قطع تعلقی حرام ہے جو کہ معاشرے میں عام ہو چکا ہے لوگوں میں الله پاک کا خوف ختم ہو چکا ہے ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے قطع تعلقی حرام ہے۔ جب تک شریعت اجازت نہ دے تب تک قطع تعلقی نہیں کرنی چاہیے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ مظہری میں ہے: یعنی تم قطع رحم (یعنی رشتے داروں سے تعلق توڑنے) سے بچو۔ (تفسیرِ مظہری، 2/3)

قطع تعلقی کے متعلق احادیث مبارکہ:

1۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 6/97، حدیث:5986)

2۔ الله پاک فرماتا ہے: جو جوڑے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو کاٹے گا میں اسے ہلاک کروں گا۔ (ابوداؤد، 2/183، حدیث: 1694)

3۔ جو یہ چاہے کہ اس کے رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافہ کیا جائے تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ (مسلم، ص1384، حدیث:255)

4۔ جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والا ہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان،7/223، حدیث: 7962)

5۔ جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دے دی جائے اور اس کے لیے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4/229، حدیث: 2519)

رشتے جوڑیئے: صلہ رحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک) اسکا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو یہ چیز تو حقیقت میں مکافاۃ یعنی ادلا بدلا کرنا ہے کہ اس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے اس کے پاس بھیج دی وہ تمہارے یہاں آیا تم اس کے پاس چلے گئے۔ حقیقتاً صلہ رحمی (یعنی کامل درجے کا رشتے داروں سے اچھا سلوک) یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتا ہے بے اعتنائی (لا پرواہی) کرتا ہے اور تم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی مراعات (لحاظ و رعایت) کرو۔ (رد المحتار، 9/687)

اگر ہم کسی کے ساتھ قطع تعلقی کر رہے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ الله سے ڈریں اور ہمیں دوسروں کو بھی اسکی مذمت کے بارے میں الله کا خوف دلانا چاہیے اگر ہماری کسی رشتے دار کے ساتھ ناراضگی ہے تو ہمیں صلح کے لیے خود پہل کر لینی چاہیے اور خود آگے بڑھ کر خندہ پیشانی کے ساتھ اس سے مل کر تعلقات سنوار لینے چاہئیں۔ الله پاک ہمیں قطع تعلقی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

قطع تعلق حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں قطع تعلقی سے منع فرمایا گیا ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ مظہری میں ہے یعنی تم قطع رحم یعنی رشتے داروں سے تعلق توڑنے سے بچو۔ (تفسیرِ مظہری، 2/3)

قطع رحمی کی ایک صورت: جب اپنا کوئی رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے تو اسکی حاجت روائی کرے اس کو رد کر دینا قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) ہے۔ (درر، ص323) یاد رہے! قطع رحم یعنی رشتہ کاٹنا حرام ہے۔

قطع رحمی کے متعلق فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/97، حدیث:598)

2۔ جس قوم میں قاطع رحم (یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو اس قوم پر الله کی رحمت کا نزول نہیں ہوتا۔ (الزواجر، 2/153)

3۔ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کیے جائیں، اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے۔ اور جو اس سے قطع تعلقی کرے یہ اس سے ناطہ (یعنی تعلق) جوڑے۔ (مستدرک: 3/16، حدیث:3615)

4۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والاہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان، 6/223، حدیث: 7962)

5۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4/229، حدیث: 2519)

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قطع تعلقی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


قطع کے معنیٰ تعلق توڑنے کے ہیں، ہمارے معاشرے میں قطع تعلقی بہت عام ہو چکی ہے جو کہ حرام ہے، قطع تعلقی کو مطقاً حلال سمجھنا کفر ہے۔

قطع تعلقی کی تعریف: شریعت میں جن سے صلہ رحمی(نیک سلوک) کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع تعلقی ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص226)

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں رشتہ داری کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(۲۵) (پ 13، الرعد: 25) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اللہ کا عہد اس کے پکے ہونے کے بعد توڑتے اور جس کے جوڑنے کو اللہ نے فرمایا اسے قطع کرتے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کا حصہ لعنت ہی ہے اور اُن کا نصیبہ بُرا گھر۔

رشتہ توڑنے کی مذمت پر فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4/229، حدیث: 2519)

2۔ حضرت جُبَیر بن مُطْعَم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: رشتہ داری توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/97، حدیث: 5984)

3۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اس کا رزق فراخ ہو اور اس کی عمر دراز ہو جائے تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کیا کرے۔ (بخاری،4/97، حدیث: 5985)

4۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بدلہ لینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے۔ (بخاری، 4/98، حدیث: 5991)

5۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ سرکار ِدو عالَم ﷺ نے ارشاد فرمایا: و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ کرے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1928)

یاد رکھیں! غیبت، حسد، تکبر، وعدہ خلافی، لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اپنے رشتہ داروں سے تعلق توڑ دیتا ہے اسی لیے ہر مسلمان کو ان سب برائیوں سے بچتے رہنا چاہیے اور صلہ رحمی کے فضائل پڑھتے اور سنتے رہنا چاہیے۔

الله پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو قطع تعلقی سے بچائے اور سب کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


صلہ رحمی واجب جبکہ قطع رحمی حرام ہے۔ مگر افسوس ہمارے معاشرے میں یہ بُری عادت بھی پائی جاتی ہے، ہمارے رشتہ دار ہمارے ساتھ حسن سلوک کریں یا نہ کریں شریعت مطہرہ ہمیں انکے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا درس دیتی ہے۔

صِلۂ رِحم کا معنیٰ رشتے کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور (حُسنِ) سلوک کرنا۔ (بہارِ شریعت،3/ 558) جبکہ رشتہ داری توڑنا اور ان کے ساتھ نیکی اور اچھا سلوک نہ کرنا قطع رحمی یعنی تعلق توڑنا ہے۔

قرآن پاک میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مُسَلمانوں پر جیسے نماز، روزہ،حج،زکوٰۃوغیرہ ضروری ہے، ایسے ہی قَرابت داروں کا حق اَدا کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ (تفسیر نعیمی،4/455)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں قطع تعلقی کی مذمت:

1۔ رحمت نہ اترنے کا سبب: جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والاہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان، 6/223، حدیث:7962)

2۔ جنت میں داخلہ ممنوع: رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، ص 1338، حدیث:2556)

3۔ دنیا میں بھی سزا: جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4/229، حدیث: 2519)

4۔ رشتہ داری کاٹنا: حدیث قدسی ہے الله پاک نے رحم (رشتہ داری) سے فرمایا: جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گااور جو تجھے کاٹے گا میں اُسے کاٹوں گا۔ (بخاری، 4/98، حدیث: 5988)

5۔ مغفرت سے محروم: پیر اور جمعرات کو الله پاک کے حضور لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو الله پاک آپس میں عداوت رکھنے اور قطعِ رحمی کرنے والے کے علاوہ سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ (معجم کبیر، 1/167، حدیث:409)

اے عاشقان رسول! اگر آپ نے بھی اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کی ہوئی ہے تو اگرچہ قصور اُنکا ہی ہو سانس بعد میں لیجیئے پہلے ان سے صلح کرلیجیے اور حسن سلوک سے پیش آئیے۔

رشتہ داروں سے سلوک کی صورتیں: صلہ رحم کی مختلف صورتیں ہیں انکو ہدیہ تخفہ دینا اور اگر انکو کسی کام میں تمہاری اعانت مدد درکار ہو تو اس کام میں انکی مدد کرنا،انہیں سلام کرنا، انکی ملاقات کو جانا،انکے پاس اٹھنا بیٹھنا، انکے ساتھ بات چیت کرنا،انکے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا۔ الله پاک ہمیں شریعت کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنےوالا بنائے۔ آمین یا رب العالمین


شریعت میں جن سے صلہ یعنی نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع تعلقی ہے۔

قطع تعلقی کی چند مثالیں: بلااجازت شرعی اپنے کسی رشتے دار سے بات چیت اور ملنا ختم کر دینا، کسی کو کمتر سمجھتے ہوئے اس سے ملنا ختم کر دینا وغیرہ۔

قطع تعلقی کی مذمت میں فرمانِ باری تعالیٰ: فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(۲۲) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(۲۳) (پ 26، محمد: 22-23) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا تمہارے لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔

قطع تعلقی کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ:

1۔ قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہ جائے گا۔ (ترمذی، 3/364، حدیث: 1916)

2۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو شخصوں کی طرف قیامت کے دن رب تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا: قطع رحمی کرنے والا اور برا ہمسایہ۔ (کنز العمال، 3/655)

3۔ بے شک بنی آدم کے اعمال ہر جمعہ کی رات کو پیش کیے جاتے ہیں اور قاطع رحم کے اعمال قبو ل نہیں کیے جاتے۔ (شعب الایمان، 10/341)

4۔ دو گناہ ایسے ہیں جن کی سزا جلدی ہے اور معافی نہیں ہے: ظلم اور قطع رحمی۔ (شعب الایمان، 10/337) لہٰذا ہمیں چاہیے کہ قطع رحمی سے بچیں اور صلہ رحمی کو اپنائیں اس لیے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر، جو تجھ پر ظلم کرے اسے معاف کر اور جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو۔ (شعب الایمان، 10/335)

نیز صلہ رحمی کرنے والے کی عمر میں اور رزق میں برکت و زیادتی ہوتی ہے، عزت ملتی ہے، یہ دنیاوی فوائد ہیں جبکہ اخروی فوائد یہ ہیں کہ یہ دخول جنت کا سبب ہے، رب تعالیٰ کی رضا ملتی ہے وغیرہ۔ اور قطع رحمی سے دنیا میں بھی نقصانات ہوتے ہیں، مثلا لوگوں سے عداوت و دشمنی پیدا ہوتی ہے، ذلت و تنہائی میں مبتلا کر کے غموں میں اضافہ کرتی ہے وغیرہ، اور آخرت میں بھی نقصانات و عذابات ملتے ہیں، مثلا رب تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب، اللہ کی رحمت سے دوری اور ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا اس لیے ہمیں اللہ کے عذابات سے ڈرتے ہوئے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلق حرام ہے، قطع تعلقی کو مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے، بدمذہب بے دین سے ہر قسم کا تعلق توڑنا فرض ہے، اگر ہم کسی سے بغیر اجازت شرعی تعلق توڑیں گے تو حرام ہے تو اس کی مذمت قرآن و حدیث میں صراحت کیساتھ وارد ہے اللہ ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

قطع تعلقی کی تعریف: شریعت میں جن سے صلہ (نیک سلوک) کا حکم دیا گیا ان سے تعلق توڑنا قطع تعلق ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص 226)

فرامین مصطفیٰ:

1۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلق توڑے، جو تین دن سے زیادہ تعلق توڑے اور اس حال میں مر جائے تو جہنم میں جائے گا۔ (ابو داود، 4/364، حدیث: 4914)

2۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں اللہ ہوں، میں رحمٰن ہوں اور میں نے رحم یعنی رشتہ کو پیدا کیا ہے اور اس کا نام اپنے نام سے مشتق کیا پس جو اسے ملائے گا میں اسے ملائے رکھوں گا اور جو اس کو قطع کرے گا یعنی کاٹے گا میں اس سے قطع کروں گا۔ (ترمذی، 3/363، حدیث: 1914)

3۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک بار مجلس میں تشریف فرما تھے انہوں نے فرمایا: میں قاطع رحم (رشتہ توڑنے والے کو) اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ یہاں سے اٹھ جائے تاکہ ہم اللہ سے مغفرت کی دعا کریں کیونکہ قاطع رحم پر آسمان کے دروازے بند رہتے ہیں یعنی وہ اگر یہاں موجود رہے گا تو رحمت نہیں اترے گی اور ہماری دعا قبول نہیں ہوگی۔ (معجم کبیر، 9/158، حدیث: 8793)

4۔ ہر جمعرات اور جمعہ کی رات بنی آدم کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں بس قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ (مسند امام احمد، 3/532، حدیث: 10276)

5۔ میرے پاس جبرائیل آئے اور عرض کی: یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے اس میں اللہ نہ مشرک کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے، نہ دشمنی رکھنے والے کی طرف، نہ قطع رحمی کرنے والے کی طرف، نہ تکبر سے اپنا تہبند لٹکانے والے کی طرف، نہ والدین کے نافرمان کی طرف اور نہ ہی شراب کے عادی کی طرف۔ (شعب الایمان، 3/383، حدیث: 3837)

معاشرتی نقصانات: قطع تعلقی سے لڑائی جھگڑی، حسد، تکبر، دنیا کی محبت، دوسرے کی عزت نفس کا خیال نہ کرنا اور علم دین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

قطع رحمی سے بچنے کی ترغیب: موت کو کثرت سے یاد کیجیے، گناہوں سے بچنے کا ذہن بنے، قطع تعلقی کی تباہ کاریوں پر غور کریں، طنز و تنقید کی عادت سے پیچھا چھڑائیے، اللہ کی عطا پر نظر رکھیے۔


شریعت میں جن سے صلہ رحمی یعنی نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع تعلقی ہے۔

قطع تعلقی کی چند مثالیں: بلااجازت شرعی اپنے کسی رشتے دار سے بات چیت اور ملنا ختم کر دینا، قادر ہونے کے باوجود اس کی حاجت پوری نہ کرنا، کسی کو کمتر سمجھتے ہوئے اس سے ملنا ختم کر دینا۔

قطع تعلقی کے احکام: بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلقی حرام ہے، قطع تعلقی کو مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے، بدمذہب و بے دین سے ہر قسم کا قطع تعلق فرض ہے۔ آیت مبارکہ ہے: الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ۪-وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۲۷) (پ 1، البقرۃ: 27) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ " جس کا حکم اللہ نے دیا ہے" سے ایک مراد تعلقات جوڑنا ہے۔

وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر مظہری میں ہے: یعنی تم قطع رحمی (یعنی رشتہ داروں سے تعلق توڑنے) سے بچو۔ اس حوالے سے فرامین مصطفیٰ ملاحظہ ہوں:

1۔ پیر اور جمعرات کو اللہ کے حضور لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو اللہ آپس میں عداوت رکھنے اور قطع رحمی کرنے والوں کے علاوہ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (معجم کبیر، 1/167، حدیث: 409)

2۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/917، حدیث: 5984) تفہیم البخاری میں ہے کہ اس میں اختلاف نہیں کہ صلہ رحمی واجب ہے اور قطع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

3۔ امانت اور صلہ رحمی کو بھیجا جائے گا تو وہ پل صراط کے دائیں اور بائیں جانب کھڑی ہو جائیں گی۔ (مسلم، ص 127، حدیث: 349) حکیم الامت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یہ ان دونوں وصفوں کی انتہائی تعظیم ہوگی کہ ان دونوں کو پل صراط کے آس پاس کھڑا کیا جائے گا شفاعت اور شکایت کے لیے کہ ان کی شفاعت پر نجات اور ان کی شکایت پر پکڑ ہوگی، اس فرمان عالی سے معلوم ہوا کہ انسان امانت داری اور رشتے دارون کے حقوق کی ادائیگی میں ضرور احتیاط کو لازم پکڑے کہ ان دونوں میں کوتاہی کرنے پر سخت پکڑ ہے مگر ان کی شفاعت پر دوزخ سے نجات ہے ان کی شکایت پر وہاں گرتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، ص 24)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ قطع رحمی سے بچیں اگر ہمارا کوئی رشتہ دار ہم سے ناراض ہے تو خود آگے بڑھ کر اس سے معافی مانگ لیں کہ ایسا کرنے سے ثواب بھی ملے گا اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت بھی کرے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر کوئی ہم سے تعلق قطع کر بھی رہا ہو تو ہم اس کو جوڑیں کہ اس کی بہت فضیلت ہے۔


شریعت میں جن سے صلہ (نیک سلوک) کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع تعلقی کرنا کہلاتا ہے۔ ہم سب کو اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہے وہ رشتہ دار امیر ہو یا غریب ہو، رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا سنت بھی ہے، اور اس سے اللہ کے حکم کی بھی پیروی ہو جاتی ہے، آج کل ہمارے معاشرے میں یہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو رشتہ دار اسٹیٹس کا نہ ہو یعنی غریب ہو تو اس سے میل ملاپ کم کر دیا جاتا ہے، بعض اوقات تو جو رشتہ دار غریب ہو تو اس سے رشتہ داری ہی ختم کر دی جاتی ہے، بعض دفعہ باطنی بیماریوں جیسے امراض مثلا حسد اور تکبر بھی قطع تعلقی کا سبب بنتے ہیں، بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلقی حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 6/599) قطع تعلقی کو مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص 228) بد مذہب بے دین سے ہر قسم کا قطع تعلق فرض ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 14/594) یہ سب اسباب صرف اور صرف علم دین سے دوری کی وجہ سے ہیں۔ یا اللہ ہم سب کو رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرما!

فرامین مصطفیٰ:

1۔ رشتے داری کے حقوق کو پامال کرنے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(ریاض الصالحین، ص 109، حدیث:339)

2۔ رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھنے والا وہ شخص نہیں ہوتا جو کسی اچھائی کا بدلہ دینا چاہتا ہو بلکہ خیال رکھنے والا وہ شخص ہوتا ہے جب اس کے ساتھ رشتے داری کو ختم کیا جا رہا ہو تو وہ اس وقت اسے برقرار رکھے۔ (ریاض الصالحین، ص 104، حدیث: 322)

3۔ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے ساتھ میں تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اسے توڑ دیتے ہیں، میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ تحمل سے پیش آتا ہوں وہ میرے ساتھ جاہلانہ رویہ کرتے ہیں۔ (مجھے کیا کرنا چاہیے؟) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جیسے تم نے بتایا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو تم انہیں جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو اور تم جب تک ایسا کرتے رہوگے اللہ پاک کی طرف سے ایک مددگار تمہیں نصیب رہے گا۔(ریاض الصالحین، ص 103، حدیث: 318)

4۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت افزائی کرے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ (ریاض الصالحین، ص 102، حدیث: 314)

5۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلق توڑے جو تین دن سے زیادہ تعلق توڑے اور اس حال میں مر جائے تو جہنم میں جائے گا۔ (ابو داود، 4/364، حدیث: 4914)


قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اس پر اتفاق ہے کہ فی الجملہ صلہ رحمی کرنا واجب ہے اور قطع رحم کرنا معصیت کبیرہ ہے جیسا کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (شرح صحیح مسلم، 7/94)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے یا اس کی عمر دراز کی جائے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ (شرح صحیح مسلم، 7/95)

قطع رحمی کی مذمت پر نہ صرف احادیث کریمہ بلکہ اللہ کا پاک کلام بھی اس بات پر شاہد ہے کہ قطع رحمی شدید مذموم صفت ہے، اللہ پاک سورۂ نساء پارہ نمبر 4 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔

نبی پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اللہ دنیا میں فورا اس گناہ کے کرنے والے کو سزا دے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی سزا دے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، 2/277)

مندرجہ بالا آیت قرآنیہ اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قطع رحمی وہ کبیرہ گناہ ہے جس کا مرتکب دنیا میں بھی عذاب میں گرفتار ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، قطع تعلقی کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ اس مجمع کی جس میں قاطع رحم موجود ہو، جیسا کہ حضرت اعمش رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے بعد ایک محفل میں تشریف فرما تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: میں قطع تعلق کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ ہمارے درمیان سے اٹھ جائے کیونکہ ہم اپنے رب سے دعا کرنے والے ہیں۔ یقینا آسمان کے دروازے قطع تعلقی کرنے والے پر بند کر دیئے جاتے ہیں۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 291) پتا چلا کہ قطع تعلقی قبولیت دعا میں رکاوٹ ہے کیونکہ قطع تعلقی اللہ کو ناپسند ہے۔ اللہ ہمیں اتفاق و اتحاد اور پیار و محبت کے ساتھ رہنے کی سعادت نصیب فرمائے۔


قطع رحمی بہت بڑا گناہ اور عظیم جرم ہے، جو رابطوں میں جدائی کا ذریعہ ہے، عداوت اور دشمنی پیدا کر کے دوری کو پروان چڑھاتی ہے اس گناہ کی شناخت کے سلسلے میں باری تعالیٰ کا یہ ارشاد کافی ہے: فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(۲۲) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(۲۳) (پ 26، محمد: 22-23) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا تمہارے لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہ جائے گا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہ جائے گا۔ (ترمذی، 3/364، حدیث: 1916)

2۔ قاطعِ رحم جنت کی خوشبو نہ پائے گا: قطع رحمی کرنے والا جنت تو کیا جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا۔ صفۃ الجنۃ میں حافظ ابو نعیم احمد الاصبہانی روایت کرتے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت سے پائی جاتی ہے خدا کی قسم! اس کی خوشبو والدین کا نافرمان اور قطع تعلقی کرنے والا نہ پائے گا۔(صفۃ الجنۃ، 2/42، حدیث: 195)

3۔ قطع تعلقی کرنے والا جہنم میں منہ کے بل جائے گا: امام ابن جوزی اپنی کتاب البر و الصلۃ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ جو رات عبادت کرے اور دن کو روزہ رکھے لیکن قطع تعلقی کرے اسے منہ کے بل جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا۔ (البر و الصلۃ، ص 167)

4۔ قطع تعلقی کرنے والا نظر رحمت سے محروم: قطع تعلقی کرنے والے کی طرف قیامت والے دن رب کریم نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ کنز العمال میں ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو شخصوں کی طرف قیامت کے دن رب تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا: قطع رحمی کرنے والا اور برا ہمسایہ۔ (کنز العمال، 3/655)

5۔ رحم قطع کرنے والے کے اعمال قبول نہیں ہوتے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بنی آدم کے اعمال ہر جمعہ کی رات کو پیش کئے جاتے ہیں اور قاطعِ رحم کے اعمال قبول نہیں کیے جاتے۔ (شعب الایمان، 10/341)


وہ اعمال جو نیک اعمال کو برباد کر دیتے ہیں ان میں سے 5 اعمال درج ذیل ہیں: (1) ریا کاری (2) احسان جتلانا (3) ایذا دینا (4) بخل (5) کافروں اور بد مذہبوں کو دوست بنانا۔

1،2،3۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ- (البقرہ:264) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کر دو۔ سورۃ البقرہ کی آیت مبارکہ کے اس حصے میں ان 3 اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو نیک اعمال کو برباد کر دیتے ہیں؛ 1)ریا کاری، 2)احسان جتلانا اور 3)ایذا دینا۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ان تینوں بد اعمال کی بھر مار ہے۔ ریاکاری سے اعمال کا ثو اب باطل ہو جاتا ہے۔ فقیر پر احسان جتلانا اور اسے ایذا دینا ممنوع ہے اور یہ بھی ثواب کو باطل کر دیتا ہے۔ جہاں ریا کاری یا اس طرح کی کسی دوسری آفت کا اندیشہ ہو وہاں چھپا کر مال خرچ کیا جائے۔ اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طرح صدقہ دینے کی اجازت ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت 271 اور 274 میں صراحت کے ساتھ اس کا بیان ہے، لیکن اپنی قلبی حالت پر نظر رکھ کر عمل کیا جائے۔

وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ- (التوبۃ: 34) ترجمہ کنز العرفان: اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ- (ہود:113) ترجمہ کنز العرفان: اور ظالموں کی طرف نہ جھکو ور نہ تمہیں آگ چھوئے گی۔

اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں یعنی کافروں، بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول، رسم و راہ، مودت و محبت ان کی ہاں میں ہاں ملانا ان کی خوشامد میں رہنا سب ممنوع ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو نیک اعمال کو برباد کر دیتے ہیں۔ (اے ایمان والو!،ص 9،50،71)


نیک اعمال کی توفیق ملنا اللہ کا بہت بڑا کرم ہوتا ہے، نبی کرم ﷺ سے نیکی کے متعلق سوال کیا گیا کہ نیکی کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مضمون ہے کہ حسن اخلاق نیکی ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے کہ وہ کام کرنے سے اگر دل مطمئن ہے تو یہ نیکی ہے۔ نیکی کی اگر توفیق مل جائے تو ہمیں ایسے کاموں سے بچنا بھی ضروری ہے کہ جو نیک اعمال کو اکارت کر دیں جیسے کہ مشہور مقولہ ہے ”نیکی کر دریا میں ڈال“ یعنی اگر ہم نے کوئی نیک کام کر لیا تو اسے محض رب کا فضل سمجھنا چاہئے، فخر و غرور میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے اگر ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے دی تو ہمیں نیک اعمال میں استقامت کی دعا کرنی چاہیے، لوگ نیک اعمال کرتے ہی نہیں اگر کر بھی لیں تو ریا کاری کی نظر کر دیتے ہیں۔

عمل کا ہو جذبہ عطایا الہی مجھے نیک انساں بنا یا الہی

نیک اعمال کو برباد کرنے والے بہت سے اعمال ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-(البقرۃ: 264) ترجمہ: اے ایمان والو! جس پر خرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب برباد نہ کرو۔اس آیت سے ہمیں یہ باتیں معلوم ہوئیں؛

1)ریا کاری سے مال کا ثواب باطل ہو جاتا ہے۔

2)فقیر پر احسان جتلانا اور اسے ایذا دینا ممنوع ہے یہ بھی ثواب باطل کر دیتا ہے۔

3)کافر کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں۔

2۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران: 130) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کا میابی مل جائے۔سود قطعی حرام ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے، سود نیک اعمال کو برباد کر دیتا ہے۔ حضرت جابر سے مروی ہے حضور سید المرسلین ﷺ نے سود کھانے اور کھلانے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب اس گناہ میں شامل ہیں۔(89 آیات قرآنی)

3۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ 5، النساء: 29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔ سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے، اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مارنا، کسی کا مال وصول کرلینا یہ سب برے اعمال ہیں۔

4۔قرآن مجید میں ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

زنا کبیرہ گناہوں سے ہے۔

5۔اس طرح قرآن مجید میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) (پ 22، الاحزاب: 70) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈروا در سیدھی بات کہو۔ تفسیر صراط الجنان میں ہے: سچی اور درست بات کہنی چاہیے اللہ تم پر کرم فرمائے گا تمہارے اعمال سنوارے گا اگر اس کے بر عکس معاملہ ہوا تو اعمال کے ضائع ہونے کا سبب ہو سکتا ہے۔(89 آیات قرآنی)

اللہ پاک سے دعا ہےکہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی تو فیق دے، کیونکہ بسا اوقات نیکی کی توفیق تو مل جاتی ہے مگر بد قسمتی سے وہ ریا کی نظر ہو جاتی ہے یا پھر نیکی کی توفیق ہی نہیں ملتی، نیکیاں کرنا آسان لیکن گناہ سے بچنا مشکل ہے اور ا فضل عمل گناہ سے بچنا ہے، اللہ پاک ہمیں نیکیاں کرنے اور گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین