موبائل کمپنی سے ایڈوانس بیلنس حاصل کرنا کیسا؟
موبائل کمپنی سے ایڈوانس بیلنس حاصل کرنا کیسا؟
کیا فرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ موبائل کمپنیاں مختلف
قسم کے پیکجز دیتی رہتی ہیں تاکہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں، ان ہی میں سے ایک پیکیج
لون(Loan) کا بھی ہے۔ اس کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ اگر
آپ کے پاس بیلنس ختم ہوگیاہے تو کمپنی یہ آفر کرتی ہے کہ آپ لون لے لیں پھر جب آپ
موبائل میں بیلنس ڈلوائیں گے تو ہم نے جتنے دئیے ہیں وہ اور اتنے اوپر مزید کاٹ
لیں گے اور یہ بات کسٹمر کو معلوم ہوتی ہے اور کسٹمر راضی ہوکر لَون لیتا ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس میں زیادہ پیسے کاٹنا شرعاً جائز ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں
یہ سود ہے کیا یہ بات درست ہے ؟
الجواب بعون
الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
مذکورہ
معاملہ ہرگز سود نہیں بلکہ ایک جائز طریقہ ہے کیونکہ یہ اجارہ ہے قرض نہیں کہ یہاں
کمپنی سے پیسے وصول نہیں کئے جارہے بلکہ اس کی سروس استعمال کی جارہی ہے۔ عمومی
طور پر کمپنی پہلے پیسے لے لیتی ہے اور پھر سروس فراہم کرتی ہے جبکہ پوچھی گئی
صورت میں کمپنی پہلے سروس فراہم کررہی ہے اور پھر پیسے وصول کررہی ہے اور یہ دونوں
طریقے جائز ہیں یعنی منفعت فراہم کرنے سے
پہلے عوض لے لینا بھی درست ہے اور منفعت فراہم کرنے کے بعد عوض لینایہ بھی درست
ہے۔ اگرچہ پہلی صورت میں عوض کم وصول کیا جارہا ہے اور دوسری صورت میں عوض زیادہ
لیا جارہا ہے اور کمپنی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ پیشگی سروس عام ریٹ سے ہٹ
کر کچھ زیادہ قیمت پر فراہم کرے جیسے نقد و اُدھار کی قیمتوں میں فرق کرنا جائز
ہوتا ہے نیز صارف کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ بعد میں ادائیگی کی صورت میں یہ سروس
مجھے عام قیمت سے ہٹ کر کچھ زیادہ قیمت پر فراہم کی جائے گی اور وہ اس بات پر راضی
ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سہولت کو لون
(Loan) کا نام نہ دیا جائے کیونکہ اس سے یہ شبہ لاحق ہوتا ہے کہ کمپنی
قرض دے کر اس پر نفع وصول کررہی ہے اور بعض لوگوں نے اسے سود سمجھ بھی لیا حالانکہ
اس کو سود سمجھنا غلط ہے کیونکہ کمپنی یہاں پیسے نہیں بلکہ سروس دے رہی ہے۔
تنویر
الابصار میں ہے : ’’ تملیک نفع بعوض‘‘یعنی
کسی شے کے نفع کا عوض کے بدلے مالک بنادینا اجارہ ہے۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار،9/32 مطبوعہ کوئٹہ)
ہدایہ میں
ہے: ’’تستحق باحدی معانی
ثلاثۃ اما بشرط التعجیل او بالتعجیل من غیر شرط او باستیفاء المعقود علیہ‘‘ یعنی تین میں سے ایک صورت کے پائے جانے سے مؤجر اجرت کا مستحق ہوگا،
پہلے دینے کی شرط کرلے، یا بغیر شرط کے پہلے اجرت وصول کرلے یامستاجر، اجارہ پر لی
گئی چیز سے فائدہ اُٹھالے۔ (ہدایہ،3/297
مطبوعہ کراچی)
امام کمال الدین ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں:’’الثمن علی تقدیر النقد الفا وعلی تقدیر النسیئۃ
الفین لیس فی معنی الربا‘‘ ترجمہ: نقد کی صورت میں ثمن ایک
ہزار ہونا اور اُدھار کی صورت میں دوہزار ہونا سود کے حکم میں نہیں۔(فتح القدیر،6/81 مطبوعہ کوئٹہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ
فریاد
اللہ ربّ العزّت کی بے شمار و
بے حساب نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت سُواری بھی ہے جس کے ذَریعے ہم مہینوں
کا سفر دِنوں،دِنوں کا سفر گھنٹوں اور گھنٹوں کا سفر مِنٹوں میں طے کر کے اپنی
منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اِس نعمت کا ذِکر اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر فرمایا ہے۔ پارہ 14سورۃُ النحل کی
آیت نمبر 8 کے تحت تفسیر صِراطُ الجنان میں ہے:اِس میں وہ تمام چیزیں آگئیں جو
آدَمی کے فائدے، راحت و آرام اور آسائِش کے کام آتی ہیں اور وہ اس وقت تک موجود
نہیں ہوئی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کو ان
کا آئندہ پیدا کرنا منظور تھا جیسے کہ بَحْری جہاز، ریل گاڑیاں، کاریں، بسیں، ہوائی
جہاز اور اِس طرح کی ہزاروں، لاکھوں سائنسی ایجادات۔ اور ابھی آئندہ زمانے میں نہ
جانے کیا کیا اِیجاد ہوگا لیکن جو بھی اِیجاد ہوگا وہ اِس آیت میں داخِل ہو گا۔ (صراط الجنان،5/285)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دورانِ سفر
بَسااوقات آزمائِش کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مثلاً ٹریفک کا جام ہو جانا، ڈرائیورکا گاڑی بالکل آہستہ
چلانا،گاڑی خراب یا پنکچر ہو جانا،گاڑی کا وقت پر نہ ملنا،بس وغیرہ میں بیٹھنے کے
لئے سیٹ نہ ملنا اور گاڑی کا حَادِثہ (Accident) وغیرہ ہوجانا،بار بار سگنل بند ملنا،یہ سب ایسے اُمُور
ہیں جن سے عُموماً ہر ایک کا وَاسِطہ پڑتا ہے۔ ایسے مَواقع پر اَوْل فَول بکنے،آپے
سے باہر ہوجانے اور بے صبری کا مُظاہَرہ کرنے کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ بے صبری سے نہ تو نظام
بہتر ہوجائے گا اور نہ ہی رکی ٹریفک چلنا شروع ہوجائے گی اور سگنل بند ہونے کی
صورت میں جلدبازی کرنا اور سگنل توڑنا قانوناً اور شرعاً منع ہے کہ پکڑے جانے کی
صورت میں رشوت دینے یابےعزّتی ہونے کا شدید اندیشہ ہے، لہٰذا ایسے مواقع پر صَبر کا دامن تھامے رہنا ہی عقلمندی
ہے۔ صبر کے بارے میں فرمانِ
مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے:جو صَبر کرنا چاہے گا اللہپاک اُسے صَبر کی توفیق عطا فرما دے گا اور صَبر سے
بہتر اور وُسعت والی عطا کسی پر نہیں کی گئی۔ (مسلم،ص406، حدیث:2424)
بعض لوگ تو ٹریفک جام ہونے پر اپنے پیارے وطن
پاکستان ہی کو کوسنا شروع کردیتے ہیں، یادرکھئے! یہ پیارا وطن یونہی بنا بنایا
تحفے میں نہیں مل گیا ، اس کی آزادی کے لئے طویل جدوجہد ہوئی ہے اوربے شمار
مسلمانوں کی جانیں قربان ہوئی ہیں، اس لئے ایسے مَواقِع پر خاموشی اختیار کرنا اور غصے کا اظہار نہ کرنا بھی اپنے وطن
سے مَحبّت کا تقاضا ہے اوراپنے وطن اور
شہر سے محبت کرنا اور اُلفت رکھنا صالحین اور اللہ والوں کا
طریقہ ہے۔یاد رکھئے یہ مصیبتیں اور پریشانیاں بَسااوقات مومن کے لئے رَحمت ہوا کرتی ہیں جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مسلمان کو مَرَض،پریشانی،رَنج،اَذِیَّت
اورغم میں سے جو مصیبت پہنچتی ہے یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہپاک اُسے اُس کے گناہوں کا کَفّارہ بنا دیتا ہے۔(بخاری،4/3، حدیث:5641)
مىرى تمام عاشقانِ رَسُول سے فرىاد ہے کہ جہاں ٹریفک جام یا گاڑی وغیرہ خَراب ہو جانے کی وجہ سے اِنتظار کرنا پڑے تو ممکنہ طور پر ذِکر و دُرُود میں اپنا وقت صَرْف کریں، گاڑی میں سُنَّتوں بھرے بیان کی کیسٹ لگاکر سُننے کی تَرکیب بنا لیں۔اِس طرح اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ صَبر کرنے کے ساتھ ساتھ علمِ دین کا خزانہ بھی ہاتھ آئے گا۔
گاہک سوٹ سینے کے لئے د ے جائے لیکن واپس نہ آئے تو درزی کیا کر ے؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
میری درزی کی دکان ہے ۔بعض اوقات ہمیں گاہک سوٹ سلائی کروانے کے لئے دے کر چلے
جاتے ہیں پھر واپس لینے نہیں آتے اور اس طرح دودو، تین تین سال گزرجاتے ہیں۔
ہمارے لئے شریعت کا کیا حکم ہے جبکہ اس میں ہماری محنت بھی ہے اور اخراجات بھی ؟
الجواب
بعون الملک الوھاب اللھم
ھدایۃ
الحق والصواب
پوچھی گئی صورت میں آپ اجیر مشترک ہیں اور اجیر مشترک کے پاس جو لوگ کام
لے کر آتے ہیں اس کی شرعی حیثیت امانت اور ودیعت کی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ جب تک
اس چیزکا مالک نہیں آتا اس کی حفاظت کریں،اسے بیچنے یا صدقہ کرنے کی ہرگز اجازت
نہیں۔ نیز اسے اپنی اجرت میں شمارکرنا بھی آپ کے لئے جائز نہیں کیونکہ اجرت کے
مستحق ہونے کے لئے اس چیز کا مالک کو سپرد کرنا ضروری ہے تو جب تک مالک نہ آجائے
اور وہ چیز اسے دے نہ دیں کچھ وصول نہیں کرسکتے۔ مشورہ:ہر آنے والے گاہک سے اس کا
ایڈرس اور فون نمبر ضرور معلوم کرلیا کریں تاکہ وقت ضرورت رابطہ کیا جاسکے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ
موبائل کمپنی سے ایڈوانس بیلنس حاصل کرنا کیسا؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ موبائل
کمپنیاں مختلف قسم کے پیکجز دیتی رہتی ہیں تاکہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں، ان ہی میں
سے ایک پیکیج لون(Loan) کا بھی ہے۔ اس کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ اگر
آپ کے پاس بیلنس ختم ہوگیاہے تو کمپنی یہ آفر کرتی ہے کہ آپ لون لے لیں پھر جب آپ
موبائل میں بیلنس ڈلوائیں گے تو ہم نے جتنے دئیے ہیں وہ اور اتنے اوپر مزید کاٹ
لیں گے اور یہ بات کسٹمر کو معلوم ہوتی ہے اور کسٹمر راضی ہوکر لَون لیتا ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس میں زیادہ پیسے کاٹنا شرعاً جائز ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں
یہ سود ہے کیا یہ بات درست ہے ؟
الجواب
بعون الملک الوھاب اللھم
ھدایۃ
الحق والصواب
مذکورہ معاملہ ہرگز سود نہیں بلکہ ایک جائز طریقہ ہے کیونکہ یہ اجارہ ہے
قرض نہیں کہ یہاں کمپنی سے پیسے وصول نہیں کئے جارہے بلکہ اس کی سروس استعمال کی
جارہی ہے۔ عمومی طور پر کمپنی پہلے پیسے لے لیتی ہے اور پھر سروس فراہم کرتی ہے
جبکہ پوچھی گئی صورت میں کمپنی پہلے سروس فراہم کررہی ہے اور پھر پیسے وصول کررہی
ہے اور یہ دونوں طریقے جائز ہیں یعنی منفعت فراہم کرنے سے پہلے عوض لے لینا بھی درست ہے اور منفعت
فراہم کرنے کے بعد عوض لینایہ بھی درست ہے۔ اگرچہ پہلی صورت میں عوض کم وصول کیا
جارہا ہے اور دوسری صورت میں عوض زیادہ لیا جارہا ہے اور کمپنی کو اس بات کا حق
حاصل ہے کہ وہ پیشگی سروس عام ریٹ سے ہٹ کر کچھ زیادہ قیمت پر فراہم کرے جیسے نقد
و اُدھار کی قیمتوں میں فرق کرنا جائز ہوتا ہے نیز صارف کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ
بعد میں ادائیگی کی صورت میں یہ سروس مجھے عام قیمت سے ہٹ کر کچھ زیادہ قیمت پر
فراہم کی جائے گی اور وہ اس بات پر راضی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سہولت
کو لون (Loan) کا نام نہ دیا جائے کیونکہ اس سے یہ شبہ
لاحق ہوتا ہے کہ کمپنی قرض دے کر اس پر نفع وصول کررہی ہے اور بعض لوگوں نے اسے
سود سمجھ بھی لیا حالانکہ اس کو سود سمجھنا غلط ہے کیونکہ کمپنی یہاں پیسے نہیں
بلکہ سروس دے رہی ہے۔
تنویر الابصار میں ہے : ’’
تملیک نفع بعوض‘‘یعنی کسی شے کے نفع کا عوض کے بدلے مالک
بنادینا اجارہ ہے۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار،9/32 مطبوعہ
کوئٹہ)
ہدایہ میں ہے: ’’تستحق
باحدی معانی ثلاثۃ اما بشرط التعجیل او بالتعجیل من غیر شرط او باستیفاء المعقود
علیہ‘‘ یعنی تین میں سے ایک صورت کے پائے جانے سے مؤجر اجرت
کا مستحق ہوگا، پہلے دینے کی شرط کرلے، یا بغیر شرط کے پہلے اجرت وصول کرلے
یامستاجر، اجارہ پر لی گئی چیز سے فائدہ اُٹھالے۔ (ہدایہ،3/297 مطبوعہ کراچی)
امام کمال الدین ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں:’’الثمن علی تقدیر النقد الفا وعلی تقدیر
النسیئۃ الفین لیس فی معنی الربا‘‘ ترجمہ: نقد کی صورت میں
ثمن ایک ہزار ہونا اور اُدھار کی صورت میں دوہزار ہونا سود کے حکم میں نہیں۔(فتح القدیر،6/81 مطبوعہ کوئٹہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ
رسم و رَواج
شادی میں دیے جانے والے نیوتا کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے خاندان میں ولیمہ وغیرہ دعوتوں کے مواقع پر کچھ نہ کچھ پیسے دیئے جاتے ہیں اور نیت یہ ہوتی ہے کہ جب ہمارے ہاں شادی وغیرہ ہوگی تو یہ کچھ زیادتی کے ساتھ ہمیں مل جائیں گے مثلاً 1000 ہم نے دیا ہے تو یہ 1500 دیں گے اور ہم اگلی بار اس سے بھی کچھ زیادہ دیں گے، یہ باقاعدہ رجسٹر پر لکھا بھی جاتا ہے، اگر بالکل ہی وہ نہ دے تو ناراضگی کا اظہار اور برا بھلا بھی کہا جاتا ہے۔ دریافت طلب امر (پوچھنے کی بات) یہ ہے کہ مذکورہ صورتِ حال میں پہلے کم پیسے دینا پھر زیادہ پیسے لینا اور بالکل ہی نہ دیں تو نا راضگی کا اظہار کرنا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟ سائل:محمد سعید عطاری (مدرس کورس، صدر، باب المدینہ کراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
شادی اور دیگر مواقع پر جو رقم دی جاتی ہے اس کی دو
صورتیں ہیں:(1)جہاں برادری
نظام ہے اور وہ اس رقم کو باقاعدہ لکھتے ہیں کہ کس نے کتنا دیا ہے پھر جب دینے
والے کے گھر کوئی دعوت ہوتی ہے تو یہ اس سے کچھ زیادہ رقم دیتا ہے، یہ بھی اس رقم
کو لکھتا ہے۔ اس رقم کا حکم یہ ہے کہ یہ لینا جائز ہے مگر اس پر ثواب نہیں ملتا
اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے البتہ اس رقم کا واپس کرنا فرض ہے اور اس صورت میں
جس نے بغیر کسی عذرِ شرعی کے وہ رقم واپس نہیں کی، اس سے ناراضگی کا اظہار کرنا
اور اسے برا بھلا کہنا جائز و درست ہے۔ (2)جہاں برادری نظام نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ عقیدت یا دوستی یا خیرخواہی
کی نیت سے دیتے ہیں تو بلا اجازتِ شرعی اس کا مطالبہ کرنا یا نہ دینے پر ناراض
ہونا، اس پر طعن و تشنیع کرنا (برا بھلا کہنا) غلط و باطل ہے۔ مذکورہ حکم کی وجہ یہ ہے کہ جہاں برادری نظام میں اسے لکھ کر
رکھتے ہیں وہاں یہ رقم دوسرے شخص پر قرض ہوتی ہے، پھر جب وہ اس رقم کو لوٹاتا ہے
تو اس پر مزید کچھ قرض چڑھا دیتا ہے مثلاً یہ 1000 روپے دے کر آیا تھا تو وہ اسے
1500 دیتا ہے جس میں 1000 کے ذریعے قرض سے سبکدوش ہوتا ہے اور باقی 500 اس پر مزید
قرض ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ چونکہ یہ رقم لینے والے پر قرض
ہے اس لیے اس کی ادائیگی کرنا فرض ہے اور اگر یہ بلا اجازتِ شرعی ادائیگی میں
کوتاہی کرے گا تو اس پر اظہارِ ناراضگی و مطالبے میں سختی فی نفسہٖ (بذاتِ خود) جائز لیکن عرفاً معیوب (بُرا) اور عموماً دوسرے کثیر گناہوں مثلاً قطع
رحمی (رشتہ
داروں سے تعلق توڑ دینا)
وغیرہ کا ذریعہ بنتی ہے۔
اور جہاں برادری سسٹم نہیں یا
غیربرادری کے لوگ عقیدت یا دوستی
میں دیتے ہیں وہاں یہ رقم ہدیہ و تحفہ ہوتی ہے اور اس کے تمام احکام یہاں بھی جاری
ہوں گے لہٰذامثلاً کسی نے 1000 روپے دئیے اور
اس نے لے کر خرچ کر لیے تو اب دینے والا اس رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور
جب لینے والے پر واپس کرنا ہی ضروری نہیں تو نہ دینے کی وجہ سے اس پر اظہارِ
ناراضگی اور طعن و تشنیع کرنا بہت قبیح (بُرا) اور بری حرکت ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
بہر صورت (ہر حال میں) ہونا یہ چاہیے کہ اس
رسم کو ختم کیا جائے اور صرف رضائے الٰہی پانے کے لیے جس کے ہاں دعوت ہو اسے رقم وغیرہ دی جائے تا کہ ہمیں
اس پر ثواب بھی ملے اور برکت بھی۔ اور
جو یہ چاہتے ہوں کہ ہم اس قرض سے بچ جائیں انہیں چاہیے کہ ابتدا میں ہی لوگوں سے
کہہ دے کہ میں قرض لینا نہیں چاہتا، اگر مجھ سے ممکن ہوا تو میں بھی دینے والے کی
تقریب میں کچھ خرچ کردوں گا۔ اس طرح جو رقم ملے گی وہ قرض نہیں، تحفہ ہوگی
اور بعد میں واپس نہ بھی کی تو اس پر کوئی مواخذہ (بُرا) نہیں۔ اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد
فرماتا ہے)وَمَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّیَرْبُوَا۠ فِیۡۤ
اَمْوٰلِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوۡا عِنۡدَ اللہِ ۚ( ترجمۂ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے
مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی۔(پارہ
21، سورۃ الروم، آیت 39) اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مفتی نعیم
الدین مراد آبادی علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں:”لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست
احباب اور آشناؤں (جاننے والوں) کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے
گا، یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ
عمل خالصاً لِلّٰہ تعالٰی (اللہ کی رضا کے لیے) نہیں ہوا۔“(تفسیر خزائن العرفان،
صفحہ 754، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں: فتاوی خیریہ میں ہے: شادی وغیرہ میں
ایک شخص جو چیزیں دوسرے کو بھیجتا ہے، اس کے بارے میں سوال ہوا کہ کیا ان کا حکم
قرض کی طرح ہے اور اسے ادا کرنا لازم ہے یا نہیں؟ جواب ارشاد فرمایا: اگر عرف یہ
ہو کہ لوگ بدل کے طور پر دیتے ہیں تو ادائیگی لازم ہے، اگر دی جانے والی مثلی ہے
تو اس کی مثل لوٹائے اور قیمتی ہے تو قیمت واپس کرے۔ اور اگر عرف اس کے خلاگ ہو
اور دینے والے یہ چیزیں بطور تحفہ دیتے ہوں نیز اس کے بدلے میں ملنے والی چیز کی
طرف ان کی نظر نہ ہوتی ہو تو یہ تمام احکام میں ہبہ (تحفے کے طور پر دی گئی چیز) کی طرح ہے لہٰذا اس چیز کے ہلاک ہونے یا
اس کو ہلاک کرنے کے بعد رجوع نہیں ہوسکے گا (یعنی اسے واپس نہیں لوٹایا جاسکے
گا)۔ اور اس معاملے میں اصل
یہ ہے کہ جو معہود (ذہن میں طے) ہوتا ہے
وہ مشروط کی طرح ہی ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ عرف ہمارے شہروں میں بھی پایا
جاتا ہے، ہاں بعض علاقوں میں لوگ اسے قرض شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ ہر دعوت میں وہ
ایک لکھنے والے کو بلاتے ہیں جو انہیں ملنے والی چیزیں لکھتا ہے اور جب دینے والا
کوئی دعوت کرتا ہے تو وہ اسی لکھے ہوئے کی طرف مراجعت کرتا (دیکھتا) ہے اور پہلا دوسرے کو اسی طرح کی چیز دیتا ہے جیسی
اس نے دی تھی۔(ردالمحتار، کتاب الہبہ، جلد8، صفحہ 583، کوئٹہ) سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے
ہیں:”نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ
268، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیالاہور) ایک اور مقام پر آپ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:”اب جو نیوتا جاتا ہے وہ قرض
ہے، اس کا ادا کرنا لازم ہے، اگر رہ گیا تو مطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کئے
معاف نہ ہوگا والمسئلۃ فی الفتاوی الخیریۃ (اور یہ مسئلہ فتاوی خیریہ میں ہے۔) چارہ کار (بچنے کی صورت) یہ ہے کہ لانے والوں سے پہلے صاف کہہ دے کہ جو صاحب
بطورِ امداد عنایت فرمائیں، مضائقہ نہیں مجھ سے ممکن ہوا تو اُن کی تقریب میں
امداد کروں گا لیکن میں قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گا وہ اس کے
ذمّہ قرض نہ ہوگا ہدیہ ہے جس کا بدلہ ہوگیا فبہا، نہ ہوا تو مطالبہ نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ
586، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیالاہور) سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ قرض کی وصولی کے متعلق فرماتے ہیں: ”قرض حسنہ
دے کر مانگنے کی ممانعت نہیں، ہاں مانگنے میں بے جاسختی نہ ہو: )وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ
اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ( (ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک۔)
اور اگر مدیون (مقروض) نادار (مفلس) ہے جب تو اسے مہلت
دینا فرض ہے یہاں تک کہ اس کا ہاتھ پہنچے اور جو دے سکتا ہے اور بلا وجہ لَیت و لَعل (ٹالم ٹول) کرے وہ ظالم ہے اور اس پر تشنیع و ملامت (برا بھلا کہنا) جائز۔ قَالَ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمُ ولَیُّ الْوَاجِدِ یَحِلُّ
مَالُہُ وَعِرْضُہُ (ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، غنی کا (ادائے قرض میں) ٹالم ٹول کرنا ظلم ہے
اور مال ہوتے ہوئے ٹالم ٹول کرنا اس کے مال اور اس کی عزت کو حلال کردیتا ہے۔) (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ
585-586، رضا فاؤنڈیشن، مرکز الاولیا لاہور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی
اعظمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”شادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح
طرح کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں اس کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں ہیں، ہر
شہر میں ہر قوم میں جدا جدا رسوم ہیں، ان کے متعلق ہدیہ اور ہبہ کا حکم ہے یا قرض
کا۔ عموماً رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دینے والے یہ چیزیں بطور قرض
دیتے ہیں اِسی وجہ سے شادیوں میں اور ہر تقریب میں جب روپے دئیے جاتے ہیں تو ہر
ایک شخص کا نام اور رقم تحریر کر لیتے ہیں جب اُس دینے والے کے یہاں تقریب ہوتی ہے
تو یہ شخص جس کے یہاں دیا جاچکا ہے فہرست نکالتا ہے اور اُتنے روپے ضرور دیتا ہے
جو اُس نے دئیے تھے اور اس کے خلاف کرنے میں سخت بدنامی ہوتی ہے اور موقع پاکر
کہتے بھی ہیں کہ نیوتے کا روپیہ نہیں دیا اگر یہ قرض نہ سمجھتے ہوتے تو ایسا عرف
نہ ہوتا جو عموماً ہندوستان میں ہے۔“(بہارشریعت، جلد 3، صفحہ 79، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ
کراچی)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”نیوتا بھی بہت بری رسم ہے جو
غالباً دوسری قوموں سے ہم نے سیکھی ہے اس میں خرابی یہ ہے کہ ہم نے کسی کے گھر چار
موقعوں پر دو دو روپے دئیے ہیں تو ہم بھی حساب لگاتے رہتے ہیں اور وہ بھی جس کو یہ
روپیہ پہنچا۔ اب ہمارے گھر کوئی خوشی کا موقع آیا ہم نے اس کو بلایا تو ہماری پوری
نیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص کم از کم دس روپے ہمارے گھر دے تاکہ آٹھ روپے ادا
ہوجائیں اور دو روپے ہم پر چڑھ جائیں ادھر اس کو بھی یہ ہی خیال ہے کہ اگر میرے
پاس اتنی رقم ہو تو میں وہاں دعوت کھانے جاؤں ورنہ نہ جاؤں، اب اگر اس کے پاس اس
وقت روپیہ نہیں تو وہ شرمندگی کی وجہ سے آتا
ہی نہیں اور اگر آیا تو دو چار روپے دے گیا۔ بہرحال ادھر سے شکایت پیدا ہوئی، طعنے
بازیاں ہوئیں، دل بگڑے۔ بعض لوگ تو قرض لے کر نیوتا ادا کرتے ہیں۔“(اسلامی
زندگی، صفحہ 25، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”جن لوگوں میں برادری نظام ہے ان میں نیوتا قرض ہی شمار کیا
جاتا ہے، وہ لکھ کر رکھتے ہیں، کس نے کتنا دیا ہے، اُس کے یہاں شادی ہونے کی صورت
میں اتنا ہی واپس کرتے ہیں، اِن برادریوں میں نیوتا قرض ہی سمجھا جاتا ہے اور جن
برادریوں میں ایسا کوئی برادری کا قانون نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ دوستی، تعلقات اور
عقیدت کی وجہ سے شادی میں کچھ دیتے ہیں وہ ہدیہ ہے۔“(وقارالفتاوی،
جلد 3، صفحہ 117، بزم وقارالدین، باب المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبہ
محمد قاسم القادری
23ذیقعدۃ
الحرام1437ھ/27اگست2016ء
ذبیحہ کے ساتھ بھلائی
رسولِ ذیشان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے:اِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الاِحْسَانَ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ، فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ ، وَ اِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ ، فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ یعنی بے شک اللہ پاک نے ہر چیز کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے،لہٰذا جب تم کسی کو قتل کرو تو اچھے طريقے سےقتل کر و([1]) اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کی دھار تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔(مسلم،ص 832،حدیث: 5055)
شرح اس حدیثِ پاک میں نبیِّ کریمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہر شے کے ساتھ بھلائی اور احسان کا حکم ارشاد فرمایا ہے یہاں یہ بات یاد رہے کہ ہر شے کے ساتھ بھلائی کا انداز جُدا ہے جیسے بیمار کو ڈاکٹر کی تجویز کردہ کڑوی دوائی پلانامریض کے ساتھ احسان و بھلائی ہے جبکہ ایسی ہی دوا تندرست کو بلاوجہ پلانا ظلم وزیادتی ہے۔ حضرت علّامہ علی بن سلطان قاری حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: بھلائی کرنے کا حکم عام ہے جس میں انسان ،حیوان،زندہ اور مردہ سب شامل ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح، 7/679،تحت الحدیث:4073) فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ کے تحت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: اس بھلائی کی کئی صورتیں ہیں: مثلًا جانور کو ذبح سے پہلے خوب کھلا پلا لیا جائے، ایک کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کیا جائے، اس کے سامنے چھری تیز نہ کی جائے، ماں کے سامنے بچے کو اور بچے کے سامنے ماں کو ذبح نہ کیا جائے، مذبح کی طرف گھسیٹ کر نہ لے جایا جائے اور جان نکل جانے سے پہلے اس کی کھال نہ اتاری جائے کہ یہ تمام باتیں ظلم و زیادتی ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح،5/645)امیرُُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناعمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جو بکری کو ذَبْح کرنے کیلئے اسے ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹ رہا ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا : تیرے لئے خرابی ہو، اسے موت کی طرف اچّھے انداز میں لے کر جا۔ (مصنف عبدالرزاق، 4/376، حدیث: 8636) ذبح میں بھلائی کی مختلف صورتیں حضرت سیّدنا امام قرطبی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:جانور کو ذبح کرنے میں اچھا برتاؤیہ ہے کہ جانور پر نَرْمی کی جائے،سختی اور بےدردی سے زمین پر نہ گرایا جائے، ایک جگہ سے دوسری جگہ گھسیٹ کر نہ لےجایا جائے، ذبح کے آلے(چُھری وغیرہ) کو تیز کر لیا جائے، قُربت (نیکی) اور اباحت (گوشت کے حلال کرنے) کی نیت حاضر کر لے،جانور کو قبلہ رو کرے، اسی طرح (بوقتِ ذَبْح) اللہ کا نام لینا،جلدی ذبح کرنا، وَدَجَیْن([2]) اور حُلْقوم کو کاٹنا، ذبیحہ کو آرام پہنچانا، ٹھنڈا ہو جانے تک ذبیحہ کو چھوڑ دینا، اللہ پاک (نے یہ جانور حلال فرمایا اس) کے احسان کا اعتِراف کرنا، اللہ کریم اگر چاہتا تو ضَروراس جانور کو ہم پر مسلّط فرمادیتا لیکن اُس نے اِس جانور کو ہمارے بس میں کردیا اسی طرح اگروہ چاہتا تو ضرور اسے ہمارے لئے حرام فرمادیتا مگر اس نے ہمارے لئے اسےحلال فرمایالہٰذا اس نعمت پر اللہ پاک کا شکر بجالانا ۔(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم،5/241،تحت الحدیث:1854)
[1]یعنی اگر تم قاتل یا
کافر کو قصاص یا جنگ میں قتل کرو تو ان کے اعضاء نہ کاٹو، مُثلہ نہ کرو۔ (مراٰۃ المناجیح،
5/645)
[2]جو رگیں ذبح میں کاٹی جاتی ہیں وہ چار ہیں:حلْقو
ؔ م یہ وہ ہے جس میں سانس آتی جاتی ہے، مریؔ اس سے کھانا پانی اُترتا ہے ان دونوں
کے اَغَل بَغَل اور دو رگیں ہیں جن میں خون کی روانی ہے انہیں وَدَ جَیْن کہتے
ہیں۔ (درمختار،9/491)
آدابِ مجلس اور فضائلِ علم
ارشادِ باری تعالیٰ ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْۚ-وَ اِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۱۱) ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے(کہ) مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردو، اللہ تمہارے لئے جگہ کشادہ فرمائے گا اور جب کہا جائے: کھڑے ہوجاؤ تو کھڑے ہوجایا کرو،اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جن کو علم دیا گیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ28،المجادلۃ:11)
شانِ نزول نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غزوۂ بدر میں حاضر ہونے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت عزت کرتے تھے، ایک روز چند بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایسے وقت پہنچے جب کہ مجلس شریف بھر چکی تھی، اُنہوں نے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے کھڑے ہو کر سلام عرض کیا۔ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جواب دیا، پھر اُنہوں نے حاضرین کو سلام کیا تو اُنہوں نے جواب دیا، پھر وہ اس انتظار میں کھڑے رہے کہ اُن کے لئے مجلس شریف میں جگہ بنائی جائے مگر کسی نے جگہ نہ دی، سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ چیز گراں گزری تو آپ نے اپنے قریب والوں کو اُٹھا کر اُن کے لئے جگہ بنادی، اُٹھنے والوں کو اُٹھنا شاق ہوا تو اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا: اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردو، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے جنّت میں جگہ کشادہ فرمائے گا اور جب تمہیں اپنی جگہ سے کھڑے ہونے کا کہا جائے تاکہ جگہ کشادہ ہوجائے تو کھڑے ہوجایا کرو، اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کے باعث تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جن کو علم دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(تفسیرخازن، پ28، المجادلۃ، تحت الآیۃ:11،ج 4،ص240)
اس آیت کے شانِ نزول سے معلوم ہوا کہ صالحین کے لئے جگہ چھوڑنا اور ان کی تعظیم کر نا جائز بلکہ سنّت ہے حتی کہ مسجد میں بھی ان کی تعظیم کی جائے گی۔ حدیثِ پاک میں دینی پیشواؤں اور اساتذہ کی تعظیم کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے، سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”جن سے تم علم حاصل کرتے ہو ان کے لئے عاجزی اختیار کرو اور جن کو تم علم سکھاتے ہو ان کے لئے بھی تواضع اختیار کرو اور سرکش عالم نہ بنو۔“(الجامع لاخلاق الراوی، ص230، حدیث:802) نیک لوگوں کی عزت کرنا اور بوڑھوں کا لحاظ کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اور اس حاملِ قرآن کی تعظیم کرنا جو قرآن میں غلو نہ کرے اور ا س کے احکام پر عمل کرے اور عادل سلطان کی تعظیم کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنے میں داخل ہے۔“(ابو داؤد،ج 4،ص344، حدیث: 4843) خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو علماء و مشائخ اور دین داروں کی عزت کرتے ہیں اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو آزادی کے نام پر علماء اور دین داروں کا مذاق اڑاتے اور اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔
مجلس کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ جو شخص پہلے آ کر بیٹھ چکا ہو اسے اس کی جگہ سے نہ اٹھایا جائے سوائے کسی بڑی ضرورت کے یا یوں کہ اہم حضرات کے لئے نمایاں جگہ بنادی جائے جیسے دینی و دنیوی دونوں قسم کی مجلسوں میں سرکردہ حضرات کو اسٹیج پر یا سب سے آگے جگہ دی جاتی ہے اور ویسے یہ ہونا چاہیے کہ بڑے اور سمجھدار حضرات سننے کے لئے زیادہ قریب بیٹھیں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تم میں سے جو لوگ بالغ اور عقل مند ہیں انہیں میرے قریب کھڑے ہونا چاہئے۔“ (ابو داؤد،ج1،ص267،حدیث: 674) اور حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا سے روایت ہے، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں کو ان کے مرتبے اور منصب کے مطابق بٹھاؤ۔“(ابو داؤد،ج 4،ص343،حدیث:4842) البتہ فضیلت اور مرتبہ رکھنے والے حضرات کو چاہئے کہ وہ خود کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نہ بیٹھیں کیونکہ کثیر احادیث میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:”کوئی شخص مجلس میں سے کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ پر نہ بیٹھے۔“(مسلم،ص923،حدیث:5683) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی دوسری روایت میں ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ ایک شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائے البتہ (تمہیں چاہئے کہ) دوسروں کے لئے جگہ کشادہ اور وسیع کر دو۔ (بخاری،ج 4،ص179،حدیث:6269)
آیت و روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارا دین ہمیں عقیدے اور عبادات کے ساتھ معاشرتی زندگی کے آداب بھی سکھاتا ہے۔ ایک سچا مسلمان مہذب، شائستہ، سلجھا ہوا اور بااخلاق ہوتا ہے۔
آیت کے آخری حصے میں فرمایا گیا کہ علمائے دین کے درجے دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ نے بلند کئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: اے لوگو!اس آیت کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مومن عالم کو اس مومن سے بلند درجات عطا فرمائے گا جو عالم نہیں ہے۔ (تفسیرخازن، پ28، المجادلۃ، تحت الآیۃ:11،ج 4،ص241)
یہاں موضوع کی مناسبت سے علم اور علماء کے15 فضائل ملاحظہ ہوں
(1)ایک ساعت علم حاصل کرنا ساری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔ (مسند الفردوس،ج2،ص441،حدیث:3917) (2)علم عبادت سے افضل ہے۔(کنز العمال،جزء10،ج5،ص58،حدیث:28653) (3)علم اسلام کی حیات اور دین کا ستون ہے۔ (کنز العمال، جزء10،ج 5،ص58، حدیث:28657) (4)علماء زمین کے چراغ اور انبیاء کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے وارث ہیں۔ (کنزالعمال، جزء10،ج5،ص59،حدیث:28673) (5)مرنے کے بعد بھی بندے کو علم سے نفع پہنچتا رہتا ہے۔(مسلم، ص684، حدیث:4223) (6)ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔(ترمذی،ج4،ص311،حدیث: 2690) (7)علم کی مجالس جنّت کے باغات ہیں۔(معجم کبیر،ج11،ص78،حدیث:11158) (8)علم کی طلب میں کسی راستے پر چلنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ جنّت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔(ترمذی،ج4،ص312،حدیث:2691) (9)قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کا وزن کیا جائے گا تو ان کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آجائے گی۔(کنز العمال، جزء10،ج 5،ص61، حدیث: 28711) (10)عالم کے لئے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے حتی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔(کنز العمال، جزء10،ج 5،ص63، حدیث:28733) (11)علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔(مسند الفردوس،ج4،ص156،حدیث:6486) (12)علماء کی تعظیم کرو کیونکہ وہ انبیاء کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے وارث ہیں۔(تاریخ ابن عساکر،ج 37،ص104) (13)اہلِ جنّت، جنّت میں علماء کے محتاج ہوں گے۔(تاریخ ابن عساکر،ج 51،ص50)(14)علماء آسمان میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے۔ (کنزالعمال، جزء،ج 5،ص65،حدیث:28765)(15)قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے بعد علماء شفاعت کریں گے۔(کنز العمال،جزء10،ج5،ص65،حدیث:28766)
علم سیکھنے اور علماء کی تعظیم و تکریم کرنے والے یہ فضائل پاتے ہیں اور علم سے دور اور علماء کے بےادب خدا کی رحمت سے محروم ہوتے ہیں۔