شریعت میں جن سے صلہ رحمی یعنی نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع تعلقی ہے۔

قطع تعلقی کی چند مثالیں: بلااجازت شرعی اپنے کسی رشتے دار سے بات چیت اور ملنا ختم کر دینا، قادر ہونے کے باوجود اس کی حاجت پوری نہ کرنا، کسی کو کمتر سمجھتے ہوئے اس سے ملنا ختم کر دینا۔

قطع تعلقی کے احکام: بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلقی حرام ہے، قطع تعلقی کو مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے، بدمذہب و بے دین سے ہر قسم کا قطع تعلق فرض ہے۔ آیت مبارکہ ہے: الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ۪-وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۲۷) (پ 1، البقرۃ: 27) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ " جس کا حکم اللہ نے دیا ہے" سے ایک مراد تعلقات جوڑنا ہے۔

وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر مظہری میں ہے: یعنی تم قطع رحمی (یعنی رشتہ داروں سے تعلق توڑنے) سے بچو۔ اس حوالے سے فرامین مصطفیٰ ملاحظہ ہوں:

1۔ پیر اور جمعرات کو اللہ کے حضور لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو اللہ آپس میں عداوت رکھنے اور قطع رحمی کرنے والوں کے علاوہ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (معجم کبیر، 1/167، حدیث: 409)

2۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/917، حدیث: 5984) تفہیم البخاری میں ہے کہ اس میں اختلاف نہیں کہ صلہ رحمی واجب ہے اور قطع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

3۔ امانت اور صلہ رحمی کو بھیجا جائے گا تو وہ پل صراط کے دائیں اور بائیں جانب کھڑی ہو جائیں گی۔ (مسلم، ص 127، حدیث: 349) حکیم الامت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یہ ان دونوں وصفوں کی انتہائی تعظیم ہوگی کہ ان دونوں کو پل صراط کے آس پاس کھڑا کیا جائے گا شفاعت اور شکایت کے لیے کہ ان کی شفاعت پر نجات اور ان کی شکایت پر پکڑ ہوگی، اس فرمان عالی سے معلوم ہوا کہ انسان امانت داری اور رشتے دارون کے حقوق کی ادائیگی میں ضرور احتیاط کو لازم پکڑے کہ ان دونوں میں کوتاہی کرنے پر سخت پکڑ ہے مگر ان کی شفاعت پر دوزخ سے نجات ہے ان کی شکایت پر وہاں گرتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، ص 24)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ قطع رحمی سے بچیں اگر ہمارا کوئی رشتہ دار ہم سے ناراض ہے تو خود آگے بڑھ کر اس سے معافی مانگ لیں کہ ایسا کرنے سے ثواب بھی ملے گا اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت بھی کرے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر کوئی ہم سے تعلق قطع کر بھی رہا ہو تو ہم اس کو جوڑیں کہ اس کی بہت فضیلت ہے۔


شریعت میں جن سے صلہ (نیک سلوک) کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع تعلقی کرنا کہلاتا ہے۔ ہم سب کو اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہے وہ رشتہ دار امیر ہو یا غریب ہو، رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا سنت بھی ہے، اور اس سے اللہ کے حکم کی بھی پیروی ہو جاتی ہے، آج کل ہمارے معاشرے میں یہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو رشتہ دار اسٹیٹس کا نہ ہو یعنی غریب ہو تو اس سے میل ملاپ کم کر دیا جاتا ہے، بعض اوقات تو جو رشتہ دار غریب ہو تو اس سے رشتہ داری ہی ختم کر دی جاتی ہے، بعض دفعہ باطنی بیماریوں جیسے امراض مثلا حسد اور تکبر بھی قطع تعلقی کا سبب بنتے ہیں، بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلقی حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 6/599) قطع تعلقی کو مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص 228) بد مذہب بے دین سے ہر قسم کا قطع تعلق فرض ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 14/594) یہ سب اسباب صرف اور صرف علم دین سے دوری کی وجہ سے ہیں۔ یا اللہ ہم سب کو رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرما!

فرامین مصطفیٰ:

1۔ رشتے داری کے حقوق کو پامال کرنے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(ریاض الصالحین، ص 109، حدیث:339)

2۔ رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھنے والا وہ شخص نہیں ہوتا جو کسی اچھائی کا بدلہ دینا چاہتا ہو بلکہ خیال رکھنے والا وہ شخص ہوتا ہے جب اس کے ساتھ رشتے داری کو ختم کیا جا رہا ہو تو وہ اس وقت اسے برقرار رکھے۔ (ریاض الصالحین، ص 104، حدیث: 322)

3۔ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے ساتھ میں تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اسے توڑ دیتے ہیں، میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ تحمل سے پیش آتا ہوں وہ میرے ساتھ جاہلانہ رویہ کرتے ہیں۔ (مجھے کیا کرنا چاہیے؟) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جیسے تم نے بتایا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو تم انہیں جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو اور تم جب تک ایسا کرتے رہوگے اللہ پاک کی طرف سے ایک مددگار تمہیں نصیب رہے گا۔(ریاض الصالحین، ص 103، حدیث: 318)

4۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت افزائی کرے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ (ریاض الصالحین، ص 102، حدیث: 314)

5۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلق توڑے جو تین دن سے زیادہ تعلق توڑے اور اس حال میں مر جائے تو جہنم میں جائے گا۔ (ابو داود، 4/364، حدیث: 4914)


قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اس پر اتفاق ہے کہ فی الجملہ صلہ رحمی کرنا واجب ہے اور قطع رحم کرنا معصیت کبیرہ ہے جیسا کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (شرح صحیح مسلم، 7/94)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے یا اس کی عمر دراز کی جائے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ (شرح صحیح مسلم، 7/95)

قطع رحمی کی مذمت پر نہ صرف احادیث کریمہ بلکہ اللہ کا پاک کلام بھی اس بات پر شاہد ہے کہ قطع رحمی شدید مذموم صفت ہے، اللہ پاک سورۂ نساء پارہ نمبر 4 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔

نبی پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اللہ دنیا میں فورا اس گناہ کے کرنے والے کو سزا دے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی سزا دے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، 2/277)

مندرجہ بالا آیت قرآنیہ اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قطع رحمی وہ کبیرہ گناہ ہے جس کا مرتکب دنیا میں بھی عذاب میں گرفتار ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، قطع تعلقی کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ اس مجمع کی جس میں قاطع رحم موجود ہو، جیسا کہ حضرت اعمش رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے بعد ایک محفل میں تشریف فرما تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: میں قطع تعلق کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ ہمارے درمیان سے اٹھ جائے کیونکہ ہم اپنے رب سے دعا کرنے والے ہیں۔ یقینا آسمان کے دروازے قطع تعلقی کرنے والے پر بند کر دیئے جاتے ہیں۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 291) پتا چلا کہ قطع تعلقی قبولیت دعا میں رکاوٹ ہے کیونکہ قطع تعلقی اللہ کو ناپسند ہے۔ اللہ ہمیں اتفاق و اتحاد اور پیار و محبت کے ساتھ رہنے کی سعادت نصیب فرمائے۔


قطع رحمی بہت بڑا گناہ اور عظیم جرم ہے، جو رابطوں میں جدائی کا ذریعہ ہے، عداوت اور دشمنی پیدا کر کے دوری کو پروان چڑھاتی ہے اس گناہ کی شناخت کے سلسلے میں باری تعالیٰ کا یہ ارشاد کافی ہے: فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(۲۲) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(۲۳) (پ 26، محمد: 22-23) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا تمہارے لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہ جائے گا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہ جائے گا۔ (ترمذی، 3/364، حدیث: 1916)

2۔ قاطعِ رحم جنت کی خوشبو نہ پائے گا: قطع رحمی کرنے والا جنت تو کیا جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا۔ صفۃ الجنۃ میں حافظ ابو نعیم احمد الاصبہانی روایت کرتے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت سے پائی جاتی ہے خدا کی قسم! اس کی خوشبو والدین کا نافرمان اور قطع تعلقی کرنے والا نہ پائے گا۔(صفۃ الجنۃ، 2/42، حدیث: 195)

3۔ قطع تعلقی کرنے والا جہنم میں منہ کے بل جائے گا: امام ابن جوزی اپنی کتاب البر و الصلۃ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ جو رات عبادت کرے اور دن کو روزہ رکھے لیکن قطع تعلقی کرے اسے منہ کے بل جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا۔ (البر و الصلۃ، ص 167)

4۔ قطع تعلقی کرنے والا نظر رحمت سے محروم: قطع تعلقی کرنے والے کی طرف قیامت والے دن رب کریم نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ کنز العمال میں ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو شخصوں کی طرف قیامت کے دن رب تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا: قطع رحمی کرنے والا اور برا ہمسایہ۔ (کنز العمال، 3/655)

5۔ رحم قطع کرنے والے کے اعمال قبول نہیں ہوتے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بنی آدم کے اعمال ہر جمعہ کی رات کو پیش کئے جاتے ہیں اور قاطعِ رحم کے اعمال قبول نہیں کیے جاتے۔ (شعب الایمان، 10/341)


وہ اعمال جو نیک اعمال کو برباد کر دیتے ہیں ان میں سے 5 اعمال درج ذیل ہیں: (1) ریا کاری (2) احسان جتلانا (3) ایذا دینا (4) بخل (5) کافروں اور بد مذہبوں کو دوست بنانا۔

1،2،3۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ- (البقرہ:264) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کر دو۔ سورۃ البقرہ کی آیت مبارکہ کے اس حصے میں ان 3 اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو نیک اعمال کو برباد کر دیتے ہیں؛ 1)ریا کاری، 2)احسان جتلانا اور 3)ایذا دینا۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ان تینوں بد اعمال کی بھر مار ہے۔ ریاکاری سے اعمال کا ثو اب باطل ہو جاتا ہے۔ فقیر پر احسان جتلانا اور اسے ایذا دینا ممنوع ہے اور یہ بھی ثواب کو باطل کر دیتا ہے۔ جہاں ریا کاری یا اس طرح کی کسی دوسری آفت کا اندیشہ ہو وہاں چھپا کر مال خرچ کیا جائے۔ اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طرح صدقہ دینے کی اجازت ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت 271 اور 274 میں صراحت کے ساتھ اس کا بیان ہے، لیکن اپنی قلبی حالت پر نظر رکھ کر عمل کیا جائے۔

وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ- (التوبۃ: 34) ترجمہ کنز العرفان: اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ- (ہود:113) ترجمہ کنز العرفان: اور ظالموں کی طرف نہ جھکو ور نہ تمہیں آگ چھوئے گی۔

اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں یعنی کافروں، بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول، رسم و راہ، مودت و محبت ان کی ہاں میں ہاں ملانا ان کی خوشامد میں رہنا سب ممنوع ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو نیک اعمال کو برباد کر دیتے ہیں۔ (اے ایمان والو!،ص 9،50،71)


نیک اعمال کی توفیق ملنا اللہ کا بہت بڑا کرم ہوتا ہے، نبی کرم ﷺ سے نیکی کے متعلق سوال کیا گیا کہ نیکی کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مضمون ہے کہ حسن اخلاق نیکی ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے کہ وہ کام کرنے سے اگر دل مطمئن ہے تو یہ نیکی ہے۔ نیکی کی اگر توفیق مل جائے تو ہمیں ایسے کاموں سے بچنا بھی ضروری ہے کہ جو نیک اعمال کو اکارت کر دیں جیسے کہ مشہور مقولہ ہے ”نیکی کر دریا میں ڈال“ یعنی اگر ہم نے کوئی نیک کام کر لیا تو اسے محض رب کا فضل سمجھنا چاہئے، فخر و غرور میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے اگر ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے دی تو ہمیں نیک اعمال میں استقامت کی دعا کرنی چاہیے، لوگ نیک اعمال کرتے ہی نہیں اگر کر بھی لیں تو ریا کاری کی نظر کر دیتے ہیں۔

عمل کا ہو جذبہ عطایا الہی مجھے نیک انساں بنا یا الہی

نیک اعمال کو برباد کرنے والے بہت سے اعمال ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-(البقرۃ: 264) ترجمہ: اے ایمان والو! جس پر خرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب برباد نہ کرو۔اس آیت سے ہمیں یہ باتیں معلوم ہوئیں؛

1)ریا کاری سے مال کا ثواب باطل ہو جاتا ہے۔

2)فقیر پر احسان جتلانا اور اسے ایذا دینا ممنوع ہے یہ بھی ثواب باطل کر دیتا ہے۔

3)کافر کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں۔

2۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران: 130) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کا میابی مل جائے۔سود قطعی حرام ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے، سود نیک اعمال کو برباد کر دیتا ہے۔ حضرت جابر سے مروی ہے حضور سید المرسلین ﷺ نے سود کھانے اور کھلانے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب اس گناہ میں شامل ہیں۔(89 آیات قرآنی)

3۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ 5، النساء: 29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔ سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے، اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مارنا، کسی کا مال وصول کرلینا یہ سب برے اعمال ہیں۔

4۔قرآن مجید میں ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

زنا کبیرہ گناہوں سے ہے۔

5۔اس طرح قرآن مجید میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) (پ 22، الاحزاب: 70) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈروا در سیدھی بات کہو۔ تفسیر صراط الجنان میں ہے: سچی اور درست بات کہنی چاہیے اللہ تم پر کرم فرمائے گا تمہارے اعمال سنوارے گا اگر اس کے بر عکس معاملہ ہوا تو اعمال کے ضائع ہونے کا سبب ہو سکتا ہے۔(89 آیات قرآنی)

اللہ پاک سے دعا ہےکہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی تو فیق دے، کیونکہ بسا اوقات نیکی کی توفیق تو مل جاتی ہے مگر بد قسمتی سے وہ ریا کی نظر ہو جاتی ہے یا پھر نیکی کی توفیق ہی نہیں ملتی، نیکیاں کرنا آسان لیکن گناہ سے بچنا مشکل ہے اور ا فضل عمل گناہ سے بچنا ہے، اللہ پاک ہمیں نیکیاں کرنے اور گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


جس طرح نیک اعمال کرنا ضروری ہے اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ان کی حفاظت کرنا لازم ہے، کیونکہ انسان بڑی کوششوں کے بعد اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ کر کے نیک اعمال کرتا ہے، ذرا سی بے احتیاطی سے یہ برباد بھی ہو سکتے ہیں، لہٰذا ایک مسلمان کی اولین کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جس کی وجہ سے اس کی محنت و مشقت بے کار ہو جائے، جس طرح نیک اعمال کرنے سے ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے، اسی طرح بعض اعمال ایسے ہیں جن کے کرنے سے انسان کے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں جس کا ثبوت قرآن پاک کی آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے، قرآن پاک میں اعمال کے برباد کرنے کے لیے حبط عمل کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، یہاں ہم 5 ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں جو نیک اعمال کو برباد کر دیتے ہیں تاکہ لوگ ان سے بچیں اور اپنے اعمال کو برباد ہونے سے بچائیں، جن کا تذکرہ آیات قرآنیہ میں ہے؛

1۔کفر و شرک:چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْؕ-هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠(۱۴۷) (پ 9، الاعراف: 147) ترجمہ کنز العرفان: اور جنہوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے تمام اعمال برباد ہوئے انہیں ان کے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔

2۔مرتد ہونا: چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ٘-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۠(۵) (پ 6، المائدۃ: 5) ترجمہ کنز العرفان: اور جو ایمان سے پھر کر کافر ہوجائے تو اس کا ہر عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا۔

3۔نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں آواز بلند کرنا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

4۔صدقہ دے کر احسان جتانا اور تکلیف پہنچانا: چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-(البقرۃ: 264) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کر دو۔

5۔ نیک اعمال کے ذریعے دنیا طلب کرنا: مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۶) (ہود: 15-16) ترجمہ کنز العرفان: جو دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہو تو ہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہو گیا اور ان کے اعمال باطل ہیں۔


انسان اللہ پاک کی تخلیق کا شہکار ہے اور یہ تخلیق عبث و بیکار نہیں ہے، جیسا کہ آیت مبارکہ ہے: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) (المؤمنون:115) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔ بلکہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) (الذٰریٰت:56) ترجمہ کنز الایمان: اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں۔ چونکہ مقصدِ تخلیق عبادتِ الٰہی ہے اور یہ عبادت اللہ پاک کے اوامر و نواہی کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے کہ جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لایا جائے اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہا جائے۔ ممنوع اعمال میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کا ارتکاب اعمال حسنہ کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ ان میں سے 5 کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

1۔ بارگاہ رسالت میں آواز بلند کرنا بھی بربادیِ اعمال کی ایک وجہ ہے جس کو اللہ پاک نے سورۃ الحجرات میں بیان فرمایا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسا ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ صراط الجنان میں ہے:بارگاہ رسالت میں ایسی آواز بلند کرنا منع ہے جو آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے برخلاف ہے اور بے ادبی کے زمرے میں داخل ہے اور اگر اس سے بے ادبی اور تو ہین کی نیت ہو تو یہ کفر ہے۔(صراط الجنان، 9/404)

2۔انہیں اعمال میں سے ایک غیبت ہے جو کہ نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں غیبت کرنے والے کی نیکیاں جس کی غیبت کی گئی اس کے نامۂ اعمال میں داخل کی جائیں گی، جیسا کہ سورہ حجرات میں ہے: وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں امام غزالی کا قول نقل ہے: جس کی غیبت کی وہ مر گیا یا غائب ہو گیا اس سے کیونکر معافی مانگے، یہ معاملہ بہت دشوار ہو گیا اس کو چاہیے کہ نیک کام کی کثرت کرے تاکہ اگر اس کی نیکیاں غیبت کے بدلے میں اسے دے دی جائیں تو اس کے پاس نیکیاں باقی رہ جائیں۔ (صراط الجنان، 9/443)

3۔اعمال کو برباد کرنے والا ایک عمل احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر صدقات کا ثواب باطل کرنا بھی ہے جس کی تصدیق اس آیت مبارکہ سے بھی ہوتی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ- (البقرۃ: 264) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کرو۔

4۔چوتھا عمل شرک ہے جو نیک اعمال کو برباد کرنے والے اعمال میں سے سب سے زیادہ برا اور خطرناک ہے۔ یہ ایسا گناہ ہے جو سب اعمال حسنہ کو کھا جاتا ہے اور اس کی بخشش نہیں، جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ- (النساء: 48) ترجمہ کنز الایمان: بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔

5۔ ان میں سے سے ایک حسد بھی ہے جو نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو کھا کر راکھ بنا دیتی ہے، جیسا کہ ابو داؤد شریف کی حدیث ہے: اِيَّاكُمْ وَالْحَسَد فَاِنَّ الْحَسَدَ يَاْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَاْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ترجمہ: حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ (ابو داود، 4/360، حدیث: 4903)


ایک مسلمان کے دل میں نیکیاں کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے، لیکن نیکیوں کے اس جذبہ کے ساتھ کچھ ایسے افعال بھی اس سے سرزد ہو رہے ہوتے ہیں جو اس کے نیک اعمال کو برباد کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ہماری اس کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔یہاں چند ایسے اعمال بیان کئے جائیں گے جو ہمارے نیک اعمال کو بربا د کر دیتے ہیں، چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-(البقرۃ: 264) اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف دے کر اپنے صدقات باطل نہ کرو۔ صدقہ کرنا اچھا عمل ہے لیکن اگر اس کے ساتھ سامنے والے پر احسان جتایا جائے یا بار بار اس کو یاد دلا کر تکلیف دی جائے تو صدقہ باطل ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ حدیث مبارکہ میں حسد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: حسد سے دور رہو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔ (ابو داود، 4/360، حدیث: 4903)

اس کے علاوہ حُبِّ مدح (یعنی لوگوں کی طرف سے کسی عمل پر کی جانے والی تعریف) کی تمنا بھی ایسا عمل ہے جو نیک عمل کو برباد کر دیتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: اللہ پاک کی عبادت کو لوگوں کی زبانوں سے اپنی تعریف پسند کرنے کے ساتھ ملانے سے بچو ایسا نہ ہو کہ تمہارے عمل برباد ہوجائیں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات) یقینا اللہ پاک کی عبادت کو لوگوں کی حقیر تعریف کے بدلے ضائع کرنا بے وقوفی ہے۔ اللہ پاک ہمیں حب مدح سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس کے علاوہ طلبِ شہرت کے لیے عمل کر نا بھی ہمارے نیک اعمال کو برباد کر دیتا ہے، حدیث مبارکہ میں ہے:جو شہرت کے لیے عمل کرے گا اللہ اسے رسوا کرے گا جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات)

نفسانی خواہشات کی پیروی بھی انسان کو بربادی عمل کی طرف لے جاتی ہے، حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ تین چیزیں ہلاکت میں ڈال دیتی ہیں: حرص و طمع، نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا، اپنے آپ پر فخر کرنا۔

اللہ پاک ہمیں ان اعمال سے بچ کر نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


1۔ مہنگائی کی تمنا کرنا: سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا:جو میری امت پر ایک رات مہنگائی ہونے کی تمنا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے 40 سال کے نیک اعمال کو برباد کر دے گا۔(کنز العمال، 40/204، حدیث: 9717) حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: ظاہر یہ ہے کہ اس فرمان عالیشان کا مقصود اس کام سے نفرت دلانا اور اس سےڈرانا ہے حقیقت میں اعمال کا ضائع ہونا مراد نہیں۔(فیض القدیر، تحت الحدیث:8604)

2۔ عجب و خود پسندی: خاتم المرسلین ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: خود پسندی 70 سال کے اعمال کو برباد کر دیتی ہے۔(جامع صغیر، ص 127، حدیث: 2074) حضرت علامہ مولانا عبد الرؤف مناوی اس حدیث پاک کے تحت تحریر فرماتے ہیں: 70 سال سے مراد کثیر عرصہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خود پسندی کا شکار شخص اپنے عمل کو زیادہ اور اچھا سمجھتا ہے اور اس کی طرح ہو جاتا ہے جسے نظر لگ جائے اور وہ ہلاک ہو جائے، اسی لیے دانا کا قول ہے کہ خود پسندی عمل کو نظر لگنے کا نام ہے۔ خود پسندی کی ایک تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ نعمت کو بڑا سمجھنا لیکن اس کی نسبت نعمت دینے والے کی طرف نہ کرنا۔(فیض القدیر، 2/475، تحت الحدیث: 2074)

3۔ بے صبری: سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے مصیبت کے وقت ہاتھ مارا اس کا عمل ضائع ہوا۔(بحر الفوائد، ص 163) اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد شیخ ابو بکر ابراہیم بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: عمل کے ضائع ہونے سے عمل کا ثواب ضائع ہونا مراد ہے اسی طرح مصیبت میں صبر کرنے کا ثواب ضائع ہونا مراد ہے، مصیبت کے وقت ہاتھ مارنا بے برداشت ہونا ہے اور جس نے مصیبت کو برداشت نہ کیا وہ ثواب کا مستحق نہ ہوگا اور بے صبری مصیبت پر ملنے والے ثواب کو ختم کر دیتی ہے، جس کے عمل کا ثواب ضائع ہو جائے تو اس کا عمل بھی ضائع ہو جاتا ہے۔(بحر الفوائد، ص 163)

4۔ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا: صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا مکروہ ہے مسجد میں کلام کرنا نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی ہے، یہ جائز کلام کے متعلق ہے نا جائز کلام کا کیا پوچھنا۔(بہار شریعت، 3/499) بزرگان دین مسجد میں مباح یعنی جائز دنیوی بات چیت بھی نہیں کیا کرتے تھے، حضرت خلف بن ایوب رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ مسجد میں موجود تھے کسی نے ان سے کوئی بات پوچھی تو پہلے انہوں نے اپنا سر مسجد سے باہر نکالا پھر اس کی بات کا جواب دیا۔(فیض القدیر، 6/349، تحت الحدیث: 9253)

5۔ غیبت: غیبت بھی ان گناہوں میں سے ہے جن کی وجہ سے نیکیاں ضائع ہوتی ہیں۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: غیبت نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو۔(شرح ابن بطال، 9/245)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں: آگ بھی خشک لکڑیوں کو اتنی جلدی نہیں جلاتی جتنی جلدی غیبت بندے کی نیکیوں کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔(احیاء علوم الدین، 3/183)

رسول بے مثال ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک قیامت کے روز انسان کے پاس اس کا کھلا ہوا نامۂ اعمال لایا جائے گا وہ کہے گا: میں نے جو فلاں فلاں نیکیاں کی تھیں وہ کہاں گئیں؟ کہا جائے گا تو نے جو غیبتیں کی تھیں اس وجہ سے مٹا دی گئیں۔(الترغیب و الترہیب، 3/332،حدیث: 30)


لائبریری لاطینی زبان ”لائبر“ سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہے کتاب، سادہ الفاظ میں یوں سمجھیے کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں معلوماتی مواد کا کثیر مجموعہ ہو، جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں کا مجموعہ ہو، جہاں سے ہم اپنے علم کی پیاس بجھا سکیں۔ عربی میں اس کے لیے مکتبہ، خزانۃ الکتب اور دار الکتب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

جس جگہ یا گھر ہم رہتے ہیں ہم وہاں ضرورت کی ہر چیز مہیا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اسی طرح دینی لائبریری ہمارے دین کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے، جب دین کی معلومات ہمیں گھر سے ہی میسر ہو جائے گی تو پھر ہم دین سے سیر ہو کر گھر سے نکلیں گے۔ علم کا چراغ لے کر نکلیں گے تو روشنی چار سو پھیلے گی، اس لیے اس پر فتن دور میں ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے دینی سرمایہ کاری یعنی لائبریری کی ضرورت ہے۔ آئیں اب اس کی اہمیت و ضرورت کو مختلف نکات سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اہمیت: لائبریری علم و فکر اور تعلیم و تعلم کا مظہر اور مرکز ہے۔کتب جہالت سے علم اور ظلمت سے نور کی طرف لے جانے والی ہیں، کسی بھی قوم کو کسی بھی میدان میں اپنے علمی تجربات سے پہلے نظریات، اصول اور آئیڈیاز جاننے کی ضرورت ہوتی ہے جن کی ترویج و اشاعت لائبریریز کرتی ہیں۔

لائبریری کی اہمیت و افادیت کو ہر مہذب قوم تسلیم کرتی ہیں، اہلِ علم کسی ملک میں پائی جانے والی لائبریریز کو اس ملک کی ثقافتی تعلیمی اور صنعتی ترقی کا راز سمجھنے کے ساتھ ساتھ قومی ورثہ بھی قرار دیتے ہیں، اگر کسی قوم کی ترقی کو دیکھنا ہو تو وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھ لیا جائے، لائبریریز جتنی مضبوط ہوں گی تعلیم اتنی اعلیٰ ہوگی، اسی طرح جس گھر میں لائبریری ہوگی اس گھر سے علم، ادب، تہذیب، شائستگی، پاکیزگی کی خوشبوئیں پورے محلے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوں گی۔

ضرورت: کتاب کی ضرورت و اہمیت سے کسی بھی ذی شعور کہاں و انکار نہیں، کتاب پڑھنے سے جہاں ذہن کھلتا ہے وہیں یہ کتاب زندگی کے نشیب و فراز میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، کتابیں تنہائی کی بہترین ساتھی ہیں جس طرح اچھے لفظ مرہم کا اور برے الفاظ زخم کا جادو رکھتے ہیں اسی طرح اچھی کتابیں ہمیں نکھارنے کا اور بری کتابیں ہماری ذہنیت کو گرانے کا جادو رکھتی ہیں، اس لیے گھر میں لائبریری کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں پر ایک سوال ہمارے ذہنوں میں آتا ہے کہ جب جدید ٹیکنالوجی نے ہمارے لیے ہر چیز کو آسان کر دیا انگلی کے کلک کی دیری ہے سرچنگ کے آسان آپشن پر ہر طرح کی کتاب موجود ہے تو پھر گھروں میں لائبریری کی کیوں ضرورت ہے؟ تو یاد رہے! جہاں کتاب اور استاد کی تعلیمی ادارے کو سخت ضرورت ہوتی ہے وہیں لائبریری کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ ٹیبلیٹ یا موبائل سے پڑھنے کی نسبت کتاب سے پڑھی گئی تحریر جلد سمجھ آجاتی ہے اور یاد بھی دیر تک رہتی ہے، ماہر نفسیات کے مطابق جب ہم کوئی چیز پڑھتے ہیں تو ہمارا ذہن متواتر اس کا موازنہ کرتا ہے اور اسی کے مطابق نقوش کھینچ لیتا ہے جو کہ مستقبل کے لیے ہمیں یاد رہتا ہے بنسبت اسکرین کے پڑھنے سے کتاب سے پڑھنے والے الفاظ کی نقشہ سازی نہایت واضح ہوتی ہے اسی وجہ سے اسکرین پر ریڈنگ کی نسبت کتب کی ریڈنگ اپنا مضبوط وجود رکھتی ہے اسی لیے دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کے با وجود ترقی یافتہ ممالک میں لائبریریز کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔

افادیت: دنیا میں کون سے ایسے والدین ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد دینی و دنیوی معلومات میں آگے بڑھیں یقینا ایسا کوئی نہیں تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اپنا زیادہ سے زیادہ وقت تعلیمی سرگرمیوں میں گزارے، اس خواہش کی تکمیل کےلیے گھر میں ایک پرسکون و دلکش اور خوبصورت لائبریری کا ہونا بہت مفید ہے جس میں دینی اور دنیوی معلومات ہو جو اخلاقی مواد پر مشتمل ہو ایسی معتبر کتابیں اس میں موجود ہوں جو غیر اخلاقی مواد سے پاک ہوں، گھر میں لائبریری بچوں کی ذہنی نشو و نما اور استعداد میں اضافہ کرنے کا باعث بنتی ہے، کم عمری میں کتب سے آشنائی ہو جائے تو طویل مدتی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں، گھر میں لائبریری کا اثر ایسا ہے جیسے بچوں نے کئی سال کی اضافی تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔ جو بچے گھریلو لائبریری میں پلے بڑھے ہوں ان کا علم اپنے ہم عمر بچوں سے زیادہ ہوتا ہے، گھر میں لائبریری سے بچوں میں علم سے دوستی اور سیکھنے کا رجحان پروان چڑھتا ہے، گھر میں لائبریری ہماری ذہنی و فکری نشو و نما کے ساتھ ساتھ ہمیں بری صحبت سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔کسی دانشور نے کہا تھا کہ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو زندہ لوگوں کا قبرستا ن ہے۔

وہ والدین جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو گھر کی لائبریری کے خاطر خواہ فوائد پہنچیں وہ گھر میں زیادہ سے زیادہ کتابیں رکھیں۔

المدینہ لائبریری اور امیر اہلسنت: محترم قارئین! شیخ طریقت امیر اہل سنت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: دینی کتب کا مطالعہ اپنی عادت بنا لیجیے ان شاء اللہ آپ کی نسلوں کو فائدہ ہوگا۔


لائبریری لاطینی زبان کا لفظ ہے جو ”لائبر“ سے بنا ہے اس کا معنیٰ ہے کتاب، مطلب یہ کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جاتا ہے۔اردو اور فارسی میں اس کے لیے کتب خانہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہےجبکہ عربی زبان میں مکتبہ، خزانۃ الکتب اور دار الکتب کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔دراصل لائبریری وہ عظیم مقام ہے جہاں کئی سالوں کا فکری اور علمی خزانہ اور سینکڑوں اہلِ علم و دانش کی عرق ریزیوں (کاوشوں) کا ثمرہ جمع ہوتا ہے۔

لائبریری کی اہمیت و ضرورت: لائبریری علم و فکر اور تعلیم و تعلم کا مظہر اور مرکز ہے۔ لائبریری کی اہمیت و افادیت کو قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو اس ملک کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں اور اگر تعلیمی اداروں کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو وہاں کی لائبریریز کا جائزہ لیا جائے۔ جہاں لائبریری آباد ہوں گی وہاں کے تعلیمی ادارے اتنے ہی فعال و سرگرم ہوں گے، جس کا لازمی نتیجہ ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کا حصول ہے، کتاب کی ضرورت و اہمیت سے کسی بھی عقلمند اور ذی شعور کو انکار نہیں، کتاب پڑھنے سے جہاں ذہن کو وسعت ملتی ہے وہیں فکر و خیال بھی نکھرتے ہیں اور یہی کتاب زندگی کے نشیب و فراز کی بہترین معاون ہوتی ہے، مگر یہ سب کتابیں مہذب اور دینی ہوں غیر معیاری اور فحش مواد پر مشتمل نہ ہوں۔

گھر میں لائبریری کی افادیت:دنیا میں تمام والدین کی ہی یہ خواہش ہے کہ ان کے بچوں کا زیادہ سے زیادہ وقت علمی سرگرمیوں میں گزرے اس خواہش کی تکمیل کے لیے گھر میں دلکش و خوبصورت اور پر سکون لائبریری کا ہونا انتہائی ضروری ہے، گھر میں موجود لائبریری بچوں کی علمی و فکری اور ذہنی استعداد (صلاحیت) کو بڑھانے میں بہت معاون ہے، گھر میں موجود لائبریری بچوں کی اخلاقی و نظریاتی تربیت کرنے میں بھی بہت اہمیت رکھتی ہے، گھریلو لائبریری کی وجہ سے بچوں میں سیکھنے سکھانے کا شوق بڑھتا ہے اور مطالعہ کا ذوق پروان چڑھتا ہے، کم عمری میں کتابوں سے دوستی ہو جائے تو س کے اثرات طویل مدت تک قائم رہتے ہیں، مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ گھریلو لائبریری میں پلنے والے بچے علمی معیار میں ان بچوں سے بلند و برتر ہوتے ہیں جو گھر میں کتب بینی سے محروم ہوتے ہیں، گھر میں موجود لائبریری کا اثر ایسا ہے جیسے کئی سالوں کی اضافی تعلیم حاصل کی ہو، گھریلو لائبریری کی وجہ سے وقت کے غلط استعمال اور ضیاع سے بھی بچت ہوتی ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: دینی کتب کا مطالعہ اپنی عادت بنا لیجیے ان شاء اللہ آپ کی نسلوں کو فائدہ ہوگا۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں میں کم عمری میں شوقِ مطالعہ پیدا کرنے اور ان کی علمی و فکری تربیت کےلیے گھر میں المدینہ لائبریری بنائیں جس میں مکتبۃ المدینہ سے شائع ہونے والی کتب و رسائل سجائیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گھر ویرانے سے بدتر ہے جس میں اچھی کتابیں نہ ہوں۔یہ کتب ایسی دوست ہیں جو کبھی رنجیدہ نہیں کرتیں کبھی کچھ طلب نہیں کرتیں، ان دوستوں کی رائے ہمیشہ صائب یعنی درست، نیک اور سراسر بے غرضی پہ مبنی ہوتی ہے، ان دوستوں کی قدر کرو ان سے فائدہ اٹھاؤ اور ان کے آفتا بِ علم سے روشنی حاصل کر لو۔

منقول ہے: کتابیں ایسے بزرگوں کے مدفن ہیں جو مرنے کے بعد بھی نہیں مرتے، لہٰذا ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی علمی فکر نظریات تعلیم و تربیت کے لیے گھر میں لائبریری بنا کر استفادہ کرنا چاہیے۔ المدینہ لائبریری میں پیارے مرشد کی طرف سے ملنے والا ہر ہفتے کا رسالہ، ماہنامہ فیضان مدینہ اور بچوں کے ذوق کے مطابق مکتبۃ المدینہ سے شائع ہونے والی دیگر کتب و رسائل رکھنے چاہئیں، کیونکہ کتب خانہ وہ گلستان شاداب ہے جہاں دنیا کے کاملین و عارفین کی روحیں بقائے دوام حاصل کرنے کے بعد جمع ہیں، ان بزرگوں کی صحبت اور ان کے چراغِ علم سے دل و دماغ کو معطر و معنبر کرنے کے لیے گھر میں دینی کتب کا ذخیرہ ہونا ضروری ہے۔

اللہ پاک ہمیں شب و روز تحصیلِ علمِ دین میں مگن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔