از قلم:مولانا سلمان بٹ عطاری
مدنی
موسمِ سرما کراچی میں اپنی آمد کا
احساس دِلا چکا تھا ،ماہِ دسمبر کا اتوار تھا اور تاریخ تھی آٹھ،رات کے تقریبًا آٹھ
بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔
نگران ِمرکزی مجلسِ شوری ٰحضرت مولانا حاجی ابوحامد محمد عمران عطاری کی دعوت پر ان کے گھر بیت الامان پہنچے۔نگرانِ
شوریٰ کے گھر میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے
محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ عنایت سے نگرانِ شوریٰ کے گھرنبی پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک (بال مبارک) تشریف لا چکے تھے۔ موئے مبارک کی جلوہ
گری تھی ،اسی سلسلہ میں ایک محفل سجی تھی۔ نگرانِ شوریٰ نےبیرونِ ملک سے آئے ہوئے عاشقان رسول اور دیگر
مبلغین ِدعوتِ اسلامی کو رات پونے دَس بجے
اپنے گھر آنے کی دعوت دے رکھی تھی۔
مہمانوں کی سِٹنگ کا انتظام کیا جارہا
تھا،اسی دوران حاجی عمران عطاری بھی تشریف
لے آئے۔خبرِ فرحت اَثر ملی کہ امیر اہلسنت بھی تشریف لا رہے ہیں ۔ کمرے میں خوشبو
سلگائی گئی، عمدہ قسم کا بخور فضا کو معطر کر رہا تھا۔تیاریاں جاری تھیں کہ پانی
کا جگ اور گلاس لیے نگرانِ شوریٰ تشریف لے
آئے۔ وہاں موجود افراد نے پانی پیا اور اپنا کام بروقت مکمل کر لیا۔
9:30 پر
عاشقانِ رسول تشریف لا چکے تھے۔تلاوتِ قرآنِ پاک سے محفل پاک کی ابتدا ہوئی۔یوگینڈا
کے اسلامی بھائی نے اردو میں کلام پیش کیا۔انڈونیشیا کے عاشقِ رسول نے مخصوص انداز
میں عربی کلام پڑھا ،بنگلہ دیشی عاشق ِرسول نے بنگلہ زبان میں ہدیہ عقیدت پیش کیا،
پھر قصیدۂ بردہ شریف پڑھا گیا، مناجات اور کلام کا سلسلہ جاری تھا کہ شیخِ طریقت
امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ بھی
تشریف لے آئے۔ گھر میں موئے مبارک رکھنے کی برکات، موئے مبارک کی زیارت کے آداب بیان
کئے گئے۔ ہو گیا فضل خدا موئے مبارک آگئے ،یہ کلام پڑھا گیا۔ذوق و سوز کا مجموعہ محفل کی
روحانیت کو دو آتشہ کئے ہوئے تھا، وللہ الحمد۔
چونکہ انڈونیشیا کے عاشقانِ رسول کی واپسی تھی اس لئے امیر اہلسنت نے ان سے اور دیگر
عاشقان رسول سے ملاقات کی، تحفہ بھی عطا
فرمایا۔موئے مبارک کی زیارت بھی جاری تھی، عاشقان رسول موئے مبارک کی برکات سے فیض
یاب ہو رہے تھے اور انہیں لنگر ِموئے مبارک و نیاز صدیق اکبر بھی پیش کی جارہی تھی۔
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے موئے
مبارک کی زیارت کی آپ کا عشق و ادب میں ڈوبا انداز زبان حال سے بتا رہا تھا کہ یہ
ہے موئے مبارک کی زیارت کا طریقہ اور دعا مانگنے کا سلیقہ۔مصطفےٰ جان رحمت پہ
لاکھوں سلام پڑھا جا رہا تھا امیر اہل سنت نے بھی شعر پڑھا:
اَلغرض اُن کے ہر مُو پہ لاکھوں
درود
ان کی ہر خُو و خَصلت پہ لاکھوں
سلام
اللہ
پاک ہمیں بھی ادب و شوق عطا فرمائے۔بعد ازاں سوالات و جوابات کی نشست سجی، عاشقان
رسول کی تنظیمی و شرعی معاملات پر تربیت کی گئی، اس موقع پر مدنی چینل کے دو کیمرہ مین
حضرات نے سنّت کے مطابق ایک مٹھی داڑھی شریف سجانےکی پکی نیت کی، ایک مٹھی سے گھٹانے کے گناہ سے توبہ کی ۔اس کا محرک ایک
بچہ بنا جس کا نام حسن رضا عطاری ہے۔ رات تقریباً 1:10 پر یہ سلسلہ اختتام پذیر
ہوا ۔
اللہ پاک نگرانِ شوری کے گھر میں خیر و
برکت عطا فرمائے اور ہمیں بھی اپنے گھروں میں ذکر خدا و مصطفی کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
از قلم:مولانا سلمان بٹ عطاری
مدنی
یہ 12 نومبر 2024ء کی ایک رات تھی، 11
بج کر 50 منٹ ہو رہے تھے۔مدنی چینل سے اپنی ڈیوٹی مکمل کرکے آنکھوں میں نیند
لئے میں آفس سے نکلا۔فیضانِ مدینہ سے جیسے
ہی باہر نکلا تو دیکھا کہ نگرانِ مرکزی
مجلس شوریٰ حضرت مولانا حاجی عمران عطاری
اپنی گاڑی میں ”بیتِ رمضان“ سے نکل رہے ہیں۔ گاڑی آتے دیکھ کر میں گیٹ کے پاس رُکا ،سوچ رہا
تھا گاڑی روانہ ہو جائے تو میں بھی نکلوں لیکن یہ کیا! گاڑی تو میرے قریب آکر اچانک رُکی، نگرانِ شوری ٰ نے دروازہ کھولا ،سلام
و مصافحہ کے تبادلے کے بعد مجھے فرمایا: ساتھ چلیں گے؟ میں نے عرض کی: کیوں
نہیں! اِس لئے کہ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔
میں فوراً گاڑی میں سوار ہو گیا، فیضانِ
مدینہ سے گاڑی نکلی تو کچھ دیر بعد نگرانِ شوریٰ نے شیڈول بتایا کہ ہمیں ایک تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ایک جگہ دعوتِ اسلامی
سے محبت کرنے والے ایک عاشقِ رسول کے بیٹے
کی شادی کے حوالے سے تحفہ دینے کے لیے اُن کے گھر جانا ہےاور ایک جگہ مبلغِ دعوتِ اسلامی کی عیادت کے لئے جانا ہے۔مجھ سے پوچھا : آپ وقت
دے سکیں گے؟ میں نے عرض کی :جی بالکل ۔
اس میں سیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب بھی کسی کو کسی کام میں اچانک شریک
کرنا ہو تو پہلے اُس سےکنفرم کر لیا جائے کہ سامنے والے کے لئے اُس کام میں شریک ہونا ممکن بھی ہے یا نہیں۔یہ اسپیس دینا چاہئے، سیرتِ
مصطفےٰ میں بھی اِس حوالے سے رہنمائی موجود ہے ۔
سفر کی رُوداد پر واپس آتے ہیں ،صالحین کے قُرب کی برکت سے زبان پر ذکر و اَذکار جاری ہو جاتا
ہے لہٰذا میں بھی تسبیح وتَہْلِیل میں
مشغول ہو گیا۔مطلوبہ مقام پر پہنچنے سے پہلے ابنِ حاجی عمران حامد رضا عطاری نے
نگرانِ شوریٰ سے میپ لوکیشن لی اور کچھ ہی دیر میں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔عاشقانِ رسول نے نگرانِ
شوری سے ملاقات کی، میزبانوں کی خوشی دیدنی تھی، یوں لگ رہا تھا کہ اب اُن کی خوشی دوچند ہو گئی ہے۔
سلام و مصافحہ اور ملاقات کے بعد سِٹنگ
ایریا میں بیٹھ گئے ۔نگرانِ شوری ٰ نے میزبان
کی دل جوئی فرماتے ہوئے فیضان قرآن ڈیجیٹل
پین تحفے میں پیش کیا۔ مدنی چینل کے نعت خواں جنید شیخ عطاری پہلے سے وہاں موجود
تھے ،اُن سے دو کلام سنے۔” یادِ رسول ،فراقِ رسول کا سوزو گُداز اور نگرانِ شوریٰ کا عشق ِرسول“ آپ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے بالکل عیاں تھا۔الله پاک
ہمیں بھی یہ ذوق عطا فرمائے۔بعد ازاں دعا
ہوئی،نگرانِ شوریٰ نے اہلِ خانہ سے اجازت لی تو انہوں نے کھانا کھانے کے لئے اِصرار کیا تو آپ
نے وہاں کچھ کھانا کھایا۔
نگرانِ شوریٰ نے اپنے میزبان سے کہا کہ آپ کی فیملی کے مرد حضرات آنے والے ہفتے مدنی
مذاکرے میں شرکت کریں گے تو مجھے لگے گا کہ آپ کی طرف سے مجھے اچھا تحفہ مل گیا
ہے۔میزبان اور دیگر افراد نے شرکت کی نیت کی۔آپ نے فرمایا کہ اس کی کارکردگی بھی دیجئے
گا ،دل میں خوشی داخل ہو گی۔کھانے کے دُعا کی
اور اجازت لے کر وہاں سے رخصت ہوئے۔
اگلی جگہ پہنچے وہاں انہیں معلوم نہیں تھا کہ نگرانِ شوریٰ آرہے ہیں۔ حاجی
شبیر عطاری اہلِ خانہ سے رابطے میں تھے، میزبان اپنی بلڈنگ کے نیچے کھڑے تھے نگرانِ
شوریٰ کو دیکھ کر خوش ہو گئے۔آپ اُن کے گھر پہنچے ،کچھ دیر قیام کیا، اُن کے بیٹے
کو (جو کہ دورہ حدیث میں پڑھتے ہیں) دین کی خدمت کرنے اور تخصص فی الاقتصاد کرنے کا ذہن دیا، انفرادی کوشش
کی، مدنی مذاکرے میں شرکت کی دعوت دی، فیضان قرآن ڈیجیٹل پین تحفے میں پیش کیا اور
پھر وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ جن کی عیادت کرنا تھی اُن سے رابطہ نہ ہوسکا اس لئے عیادت کا پروگرام پاسپانڈ کیا اور واپس فیضانِ
مدینہ آگئے۔
نگرانِ شوریٰ کے ساتھ اس سفر میں سیکھنے کو ملا کہ جب جہاں موقع ملے نیکی کی دعوت دی جائے، دعوتِ اسلامی کے دینی
کاموں کی ترغیب دلائی جائے، مدنی مذاکرے میں شرکت کی دعوت دی جائے ،جہاں جہاں ممکن
ہو عاشقانِ رسول کی دل جوئی بھی کی جائے اور تحائف بھی پیش کئے جائیں۔
دعوت اسلامی زندہ باد
از قلم:مولانا سلمان بٹ عطاری
مدنی
2024ء کے نومبر کی 17 تاریخ تھی، عالمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ظہر کی نماز ادا کی جا چکی تھی، دن کے دو بج رہے تھے
اور نگرانِ مرکزی مجلس شوریٰ حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری کو ” قافلہ اجتماع“
میں سنتوں بھرے بیان کے لئے نواب شاہ جانا تھا ۔وقتِ مقررہ پر نگرانِ
شوریٰ سفر کے لیے تیار تھے۔جن اسلامی بھائیوں کو ساتھ جانا تھا وہ بھی تیاری مکمل
کر چکے تھے۔
تقریباً دو بج کر 30 منٹ پر مدنی مرکز فیضانِ مدینہ
کراچی سے روانہ ہوئے۔ فراٹے بھرتی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ اچانک
گاڑیوں کی رفتار سلو ہوئی اور پھر بریک لگ گئی، معلوم ہوا کہ روڈ بلاک ہے، کوشش کر
کے گاڑیوں کو وہاں سے روانہ کیا گیا اور سفر کو مکمل کرنے کی کوشش اور جستجو
دوبارہ شروع کر دی گئی ۔ ایک پٹرول پمپ پر رُک کر نماز عصر باجماعت ادا کی۔ہم ہالہ
پہنچ چکے تھے،اب یہاں سے آگے اپنی منزل
نواب شاہ کی جانب روانہ ہوئے۔روڈ زیر تعمیر تھا لہذا گاڑی کی رفتار سلو ہو چکی تھی، بہرحال وقت گزرتا جا
رہا تھا، راستے میں موجود پیڑ پودے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے
معلوم ہو رہے تھے۔جوں ہی نمازِ مغرب کا وقت شروع ہوا تو اب صرف ایک ہی فکر تھی اور وہ تھی
نماز کو وقت میں ادا کرنے کی۔ وقت مناسب پر نماز مغرب بھی باجماعت ادا کی گئی، اِ س
دوران نگرانِ شوری حاجی محمد عمران عطاری کے داماد محمد اویس عطاری بھی سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہو چکے تھے ۔وہ اپنے
گھر سے کچھ کھانا بنوا کر لائے تھے جسے نگرانِ شوریٰ اور آپ کے رُفقاء نے تناول کیا اور پھر سفر میں شریک
دیگر عاشقانِ رسول اور سیکیورٹی گارڈ کو
بھی اُسی کھانے میں شامل کر لیا گیا۔
سیکیورٹی گارڈ کو نگرانِ شوریٰ کے
ساتھ کھانے میں شریک دیکھ کر مجھے خلیفۂ
امیر اہل سنت حضرت مولانا حاجی ابو اُسید احمد عبید رضا عطاری مدنی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا انداز یاد آ گیا۔خلیفۂ امیر اہلِ سنّت کو دیکھا ہے کہ جو خود کھاتے ہیں وہ
گارڈ ذکو بھی کھلاتے ہیں۔ نگرانِ شوریٰ چونکہ ”فنا فی الشیخ“ کے مقام پر فائز
ہیں اِس لئے اپنے شیخ اور اُن کے جانشین کی پیروی کرتے ہوئے
آپ نے بھی اسی ادا کو ادا کیا ۔ نبی اکرم، نور مجسم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق کھانا کھلانا مغفرت کو واجب
کرنے والے کاموں میں سے ایک کام ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ محمد
اویس عطاری بھائی جو کھانا لے کر آئے تھے وہ بھی وافر مقدار میں تھا جو کہ تقریباً سبھی کو کفایت کر سکتا تھا۔ ہمیں بھی چاہئے کہ سفر میں شریک اپنے رُفقاء کو جہاں جہاں
ممکن ہو خیر خواہی میں شامل کر لینا چاہیے کہ اِس سے محبت بڑھتی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ
تعالیٰ کی رحمت ملتی ہے۔ رات کےسائے گہرے
ہوتے جا رہے تھے اور مدنی قافلہ اجتماع کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لہذا بلا تاخیر
وہاں موجود عاشقان رسول سے ملاقات کرنے کے بعد ہم نواب شاہ کی جانب روانہ ہوئے۔پٹرول
پمپ سے ہم نے گاڑی میں پیٹرول بھروایا اور
نگران ِشوریٰ کے ساتھ ساتھ روانہ ہو گئے۔
میرے دل میں نگران ِشوریٰ کی محبت مزید
بڑھ گئی جب میں نے دیکھا کہ آپ اپنے سفر کے وقت کو بھی کارِ خیر میں استعمال
کرتے ہوئے کبھی ذکرو اذکار میں مشغول ہیں تو کبھی مطالعہ فرما رہے ہیں۔الحمد للہ ہم نواب
شاہ پہنچ گئے، فورا ًنمازِ عشا باجماعت ادا کی،میں نے محسوس کیا کہ نگرانِ شوریٰ
سارے سفر میں باوضو ہیں ، اس کی جہاں دیگر برکات ہیں وہیں یہ بھی ہے
کہ نماز بروقت اور سہولت سے ادا کی جاسکے۔نگرانِ شوریٰ فریش ہوئے اور کھانا
تناول کرنے کے لیے اُس کمرے میں تشریف لائے جہاں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ آپ
نے ٹیبل کرسی پر 10 اسلامی بھائیوں کے
کھانے کا انتظام دیکھ کر کچھ یوں فرمایا : ”جو اسلامی بھائی آئے ہیں ان کے ساتھ ہی
دسترخوان پر کھانے کی ترکیب ہو تاکہ ان کی دل جوئی کا سامان بھی ہو سکے۔“میزبان
چونکہ آپ کے لیے علیحدہ سے انتظام کر چکے تھے اس لئے انہوں نے عرض کی: اُن اسلامی بھائیو ں کے ساتھ چائے کی ترکیب بنا لیں گے آپ ابھی یہیں کھانا تناول فرما لیجئے۔میزبان کو شرمندگی سے بچانا بھی مہمان کی ذمہ داری ہے لہذا آپ نے میزبان کا لحاظ رکھتے
ہوئے وہیں کھانا تناول فرمایا۔سنت کے مطابق دعا پڑھ کر ”یاواجد“ ذکر کے ساتھ کھانا کھایا اور برتن صاف کرنے
والی سنت پر بھی عمل کیا۔بعد ازاں عاشقان ِرسول کے ساتھ چائے پی اور پھر اجتماع
گاہ کی جانب روانہ ہو گئے۔
اجتماع گاہ ہی نہیں بلکہ اُس گراؤنڈ کے اطراف کی گلیاں بھی عاشقانِ رسول سے بھری ہوئی تھیں۔عاشقانِ
رسول جوق در جوق تشریف لا رہے تھے، نگران
شوریٰ بیان کے لئے مقررہ وقت پر تشریف لے آئے۔ مدنی قافلوں کی افادیت، مسجدوں کی
آباد کاری ،علم دین حاصل کرنے ،حج وعمرہ کے مسائل سیکھنے کی ترغیب اور اخلاق و
کردار کی بہتری کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات
پر شاندار بیان ہوا جسے وہاں موجود عاشقانِ رسول کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ
مدنی چینل پر دنیا بھر کے عاشقانِ صحابہ و
اہلِ بیت نے دیکھا اور سنا۔ اجتماع صلوٰۃ و سلام پر ختم ہوگیا تھا
لیکن ریلوے گراؤنڈ میں موجود عاشقانِ
رسول تھے کہ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔خیر! نگران ِشوریٰ نے عاشقان رسول
سے اجازت لی اور واپس قیام گاہ تشریف لے آئے۔
قیام گاہ پر نگران ِشوریٰ نے سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقات کی، اُنہیں نیکی
کی دعوت دی ،فیضان مدینہ کراچی آنے کا ذہن دیا، عاشقانِ رسول سے ملاقات کی ،انہیں
دینی کاموں اور مدنی قافلوں کے اہداف دیئے۔آپ ابھی واپس کراچی کا قصد کرنے ہی والے تھے کہ آپ کے نواسے حنظلہ عطاری نے کہا:نانا ! آپ ہمارے گھر آئیں، پتا نہیں
آپ دوبارہ کب آئیں گے ۔
نگرانِ شوریٰ ایک مہربان اور شفیق نانا
بھی ہیں۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنایا جائے اور ہم سب جانتے
ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسوں سے بہت محبت کرتے تھے آپ بھی اتباع رسول میں ویسا انداز اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔نگرانِ
شوریٰ اپنی گاڑی میں سوار ہوئے اور ڈرائیور سے کہا : اویس عطاری کے گھر جائیں گے۔
نواب شاہ آتے ہوئے حیدر آباد سے آپ کے
داماد ،دو نواسے حنظلہ عطاری اور
صدیق عطاری آپ کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوئے
تھے، واپس نواب شاہ سے حیدر آباد سفر کرنا تھا مگر حنظلہ عطاری گاڑی میں نہیں تھے، انہیں تلاش کیا تو معلوم ہوا
کہ وہ اپنے ابوجان کے ساتھ دوسری گاڑی میں موجودہیں۔ صدیق عطاری آپ کے ساتھ گاڑی میں
تھے، آپ نے صدیق عطاری سے پوچھا :بابا کے ساتھ جانا ہے یا میرے ساتھ ؟صدیق عطاری نے کہا: آپ کے ساتھ ۔ بس پھر کیا تھا حیدر
آباد کی جانب سفر شروع ہوا اور گاڑی روڈ
پر فراٹے بھرتی ہوئی سرپَٹ دوڑنے لگی ۔
نگرانِ شوری ٰکے ڈرائیورحنیف بھائی نے
اپنی جیب سے ڈرائی فروٹ نکال کر نگرانِ شوریٰ کو پیش کئے۔آپ نے وہ لفافہ پیچھے بیٹھے ایک اسلامی بھائی کو دیا اور کہا :خود
بھی کھائیں ،دوسروں کو بھی کھلائیں۔چنانچہ گاڑی میں موجود افراد نے ڈرائی فروٹ کھائے
اور اللہ پاک کی نعمت پر شکر ادا کیا۔نگرانِ شوریٰ اپنے نواسے، بیٹی،
داماد اور حاجی یعقوب صاحب کی دلجوئی کی خاطر حیدرآباد پہنچ گئے۔
آدھی رات گزر چکی تھی اور ہم حیدرآباد
پہنچ چکے تھے، ”حیدرآباد میمن سوسائٹی میں مریم مسجد ہے جہاں دعوت اسلامی کا سنتوں
بھرا ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے “ہم اُس مسجد
کے قریب سے گزرتے ہوئے حاجی یعقوب عطاری کے
گھر پہنچے۔ حاجی یعقوب عطاری اور اویس بھائی نے نگران ِشوریٰ کا استقبال کیا، آپ
گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ بعد ازاں ہمیں بھی ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا ،کچھ ہی دیر میں نگران ِشوری ٰبھی ہمارے پاس تشریف
لا چکے تھے، رات کا وقت تھا، گیس کی لوڈ شیڈنگ تھی لیکن ضیافت کے لیے کھانوں کا
بھرپور انتظام تھا۔ ماشاء
اللہ زبردست دسترخوان سجایا گیا،جس پر ہم انواع
و اقسام کی نعمتوں سے سیر ہو کر لطف اندوز
ہوئے۔ نگرانِ شوریٰ کے داماد محمد اویس عطاری بڑی محبت اور شوق سے نگرانِ شوریٰ کے ساتھ ساتھ دیگر مہمانوں کی بھی
مہمان نوازی کر رہے تھے۔کھانا کھانے سے پہلے کی دعائیں پڑھ کر سنت کے مطابق کھانا
کھانے کا سلسلہ رہا۔کھانے کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی گئی جس نے کھانے کا
مزہ دوبالا کر دیا۔
یہاں ایک بات جو قابلِ ذکر ہے وہ یہ کہ نگرانِ شوریٰ کا انداز
دیکھا کہ آپ نیکی کی دعوت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، نیکی کی دعوت دیتے
ہیں، نیکیوں کی ترغیب دلاتے ہیں،اب بھی ایسا ہی ہوا کہ کھانا کھانے سے پہلے آپ نے ترغیب دلائی کہ پیر
شریف شروع ہو چکا ہے لہذا پیر شریف کے روزے کی نیت بھی کی جا سکتی ہے۔پیر شریف کا
روزہ رکھنا نیک اعمال میں بھی شامل ہے اور نفلی روزے رکھنا بڑی سعادت مندی کی بات
ہے جس کے بے شمار فضائل و برکات ہیں۔
کھانا کھانے کے بعد اویس بھائی اور حاجی
یعقوب صاحب سے اجازت لے کر مہمان اپنی
سواریوں کے قریب آگئے۔وقت مناسب پر نگرانِ شوریٰ بھی گاڑی میں تشریف لائے اور واپس کراچی کا سفر
شروع ہو گیا۔
نگران ِشوریٰ سفر میں بھی وقت پرنماز کی
ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، حیدرآباد سے نکلتے ہوئے آپ نے کراچی میں نمازِ فجر
کے آخری وقت کے بارے میں معلومات لیں تاکہ بروقت نماز فجر ادا کی جا سکے۔ رات کا
آخری پہر تھا لیکن حنیف بھائی بڑی ہی جانفشانی اور توجہ کے ساتھ گاڑی چلا رہے تھے ۔اللہ کی رحمت سے ہم تقریباً چھ بجے مدنی
مرکز فیضان مدینہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نگرانِ شوریٰ نے گاڑی سے اُترنے سے پہلے فرمایا:اگر حقِ صحبت
میں کسی قسم کی کوئی حق تلفی ہو گئی ہو تو میں معافی کا طلبگار ہوں، ہم نے نگرانِ
شوریٰ کا شکریہ ادا کیا اور اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
اللہ تعالی نگران شوری کی دینی خدمات
کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں اللہ تبارک و تعالی اچھی باتیں سیکھنے
اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سفر کا خلاصہ
· نماز باجماعت
کا ممکنہ صورت میں اہتمام کیا جائے۔
· نماز کی ادائیگی
میں بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے۔
· سفر میں ذکر و اذکار جاری رکھا جائے۔
· فضول گفتگو سے
اجتناب کیا جائے۔
· شرکائے سفر کی
ممکنہ صورت میں دل جوئی کی جائے۔
· اپنے میزبان
کو شرمندگی سے بچایا جائے۔یعنی کوئی ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے میزبان
شرمندہ ہو جائے۔
· نیکی کی دعوت
کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جا ئے۔
· دعوت اسلامی
کے دینی کاموں کی ترغیب دلائی جائے۔
· مسلمانوں سے
خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے۔
· اپنے عزیزو اقارب
اور رشتہ داروں کے لیے وقت نکالا جائے اور ان سے ملاقات کی جائے۔
· بچوں بالخصوص
اپنے خاندان کے بچوں پر شفقت کی جائے۔
· چھوٹی چھوٹی
باتیں ”جن سے احساس اور محبت جھلکتا ہو“ یہ باتیں رشتوں کی مضبوطی اور دل میں خوشی داخل
کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
· بچوں کے اچھے
اور سلجھے ہوئے سسرال مل جانا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
· اپنے ساتھ
رہنے والے لوگوں کو اس بات کا احساس نہ دلایا جائے کہ وہ حقیر ،ذلیل یا چھوٹے لوگ
ہیں۔
نوابشاہ میں ہونے والے اجتماع
کا بیان سننے کے لئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے
عمران
رضا عطاری مدنی
(تخصص
فی الحدیث ناگپور،ہند)
زندگی
کے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی آزمائش ، مصیبت
اور پریشانی لاحق ہوتی رہتی ہے۔ اگر ان چیزوں سے پریشان ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے
بیٹھ جائیں تو پھر زندگی کے کسی شعبے میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ ہمارے لئے ضروری
ہے کہ آزمائش و مصیبت پر صبر کریں اور ہمت سے کام لیں جیسے کسی رشتہ دار کا انتقال
ہوجاتا ہے تو لازمی طور پر صبر ہی کرنا ہوگا، اگر صبر نہ کرے واویلا کرے، چلائے ،
سینہ پیٹے اور یوں ناجائز و حرام کام میں مبتلا ہوجائے تو اس سے مرنے والا واپس تو
نہیں آئے گا ہاں جو صبر پر ثواب ملنے والا تھا وہ ضائع ہو جائے گا۔ اسی طرح مختلف
مواقع پر صبر کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنے والا اللہ کے نزدیک
اور لوگوں کے نزدیک بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اللہ پاک انہیں پسند فرماتا ہے جو مصیبتوں
پر صبر کرتے ہیں ویسے بھی دنیا آزمائش ہی
کا نام ہے ۔ تمام پریشانیوں سے نجات تو جنت میں جاکر ہی ملے گی ۔
دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت:
حدیث
پاک میں ہے :الدُّنْيَا
سجن الْمُؤمن وجنة الْكَافِر دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی
جنت ہے۔ ( الفردوس
بمأثور الخطاب، ج:2، ص:229، رقم الحدیث: 3113)اس حدیثِ پاک
پر غور کریں کہ مسلمان کے لئے دنیا قید
خانہ ہے۔ ایک قید خانہ میں ہوتا کیا ہے؟ مصیبت ، پریشانی ، آزمائش ، کھانے کی قلت لیکن پھر بھی ہمیں بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہیں۔
اگر ساتھ میں کچھ پریشانیاں آتی ہیں تو ہمیں صبر کرنا ہے اور اس حدیثِ پاک پر نظر
رکھنا ہے۔ آپ چاہیں کہ ہر طرح کی چھوٹی بڑی تمام مصیبت ختم ہو جائیں تو ایسامرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارے اسلافِ
کرام رحمہم اللہ کی
حالت یہ تھی کہ چند دن گزرے اور کوئی مصیبت و پریشان نہیں آئی تو ٹیشن میں آجاتے تھے کہ
کہیں اللہ ناراض تو نہیں ہوگیا۔
ہم تمہیں آزمائیں گے:
خود
قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے چنانچہ
ارشاد فرمایا : وَ
لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ
الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ والثَّمَرٰتِؕوَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ.
ترجمۂ کنز الایمان : اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ
مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سناؤ ان صبر والوں کو۔ (
القرآن الکریم ، السورۃ : البقرۃ، الآیۃ : 155)اللہ پاک قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں دوسری جگہ ارشاد
فرماتاہے:وَ
اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ
الصّٰبِرِیْنَ’’اور
صبر کرو بیشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (القرآن
الکریم ، السورۃ:الانفال، الآیۃ:46)اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں ہے:ما مِنْ مُصِيبَةٍ
تُصِيبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا كفَّر اللَّهُ بها عنه، حتى الشوكة يُشاكهاترجمہ
: مسلمان کو جو تکلیف و ہم وحزن و اذیت و غم پہنچے، یہاں تک کہ کانٹا جو اس کے چُبھے، اﷲ تعالیٰ ان کے
سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(صحیح بخاری، ج:5، ص:2137، رقم :5317، کتاب
المرضی، باب: ما جاء في كفارة المرضى، طبع : دار ابن كثير )
تبلیغِ دین میں قدم قدم پر آزمائشیں:
شیخ
الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم قادری عطاری لکھتے ہیں : یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم
پر آزمائشیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی
سے، کبھی دشمن کے ڈر و خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور
کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ
ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے
اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ حضرت نوح علیہ
السلام
پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا،
حضرت ایوب علیہ
السلام
کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ،ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت
موسیٰ علیہ
السلام کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کا
ستایا جانا اور انبیائے کرام علیہم السلام کا شہید کیا
جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں
اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان چاہیئے کہ
اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے
اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ (
صراط الجنان، ج:1، ص:250، طبع : مکتبۃ المدینہ)
بیماری نعمت ہے:
صدر
الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
: بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے
منافع بے شمار ہیں ، اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقۃً راحت
و آرام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے۔ یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بیماری
سمجھتا ہے، حقیقت میں روحانی
بیماریوں کا ایک بڑا زبردست علاج ہے ۔حقیقی
بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ البتہ بہت
خوف کی چیز ہے اور اسی کو مرض مہلک سمجھنا چاہیئے۔ بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص
جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ
تو بڑے رتبے والوں کی شان ہے کہ تکلیف کا
بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت
کا۔
ع انچہ از دوست میر سد نیکوست
یعنی
وہ چیز جو دوست کی طرف سے پہنچتی ہے، اچھی ہوتی ہے
مگر
ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ صبر و
استقلال سے کام لیں اور جزع و فزع کرکے
آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ دیں اور
اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس
بڑے ثواب سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔ بہت سے نادان بیماری میں نہایت بے جا کلمے بول اٹھتے ہیں بلکہ بعض کفر تک پہنچ جاتے ہیں معاذ اﷲ۔ اﷲ عزوجل کی طرف ظلم کی نسبت کر دیتے
ہیں ، یہ تو بالکل ہی خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ ( یعنی
دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والوں کی طرح)کے مصداق بن جاتے ہیں۔ (بہار شریعت،
ج:1، ح:4، ص:799، طبع : مکتبۃ المدینہ )
اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تشریف آواری
کے مقاصد میں سے ایک مقصد انسان کے ظاہر وباطن کو پاک کرنا بھی ہےجیساکہ ابو
الانبیا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ
والسلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد دعا فرمائی جس
کی قبولیت کوقرآن کریم میں مختلف انداز میں بیان کیا گیا۔ چنانچہ
دعائے
ابراہیم:
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ
الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹) (پ1، البقرۃ:129)
ترجمہ کنز الایمان: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں
میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے
بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔
تفسیر خزائن
العرفان:
صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کی ذریت میں یہ
دُعا سیّدِ انبیاء صلّی اللہ ُعلیہ وسلّم کے لئے تھی یعنی کعبہ معظمہ کی تعمیر کی عظیم خدمت
بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم و اسمٰعیل نے یہ دعا کی کہ
یارب! اپنے محبو ب نبی آخر الزماں صلّی
اللہُ علیہ وسلّم کو ہماری نسل
میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت کر، یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں صاحبوں کی
نسل میں حضور کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا، اولادِ حضرت ابراہیم میں باقی انبیاء حضرت
اسحٰق کی نسل سے ہیں۔
میلاد
مصطفٰے کا بیان:
صدر الافاضل مزید فرماتے ہیں کہ سیِّد عالَم صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے اپنا میلاد شریف خود بیان فرمایا امام بغوی نے ایک
حدیث روایت کی کہ حضور نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ’’خَاتَمُ النَّبِیِّیْن‘‘ لکھا ہوا تھا بحالیکہ حضرت آدم کے پتلا کا خمیر ہورہا
تھا، میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں، میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارتِ عیسیٰ
ہوں، اپنی والدہ کی اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور
ان کے لئے ایک نور ساطع (پھیلتا ہوا نور) ظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان و قصور اُن کے لئے
روشن ہوگئے۔ (شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین
والآخرین محمد، 7/ 13، حدیث:3520) اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد
ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں
حضور سیِّدِ انبیاء محمد ِمصطفیٰ صلّی
اللہُ علیہ وسلّم کو مبعوث
فرمایا۔(خازن، بقرہ، تحت الآیہ:129، 1/ 91) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
عَلٰی اِحْسَانِہٖ۔(جمل و خازن)
تفسیر صراط
الجنان:
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام نے حضور اقدس صلَّی اللہُ علیہ
واٰلِہ وسلَّم کے متعلق بہت سی دعائیں مانگیں جو رب تعالیٰ نے لفظ
بلفظ قبول فرمائیں۔ حضور پُر نور صلَّی اللہُ
علیہِ وسلَّم مومن جماعت میں، مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، رسول ہوئے،
صاحب ِ کتاب ہوئے، آیات کی تلاوت فرمائی، امت کو کتابُ اللہ سکھائی، حکمت عطا
فرمائی، اُن کے نفسوں کا تزکیہ کیا اور اسرارِ الٰہی پر مطلع کیا۔
طہارت، طیب
اور تزکیہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی (دعا میں) اس
ترتیب سے اس طرف اشارہ ہے کہ بندے آیات قرآنیہ تلاوت کر کے، علم وحکمت سیکھ کر
بھی پاک نہیں ہو سکتے جب تک حضور کی نگاہ انہیں پاک نہ کرے اسی لئے تلاوت وغیرہ کے
بعد تزکیہ کا ذکر فرمایا اور اس تزکیہ کو حضور پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی طرف منسوب کیا۔ خیال رہے کہ ’’ظاہری پاکی کو طہارت اور قلبی پاکی کو
طیب کہا جاتا ہے مگر جسمانی، قلبی، روحانی خیالات وغیرہ کی مکمل پاکی کو تزکیہ‘‘
کہتے ہیں۔(تفسیر نعیمی، 1/ 654)
دعائے
ابراہیمی کی مقبولیت:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا مقبول ہوئی جسے دوسرے پارے کے شروع میں ان الفاظ
میں بیان فرمایا۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
كَمَاۤ
اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ
یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا
لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ؕ(۱۵۱)۔(پ2، البقرۃ:151)
ترجمہ کنز الایمان: جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں
سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور
تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔
تفسیر
نعیمی:
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت
مبارکہ کی تفسیر میں فرماتےہیں: سب سے بڑھ کر یہ کہ تم میں اپنا یہ بڑا پیغمبر بھیجا جو سر تا پا رحمَتِ الٰہی
ہیں۔ یوں تو ان کے تم پر لاکھوں احسان ہیں مگر پانچ احسان بالکل ظاہر: ایک یہ کہ
وہ تم تک رب کی آیتیں پہنچاتے ہیں، تمہیں پڑھ کر سناتے اور پڑھنا سکھاتے ہیں،
تمہارے الفاظ صحیح کراتے، تلاوت کے آداب بتاتے ہیں بلکہ اس کے لکھنے کی جانچ
بتاتے ہیں پھر تمہیں شرک، بت پرستی، کفر وگندے اخلاق، بدتمیزی، عداوت، آپس کے
جھگڑے، جدال، جسمانی گندگی غرض یہ کہ ہر ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک فرماتے ہیں
کہ عرب جیسے سخت ملک کو جو انسانیت سے گر چکا تھا اور جہاں باشندے انسان نما جانور
ہو چکے تھے ان کو عالَم کا معلم بنا دیا۔ بت پرستوں کو خدا پرست، رہزنوں کو رہبر،
شرابیوں کو نشَۂ محبت الٰہی کا متوالا، بےغیرتوں کو شرمیلا، جاہلوں کو عالِم اور
نہ معلوم کسے کسے کیا کیا بنا دیا غرض یہ کہ مخلوق کو خالق تک پہنچا دیا۔ (تفسیر نعیمی، 2/ 64)
نیز سورۂ آل عمران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کو ان
الفاظ میں بیان کیا گیا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
لَقَدْ مَنَّ
اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ
فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ
مُّبِیْنٍ(۱۶۴)۔(پ4، آل عمران :164)
ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں
میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انہیں پاک کرتا اور انہیں
کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔
تفسیر صراط
الجنان:
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے: عربی میں
مِنَّت عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ
انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ
مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر
مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سیِّدِ دو عالَم
صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی
وجود میں نہ آتے۔پیدائِشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ
معراج بھی ربُّ العالمین کی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قَبرِ انور
میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پُر نور صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے لب ہائے
مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں
محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم اپنا بستر
مبارک چھوڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے
ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے
عالَم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں
گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری
کریں گے، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے،
کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے، کسی کے درجات بلند فرما رہے
ہوں گے، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں
گے، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا،
ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے
سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالَم صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے
باہر ہے۔
تفسیر نور
العرفان:
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ
حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی تشریف آوری تمام نعمتوں سے اعلیٰ ہے کہ لفظ ’’مَنّ‘‘ قرآن
شریف میں اور نعمتوں پر ارشاد نہ ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ تمام نعمتیں فانی ہیں اور
ایمان باقی، یہ ہی حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے ملا۔ تمام نعمتوں کو نعمت بنانے والے حضور ہیں۔ اگر ان
نعمتوں سے گناہ کئے جائیں تو وہ عذاب بن جاتی ہیں نیز ہاتھ پاؤں وغیرہ رب کے آگے
شکایت بھی کریں گے اور حضور صلّی اللہُ علیہ
وسلّم سفارش فرمائیں گے لہٰذا حضور نعمت مطلقہ ہیں۔ (نیز
یہ بھی) معلوم ہوا کہ پاکی صرف نیکیوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ
نیکیاں تو پاکی کے سبب ہیں۔ پاکی نگاہِ کرم مصطفیٰ صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے ملتی ہے۔
نیکیاں تخم (بیج) ہیں اور حضور کی
نگاہِ کرم رحمت کا پانی۔ بغیر پانی تخم بیکار ہے جیسے کہ شیطان کی عبادات بیکار
ہوئیں لہٰذا کوئی متقی اور ولی حضور سے بےنیاز نہیں ہو سکتا۔
تفسیر
نعیمی:
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ تفسیر نعیمی میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: حضور
انور صلّی اللہُ علیہ وسلّم تاقیامت ہمارے جسموں کو شریعت کے پانی سے، دلوں کو طریقت کے پانی سے،
خیالات کو حقیقت کے پانی سے اور روح کو معرفت کے پانی سے پاک فرماتے ہیں اور پاک
فرماتے رہیں گے۔(تفسیر نعیمی، 4/ 317)
خلاصہ:
مذکورہ آیت مبارکہ میں میلاد مصطفٰے کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بیان
بھی ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللہُ علیہ
وسلّم ظاہر وباطن کی
گندگی دور کر کے انسانوں کو طہارت وپاکیزگی عطا فرماتے ہیں۔ ظاہری پاکیزگی کے لئے
وضو و غسل وغیرہ کے احکام اور اس کے طریقے سکھائے جبکہ باطنی گندگی سے طہارت کے
لئے باطنی بیماریوں کی تفصیل اور وضاحت بیان فرمائی جس پر عمل پیرا ہو کر انسان
اپنے ظاہر وباطن کو سنوار سکتا ہے۔ یاد رکھیئے! نماز پڑھنے کے لئے ظاہر کا پاک
ہونا ضروری ہے کہ نمازی کا بدن، لباس اور جس جگہ نماز پڑھ رہا ہے وہ نجاست غلیظ
وخفیفہ سے پاک ہو لیکن نماز کی قبولیت کے لئے باطن کا پاک ہونا ضروری ہے کہ وہ تکبر،
خود پسندی اور ریاکاری وغیرہ گندگیوں سے پاک ہو لہٰذا ظاہر کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ باطن کی
طہارت کا بھی اہتمام ہونا چاہیئے بلکہ باطنی طہارت کا زیادہ خیال رکھا جائےکیونکہ
لوگوں کی نظریں صرف ظاہر کو دیکھتی ہیں جبکہ اللہ پاک ظاہر کے مقابلے میں باطن پر
خاص نظر فرماتا ہے۔چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے:
صرف ظاہر
نہیں باطن کو بھی سنوارو:
حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ اللہ پا ک کے سب سے آخری نبی، محمد عربی صلّی اللہُ علیہ والہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ
یَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُم یعنی اللہ پاک تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نظر
نہیں فرماتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف نظر فرماتا ہے۔(مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، ص 1064، حدیث:
6543)
ربِّ کریم
کے دیکھنے سے مراد:
حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہِ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: اللہ پاک تمہاری صورتوں کی طرف
نہیں دیکھتا کیونکہ اس کے ہاں تمہاری خوبصورتی وبدصورتی کا کوئی اعتبار نہیں اور
نہ ہی وہ تمہارے مال ودولت کی طرف نظر فرماتا ہے اس لئے کہ اس کے نزدیک مال ودولت کی کمی زیادتی کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ تمہارے دلوں میں موجود یقین، سچائی،
اخلاص، ریاکاری، شہرت اور بقیہ اچھے و بُرے
اَخلاق کو دیکھتا ہے اور ’’اعمال دیکھتا ہے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ تمہاری نیت
کو ملاحظہ فرماتا ہے کہ کس نیت سے کئے گئے پھر اس کے مطابق تمہیں اس کی جزا عطا
فرمائے گا۔ نہایہ میں ہے کہ یہاں ’’نظر‘‘ کا معنیٰ پسندیدگی یا رحمت ہے
کیونکہ کسی پر نظر رکھنا محبت کی دلیل ہے جبکہ نظر ہٹا لینا غضب ونفرت کی علامت۔ (مرقاۃ المفاتیح، 9/ 174، تحت الحدیث:5314 )
تقویٰ کس
طرح حاصل ہوتا ہے؟
حضرت ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہِ
علیہ اس کی شرح میں
فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ صرف ظاہری اعمال سے حاصل نہیں ہوتابلکہ دل
میں اللہ پاک کی عظمت، اس کے ڈر اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے جو کیفیت پیدا ہوتی
ہے اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (شرح مسلم
للنووی، جز16، 8/ 121)
ظاہر وباطن
کو شریعت کے مطابق رکھو:
مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس کی
شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدیث پاک میں ’’دیکھنے‘‘ سے مراد ’’کرم
ومحبت سے دیکھنا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کو بھی دیکھتا ہے۔ جب اچھی
صورتیں اچھی سیرت سے خالی ہوں، ظاہر باطن سے خالی ہو (یعنی صرف
ظاہر اچھا ہو اور باطن برا)، مال صدقہ
وخیرات سے خالی ہو تو ربّ تعالیٰ اسے نظر رحمت سے نہیں دیکھتا نیز حدیث شریف کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف
اعمال اچھے کرو اور صورت بُری بناؤ بلکہ صورت وسیرت دونوں ہی اچھی (یعنی
شریعت کے مطابق) ہونی چاہئیں۔ کوئی شریف آدمی گندے برتن میں اچھا کھانا
نہیں کھاتا، ربّ تعالیٰ صورت بگاڑنے والوں کے اچھے اعمال سے بھی خوش نہیں ہوتا۔
اگر صرف صورت اچھی ہو اور کردار برا ہو تو بھی نقصان اور اگر باطنی حالت درست اور
ظاہری شریعت کے خلاف تب بھی نقصان۔ (ملخص از مراٰۃ
المناجیح، 7/ 128)
لہٰذا مسلمان کو چاہئے کہ جس طرح اپنے ظاہر کو پاک صاف رکھتا ہے اس سے کہیں
زیادہ باطن کی پاکیزگی وصفائی کا خیال رکھے۔ تعجب ہے اس پر جو
مخلوق کی نظر میں اچھا بننے کے لئے ظاہر کو تو گندگی سے بچاتا ہے مگر دل جو ربِّ
کریم کی خاص تجلی کا مقام ہے اسے باطنی بیماریوں کے میل کچیل سے نہیں بچاتا۔ خیال رہے! باطنی بیماریوں کا شکار تو ایک فرد ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات پورے
معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
پس ہر
مسلمان کو چاہیئے کہ باطنی امراض سے دل کی حفاظت کا خاص خیال رکھے تاکہ اس میں
ایسے امراض داخل نہ ہوں جو دنیا وآخرت میں ہلاکت وبربادی کا باعث بنتے اور انسان
کو بےسکونی کا شکار بنائے رکھتے ہیں۔جیسے غصہ، کینہ اور حسد ان تینوں امراض کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے کہ غصے سے کینہ پیدا ہوتا ہے اور کینہ
حسد کو لاتا ہے یوں یہ تینوں بیماریاں مل کر انسان کو تباہی وبربادی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہیں۔ اسی طرح ’’حب جاہ اور
ریاکاری‘‘ ایسی باطنی بیماریاں ہیں جن میں مبتلا شخص دل ہی دل میں خوش تو ہوتا ہے لیکن اسے احساس نہیں
ہوتا کہ وہ دھوکے کا شکار ہےاور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑے بڑے نیک
اعمال اور مجاہدے کرنے کے باوجود وہ ان کے حقیقی فوائد سے محروم رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معاشرے
کو فتنہ وفساد کا شکار بننے سے بچانے کے لئے بزرگانِ دین ظاہر کے مقابلے میں باطن
کی اصلاح پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ بزرگانِ دین کا قرآن وحدیث کی
روشنی میں لکھا گیا اصطلاحی لٹریچر بھی اسی کی ایک کڑی ہے جو مجرب تریاق کا کام کرتی ہے، حضرت سیِّدُنا امام
محمد غزالی رحمۃ اللہِ علیہ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ‘‘ اس
باب
میں ایک روشن مینار ہے جسے بزرگانِ دین نے اپنے مریدین کی تربیت کا نصاب بنایا۔دورِ حاضر کے ایک عظیم روحانی پیشوا شیخِ طریقت،
امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائے دامت برکاتہم العالیہ بھی وقتاً فوقتاً اپنے مریدین و متعلقین کو اسے پڑھنے کی ترغیب دلاتے رہتے
ہیں لہٰذا اپنے باطن کو سنوارنے لئے انسان
کو ایسی کتابوں کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہیئے۔
باطنی
پاکیزگی کے لئے چند رہنما کتب:
(01)...بہار شریعت، حصہ16۔ (02)...احیاء العلوم(اردو) جلد:3۔ (03)...قوت القلوب۔ (04)...جہنم میں لے جانے والے اعمال۔ (05)...غیبت کی تباہ
کاریاں۔ (06)...دل کی سختی کے اسباب وعلاج۔ (07)...احیاء العلوم کا
خلاصہ۔ (08)...اچھے برے عمل۔ (09)...مکاشفۃ القلوب۔ (10)...تکبر۔ (11)...بدگمانی۔ (12)...ریاکاری۔ (13)...بغض وکینہ۔ (14)...منہاج العابدین۔ (15)...باطنی بیماریوں کی معلومات۔ (16)...جہنم کے خطرات۔ (17)...مختصر منہاج العابدین۔ (18)...76 کبیرہ گناہ۔ (19)...حرص۔ (20)...حسد۔ (21)...جہنم کے عذابات (حصہ اول ودوم)۔
نوٹ: یہ تمام کُتُب دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ
سے قیمتاً حاصل کی جاسکتی ہیں نیز دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں،
مطالعہ کے ساتھ ساتھ ڈاؤن لوڈ بھی کی
جاسکتی ہیں۔ خود بھی پڑہیئے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ترغیب دلایئے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی پاکیزگی کا
خیال رکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
محمد عمران الٰہی عطاری مدنی
۱۳ ربیع الاول ۱۴۴۵ھ
2023/ 09/ 30
بروز ہفتہ
تحریر: بنت ِمنصور عطاریہ مدنیہ
دفتر ذمہ دار پاک سطح” شعبہ حج
و عمرہ “
دینی
تعلیم نورِ ہدایت کا سر چشمہ، نعمتِ باری، رحمتِ الٰہی، باعثِ برکت، سببِ نجات، باعثِ
نزولِ رحمت، باعمل زندگی گزارنے کا ضابطہ اور وجہِ سر بلندی ہے۔کیونکہ علمِ دین
انسان کو گمراہی کے اندھیرے سے نکال کر ہدایت کے نور تک پہنچا دیتا ہے اور وہ رحمتِ
الٰہی میں رہتا ہے۔علمِ دین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس
کی فرضیت مرد و عورت دونوں میں سے ہر ایک پر ہے۔چنانچہ
رسولِ
پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:علم
حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔(ابن ماجہ، 1/146،
حدیث:224)
مسافت
کے متعلق بیان ہوا کہ علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔(شعب الایمان، 2/253،
حدیث:1663)
افضلیت
کے متعلق بیان ہوا کہ جو علم کی طلب میں نکلا وہ لوٹنے تک اللہ پاک کی راہ میں ہے۔(ترمذی، 4/295، حدیث:2656)
طالبِ
علم کے لئے پانی میں مچھلیاں مغفرت طلب کرتیں ہیں۔(دارمی، 1/110، حدیث:342)
مدت
کے متعلق صوفیافرماتے ہیں:اطلبوا العلم من المہد الى اللحدیعنی
گہوارہ سے قبر تک علم سیکھو۔(مراٰۃ المناجیح، 1، / 203)
یونہی
عصری علوم دنیا کی ترقی کا اہم ذریعہ، معاشی بحران میں بہتری اور ملک کو مضبوط
بنانے کا سبب ہیں۔مسلم معاشرے کی ترقی کے لیے ناصرف علمائے دین و مفتیان ِکرام کی
حاجت ہے، بلکہ باضمیر اور عقلِ سلیم رکھنے والے ایسے ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنٹسٹ، ٹیچرز،
پروفیسرز اور ٹریڈرز کی حاجت ہے جو کہ دینی احکامات کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر زندگی گزارنے والے ہوں اور ملک کا اثاثہ
بنیں۔قیادت، سیاست، معاشرت، معیشت، تجارت الغرض زندگی کا ہر شعبہ علم کا تقاضا
کرتا ہے۔ہمارے پیارے دین نے ہر ہر رخ پر ہمیں تعلیم سے آراستہ کر کے قواعد و ضوابط
عطا کیے ہیں، جبکہ عصری علوم ہمیں جدید ذرائع
سے آگاہی فراہم کرواتے ہیں یعنی دینی تعلیم ہمیں طریقہ کار بیان کرتی ہے جبکہ دنیاوی تعلیم ہمیں ذرائع فراہم کرتی ہے۔لہٰذا
دونوں علوم کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر دینی تعلیم کے بغیر گزارا ممکن نہیں۔الحمد
للہ عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی نے ان دونوں کی ضرورت و اہمیت کے
پیشِ نظر ہر ہر شعبے میں فیضانِ علمِ دین
کو عام کیا، یہی وجہ ہے کہ آج دینی و عصری تعلیم کے شعبے میں دعوتِ اسلامی کا ایک
نمایاں اور بڑا نام ہے۔
امیرِ اہلِ سنت اور دعوتِ اسلامی کی علمی شعبے میں دینی و عصری خدمات:
دین
کا درد رکھنے والے سنت و سنیت سے محبت کرنے والے، اس کے فروغ کے لیے اخلاص کے ساتھ
جد و جہد کرنے والے، اصلاحِ اُمّت کے جذبے سے سرشار اور ہر
دم اسی کی فکر میں مشغول ایک معروف شخصیت
اور انٹرنیشنل مذہبی اسکالر امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نے جب معاشرے میں کم علمی، بے عملی
اور گناہوں کی نحوست کو پایا تو صرف چند اسلامی بھائیوں کے ساتھ اپنی تحریک دعوتِ
اسلامی کے تحت اپنے مشن کا آغاز فرمایا۔آپ نے اپنی منزل پانے یعنی اصلاحِ اُمّت
اور نورِ علم پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً کئی شاندار اقدامات بھی فرمائے ہیں۔کیونکہ
جب کسی منزل پر پہنچنے کا ارادہ ہو تو اس کے سفر کے آغاز میں پہلا قدم اٹھایا جاتا
ہے، اس ایک قدم کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا یوں مسلسل اقدامات اور کوششوں کے
بعد سفر اپنی انتہا کو پہنچتا ہے۔
مدرسۃ المدینہ:
الحمد
للہ امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نہ
صرف قرآنِ کریم اور دینی تعلیم سے بہت محبت فرماتے ہیں بلکہ درست مخارج کےساتھ
قرآنِ کریم پڑھنے کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہیں، لہٰذا آپ نے عظمتِ قرآن اور دینی
تعلیم کی ترویج کی اہمیت کے پیشِ نظر سب سے پہلا قدم اٹھایا اور 8 دسمبر 1990کو
کراچی کے علاقے شو مارکیٹ گارڈن میں بچوں کے لئے حفظ و ناظرہ
کا ادارہ بنام” مدرسۃ المدینہ“بنا کر امت پر زبردست احسانِ عظیم فرمایا۔اس
بارے میں مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
دعوتِ
اسلامی کے تحت ملک و بیرونِ ملک میں بچوں بچیوں کے لئے حفظ و ناظرہ کے ہزاروں
مدارس بنام”مدرسۃ المدینہ (بوائز/ گرلز، شارٹ ٹائم، رہائشی)“قائم ہیں جن میں
بنیادی طور پر تجوید کے ساتھ مفت قرآن ِ کریم پڑھانے ہی کی سہولت نہیں، بلکہ ناظرہ
قرآنِ کریم کے درجات کے ساتھ ساتھ حفظ کے
درجات میں نماز، دعائیں، ایمانیات و عقائد، عبادات، اخلاقیات، سنتیں اور آداب بھی
سکھائے جاتے ہیں۔جبکہ مدرسۃ المدینہ(رہائشی)میں بچوں کی رہائش کے انتظام کے ساتھ
ساتھ 12 گھنٹے کا مکمل شیڈول ہوتا ہے جس میں
بالخصوص حفظ کروانے کے علاوہ ان کی اخلاقی و دینی تربیت کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔یوں
ہی مدرسۃ المدینہ(شارٹ ٹائم)میں بالخصوص ناظرہ قرآنِ پاک پر توجہ دی جاتی ہے۔ان مدارس
کے اوقات کار میں اس بات کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے کہ اسکول پڑھنے والی طالبات
اور گھر کی خواتین اپنے مناسب وقت پر نکل کر قرآنِ پاک سیکھ سکیں۔اسی طرح قرآنِ
پاک کی قراءت کو بہتر بنانے کے لیے مُدَرِّس و مُدَرِّسہ کورسز بھی ڈیزائن کیے گئے
ہیں تاکہ مُدَرِّس و مُدَرِّسہ اہلیت حاصل کرنے کے بعد درست پڑھا سکے۔
اسی
مقصد کے تحت ملک و بیرونِ ملک میں شعبہ مدرسۃ المدینہ کی زیرِ نگرانی اسلامی بھائیوں
اور اسلامی بہنوں کو مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں جیسے اسلامی بھائیوں میں عمر کی
قید کے ساتھ درج ذیل کورس کروائے جاتے ہیں:12ماہ
کاتجوید و قراءت کورس(رہائشی)، 5 ماہ
کا مُدرس کورس(رہائشی)، 7ماہ کا قاعدہ ناظرہ
کورس(رہائشی)، 12 دن کا تربیتِ معلّم کورس (رہائشی)۔اسی
طرح اسلامی بہنوں میں بھی 163 دن کا مُدَرِّسہ کورس(غیر رہائشی)، 10ماہ
کا قاعدہ ناظرہ کورس (غیررہائشی)، 41 دن
کا تربیتی معلّمہ کورس(رہائشی)کا اہتمام ہوتا ہے۔اس کے علاوہ بڑی عمر کے اسلامی
بھائیوں اور اسلامی بہنوں کے لیے ملک و بیرونِ ملک پر کثیر مقامات پر مدرسۃ
المدینہ بالغان و بالغات لگائے جاتے ہیں۔
گلی گلی مدرسۃ المدینہ:
یوں ہی اسلامی بھائیوں میں مدرسۃ المدینہ نائٹ شفٹ کے تحت
رات میں بھی مدرسے لگائے جاتے ہیں۔جبکہ اسلامی بہنوں کے لیے”شعبہ گلی گلی مدرسۃ
المدینہ“کے تحت قریب قریب کے مقامات پر گھر میں تجوید کے ساتھ ناظرہ پڑھانے کا
انتظام کیا گیا ہےتاکہ کوئی محروم نہ ہو، کم عمر بچیوں کی عادت بنے اور بڑی عمر کی
اسلامی بہنیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
فیضان آن لائن اکیڈمی:
وہ
مقامات یا وہ ممالک جہاں بذریعہ مدارس و جامعات فیضانِ قرآن پہنچانے کا کوئی
انتظام ممکن نہیں تھا وہاں پر اسلامی بھائیوں اور بچوں کو قرآنِ کریم اور دینی
تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے 12 فروری 2012 کو دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ
مدینہ محلہ سودا گراں پرانی سبزی منڈی کراچی(پاکستان) میں”مدرسۃ المدینہ آن
لائن“کے نام سے پہلا عالیشان ادارہ قائم کیا گیا، جس کی اب پاکستان سمیت دنیا
بھر میں 49 برانچز قائم ہیں۔اب اس کا تنظیمی نام”فیضان آن لائن اکیڈمی“ہے۔خواتین
اور بچیوں کے لئے”فیضان آن لائن اکیڈمی (گرلز)“کی پہلی شاخ کا افتتاح 11
مئی 2013 میں ہوا۔فیضان آن لائن اکیڈمی کے ذریعے طلبا و طالبات مناسب فیس میں اپنی سہولت کے مطابق دن یا رات میں کسی
بھی وقت دینی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
اسی
شعبے کے تحت درسِ نظامی کی سہولت کے ساتھ ساتھ مختلف شارٹ کورسز مثلاً فیضانِ شریعت
کورس وغیرہ بھی کروائے جاتے ہیں۔کورسز کے اختتام پر دعوتِ اسلامی کے تعلیمی بورڈ
کے تحت امتحانات ہوتے ہیں اور اسناد بھی جاری کی جاتیں ہیں۔فیضان آن لائن اکیڈمی کے
ذریعےانگلش و چائنیز وغیرہ زبانیں بھی سکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ بیرونِ ممالک
کے طلبہ و طالبات تک بآسانی دینی تعلیمات پہنچائی جا سکیں۔
جامعۃ المدینہ:
الحمد
للہ لوگوں نے آپ کے اس اقدام کو ایپریشیٹ کیا
تو آپ نے لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے، علم دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور
معاشرے سے بُرائیوں کے خاتمے کے لیے کوئی ایسا دینی ادارہ قائم کرنے کا ارادہ
فرمایا کہ جہاں ایسے اہلِ حق علمائے کرام تیار کئے جائیں جو مسلمانوں کو فرض علوم
کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ کریں اور سکھائیں۔چنانچہ آپ کی کاوشوں
سے 1994 میں شہرِ کراچی(پاکستان)کے علاقے نیو کراچی کی گودھرا کالونی میں اسلامی
بھائیوں کے لئے”جامعۃ المدینہ“کے نام سے درسِ نظامی یعنی عالم کورس کے ایک
شاندار ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس کے بعد مزید شہروں میں اس کی Branches
قائم ہوئیں۔اس بارے میں مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
جامعات
المدینہ علمِ دین کے فروغ و حصول کے لیے قائم کیے گئے ہیں جو دعوتِ اسلامی کے علمی
میدان میں کامیاب ترین ادارے اور دعوتِ اسلامی کی ترقی میں اضافے کا سبب ہیں۔جامعۃ
المدینہ کے تحت سب سے اہم کورس اسلامی بھائیوں کے لئے 8 سالہ اور اسلامی بہنوں کے
لئے 6 سالہ درس نظامی(عالم/عالمہ کورس)ہے۔الحمد للہ بعض جامعات المدینہ میں فقہِ شافعی
کے مطابق بھی تعلیم دی جاری ہے۔جامعۃ المدینہ خصوصی طور پر عالم و عالمہ بنانے
والا ادارہ ہے جو بالکل مفت تعلیم دیتا ہے۔اس کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات کو دینی
احکامات سیکھانا، کرنے اور نا کرنے والے کاموں سے آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ وہ کرنے والے کام کریں اور نا کرنے والوں سے بچتے
ہوئے دینی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں، عبادات میں درستی اور عقائد میں پختگی
حاصل کریں، ان میں قر آنِ پاک اور احادیث کے معانی و مطالب سمجھ کر سمجھانے والی
صلاحیت پیدا ہو۔جامعۃ المدینہ مرشدِ کریم کو تمام شعبوں میں سب سے محبوب شعبہ ہے، کیونکہ اس کے ذریعے مسلمان باعمل زندگی
گزار سکتے ہیں۔چنانچہ
فرمانِ
امیرِ اہلِ سنت:جامعۃ المدینہ دعوتِ اسلامی کا مغز ہے۔اسی ادارے کے
سبب دعوتِ اسلامی کا پیغام تیزی کے ساتھ عام ہوا ہے۔الحمد للہ 20 سال کے عرصے میں دنیا کے تقریباً 14 ممالک میں دعوتِ اسلامی کے جامعات
المدینہ (بوائز/ گرلز)کی تقریباً 1500Branchesقائم
ہو چکی ہیں۔
الحمد
للہ شعبہ جامعۃ المدینہ کے تحت 25 ماہ کا فیضانِ شریعت کورس بھی کروایا جاتا ہے جو
مکمل طور پر بنیادی فرض علوم پر مشتمل ہوتا ہے۔25 ماہ میں ٹوٹل 5 لیول ہوتے ہیں۔اسی
طرح اس شعبے کے تحت مختلف مواقع پر مختلف کورسز وغیرہ بھی کروائے جاتے ہیں۔مثلاً
رمضان المبارک سے پہلے زکوٰۃ کورس اور قربانی سے پہلے قربانی کورس وغیرہ۔کورس کے اختتام پر اسناد بھی دی جاتی ہیں۔
جامعۃ المدینہ( گرلز):
یاد
رہے!یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ”ایک عورت دین پر تو سارا گھرانا دین پر“کو
مدِّنظر رکھتے ہوئے 4 سال کے مختصر عرصے کے بعد 1999 میں بابری چوک کراچی(پاکستان)میں
خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک عظیم الشان ادارہ بنام”جامعۃ المدینہ“کا
آغاز ہوا۔الحمد للہ اب کراچی بلکہ پاکستان سے باہر بھی اس کیBranchesخواتین
میں فیضانِ علم تقسیم کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔
تخصص کورسز:
شروع شروع میں صرف اسلامی بھائیوں کو ہی جامعۃ المدینہ کے تحت تخصص کورسز کروائے جاتے تھے لیکن الحمد
للہ
عرصہ دو سال سےاسلامی بہنوں کے لیے شہرِ کراچی میں قائم جامعۃ
المدینہ(گرلز)دار الحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی میں تخصص فی الفقہ(مفتیہ کورس) کا
آغاز ہو چکا ہے، جبکہ رواں سال تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور فیصل آباد کے بڑے جامعات
المدینہ(گرلز)میں تخصص فی الدعوۃ و الارشاد کروایا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد نیکی
کی دعوت عام کرنا ہے۔
دار المدینہ:
امیرِ
اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:طلبہ
کسی ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ اور قوم کے مستقبل کے رہنما ہوتے ہیں۔اگر ان کی تربیت
شریعت و سنت کے مطابق کی جائے تو معاشرے میں ہر جگہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خوف اور
عقیدت غالب آجائے گی۔(دارالمدینہ پراسپیکٹیس،
ص1)
دورِ
جدید میں دینی مقاصد کے حصول کے لیے دعوتِ اسلامی نے اہم قدم اٹھایا اور دنیا میں
عصری علوم کے رائج طریقوں کے ساتھ دینی احکامات کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے بچوں اور بچیوں میں دین
کی صحیح تربیت شریعت کے مطابق کر کے ان کو اچھا شہری و مسلمان بنانے کے جذبے کے
تحت2011 میں دار المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم کا قیام عمل میں لایا
گیا۔دار المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم کا مقصد روایتی تعلیمی علوم کو شریعت کے مطابق بہتر بنانا اور بچوں بچیوں
کو اسلام کی حدود کے اندر اپنی بہترین صلاحیتوں کو سیکھنے اور پھلنے پھولنے میں
مدد فراہم کرنا ہے۔اس کا ایک مقصد ایک ایسا ماحول تیار کرنا بھی ہے جہاں تمام
انتظامی، نصابی اور تدریسی طریقوں میں اسلامی اقدار کا احترام کیا جائے۔چنانچہ دار
المدینہ میں مؤثر تدریس، کردار سازی، تعمیری سوچ اور اسلامی تربیت فراہم کی جاتی
ہے جو اسے دیگر اداروں سے نمایاں کرتی ہے۔
دار
المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم کے تحت”دار المدینہ اسلامک اسکولز“اور”فیضان
اسلامک اسکولز “ کے 142 سے زائد Campuses
میں ہزاروں بچےبچیاں عصری ودینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
Faizan Weekend Islamic School:
دار
المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم کے
تحت ایک اور ادارہ بنام Faizan
Weekend Islamic School متعارف کروایا گیا ہے جس میں ان طلبہ کو فوکس کیا
گیا ہے جو دوسرے اسکولز میں پڑھتے ہیں۔وہ اس ادارے سے دینی و اخلاقی تربیت حاصل کر
سکتے ہیں۔یہ ہفتے میں ایک یا دو دن اوپن ہوتا ہے، کیونکہ اس کا انحصار بچوں کی
ہفتہ وار چھٹی پر ہوتاہے۔اس کی ایک برانچ سپر
ہائی وے پر قائم بحریہ ٹاؤن میں موجود ہے۔مزید
کام جاری ہے۔اس شعبے کو پاکستان کے سات بورڈز سے لائسنس حاصل ہیں، جبکہ بیرونِ ملک
میں UK کے OFSTED اور USA کے CDSS-CCLD سمیت دیگر ممالک کے اداروں سے بھی سرٹیفکیٹس
اور لائسنس جاری ہوچکے ہیں۔
ان
شاء اللہ دار المدینہ کے O-Level اسکولز، کیمبرج سسٹم اسکولز، Online
ایجوکیشن سسٹم، Prisoners (یعنی قیدیوں کے لئے) اسکولز اور Special
Children اسکولز کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
الحمدللہ
دار المدینہ اسلامک کالج(بوائز) کا آغاز ہوچکا ہے جس کی پہلی برانچ زینب مسجد، محمدیہ کالونی، سوساں روڈ، مدینہ
ٹاؤن، فیصل آباد میں قائم ہے جس میں طلبہ کو جدید سہولیات سے آراستہ شریعت کے مطابق
ماحول فراہم کیا جا رہا ہے جو ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور انہیں معاشرے کی
خدمت کے لیے قابل و پیشہ ور افراد میں تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔دعوتِ
اسلامی کا یہ شعبہ عصری علوم میںAcademic Programs،
کالج لیول پر سائنس (پری میڈیکل و
انجینئرنگ)جرنل سائنس(کمپیوٹر سائنس)،کامرس اور Humanities Arts کی تیاری کروا رہا ہے۔دار المدینہ
اسلامک کالج(DMC)میں
جدید دور کی سہولیات جیسے لائبریری، سیکورٹی، سائنس و کمپیوٹر، لیبز، آن لائن
پورٹلز وغیرہ موجود ہیں۔
دار المدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی:
دعوتِ
اسلامی کا اپنی یونیورسٹی بنانے کی جانب بڑھتا ہوا ایک نمایاں قدم ہے۔دعوتِ اسلامی
کے اسکولز اور کالجز تعلیمی میدان میں قابلِ ستائش خدمات دے رہے ہیں جس میں بغیر
رکاوٹ کے دنیوی و عصری تعلیم دی جاری ہے۔مدنی چینل پر مدنی مذاکرے میں امیرِ اہلِ سنت
دامت برکاتہم العالیہ نے اس تعلیمی
نمایاں کامیابی کا اعلان فرمایا کہ حکومتِ پاکستان کے تحت گرانٹ دینے والے ادارے
ہائر ایجوکیشن کمیشن(H.E.C)نے دعوتِ اسلامی کو G-11
مرکز، اسلام آباد میں”دار المدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی“ کا پہلا کیمپس
کھولنے کی منظوری دے دی ہے۔یہ اہم فیصلہ دعوتِ اسلامی کی تعلیمی خدمات کی کامیابی
کا منہ بولتا ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ِعلم و عاشقان رسول کے لیے بہت خوشی کا
سبب ہےجس پر دعوتِ اسلامی کو بہت سراہا بھی گیا ہے۔اللہ پاک دعوتِ اسلامی کو مزید
ترقی عطا فرمائے۔اٰمین
الحمد
للہ دار المدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کا
پہلا کیمپس تعلیمی خدمات کا آغاز کر رہا ہے۔ابتدائی مرحلے میں اس کے کیمپسز میں 4 ڈیپارٹمنٹس
قائم کیے جائیں گے:(1) ڈیپارٹمنٹ آف عربک(2) ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز(3) ڈیپارٹمنٹ
آف مینجمنٹ سائنسز(4) ڈیپارٹمنٹ آف
ایجوکیشن۔
ورچوئل فیضان ِشریعت کورس:
یہ
آن لائن کورس اسلام کے بنیادی ارکان اور فرض علوم کی معلومات پر مشتمل ہے جو ان اسلامی
بہنوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جن کے قریب جامعات المدینہ(گرلز)موجود نہیں یا وہ
دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر ہیں یا کسی وجہ سے جامعۃ المدینہ(گرلز)میں روزانہ
حاضری نہیں دے سکتیں تاکہ ایسی اسلامی
بہنیں گھر بیٹھے علمِ دین کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔اس کورس میں طالبات کو رجسٹریشن
نمبرز جاری کیے جاتے ہیں اور طالبات کو ماہانہ نصاب کی تقسیم کاری کے مطابق تیاری
کرنی ہوتی ہے، جبکہ طالبات کی راہ نمائی کے لیے ایک فی میل ٹیچر کا نمبر بھی دیا
جاتا ہے۔
کلیۃ الشریعہ:
یہ4
سالہ کورس ان اسلامی بہنوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو گریجویشن کر چکی ہوں اور دینی
تعلیم کم وقت میں حاصل کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ کم وقت میں علمِ دین حاصل کر کے سکیں
اور اس طبقے میں بھی اخلاقیات اور عملی زندگی گزارنے کا رُجحان بڑھے۔
شعبہ شارٹ کورسز:
دعوتِ
اسلامی کا شعبہ شارٹ کورسز وقتاً فوقتاً مختلف آن لائن اور رہائشی کورسز کرواتاہے۔بعض
کورسز کا تعلق فرض علوم سے ہوتا ہے جیسے نماز کورس، طہارت کورس، فیضانِ زکوٰۃ کورس
اور حج و عمرہ پر جانے والوں اور والیوں کے لیے حج و عمرہ کورس کروایا جاتا ہے۔اسی
طرح شبِ براءت، شبِ معراج، یومِ عاشورہ سے پہلے ان دنوں کی خصوصیت بیان کرنے کے لیے
مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔اسی طرح قرآن ٹیچنگ ٹریننگ کورس، مدنی قاعدہ کورس، معلمہ
کورس، عربی لینگویج کورس، کورس حُب العربیہ جیسے شارٹ ٹائم کورسز کروائے جاتے ہیں۔
کنزالمدارس بورڈ:
دورِ
حاضر میں مدارس ِدینیہ کے نصابِ تعلیم، امتحانی نظام، اہم نصابی سرگرمیوں اور دیگر
نظام کو منظم بنانے کے لیے ایک تعلیمی بورڈ کی اشد ضرورت تھی۔چنانچہ وفاقی وزارتِ
تعلیم و فنی تربیت حکومتِ پاکستان نے مؤرخہ 27 اپریل 2021 نوٹیفکیشن
نمبر 1-2014/NCC/RE-46کے تحت دعوتِ اسلامی کو وفاقی دینی تعلیمی بورڈ” کنز
المدارس “ کی منظوری دی ہے۔جس کے
تحت الشہادة العالمیۃ فی العلوم العربیۃ والاسلامیۃ کی ڈگری”ایم۔اے عربی و اسلامیات
“کے برابر ہو گی جو طلبہ و طالبات کے لیےباعث خوشی ہے۔کنز المدارس بورڈ
کا دائرۂ کار ملکی و غیر ملکی دینی تعلیمی اداروں کو محیط ہے۔کنز المدارس
بورڈ جامعات المدینہ اور دیگر الحاق شدہ اداروں کو کم و بیش 12 اقسام کے دینی
کورسز آفر کر رہا ہے جن میں تحفیظ القرآن (2 سال)، تجوید و قراءت (2 سال)، درسِ
نظامی(8 سال)، کلیۃ الشریعۃ(4 سال)، تخصص فی الحدیث و علومہ(2 سال)، تخصص فی الفقہ الحنفی(2 سال) تخصص فی الفقہ الحنفی والاقتصاد
الاسلامی(2 سال)، تخصص فی العلوم العربیۃ(1 سال)، تخصص فی الفنون(1 سال)، تخصص فی
التوقیت(1 سال)، فیضانِ شریعت کورس(25 ماہ)اور امامت کورس(12 ماہ) شامل ہیں۔
FGRF:
دعوتِ
اسلامی کا ایک شعبہ FGRF بھی ہے جو فلاحی کاموں میں مصروف ہے۔اس شعبے
کے تحت بھی کچھ اہم Skills سکھائی جا رہی ہیں۔جیسے
Freelancing,Chainese
language lurning,Basics of E-Commerce Business, Digital marketing
اور English
language وغیرہ۔ان
کورسز میں دورِ حاضرکے مطابق بھرپور رہنمائی دی جاتی ہے۔یہ کورسز تو دیگر ادارے بھی
کروا رہے ہیں مگر دعوتِ اسلامی دینی احکامات کو پہلے رکھتی ہے، اسی لیے ان میں دینی
تعلیمات سے ٹکرانے والی کوئی چیز نہیں سکھائی جاتی، بلکہ خصوصی طور پر شرعی احکام کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ان
کورسز کی رجسٹریشن اور مزید معلومات کے لیے FGRF کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیا جا سکتا ہے۔یہ
سارے کورسز بنیادی طور پر اب تک اسلامی بھائیوں کے لیے ہیں۔لیکن الحمدللہ اسلامی
بہنوں کے لیے جنوری 2024 سے SEP کے تحت 5 لیولز کا انگلش لینگویج کورس
متعارف کروایا گیا ہے جس کے ہر لیول کا دورانیہ 2 ماہ ہے۔اسلامی بھائیوں کے لئے
باقاعدہ ایک مخصوص جگہ پر کلاسز ہوتی ہیں جبکہ اسلامی بہنوں کے لیے آن لائن کورس کی سہولت دی گئی ہے۔
مذکورہ
معلومات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دعوتِ اسلامی نے رضائے الٰہی کے لئے معاشرے میں دینی علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ عصری تعلیمی میدان میں
بھی اپنا بھرپور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اگر کوئی صاحب بصیرت مسلمان دعوتِ اسلامی
کے فلاحی کاموں مثلاً فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن(FGRF)، یتیموں
کے لئے مدنی ہوم اور معذوروں کے لئے اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ وغیرہ
کے قیام پر غور کرے تو اس پر یہ حقیقت ظاہر ہو جائے گی کہ ان کا بنیادی مقصد اُمّت
کی خیر خواہی ہی ہے مگر اس کے ضمن میں علمِ دین کو فروغ دیا جا رہا ہوتا ہے جو کہ دعوتِ اسلامی کا بنیادی مقصد ہے۔اللہ
پاک دعوتِ اسلامی کو مزید ترقی، عروج اور اخلاص عطا فرمائے۔اٰمین
سیرتِ
حضرت سیدنا شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ
محمد عمر فیاض عطاری مدنی
سن 1101 ہجری
میں وادیِ مہران کے تاریخی شہر ہالہ میں عراق سے آکر بسنے والے سادات گھرانے میں
وہ چراغ روشن ہوا جسے دنیا شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام سے جانتی ہے۔
حضرت سیدنا
شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا شمار بارہویں صدی ہجری کے عظیم صوفی بزرگوں
میں ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش 1101ہجری مطابق 1689سن عیسوی میں ہالا حویلی ضلع
مٹیاری سندھ پاکستان میں ہوئی۔ (تذکرہ صوفیائے سندھ، ص 175)
آپ کے والد
گرامی کا نام سید حبیب شاہ رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ان
کا شما ر بھی اپنے زمانے کے برگزیدہ بندوں
میں ہوتا تھا۔ سید حبیب شاہ ہالا حویلی،
سندھ میں رہتے تھے لیکن شاہ عبداللطیف
بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے کچھ ہی دن بعد اپنے آبائی گاؤں
کو چھوڑ کر کوٹری میں آکر رہنے لگے۔ (تذکرہ اولیائے سندھ، ص 196)
حضرت شاہ
عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ محترم سید حبیب شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد پانچ سال کی عمر میں
آخوند نور محمد کی مشہور درسگاہ میں تحصیل علم کے لئے بھیج دیا گیا جس کے سربراہ
نور محمد صاحب تھے اور ان سے آپ نے مزید علوم وفنون کی تعلیم حاصل کی۔ (تذکرۂ
عبداللطیف بھٹائی، ص 25)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نہ
صرف اپنی زبان پر عبور حاصل تھا بلکہ عربی، فارسی، ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام کی اثر آفرینی ہر سننے والے کو مسحور کردیتی ہے ۔ (تذکرۂ عبداللطیف
بھٹائی، ص 25)
آپ رحمۃ اللہ علیہ روزانہ
کئی کئی میل پیدل چل کر سفر کرتے اور راستے میں جتنے بھی گاؤں آتے، قافلے ملتے یا
کوئی بھی شخص ملتا تو اس کو دین کی دعوت دیا کرتے۔ آپ نے سندھ کے کئی علاقے پیدل
گھومے اور لوگوں میں علمی جواہر لُٹائے۔ (تذکرۂ
عبداللطیف بھٹائی، ص 33)
آپ کے کلام
کا مجموعہ ”شاہ جو رسالو“ کے نام سے مشہور
ہے جو کہ نہایت عقیدت واخلاص کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔
آپ نے عبادت
و ریاضت کے لئے جنگل میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو ایک ٹیلے کی شکل میں تھی اور
چاروں طرف سے خاردار جھاڑیوں سے گھری ہوئی تھی۔ چونکہ سندھی زبان میں چونکہ ٹیلے کو ”بھٹ“ کہا جاتا ہے اس لئے آپ بھٹائی کہلائے۔ (تذکرہ اولیائے پاکستان،
ص162)
حضرت شاہ
عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال کی عمر میں 14 صفر المظفر 1165سن
ہجری مطابق 1752سن عیسوی میں بھٹ شاہ ضلع مٹیاری میں وصال فرمایا اور وہیں آپ کا مزارِ پُرانوار
موجود ہے ۔ (تذکرہ سید عبداللطیف بھٹائی، ص41)
آپ کا عرس ہر
سال نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور لاکھوں عقیدت مند پاکستان کے کونے کونے
سے حاضر ہوکر نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں
اور روحانی فیض پاتے ہیں۔
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو
٭پورا نام:حضرت سیدناابو محمد عبد اللہ شاہ غازی الاشتر رحمۃ اللہ علیہ
٭پیدائش: آپ کی پیدائش واقعۂ کربلا کے 37 سال
بعد 98ہجری
میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
٭والد گرامی: آپ کےوالد صاحب کا نام حضرت سید
محمدنفس ذکیہ تھا جوکہ نواسۂ رسول حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے سگےپَر پوتے تھے۔
٭خاندان: حضرت عبداللہ شاہ غازی کا تعلق اہل بیت
اطہار کے گھرانے سے ہے۔آپ حسنی حسینی سیِّد ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں مولاعلی شیر خدا کر م اللہ
وجہہ الکرم سےجا ملتاہے۔ پورا سلسلۂ نسب یوں ہے:سید عبد اللہ شاہ غازی بن سید
محمد ذو النفس الذکیہ بن سید عبد اللہ المحض بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن مجتبیٰ بن امیرالمؤمنین
حضرت مولیٰ علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہم)
٭آپ کا شمار تابعین یاتبع تابعین میں ہوتا
ہے۔
٭ تعلیم و تربیت : آپ کی
تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیرِ سایہ مدینۂ منورہ میں ہی ہوئی۔آپ علمِ
حدیث میں ماہر تھے۔ بعض مصنفین نے آپ کو محدثین میں شمار کیا ہے۔
٭ سندھ آمد: اندرونِ سندھ پاکستان میں آپ رحمۃ
اللہ علیہ کی آمد 138 ہجری میں ہوئی۔ آپ 400 افرا د کے قافلے پر مشتمل لوگوں کے ساتھ
سندھ میں تشریف لائے۔
٭تبلیغ: آپ سندھ میں 12 برس تک
اسلام کی تبلیغ میں مشغول رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو اسلام سےمشرف
کیا۔
٭حضرت سیدعبداللہ شاہ غازی سندھ میں داخل ہونے
والے پہلے سادات گھرانے کے بزرگ و مبلغ تھے۔
٭آپ نہایت عابدو زا ہد ،متقی ،بلند ہمت،دِین کا
درد رکھنے والے اور لوگوں پر انتہائی شفیق اور مہربان تھے۔
٭وصال: 20ذُوالحجۃُ الحرام151 ہجری میں آپ شہید
ہوئے۔ہجری کے اعتبار سے 53 سال عمر پائی۔
٭مزار شریف: کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ
کا مزارِ پُر انوار اپنی برکتیں لُٹارہا ہے
٭سمندر کنارے میٹھے پانی کاچشمہ: آپ
کی مشہور کرامات میں سے ایک کرامت جو آج بھی آپ کے مزار پر انوار کے پہلو میں ہے
وہ ہے ”میٹھے پانی کا کنواں“ ۔اس کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ جب آپ کو شہید کیا گیاتو
آپ کےمریدین آپ کے مزار پُرانوار کے پاس رہے کہ کہیں دشمن آپ کے جسم مبارک کو نکال
کر نہ لے جائیں۔ آپ کا مزار اونچائی پر تھا اس لئے مریدوں کو پانی لینے جانے میں
پریشانی تھی تو مریدین نے آپ کے وسیلے سےعاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کریم کی
بارگاہ میں دعا کی،توایک مرید کےخواب میں آپ تشریف لائے اور دعا کی قبولیت کی
خوشخبری دی کہ اللہ کریم نے تمہاری دعا قبول فرمالی اور آپ کے مزار پرانوار کے
پاؤں کی جانب سے ایک میٹھےپانی کا چشمہ جاری ہوگیا،آج بھی وہ چشمہ جاری ہے اور ہزاروں لوگ وہاں آکر اس کا پانی پیتے اور برکتیں حاصل کرتے ہیں ۔
٭عرس:ہر سال آپ کا تین روزہ عرس 20ذُوالحجۃُ
الحرام سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس سال آپ کا 1294واں عرس منایا
جارہا ہے۔
نوٹ: دعوتِ اسلامی کی جانب سے ہر سال عرس کے
موقع پر مزار شریف پر محفل کا سلسلہ ہوتا ہے۔ اس سال بھی 29 جون 2024 بروز ہفتہ
بعد نمازِ مغرب محفل کا سلسلہ ہوگا جس میں مدنی چینل کے مختلف نعت خوان ہدایہ
عقیدت پیش کریں گے جبکہ دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے رُکن مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری خصوصی بیان
فرمائیں گے۔ یہ محفل مزار شریف کے احاطے میں ہوگی۔ شرکت فرماکر ثواب کا خزانہ
پائیں۔
بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی بچہ بیمار
ہوجائے تو والدین بے چین ہوجاتے ہیں ۔ پریشان ہوجاتے ہیں ۔ظاہر ہے والدین
اور اولاد کا تعلق ہی کچھ ایسا ہے ۔لیکن یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ والدین صحت اور حفظان صحت کے حوالے سے کتنی awareness رکھتے ہیں ؟بچوں کے لیے کیا کیا احتیاطی
تدابیر کرنی چاہئیں؟والدین جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوشاں رہتے ہیں وہاں ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی healthکے
حوالے سے بھی سنجیدگی اپنائیں ۔
قارئین :آئیے بچوں کی صحت و حفظان صحت کے حوالے سے کچھ Tipsجان لیتے ہیں ۔
متوازن غذائیت:: Balanced Nutrition
اپنى بچوں کو متوازن غذا فراہم کریں جس میں پھل،
سبزیاں،اناج، مناسب مقدار میں پروٹین اور دودھ شامل ہوں۔نیز میٹھے مشروبات اور زیادہ نمکین خوردونوش کی چیزوں
سے دور رکھیں ۔توانائی کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدگی سے بچوں کو کھانے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ
کھاناکھانے پر appreciateبھی
دیں ۔
جسمانی سرگرمی:: Physical Activity
بچے کی عمر کے مطابق باقاعدہ جسمانی سرگرمی کو
فروغ دیں۔ اسکرین ٹائم (ٹی وی، کمپیوٹر) کو محدود کریں ، آپ والدین ایک خاندان کی حیثیت سے بچوں کے ساتھ غیر نصابی
سرگرمیاں میں شامل ہوکر ان کو فزیکل ایکٹیویٹی
کا عادی بنانے کی بھرپور کوشش کریں ۔
مناسب نیند:: Adequate Sleep
اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا بچہ اپنى group agerکی اعتبار سے ٹھیک نیند کررہاہے ۔وقت مناسب پر اُسے سلادینے
کا معمول بنائیں تاکہ اس کی نیند پوری
ہوسکے ۔جو ایک جسم کا تقاضابھی ہے ۔کوشش کریں کہ بچوں کے لیے آرام دہ اور پرسکون نیند کا ماحول بنائیں۔
حفظان صحت::Hygiene
اپنے بچوں کو حفظان صحت کے اچھے طریقےضرور سیکھائیں اور ا
ن اصولوں پر عمل کرنے کی صورت میں بچوں کی
حوصلہ افزائی بھی کریں مثلابچوں کو ہاتھ دھونے ، دانتوں کی صفائی ،ناخن کاٹنے ،صاف
کپڑے پہننے ،غسل کرنے کے حوالے سے تربیت دیں اور جب وہ بِنا بولے اس پر عمل پیراہوں تو آپ تعریف کی صورت میں ان کی
حوصلہ افزائی ضرور کردیں تاکہ ان کا صفائی
و ستھرائی کا جذبہ سرد نہ پڑے ۔
جذبات کی نگہداشت :: Well- Being Emotional
اپنے گھر کو سکھ چین اور محبت اور اپنائیت کا
گہوارہ بنائیں ۔بچوں کے لیے ایک environment friendly بنائیں ۔جہاں بچہ اپنے من کی بات آپ سے کرسکے ۔اپنے
آئیڈیاز، اپنے خدشات ،اپنی مشکلات پوری energyکے
ساتھ آپ کو بتاسکے ۔یہ اس بچے کی مینٹل ہیلتھ
کے لیے بہت ضروری ہے ۔آپ اپنے اندرسننے کا ظرف اور بچے کو کہنے کا حق ضرور دیں ۔تاکہ آپ گاہے گاہے اپنے بچے کے بارے میں
جان سکیں کہ وہ کیا سوچتاہے اور کیاکیا کرنے کا ارادہ رکھتاہے ۔نیزاپنے بچے کو
اعصابی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ان سے اپنى زندگی کے مشکل حالات کی اسٹوری shareکریں جس میں آپ مشکل سے نکلنے کے طریقے تلاش کرکے مشکل سے نکل گئے تھے تاکہ بچہ مہم جو بن سکے ۔
حفاظت: :Safety
حادثات سے بچنے کے لیے اپنے گھر کو چائلڈ پروف
بنائیں۔عمر کے مطابق کار سیٹ اور سیٹ بیلٹ استعمال کریں۔اپنے بچے کو حفاظتی اصولوں کے بارے میں تعلیم دیں، جیسا
کہ سڑک پار کرنے سے پہلے دونوں طرف دیکھنا،زیبراکراسنگ سے کراس کرناوغیرہ ۔
صحت کا باقاعدہ معائنہ:: Check-up Regular Health
بچوں کو چیک اپ کے لیے اطفال کے ماہر کے پاس
باقاعدگی سے دورے کا شیڈول بنائیں۔کسی بھی صحت کے خدشات کو فوری طور پر حل کریں۔بیماری کا دورانیہ طویل نہ
ہونے دیں ۔بیماری کی تشخیص کے بعد علاج میں تاخیر ہرگز نہ کریں۔
نقصان دہ چیز وں کو سرعام استعمال سے گریز کریں : Avoid using harmful substances in public
آپ کے بچے آپ کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہیں اور آپ کے عمل کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں
۔چنانچہ آپ بچوں کے سامنے اسموکنگ و دیگر
نشے ہرگز نہ کریں بلکہ ہمارا تو مشورہ ہے کہ کسی کے بھی سامنے نہ کریں یہ آپ کے لیے
بھی زہرِ قاتل ہے اورآپ کی اولاد کے لیے بھی زہر ہے ۔
تعلیمی محرک::Stimulation Educational
بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے نفسیاتی
پہلووں کا خیال ضرور رکھیں ۔اس انداز میں ایجوکیشن کو جاری رکھیں کہ بچہ اسکول کے
کام ،ہوم ورک اور اسائنمنٹ کو بوجھ سمجھ کر نہ کرے ۔بلکہ خوشی خوشی بچہ سیکھنے کی
کوشش کرے ۔
سماجی میل جول:: Social Interaction
اپنے بچوں کو سوشل بنائیں ۔خاندا ن ،پڑوس
،دوست وغیر ہ سے میل میلان رکھنے دیں ۔ان
سے مراسم انھیں سوشل بنادیں گے ۔یہ معاشرے
کے ان لوگوں سے کئی چیزیں سیکھیں گے ۔جو
مستقبل میں انھیں رویوں کو اسٹڈی کرنے کے حوالے
سے معاون ثابت ہوں گے ۔
قارئین:ہر بچہ منفرد ہوتا ہے، اور انفرادی ضروریات مختلف ہو سکتی
ہیں۔ اب آپ نے غور کرنا ہے کہ آپ کے بچوں کو کس طرح اورکس حوالے سے آپکی توجہ کی ضرورت ہے ۔
اپنى اولادوں کا خیال رکھیں یہ اللہ کی نعمت ہیں ۔بہترین تعلیم و تربیت یافتہ اور صحت مند اولاد آپ کے لیے بنے گی
بہترین اثاثہ ۔ اللہ کریم ہمیں اپنى اولاد کی اچھی تعلیم وتربیت اور ان کی بہترین دیکھ بحال کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔
آج صبح ہم کراچی کے علاقے جمشید روڈ پر واقع
"پردہ پارک" کے پاس ارشاد بھائی کے ٹھیلے پر ناشتہ کر رہے تھے کہ کیا دیکھا ایک بائیک پر سوار تین باپ بیٹے یک دم اپنی موٹرسائیکل روکتے ہیں ، باپ بڑے بیٹے کو کچھ کہتا ہے ، بیٹا بائیک سے
اترکر چند قدم پیچھے جاتا ہے اوربیچ روڈ میں پڑا مذہبی تحریر والا ایک اشتہار اٹھا کر پاس ہی موجود کمبے پر لگے مقدس
اوراق والے باکس میں ڈال دیتا ہے اور پھر تینوں روانہ ہوجاتے ہیں۔
یہ سارا منظر دیکھ کرہم دل ہی دل میں خوش ہوئے، اللہ پاک کا شکر ادا کیا
کہ یہ قوم اگرچہ نافرمانیوں کی حدیں پار کرچکی ہے لیکن ادب واحترام اب بھی بڑی حد تک باقی ہے ۔ حالانکہ باپ کلین شیو
پینٹ شرٹ میں ملبوس اور بیٹے بھی اسی لباس
میں تھے مگر انہوں نے مقدس اشتہار کا ادب
کیا، اُس شخص نے نہ صرف ادب کیا بلکہ اپنے
دونوں بچوں کو بھی ادب سکھایا۔ یہ عمل دیکھ کر مجھے حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ بھی یاد آگئے جو توبہ سے قبل ایک
شرابی تھے، شراب کے نشے میں کہیں جارہے تھے کہ راستے میں آپ نے ایک کاغذ کا ٹکڑا
دیکھا جس پر ”بسم اللہ الرحمن الرحیم “ لکھا ہوا تھا،آپ نے اُسے اٹھا لیا اور عطر
خرید کر اُسے لگایا اور ایک بلند جگہ پر
رکھ دیا تو اللہ پاک کے نام کے ادب کی برکت سے انہیں بلندرتبہ عطا کیا گیا۔ یقینا اللہ کریم کبھی ایسے ادب کی وجہ سے بندے کو بڑا مقام ومرتبہ عطاکردیتا ہے، حتی کہ بندہ ادب کے سبب رب العالمین تک پہنچ جاتا ہے اور اُسے قرب
خاص سے نوازدیا جاتا ہے۔ بے شک وہ بڑا کریم
ہے، کرم کردے تو رند یعنی شرابی کو محبوب بنالیتا ہے ، اس لیے گناہ سے نفرت کی
جائے، گناہ گار سے نہیں، بقول شاعر،
زاہد نگاہ ِتنگ
سے کسی رند کو نہ دیکھ
شاید کہ اُس کریم
کو تو ہے کہ وہ پسند
یاد رہے کہ نفرت نہ کرنا ایک الگ بات ہے اور کسی
فاسق وفاجر کو تعظیم دینا یہ الگ مسئلہ ہے ، اس کی شریعت میں اجازت نہیں۔
مذکورہ واقعہ مذہبی اشتہار وفلیکس اوربینربنوانے والوں کو بھی
متوجہ کرتا ہے کہ جب مقصد پورا ہوجائے تو اشتہارات وغیرہ اتارلیں اور انہیں یکجا کرکے مقدس اوراق والی تنظیمات کے حوالے کردیں یا خود انہیں کسی جگہ دفنا دیں یا دریا وسمندر میں ٹھنڈ ا کردیا
کریں نیز اشتہار بنواتے وقت بھی خیال رکھیں کہ میٹر میں مقدس الفاظ وجملے نہ ہوں یا ضرورتا کم از کم ہوں اور
بعد میں اس کی حفاظت کا پورا انتظام کیا جائے ورنہ دیکھا جاتا ہے کہ اللہ تعالی اور رسول پاک ﷺ کے اسمائے مبارکہ اورقرآنی آیات والے اوراق واشتہارات راستوں پر بلکہ معاذ اللہ گندی نالیوں
اور کچرا کنڈیوں تک میں پڑے دکھائی دیتے ہیں۔کہیں
یہ بے ادبی کسی بڑے خسارے کا سبب نہ بن
جائے۔
آخر میں یہ بھی بتادوں کہ وہاں موجود مقدس اوراق والا باکس ادب سکھانے والی تحریک دعوتِ اسلامی کی ایک پیاری مجلس ”مجلس تحفظِ اوراقِ
مقدسہ“ کی طرف سے لگایا گیا تھا۔یہ مجلس
مقدس اوراق وغیرہ کو بےحرمتی سے بچانے اور شرعی اصولوں کے مطابق دفن، ٹھنڈا یا محفوظ
کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ اس مجلس کے زیر
اہتمام مقدس اوراق جمع کرنے کے لیے پاکستان میں مختلف مقامات پر ایک لاکھ سے زیادہ باکس لگائے جاچکے ہیں اور اس کام کے لیے 19ہزار سے زائد ذیلی ذمّہ داران کا تقرر بھی
ہوچکا ہے۔ فالحمد للہ علی ذالک۔
اوراق مقدسہ
کو محفوظ بنانے اور مزید
معلومات کے لئے اس نمبر پر رابطہ کریں
021-111-252692
Call or W.app: +92-317-5022226
یہ مضمون PDF میں حاصل کرنے کے لئے download
now پر کلک کریں
ضلع بہاولنگر(Bahawalnagar)
ہاکڑہ
تہذیب کا مرکز ہے جوحضرت عیسی علیہ
السلام کی پیدائش سے تین ہزار سال پہلے سے وجودمیں آئی ۔ یہاں
کے لوگ قدیم دریائے ہاکڑہ کے کنارے رہتے تھے۔بہاولنگرکے وجودمیں آنے سے پہلے یہاں
ایک گاؤں روجھانوالی تھا ۔1898ء میں نواب آف
بہاولپورصادق محمد خان چہارم کے دورِحکومت میں روجھانوالی کے قریب 1898ء میں ایک
نئے مقام کی بنیادرکھی گئی اوراس کا نام نواب صاحب کے والدمحمدبہاول خان چہارم کے نام پر بہاولنگر رکھا گیا۔1905ء میں اسے تحصیل کا درجہ حاصل ہوا۔1917ء
میں یہاں نہری نظام آنے کے بعد اجناس منڈی قائم ہوئی جس کی وجہ سے اس نے ترقی کا آغازکیا۔جب آبادی بڑھی تو اس میں ریلوے
اسٹیشن، تھانہ، ہسپتال،ڈاک خانہ اور حکومتی
دفاتروغیرہ تعمیرکئے گئے۔ 1933ء میں اسے
ضلع بنادیا گیا پھر 1946ء میں اسے تحصیل بنا کر ضلع بہاولپورمیں شامل کردیا
گیا ۔1953ء میں اسے دوبارہ ضلع بنا دیا گیا۔
یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی سمت واقع
ہے۔بہاولنگرسٹی اس ضلع کا صدرمقام ہے ۔اس
کی پانچ تحصیلیں، بہاولنگر، چشتیاں، ہارون آباد، فورٹ عباس اور منچن آباد ہیں۔اس
میں کل یونین کونسل 118ہیں ۔یہ صوبے کے دارالحکومت لاہور سے جانب جنوب
262کلومیٹر،بہاولپورشہرسے جانبِ مشرق 175کلومیٹرفاصلے پر ہے۔دریائے ستلج
بہاولنگرشہرسے جانب شمال 6کلومیڑ پر واقع ہے۔اس
ضلع کی کل آبادی 22لاکھ 33ہزارسے زیادہ ہے جبکہ رقبہ
17لاکھ 52ہزار81،ایکڑزبتایاجاتاہے ۔ اس کے شمالی علاقے مٹوالہ (Mut Wala)سے جنوبی علاقے مروٹ (Marot)تک کل فاصلہ 222کلومیٹر ہے یہاں زیادہ
ترلوگ زراعت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ۔تجارت اورملازمت بھی اہم پیشوں سے ہیں
۔یہاں پیداہونے والی اجناس میں چاول، گندم،کپاس اورچنے شامل ہیں
،یہاں تین قسم کے چاول ہرپکی،باسمتی اورسیلا کی فیکٹریاں ہیں۔کپاس بھی اس ضلع کی اہم اوربہترین فصل ہے
جوبیرون ملک بھیجی جاتی ہے۔ضلع کا اکثرحصہ تو زرعی زمین پر مشتمل ہے مگرتحصیل
فورٹ عباس کا اکثرحصہ صحرائے چولستان میں شمارکیا جاتاہے۔
بہاولنگرشہرمیں دعوت اسلامی کے کام کا آغاز:
بہاولنگر شہر کے ایک اسلامی بھائی
محمد مظفر عطاری کراچی میں ایک دُکان میں کام کرتے تھے۔ وہ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے غالباً 1982ء میں وابستہ ہوگئے اور پھریہ بہاولنگر واپس تشریف لے آئے ۔ انھوں نے
بہاولنگرکی علامہ سیّد سردار شاہ صاحب
والی مسجد میں درس دیناشروع کیا۔ان کی انفرادی کوشش سے کچھ اسلامی بھائی دعوتِ اسلامی سے
منسلک ہوگئے۔1985ء میں دعوت اسلامی کا
سالانہ اجتماع ککری گراؤنڈ کھارادرکراچی میں ہوا تو ان کے ساتھ آٹھ اسلامی بھائی
اجتماع میں گئے، وہاں انھوں نے امیر اہلسنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے ملاقات کرکے بہاولنگر آنے کی دعوت دی ، امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے فرمایا کہ میرے نگران حاجی سیّد عبدالقادر شاہ صاحب سے بات کرلیں۔یہ
مبلغ ونگرانِ دعوت اسلامی حضرت الحاج سید عبدالقادر شاہ مرحوم کے پاس گئے تو
انھوں نے فرمایا کہ اگر آپ اگلے سالانہ
اجتماع کراچی میں 75 اسلامی بھائیوں کو لے آئیں تو امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ
العالیہ بہاولنگر بیان کرنے تشریف لے آئیں گے، چنانچہ انھوں نے یہ
ہدف اگلے سال1987ء میں ککری گراؤنڈ میں ہونے سالانہ اجتماع میں پورا کردیا۔1987ء میں امیر اہلسنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے کئی شہروں میں بیانات فرمائے اس
میں بہاولنگربھی تھا ۔ امیراہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ تین اسلامی بھائیوں کے ہمراہ بذریعہ ٹرین
بہاولنگر تشریف لائے، جو اس زمانے میں بہاول پور سے بہاولنگرکی جانب چلتی
تھی۔بہاولنگرکے عالمِ دین حضرت مولانا فضل الرحمن عطاری کے بھائی مولانا عبدالرحمٰن شہید امیر اہلِ سنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ کو ریلوے اسٹیشن بہاولنگر سے ریسو
کرنے کے لئے گئے اور تانگے پر بٹھا کر تقویٰ
کالونی نزدگورنمنٹ ڈگری کالج بہاولنگرمیں اپنے گھر لے آئے، مولانا فضل الرحمٰن عطاری صاحب بیان کرتے ہیں
کہ امیر اہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کےساتھ تین اوراسلامی بھائی بھی تھے ،اُن
کے سروں پر امیراہل سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی طرح زلفیں اورعمامے تھے
،مَیں نے اپنی زندگی میں کالی داڑھی ،زلفوں اورعمامے والے حضرات پہلی مرتبہ دیکھے تھے ،مجھے بہت اچھے لگے۔یہ نماز عصر تا
مغرب ہمارے گھر میں ٹھہرے ، اس وقت میری عمر 14 سال تھی۔امیر اہل سنت نےبہاولنگرکی علامہ سید سردار شاہ صاحب والی مسجد
میں بیان فرمایا۔ بہاولنگرکے قدیم اسلامی بھائی حاجی محمد یونس صاحب نے بتایاکہ
مجھے ابھی بھی یادہے کہ امیراہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ مسجد کی کھجور والی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے
،گرمیوں کے دن تھے۔امیراہل سنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے بیان میں ہزاروں اسلامی بھائیوں
نے شرکت کی ۔اس کے بعد دعوت ِ اسلامی کے دینی کاموں میں مزیداضافہ ہوا۔یہی وجہ ہےکہ
امیراہلِ سنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے 1989ء میں دوبارہ بہاولنگرسٹی میں بیان واجتماع کے لئے
وقت عطافرمایا ۔دوسری مرتبہ کا ہونے والااجتماع پہلے والے اجتماع سے بھی بڑاتھا۔اس
اجتماع کا انعقاد جامعہ رضائے مصطفی بہاولنگرکی مسجدمیں کیاگیا تھا۔یہ مسجدشرکائے اجتماع سے فل ہوگئی تھی۔
ضلع بہاولنگرکے دینی کامو ں کا ایک جائزہ :
اس وقت(اکتوبر2023ء میں ) ضلع بہاولنگرمیں ہزاروں اسلامی
بھائی دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہیں۔ اس ضلع میں اسلامی بھائیوں کے14ہفتہ
واراجتماعات ہوتے ہیں جن میں ہر ہفتے اوسطاً 2 ہزار 493اسلامی بھائی شرکت کرتے ہیں ۔٭بڑی
عمرکے اسلامی بھائیوں کو تجویدوقرآت کے ساتھ قرآن کریم پڑھانے والے مدرسۃ المدینہ بالغان کی تعداد133ہے جس میں
502،اسلامی بھائی روزانہ تعلیم قرآن حاصل کرتے ہیں۔٭بچوں اوربچیوں کےلئے
کل وقتی 43 مدرسۃ المدینہ قائم ہوچکے ہیں جن میں اساتذہ وناظمین کی تعداد91اورطلبہ
وطالبات کی تعداد2100ہے ۔٭درس نظامی (عالم کورس )کے لیے 5جامعۃ المدینہ بن چکے ہیں جن میں
اساتذہ وناظمین کی تعداد24ہے ان میں 429 طلبہ درس
نظامی یعنی عالم کورس کررہے ہیں ۔ ایک
فیضان اسلامک اسکول بھی بنایاجاچکاہے جس میں بچوں اوربچیوں کی تعداد222ہے۔٭یہاں دوفیضان آن لائن اکیڈمیزکے آغازکی تیاریاں بھی ہورہی ہیں ۔٭ضلع بہاولنگرمیں دعوت اسلامی نے جو مساجدتعمیرکی ہیں یا جن
کا انتظام وانصرام اس کے پاس ہے ان کی کل تعداد 50 ہے۔٭12 شہروں میں دعوت
اسلامی کے مدنی مراکز بنام فیضان مدینہ بھی بنائے جاچکے ہیں۔٭مجلس اثاثہ جات دعوت اسلامی کے مطابق یہاں دعوت اسلامی کے تحت مساجد،مدارس وجامعات وغیرہ عمارات اورپلاٹ کی کل تعداد 150 ہے ۔جوعمارات پایہ تکمیل تک
پہنچ چکی ہیں وہ 63، جو زیرتعمیر ہیں وہ 35 جبکہ خالی پلاٹ کی تعداد 52 ہے۔٭ضلع
بہاولنگر میں ہزاروں اسلامی بہنیں بھی دعوت اسلامی سے منسلک
ہیں۔ ٭یہاں اسلامی بہنوں کے 79ہفتہ واراجتماعات ہوتے ہیں جن میں اوسطاً 1
ہزار 783 ،اسلامی بہنیں ہرہفتے شرکت کرتی ہیں۔٭مدرسۃ المدینہ
بالغات کی تعداد68ہے جن میں بڑی عمرکی 644 اسلامی
بہنیں پڑھتی ہیں ۔
تحصیل بہاولنگر کاتعارف:
تحصیل بہاولنگرایک سٹی
اور31یونین کونسل پر مشتمل ہے۔شہر کی آبادی ایک لاکھ 61ہزارسے زیادہ ہے اور یہ
آبادی کے اعتبارسے پاکستان کا 54واں بڑاشہرہے۔اس میں ایک درجن بازار ہیں۔ مختلف
ملز، کارخانے، چڑیا گھر، پارک اورکئی نئی آبادیاں بن چکی ہیں ۔ اس میں کئی دارالعلوم اورگورنمنٹ
کالج ہیں ۔اس کا شمار پاکستان کے گرم
ترین شہروں میں ہوتاہے، گرمیوں میں اس کا
درجۂ حرارت 54 درجہ سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتاہے ۔ڈونگہ بونگہ،تخت محل، چک
مدرسہ اور ڈھاباں اس کے بڑے قصبےہیں۔تحصیل بہاولنگر میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ(5,50000) لوگ رہائش پذیرہیں جبکہ اس کا رقبہ 4لاکھ 31ہزار 867 ایکڑز بتایا جاتاہے ۔
تحصیل بہاولنگرمیں دعوتِ اسلامی کا دینی کام :
تحصیل بہاولنگر میں دو مدنی مراکز ٭فیضان مدینہ فاروق آباد بہاولنگرسٹی اور ٭مدنی
مرکز فیضان مدینہ مین روڈ ڈونگہ بونگہ قائم ہیں ۔یہاں عالم کورس کے لئے ایک جامعۃ
المدینہ فاروق آباد بہاولنگرسٹی اور حفظ
وناظرہ قرآن کریم کے لئے 12 مدارس المدینہ تعلیم قرآن میں مصروف ہیں۔
جن کے مقامات یہ ہیں :٭ذکر حبیب مسجد، گلبرک کالونی ، گلی نمبر 11، بہاولنگر سٹی٭مدنی کالونی گلی نمبر 8 بہاولنگر سٹی٭جامع مسجدچشتی ،مدینہ ٹاؤن، غالب آباد، بہاولنگر سٹی ٭محلہ فاروق آباد بہاولنگر سٹی ٭خان بابا روڈ نزد مغل ہوٹل بہاولنگر سٹی٭جامع مسجدمدینہ، مین روڈ، مدینہ ٹاؤن، بہاولنگر
سٹی٭ظفر الہی عارف آباد، پل فورڈواہ ،بہاولنگر
سٹی٭جامع مسجدنور مصطفی، نذیر کالونی، بہاولنگر سٹی٭محلہ فاروق آبادشرقی گلی نمبر
6 بہاولنگر سٹی ٭جامع
مسجدنور،نجم آباد ، چک مدرسہ تحصیل وضلع بہاولنگر ٭اڈا نور سر (Noor Sar)نزد چک مدرسہ ،تحصیل وتحصیل بہاولنگر٭مدرسۃ المدینہ چک چاویکا، تحصیل و ضلع بہاولنگر ٭مصطفے
آباد ،ر ضوان مارکیٹ ،ڈونگہ بونگہ تحصیل و
ضلع بہاولنگر ۔٭مجلس اثاثہ جات دعوت اسلامی کے مطابق یہاں
دعوت اسلامی کے تحت مساجد،مدارس المدینہ
وجامعات المدینہ وغیرہ عمارات اورپلاٹ کی
کل تعداد 58ہے ۔ جوعمارات پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہیں وہ 29،جو زیرتعمیر ہیں وہ 10 اور خالی پلاٹ
کی تعداد 19ہے ۔٭یہاں اسلامی بہنوں کے 30ہفتہ واراجتماعات ہوتے ہیں جن میں 892،اسلامی
بہنیں ہرہفتے شرکت کرتی ہیں ۔٭مدرسۃ المدینہ بالغات کی تعداد36ہے جن میں بڑی عمرکی 346 ،اسلامی بہنیں پڑھتی ہیں ۔
تحصیل چشتیاں کا تعارف :
چشتیاں (Chishtian)ضلع بہاولنگر کا قدیمی شہر ہے،
یہ بہاولنگرشہرسے جانب ِ جنوب47کلومیٹر پر واقع
ہے۔اس کی بنیادحضرت بابا فریدگنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے حضرت تاج سرورشہیدنے آج سے تقریباً سات
سوسال پہلے رکھی ۔ان کامزاربھی یہیں ہے
۔مزاروالے علاقے کو پرانی چشتیاں کہتے ہیں
، نیا شہر ایک دو کلومیٹر کے فاصلے پر 20ویں صدی عیسویں کی ابتدامیں بنایاگیا ۔نہری اور ریلوے نظام کے
بننے سے اس شہرنے بہت ترقی کی اور یہاں
غلہ منڈی وجود میں آئی ۔آبادی کے اعتبار سے یہ پاکستان کا
59واں گنجان آباد شہر ہے اس کی آبادی
تقریبا ًایک لاکھ 50ہزارکے قریب ہے ۔ یہ ضلع بہاولنگر کی ایک تحصیل ہے جس میں 29 یونین
کونسلیں ہیں ۔چشتیاں سٹی سمیت تمام یونین کونسلز کی کل آبادی سات لاکھ ہونے والی ہے جبکہ اس کا رقبہ 3 لاکھ
47 ہزار 160،ایکڑز ہے۔ ڈہرانوالہ (Dahranwala) شہر فرید،بخشن خان (Bakshan Khan)اور مہار شریف اس کے اہم قصبے ہیں۔یہ دریائے ستلج کے قریب
واقع ہے۔چشتیاں سے بہاولنگر شہر 45 کلومیٹر جانب شمال اور بہاولپور جانب جنوب 131 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔
تحصیل چشتیاں میں دعوتِ اسلامی کا
دینی کام :
چشتیاں وہ شہر ہے جس میں امیراہلِ سنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ دو مرتبہ 1989ء اور 1990ء
میں تشریف لائے۔دونوں مرتبہ چشتیاں کے تاریخی اجتماعات ہوئے جن میں ہزاروں اسلامی
بھائیوں نے شرکت کی۔اس وقت تحصیل چشتیاں میں تین مدنی
مراکز ٭ فیضان مدینہ سینٹرل پارک،فوارہ چوک، چشتیاں سٹی، ٭فیضان
مدینہ نزد psoپمپ ڈہرانوالہ اور٭فیضان مدینہ پنسوتہ چوک (Pansota Chowk)حاصل پور روڈ پر قائم ہیں ۔اس تحصیل میں عالم کورس کے لئے جامعۃ المدینہ مکی مسجد اسلام پورہ نزد پرانی
عید گاہ روڈ چشتیاں سٹی قائم ہے اور تعلیم
قرآن کے لئے 15 مدارس المدینہ ٭چیزل آباد، ہارون آباد روڈ، چشتیاں سٹی ٭مکی مسجد،
مہاجر کالونی، گلی نمبر13، چشتیاں سٹی٭فیضان مدینہ، سینٹرل پارک، فوارہ چوک، چشتیاں
سٹی٭بلال مسجد، علیمیہ چوک گلی نمبر 8، چشتیاں سٹی ٭جامع مسجدنور مصطفے، نیو گلشن
اقبال ، چشتیاں سٹی٭بلال مسجد ،گلی نمبر 2 ،بغداد کالونی چشتیاں سٹی٭جامع مسجد قبا، محبوب کالونی،چشتیاں سٹی٭جامع
مسجدانوار مدینہ، بلدیہ کالونی، چشتیاں سٹی٭تاج
مدینہ، 101 فتح تحصیل چشتیاں٭بستی گل شاہ، تحصیل چشتیا ں٭الجنت الزہرہ شوگر ملز
روڈ، بلال کوٹ،تحصیل چشتیاں٭چک نمبر 201 مراد نزد 75 موڑ ڈہرانوالہ٭مدنی کالونی،
چشتیاں روڈ ،ڈہرانوالہ شروع کئے گئے
ہیں۔یہ سب مدارس المدینہ طلبہ کے
ہیں البتہ ایک مدرسۃ المدینہ طالبات کا بھی ہے جو چشتیاں سٹی کی تاج پورہ کالونی کے اعظم چوک میں قائم
ہے۔٭مجلس اثاثہ جات دعوت اسلامی
کے مطابق یہاں دعوت اسلامی کے تحت مساجد،مدارس المدینہ وجامعات المدینہ وغیرہ عمارات
اورپلاٹ کی کل تعداد26ہے ۔جوعمارات پایہ
تکمیل تک پہنچ چکی ہیں وہ 12، جو زیرتعمیر ہیں وہ 5 ، اور خالی پلاٹ کی تعداد 9ہے ۔٭یہاں اسلامی بہنوں کے17ہفتہ
واراجتماعات ہوتے ہیں جن میں
227اسلامی بہنیں ہرہفتے شرکت کرتی ہیں ۔٭مدرسۃ
المدینہ بالغات کی تعداد19ہے جن میں بڑی
عمرکی 153،اسلامی بہنیں پڑھتی ہیں ۔
تحصیل ہارون آبادکا تعارف:
تحصیل ہارون آباد (Haroonabad) میں دو سٹی ہارون آباد ، فقیروالی اور 22 یونین کونسلیں ہیں۔یہ بہاولنگر سے جانب
جنوب 48 کلومیٹر دور ہے ۔ پہلے یہاں ایک گاؤں بدرو والا(Badru Wala)تھا پھراس علاقے میں نہری
نظام قائم ہونے کے بعد 1927ء میں یہاں غلہ منڈ ی اور دوکانیں قائم کرکے اسے ہارون آبادکانام دیا گیا۔ 1934ء میں نواب صادق محمد خان پنجم
نے یہاں عظیم الشان مسجدتعمیرکی۔1960ء میں
یہاں مزید دوکانیں اور بازار بنائے گئے۔قیام پاکستان کے وقت یہاں کی آبادی صرف سات
ہزارلوگوں پر مشتمل تھی،یہاں ہند سے آنے
والے کثیر مہاجرین آکر بس گئے۔اب اس کی آبادی 80 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔یہاں کئی فیکٹریاں، اسکولز، کالج، بہاولپور یونیورسٹی
کا ذیلی کیمپس، ہسپتال ،کورٹ وغیرہ شہری
تمام سہولیات موجودہیں ۔تحصیل ہارون آبادکی آبادی کم و بیش 3 لاکھ 75 ہزارہے جبکہ
اس کا رقبہ 2 لاکھ 89 ہزار 61،ایکڑز بتایا
جاتا ہے ۔
تحصیل ہارون آباد میں دعوتِ اسلامی کا دینی کام :
تحصیل ہارون میں دو مدنی مراکز٭فیضان مدینہ،
الہاشم کالونی، نبیل ٹاؤن، ہارون آباد اور٭فیضان مدینہ، مدینہ ٹاؤن، 119 والہ موڑ، فقیر والی میں قائم ہیں۔ان دونوں مراکز میں عالم کورس کے لئے
جامعۃ المدینہ بھی ہیں ۔اس کے علاوہ تحصیل
ہارون آبادمیں 5مدارس المدینہ قائم کئے گئے ہیں ، جن میں طلبہ تعلیم قرآن حاصل
کرتے ہیں ۔انکے مقامات یہ ہے : ٭ فیضانِ مدینہ، الہاشم کالونی، ہارون آبادسٹی٭جامع
مسجدمحبوب، مدینہ کالونی ہارون آباد سٹی٭ میلاد چوک گلشن اقبال کالونی ہارون
آباد سٹی٭چورنگی 119 والا ر وڈ، فقیر والی ٭چک نمبر 429۔119 والا روڈ، فقیر والی۔٭ہارون
آباد سٹی میں بچیوں کا بھی ایک مدرسۃ
المدینہ،الفیض کالونی،گلی نمبر1 میں قائم ہے۔٭مجلس اثاثہ جات دعوت اسلامی کے مطابق
یہاں دعوت اسلامی کے تحت مساجد، مدارس المدینہ وجامعات المدینہ وغیرہ عمارات اورپلاٹ کی کل تعداد18ہے ۔جوعمارات پایہ تکمیل تک پہنچ
چکی ہیں وہ 8،جو زیرتعمیر ہیں وہ 4 اور
خالی پلاٹ کی تعداد 6ہے۔٭یہاں اسلامی بہنوں کے 9 ہفتہ وار اجتماعات ہوتے ہیں جن میں 152اسلامی بہنیں ہرہفتے شرکت کرتی ہیں ۔٭مدرسۃ
المدینہ بالغات کی تعداد1ہے جن میں بڑی
عمرکی 18 اسلامی بہنیں پڑھتی ہیں ۔
تحصیل منچن آباد کا تعارف:
تحصیل منچن آباد(Minchinabad)میں تین سٹی منچن
آباد،میکلوڈ گنج، منڈی صادق گنج اور 20 یونین کونسلز شامل ہیں ۔یہ بہاولنگر سے
جانب شمال 37 کلومیٹر فاصلے پر ہے ۔ سٹی منچن آباد کی بنیاد1867ء میں رکھی گئی ۔یہ
نہرفور ڈواہ(fordwah canal) کے کنارے واقع ہے ۔اس میں دو مین بازا راور چار دروازے
جنوب میں بیکانیری دروازہ، شمال
میں لاہوری دروازہ، مغرب میں بہاولپوری دروازہ اورمشرق میں دہلی دروازہ
تعمیرکیاگیا ۔1919ء میں یہ ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا اس میں کئی دفاتر، ڈاکخانہ، ریلوے
اسٹیشن اور ٹیلی گرام آفس موجودتھے ۔ سٹی منچن آبادکی آبادی 35 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے جبکہ
تحصیل منچن آبادکی آبادی تقریباً 3
لاکھ 50 ہزار ہے اور رقبہ 4 لاکھ 29 ہزار 880،ایکڑزبتایاجاتاہے ۔
تحصیل منچن آباد میں دعوتِ اسلامی کا دینی کام :
تحصیل منچن آباد میں تین
مدنی مراکز٭فیضان مدینہ محلہ اسماعیل آباد،نزد
پرانی سبزی منڈی، حویلی لکھا روڈ منچن آباد ٭فیضان مدینہ نزد ریلوے پھاٹک منڈی، باڈر موڑ صادق گنج اور٭فیضان
مدینہ نزدہائی اسکول میکلوڈ گنج قائم ہیں۔ان تینوں مدنی مراکز میں طلبہ کو
تعلیم قرآن سے آراستہ کرنے کے لئے مدارس
المدینہ موجود ہیں ،اس کے علاوہ مدرسۃ المدینہ غفاریہ میکلوڈ گنج میں مقیم وغیرمقیم دونوں قسم کے طلبہ تعلیم قرآن
میں مصروف ہیں ۔ ٭مجلس اثاثہ جات دعوت
اسلامی کے مطابق یہاں دعوت اسلامی کے تحت مساجد،مدارس المدینہ وجامعات المدینہ وغیرہ عمارات اورپلاٹ کی کل تعداد34ہے، جوعمارات پایہ تکمیل تک پہنچ
چکی ہیں وہ 11، جو زیرتعمیر ہیں وہ 12، اور خالی پلاٹ کی تعداد 11ہے ۔٭یہاں اسلامی بہنوں کے 11ہفتہ واراجتماعات ہوتے ہیں جن میں 282اسلامی بہنیں ہرہفتے شرکت کرتی ہیں ۔٭مدرسۃ
المدینہ بالغات کی تعداد6ہے جن میں بڑی
عمرکی 74اسلامی بہنیں پڑھتی ہیں ۔
تحصیل فورٹ عباس کا تعارف :
تحصیل فورٹ عباس(Fort Abbas)دو قصبوں کچھی
والا،مروٹ اور 16 یونین کونسل پر مشتمل ہے
جو بہاولنگر شہر سے جانب
جنوب 105کلومیڑکے فاصلے پر واقع ہے
۔ہارون آباد روڈ اسے بہاولنگرسے ملاتی ہے ۔فورٹ عباس سٹی قدیم دریا ہاکڑہ کے کنارے آبادہوا۔سلطان محمودغزنوی نے یہاں قلعہ پھولڑہ تعمیرکروایا ،شہرکی قدیم آبادی اسی قلعےکے اردگردتھی۔1904ء میں
دریائے ہاکڑہ کے بائیں جانب کالونی تعمیرکی گئی تو یہ شہر ترقی کرنے لگا۔نہری نظام
کے قائم ہونے سے اس کی آبادی میں اضافہ ہوا۔1927ء میں یہاں اجناس کی منڈی بنائی
گئی ۔اس کے بعد یہاں تھانہ،ہسپتال ،اسکولز اور کالج وغیرہ بنتے چلے گئے ۔اب اس شہر
کی آبادی 47ہزارہے ۔ فورٹ عباس سے تین میل جانب مغرب چولستان کا وسیع ریگستان شروع
ہوجاتا ہے۔کچھی والا اور مروٹ اس کے اہم قصبے ہیں۔تحصیل فورٹ عباس کی کل آبادی 3 لاکھ کے قریب ہے، جبکہ اس کا رقبہ 2 لاکھ
54 ہزار 113، ایکڑز بتایا جاتا ہے ۔
تحصیل فورٹ عباس میں دعوتِ اسلامی کا دینی کام :
تحصیل فورٹ عباس میں دو مدنی مراکز ٭ فیضان مدینہ طفیل ٹاؤن نزدلاری اڈا فورٹ عباس اور٭فیضان مدینہ سیٹلائٹ ٹاؤن یز مان روڈ مروٹ قائم ہیں ۔ اول الذکرمیں جامعۃ المدینہ اورمدرسۃ المدینہ اورثانی الذکر میں مدرسۃ المدینہ قائم کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ٭ مدرسۃ المدینہ
اشرف کالونی کھچی والا ٭مدرسۃ المدینہ چک نمبر 6/230 اور٭ مدرسۃ المدینہ چک نمبر 6r/230 اڈا شہباز والا فیضان
قرآن کو عام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔٭مجلس اثاثہ جات کے مطابق یہاں دعوت اسلامی کے تحت مساجد،مدارس المدینہ وجامعات المدینہ وغیرہ عمارات اورپلاٹ کی کل تعداد14ہے۔جوعمارات پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہیں وہ 3، جو زیر
تعمیر ہیں وہ 4 اور خالی پلاٹ کی تعداد 7 ہے۔٭یہاں اسلامی بہنوں کے 12ہفتہ واراجتماعات ہوتے ہیں جن میں 230اسلامی بہنیں ہرہفتے شرکت کرتی ہیں۔ ٭مدرسۃ
المدینہ بالغات کی تعداد6ہے جن میں بڑی
عمرکی 53 اسلامی بہنیں پڑھتی ہیں ۔
تحریر: محمد آصف
اقبال مدنی
خانہ کعبہ کا ہر حصہ ہر گوشہ لاتعداد برکات و فضائل
کا منبع ومرکز ہے، انوار وتجلیات ہمہ وقت اس پر برستے رہتے ہیں، خوش نصیب زائرینِ
بیت اللہ ان فیوض و برکات سے خوب مستفیض ہوتے ہیں، اپنے
دامن کودینی ودنیاوی فوائد وثمرات سے بھرتے ہیں اور اپنے جسمانی و روحانی سکون و راحت کا بھرپور سامان کرتے
ہیں۔اس مختصر تحریر میں بیت اللہ شریف کے صرف ایک کونے "رکنِ یمانی" کا
تذکرۂ خیر کرتے ہیں۔
٭رکنِ یَمانی: یہ یمن کی جانب خانہ کعبہ
کا مغربی کونہ ہے۔ (رفیق الحرمین،ص 61)
٭رکنِ یَمانی کو یہ عظمت حاصل ہے کہ یہ بنیاد ابراہیمی پر ہے۔(مراۃ
المناجیح،4/183)
٭رکنِ یمانی کی عظمت کے لئے اتنا کافی ہے کہ حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رکن یمانی کا استلام کرتے، اسے بوسہ دیتے
اور اپنا رُخسارِ پُرانوار اس پر رکھ دیتے تھے۔(المستدرک، 2/107، حدیث:1718، 1719)
٭رکنِ یَمانی کی یُمن و برکت سے ہے کہ یہ خطاؤں
کو مٹاتا ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حجر اسود
اور رکنِ یَمانی دونوں خطاؤں کو مٹاتے ہیں۔ (تر مذی ،2/285،رقم:961)
٭یہاں آنسو بہانا سنت ہے اور اس رکن کا استیلام کرنا روز محشر کام
آئے گا۔ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حجرِ اسود
اور رکنِ یمانی دونوں قيامت کے دن اٹھائے جائيں گے تو ان کی دو آنکھيں ، ایک زبان
اور دو ہونٹ ہوں گے، جس نے ان کا صحيح طريقے سے استلام کياہو گا يہ اس کے حق ميں
گواہی ديں گے۔(معجم کبیر،11/146،
حدیث:11432)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں
کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حجرِ اسود کے پاس تشریف لائے پھر اس پر اپنے مبارک ہونٹ رکھ کر دیر تک روتے
رہے، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ملاحظہ فرمایاکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی
رورہے ہیں توآپ نے ارشاد فرمایا : اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں آنسو بہانے چاہییں ۔
٭اس کا عظیم وفضیلت والا ہونا یوں بھی عیاں ہے
کہ یہ جنتی یاقوت ہے۔ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رکنِ
یمانی اور مقامِ ابراہيم جنت کے ياقوتوں میں سے دو ياقوت ہيں، اور يہ کہ اللہ پاک نے
ان کا نور بجھا ديا اگر ايسا نہ ہوتا تو مشرق و مغرب ہر شے روشن ہو جاتی۔ (صحیح
ابن حبان،6/10، حدیث:3702)
٭مولائے کریم اس رکنِ عظیم کی زیارتِ عمیم سے
نوازے، وہاں بخشش و عافیت مانگنے کا موقع بہت بڑی سعادت ہے۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رکنِ يمانی پر 70,000 فرشتے مؤکل ہيں،جوبھی
يہ دعا مانگتا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِيَۃَ فِی الدِّين
وَ الدُّنْيا رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ
حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (یعنی اے اللہ پاک ! میں تجھ سے دين و دنيا میں بخشش اور
عافيت کا سوال کرتا ہوں، اے ہمارے رب!ہميں دنيا و آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہميں جہنم کے عذاب سے بچا) تووہ فرشتے اس کی دعا پر آمین کہتے ہيں۔ (سنن ابن ماجۃ، 3، ص 439، حدیث:2957)
٭اس عالی شان مقام پر کی جانے والی خاص دعا
پر آمین کہنے کو خاص فرشتہ مقرر ہے۔ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے زمین وآسمان کی پیدائش کے وقت سے رکْنِ
یمانی پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے۔ جب تم وہاں سے گزرو تو یہ دعاکیاکرو کیونکہ
وہ فرشتہ اٰمین کہتا ہے: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِی
الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ
النَّار یعنی اے ہمارے رب! ہمیں
دنیا میں بھی بھلائی عطافرمااورآخرت میں بھی بھلائی عطا فرمااور ہمیں آگ کے عذاب
سے بچا۔ (حلیۃ الاولیا،5/ 95،
حدیث:6457)
٭رکن یمانی پر فرشتوں کی کثرت کی گواہی ان کے
سردار جبریل امین علیہ
السلام نے بھی دی ہے۔ ایک بار حضرت جبریل علیہ السلام بارگاہ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں یوں
حاضر ہوئے کہ انہوں نے سبز رنگ کا عمامہ شریف باندھا ہوا تھا جس پر کچھ غبار تھا۔
رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پوچھا: آپ کے عمامے پر غبار کیسا ہے؟ حضرت
جبریلِ امین علیہ
السلام نے عرض کی: میں کعبۃ اللہ کی زیارت کو حاضر ہوا تھاتو رکنِ یمانی پر
فرشتوں کا اِزدِحام تھا یہ ان کے پروں سے اڑنے والا غبار ہے۔ (اخبار مکہ للازرقی،ج1،
ص35۔ الحبائک
فی اخبار الملائک ، ص186)