جس طرح صدیوں سے حرمین شریفین میں رائج ہے، جائز ہے۔

(۱۸) شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے گیارھویں شریف کی نیاز کرنا، اولیائے کرام کا عرس منانا اورمُردوں کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے۔

(۱۹) شریعت اور طریقت دونوں الگ الگ نہیں ہیں، شریعت کی پیروی کے بغیر اﷲ تعالیٰ تک رسائی ناممکن ہے، کوئی کتنے ہی بلند مرتبہ تک پہنچ جائے، جب تک عقل باقی ہے اللہ تعالیٰ کے احکامات اس پر سے معاف نہیں ہوسکتے، بناوٹی صوفی شریعت کی مخالفت کو اپناکمال سمجھتے ہیں سب گمراہ شیطان کے کھلونے ہیں، ”وحدتِ وجود“ کا نظریہ حق ہے جبکہ ”حلول“ اور ”اتحاد“ کا نظریہ جوآج کل کے بعض بناوٹی صوفی بکتے ہیں یہ واضح کفر ہے ۔

(۲۰) ندوہ گمراہیوں اور بدعتوں کا گڑھ ہے، گمراہوں سے میل جول حرام ہے، ان کی تعظیم کرنا اللہ عزوجل کے غضب کو دعوت دینا ہے اور ندوہ کے فتنے کا دفاع کرنا اللہ پاک کی لعنت کی طرف بلانا ہے، انہیں کسی دینی مجلس کارکن بنانا دین کو نقصان پہنچانا اور گراناہے۔ ندوہ کے لیکچروں میں وہ باتیں بھری ہیں جن سے اﷲ عزوجل اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیزار اور بَری ہیں، اﷲ تعالیٰ تمام بدمذہبوں اور گمراہوں سے بچائے اور حقیقی سنّت پر ثابت قدم رکھے۔

پھر امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصدیق ومہر لگاتے ہوئے لکھا کہ آج کل بہت سے لوگ سنی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور عوام بیچارے دھوکے میں پڑتے ہیں،بعض وقتی مصلحت کے پیش نظر زبان سے کہتے کچھ ہیں لیکن پھر موقع ملتے ہی مکر جاتے ہیں، کسی کی سنی ہونے کی جانچ پڑتالی کے لئے یہ بیس پوائنٹس کافی ہیں اگر واقعی سنی ہوگا تو بغیر کسی شک وشبہ کے انہیں درست سمجھے گا اور قبول کرے گا ورنہ خود ہی گمراہی میں پڑے گا۔

تلخیص وتسہیل: مولانا محمد کاشف سلیم عطاری مدنی

تاریخ: 17.06.2025


آئیڈیا امانت ہے

Sat, 26 Apr , 2025
118 days ago

آئیڈیا  امانت ہے

(میں کیا لکھوں؟ کچھ نیا کیسے لکھوں ؟کوئی آئیڈیا دو کا ایک حل )

تحریر: مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

تحریروتصنیف سے وابستہ افراد کی خدمت میں کچھ گزارشات لے کر حاضر ہوں، موضوع ہے ”آئیڈیا“۔ اِس پر مختصر بات کرکے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں، اگر آپ تحریری میدان میں کچھ نیا چاہتے ہیں تو یہ مضمون آپ کے لیے ہے۔

آئیڈیا کی اہمیت وضرورت:

”آئیڈیا“ سب سے الگ کسی قابل عمل نئی رائے کو کہتے ہیں۔ دنیا کی دریافتوں،ایجادات اور انقلابات کے پیچھے آئیڈیاز ہی کارفرما ہوتے ہیں۔موجودہ سائنسی ترقی اورجدید ترین ٹیکنالوجی انسانی آئیڈیاز کی مرہون منت ہے۔ انسانی دماغ کو اللہ پاک نے بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے جس کا مثبت استعمال دین ودنیا کی ترقی وعروج کا باعث ہے۔یاد رہے کہ نئی ایجاد نئے خیال کے سبب وجود میں آتی ہے۔دور حاضر مسابقت کا زمانہ ہے،ہرشخص ،ہرکمپنی اور ہرادارہ کچھ نیا کرنا چاہتا ہے،ہرفیلڈ وشعبے میں ترقی کے لیے نیوآئیڈیاز کی ضرورت پڑتی ہے۔لہذا آئیڈیا اینڈ انوینشن اس دور میں کامیابی کا ایک بڑا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔

آئیڈیا کیسے آتا ہے؟

آئیڈیا کیسے آتا ہے؟ ہم آئیڈیا کیسے دیں ؟ پریشان ہونے کی بات نہیں، آپ صاحب علم وحکمت ہیں ، فہم وفراست کے مالک ہیں، مختلف چیزوں کے بارے میں درجنوں آئیدیاز دن رات انسان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں اور بیدار مغز افراد انہیں ذہنوں سے زبانوں اور میدانوں میں لے آتے ہیں۔ حقائق پر غور کریں، خیالات کو مثالی دنیا میں سوچ کر دیکھیں، منتشر کڑیوں کو جوڑیں گے آئیڈیاز آشکار ہونا شروع ہوجائیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کے آئیڈیا پر غور کریں تو کوئی نیا آئیڈیا آجائے گا۔اہل علم اور دانشوروں سے ملیں، علمی وتحقیقی کام کرنے والوں کی صحبت اختیار کریں،علمی گفتگو اور صحت مند مباحثے کریں،مطالعہ کریں، تنہائی میں غوروفکر کریں،پیش کردہ آئیڈیاز پر تنقید کریں اور اپنے آئیڈیاز پر ہونے والی تنقید کو حوصلے کے ساتھ قبول کریں اور پہلے سے بہتر سوچیں۔

آئیڈیا اور تصنیف وتحریر:

شعبہ تصنیف وتحریر میں بھی جدت کی ضرورت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے ۔ کتب ورسائل کو نئی جہتوں سے ہم آہنگ کرنا، زمانے کی ضرورت کے مطابق اچھوتے موضوعات کا انتخاب کرنا، پیشکش کا جدید ترین ہونا، قرآن وسنت اور سیرت نبوی کو عصری تقاضوں کے مطابق منفرد انداز میں پیش کرنااور تحریر کا مختصروپُراثر ہونا وغیرہ انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کتابوں کی دنیا میں بھی نت نئے آئیڈیاز کی ضرورت واہمیت ناگزیر ہوچکی ہے۔دنیائے علم میں بسنے والے افراد کواچھوتے اور منفرد آئیڈیا ز پیش کرتے رہنا چاہیے کیونکہ پروفیشنل لائف میں زیادہ کامیابی اُسی وقت ملتی ہے جب آپ اپنے ذہن سے نئی سوچ اور نئے خیالات پیش کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو اِختراعی سوچ کے ذریعے کم وقت میں زیادہ اور بہترکارکردگی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ترقی کی شاہراہ پر گامزان لوگ نئے خیالات اور اچھے آئیڈیاز کی قدر کرتے ہیں اورآؤٹ آف باکس تھنکنگ کو اہمیت دیتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ علم وتحقیق اور تحریروتصنیف سے وابستہ افراد کے اذہان میں نت نئے آئیڈیاز آتے رہتے ہیں، کوشش کیجیے کہ اولا اُس نئے آئیڈیا کے مطابق آپ خود کام کریں اور اگر آپ کے پاس وقت نہیں یا کسی وجہ سے آپ وہ کام نہیں کرسکتے یا کرنا نہیں چاہتے تو پھر یہ آئیڈیا آپ کے پاس امانت ہے ، آپ میدانِ تحریر کے شہ سواروں کےساتھ ان آئیڈیاز کو شیئر کردیا کریں، امید قوی کہ کوئی اور لکھاری ، محقق ، مصنف اُس آئیڈیا کو شرمندہ تعبیر کردے۔ آئیڈیا پیش کرنے کااعلی درجہ یہ ہے کہ آئیڈیا مکمل ہو،منصوبے کے جمیع لوازمات کو محیط ہو، مثلا کتاب/رسالہ کا نام ،ضرورت واہمیت، تمہید،ابتدائیہ ،نفس مضمون، خلاصہ ونتائج، ابواب بندی، فصول، ترتیب کتاب ، ماخذو مراجع کی نشاندہی یعنی جمع مواد کے لیے کتب ورسائل کے نام وغیرہ اور ادنی درجہ یہ کہ آئیڈیا کے بنیادی خدوخال اور اُس کا مرکزی خیال بیان کردیا جائے ۔ آئیے راقم بھی آپ کے ساتھ کچھ آئیڈیاز شیئرکرتا ہے۔اگر کوئی مردِ میداں ان میں سے کسی آئیڈیا پر کام کرے گا تو ہمارے لیے بھی باعث اجروثواب ہوگا۔کوئی لکھاری درج ذیل آئیڈیاز میں سے کسی پر کام کرنا چاہے تو اپنے اساتذہ کرام یا ہم سے رابطہ کرے، حسب استطاعت رہنمائی کی جائے گی ۔ ان شاء اللہ

لکھاریوں کے لیے 10 آئیڈیاز:

(1) اہل سنت حنفی کے دارالافتاؤں، شرعی مجالس اور مفتیان کرام کے درمیان جن جدید وقدیم فروعی مسائل میں اختلاف ہے ، ان تمام کو ایک کتاب میں یکجا کردیا جائے ، درس نظامی کے طلبہ اورعلمائے کرام کے لیے نادر تحفہ ثابت ہوگا۔مجوزہ صفحات250

(2) کتب فتاوی سے فقط جدید مسائل الگ کرکے کتابی شکل میں شائع کیے جائیں اور مفتیان کرام کا اختلاف بھی ذکر کردیا جائے۔ مجوزہ صفحات:350

(3) ایک رسالہ ایسا ہونا ضروری ہے جس میں فقط موجودہ آن لائن بزنس کی تفصیلات ، شرعی احکام، ناجائز طریقوں کی وضاحت اور جائز طریقوں کی تفصیل مذکور ہو ۔ مجوزہ صفحات:200تا250

(4) ایسے اردو فتاوی جن میں مسائل کا بہت زیادہ تکرار ہےان میں سے مکررات کو حذف کرکے یا وہ فتاوی جو کئی کئی مجلدات پر ہیں ان کی تلخیص کی جاسکتی ہے۔مجوزوہ صفحات:600تا8000۔ یا صاحب فتاوی نے جو نفس جواب لکھا ہے اور موقف اختیار کیا ہے ، دلائل کو ترک کرکے فقط وہ موقف اور جوابات یکجا کیے جاسکتے ہیں۔ مجوزہ صفحات:100 تا150

(5) جن روایات وواقعات کے موضوع وباطل ہونے پر اہل سنت کااتفاق ہے تتبع کرکے وہ تمام ایک کتاب میں شائع کردی جائیں تاکہ اہل علم ،طلبہ عظام ، مبلغین اور ائمہ کرام کے لیے آسانی فراہم کی جاسکے۔ مجوزہ صفحات:150 تا200

(6) حقوق العباد پر ایک جامع کتابی انسائیکلوپیڈیا تیار کیا جائے جس میں حتی المقدور تمام انسانوں کے حقوق اختصار کے ساتھ یکجا کردئیے جائیں ، متعلقہ فرداور اُس کے حقوق پرایک دو آیات، ایک دو احادیث مبارکہ، چند فقہی مسائل اور ایک آدھ حکایت۔ مجوزہ صفحات:1000

(7) احادیث مبارکہ کے مطالعے کی خواہش مند عوام کے لیے صحاح ستہ سے انتخاب کرکے حدیث شریف کی ایک جامع کتاب تیار کی جائے جو بالترتیب عقائد،عبادات ، منجیات ، مہلکات اور معمولات پر محیط ہو۔ مجوزہ صفحات:800

(8) مشہور کتب کی تلخیص کرکے خلاصے تیار کیے جائیں جیسے الزواجر(مجوزہ صفحات:300)، رسالہ قشیریہ(مجوزہ صفحات:150)، کشف المحجوب (مجوزہ صفحات:100)، عوارف المعارف(مجوزہ صفحات:180) ایسا کرنے سے ہمارے ان صاحب کتاب بزرگوں کا پیغام عوام تک بآسانی پہنچ جائے گا۔

(9) وہ کتب ورسائل جن کی زبان و اسلوب مشکل ہے ان کی تسہیل کردی جائے تاکہ عام قارئین بھی استفادہ کرسکیں، تسہیل مکمل اپنے آسان الفاظ میں کی جائے ورنہ اصل کو برقرار رکھتے ہوئے تسہیل قاری کو زیادہ دقیق مقامات پر الجھا سکتی ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ کام صرف راسخ العلم اور گہری فہم وفراست والا کرے یا تسہیل کے بعد کسی بڑے عالم سے نظرثانی ضرور کروالی جائے ۔ مجوزہ صفحات:70 تا100

(10) دو ایسی کتابیں لکھی جائیں جن میں عوام میں رائج مختلف مواقع کی رسموں کو جمع کردیا جائے، ایک کتاب جائز رسموں پر مشتمل ہو اور دوسری ناجائز پر یا پھروہ ایک کتاب دو حصوں پر مشتمل ہو جس کا پہلا حصہ جائز اور دوسرا حصہ ناجائز رسموں پر محیط ہو۔ ہر دو طرح کی رسموں کو بالکل الگ الگ لکھا جائے ۔

تلک عشرۃ کاملۃ

22 اپریل2025ء


از قلم:مولانا سلمان بٹ عطاری مدنی

موسمِ سرما کراچی میں اپنی آمد کا احساس دِلا چکا تھا ،ماہِ دسمبر کا اتوار تھا اور تاریخ تھی آٹھ،رات کے تقریبًا آٹھ بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔ نگران ِمرکزی مجلسِ شوری ٰحضرت مولانا حاجی ابوحامد محمد عمران عطاری کی دعوت پر ان کے گھر بیت الامان پہنچے۔نگرانِ شوریٰ کے گھر میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ عنایت سے نگرانِ شوریٰ کے گھرنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک (بال مبارک) تشریف لا چکے تھے۔ موئے مبارک کی جلوہ گری تھی ،اسی سلسلہ میں ایک محفل سجی تھی۔ نگرانِ شوریٰ نےبیرونِ ملک سے آئے ہوئے عاشقان رسول اور دیگر مبلغین ِدعوتِ اسلامی کو رات پونے دَس بجے اپنے گھر آنے کی دعوت دے رکھی تھی۔

مہمانوں کی سِٹنگ کا انتظام کیا جارہا تھا،اسی دوران حاجی عمران عطاری بھی تشریف لے آئے۔خبرِ فرحت اَثر ملی کہ امیر اہلسنت بھی تشریف لا رہے ہیں ۔ کمرے میں خوشبو سلگائی گئی، عمدہ قسم کا بخور فضا کو معطر کر رہا تھا۔تیاریاں جاری تھیں کہ پانی کا جگ اور گلاس لیے نگرانِ شوریٰ تشریف لے آئے۔ وہاں موجود افراد نے پانی پیا اور اپنا کام بروقت مکمل کر لیا۔

9:30 پر عاشقانِ رسول تشریف لا چکے تھے۔تلاوتِ قرآنِ پاک سے محفل پاک کی ابتدا ہوئی۔یوگینڈا کے اسلامی بھائی نے اردو میں کلام پیش کیا۔انڈونیشیا کے عاشقِ رسول نے مخصوص انداز میں عربی کلام پڑھا ،بنگلہ دیشی عاشق ِرسول نے بنگلہ زبان میں ہدیہ عقیدت پیش کیا، پھر قصیدۂ بردہ شریف پڑھا گیا، مناجات اور کلام کا سلسلہ جاری تھا کہ شیخِ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ بھی تشریف لے آئے۔ گھر میں موئے مبارک رکھنے کی برکات، موئے مبارک کی زیارت کے آداب بیان کئے گئے۔ ہو گیا فضل خدا موئے مبارک آگئے ،یہ کلام پڑھا گیا۔ذوق و سوز کا مجموعہ محفل کی روحانیت کو دو آتشہ کئے ہوئے تھا، وللہ الحمد۔

چونکہ انڈونیشیا کے عاشقانِ رسول کی واپسی تھی اس لئے امیر اہلسنت نے ان سے اور دیگر عاشقان رسول سے ملاقات کی، تحفہ بھی عطا فرمایا۔موئے مبارک کی زیارت بھی جاری تھی، عاشقان رسول موئے مبارک کی برکات سے فیض یاب ہو رہے تھے اور انہیں لنگر ِموئے مبارک و نیاز صدیق اکبر بھی پیش کی جارہی تھی۔ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے موئے مبارک کی زیارت کی آپ کا عشق و ادب میں ڈوبا انداز زبان حال سے بتا رہا تھا کہ یہ ہے موئے مبارک کی زیارت کا طریقہ اور دعا مانگنے کا سلیقہ۔مصطفےٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام پڑھا جا رہا تھا امیر اہل سنت نے بھی شعر پڑھا:

اَلغرض اُن کے ہر مُو پہ لاکھوں درود

ان کی ہر خُو و خَصلت پہ لاکھوں سلام

اللہ پاک ہمیں بھی ادب و شوق عطا فرمائے۔بعد ازاں سوالات و جوابات کی نشست سجی، عاشقان رسول کی تنظیمی و شرعی معاملات پر تربیت کی گئی، اس موقع پر مدنی چینل کے دو کیمرہ مین حضرات نے سنّت کے مطابق ایک مٹھی داڑھی شریف سجانےکی پکی نیت کی، ایک مٹھی سے گھٹانے کے گناہ سے توبہ کی ۔اس کا محرک ایک بچہ بنا جس کا نام حسن رضا عطاری ہے۔ رات تقریباً 1:10 پر یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا ۔

اللہ پاک نگرانِ شوری کے گھر میں خیر و برکت عطا فرمائے اور ہمیں بھی اپنے گھروں میں ذکر خدا و مصطفی کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


از قلم:مولانا سلمان بٹ عطاری مدنی

یہ 12 نومبر 2024ء کی ایک رات تھی، 11 بج کر 50 منٹ ہو رہے تھے۔مدنی چینل سے اپنی ڈیوٹی مکمل کرکے آنکھوں میں نیند لئے میں آفس سے نکلا۔فیضانِ مدینہ سے جیسے ہی باہر نکلا تو دیکھا کہ نگرانِ مرکزی مجلس شوریٰ حضرت مولانا حاجی عمران عطاری اپنی گاڑی میں ”بیتِ رمضان“ سے نکل رہے ہیں۔ گاڑی آتے دیکھ کر میں گیٹ کے پاس رُکا ،سوچ رہا تھا گاڑی روانہ ہو جائے تو میں بھی نکلوں لیکن یہ کیا! گاڑی تو میرے قریب آکر اچانک رُکی، نگرانِ شوری ٰ نے دروازہ کھولا ،سلام و مصافحہ کے تبادلے کے بعد مجھے فرمایا: ساتھ چلیں گے؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں! اِس لئے کہ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔

میں فوراً گاڑی میں سوار ہو گیا، فیضانِ مدینہ سے گاڑی نکلی تو کچھ دیر بعد نگرانِ شوریٰ نے شیڈول بتایا کہ ہمیں ایک تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ایک جگہ دعوتِ اسلامی سے محبت کرنے والے ایک عاشقِ رسول کے بیٹے کی شادی کے حوالے سے تحفہ دینے کے لیے اُن کے گھر جانا ہےاور ایک جگہ مبلغِ دعوتِ اسلامی کی عیادت کے لئے جانا ہے۔مجھ سے پوچھا : آپ وقت دے سکیں گے؟ میں نے عرض کی :جی بالکل ۔

اس میں سیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب بھی کسی کو کسی کام میں اچانک شریک کرنا ہو تو پہلے اُس سےکنفرم کر لیا جائے کہ سامنے والے کے لئے اُس کام میں شریک ہونا ممکن بھی ہے یا نہیں۔یہ اسپیس دینا چاہئے، سیرتِ مصطفےٰ میں بھی اِس حوالے سے رہنمائی موجود ہے ۔

سفر کی رُوداد پر واپس آتے ہیں ،صالحین کے قُرب کی برکت سے زبان پر ذکر و اَذکار جاری ہو جاتا ہے لہٰذا میں بھی تسبیح وتَہْلِیل میں مشغول ہو گیا۔مطلوبہ مقام پر پہنچنے سے پہلے ابنِ حاجی عمران حامد رضا عطاری نے نگرانِ شوریٰ سے میپ لوکیشن لی اور کچھ ہی دیر میں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔عاشقانِ رسول نے نگرانِ شوری سے ملاقات کی، میزبانوں کی خوشی دیدنی تھی، یوں لگ رہا تھا کہ اب اُن کی خوشی دوچند ہو گئی ہے۔

سلام و مصافحہ اور ملاقات کے بعد سِٹنگ ایریا میں بیٹھ گئے ۔نگرانِ شوری ٰ نے میزبان کی دل جوئی فرماتے ہوئے فیضان قرآن ڈیجیٹل پین تحفے میں پیش کیا۔ مدنی چینل کے نعت خواں جنید شیخ عطاری پہلے سے وہاں موجود تھے ،اُن سے دو کلام سنے۔” یادِ رسول ،فراقِ رسول کا سوزو گُداز اور نگرانِ شوریٰ کا عشق ِرسول“ آپ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے بالکل عیاں تھا۔الله پاک ہمیں بھی یہ ذوق عطا فرمائے۔بعد ازاں دعا ہوئی،نگرانِ شوریٰ نے اہلِ خانہ سے اجازت لی تو انہوں نے کھانا کھانے کے لئے اِصرار کیا تو آپ نے وہاں کچھ کھانا کھایا۔

نگرانِ شوریٰ نے اپنے میزبان سے کہا کہ آپ کی فیملی کے مرد حضرات آنے والے ہفتے مدنی مذاکرے میں شرکت کریں گے تو مجھے لگے گا کہ آپ کی طرف سے مجھے اچھا تحفہ مل گیا ہے۔میزبان اور دیگر افراد نے شرکت کی نیت کی۔آپ نے فرمایا کہ اس کی کارکردگی بھی دیجئے گا ،دل میں خوشی داخل ہو گی۔کھانے کے دُعا کی اور اجازت لے کر وہاں سے رخصت ہوئے۔

اگلی جگہ پہنچے وہاں انہیں معلوم نہیں تھا کہ نگرانِ شوریٰ آرہے ہیں۔ حاجی شبیر عطاری اہلِ خانہ سے رابطے میں تھے، میزبان اپنی بلڈنگ کے نیچے کھڑے تھے نگرانِ شوریٰ کو دیکھ کر خوش ہو گئے۔آپ اُن کے گھر پہنچے ،کچھ دیر قیام کیا، اُن کے بیٹے کو (جو کہ دورہ حدیث میں پڑھتے ہیں) دین کی خدمت کرنے اور تخصص فی الاقتصاد کرنے کا ذہن دیا، انفرادی کوشش کی، مدنی مذاکرے میں شرکت کی دعوت دی، فیضان قرآن ڈیجیٹل پین تحفے میں پیش کیا اور پھر وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ جن کی عیادت کرنا تھی اُن سے رابطہ نہ ہوسکا اس لئے عیادت کا پروگرام پاسپانڈ کیا اور واپس فیضانِ مدینہ آگئے۔

نگرانِ شوریٰ کے ساتھ اس سفر میں سیکھنے کو ملا کہ جب جہاں موقع ملے نیکی کی دعوت دی جائے، دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کی ترغیب دلائی جائے، مدنی مذاکرے میں شرکت کی دعوت دی جائے ،جہاں جہاں ممکن ہو عاشقانِ رسول کی دل جوئی بھی کی جائے اور تحائف بھی پیش کئے جائیں۔

دعوت اسلامی زندہ باد


از قلم:مولانا سلمان بٹ عطاری مدنی

2024ء کے نومبر کی 17 تاریخ تھی، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ظہر کی نماز ادا کی جا چکی تھی، دن کے دو بج رہے تھے اور نگرانِ مرکزی مجلس شوریٰ حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری کو ” قافلہ اجتماع“ میں سنتوں بھرے بیان کے لئے نواب شاہ جانا تھا ۔وقتِ مقررہ پر نگرانِ شوریٰ سفر کے لیے تیار تھے۔جن اسلامی بھائیوں کو ساتھ جانا تھا وہ بھی تیاری مکمل کر چکے تھے۔

تقریباً دو بج کر 30 منٹ پر مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی سے روانہ ہوئے۔ فراٹے بھرتی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ اچانک گاڑیوں کی رفتار سلو ہوئی اور پھر بریک لگ گئی، معلوم ہوا کہ روڈ بلاک ہے، کوشش کر کے گاڑیوں کو وہاں سے روانہ کیا گیا اور سفر کو مکمل کرنے کی کوشش اور جستجو دوبارہ شروع کر دی گئی ۔ ایک پٹرول پمپ پر رُک کر نماز عصر باجماعت ادا کی۔ہم ہالہ پہنچ چکے تھے،اب یہاں سے آگے اپنی منزل نواب شاہ کی جانب روانہ ہوئے۔روڈ زیر تعمیر تھا لہذا گاڑی کی رفتار سلو ہو چکی تھی، بہرحال وقت گزرتا جا رہا تھا، راستے میں موجود پیڑ پودے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔جوں ہی نمازِ مغرب کا وقت شروع ہوا تو اب صرف ایک ہی فکر تھی اور وہ تھی نماز کو وقت میں ادا کرنے کی۔ وقت مناسب پر نماز مغرب بھی باجماعت ادا کی گئی، اِ س دوران نگرانِ شوری حاجی محمد عمران عطاری کے داماد محمد اویس عطاری بھی سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہو چکے تھے ۔وہ اپنے گھر سے کچھ کھانا بنوا کر لائے تھے جسے نگرانِ شوریٰ اور آپ کے رُفقاء نے تناول کیا اور پھر سفر میں شریک دیگر عاشقانِ رسول اور سیکیورٹی گارڈ کو بھی اُسی کھانے میں شامل کر لیا گیا۔

سیکیورٹی گارڈ کو نگرانِ شوریٰ کے ساتھ کھانے میں شریک دیکھ کر مجھے خلیفۂ امیر اہل سنت حضرت مولانا حاجی ابو اُسید احمد عبید رضا عطاری مدنی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا انداز یاد آ گیا۔خلیفۂ امیر اہلِ سنّت کو دیکھا ہے کہ جو خود کھاتے ہیں وہ گارڈ ذکو بھی کھلاتے ہیں۔ نگرانِ شوریٰ چونکہ ”فنا فی الشیخ کے مقام پر فائز ہیں اِس لئے اپنے شیخ اور اُن کے جانشین کی پیروی کرتے ہوئے آپ نے بھی اسی ادا کو ادا کیا ۔ نبی اکرم، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق کھانا کھلانا مغفرت کو واجب کرنے والے کاموں میں سے ایک کام ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ محمد اویس عطاری بھائی جو کھانا لے کر آئے تھے وہ بھی وافر مقدار میں تھا جو کہ تقریباً سبھی کو کفایت کر سکتا تھا۔ ہمیں بھی چاہئے کہ سفر میں شریک اپنے رُفقاء کو جہاں جہاں ممکن ہو خیر خواہی میں شامل کر لینا چاہیے کہ اِس سے محبت بڑھتی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت ملتی ہے۔ رات کےسائے گہرے ہوتے جا رہے تھے اور مدنی قافلہ اجتماع کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لہذا بلا تاخیر وہاں موجود عاشقان رسول سے ملاقات کرنے کے بعد ہم نواب شاہ کی جانب روانہ ہوئے۔پٹرول پمپ سے ہم نے گاڑی میں پیٹرول بھروایا اور نگران ِشوریٰ کے ساتھ ساتھ روانہ ہو گئے۔

میرے دل میں نگران ِشوریٰ کی محبت مزید بڑھ گئی جب میں نے دیکھا کہ آپ اپنے سفر کے وقت کو بھی کارِ خیر میں استعمال کرتے ہوئے کبھی ذکرو اذکار میں مشغول ہیں تو کبھی مطالعہ فرما رہے ہیں۔الحمد للہ ہم نواب شاہ پہنچ گئے، فورا ًنمازِ عشا باجماعت ادا کی،میں نے محسوس کیا کہ نگرانِ شوریٰ سارے سفر میں باوضو ہیں ، اس کی جہاں دیگر برکات ہیں وہیں یہ بھی ہے کہ نماز بروقت اور سہولت سے ادا کی جاسکے۔نگرانِ شوریٰ فریش ہوئے اور کھانا تناول کرنے کے لیے اُس کمرے میں تشریف لائے جہاں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ آپ نے ٹیبل کرسی پر 10 اسلامی بھائیوں کے کھانے کا انتظام دیکھ کر کچھ یوں فرمایا : ”جو اسلامی بھائی آئے ہیں ان کے ساتھ ہی دسترخوان پر کھانے کی ترکیب ہو تاکہ ان کی دل جوئی کا سامان بھی ہو سکے۔“میزبان چونکہ آپ کے لیے علیحدہ سے انتظام کر چکے تھے اس لئے انہوں نے عرض کی: اُن اسلامی بھائیو ں کے ساتھ چائے کی ترکیب بنا لیں گے آپ ابھی یہیں کھانا تناول فرما لیجئے۔میزبان کو شرمندگی سے بچانا بھی مہمان کی ذمہ داری ہے لہذا آپ نے میزبان کا لحاظ رکھتے ہوئے وہیں کھانا تناول فرمایا۔سنت کے مطابق دعا پڑھ کر ”یاواجد ذکر کے ساتھ کھانا کھایا اور برتن صاف کرنے والی سنت پر بھی عمل کیا۔بعد ازاں عاشقان ِرسول کے ساتھ چائے پی اور پھر اجتماع گاہ کی جانب روانہ ہو گئے۔

اجتماع گاہ ہی نہیں بلکہ اُس گراؤنڈ کے اطراف کی گلیاں بھی عاشقانِ رسول سے بھری ہوئی تھیں۔عاشقانِ رسول جوق در جوق تشریف لا رہے تھے، نگران شوریٰ بیان کے لئے مقررہ وقت پر تشریف لے آئے۔ مدنی قافلوں کی افادیت، مسجدوں کی آباد کاری ،علم دین حاصل کرنے ،حج وعمرہ کے مسائل سیکھنے کی ترغیب اور اخلاق و کردار کی بہتری کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات پر شاندار بیان ہوا جسے وہاں موجود عاشقانِ رسول کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ مدنی چینل پر دنیا بھر کے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت نے دیکھا اور سنا۔ اجتماع صلوٰۃ و سلام پر ختم ہوگیا تھا لیکن ریلوے گراؤنڈ میں موجود عاشقانِ رسول تھے کہ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔خیر! نگران ِشوریٰ نے عاشقان رسول سے اجازت لی اور واپس قیام گاہ تشریف لے آئے۔

قیام گاہ پر نگران ِشوریٰ نے سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقات کی، اُنہیں نیکی کی دعوت دی ،فیضان مدینہ کراچی آنے کا ذہن دیا، عاشقانِ رسول سے ملاقات کی ،انہیں دینی کاموں اور مدنی قافلوں کے اہداف دیئے۔آپ ابھی واپس کراچی کا قصد کرنے ہی والے تھے کہ آپ کے نواسے حنظلہ عطاری نے کہا:نانا ! آپ ہمارے گھر آئیں، پتا نہیں آپ دوبارہ کب آئیں گے ۔

نگرانِ شوریٰ ایک مہربان اور شفیق نانا بھی ہیں۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنایا جائے اور ہم سب جانتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسوں سے بہت محبت کرتے تھے آپ بھی اتباع رسول میں ویسا انداز اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔نگرانِ شوریٰ اپنی گاڑی میں سوار ہوئے اور ڈرائیور سے کہا : اویس عطاری کے گھر جائیں گے۔

نواب شاہ آتے ہوئے حیدر آباد سے آپ کے داماد ،دو نواسے حنظلہ عطاری اور صدیق عطاری آپ کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوئے تھے، واپس نواب شاہ سے حیدر آباد سفر کرنا تھا مگر حنظلہ عطاری گاڑی میں نہیں تھے، انہیں تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے ابوجان کے ساتھ دوسری گاڑی میں موجودہیں۔ صدیق عطاری آپ کے ساتھ گاڑی میں تھے، آپ نے صدیق عطاری سے پوچھا :بابا کے ساتھ جانا ہے یا میرے ساتھ ؟صدیق عطاری نے کہا: آپ کے ساتھ ۔ بس پھر کیا تھا حیدر آباد کی جانب سفر شروع ہوا اور گاڑی روڈ پر فراٹے بھرتی ہوئی سرپَٹ دوڑنے لگی ۔

نگرانِ شوری ٰکے ڈرائیورحنیف بھائی نے اپنی جیب سے ڈرائی فروٹ نکال کر نگرانِ شوریٰ کو پیش کئے۔آپ نے وہ لفافہ پیچھے بیٹھے ایک اسلامی بھائی کو دیا اور کہا :خود بھی کھائیں ،دوسروں کو بھی کھلائیں۔چنانچہ گاڑی میں موجود افراد نے ڈرائی فروٹ کھائے اور اللہ پاک کی نعمت پر شکر ادا کیا۔نگرانِ شوریٰ اپنے نواسے، بیٹی، داماد اور حاجی یعقوب صاحب کی دلجوئی کی خاطر حیدرآباد پہنچ گئے۔

آدھی رات گزر چکی تھی اور ہم حیدرآباد پہنچ چکے تھے، ”حیدرآباد میمن سوسائٹی میں مریم مسجد ہے جہاں دعوت اسلامی کا سنتوں بھرا ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے “ہم اُس مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے حاجی یعقوب عطاری کے گھر پہنچے۔ حاجی یعقوب عطاری اور اویس بھائی نے نگران ِشوریٰ کا استقبال کیا، آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ بعد ازاں ہمیں بھی ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا ،کچھ ہی دیر میں نگران ِشوری ٰبھی ہمارے پاس تشریف لا چکے تھے، رات کا وقت تھا، گیس کی لوڈ شیڈنگ تھی لیکن ضیافت کے لیے کھانوں کا بھرپور انتظام تھا۔ ماشاء اللہ زبردست دسترخوان سجایا گیا،جس پر ہم انواع و اقسام کی نعمتوں سے سیر ہو کر لطف اندوز ہوئے۔ نگرانِ شوریٰ کے داماد محمد اویس عطاری بڑی محبت اور شوق سے نگرانِ شوریٰ کے ساتھ ساتھ دیگر مہمانوں کی بھی مہمان نوازی کر رہے تھے۔کھانا کھانے سے پہلے کی دعائیں پڑھ کر سنت کے مطابق کھانا کھانے کا سلسلہ رہا۔کھانے کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی گئی جس نے کھانے کا مزہ دوبالا کر دیا۔

یہاں ایک بات جو قابلِ ذکر ہے وہ یہ کہ نگرانِ شوریٰ کا انداز دیکھا کہ آپ نیکی کی دعوت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، نیکی کی دعوت دیتے ہیں، نیکیوں کی ترغیب دلاتے ہیں،اب بھی ایسا ہی ہوا کہ کھانا کھانے سے پہلے آپ نے ترغیب دلائی کہ پیر شریف شروع ہو چکا ہے لہذا پیر شریف کے روزے کی نیت بھی کی جا سکتی ہے۔پیر شریف کا روزہ رکھنا نیک اعمال میں بھی شامل ہے اور نفلی روزے رکھنا بڑی سعادت مندی کی بات ہے جس کے بے شمار فضائل و برکات ہیں۔

کھانا کھانے کے بعد اویس بھائی اور حاجی یعقوب صاحب سے اجازت لے کر مہمان اپنی سواریوں کے قریب آگئے۔وقت مناسب پر نگرانِ شوریٰ بھی گاڑی میں تشریف لائے اور واپس کراچی کا سفر شروع ہو گیا۔

نگران ِشوریٰ سفر میں بھی وقت پرنماز کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، حیدرآباد سے نکلتے ہوئے آپ نے کراچی میں نمازِ فجر کے آخری وقت کے بارے میں معلومات لیں تاکہ بروقت نماز فجر ادا کی جا سکے۔ رات کا آخری پہر تھا لیکن حنیف بھائی بڑی ہی جانفشانی اور توجہ کے ساتھ گاڑی چلا رہے تھے ۔اللہ کی رحمت سے ہم تقریباً چھ بجے مدنی مرکز فیضان مدینہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نگرانِ شوریٰ نے گاڑی سے اُترنے سے پہلے فرمایا:اگر حقِ صحبت میں کسی قسم کی کوئی حق تلفی ہو گئی ہو تو میں معافی کا طلبگار ہوں، ہم نے نگرانِ شوریٰ کا شکریہ ادا کیا اور اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

اللہ تعالی نگران شوری کی دینی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں اللہ تبارک و تعالی اچھی باتیں سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سفر کا خلاصہ

· نماز باجماعت کا ممکنہ صورت میں اہتمام کیا جائے۔

· نماز کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے۔

· سفر میں ذکر و اذکار جاری رکھا جائے۔

· فضول گفتگو سے اجتناب کیا جائے۔

· شرکائے سفر کی ممکنہ صورت میں دل جوئی کی جائے۔

· اپنے میزبان کو شرمندگی سے بچایا جائے۔یعنی کوئی ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے میزبان شرمندہ ہو جائے۔

· نیکی کی دعوت کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جا ئے۔

· دعوت اسلامی کے دینی کاموں کی ترغیب دلائی جائے۔

· مسلمانوں سے خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے۔

· اپنے عزیزو اقارب اور رشتہ داروں کے لیے وقت نکالا جائے اور ان سے ملاقات کی جائے۔

· بچوں بالخصوص اپنے خاندان کے بچوں پر شفقت کی جائے۔

· چھوٹی چھوٹی باتیں ”جن سے احساس اور محبت جھلکتا ہو“ یہ باتیں رشتوں کی مضبوطی اور دل میں خوشی داخل کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

· بچوں کے اچھے اور سلجھے ہوئے سسرال مل جانا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

· اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں کو اس بات کا احساس نہ دلایا جائے کہ وہ حقیر ،ذلیل یا چھوٹے لوگ ہیں۔

نوابشاہ میں ہونے والے اجتماع کا بیان سننے کے لئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

https://www.youtube.com/watch?v=lYiGpHyEiw4


زندگی میں صبر ضروری ہے

Wed, 18 Sep , 2024
338 days ago

عمران رضا عطاری مدنی

(تخصص فی الحدیث ناگپور،ہند)

زندگی کے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی آزمائش ، مصیبت اور پریشانی لاحق ہوتی رہتی ہے۔ اگر ان چیزوں سے پریشان ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں تو پھر زندگی کے کسی شعبے میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ آزمائش و مصیبت پر صبر کریں اور ہمت سے کام لیں جیسے کسی رشتہ دار کا انتقال ہوجاتا ہے تو لازمی طور پر صبر ہی کرنا ہوگا، اگر صبر نہ کرے واویلا کرے، چلائے ، سینہ پیٹے اور یوں ناجائز و حرام کام میں مبتلا ہوجائے تو اس سے مرنے والا واپس تو نہیں آئے گا ہاں جو صبر پر ثواب ملنے والا تھا وہ ضائع ہو جائے گا۔ اسی طرح مختلف مواقع پر صبر کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنے والا اللہ کے نزدیک اور لوگوں کے نزدیک بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اللہ پاک انہیں پسند فرماتا ہے جو مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ویسے بھی دنیا آزمائش ہی کا نام ہے ۔ تمام پریشانیوں سے نجات تو جنت میں جاکر ہی ملے گی ۔

دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت:

حدیث پاک میں ہے :الدُّنْيَا سجن الْمُؤمن وجنة الْكَافِر دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ ( الفردوس بمأثور الخطاب، ج:2، ص:229، رقم الحدیث: 3113)اس حدیثِ پاک پر غور کریں کہ مسلمان کے لئے دنیا قید خانہ ہے۔ ایک قید خانہ میں ہوتا کیا ہے؟ مصیبت ، پریشانی ، آزمائش ، کھانے کی قلت لیکن پھر بھی ہمیں بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہیں۔ اگر ساتھ میں کچھ پریشانیاں آتی ہیں تو ہمیں صبر کرنا ہے اور اس حدیثِ پاک پر نظر رکھنا ہے۔ آپ چاہیں کہ ہر طرح کی چھوٹی بڑی تمام مصیبت ختم ہو جائیں تو ایسامرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارے اسلافِ کرام رحمہم اللہ کی حالت یہ تھی کہ چند دن گزرے اور کوئی مصیبت و پریشان نہیں آئی تو ٹیشن میں آجاتے تھے کہ کہیں اللہ ناراض تو نہیں ہوگیا۔

ہم تمہیں آزمائیں گے:

خود قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے چنانچہ ارشاد فرمایا : وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ والثَّمَرٰتِؕوَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ. ترجمۂ کنز الایمان : اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سناؤ ان صبر والوں کو۔ ( القرآن الکریم ، السورۃ : البقرۃ، الآیۃ : 155)اللہ پاک قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے:وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ’’اور صبر کرو بیشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (القرآن الکریم ، السورۃ:الانفال، الآیۃ:46)اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں ہے:ما مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا كفَّر اللَّهُ بها عنه، حتى الشوكة يُشاكهاترجمہ : مسلمان کو جو تکلیف و ہم وحزن و اذیت و غم پہنچے، یہاں تک کہ کانٹا جو اس کے چُبھے، اﷲ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(صحیح بخاری، ج:5، ص:2137، رقم :5317، کتاب المرضی، باب: ما جاء في كفارة المرضى، طبع : دار ابن كثير )

تبلیغِ دین میں قدم قدم پر آزمائشیں:

شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم قادری عطاری لکھتے ہیں : یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر و خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ،ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ستایا جانا اور انبیائے کرام علیہم السلام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان چاہیئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ ( صراط الجنان، ج:1، ص:250، طبع : مکتبۃ المدینہ)

بیماری نعمت ہے:

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے منافع بے شمار ہیں ، اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقۃً راحت و آرام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے۔ یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بیماری سمجھتا ہے، حقیقت میں روحانی بیماریوں کا ایک بڑا زبردست علاج ہے ۔حقیقی بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی چیز ہے اور اسی کو مرض مہلک سمجھنا چاہیئے۔ بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبے والوں کی شان ہے کہ تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا۔

ع انچہ از دوست میر سد نیکوست

یعنی وہ چیز جو دوست کی طرف سے پہنچتی ہے، اچھی ہوتی ہے

مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ صبر و استقلال سے کام لیں اور جزع و فزع کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔ بہت سے نادان بیماری میں نہایت بے جا کلمے بول اٹھتے ہیں بلکہ بعض کفر تک پہنچ جاتے ہیں معاذ اﷲ۔ اﷲ عزوجل کی طرف ظلم کی نسبت کر دیتے ہیں ، یہ تو بالکل ہی خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ ( یعنی دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والوں کی طرح)کے مصداق بن جاتے ہیں۔ (بہار شریعت، ج:1، ح:4، ص:799، طبع : مکتبۃ المدینہ )

شیخ طریقت امیرِ اہلِ سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں : اللہ تعالی مصیبتیں دے کر آزماتا ہے تو جس نے ان میں بے صبری کا مظاہرہ کیا ، واویلا مچایا، ناشکری کے کلمات زبان سے ادا کئے یا بیزار ہو کر معاذ اللہ عزوجل خودکشی کی راہ لی، وہ اس امتحان میں بری طرح ناکام ہو کر پہلے سے کروڑہا کروڑ گنا زائد مصیبتوں کا سزاوار ہو گیا۔ بے صبری کرنے سے مصیبت تو جانے سے رہی الٹا صبر کے ذریعے ہاتھ آنے والا عظیم الشان ثو اب ضائع ہو جاتا ہے جو کہ بذات خود ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔ ( خود کشی کا علاج )

میلاد مصطفٰے اور ظاہر وباطن کی پاکیزگی

Wed, 18 Sep , 2024
338 days ago

اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تشریف آواری کے مقاصد میں سے ایک مقصد انسان کے ظاہر وباطن کو پاک کرنا بھی ہےجیساکہ ابو الانبیا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد دعا فرمائی جس کی قبولیت کوقرآن کریم میں مختلف انداز میں بیان کیا گیا۔ چنانچہ

دعائے ابراہیم:

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹) (پ1، البقرۃ:129)

ترجمہ کنز الایمان: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔

تفسیر خزائن العرفان:

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کی ذریت میں یہ دُعا سیّدِ انبیاء صلّی اللہ ُعلیہ وسلّم کے لئے تھی یعنی کعبہ معظمہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم و اسمٰعیل نے یہ دعا کی کہ یارب! اپنے محبو ب نبی آخر الزماں صلّی اللہُ علیہ وسلّم کو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت کر، یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں صاحبوں کی نسل میں حضور کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا، اولادِ حضرت ابراہیم میں باقی انبیاء حضرت اسحٰق کی نسل سے ہیں۔

میلاد مصطفٰے کا بیان:

صدر الافاضل مزید فرماتے ہیں کہ سیِّد عالَم صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے اپنا میلاد شریف خود بیان فرمایا امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ’’خَاتَمُ النَّبِیِّیْن‘‘ لکھا ہوا تھا بحالیکہ حضرت آدم کے پتلا کا خمیر ہورہا تھا، میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں، میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارتِ عیسیٰ ہوں، اپنی والدہ کی اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور ان کے لئے ایک نور ساطع (پھیلتا ہوا نور) ظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان و قصور اُن کے لئے روشن ہوگئے۔ (شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین والآخرین محمد، 7/ 13، حدیث:3520) اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں حضور سیِّدِ انبیاء محمد ِمصطفیٰ صلّی اللہُ علیہ وسلّم کو مبعوث فرمایا۔(خازن، بقرہ، تحت الآیہ:129، 1/ 91) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ۔(جمل و خازن)

تفسیر صراط الجنان:

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام نے حضور اقدس صلَّی اللہُ علیہ واٰلِہ وسلَّم کے متعلق بہت سی دعائیں مانگیں جو رب تعالیٰ نے لفظ بلفظ قبول فرمائیں۔ حضور پُر نور صلَّی اللہُ علیہِ وسلَّم مومن جماعت میں، مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، رسول ہوئے، صاحب ِ کتاب ہوئے، آیات کی تلاوت فرمائی، امت کو کتابُ اللہ سکھائی، حکمت عطا فرمائی، اُن کے نفسوں کا تزکیہ کیا اور اسرارِ الٰہی پر مطلع کیا۔

طہارت، طیب اور تزکیہ:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی (دعا میں) اس ترتیب سے اس طرف اشارہ ہے کہ بندے آیات قرآنیہ تلاوت کر کے، علم وحکمت سیکھ کر بھی پاک نہیں ہو سکتے جب تک حضور کی نگاہ انہیں پاک نہ کرے اسی لئے تلاوت وغیرہ کے بعد تزکیہ کا ذکر فرمایا اور اس تزکیہ کو حضور پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی طرف منسوب کیا۔ خیال رہے کہ ’’ظاہری پاکی کو طہارت اور قلبی پاکی کو طیب کہا جاتا ہے مگر جسمانی، قلبی، روحانی خیالات وغیرہ کی مکمل پاکی کو تزکیہ‘‘ کہتے ہیں۔(تفسیر نعیمی، 1/ 654)

دعائے ابراہیمی کی مقبولیت:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا مقبول ہوئی جسے دوسرے پارے کے شروع میں ان الفاظ میں بیان فرمایا۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ؕ(۱۵۱)۔(پ2، البقرۃ:151)

ترجمہ کنز الایمان: جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔

تفسیر نعیمی:

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتےہیں: سب سے بڑھ کر یہ کہ تم میں اپنا یہ بڑا پیغمبر بھیجا جو سر تا پا رحمَتِ الٰہی ہیں۔ یوں تو ان کے تم پر لاکھوں احسان ہیں مگر پانچ احسان بالکل ظاہر: ایک یہ کہ وہ تم تک رب کی آیتیں پہنچاتے ہیں، تمہیں پڑھ کر سناتے اور پڑھنا سکھاتے ہیں، تمہارے الفاظ صحیح کراتے، تلاوت کے آداب بتاتے ہیں بلکہ اس کے لکھنے کی جانچ بتاتے ہیں پھر تمہیں شرک، بت پرستی، کفر وگندے اخلاق، بدتمیزی، عداوت، آپس کے جھگڑے، جدال، جسمانی گندگی غرض یہ کہ ہر ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک فرماتے ہیں کہ عرب جیسے سخت ملک کو جو انسانیت سے گر چکا تھا اور جہاں باشندے انسان نما جانور ہو چکے تھے ان کو عالَم کا معلم بنا دیا۔ بت پرستوں کو خدا پرست، رہزنوں کو رہبر، شرابیوں کو نشَۂ محبت الٰہی کا متوالا، بےغیرتوں کو شرمیلا، جاہلوں کو عالِم اور نہ معلوم کسے کسے کیا کیا بنا دیا غرض یہ کہ مخلوق کو خالق تک پہنچا دیا۔ (تفسیر نعیمی، 2/ 64)

نیز سورۂ آل عمران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴)۔(پ4، آل عمران :164)

ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔

تفسیر صراط الجنان:

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے: عربی میں مِنَّت عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سیِّدِ دو عالَم صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے۔پیدائِشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ معراج بھی ربُّ العالمین کی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قَبرِ انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پُر نور صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے لب ہائے مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے عالَم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے، کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے، کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا، ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالَم صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔

تفسیر نور العرفان:

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی تشریف آوری تمام نعمتوں سے اعلیٰ ہے کہ لفظ ’’مَنّ‘‘ قرآن شریف میں اور نعمتوں پر ارشاد نہ ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ تمام نعمتیں فانی ہیں اور ایمان باقی، یہ ہی حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے ملا۔ تمام نعمتوں کو نعمت بنانے والے حضور ہیں۔ اگر ان نعمتوں سے گناہ کئے جائیں تو وہ عذاب بن جاتی ہیں نیز ہاتھ پاؤں وغیرہ رب کے آگے شکایت بھی کریں گے اور حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم سفارش فرمائیں گے لہٰذا حضور نعمت مطلقہ ہیں۔ (نیز یہ بھی) معلوم ہوا کہ پاکی صرف نیکیوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ نیکیاں تو پاکی کے سبب ہیں۔ پاکی نگاہِ کرم مصطفیٰ صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے ملتی ہے۔ نیکیاں تخم (بیج) ہیں اور حضور کی نگاہِ کرم رحمت کا پانی۔ بغیر پانی تخم بیکار ہے جیسے کہ شیطان کی عبادات بیکار ہوئیں لہٰذا کوئی متقی اور ولی حضور سے بےنیاز نہیں ہو سکتا۔

تفسیر نعیمی:

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ تفسیر نعیمی میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: حضور انور صلّی اللہُ علیہ وسلّم تاقیامت ہمارے جسموں کو شریعت کے پانی سے، دلوں کو طریقت کے پانی سے، خیالات کو حقیقت کے پانی سے اور روح کو معرفت کے پانی سے پاک فرماتے ہیں اور پاک فرماتے رہیں گے۔(تفسیر نعیمی، 4/ 317)

خلاصہ:

مذکورہ آیت مبارکہ میں میلاد مصطفٰے کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بیان بھی ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللہُ علیہ وسلّم ظاہر وباطن کی گندگی دور کر کے انسانوں کو طہارت وپاکیزگی عطا فرماتے ہیں۔ ظاہری پاکیزگی کے لئے وضو و غسل وغیرہ کے احکام اور اس کے طریقے سکھائے جبکہ باطنی گندگی سے طہارت کے لئے باطنی بیماریوں کی تفصیل اور وضاحت بیان فرمائی جس پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے ظاہر وباطن کو سنوار سکتا ہے۔ یاد رکھیئے! نماز پڑھنے کے لئے ظاہر کا پاک ہونا ضروری ہے کہ نمازی کا بدن، لباس اور جس جگہ نماز پڑھ رہا ہے وہ نجاست غلیظ وخفیفہ سے پاک ہو لیکن نماز کی قبولیت کے لئے باطن کا پاک ہونا ضروری ہے کہ وہ تکبر، خود پسندی اور ریاکاری وغیرہ گندگیوں سے پاک ہو لہٰذا ظاہر کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ باطن کی طہارت کا بھی اہتمام ہونا چاہیئے بلکہ باطنی طہارت کا زیادہ خیال رکھا جائےکیونکہ لوگوں کی نظریں صرف ظاہر کو دیکھتی ہیں جبکہ اللہ پاک ظاہر کے مقابلے میں باطن پر خاص نظر فرماتا ہے۔چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے:

صرف ظاہر نہیں باطن کو بھی سنوارو:

حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پا ک کے سب سے آخری نبی، محمد عربی صلّی اللہُ علیہ والہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُم یعنی اللہ پاک تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نظر نہیں فرماتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف نظر فرماتا ہے۔(مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، ص 1064، حدیث: 6543)

ربِّ کریم کے دیکھنے سے مراد:

حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہِ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: اللہ پاک تمہاری صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا کیونکہ اس کے ہاں تمہاری خوبصورتی وبدصورتی کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی وہ تمہارے مال ودولت کی طرف نظر فرماتا ہے اس لئے کہ اس کے نزدیک مال ودولت کی کمی زیادتی کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ تمہارے دلوں میں موجود یقین، سچائی، اخلاص، ریاکاری، شہرت اور بقیہ اچھے و بُرے اَخلاق کو دیکھتا ہے اور ’’اعمال دیکھتا ہے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ تمہاری نیت کو ملاحظہ فرماتا ہے کہ کس نیت سے کئے گئے پھر اس کے مطابق تمہیں اس کی جزا عطا فرمائے گا۔ نہایہ میں ہے کہ یہاں ’’نظر‘‘ کا معنیٰ پسندیدگی یا رحمت ہے کیونکہ کسی پر نظر رکھنا محبت کی دلیل ہے جبکہ نظر ہٹا لینا غضب ونفرت کی علامت۔ (مرقاۃ المفاتیح، 9/ 174، تحت الحدیث:5314 )

تقویٰ کس طرح حاصل ہوتا ہے؟

حضرت ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہِ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ صرف ظاہری اعمال سے حاصل نہیں ہوتابلکہ دل میں اللہ پاک کی عظمت، اس کے ڈر اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (شرح مسلم للنووی، جز16، 8/ 121)

ظاہر وباطن کو شریعت کے مطابق رکھو:

مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدیث پاک میں ’’دیکھنے‘‘ سے مراد ’’کرم ومحبت سے دیکھنا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کو بھی دیکھتا ہے۔ جب اچھی صورتیں اچھی سیرت سے خالی ہوں، ظاہر باطن سے خالی ہو (یعنی صرف ظاہر اچھا ہو اور باطن برا)، مال صدقہ وخیرات سے خالی ہو تو ربّ تعالیٰ اسے نظر رحمت سے نہیں دیکھتا نیز حدیث شریف کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف اعمال اچھے کرو اور صورت بُری بناؤ بلکہ صورت وسیرت دونوں ہی اچھی (یعنی شریعت کے مطابق) ہونی چاہئیں۔ کوئی شریف آدمی گندے برتن میں اچھا کھانا نہیں کھاتا، ربّ تعالیٰ صورت بگاڑنے والوں کے اچھے اعمال سے بھی خوش نہیں ہوتا۔ اگر صرف صورت اچھی ہو اور کردار برا ہو تو بھی نقصان اور اگر باطنی حالت درست اور ظاہری شریعت کے خلاف تب بھی نقصان۔ (ملخص از مراٰۃ المناجیح، 7/ 128)

لہٰذا مسلمان کو چاہئے کہ جس طرح اپنے ظاہر کو پاک صاف رکھتا ہے اس سے کہیں زیادہ باطن کی پاکیزگی وصفائی کا خیال رکھے۔ تعجب ہے اس پر جو مخلوق کی نظر میں اچھا بننے کے لئے ظاہر کو تو گندگی سے بچاتا ہے مگر دل جو ربِّ کریم کی خاص تجلی کا مقام ہے اسے باطنی بیماریوں کے میل کچیل سے نہیں بچاتا۔ خیال رہے! باطنی بیماریوں کا شکار تو ایک فرد ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

پس ہر مسلمان کو چاہیئے کہ باطنی امراض سے دل کی حفاظت کا خاص خیال رکھے تاکہ اس میں ایسے امراض داخل نہ ہوں جو دنیا وآخرت میں ہلاکت وبربادی کا باعث بنتے اور انسان کو بےسکونی کا شکار بنائے رکھتے ہیں۔جیسے غصہ، کینہ اور حسد ان تینوں امراض کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے کہ غصے سے کینہ پیدا ہوتا ہے اور کینہ حسد کو لاتا ہے یوں یہ تینوں بیماریاں مل کر انسان کو تباہی وبربادی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہیں۔ اسی طرح ’’حب جاہ اور ریاکاری‘‘ ایسی باطنی بیماریاں ہیں جن میں مبتلا شخص دل ہی دل میں خوش تو ہوتا ہے لیکن اسے احساس نہیں ہوتا کہ وہ دھوکے کا شکار ہےاور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑے بڑے نیک اعمال اور مجاہدے کرنے کے باوجود وہ ان کے حقیقی فوائد سے محروم رہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو فتنہ وفساد کا شکار بننے سے بچانے کے لئے بزرگانِ دین ظاہر کے مقابلے میں باطن کی اصلاح پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ بزرگانِ دین کا قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھا گیا اصطلاحی لٹریچر بھی اسی کی ایک کڑی ہے جو مجرب تریاق کا کام کرتی ہے، حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہِ علیہ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ‘‘ اس باب میں ایک روشن مینار ہے جسے بزرگانِ دین نے اپنے مریدین کی تربیت کا نصاب بنایا۔دورِ حاضر کے ایک عظیم روحانی پیشوا شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائے دامت برکاتہم العالیہ بھی وقتاً فوقتاً اپنے مریدین و متعلقین کو اسے پڑھنے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں لہٰذا اپنے باطن کو سنوارنے لئے انسان کو ایسی کتابوں کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہیئے۔

باطنی پاکیزگی کے لئے چند رہنما کتب:

(01)...بہار شریعت، حصہ16۔ (02)...احیاء العلوم(اردو) جلد:3۔ (03)...قوت القلوب۔ (04)...جہنم میں لے جانے والے اعمال۔ (05)...غیبت کی تباہ کاریاں۔ (06)...دل کی سختی کے اسباب وعلاج۔ (07)...احیاء العلوم کا خلاصہ۔ (08)...اچھے برے عمل۔ (09)...مکاشفۃ القلوب۔ (10)...تکبر۔ (11)...بدگمانی۔ (12)...ریاکاری۔ (13)...بغض وکینہ۔ (14)...منہاج العابدین۔ (15)...باطنی بیماریوں کی معلومات۔ (16)...جہنم کے خطرات۔ (17)...مختصر منہاج العابدین۔ (18)...76 کبیرہ گناہ۔ (19)...حرص۔ (20)...حسد۔ (21)...جہنم کے عذابات (حصہ اول ودوم)۔

نوٹ: یہ تمام کُتُب دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے قیمتاً حاصل کی جاسکتی ہیں نیز دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں، مطالعہ کے ساتھ ساتھ ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہیں۔ خود بھی پڑہیئے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ترغیب دلایئے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی پاکیزگی کا خیال رکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

محمد عمران الٰہی عطاری مدنی

۱۳ ربیع الاول ۱۴۴۵ھ

2023/ 09/ 30

بروز ہفتہ


تحریر: بنت ِمنصور عطاریہ مدنیہ

دفتر ذمہ دار پاک سطح” شعبہ حج و عمرہ

دینی تعلیم نورِ ہدایت کا سر چشمہ، نعمتِ باری، رحمتِ الٰہی، باعثِ برکت، سببِ نجات، باعثِ نزولِ رحمت، باعمل زندگی گزارنے کا ضابطہ اور وجہِ سر بلندی ہے۔کیونکہ علمِ دین انسان کو گمراہی کے اندھیرے سے نکال کر ہدایت کے نور تک پہنچا دیتا ہے اور وہ رحمتِ الٰہی میں رہتا ہے۔علمِ دین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی فرضیت مرد و عورت دونوں میں سے ہر ایک پر ہے۔چنانچہ

رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔(ابن ماجہ، 1/146، حدیث:224)

مسافت کے متعلق بیان ہوا کہ علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔(شعب الایمان، 2/253، حدیث:1663)

افضلیت کے متعلق بیان ہوا کہ جو علم کی طلب میں نکلا وہ لوٹنے تک اللہ پاک کی راہ میں ہے۔(ترمذی، 4/295، حدیث:2656)

طالبِ علم کے لئے پانی میں مچھلیاں مغفرت طلب کرتیں ہیں۔(دارمی، 1/110، حدیث:342)

مدت کے متعلق صوفیافرماتے ہیں:اطلبوا العلم من المہد الى اللحدیعنی گہوارہ سے قبر تک علم سیکھو۔(مراٰۃ المناجیح، 1، / 203)

یونہی عصری علوم دنیا کی ترقی کا اہم ذریعہ، معاشی بحران میں بہتری اور ملک کو مضبوط بنانے کا سبب ہیں۔مسلم معاشرے کی ترقی کے لیے ناصرف علمائے دین و مفتیان ِکرام کی حاجت ہے، بلکہ باضمیر اور عقلِ سلیم رکھنے والے ایسے ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنٹسٹ، ٹیچرز، پروفیسرز اور ٹریڈرز کی حاجت ہے جو کہ دینی احکامات کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر زندگی گزارنے والے ہوں اور ملک کا اثاثہ بنیں۔قیادت، سیاست، معاشرت، معیشت، تجارت الغرض زندگی کا ہر شعبہ علم کا تقاضا کرتا ہے۔ہمارے پیارے دین نے ہر ہر رخ پر ہمیں تعلیم سے آراستہ کر کے قواعد و ضوابط عطا کیے ہیں، جبکہ عصری علوم ہمیں جدید ذرائع سے آگاہی فراہم کرواتے ہیں یعنی دینی تعلیم ہمیں طریقہ کار بیان کرتی ہے جبکہ دنیاوی تعلیم ہمیں ذرائع فراہم کرتی ہے۔لہٰذا دونوں علوم کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر دینی تعلیم کے بغیر گزارا ممکن نہیں۔الحمد للہ عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی نے ان دونوں کی ضرورت و اہمیت کے پیشِ نظر ہر ہر شعبے میں فیضانِ علمِ دین کو عام کیا، یہی وجہ ہے کہ آج دینی و عصری تعلیم کے شعبے میں دعوتِ اسلامی کا ایک نمایاں اور بڑا نام ہے۔

امیرِ اہلِ سنت اور دعوتِ اسلامی کی علمی شعبے میں دینی و عصری خدمات:

دین کا درد رکھنے والے سنت و سنیت سے محبت کرنے والے، اس کے فروغ کے لیے اخلاص کے ساتھ جد و جہد کرنے والے، اصلاحِ اُمّت کے جذبے سے سرشار اور ہر دم اسی کی فکر میں مشغول ایک معروف شخصیت اور انٹرنیشنل مذہبی اسکالر امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نے جب معاشرے میں کم علمی، بے عملی اور گناہوں کی نحوست کو پایا تو صرف چند اسلامی بھائیوں کے ساتھ اپنی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت اپنے مشن کا آغاز فرمایا۔آپ نے اپنی منزل پانے یعنی اصلاحِ اُمّت اور نورِ علم پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً کئی شاندار اقدامات بھی فرمائے ہیں۔کیونکہ جب کسی منزل پر پہنچنے کا ارادہ ہو تو اس کے سفر کے آغاز میں پہلا قدم اٹھایا جاتا ہے، اس ایک قدم کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا یوں مسلسل اقدامات اور کوششوں کے بعد سفر اپنی انتہا کو پہنچتا ہے۔

مدرسۃ المدینہ:

الحمد للہ امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نہ صرف قرآنِ کریم اور دینی تعلیم سے بہت محبت فرماتے ہیں بلکہ درست مخارج کےساتھ قرآنِ کریم پڑھنے کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہیں، لہٰذا آپ نے عظمتِ قرآن اور دینی تعلیم کی ترویج کی اہمیت کے پیشِ نظر سب سے پہلا قدم اٹھایا اور 8 دسمبر 1990کو کراچی کے علاقے شو مارکیٹ گارڈن میں بچوں کے لئے حفظ و ناظرہ کا ادارہ بنام” مدرسۃ المدینہ“بنا کر امت پر زبردست احسانِ عظیم فرمایا۔اس بارے میں مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیے:

دعوتِ اسلامی کے تحت ملک و بیرونِ ملک میں بچوں بچیوں کے لئے حفظ و ناظرہ کے ہزاروں مدارس بنام”مدرسۃ المدینہ (بوائز/ گرلز، شارٹ ٹائم، رہائشی)“قائم ہیں جن میں بنیادی طور پر تجوید کے ساتھ مفت قرآن ِ کریم پڑھانے ہی کی سہولت نہیں، بلکہ ناظرہ قرآنِ کریم کے درجات کے ساتھ ساتھ حفظ کے درجات میں نماز، دعائیں، ایمانیات و عقائد، عبادات، اخلاقیات، سنتیں اور آداب بھی سکھائے جاتے ہیں۔جبکہ مدرسۃ المدینہ(رہائشی)میں بچوں کی رہائش کے انتظام کے ساتھ ساتھ 12 گھنٹے کا مکمل شیڈول ہوتا ہے جس میں بالخصوص حفظ کروانے کے علاوہ ان کی اخلاقی و دینی تربیت کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔یوں ہی مدرسۃ المدینہ(شارٹ ٹائم)میں بالخصوص ناظرہ قرآنِ پاک پر توجہ دی جاتی ہے۔ان مدارس کے اوقات کار میں اس بات کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے کہ اسکول پڑھنے والی طالبات اور گھر کی خواتین اپنے مناسب وقت پر نکل کر قرآنِ پاک سیکھ سکیں۔اسی طرح قرآنِ پاک کی قراءت کو بہتر بنانے کے لیے مُدَرِّس و مُدَرِّسہ کورسز بھی ڈیزائن کیے گئے ہیں تاکہ مُدَرِّس و مُدَرِّسہ اہلیت حاصل کرنے کے بعد درست پڑھا سکے۔

اسی مقصد کے تحت ملک و بیرونِ ملک میں شعبہ مدرسۃ المدینہ کی زیرِ نگرانی اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں جیسے اسلامی بھائیوں میں عمر کی قید کے ساتھ درج ذیل کورس کروائے جاتے ہیں:12ماہ کاتجوید و قراءت کورس(رہائشی)، 5 ماہ کا مُدرس کورس(رہائشی)، 7ماہ کا قاعدہ ناظرہ کورس(رہائشی)، 12 دن کا تربیتِ معلّم کورس (رہائشی)۔اسی طرح اسلامی بہنوں میں بھی 163 دن کا مُدَرِّسہ کورس(غیر رہائشی)، 10ماہ کا قاعدہ ناظرہ کورس (غیررہائشی)، 41 دن کا تربیتی معلّمہ کورس(رہائشی)کا اہتمام ہوتا ہے۔اس کے علاوہ بڑی عمر کے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کے لیے ملک و بیرونِ ملک پر کثیر مقامات پر مدرسۃ المدینہ بالغان و بالغات لگائے جاتے ہیں۔

گلی گلی مدرسۃ المدینہ:

یوں ہی اسلامی بھائیوں میں مدرسۃ المدینہ نائٹ شفٹ کے تحت رات میں بھی مدرسے لگائے جاتے ہیں۔جبکہ اسلامی بہنوں کے لیے”شعبہ گلی گلی مدرسۃ المدینہ“کے تحت قریب قریب کے مقامات پر گھر میں تجوید کے ساتھ ناظرہ پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہےتاکہ کوئی محروم نہ ہو، کم عمر بچیوں کی عادت بنے اور بڑی عمر کی اسلامی بہنیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

فیضان آن لائن اکیڈمی:

وہ مقامات یا وہ ممالک جہاں بذریعہ مدارس و جامعات فیضانِ قرآن پہنچانے کا کوئی انتظام ممکن نہیں تھا وہاں پر اسلامی بھائیوں اور بچوں کو قرآنِ کریم اور دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے 12 فروری 2012 کو دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ محلہ سودا گراں پرانی سبزی منڈی کراچی(پاکستان) میں”مدرسۃ المدینہ آن لائن“کے نام سے پہلا عالیشان ادارہ قائم کیا گیا، جس کی اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں 49 برانچز قائم ہیں۔اب اس کا تنظیمی نام”فیضان آن لائن اکیڈمی“ہے۔خواتین اور بچیوں کے لئے”فیضان آن لائن اکیڈمی (گرلز)“کی پہلی شاخ کا افتتاح 11 مئی 2013 میں ہوا۔فیضان آن لائن اکیڈمی کے ذریعے طلبا و طالبات مناسب فیس میں اپنی سہولت کے مطابق دن یا رات میں کسی بھی وقت دینی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

اسی شعبے کے تحت درسِ نظامی کی سہولت کے ساتھ ساتھ مختلف شارٹ کورسز مثلاً فیضانِ شریعت کورس وغیرہ بھی کروائے جاتے ہیں۔کورسز کے اختتام پر دعوتِ اسلامی کے تعلیمی بورڈ کے تحت امتحانات ہوتے ہیں اور اسناد بھی جاری کی جاتیں ہیں۔فیضان آن لائن اکیڈمی کے ذریعےانگلش و چائنیز وغیرہ زبانیں بھی سکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ بیرونِ ممالک کے طلبہ و طالبات تک بآسانی دینی تعلیمات پہنچائی جا سکیں۔

جامعۃ المدینہ:

الحمد للہ لوگوں نے آپ کے اس اقدام کو ایپریشیٹ کیا تو آپ نے لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے، علم دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور معاشرے سے بُرائیوں کے خاتمے کے لیے کوئی ایسا دینی ادارہ قائم کرنے کا ارادہ فرمایا کہ جہاں ایسے اہلِ حق علمائے کرام تیار کئے جائیں جو مسلمانوں کو فرض علوم کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ کریں اور سکھائیں۔چنانچہ آپ کی کاوشوں سے 1994 میں شہرِ کراچی(پاکستان)کے علاقے نیو کراچی کی گودھرا کالونی میں اسلامی بھائیوں کے لئے”جامعۃ المدینہ“کے نام سے درسِ نظامی یعنی عالم کورس کے ایک شاندار ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس کے بعد مزید شہروں میں اس کی Branches قائم ہوئیں۔اس بارے میں مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیے:

جامعات المدینہ علمِ دین کے فروغ و حصول کے لیے قائم کیے گئے ہیں جو دعوتِ اسلامی کے علمی میدان میں کامیاب ترین ادارے اور دعوتِ اسلامی کی ترقی میں اضافے کا سبب ہیں۔جامعۃ المدینہ کے تحت سب سے اہم کورس اسلامی بھائیوں کے لئے 8 سالہ اور اسلامی بہنوں کے لئے 6 سالہ درس نظامی(عالم/عالمہ کورس)ہے۔الحمد للہ بعض جامعات المدینہ میں فقہِ شافعی کے مطابق بھی تعلیم دی جاری ہے۔جامعۃ المدینہ خصوصی طور پر عالم و عالمہ بنانے والا ادارہ ہے جو بالکل مفت تعلیم دیتا ہے۔اس کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات کو دینی احکامات سیکھانا، کرنے اور نا کرنے والے کاموں سے آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ وہ کرنے والے کام کریں اور نا کرنے والوں سے بچتے ہوئے دینی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں، عبادات میں درستی اور عقائد میں پختگی حاصل کریں، ان میں قر آنِ پاک اور احادیث کے معانی و مطالب سمجھ کر سمجھانے والی صلاحیت پیدا ہو۔جامعۃ المدینہ مرشدِ کریم کو تمام شعبوں میں سب سے محبوب شعبہ ہے، کیونکہ اس کے ذریعے مسلمان باعمل زندگی گزار سکتے ہیں۔چنانچہ

فرمانِ امیرِ اہلِ سنت:جامعۃ المدینہ دعوتِ اسلامی کا مغز ہے۔اسی ادارے کے سبب دعوتِ اسلامی کا پیغام تیزی کے ساتھ عام ہوا ہے۔الحمد للہ 20 سال کے عرصے میں دنیا کے تقریباً 14 ممالک میں دعوتِ اسلامی کے جامعات المدینہ (بوائز/ گرلز)کی تقریباً 1500Branchesقائم ہو چکی ہیں۔

الحمد للہ شعبہ جامعۃ المدینہ کے تحت 25 ماہ کا فیضانِ شریعت کورس بھی کروایا جاتا ہے جو مکمل طور پر بنیادی فرض علوم پر مشتمل ہوتا ہے۔25 ماہ میں ٹوٹل 5 لیول ہوتے ہیں۔اسی طرح اس شعبے کے تحت مختلف مواقع پر مختلف کورسز وغیرہ بھی کروائے جاتے ہیں۔مثلاً رمضان المبارک سے پہلے زکوٰۃ کورس اور قربانی سے پہلے قربانی کورس وغیرہ۔کورس کے اختتام پر اسناد بھی دی جاتی ہیں۔

جامعۃ المدینہ( گرلز):

یاد رہے!یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ”ایک عورت دین پر تو سارا گھرانا دین پر“کو مدِّنظر رکھتے ہوئے 4 سال کے مختصر عرصے کے بعد 1999 میں بابری چوک کراچی(پاکستان)میں خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک عظیم الشان ادارہ بنام”جامعۃ المدینہ“کا آغاز ہوا۔الحمد للہ اب کراچی بلکہ پاکستان سے باہر بھی اس کیBranchesخواتین میں فیضانِ علم تقسیم کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

تخصص کورسز:

شروع شروع میں صرف اسلامی بھائیوں کو ہی جامعۃ المدینہ کے تحت تخصص کورسز کروائے جاتے تھے لیکن الحمد للہ عرصہ دو سال سےاسلامی بہنوں کے لیے شہرِ کراچی میں قائم جامعۃ المدینہ(گرلز)دار الحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی میں تخصص فی الفقہ(مفتیہ کورس) کا آغاز ہو چکا ہے، جبکہ رواں سال تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور فیصل آباد کے بڑے جامعات المدینہ(گرلز)میں تخصص فی الدعوۃ و الارشاد کروایا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد نیکی کی دعوت عام کرنا ہے۔

دار المدینہ:

امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:طلبہ کسی ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ اور قوم کے مستقبل کے رہنما ہوتے ہیں۔اگر ان کی تربیت شریعت و سنت کے مطابق کی جائے تو معاشرے میں ہر جگہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خوف اور عقیدت غالب آجائے گی۔(دارالمدینہ پراسپیکٹیس، ص1)

دورِ جدید میں دینی مقاصد کے حصول کے لیے دعوتِ اسلامی نے اہم قدم اٹھایا اور دنیا میں عصری علوم کے رائج طریقوں کے ساتھ دینی احکامات کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے بچوں اور بچیوں میں دین کی صحیح تربیت شریعت کے مطابق کر کے ان کو اچھا شہری و مسلمان بنانے کے جذبے کے تحت2011 میں دار المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم کا قیام عمل میں لایا گیا۔دار المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم کا مقصد روایتی تعلیمی علوم کو شریعت کے مطابق بہتر بنانا اور بچوں بچیوں کو اسلام کی حدود کے اندر اپنی بہترین صلاحیتوں کو سیکھنے اور پھلنے پھولنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔اس کا ایک مقصد ایک ایسا ماحول تیار کرنا بھی ہے جہاں تمام انتظامی، نصابی اور تدریسی طریقوں میں اسلامی اقدار کا احترام کیا جائے۔چنانچہ دار المدینہ میں مؤثر تدریس، کردار سازی، تعمیری سوچ اور اسلامی تربیت فراہم کی جاتی ہے جو اسے دیگر اداروں سے نمایاں کرتی ہے۔

دار المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم کے تحت”دار المدینہ اسلامک اسکولز“اور”فیضان اسلامک اسکولز “ کے 142 سے زائد Campuses میں ہزاروں بچےبچیاں عصری ودینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

Faizan Weekend Islamic School:

دار المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم کے تحت ایک اور ادارہ بنام Faizan Weekend Islamic School متعارف کروایا گیا ہے جس میں ان طلبہ کو فوکس کیا گیا ہے جو دوسرے اسکولز میں پڑھتے ہیں۔وہ اس ادارے سے دینی و اخلاقی تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔یہ ہفتے میں ایک یا دو دن اوپن ہوتا ہے، کیونکہ اس کا انحصار بچوں کی ہفتہ وار چھٹی پر ہوتاہے۔اس کی ایک برانچ سپر ہائی وے پر قائم بحریہ ٹاؤن میں موجود ہے۔مزید کام جاری ہے۔اس شعبے کو پاکستان کے سات بورڈز سے لائسنس حاصل ہیں، جبکہ بیرونِ ملک میں UK کے OFSTED اور USA کے CDSS-CCLD سمیت دیگر ممالک کے اداروں سے بھی سرٹیفکیٹس اور لائسنس جاری ہوچکے ہیں۔

ان شاء اللہ دار المدینہ کے O-Level اسکولز، کیمبرج سسٹم اسکولز، Online ایجوکیشن سسٹم، Prisoners (یعنی قیدیوں کے لئے) اسکولز اور Special Children اسکولز کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔

الحمدللہ دار المدینہ اسلامک کالج(بوائز) کا آغاز ہوچکا ہے جس کی پہلی برانچ زینب مسجد، محمدیہ کالونی، سوساں روڈ، مدینہ ٹاؤن، فیصل آباد میں قائم ہے جس میں طلبہ کو جدید سہولیات سے آراستہ شریعت کے مطابق ماحول فراہم کیا جا رہا ہے جو ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور انہیں معاشرے کی خدمت کے لیے قابل و پیشہ ور افراد میں تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔دعوتِ اسلامی کا یہ شعبہ عصری علوم میںAcademic Programs، کالج لیول پر سائنس (پری میڈیکل و انجینئرنگ)جرنل سائنس(کمپیوٹر سائنس)،کامرس اور Humanities Arts کی تیاری کروا رہا ہے۔دار المدینہ اسلامک کالج(DMC)میں جدید دور کی سہولیات جیسے لائبریری، سیکورٹی، سائنس و کمپیوٹر، لیبز، آن لائن پورٹلز وغیرہ موجود ہیں۔

دار المدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی:

دعوتِ اسلامی کا اپنی یونیورسٹی بنانے کی جانب بڑھتا ہوا ایک نمایاں قدم ہے۔دعوتِ اسلامی کے اسکولز اور کالجز تعلیمی میدان میں قابلِ ستائش خدمات دے رہے ہیں جس میں بغیر رکاوٹ کے دنیوی و عصری تعلیم دی جاری ہے۔مدنی چینل پر مدنی مذاکرے میں امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نے اس تعلیمی نمایاں کامیابی کا اعلان فرمایا کہ حکومتِ پاکستان کے تحت گرانٹ دینے والے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن(H.E.C)نے دعوتِ اسلامی کو G-11 مرکز، اسلام آباد میں”دار المدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی“ کا پہلا کیمپس کھولنے کی منظوری دے دی ہے۔یہ اہم فیصلہ دعوتِ اسلامی کی تعلیمی خدمات کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ِعلم و عاشقان رسول کے لیے بہت خوشی کا سبب ہےجس پر دعوتِ اسلامی کو بہت سراہا بھی گیا ہے۔اللہ پاک دعوتِ اسلامی کو مزید ترقی عطا فرمائے۔اٰمین

الحمد للہ دار المدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کا پہلا کیمپس تعلیمی خدمات کا آغاز کر رہا ہے۔ابتدائی مرحلے میں اس کے کیمپسز میں 4 ڈیپارٹمنٹس قائم کیے جائیں گے:(1) ڈیپارٹمنٹ آف عربک(2) ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز(3) ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ سائنسز(4) ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن۔

ورچوئل فیضان ِشریعت کورس:

یہ آن لائن کورس اسلام کے بنیادی ارکان اور فرض علوم کی معلومات پر مشتمل ہے جو ان اسلامی بہنوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جن کے قریب جامعات المدینہ(گرلز)موجود نہیں یا وہ دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر ہیں یا کسی وجہ سے جامعۃ المدینہ(گرلز)میں روزانہ حاضری نہیں دے سکتیں تاکہ ایسی اسلامی بہنیں گھر بیٹھے علمِ دین کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔اس کورس میں طالبات کو رجسٹریشن نمبرز جاری کیے جاتے ہیں اور طالبات کو ماہانہ نصاب کی تقسیم کاری کے مطابق تیاری کرنی ہوتی ہے، جبکہ طالبات کی راہ نمائی کے لیے ایک فی میل ٹیچر کا نمبر بھی دیا جاتا ہے۔

کلیۃ الشریعہ:

یہ4 سالہ کورس ان اسلامی بہنوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو گریجویشن کر چکی ہوں اور دینی تعلیم کم وقت میں حاصل کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ کم وقت میں علمِ دین حاصل کر کے سکیں اور اس طبقے میں بھی اخلاقیات اور عملی زندگی گزارنے کا رُجحان بڑھے۔

شعبہ شارٹ کورسز:

دعوتِ اسلامی کا شعبہ شارٹ کورسز وقتاً فوقتاً مختلف آن لائن اور رہائشی کورسز کرواتاہے۔بعض کورسز کا تعلق فرض علوم سے ہوتا ہے جیسے نماز کورس، طہارت کورس، فیضانِ زکوٰۃ کورس اور حج و عمرہ پر جانے والوں اور والیوں کے لیے حج و عمرہ کورس کروایا جاتا ہے۔اسی طرح شبِ براءت، شبِ معراج، یومِ عاشورہ سے پہلے ان دنوں کی خصوصیت بیان کرنے کے لیے مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔اسی طرح قرآن ٹیچنگ ٹریننگ کورس، مدنی قاعدہ کورس، معلمہ کورس، عربی لینگویج کورس، کورس حُب العربیہ جیسے شارٹ ٹائم کورسز کروائے جاتے ہیں۔

کنزالمدارس بورڈ:

دورِ حاضر میں مدارس ِدینیہ کے نصابِ تعلیم، امتحانی نظام، اہم نصابی سرگرمیوں اور دیگر نظام کو منظم بنانے کے لیے ایک تعلیمی بورڈ کی اشد ضرورت تھی۔چنانچہ وفاقی وزارتِ تعلیم و فنی تربیت حکومتِ پاکستان نے مؤرخہ 27 اپریل 2021 نوٹیفکیشن نمبر 1-2014/NCC/RE-46کے تحت دعوتِ اسلامی کو وفاقی دینی تعلیمی بورڈ” کنز المدارس “ کی منظوری دی ہے۔جس کے تحت الشہادة العالمیۃ فی العلوم العربیۃ والاسلامیۃ کی ڈگری”ایم۔اے عربی و اسلامیات “کے برابر ہو گی جو طلبہ و طالبات کے لیےباعث خوشی ہے۔کنز المدارس بورڈ کا دائرۂ کار ملکی و غیر ملکی دینی تعلیمی اداروں کو محیط ہے۔کنز المدارس بورڈ جامعات المدینہ اور دیگر الحاق شدہ اداروں کو کم و بیش 12 اقسام کے دینی کورسز آفر کر رہا ہے جن میں تحفیظ القرآن (2 سال)، تجوید و قراءت (2 سال)، درسِ نظامی(8 سال)، کلیۃ الشریعۃ(4 سال)، تخصص فی الحدیث و علومہ(2 سال)، تخصص فی الفقہ الحنفی(2 سال) تخصص فی الفقہ الحنفی والاقتصاد الاسلامی(2 سال)، تخصص فی العلوم العربیۃ(1 سال)، تخصص فی الفنون(1 سال)، تخصص فی التوقیت(1 سال)، فیضانِ شریعت کورس(25 ماہ)اور امامت کورس(12 ماہ) شامل ہیں۔

FGRF:

دعوتِ اسلامی کا ایک شعبہ FGRF بھی ہے جو فلاحی کاموں میں مصروف ہے۔اس شعبے کے تحت بھی کچھ اہم Skills سکھائی جا رہی ہیں۔جیسے

Freelancing,Chainese language lurning,Basics of E-Commerce Business, Digital marketing اور English language وغیرہ۔ان کورسز میں دورِ حاضرکے مطابق بھرپور رہنمائی دی جاتی ہے۔یہ کورسز تو دیگر ادارے بھی کروا رہے ہیں مگر دعوتِ اسلامی دینی احکامات کو پہلے رکھتی ہے، اسی لیے ان میں دینی تعلیمات سے ٹکرانے والی کوئی چیز نہیں سکھائی جاتی، بلکہ خصوصی طور پر شرعی احکام کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ان کورسز کی رجسٹریشن اور مزید معلومات کے لیے FGRF کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیا جا سکتا ہے۔یہ سارے کورسز بنیادی طور پر اب تک اسلامی بھائیوں کے لیے ہیں۔لیکن الحمدللہ اسلامی بہنوں کے لیے جنوری 2024 سے SEP کے تحت 5 لیولز کا انگلش لینگویج کورس متعارف کروایا گیا ہے جس کے ہر لیول کا دورانیہ 2 ماہ ہے۔اسلامی بھائیوں کے لئے باقاعدہ ایک مخصوص جگہ پر کلاسز ہوتی ہیں جبکہ اسلامی بہنوں کے لیے آن لائن کورس کی سہولت دی گئی ہے۔

مذکورہ معلومات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دعوتِ اسلامی نے رضائے الٰہی کے لئے معاشرے میں دینی علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ عصری تعلیمی میدان میں بھی اپنا بھرپور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اگر کوئی صاحب بصیرت مسلمان دعوتِ اسلامی کے فلاحی کاموں مثلاً فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن(FGRF)، یتیموں کے لئے مدنی ہوم اور معذوروں کے لئے اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ وغیرہ کے قیام پر غور کرے تو اس پر یہ حقیقت ظاہر ہو جائے گی کہ ان کا بنیادی مقصد اُمّت کی خیر خواہی ہی ہے مگر اس کے ضمن میں علمِ دین کو فروغ دیا جا رہا ہوتا ہے جو کہ دعوتِ اسلامی کا بنیادی مقصد ہے۔اللہ پاک دعوتِ اسلامی کو مزید ترقی، عروج اور اخلاص عطا فرمائے۔اٰمین


سیرتِ حضرت سیدنا شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ

محمد عمر فیاض عطاری مدنی

سن 1101 ہجری میں وادیِ مہران کے تاریخی شہر ہالہ میں عراق سے آکر بسنے والے سادات گھرانے میں وہ چراغ روشن ہوا جسے دنیا شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام سے جانتی ہے۔

حضرت سیدنا شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا شمار بارہویں صدی ہجری کے عظیم صوفی بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش 1101ہجری مطابق 1689سن عیسوی میں ہالا حویلی ضلع مٹیاری سندھ پاکستان میں ہوئی۔ (تذکرہ صوفیائے سندھ، ص 175)

آپ کے والد گرامی کا نام سید حبیب شاہ رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ان کا شما ر بھی اپنے زمانے کے برگزیدہ بندوں میں ہوتا تھا۔ سید حبیب شاہ ہالا حویلی، سندھ میں رہتے تھے لیکن شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے کچھ ہی دن بعد اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر کوٹری میں آکر رہنے لگے۔ (تذکرہ اولیائے سندھ، ص 196)

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ محترم سید حبیب شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد پانچ سال کی عمر میں آخوند نور محمد کی مشہور درسگاہ میں تحصیل علم کے لئے بھیج دیا گیا جس کے سربراہ نور محمد صاحب تھے اور ان سے آپ نے مزید علوم وفنون کی تعلیم حاصل کی۔ (تذکرۂ عبداللطیف بھٹائی، ص 25)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نہ صرف اپنی زبان پر عبور حاصل تھا بلکہ عربی، فارسی، ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام کی اثر آفرینی ہر سننے والے کو مسحور کردیتی ہے ۔ (تذکرۂ عبداللطیف بھٹائی، ص 25)

آپ رحمۃ اللہ علیہ روزانہ کئی کئی میل پیدل چل کر سفر کرتے اور راستے میں جتنے بھی گاؤں آتے، قافلے ملتے یا کوئی بھی شخص ملتا تو اس کو دین کی دعوت دیا کرتے۔ آپ نے سندھ کے کئی علاقے پیدل گھومے اور لوگوں میں علمی جواہر لُٹائے۔ (تذکرۂ عبداللطیف بھٹائی، ص 33)

آپ کے کلام کا مجموعہ ”شاہ جو رسالو“ کے نام سے مشہور ہے جو کہ نہایت عقیدت واخلاص کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

آپ نے عبادت و ریاضت کے لئے جنگل میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو ایک ٹیلے کی شکل میں تھی اور چاروں طرف سے خاردار جھاڑیوں سے گھری ہوئی تھی۔ چونکہ سندھی زبان میں چونکہ ٹیلے کو ”بھٹ“ کہا جاتا ہے اس لئے آپ بھٹائی کہلائے۔ (تذکرہ اولیائے پاکستان، ص162)

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال کی عمر میں 14 صفر المظفر 1165سن ہجری مطابق 1752سن عیسوی میں بھٹ شاہ ضلع مٹیاری میں وصال فرمایا اور وہیں آپ کا مزارِ پُرانوار موجود ہے ۔ (تذکرہ سید عبداللطیف بھٹائی، ص41)

آپ کا عرس ہر سال نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور لاکھوں عقیدت مند پاکستان کے کونے کونے سے حاضر ہوکر نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں اور روحانی فیض پاتے ہیں۔

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو


از: محمد عمر فیاض عطاری مدنی

٭پورا نام:حضرت سیدناابو محمد عبد اللہ شاہ غازی الاشتر رحمۃ اللہ علیہ

٭پیدائش: آپ کی پیدائش واقعۂ کربلا کے 37 سال بعد 98ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

٭والد گرامی: آپ کےوالد صاحب کا نام حضرت سید محمدنفس ذکیہ تھا جوکہ نواسۂ رسول حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے سگےپَر پوتے تھے۔

٭خاندان: حضرت عبداللہ شاہ غازی کا تعلق اہل بیت اطہار کے گھرانے سے ہے۔آپ حسنی حسینی سیِّد ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں مولاعلی شیر خدا کر م اللہ وجہہ الکرم سےجا ملتاہے۔ پورا سلسلۂ نسب یوں ہے:سید عبد اللہ شاہ غازی بن سید محمد ذو النفس الذکیہ بن سید عبد اللہ المحض بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن مجتبیٰ بن امیرالمؤمنین حضرت مولیٰ علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہم)

٭آپ کا شمار تابعین یاتبع تابعین میں ہوتا ہے۔

٭ تعلیم و تربیت : آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیرِ سایہ مدینۂ منورہ میں ہی ہوئی۔آپ علمِ حدیث میں ماہر تھے۔ بعض مصنفین نے آپ کو محدثین میں شمار کیا ہے۔

٭ سندھ آمد: اندرونِ سندھ پاکستان میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد 138 ہجری میں ہوئی۔ آپ 400 افرا د کے قافلے پر مشتمل لوگوں کے ساتھ سندھ میں تشریف لائے۔

٭تبلیغ: آپ سندھ میں 12 برس تک اسلام کی تبلیغ میں مشغول رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو اسلام سےمشرف کیا۔

٭حضرت سیدعبداللہ شاہ غازی سندھ میں داخل ہونے والے پہلے سادات گھرانے کے بزرگ و مبلغ تھے۔

٭آپ نہایت عابدو زا ہد ،متقی ،بلند ہمت،دِین کا درد رکھنے والے اور لوگوں پر انتہائی شفیق اور مہربان تھے۔

٭وصال: 20ذُوالحجۃُ الحرام151 ہجری میں آپ شہید ہوئے۔ہجری کے اعتبار سے 53 سال عمر پائی۔

٭مزار شریف: کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ کا مزارِ پُر انوار اپنی برکتیں لُٹارہا ہے

٭سمندر کنارے میٹھے پانی کاچشمہ: آپ کی مشہور کرامات میں سے ایک کرامت جو آج بھی آپ کے مزار پر انوار کے پہلو میں ہے وہ ہے ”میٹھے پانی کا کنواں“ ۔اس کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ جب آپ کو شہید کیا گیاتو آپ کےمریدین آپ کے مزار پُرانوار کے پاس رہے کہ کہیں دشمن آپ کے جسم مبارک کو نکال کر نہ لے جائیں۔ آپ کا مزار اونچائی پر تھا اس لئے مریدوں کو پانی لینے جانے میں پریشانی تھی تو مریدین نے آپ کے وسیلے سےعاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا کی،توایک مرید کےخواب میں آپ تشریف لائے اور دعا کی قبولیت کی خوشخبری دی کہ اللہ کریم نے تمہاری دعا قبول فرمالی اور آپ کے مزار پرانوار کے پاؤں کی جانب سے ایک میٹھےپانی کا چشمہ جاری ہوگیا،آج بھی وہ چشمہ جاری ہے اور ہزاروں لوگ وہاں آکر اس کا پانی پیتے اور برکتیں حاصل کرتے ہیں ۔

٭عرس:ہر سال آپ کا تین روزہ عرس 20ذُوالحجۃُ الحرام سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس سال آپ کا 1294واں عرس منایا جارہا ہے۔

نوٹ: دعوتِ اسلامی کی جانب سے ہر سال عرس کے موقع پر مزار شریف پر محفل کا سلسلہ ہوتا ہے۔ اس سال بھی 29 جون 2024 بروز ہفتہ بعد نمازِ مغرب محفل کا سلسلہ ہوگا جس میں مدنی چینل کے مختلف نعت خوان ہدایہ عقیدت پیش کریں گے جبکہ دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے رُکن مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری خصوصی بیان فرمائیں گے۔ یہ محفل مزار شریف کے احاطے میں ہوگی۔ شرکت فرماکر ثواب کا خزانہ پائیں۔


بچے اور صحت

Tue, 26 Dec , 2023
1 year ago

بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی بچہ بیمار ہوجائے تو والدین بے چین ہوجاتے ہیں ۔ پریشان ہوجاتے ہیں ۔ظاہر ہے والدین اور اولاد کا تعلق ہی کچھ ایسا ہے ۔لیکن یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ والدین صحت اور حفظان صحت کے حوالے سے کتنی awareness رکھتے ہیں ؟بچوں کے لیے کیا کیا احتیاطی تدابیر کرنی چاہئیں؟والدین جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوشاں رہتے ہیں وہاں ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی healthکے حوالے سے بھی سنجیدگی اپنائیں ۔

قارئین :آئیے بچوں کی صحت و حفظان صحت کے حوالے سے کچھ Tipsجان لیتے ہیں ۔

متوازن غذائیت:: Balanced Nutrition

اپنى بچوں کو متوازن غذا فراہم کریں جس میں پھل، سبزیاں،اناج، مناسب مقدار میں پروٹین اور دودھ شامل ہوں۔نیز میٹھے مشروبات اور زیادہ نمکین خوردونوش کی چیزوں سے دور رکھیں ۔توانائی کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدگی سے بچوں کو کھانے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ کھاناکھانے پر appreciateبھی دیں ۔

جسمانی سرگرمی:: Physical Activity

بچے کی عمر کے مطابق باقاعدہ جسمانی سرگرمی کو فروغ دیں۔ اسکرین ٹائم (ٹی وی، کمپیوٹر) کو محدود کریں ، آپ والدین ایک خاندان کی حیثیت سے بچوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں میں شامل ہوکر ان کو فزیکل ایکٹیویٹی کا عادی بنانے کی بھرپور کوشش کریں ۔

مناسب نیند:: Adequate Sleep

اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا بچہ اپنى group agerکی اعتبار سے ٹھیک نیند کررہاہے ۔وقت مناسب پر اُسے سلادینے کا معمول بنائیں تاکہ اس کی نیند پوری ہوسکے ۔جو ایک جسم کا تقاضابھی ہے ۔کوشش کریں کہ بچوں کے لیے آرام دہ اور پرسکون نیند کا ماحول بنائیں۔

حفظان صحت::Hygiene

اپنے بچوں کو حفظان صحت کے اچھے طریقےضرور سیکھائیں اور ا ن اصولوں پر عمل کرنے کی صورت میں بچوں کی حوصلہ افزائی بھی کریں مثلابچوں کو ہاتھ دھونے ، دانتوں کی صفائی ،ناخن کاٹنے ،صاف کپڑے پہننے ،غسل کرنے کے حوالے سے تربیت دیں اور جب وہ بِنا بولے اس پر عمل پیراہوں تو آپ تعریف کی صورت میں ان کی حوصلہ افزائی ضرور کردیں تاکہ ان کا صفائی و ستھرائی کا جذبہ سرد نہ پڑے ۔

جذبات کی نگہداشت :: Well- Being Emotional

اپنے گھر کو سکھ چین اور محبت اور اپنائیت کا گہوارہ بنائیں ۔بچوں کے لیے ایک environment friendly بنائیں ۔جہاں بچہ اپنے من کی بات آپ سے کرسکے ۔اپنے آئیڈیاز، اپنے خدشات ،اپنی مشکلات پوری energyکے ساتھ آپ کو بتاسکے ۔یہ اس بچے کی مینٹل ہیلتھ کے لیے بہت ضروری ہے ۔آپ اپنے اندرسننے کا ظرف اور بچے کو کہنے کا حق ضرور دیں ۔تاکہ آپ گاہے گاہے اپنے بچے کے بارے میں جان سکیں کہ وہ کیا سوچتاہے اور کیاکیا کرنے کا ارادہ رکھتاہے ۔نیزاپنے بچے کو اعصابی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ان سے اپنى زندگی کے مشکل حالات کی اسٹوری shareکریں جس میں آپ مشکل سے نکلنے کے طریقے تلاش کرکے مشکل سے نکل گئے تھے تاکہ بچہ مہم جو بن سکے ۔

حفاظت: :Safety

حادثات سے بچنے کے لیے اپنے گھر کو چائلڈ پروف بنائیں۔عمر کے مطابق کار سیٹ اور سیٹ بیلٹ استعمال کریں۔اپنے بچے کو حفاظتی اصولوں کے بارے میں تعلیم دیں، جیسا کہ سڑک پار کرنے سے پہلے دونوں طرف دیکھنا،زیبراکراسنگ سے کراس کرناوغیرہ ۔

صحت کا باقاعدہ معائنہ:: Check-up Regular Health

بچوں کو چیک اپ کے لیے اطفال کے ماہر کے پاس باقاعدگی سے دورے کا شیڈول بنائیں۔کسی بھی صحت کے خدشات کو فوری طور پر حل کریں۔بیماری کا دورانیہ طویل نہ ہونے دیں ۔بیماری کی تشخیص کے بعد علاج میں تاخیر ہرگز نہ کریں۔

نقصان دہ چیز وں کو سرعام استعمال سے گریز کریں : Avoid using harmful substances in public

آپ کے بچے آپ کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہیں اور آپ کے عمل کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔چنانچہ آپ بچوں کے سامنے اسموکنگ و دیگر نشے ہرگز نہ کریں بلکہ ہمارا تو مشورہ ہے کہ کسی کے بھی سامنے نہ کریں یہ آپ کے لیے بھی زہرِ قاتل ہے اورآپ کی اولاد کے لیے بھی زہر ہے ۔

تعلیمی محرک::Stimulation Educational

بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے نفسیاتی پہلووں کا خیال ضرور رکھیں ۔اس انداز میں ایجوکیشن کو جاری رکھیں کہ بچہ اسکول کے کام ،ہوم ورک اور اسائنمنٹ کو بوجھ سمجھ کر نہ کرے ۔بلکہ خوشی خوشی بچہ سیکھنے کی کوشش کرے ۔

سماجی میل جول:: Social Interaction

اپنے بچوں کو سوشل بنائیں ۔خاندا ن ،پڑوس ،دوست وغیر ہ سے میل میلان رکھنے دیں ۔ان سے مراسم انھیں سوشل بنادیں گے ۔یہ معاشرے کے ان لوگوں سے کئی چیزیں سیکھیں گے ۔جو مستقبل میں انھیں رویوں کو اسٹڈی کرنے کے حوالے سے معاون ثابت ہوں گے ۔

قارئین:ہر بچہ منفرد ہوتا ہے، اور انفرادی ضروریات مختلف ہو سکتی ہیں۔ اب آپ نے غور کرنا ہے کہ آپ کے بچوں کو کس طرح اورکس حوالے سے آپکی توجہ کی ضرورت ہے ۔ اپنى اولادوں کا خیال رکھیں یہ اللہ کی نعمت ہیں ۔بہترین تعلیم و تربیت یافتہ اور صحت مند اولاد آپ کے لیے بنے گی بہترین اثاثہ ۔ اللہ کریم ہمیں اپنى اولاد کی اچھی تعلیم وتربیت اور ان کی بہترین دیکھ بحال کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔