نیک اعمال کی توفیق ملنا اللہ کا بہت بڑا کرم ہوتا ہے، نبی کرم ﷺ سے نیکی کے متعلق سوال کیا گیا کہ نیکی کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مضمون ہے کہ حسن اخلاق نیکی ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے کہ وہ کام کرنے سے اگر دل مطمئن ہے تو یہ نیکی ہے۔ نیکی کی اگر توفیق مل جائے تو ہمیں ایسے کاموں سے بچنا بھی ضروری ہے کہ جو نیک اعمال کو اکارت کر دیں جیسے کہ مشہور مقولہ ہے ”نیکی کر دریا میں ڈال“ یعنی اگر ہم نے کوئی نیک کام کر لیا تو اسے محض رب کا فضل سمجھنا چاہئے، فخر و غرور میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے اگر ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے دی تو ہمیں نیک اعمال میں استقامت کی دعا کرنی چاہیے، لوگ نیک اعمال کرتے ہی نہیں اگر کر بھی لیں تو ریا کاری کی نظر کر دیتے ہیں۔

عمل کا ہو جذبہ عطایا الہی مجھے نیک انساں بنا یا الہی

نیک اعمال کو برباد کرنے والے بہت سے اعمال ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-(البقرۃ: 264) ترجمہ: اے ایمان والو! جس پر خرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب برباد نہ کرو۔اس آیت سے ہمیں یہ باتیں معلوم ہوئیں؛

1)ریا کاری سے مال کا ثواب باطل ہو جاتا ہے۔

2)فقیر پر احسان جتلانا اور اسے ایذا دینا ممنوع ہے یہ بھی ثواب باطل کر دیتا ہے۔

3)کافر کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں۔

2۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران: 130) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کا میابی مل جائے۔سود قطعی حرام ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے، سود نیک اعمال کو برباد کر دیتا ہے۔ حضرت جابر سے مروی ہے حضور سید المرسلین ﷺ نے سود کھانے اور کھلانے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب اس گناہ میں شامل ہیں۔(89 آیات قرآنی)

3۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ 5، النساء: 29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔ سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے، اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مارنا، کسی کا مال وصول کرلینا یہ سب برے اعمال ہیں۔

4۔قرآن مجید میں ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

زنا کبیرہ گناہوں سے ہے۔

5۔اس طرح قرآن مجید میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) (پ 22، الاحزاب: 70) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈروا در سیدھی بات کہو۔ تفسیر صراط الجنان میں ہے: سچی اور درست بات کہنی چاہیے اللہ تم پر کرم فرمائے گا تمہارے اعمال سنوارے گا اگر اس کے بر عکس معاملہ ہوا تو اعمال کے ضائع ہونے کا سبب ہو سکتا ہے۔(89 آیات قرآنی)

اللہ پاک سے دعا ہےکہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی تو فیق دے، کیونکہ بسا اوقات نیکی کی توفیق تو مل جاتی ہے مگر بد قسمتی سے وہ ریا کی نظر ہو جاتی ہے یا پھر نیکی کی توفیق ہی نہیں ملتی، نیکیاں کرنا آسان لیکن گناہ سے بچنا مشکل ہے اور ا فضل عمل گناہ سے بچنا ہے، اللہ پاک ہمیں نیکیاں کرنے اور گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


جس طرح نیک اعمال کرنا ضروری ہے اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ان کی حفاظت کرنا لازم ہے، کیونکہ انسان بڑی کوششوں کے بعد اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ کر کے نیک اعمال کرتا ہے، ذرا سی بے احتیاطی سے یہ برباد بھی ہو سکتے ہیں، لہٰذا ایک مسلمان کی اولین کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جس کی وجہ سے اس کی محنت و مشقت بے کار ہو جائے، جس طرح نیک اعمال کرنے سے ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے، اسی طرح بعض اعمال ایسے ہیں جن کے کرنے سے انسان کے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں جس کا ثبوت قرآن پاک کی آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے، قرآن پاک میں اعمال کے برباد کرنے کے لیے حبط عمل کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، یہاں ہم 5 ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں جو نیک اعمال کو برباد کر دیتے ہیں تاکہ لوگ ان سے بچیں اور اپنے اعمال کو برباد ہونے سے بچائیں، جن کا تذکرہ آیات قرآنیہ میں ہے؛

1۔کفر و شرک:چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْؕ-هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠(۱۴۷) (پ 9، الاعراف: 147) ترجمہ کنز العرفان: اور جنہوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے تمام اعمال برباد ہوئے انہیں ان کے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔

2۔مرتد ہونا: چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ٘-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۠(۵) (پ 6، المائدۃ: 5) ترجمہ کنز العرفان: اور جو ایمان سے پھر کر کافر ہوجائے تو اس کا ہر عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا۔

3۔نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں آواز بلند کرنا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

4۔صدقہ دے کر احسان جتانا اور تکلیف پہنچانا: چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-(البقرۃ: 264) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کر دو۔

5۔ نیک اعمال کے ذریعے دنیا طلب کرنا: مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۶) (ہود: 15-16) ترجمہ کنز العرفان: جو دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہو تو ہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہو گیا اور ان کے اعمال باطل ہیں۔


انسان اللہ پاک کی تخلیق کا شہکار ہے اور یہ تخلیق عبث و بیکار نہیں ہے، جیسا کہ آیت مبارکہ ہے: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) (المؤمنون:115) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔ بلکہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) (الذٰریٰت:56) ترجمہ کنز الایمان: اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں۔ چونکہ مقصدِ تخلیق عبادتِ الٰہی ہے اور یہ عبادت اللہ پاک کے اوامر و نواہی کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے کہ جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لایا جائے اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہا جائے۔ ممنوع اعمال میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کا ارتکاب اعمال حسنہ کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ ان میں سے 5 کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

1۔ بارگاہ رسالت میں آواز بلند کرنا بھی بربادیِ اعمال کی ایک وجہ ہے جس کو اللہ پاک نے سورۃ الحجرات میں بیان فرمایا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسا ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ صراط الجنان میں ہے:بارگاہ رسالت میں ایسی آواز بلند کرنا منع ہے جو آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے برخلاف ہے اور بے ادبی کے زمرے میں داخل ہے اور اگر اس سے بے ادبی اور تو ہین کی نیت ہو تو یہ کفر ہے۔(صراط الجنان، 9/404)

2۔انہیں اعمال میں سے ایک غیبت ہے جو کہ نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں غیبت کرنے والے کی نیکیاں جس کی غیبت کی گئی اس کے نامۂ اعمال میں داخل کی جائیں گی، جیسا کہ سورہ حجرات میں ہے: وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں امام غزالی کا قول نقل ہے: جس کی غیبت کی وہ مر گیا یا غائب ہو گیا اس سے کیونکر معافی مانگے، یہ معاملہ بہت دشوار ہو گیا اس کو چاہیے کہ نیک کام کی کثرت کرے تاکہ اگر اس کی نیکیاں غیبت کے بدلے میں اسے دے دی جائیں تو اس کے پاس نیکیاں باقی رہ جائیں۔ (صراط الجنان، 9/443)

3۔اعمال کو برباد کرنے والا ایک عمل احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر صدقات کا ثواب باطل کرنا بھی ہے جس کی تصدیق اس آیت مبارکہ سے بھی ہوتی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ- (البقرۃ: 264) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کرو۔

4۔چوتھا عمل شرک ہے جو نیک اعمال کو برباد کرنے والے اعمال میں سے سب سے زیادہ برا اور خطرناک ہے۔ یہ ایسا گناہ ہے جو سب اعمال حسنہ کو کھا جاتا ہے اور اس کی بخشش نہیں، جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ- (النساء: 48) ترجمہ کنز الایمان: بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔

5۔ ان میں سے سے ایک حسد بھی ہے جو نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو کھا کر راکھ بنا دیتی ہے، جیسا کہ ابو داؤد شریف کی حدیث ہے: اِيَّاكُمْ وَالْحَسَد فَاِنَّ الْحَسَدَ يَاْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَاْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ترجمہ: حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ (ابو داود، 4/360، حدیث: 4903)


ایک مسلمان کے دل میں نیکیاں کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے، لیکن نیکیوں کے اس جذبہ کے ساتھ کچھ ایسے افعال بھی اس سے سرزد ہو رہے ہوتے ہیں جو اس کے نیک اعمال کو برباد کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ہماری اس کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔یہاں چند ایسے اعمال بیان کئے جائیں گے جو ہمارے نیک اعمال کو بربا د کر دیتے ہیں، چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-(البقرۃ: 264) اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف دے کر اپنے صدقات باطل نہ کرو۔ صدقہ کرنا اچھا عمل ہے لیکن اگر اس کے ساتھ سامنے والے پر احسان جتایا جائے یا بار بار اس کو یاد دلا کر تکلیف دی جائے تو صدقہ باطل ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ حدیث مبارکہ میں حسد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: حسد سے دور رہو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔ (ابو داود، 4/360، حدیث: 4903)

اس کے علاوہ حُبِّ مدح (یعنی لوگوں کی طرف سے کسی عمل پر کی جانے والی تعریف) کی تمنا بھی ایسا عمل ہے جو نیک عمل کو برباد کر دیتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: اللہ پاک کی عبادت کو لوگوں کی زبانوں سے اپنی تعریف پسند کرنے کے ساتھ ملانے سے بچو ایسا نہ ہو کہ تمہارے عمل برباد ہوجائیں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات) یقینا اللہ پاک کی عبادت کو لوگوں کی حقیر تعریف کے بدلے ضائع کرنا بے وقوفی ہے۔ اللہ پاک ہمیں حب مدح سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس کے علاوہ طلبِ شہرت کے لیے عمل کر نا بھی ہمارے نیک اعمال کو برباد کر دیتا ہے، حدیث مبارکہ میں ہے:جو شہرت کے لیے عمل کرے گا اللہ اسے رسوا کرے گا جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات)

نفسانی خواہشات کی پیروی بھی انسان کو بربادی عمل کی طرف لے جاتی ہے، حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ تین چیزیں ہلاکت میں ڈال دیتی ہیں: حرص و طمع، نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا، اپنے آپ پر فخر کرنا۔

اللہ پاک ہمیں ان اعمال سے بچ کر نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


1۔ مہنگائی کی تمنا کرنا: سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا:جو میری امت پر ایک رات مہنگائی ہونے کی تمنا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے 40 سال کے نیک اعمال کو برباد کر دے گا۔(کنز العمال، 40/204، حدیث: 9717) حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: ظاہر یہ ہے کہ اس فرمان عالیشان کا مقصود اس کام سے نفرت دلانا اور اس سےڈرانا ہے حقیقت میں اعمال کا ضائع ہونا مراد نہیں۔(فیض القدیر، تحت الحدیث:8604)

2۔ عجب و خود پسندی: خاتم المرسلین ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: خود پسندی 70 سال کے اعمال کو برباد کر دیتی ہے۔(جامع صغیر، ص 127، حدیث: 2074) حضرت علامہ مولانا عبد الرؤف مناوی اس حدیث پاک کے تحت تحریر فرماتے ہیں: 70 سال سے مراد کثیر عرصہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خود پسندی کا شکار شخص اپنے عمل کو زیادہ اور اچھا سمجھتا ہے اور اس کی طرح ہو جاتا ہے جسے نظر لگ جائے اور وہ ہلاک ہو جائے، اسی لیے دانا کا قول ہے کہ خود پسندی عمل کو نظر لگنے کا نام ہے۔ خود پسندی کی ایک تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ نعمت کو بڑا سمجھنا لیکن اس کی نسبت نعمت دینے والے کی طرف نہ کرنا۔(فیض القدیر، 2/475، تحت الحدیث: 2074)

3۔ بے صبری: سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے مصیبت کے وقت ہاتھ مارا اس کا عمل ضائع ہوا۔(بحر الفوائد، ص 163) اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد شیخ ابو بکر ابراہیم بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: عمل کے ضائع ہونے سے عمل کا ثواب ضائع ہونا مراد ہے اسی طرح مصیبت میں صبر کرنے کا ثواب ضائع ہونا مراد ہے، مصیبت کے وقت ہاتھ مارنا بے برداشت ہونا ہے اور جس نے مصیبت کو برداشت نہ کیا وہ ثواب کا مستحق نہ ہوگا اور بے صبری مصیبت پر ملنے والے ثواب کو ختم کر دیتی ہے، جس کے عمل کا ثواب ضائع ہو جائے تو اس کا عمل بھی ضائع ہو جاتا ہے۔(بحر الفوائد، ص 163)

4۔ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا: صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا مکروہ ہے مسجد میں کلام کرنا نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی ہے، یہ جائز کلام کے متعلق ہے نا جائز کلام کا کیا پوچھنا۔(بہار شریعت، 3/499) بزرگان دین مسجد میں مباح یعنی جائز دنیوی بات چیت بھی نہیں کیا کرتے تھے، حضرت خلف بن ایوب رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ مسجد میں موجود تھے کسی نے ان سے کوئی بات پوچھی تو پہلے انہوں نے اپنا سر مسجد سے باہر نکالا پھر اس کی بات کا جواب دیا۔(فیض القدیر، 6/349، تحت الحدیث: 9253)

5۔ غیبت: غیبت بھی ان گناہوں میں سے ہے جن کی وجہ سے نیکیاں ضائع ہوتی ہیں۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: غیبت نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو۔(شرح ابن بطال، 9/245)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں: آگ بھی خشک لکڑیوں کو اتنی جلدی نہیں جلاتی جتنی جلدی غیبت بندے کی نیکیوں کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔(احیاء علوم الدین، 3/183)

رسول بے مثال ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک قیامت کے روز انسان کے پاس اس کا کھلا ہوا نامۂ اعمال لایا جائے گا وہ کہے گا: میں نے جو فلاں فلاں نیکیاں کی تھیں وہ کہاں گئیں؟ کہا جائے گا تو نے جو غیبتیں کی تھیں اس وجہ سے مٹا دی گئیں۔(الترغیب و الترہیب، 3/332،حدیث: 30)


لائبریری لاطینی زبان ”لائبر“ سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہے کتاب، سادہ الفاظ میں یوں سمجھیے کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں معلوماتی مواد کا کثیر مجموعہ ہو، جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں کا مجموعہ ہو، جہاں سے ہم اپنے علم کی پیاس بجھا سکیں۔ عربی میں اس کے لیے مکتبہ، خزانۃ الکتب اور دار الکتب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

جس جگہ یا گھر ہم رہتے ہیں ہم وہاں ضرورت کی ہر چیز مہیا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اسی طرح دینی لائبریری ہمارے دین کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے، جب دین کی معلومات ہمیں گھر سے ہی میسر ہو جائے گی تو پھر ہم دین سے سیر ہو کر گھر سے نکلیں گے۔ علم کا چراغ لے کر نکلیں گے تو روشنی چار سو پھیلے گی، اس لیے اس پر فتن دور میں ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے دینی سرمایہ کاری یعنی لائبریری کی ضرورت ہے۔ آئیں اب اس کی اہمیت و ضرورت کو مختلف نکات سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اہمیت: لائبریری علم و فکر اور تعلیم و تعلم کا مظہر اور مرکز ہے۔کتب جہالت سے علم اور ظلمت سے نور کی طرف لے جانے والی ہیں، کسی بھی قوم کو کسی بھی میدان میں اپنے علمی تجربات سے پہلے نظریات، اصول اور آئیڈیاز جاننے کی ضرورت ہوتی ہے جن کی ترویج و اشاعت لائبریریز کرتی ہیں۔

لائبریری کی اہمیت و افادیت کو ہر مہذب قوم تسلیم کرتی ہیں، اہلِ علم کسی ملک میں پائی جانے والی لائبریریز کو اس ملک کی ثقافتی تعلیمی اور صنعتی ترقی کا راز سمجھنے کے ساتھ ساتھ قومی ورثہ بھی قرار دیتے ہیں، اگر کسی قوم کی ترقی کو دیکھنا ہو تو وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھ لیا جائے، لائبریریز جتنی مضبوط ہوں گی تعلیم اتنی اعلیٰ ہوگی، اسی طرح جس گھر میں لائبریری ہوگی اس گھر سے علم، ادب، تہذیب، شائستگی، پاکیزگی کی خوشبوئیں پورے محلے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوں گی۔

ضرورت: کتاب کی ضرورت و اہمیت سے کسی بھی ذی شعور کہاں و انکار نہیں، کتاب پڑھنے سے جہاں ذہن کھلتا ہے وہیں یہ کتاب زندگی کے نشیب و فراز میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، کتابیں تنہائی کی بہترین ساتھی ہیں جس طرح اچھے لفظ مرہم کا اور برے الفاظ زخم کا جادو رکھتے ہیں اسی طرح اچھی کتابیں ہمیں نکھارنے کا اور بری کتابیں ہماری ذہنیت کو گرانے کا جادو رکھتی ہیں، اس لیے گھر میں لائبریری کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں پر ایک سوال ہمارے ذہنوں میں آتا ہے کہ جب جدید ٹیکنالوجی نے ہمارے لیے ہر چیز کو آسان کر دیا انگلی کے کلک کی دیری ہے سرچنگ کے آسان آپشن پر ہر طرح کی کتاب موجود ہے تو پھر گھروں میں لائبریری کی کیوں ضرورت ہے؟ تو یاد رہے! جہاں کتاب اور استاد کی تعلیمی ادارے کو سخت ضرورت ہوتی ہے وہیں لائبریری کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ ٹیبلیٹ یا موبائل سے پڑھنے کی نسبت کتاب سے پڑھی گئی تحریر جلد سمجھ آجاتی ہے اور یاد بھی دیر تک رہتی ہے، ماہر نفسیات کے مطابق جب ہم کوئی چیز پڑھتے ہیں تو ہمارا ذہن متواتر اس کا موازنہ کرتا ہے اور اسی کے مطابق نقوش کھینچ لیتا ہے جو کہ مستقبل کے لیے ہمیں یاد رہتا ہے بنسبت اسکرین کے پڑھنے سے کتاب سے پڑھنے والے الفاظ کی نقشہ سازی نہایت واضح ہوتی ہے اسی وجہ سے اسکرین پر ریڈنگ کی نسبت کتب کی ریڈنگ اپنا مضبوط وجود رکھتی ہے اسی لیے دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کے با وجود ترقی یافتہ ممالک میں لائبریریز کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔

افادیت: دنیا میں کون سے ایسے والدین ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد دینی و دنیوی معلومات میں آگے بڑھیں یقینا ایسا کوئی نہیں تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اپنا زیادہ سے زیادہ وقت تعلیمی سرگرمیوں میں گزارے، اس خواہش کی تکمیل کےلیے گھر میں ایک پرسکون و دلکش اور خوبصورت لائبریری کا ہونا بہت مفید ہے جس میں دینی اور دنیوی معلومات ہو جو اخلاقی مواد پر مشتمل ہو ایسی معتبر کتابیں اس میں موجود ہوں جو غیر اخلاقی مواد سے پاک ہوں، گھر میں لائبریری بچوں کی ذہنی نشو و نما اور استعداد میں اضافہ کرنے کا باعث بنتی ہے، کم عمری میں کتب سے آشنائی ہو جائے تو طویل مدتی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں، گھر میں لائبریری کا اثر ایسا ہے جیسے بچوں نے کئی سال کی اضافی تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔ جو بچے گھریلو لائبریری میں پلے بڑھے ہوں ان کا علم اپنے ہم عمر بچوں سے زیادہ ہوتا ہے، گھر میں لائبریری سے بچوں میں علم سے دوستی اور سیکھنے کا رجحان پروان چڑھتا ہے، گھر میں لائبریری ہماری ذہنی و فکری نشو و نما کے ساتھ ساتھ ہمیں بری صحبت سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔کسی دانشور نے کہا تھا کہ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو زندہ لوگوں کا قبرستا ن ہے۔

وہ والدین جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو گھر کی لائبریری کے خاطر خواہ فوائد پہنچیں وہ گھر میں زیادہ سے زیادہ کتابیں رکھیں۔

المدینہ لائبریری اور امیر اہلسنت: محترم قارئین! شیخ طریقت امیر اہل سنت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: دینی کتب کا مطالعہ اپنی عادت بنا لیجیے ان شاء اللہ آپ کی نسلوں کو فائدہ ہوگا۔


لائبریری لاطینی زبان کا لفظ ہے جو ”لائبر“ سے بنا ہے اس کا معنیٰ ہے کتاب، مطلب یہ کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جاتا ہے۔اردو اور فارسی میں اس کے لیے کتب خانہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہےجبکہ عربی زبان میں مکتبہ، خزانۃ الکتب اور دار الکتب کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔دراصل لائبریری وہ عظیم مقام ہے جہاں کئی سالوں کا فکری اور علمی خزانہ اور سینکڑوں اہلِ علم و دانش کی عرق ریزیوں (کاوشوں) کا ثمرہ جمع ہوتا ہے۔

لائبریری کی اہمیت و ضرورت: لائبریری علم و فکر اور تعلیم و تعلم کا مظہر اور مرکز ہے۔ لائبریری کی اہمیت و افادیت کو قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو اس ملک کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں اور اگر تعلیمی اداروں کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو وہاں کی لائبریریز کا جائزہ لیا جائے۔ جہاں لائبریری آباد ہوں گی وہاں کے تعلیمی ادارے اتنے ہی فعال و سرگرم ہوں گے، جس کا لازمی نتیجہ ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کا حصول ہے، کتاب کی ضرورت و اہمیت سے کسی بھی عقلمند اور ذی شعور کو انکار نہیں، کتاب پڑھنے سے جہاں ذہن کو وسعت ملتی ہے وہیں فکر و خیال بھی نکھرتے ہیں اور یہی کتاب زندگی کے نشیب و فراز کی بہترین معاون ہوتی ہے، مگر یہ سب کتابیں مہذب اور دینی ہوں غیر معیاری اور فحش مواد پر مشتمل نہ ہوں۔

گھر میں لائبریری کی افادیت:دنیا میں تمام والدین کی ہی یہ خواہش ہے کہ ان کے بچوں کا زیادہ سے زیادہ وقت علمی سرگرمیوں میں گزرے اس خواہش کی تکمیل کے لیے گھر میں دلکش و خوبصورت اور پر سکون لائبریری کا ہونا انتہائی ضروری ہے، گھر میں موجود لائبریری بچوں کی علمی و فکری اور ذہنی استعداد (صلاحیت) کو بڑھانے میں بہت معاون ہے، گھر میں موجود لائبریری بچوں کی اخلاقی و نظریاتی تربیت کرنے میں بھی بہت اہمیت رکھتی ہے، گھریلو لائبریری کی وجہ سے بچوں میں سیکھنے سکھانے کا شوق بڑھتا ہے اور مطالعہ کا ذوق پروان چڑھتا ہے، کم عمری میں کتابوں سے دوستی ہو جائے تو س کے اثرات طویل مدت تک قائم رہتے ہیں، مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ گھریلو لائبریری میں پلنے والے بچے علمی معیار میں ان بچوں سے بلند و برتر ہوتے ہیں جو گھر میں کتب بینی سے محروم ہوتے ہیں، گھر میں موجود لائبریری کا اثر ایسا ہے جیسے کئی سالوں کی اضافی تعلیم حاصل کی ہو، گھریلو لائبریری کی وجہ سے وقت کے غلط استعمال اور ضیاع سے بھی بچت ہوتی ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: دینی کتب کا مطالعہ اپنی عادت بنا لیجیے ان شاء اللہ آپ کی نسلوں کو فائدہ ہوگا۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں میں کم عمری میں شوقِ مطالعہ پیدا کرنے اور ان کی علمی و فکری تربیت کےلیے گھر میں المدینہ لائبریری بنائیں جس میں مکتبۃ المدینہ سے شائع ہونے والی کتب و رسائل سجائیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گھر ویرانے سے بدتر ہے جس میں اچھی کتابیں نہ ہوں۔یہ کتب ایسی دوست ہیں جو کبھی رنجیدہ نہیں کرتیں کبھی کچھ طلب نہیں کرتیں، ان دوستوں کی رائے ہمیشہ صائب یعنی درست، نیک اور سراسر بے غرضی پہ مبنی ہوتی ہے، ان دوستوں کی قدر کرو ان سے فائدہ اٹھاؤ اور ان کے آفتا بِ علم سے روشنی حاصل کر لو۔

منقول ہے: کتابیں ایسے بزرگوں کے مدفن ہیں جو مرنے کے بعد بھی نہیں مرتے، لہٰذا ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی علمی فکر نظریات تعلیم و تربیت کے لیے گھر میں لائبریری بنا کر استفادہ کرنا چاہیے۔ المدینہ لائبریری میں پیارے مرشد کی طرف سے ملنے والا ہر ہفتے کا رسالہ، ماہنامہ فیضان مدینہ اور بچوں کے ذوق کے مطابق مکتبۃ المدینہ سے شائع ہونے والی دیگر کتب و رسائل رکھنے چاہئیں، کیونکہ کتب خانہ وہ گلستان شاداب ہے جہاں دنیا کے کاملین و عارفین کی روحیں بقائے دوام حاصل کرنے کے بعد جمع ہیں، ان بزرگوں کی صحبت اور ان کے چراغِ علم سے دل و دماغ کو معطر و معنبر کرنے کے لیے گھر میں دینی کتب کا ذخیرہ ہونا ضروری ہے۔

اللہ پاک ہمیں شب و روز تحصیلِ علمِ دین میں مگن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔


از:مولانا شہروز علی عطاری مدنی

بخاری پارک نزد بس اڈہ الہ آباد روڈ،”سبی“، بلوچستان میں 01دسمبر 2022 بروز جمعرات بعد نمازِ عشاء ، مبلغِ دعوتِ اسلامی و رکنِ شوری حاجی ابو رجب محمد شاہد عطاری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار نیکیوں (سنتوں) بھرے اجتماع میں بیان فرمایا ۔جس میں انہوں نے نیک بننے اور گناہوں سے منہ موڑنے کی بھرپور ترغیب دلائی۔

چالیس سال پرانا تحفہ آج بھی سلامت تھا:

یوں تو رکنِ شوری حاجی ابو رجب محمد شاہد عطاری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا شیڈول 25 نومبر سے بلوچستان کے مختلف شہروں میں رہا ہے اور کئی عاشقانِ رسول سے ملاقات کی لیکن ”سبی“ شہرمیں اسماعیل نام کے ایک ایسے بزرگ اسلامی بھائی کے گھرقیام فرمایا جو محبِ دعوتِ اسلامی ہونے کےساتھ بانی ِدعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے بھی بے ح د معتقد تھے۔انہوں نے امیرِ اہلِ سنت سےمحبت سےا ٓراستہ اپنا چالیس سال پرانا ایک واقعہ بیان کیا کہ

سن 1983میں ایک اسلامی بھائی کے ساتھ امیرِ اہلِ سنت سے ملاقات کے لیے آیا ،امیرِا ہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے میری دل جوئی کے لیے عمامہ کے فضائل تحفے میں دیا ۔تو میں نے ان کی ایک فریم بنالی اور اسے چالیس سال سے محفوظ رکھا ہے۔

وہ تحفہ کیا تھا؟

وہ تحفہ علمِ دین کی معلوملات پر مشتمل ایک پمفلٹ تھا جس میں عمامے کے فضائل پر مشتمل آٹھ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تھے،ایک ایمان افروز حکایت کے ساتھ ساتھ آخر میں عمامے سے متعلق پانچ اہم مسائل بھی درج تھے۔

پھر رکنِ شوری نے امیرِ اہلِ سنت مَدَّ ظِلُّہُ العالی کے کیے گئے دم کی برکت پر مشتمل ایک واقعہ بیان کیا:

امیر اہلِ سنت کا دَم اور نوکری کی ضمانت:

ایک دفعہ امیرِ اہلِ سنت ”سبی“تشریف لائے۔ ایک امام صاحب نے آپ سے ملاقات کی اور کہا کہ حضور! یہاں کہ ادارے میں نیا افسر آیا وہ مجھے نکالنا چاہتا ہے ،آپ دعا کریں کہ میں نوکری سے نہ نکالا جاؤں ۔امیرِ اہل سنت مَدَّ ظِلُّہُ العالی نے ارشاد فرمایا :کھڑے ہو جائیں۔پھر آپ نے ان کے چاروں طرف دَم کرکے ارشاد فرمایا : جب تک تم نہ چاہو گے تب تک تمہیں کوئی نہیں نکالے گا۔اس دَم اور پاکیزہ کلمات کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ وہ اپنی ملازمت کے پچیس سال پورے کر کےریٹائر ہوئے۔

پیارے بھائیو!آج ”دعوتِ اسلامی“دینِ متین کا پیغام عام کرتی جارہی ہے اور اپنے ٹارگٹ کو پورا کرتے ہوئے دن بہ دن ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے ،ان تمام ترقیوں کا کریڈٹ امیرِ اہل سنت کو جاتا ہے۔جن کی محنت،اصلاحِ معاشرے کےجذبےاورشہر شہر،ملک ملک جا کر نیکی کی دعوت دینےاور بگڑے ہوؤں کو نیک راہ پر لانے کے جنون سےہمیں دعوتِ اسلامی نام کا ایک پھل دار اور سایہ دار درخت مل گیا۔

اللہ پاک ہمیں دعوت اسلامی کے دینی ماحول میں رہ کر دینِ متین کی خوب خوب خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ا ستاد ہونا بلاشبہ  ایک سعادت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ اسی طرح شاگرد ہونا بھی تحفۂ ربّ لم یزل ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطافر ماتا ہے۔ استاد شاگرد کو عرصۂ دراز تک ایک ساتھ ایک ادارے میں مخصوص مقاصد کے تحت رہنا ہو تا ہے اور استادو شاگرد دونوں ہی ایک مقدس رشتے کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں، لہذا ضروری ہے کہ ان کا باہمی تعلق اس نوعیت کا ہو کہ وہ ادارہ تو چھوڑ جائیں لیکن ایک دوسرے کو نہ چھوڑ سکیں، ان کا باہمی تعلق اتنا مضبوط ہو کہ وہ تاحیات ساتھ رہیں، جب بھی شاگرد کو استاد کا خیال آئے تو دل ادب و احترام سے بھر جائے، اور اس استاد کا شاگرد ہونے کو سعادت خیال کرے۔استاد کی مثال اس باغبان جیسی ہے کہ جس کے کندھے پرننھے پودوں کے مستقبل کی لہلہاوٹ منحصر ہوتی ہے، دور جدید میں استاد کی مثال اس ناخدا جیسی ہے جسے اپنی ناؤ کو ساحل پر لنگر انداز کرنا ہوتا ہے، لہذا استاد کو چاہیے کہ شاگرد کے باطن کو خصائل رذیلہ سے پاک کرکے اوصاف حمیدہ کا حامل بنانے کے لئے تمام تر سُستیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے، تاکہ وہ اپنے شاگرد کو معاشرے کا ایک مثالی فرد اور اسلام کا درخشندہ ستارہ بنا سکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ استاد و شاگرد باہم نہایت مخلص ہوں اور باہم کسی قسم کے طنز و تنقید اور مقابلے کو روا نہ رکھیں، اس کے لئے ضروری ہےکہ مندرجہ ذیل امور کو زیرِ نظر رکھیں۔

طلبا کی نفسیات سے واقفیت: ہر انسان جداگانہ فطرت کا حامل ہے، ایک ہی درجے میں موجود طلبا کی نفسیات مختلف ہوتی ہیں، بعض اوقات اساتذہ کو شکایت ہوتی ہےکہ فلاں طالبعلم کو بہت سمجھایا پیار سے بھی سمجھایا، غصے سے بھی سمجھایا، لیکن اسکی کمزوری دور نہیں ہوتی، اساتذہ شاید اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ شاگرد آپ کی بات کو اسی وقت تسلیم کرے گا کہ جب آپ اسے اس کی نفسیات کے مطابق سمجھائیں گے۔لہذا اساتذہ غور کریں کہ انہوں نے طلبا کو سمجھایا یا شرمندہ کیا۔بچے کی فطرت کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنا انداز بدل سکتے ہیں۔بہترین استاد وہ ہے جو اپنے شاگرد کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے، استاد و شاگرد کا باہمی تعلق نہایت خوشگوار اور دوستانہ رکھنے کے لئے نفسیات سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔ تاکہ شاگرد بلاخوف و خطر آپ سے اپنے خیالات کا تبادلہ اور مسائل کا حل طلب کرسکے۔ بروز قیامت ما تحت کے بارے میں سوال ہوگا۔ استاد کے ساتھ ساتھ شاگرد کو بھی چاہیے کہ اپنے دل میں استاد کی محبت کو پروان چڑھائے، استاد کا دل میں احترام ہر وقت ملحوظ رہے، اور اس کے لئے ادب کرنا بہت ضروری ہے۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔دوران درجہ شاگرد کو چاہیے کہ نہایت مؤدبانہ انداز اختیار کرے۔اور استاد کی موجودگی میں کسی سوال کا جواب نہ دے، بلکہ استاد ہی سے سوال کرنے کا مشورہ دے، نیز استاد سے اگر کبھی سبقت لسانی یا بھول کی وجہ سے کوئی غلطی ہوجائے، تو فورا لقمہ دینے کے بجائے لکھ کر یا الگ سے استاد کو اچھے اندا ز میں بتادے، تاکہ استاد بروقت اپنی غلطی کا ازالہ کرسکے،اور اس کی عزت نفس کو ٹھیس بھی نہ پہنچے۔ شاگرد ہمیشہ یہ بات مستحضر رکھے کہ میرا استاد کامل ہے، اگر بتقاضائے بشریت کچھ غلطی ہوجائے تو یہ سوچے کہ استاد نے ایسا کیا نہیں بلکہ اس سے خطا کے طور پر ایسا ہوگیا۔

ماوصل من وصل الا بالحرمۃ

وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ

جس نےجو پایا ادب سے پایا، اور جس نے جو کھویا ادب نہ کرنے کی وجہ سے کھویا۔

استاد و شاگرد کے درمیان گیپ نہ ہو:چاہیے کہ استاد ایک شریف باپ اور شاگرد ایک باادب بیٹے کا سا طریقہ اپنائے، تاکہ تحصیلِ علم میں طالبِ علم کو کوئی مشکل پیش نہ آئے، تاکہ وہ بلاجھجھک اپنی علمی الجھنیں استاد کے سامنے رکھ کر تشفی بخش جواب سے انہیں دور کرسکے۔شاگرد اور استاد کے درمیان اتنا فاصلہ نہ ہوکہ مفروضات تو دور شاگرد اسباق سے متعلق حقیقی سوال بھی نہ کرسکے، بلکہ اساتذہ شاگرد کے ساتھ بااخلاق رویہ رکھیں، کہ شاگرد بے فکر ہوکر سوالات پوچھے، ایسانہ ہوکہ سوالات پوچھنے سے پہلے شاگرد یہ سوچے کہ پتانہیں اب جواب ملے گا یا الٹا سوال کریں گے۔

شاگرد کے سوال کا جواب ہوسکے تو دیں لیکن اس وقت جواب معلوم نہ ہونے پر وقت طلب کرلیں، یہ نہ کہیں کہ تمہارا اس سوال سے کیا کام؟ یہ پوچھ کر تم کیا کرو گے؟ اگر شاگرد کوئی غلط سوال کر بھی لے تو اسے بتائیں کہ وہ غلطی پر ہے اس کا سوال غلط ہے، تاکہ وہ اپنی غلطی سدھار لے، شاگرد کو بھی چاہیے کہ صرف علمی سوالات کرے، مفروضات نہ پوچھے، کہ اگر اس صورت میں یہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟اس طرح درجے کا ماحول بھی متاثر ہوتا ہے، دیگر طلبا کو بھی ناگوار لگتا ہے، اگر تمنا حصولِ علم کی ہے تو استاد کا ادب کر، نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزانوں میں۔

ذاتی معاملات میں مداخلت:استاد کو چاہیے کہ بلاوجہ اور ذاتی طور پر شاگرد کے معاملات میں دخل نہ دیں، بلکہ آپ کا کردار اور اعتماد شاگرد کی نظروں میں اتنا مضبوط ہو کہ وہ آپ سے خود علمی مسائل کے علاوہ دیگر مسائل کے بھی حل طلب کریں، شاگرد کو جب استاد سے عزت نفس کے تحفظ کا یقین ہوگا تو وہ خود بلا تردد تمام مسائل استاد سے شیئر بھی کرے گا، اور اپنی غلطی کی نشاندہی پر اسے تسلیم بھی کرے گا۔شاگرد چونکہ ایک مدت تک استاد کی نگاہوں میں رہتا ہے، چنانچہ زیرک اساتذہ مختلف طلبا میں پائی جانے والی مختلف صلاحیتوں کو بھی پہچان لیتے ہیں۔ لہذا شاگرد کو چاہیےکہ فارغ التحصیل ہوتے وقت اپنے اساتذہ سے مستقبل کے بارے میں مشورہ ضرور کرے، تاکہ وہ جگہ جگہ خود کو آزما کر وقت ضائع کرنے کے بجائے، اپنی متعلقہ فیلڈ میں خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرسکے۔

المختصر یہ کہ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے، لہذا اسے چاہیے کہ اس طرح طلبا پر شفقت کرے کہ جیسے کوئی باپ اپنی حقیقی اولاد پر کرتا ہے، ان سے اندازِ تخاطب، ان کے مسائل میں معاونت، اور دلجوئی کا بھی خیال رکھے،استاد کی کسی بھی قسم کی بے ادبی اور دلی آزردگی کرنے سے بچے، اور یاد رکھے کہ

میدان علم و فن میں ہیں شاہسوار جتنے

ہر ایک کی ہے ہمت استاد کی بدولت

شاگرد کی ہے عزت استاد کی بدولت


 استاد اور طالبِ علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔لہذا استاد کو چاہیے کہ اپنے طلباء کی بہتر تربیت کے لیے درجِ ذیل امور پیش نظر رکھے؛

(1) ان کی ناکامی پر رنجیدہ اور کامیابی پر اظہارِ مسرت:اگر کوئی طالبِ علم سبق سنانے میں یا امتحان میں ناکامی سے دوچار ہو تو اس کی ناکامی پر رنجیدہ ہو اور اس کی ڈھارس بندھائے اور اسے ناکامی سے پیچھا چھڑانے کے لیے مفید مشورے دے اور اگر کسی طالبِ علم کو کوئی کامیابی نصیب ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کرےبلکہ ممکن ہو تو کوئی تحفہ بھی دے اور اس کی مزید کامیابیوں کے حصول کے لیے دعا کرے۔

(2) بیمار ہونے پر عیادت:اگر کوئی طالبِ علم (بالخصوص مقیم طالب علم)بیمار ہو جائے تو سنّت کے مطابق اس کی عیادت اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ سرورِ کونینﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستّر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستّر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنّت میں ایک باغ ہوگا۔(سنن الترمذی،2/290، حدیث:971)

(3) استقامت کی ترغیب:عموماً دیکھا گیا ہے کہ حصولِ علمِ دین کے لئے آنے والے طلباء کی بہت بڑی تعداد استقامت سے محروم رہتی ہے اور اکثر طلباء اپنی تعلیم (خصوصاً ابتدائی درجات میں)ادھوری چھوڑ کر اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور دیگر کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس لئے استاد کو چاہیے کہ اپنے (بالخصوص ابتدائی درجے کے) طلباء کو استقامت کے فوائد، عدمِ استقامت کے نقصانات، استقامت کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو بیان کرے اور انہیں دور کرنے کا طریقہ بتائے اور طلباء کو استقامت کے ساتھ حصولِ علم کی ترغیب دے۔

استاد سے تعلقّات کیسے ہوں؟

استاد کے حقوق پورے کرے:اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کتبِ معتبرہ کے حوالے سے استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ "عالم کا جاہل اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ کہ

1۔ استاد سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔

2۔ اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔

3۔ چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔

4۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل نہ کرے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کر دے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصوّر کرے۔

5۔ اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔

6۔اور اگر چہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو، اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے۔

7۔اگر وہ گھر کے اندر ہو، تو باہر سے دروازہ نہ بجائے، بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

8۔ (اسے اپنی جانب سے کسی قسم کی اَذیت نہ پہنچنے دے کہ) جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اَذیت پہنچی، وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(فتاویٰ رضویہ، 10/97-94)


علم اور ادب کا بہت بڑا ساتھ ہے، یوں سمجھئے کہ جہاں ادب نہیں وہاں علم کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک طالبِ علم کو استاد، کتاب اور مادرِ علمی یعنی  تعلیمی ادارے کا ادب ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے، بعض دفعہ بڑے بڑے ذہین و فطین طلبہ بھی سوءِ ادب(بے ادبی) کی وجہ سے محروم اور علم سے دور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

استاد کا ادب کتنا ضروری ہے اس کی اہمیت جاننے اور سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ استاد وہ محسن ہے جو طالبِ علم کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے، رہنے کا ڈھنگ بتاتا ہے اور اخلاقی برائیوں کو دور کرکے اسے معاشرے کا ایک مثالی فرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دینِ اسلام میں استاد کے ادب کو بہت اہمیت دی گئی ہے حتّٰی کہ استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے، لہٰذا طالبِ علم کو چاہئے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے۔تفسیرِ کبیر میں ہے:استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیرِ کبیر، 1/401)

امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتا ہے جب تک کہ وہ علم،اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔

امام فخرالدین ارسا بندی رحمۃ اللہ علیہ مَرْو شہر میں رئیسُ الائمہ کے مقام پر فائز تھے اورسلطانِ وقت آپ کا بے حد ادب واحترام کیا کرتاتھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ منصب اپنے استاد کی خدمت و ادب کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔کیو نکہ استاد ہو یا طبیب دونوں ہی اس وقت نصیحت نہیں کرتے جب تک ان کی تعظیم وتکریم نہ کی جائے۔(راہِ علم، ص 35 تا38ملتقطاً)

ادب کے ذریعے استادکے دل کو خوش کرکے ثواب حاصل کرنا: حدیث ِپاک میں ہے: اللہ پاک کے فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ پیارا عمل مسلمان کادل خوش کرناہے۔(معجم اوسط، 6/37، حدیث:7911)

ادب کرنے والے کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور وہ زوالِ نعمت سے بچتا ہے،کیونکہ جس نے جو کچھ پایا ادب واحترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اورجس نے جوکچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔(تعلیم المتعلم،ص35)

الخىرات الحسان مىں ہے: امام اعظم رضى اللہ عنہ زندگى بھراپنے استاد محترم سىدنا امام حماد علیہ الرحمۃالجوا د کے مکان عظمت نشان کى طرف پاؤں پھىلا کر نہىں لىٹے حالانکہ آپ کے مکان عالى شان اور استادمحترم علىہ الرحمہ کے مکان عالى شان کے درمىان تقرىبا سات گلىاں پڑتى تھىں۔(اشکوں کى برسات، 9)

ہمارا پیارا دین ”اسلام“ تعلیم دیتا ہے کہ جو عمر اور مقام و مرتبے میں چھوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کریں اور جو عمر، علم، منصب، عہدے وغیرہ میں بڑا ہو ان کا ادب و احترام بجالائیں۔ ہمارے بڑوں میں ہمارے ماں باپ، اساتذہ کرام،پیر و مرشد اور علماءو مشائخ اور تمام ذی مرتبہ لوگ شامل ہیں۔ ان کے ادب و احترام کا ہمارے پیارے آقا ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا ہے: بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو تم جنّت میں میری رفاقت پالو گے۔ ( شعب الایمان، 7/458، حدیث: 1098)

استاد کا ادب تکمىلِ علم کے لىے بنىاد ہے اور بے ادب علم کى نعمت سے محروم رہتا ہے، جب کہ ادب کو تھامنے والے فلاح و کامرانى کى ان بلندىوں پر پہنچ جاتے ہىں کہ ان کا نام آسمانِ ہدایت مىں چمکتے ہوئے ستاروں کى طرح تا ابد افشاں رہتا ہے اور اس کى روحانى تعلىمات سے اىک عالم فیض یاب ہوتا ہے۔کسى عربى شاعر نے کہا:

مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّابِالْحُرْمَةِ

وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَةِ

ىعنى جس نے جو کچھ پاىا ادب و احترام کرنے کى وجہ سے پاىا اور جس نے جو کچھ کھوىا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہى کھوىا۔ (کامىاب طالب علم کون؟ ص 55)

ىہى ادب تھا جس نے شىرِ خدا علىُ المرتضى کرم اللہ تعالىٰ وجہہ الکرىم کو دروازۂ علم کے لقب ِباکمال سے سرفراز کىا، آپ رضى اللہ عنہ فرماتے ہىں: جس نے مجھے اىک حرف سکھاىا مىں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہِ علم، ص 29)

اور ادب کى بات ىہ ہے کہ جو استاد کہے کرنا چاہىے کہ استاد روحانى باپ ہوتا ہے، والدىن بچے کى جسمانى پرورش کرتے ہىں، لىکن استاد بچوں کو زندگى کى سىڑھىاں چلنا سکھاتا ہے بس بات ىہ ہے کہ استاد بادشاہ نہىں ہوتا مگر بادشاہ بنادىتا ہے، اور استاد کا ادب کامىابى کى پہلى سىڑھى ہے۔


ایک انسان استاد کے بغیر کبھی بھی کامیاب شخصیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے ہر کامیاب شخص کے پیچھے اس کے استاد کا ہاتھ پایا جاتا ہے جو اس کی شخصیت کو نکھار کر دنیاکے سامنے لاتا ہے۔ استاد ایک فیکٹری ہے۔ اور یہ وہ فیکٹری ہے کہ جہاں سے خام مال سونا بن کر نکلتا ہے۔ اسی لیے استاد کی عزت کرنا شا گردوں پر لازم ہے۔استاد اور شاگرد کا رشتہ بہت مقدس ہے۔ اس لیے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے اُستاد کی عزت و احترام کرے، جب تک استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق بہتر نہیں ہوگا طالب علم بہتر علوم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے: اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔ اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔ چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے اُستاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اُسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کو قبول کرنے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔ اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے اگرچہ اس سے ایک ہی حرف سیکھا ہو۔ اگر وہ اپنے گھر کے اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے اساتذہ کے ساتھ ماں باپ سے بڑھ کر محبت بھر اسلوک کریں،کیونکہ اساتذہ ہمارے روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں، جبکہ اساتذہ اسے نارِدوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، 1/401)

طالبِ علم کو چاہیے کہ ہر دم یہ کوشش کرتا رہے کہ اس کی کسی بھی حرکت کسی بھی کلام یا کسی بھی طرح سے اس کے استاد کو اذیت نہ پہنچے کہ استاد کو اذیت پہنچانا علم کی برکت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔ میرے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جس سے اس کے استاد کوکسی قسم کی اذیت پہنچی، وہ علم کے برکات سے محروم رہے گا۔ (فتاوی رضویہ، 10/96-97)

شاگرد کو چاہیے کہ ہر دم استاد کی عزت کرے، اس کے فرمان پرلبیک کہے۔ اس کے آگے آواز اونچی نہ کرے، ہمارے اسلاف اور بزرگان دین استاد کا بے حد احترام فرماتے تھے جیسا کہ حضرت سہل رحمۃ الله علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلو تہی فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن اچانک دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا: آج جو کچھ پوچھنا چاہو پوچھ لو، تو لوگوں نے عرض کی: حضور کیا ماجرا ہے؟ آپ تو کسی سوال کا جواب نہیں دیا کرتے تھے؟ فرمایا: جب تک میرے استاد حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا، لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی،کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔ بہر حال آپ کے اس جواب کی بناپر فوراً وقت اورتاریخ نوٹ کرلی گئی۔ جب بعد میں معلومات کی گئی تو واضح ہوا کہ آپ کا انتقال حضرت سہل کے کلام سے کچھ دیر قبل ہی ہو گیا تھا۔( تذكرة الاولیاء، 1/229)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ ایک بہترین استاد اور عظیم مفکر ہیں، آپ استاد شاگرد کے متعلق فرماتے ہیں کہ استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے برابر سمجھے۔ اور ان سے نہایت شفقت اور محبت سے پیش آئے۔ جہاں تک ممکن ہو طلباء کو نصیحت کرتا رہے۔ استاد کو چاہیےکہ طلباء پر سختی کرنے سے گریز کرے۔ سختی کرنے سے طلباء کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور معلم کا وقار گر جاتا ہے۔ آپ طلباء کو فرماتے ہیں: استاد کی فرمانبرداری کو اپنا شعار بنائیں۔ میرے شیخِ طریقت امیر اہل سنت کی شخصیت میں بھی استاد کا ادب دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ پیارے آقا محمد مصطفیٰ کا نام مبارک سماعت کرتے ہی ادب سے سر کو جھکاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ پاک کی رضا کے لیے اپنے استاد کا احترام کریں۔ بحیثیت ایک کامیاب طالب علم ہماری ذمہ داری ہے کہ استاد کے حقوق کا خیال رکھیں۔اللہ پاک ہمیں باادب بنائے۔ استاد کے قدموں میں پڑے رہنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین