شرکتِ عمل میں کیا برابر کا وقت دینا ضروری ہے؟

کیا فرماتےہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم چار اسلامی بھائیوں نے پراپرٹی ڈیلنگ کا کاروبار شروع کیا ہے سب نے دفتر میں برابر مال لگایا ہے اور ماہانہ دفتری اخراجات بھی برابری کی بنیاد پر ہوں گےاور کمیشن بھی برابر تقسیم ہو گا مگر ہمیں وقت کے حوالے سے رہنمائی درکار ہے کہ کیا کام کے لئے چاروں کا برابر وقت دینا ضروری ہے یا کوئی کمی بیشی کی جا سکتی ہے ؟

سائل:محمد خرم عطاری(محلہ یوسف آباد، وہاڑی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

دریافت کی گئی صورت شرکتِ عمل(1) (اس کی وضاحت حاشیے میں پڑھئے) کی ہے اور شرکتِ عمل میں کام میں برابری شرط نہیں تو وقت،جس میں کام کا وقوع ہو گا، اس میں بھی برابری لازم نہیں ہو گی لہٰذاآپ اگر بعض کے لیے کم وقت اور بعض کے لیے زیادہ وقت دینا طے کرلیں تو اس میں حرج نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

محمد ہاشم خان العطاری المدنی

-----------------------------------------

(1)شرکت بالعمل یہ ہے کہ دو کاریگر لوگوں کے یہاں سے کام لائیں اور شرکت میں کام کریں اور جو کچھ مزدوری ملے، آپس میں بانٹ لیں۔(بہارشریعت،2/505)


تعزیت سے متعلق احکام

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ (1)تین دن بعد تعزیت کا حکم کیا ہےمکروہِ تنزیہی یا تحریمی؟ (2)کلماتِ تعزیت کیا ہیں ۔کیا کلماتِ دعاء اور صرف یہ کہنا آپ کی والدہ کا پتا چلا اللہ پاک مغفرت فرمائے یہ کلماتِ تعزیت ہیں یا نہیں ؟(3)تعزیت کا مقصد کیا ہے اور یہ کیوں کی جاتی ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:(1)تعزیت کا وقت وفات سے تین دن تک ہے افضل یہ ہے کہ پہلے ہی دن تعزیت کی جائے۔ البتہ جس شخص کو فوتگی کا علم نہ ہو تو وہ بعد میں بھی تعزیت کر سکتا ہے۔باقی لوگوں کے لئے تین دن([1])بعد تعزیت کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔([2])

سیّدی اعلیٰ حضر ت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں: ”پہلے ہی دن ہونا بہتر و افضل ہے فی الدر المختار اَوَّلُہَا اَفْضَلُھَا یعنی ایام تعزیت“ یعنی تعزیت کے ایام میں سب سے افضل پہلا دن ہے۔(فتاویٰ رضویہ،9/395)

(2)تسلّی اور دُعا دونوں طرح کے الفاظ تعزیت کے کلمات کہلاتےہیں۔ ([3])تعزیت کاطریقہ بیان کرتےہوئے صدر الشَّرِیعہ بدرُ الطریقہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِرشاد فرماتے ہیں:”تعزیت میں یہ کہے، اللہ تَعَالٰی میّت کی مغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو صبر روزی کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے۔ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے اِن لفظوں سے تعزیت فرمائی:لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَاَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّیخدا ہی کا ہے جو اُس نے لیا دیا اور اُس کے نزدیک ہرچیز ایک میعادِمقرر(وقتِ مقرر)کے ساتھ ہے۔“ (بہار شریعت، 1 /852، حصہ4،مکتبۃ المدینہ)

مُفسِّرِ شَہِیْر حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:”تعزیت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں جس سے اس غمزَدہ کی تسلی ہوجائے یہ الفاظ بھی کتبِ فقہ میں منقول ہیں۔فقیر کا تَجْرِبَہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں کو واقعاتِ کربلا یاد دلائے جائیں اور کہا جائے کہ ہم لوگ تو کھا پی کر مرتے ہیں وہ شاہزادے تو تین دن کے روزہ دار شہید ہوئے تو بہت تسلی ہوتی ہے۔“

(مراٰۃ المناجیح، 2/507)

(3) تعزیت کا بنیادی مقصد لَوَاحِقِیْن کے غم میں شریک ہو کر اُنہیں حوصلہ دینا اور انہیں صبر کی تلقین کرنا ہے۔تعزیت مَسْنُوْن عمل ہے اور اگر قریبی رشتہ ہوتو صِلَۂ رَحمی کے تقاضے کے پیشِ نظر تعزیت کی اَہْمِیَّت مزید بڑھ جاتی ہے یونہی حقِّ پڑوس اور حقِّ رفاقت یا دوستی یا ساتھ کام کرنا وغیرہ وہ تعلقات ہیں جن میں تعزیت کرنا اور لَوَاحِقِیْن کو حوصلہ دینا اِنتہائی اَہَم عمل ہے۔اس عمل سے ایک طرف رشتہ داروں یا ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والوں سے تعزیت کرنے ،تسلِّی دینے اور میت کے لئے دُعا کرکے لَوَاحِقِیْن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے لَوَاحِقِیْن پر پہاڑ جیسے صَدْمَہ کا بوجھ کم ہوتاچلا جاتا ہے۔ تو دوسری طرف تعزیت کرنے والا خودغرضی اور مطلب پرستی کا شکار نہیں ہوتاکیونکہ جو انسان اپنے رشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے وہ مِلَنْسار کہلاتا ہے اور مِلَنْسار ہونا اَخلاقِیات میں ایک اچھا وصف ہے۔ فیضُ القدیر میں ہے: امام نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ تعزیت کا مطلب یہ ہے کہ صبر کی تلقین کی جائے اور ایسی باتیں ذکر کی جائیں جو میت کے لَوَاحِقِیْن کوتسلی دیں اور اُن کے غم اور مصیبت کو ہلکاکریں۔(فیض القدیر، 6/232)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


[1]۔۔وَاَوَّلُهَا اَفْضَلُ وَتُكْرَهُ بَعْدَهَا اِلَّا لِغَائِبٍ(درمختار مع ردالمحتار، 3/177)

[2]۔۔ ردالمحتار میں ہے: ”وَالظَّاهِرُ اَنَّهَا تَنْزِيْهِيَّة ٌ “( ردالمحتار، 3/177)

[3] ۔۔ تَصْبِيْرهم وَالدُّعَاء لَهُمْ بِهٖ “ (ردالمحتار، 3/174)


استاذشاہد کلاس روم میں داخِل ہوئے تو بہت خوش نَظَر آرہے تھے جسے کچھ طلبہ نے نوٹ کرلیا۔استاذشاہد کچھ دیر تک وائٹ بورڈ پر سبق سمجھاتے رہے پھر کتاب بند کرکے اطمینان سے کرسی پر بیٹھ گئے، حسّان استاذصاحب! کیا بات ہے آپ آج بہت خوش نظر آرہے ہیں؟ استاذشاہد جی ہاں! اس کی ایک بڑی وجہ ہے، پہلے بتائیے کہ یہ مہینا کون سا ہے؟ کئی طلبہ کے منہ سے ایک ساتھ نکلا: اگست، استاذشاہد اب یہ بتائیے کہ اس مہینے میں کون سا اہم واقعہ ہوا تھا؟ سب طلبہ خاموش رہے کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دیں، استاذشاہد اس مہینے میں ہمارا پیارا ملک پاکستان آزاد ہوا تھا اور یہ مہینا شروع ہوتے ہی مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ مزمل پاکستان کب آزاد ہوا تھا؟ استاذشاہد آج سے71سال پہلے 14اگست 1947ء کو ہمارا ملک آزاد ہوا تھا۔ حسنین استاذصاحب! ہمارا ملک تو بہت پہلے آزاد ہوچکا ہے تو ہم خوشی اب کیوں منارہے ہیں؟ استاذشاہد بےشک ملک کئی سال پہلے آزاد ہوچکا ہے لیکن بعض خوشیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جب وہ تاریخ اور دن لوٹ کر آتے ہیں تو اللہ تعالٰی کی وہی نعمت ملنے کا احساس ہمارے اندر ایک سوچ پیدا کردیتا ہے کہ ہم پہلے کیا تھے اور کس حالت میں تھے؟ اور اب کتنی اچھی حالت میں ہیں اس پر ہم اللہ پاک کا خوب خوب شکر ادا کرتے ہیں اپنے گھروں اور گلی محلّوں کو جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجاتے ہیں، اپنے کپڑوں پر مختلف بیج لگاتے ہیں۔ طاہر جھنڈے لگانے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ استاذشاہد ہر طرف سبز پرچم اور جھنڈیاں لگا کر ملک سے محبت کرنے کا اور ایک ملت اورایک قوم ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح جھنڈے لگانے میں ہم اکٹّھے ہیں اسی طرح مشکل وقت آنےپر پوری قوم اکٹّھی رہے گی اور کوئی دشمن ہمارے ملک پر حملہ کرے گا تو ہم سب مل کر بہادری کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے اور وقت آنے پر اپنی جان بھی قربان کردیں گے مگر اس ُملک کی عزّت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ حسّان ایک سوال میں بھی پوچھنا چاہتا ہوں، استاذشاہد ضرور پوچھئے! حسان ہم ہر سال 14اگست مناتے ہیں اور ہر سال اچھے ارادے بھی کرتے ہیں،کیا ابھی تک ہم اچھّے نہیں بنے؟استاذشاہد شاباش! آپ کا سوال بہت اچّھا ہے، ہم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ اچّھا بننے کی کوشش کرتا رہے اگر یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ ہم اچھّے ہوگئے ہیں تو اپنی خامیوں اور غلطیوں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں گے۔ خالد اس کے علاوہ اور کیا کام کرنے چاہئیں؟ استاذشاہد ہمیں خاص طور پر اپنے ملک اور قوم کی سلامتی کے لئے دعا کرنی چاہئے، اور خوب دل لگا کر اپنی پڑھائی پر توجہ دینی چاہئے تاکہ پڑھ لکھ کر اپنے ملک اور قوم کا نام پوری دنیا میں روشن کرسکیں، میں نے پرنسپل صاحب سے بات کرلی ہے کل تک پورے اسکول کو سبز ہلالی پرچموں اور جھنڈیوں سے سجادیا جائے گا۔ حسنین کل ہماری گلی میں جھنڈیاں لگ گئی ہیں اور کچھ گھروں پر جھنڈے بھی نَظَر آرہے تھے، استاذصاحب! مجھے وہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا اور بہت خوشی ہورہی تھی، استاذشاہد ملک کی آزادی پر ہر ایک شخص کو ضرور خوش ہونا چاہئے کیونکہ اس کی آزادی ہماری آزادی ہے، اس کی عزّت ہماری عزّت ہے! تو پھر آپ سب طَلَبہ اپنے گھروں پر جھنڈا کب لگائیں گے؟ آج ہی لگائیں گے۔ یہ کہتے ہوئے سب طلبہ کے چہروں پر خوشی اور آواز میں اپنے ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کا پختہ ارادہ جھلک رہا تھا۔


کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ میرا بھائی درزیوں کا کام کرتا ہے،گاہَک سوٹ کے حساب سے کپڑا دے کر جاتے ہیں ،اوروہ اپنی کاریگری سے کاٹ کر اس میں سے کچھ نہ کچھ کپڑا بچا لیتا ہے،اور بعض اوقات ایک ہی گھر کے کئی جوڑے ایک ہی تھان سے ہوتے ہیں ،اگر ان کو احتیاط سے کاٹا جائے توان سے زیادہ کپڑا بچ جا تا ہے جو بآسانی استعمال میں لایا جا سکتا ہےیعنی اس سے چھوٹے بچوں کا ایک آدھ سوٹ بن جاتا ہے، کیا یہ بچا ہوا کپڑا ہم اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں یا نہیں ،برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں؟سائل:اکبر علی لودھینیو بہگام ،گوجر خان ضلع راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں آپ کا بھائی اجیرِ مشترک(1)(اس کی وضاحت حاشیے میں پڑھئے) ہے ،اور اجیرِ مشترک کے ہاتھ میں لوگوں کی چیز امانت ہوتی ہے،لہذا سوٹ سینے کے بعد جو قابلِ اِنتفاع (جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے)کپڑا بچ جائے ،تو وہ بھی آپ کے بھائی کے ہاتھ میں امانت ہے،اسکا حکم یہ ہے کہ مالک کو واپس کر دیا جائے ،مالک کی اجازت کے بغیر اپنے استعمال میں لانا ناجائز و حرام ہے ،ہاں !اگر مالک اسکے استعمال کی اجازت دیدےیا وہ قابلِ انتفاع نہیں بلکہ بالکل معمولی مقدا ر میں ہے جیسے کترن،تو اسکے استعمال میں حرج نہیں لیکن کَترَن سے مراد بہت باریک کترن ہے ، یہ نہیں کہ آدھے گز کو کَترَن کا نام لے رکھ لیا جائے۔

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

ابوالصالح محمد قاسم القادری

22محرم الحرام1438ھ/24اکتوبر 2016ء


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)مسجد کی انتظامیہ محفلِ میلادُ النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے اور دیگر محافل کے لیے جو چندہ اکٹھا کرتی ہے اس میں سے محفل کے اَخراجات کے بعد جو چندہ بچ جائے اسے مسجد کے پیسوں میں جمع کرسکتی ہے یا نہیں؟ (2)اگر محفل کے لئے جمع کیا گیا چندہ کم پڑجائے تو کیا مسجد کے پیسوں سے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ ہمارے ہاں عام طور پرمحافل کے لیے الگ سے چندہ کیا جاتا ہے، مسجد کے چندے سے محافل نہیں کی جاتیں ۔سائل:محمد الیاس عطاری (مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)اس باقی ماندہ ( یعنی باقی بچے ہوئے)چندے کو اس طرح مُطلقاً مسجد کے پیسوں میں جمع کرنا جائز نہیں بلکہ اس طرح کے چندے میں کچھ تفصیل ہوتی ہے جو درج ذیل ہے کہ اولاً جن لوگوں نے یہ چندہ دیا تھا ان کو حصَۂ رَسد کے مطابق واپس کرنا فرض ہے یا وہ جس کام میں کہیں اس میں لگا دیا جائے، اُن کی اِجازت کے بغیر کسی دوسرے کام میں اِستعِمال کرنا حرام ہے اور اگر وہ فوت ہوچکے ہوں تو ان کے ورثا کو واپس کیا جائے اور اگر چندہ دینے والوں کا عِلم نہ ہو یا یہ معلوم نہ ہوسکے کہ کس سے کتنا لیا تھا تو جس کام کے لئے چندہ لیا تھا اسی طرح کے دوسرے کام میں اِستعمال کریں اور اگر اس طرح کا دوسرا کام نہ ملے تو کسی فقیر کو دیدیا جائے یا مسجد و مدرسہ میں خرچ کر دیا جائے۔

حصَۂ رَسد سے مراد یہ ہے کہ مثلاً 8 افراد نے 100، 100 روپے اور 4 افراد نے50، 50 روپے چندہ دیا، اب اس 1000 روپے میں سے 600 روپے استعمال ہوگئے اور 400 بچ گئے تو 100 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 40 روپے اور 50 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 20 روپے واپس کرنے ہونگے۔

اِس صورتِ حال سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ محفل کے لیے چندہ کرتے ہوئے لوگوں سے اس طرح اجازت لے لی جائے کہ محفل سے جو پیسے باقی بچ جائیں گے وہ ہم مسجد کے چندے میں شامل کر لیں گے۔ اگر چندہ دینے والے اس کی اجازت دیدیتے ہیں تو پھر باقی رہ جانے والی رقم کو آپ مسجد کے چندہ میں شامل کر سکتے ہیں کہ ایک کام کے لئے دیئے ہوئے مال میں سے باقی بچ جانے والے مال کو کسی دوسرے کام میں صَرف(خرچ) کرنے کا وکیل بنانا جائز و درست ہے ۔

یہاں اگرچہ صراحتاً باقی بچ جانے والے چندے کو دوسرے کام میں صرف کرنے کا تذکرہ نہیں لیکن چونکہ سوال میں مذکور کام مختلف مہینوں میں ہونگے تو دلالۃً یہی سمجھ آتا ہے کہ ہر پہلے کام سے بچ جانے والی رقم دوسرے کام میں صَرف (یعنی خرچ) ہوگی اور یہاں اس کی اجازت دی گئی ہے۔

(2)پوچھی گئی صورت میں مسجد کا چندہ محفل کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں کہ اس صورت میں جو چندہ مسجد کے لئے جمع کیا گیا ہے وہ صرف مسجد کی ضروریات و مَصَالح پر ہی خرچ ہوسکتا ہے، کسی دوسرے کام محفل وغیرہ میں خرچ کرنا ناجائز و گناہ ہے۔

وَاللہُ  اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

ذُوالْحِجَّۃ الْحَرَام کا مہینا کیا آتا ہے ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے،اس مہینے کی 10،11 اور 12تاریخ کو مسلمان اللہعَزَّوَجَلَّ کے پیارے خلیل حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم علٰی نَبِیِّنَاو علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی یا د تازہ کرنے کے لئے قُربانی کا اِہتمام کرتے ہیں۔ گلیوں، بازاروں اور شاہراہوں پر قُربانی کے جانور دِکھائی دیتے ہیں۔ قُربانی کے جانوروں کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے خوب نہلایا، سجایا اور چمکایا بھی جاتا ہے یقیناً اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اِنہیں نہلانے،جائز سجاوٹ کے ذَریعے سجانے اور چمکانے میں کوئی حرج بھی نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر ، گلی اور محلے کی صفائی و ستھرائی پر بھی خصوصی توجُّہ دینی چاہئے۔ عموماً گلی کوچوں میں جہاں جانور باندھے جاتے ہیں وہاں صفائی و ستھرائی کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا، کہیں جانوروں کا چارا بکھرا نظر آتا ہے تو کہیں گوبر کا ڈھیر ، اس کے ساتھ ساتھ قربانی کے جانوروں کے مالکان کے جوتے اور لباس وغیرہ بھی نجاست سے آلودہ نظرآتے ہیں ۔

یاد رکھئے!اِنسانی طبیعت اپنے قُرب و جوار سے بہت جلد اَثر قبول کرتی ہے اور اَچھے یا بُرے ماحول کے اَثرات اِنسانی زندگی پر ضَرور مُرتب ہوتے ہیں لہٰذااِنسان کو چاہئے کہ وہ جس گھر ، محلے اور علاقے میں رہتا ہے اُسے صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کِردار اَدا کرے۔ گھر،محلے اور علاقے کا صاف ستھرا ہونا مُعاشرے کے اَفراد کی نفاست،اچھے مزاج، پُر وقار زندگی اور خوبصورت سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔ دِینِ اسلام نےاپنے ماننے والوں کو صاف ستھرا رہنے کا حکم دیا ہے، خواہ یہ صفائی جسمانی ہو یا روحانی ،فَرد کی ہو یا مُعاشرے کی ، گھر کی ہو یا محلے کی ، اَلغرض اِسلام جسم و روح ، دِل و دماغ اور قُرب و جوار کو صاف ستھرا رکھنے کا دَرس دیتا ہے۔

حدیثِ پاک میں ہے: اللہ عَزَّوَجَلَّ پاک ہے پاکی کو پسند فرماتا ہے ،ستھرا ہے ستھرے پن کو پسند کرتا ہے،کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے ،جواد ہے سخاوت کو پسند فرماتا ہےتو تم اپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو اور یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔

(ترمذی،4/365،حدیث:6808)

اِس حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان لکھتے ہیں: ظاہری پاکی کو طہارت کہتے ہیں اور باطنی پاکی کو طیب اور ظاہری باطنی دونوں پاکیوں کو” نظافۃ“ کہا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ بندے کی ظاہری باطنی پاکی پسند فرماتا ہے بندے کو چاہئے کہ ہرطرح پاک رہے جسم،نفس،روح، لباس، بدن، اخلاق غرضیکہ ہر چیز کو پاک رکھے صاف رکھے، اقوال، افعال، احوال عقائد سب درست رکھے۔اللہ تعالیٰ ایسی نظافت نصیب کرے۔

(”اپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو“ کے تحت مفتی صاحب لکھتے ہیں:) یعنی اپنے گھر تک صاف رکھو لباس،بدن وغیرہ کی صفائی تو بہت ہی ضروری ہے گھر بھی صاف رکھو وہاں کوڑا جالا وغیرہ جمع نہ ہونے دو۔ (”یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو “ کے تحت مفتی صاحب لکھتے ہیں:) کیونکہ یہود اپنے گھر کے صحن صاف نہیں رکھتے۔(مراۃ المناجیح،6/192 ملتقطاً)

خیال رہے کہ قربانی کا جانور ذَبح کرنے اور اس کا گوشت گھر لے جانے سے کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ گلی وغیرہ کی صفائی بھی ضَروری ہے ۔ قربانی کے جانور کی غلاظت وہیں چھوڑ دینے یا اِدھر اُدھر پھینکنے یا کسی اور کے گھر کے آگے ڈال دینے کے بجائے اس کا مناسب اِہتمام کیجئے تاکہ صفائی بھی ہو جائے اور کسی کی دِل آزاری بھی نہ ہو۔ یوں ہی قربانی کی کھالیں جمع کرنے والے اسلامی بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ مسجد، گھر، دفتر اور مدرسے وغیرہ کی دَریوں، چٹائیوں اور دِیگر چیزوں کی صفائی و ستھرائی کا خیال رکھیں اور انہیں خون آلود ہونے سے بچائیں۔

عیدِ قربان کے اس پُرمسرت موقع پر میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ وہ اپنے گھر، گلی ، محلے اور اِرد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے پر بھرپور توجُّہ دیں اور گلی محلوں کو گندگی سے بدبودار کرنے کے بجائے خوشبوؤں سے مشکبار کرنے کی کوشش کریں ۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں ظاہر و باطن کی پاکیزگی نصیب کرے اور ہمیں صاف ستھرا رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جن چیزوں پر تصویریں چَھپی ہوں مثلاً صابن وغیرہ ان کو خریدنا کیسا؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم

ھدایۃ الحق والصواب

جواب:سوال میں بیان کردہ چیزوں کا خریدنا بلاشبہہ جائز ہے کیونکہ خریدنے والے کا مقصود چیز خریدنا ہوتا ہے نہ کہ تصویر۔جیسا کہ مفتی وقار الدین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ تصویر والی کتب کی خرید و فروخت کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صورت مسئولہ میں ان کتابوں کو بیچنا جائز ہے کہ یہ کتابوں کی خرید و فروخت کرنا ہے نہ کہ تصاویر کی ۔البتہ علیحدہ سے تصویر کا بیچنا حرام ہے ۔‘‘(وقار الفتاوی، 1/218)

تنبیہ: دکاندار پر لازم ہے کہ جن اشیاء پر عورتوں کی تصاویر ہوتی ہیں ان کو نمایاں کرنے سے اجتناب کرے۔

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل مارکیٹ میں بچوں کے لئے مختلف جانوروں کی شکلوں کے کھلونے ملتے ہیں جو کہ پلاسٹک، لوہے اور پیتل سے بنے ہوتے ہیں کیا بچوں کے لئے یہ کھلونے خریدنا اور بچوں کا ان سے کھیلنا جائز ہے ؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم

ھدایۃ الحق والصواب

جواب:پوچھی گئی صورت میں یہ کھلونے خریدنابھی جائز ہے اور بچوں کا ان سے کھیلنا بھی جائز ہے ،لیکن ایک بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ وہ کھلونے نہ خریدے جائیں جن میں میوزک جیسی نحوست ہوتی ہے ۔ردالمحتار میں کھلونے کے متعلق خاتَمُ المُحَقِّقِیْن علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:لَوْ كَانَتْ مِنْ خَشَبٍ أَوْ صُفْرٍ جَازَ ترجمہ: کھلونے اگر لکڑی یا پیتل کے ہوں تو ان کو خرید نا جائز ہے۔(ردالمحتار،7/505)

صدرُ الشریعہ بدْرُ الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فتاویٰ امجدیہ میں لکھتے ہیں:’’لوہے پیتل تانبے کے کھلونوں کی بیع (Sale Agreement)جائز ہے کہ یہ چیزیں مال متقوم (وہ مال جس سے نفع اٹھانا جائزہو) ہیں۔‘‘(فتاویٰ امجدیہ،4/232)

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:’’معلوم ہوا کہ ان کا تصویر ہونا وجہِ عدمِ جوازِ بیع (Reason Of Impermissibility of deal) نہیں۔‘‘(فتاویٰ امجدیہ،4/233)

مزیدفرماتے ہیں:’’رہا یہ امر کہ ان کھلونوں کا بچوں کو کھیلنے کے لئے دینا اور بچوں کا ان سے کھیلنا یہ ناجائز نہیں کہ تصویر کا بروجہِ اعزاز (As Respect) مکان میں رکھنا منع ہے نہ کہ مطلقاً یا بروجہ اہانت بھی۔‘‘(فتاویٰ امجدیہ،4/233)

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زیدنے بکرکو موبائل اس طرح فروخت کیاکہ میرے کاروبارمیں منافع ہواتویہ 60 عمانی ریال کاہے اورنہیں ہواتو100ریال کا، بکر60ریال دے چکاہے اب تک منافع نہیں ہوا۔اس بیع کا کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم

ھدایۃ الحق والصواب

جواب: خریدوفروخت کے صحیح ہونے کے بنیادی اصولوں میں ثمن (Price) کا معلوم ہونابھی ہے کہ عقد (Agreement/Deal) ہوتے وقت لازمی طور پر قیمت (Price) کا تعین (Determine) ہو جائے۔ اگر سودا ہوجائے لیکن قیمت (Price)میں جہالت (Confusion) باقی رہے تو شریعت مطہرہ اس عقدکوفاسد قراردیتی ہے۔ پوچھی گئی صورت میں کی گئی خرید و فروخت جائز نہیں کہ یہاں قیمت (Price) میں جہالت (Confusion) پائی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ عقد فاسد یعنی غیر شرعی ہےاور اس کا توڑنا واجب ہے۔فتاویٰ شامی میں بیع کے صحیح ہونے کی شرائط میں ہے: ’’وَمَعْلُومِيَّةُ الثَّمَنِ بِمَا يَرْفَعُ الْمُنَازَعَةَ‘‘ ترجمہ: اور ثمن کا اس طرح معلوم ہونا کہ جھگڑا نہ ہو سکے۔(فتاویٰ شامی،7/14)

صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ بہارِ شریعت میں بیع(Selling Deal) کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بیان کرتے ہیں:’’مبیع (Merchandise) و ثمن (Price) دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع (جھگڑا) پیدا نہ ہوسکے اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو تو بیع (Selling Deal) صحیح نہیں مثلاً اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچی یا اس چیز کو واجبی دام پربیچا یا اس قیمت پر بیچا جو فلاں شخص بتائے۔(بہارِشریعت،2/617مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ میری عزیزہ کو طلاق ہوئی۔ اس کے پاس دو طرح کا سامان تھا۔ ایک وہ سامان (فرنیچر، کپڑے، زیورات وغیرہ) جو اس کے والدین نے دیا اور دوسرا وہ سامان (کپڑے، زیورات وغیرہ) جو شوہر اور اس کے والدین نے دیا۔ شرعی رہنمائی فرمائیں! اس صورت میں کونسا سامان عورت کا ہے اور کونسا شوہر کاہے؟

سائل:غلام دستگیر (خانقاہ چوک،مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورت کو جو سامان مَیکے کی طرف سے بطورِ جہیز ملا وہ عورت ہی کی مِلْکِیَّت ہے۔ اس میں کسی اور کا حق نہیں۔

شوہر یا اس کے گھر والوں کی طرف سے جو سامان اور زیورات وغیرہ عورت کو دئیے جاتے ہیں اس کی تین صورتیں ہوتی ہیں:

(1)شوہر یا اس کے گھر والوں نے صراحتاً (واضح طور پر) عورت کو سامان اور زیورات دیتے وقت مالک بناتے ہوئے قبضہ دیا تھا۔ (2)شوہر یا اس کے گھر والوں نے صراحتاً عورت کو سامان اور زیورات عاریتاً (یعنی عارضی استعمال کیلئے) دئیے تھے۔ (3)شوہر یا اس کے گھر والوں نے دیتے وقت کچھ بھی نہیں کہا۔پہلی صورت میں عورت سامان اور زیورات کے ہِبہ (Gift) کیے جانے کی وجہ سے مالکہ ہے، اسی کو یہ سب دیا جائے گا۔ دوسری صورت میں جس نے دیا وہی مالک ہے۔ وہ واپس لے سکتا ہے اور تیسری صورت میں شوہر کے خاندان کا رواج دیکھا جائے گا۔ اگر وہ عورت کو ان اشیاء کا مالک بناتے ہیں تو عورت کو دیا جائے گا ورنہ وہ حقدارنہیں اس سے واپس لیا جا سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم شروع سے نمازِ جنازہ پڑھتے آرہے ہیں اور چوتھی تکبیر کے بعد جب امام دائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو دایاں ہاتھ اور جب بائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو بایاں ہاتھ چھوڑ دیتے تھے، پچھلے دِنوں ایک شخص نے جنازہ پڑھایا تو اُس نے کہا کہ جیسے ہی چوتھی تکبیر ہو دونوں ہاتھ چھوڑ دئیے جائیں،اس کے بعد سلام پھیریں، آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ کونسا طریقہ صحیح ہے؟

سائل:حاجی لیاقت (کینٹ،مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صحیح یہ ہے کہ جیسے ہی امام جنازہ کی چوتھی تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ چھوڑ دیں پھر اس کے بعد سلام پھیریں، وجہ اس کی یہ ہے کہ قیام میں جہاں ٹھہرنا ہوتا ہے یا جہاں ذکر و تلاوت کرنی ہوتی ہے وہاں ہاتھوں کو باندھیں گے اور جہاں ایسا معاملہ نہیں ہے وہاں ہاتھ نہیں باندھیں گے اور چوتھی تکبیر کے بعد چونکہ کچھ ذکر و اذکار نہیں کرنا ہوتا اور نہ ہی مزید ٹھہرنا ہوتا ہے بلکہ تکبیر کے فوراً بعد سلام پھیرناہوتا ہے، اس لئے یہاں ہاتھ باندھنے کی حاجت نہیں جس طرح کہ عیدین کی تکبیراتِ زائدہ (زائد تکبیروں )کے دوران کچھ نہیں پڑھنا ہوتا اس لئے وہاں ہاتھ نہیں باندھتے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟ (2)اگر بچہ عقیقے کے وقت اس جگہ حاضر نہ ہو تو کیا عقیقہ ہوجاتا ہے، یا نہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

)1(ساتویں دن ”عقیقہ“ کرنا بہتر ہے اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو زندگی میں جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہوجائے گی، البتہ ساتویں دن کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے، اس کے یاد رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا، اُس دن سے ایک دن قبل ساتواں دن بنے گا۔مثلاً بچہ جمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتواں دن ہے اور ہفتے کو پیدا ہوا تو ساتواں دن جمعہ ہوگا، پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو ”عقیقہ“ کریگا اس میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔ہاں البتہ فوت ہوجانے کے بعد ”عقیقہ“ نہیں ہو سکتا کہ عقیقہ شکرانہ ہے اور شکرانہ زندہ کیلئے ہی ہوسکتا ہے۔

)2(”عقیقہ“ کرتے وقت بچے کا عقیقے کی جگہ حاضر ہونا کوئی ضروری نہیں، بلکہ اگر بچہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اس کی طرف سے عقیقہ ہوجائے گا۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ والدین کو اولاد کے حقوق گنواتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:ساتویں اور نہ ہو سکے تو چودہویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے۔ (مشعلة الا رشاد فی حقو ق الاولاد، ص 16)

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تحریر فرماتے ہیں: ساتویں دن اوس (اُس) کا نام رکھا جائے اور اوس(اُس) کا سرمونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وقت عقیقہ کیا جائے۔ اور بالوں کو وزن کر کے اوتنی (اُتنی) چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے۔(بہارِشریعت، 3/355)

مزید فرماتے ہیں:عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہو جائے گی۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اکیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اوس دن کو یاد رکھیں اوس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے وہ ساتواں ہوگا مثلاًجمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتویں دن ہے اور سنیچر کو پیدا ہوا تو ساتویں دن جمعہ ہوگا پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو عقیقہ کریگا اوس (اُس) میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔(بہارِشریعت، 3/356)

مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے سوال ہوا کہ مردہ کی جانب سے ”عقیقہ“ جائز ہے،یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً تحریر فرمایاہے:مردہ کا ”عقیقہ“ نہیں ہوسکتا کہ عقیقہ دم ِ شکر ہے اور یہ شکرانہ زندہ ہی کیلئے ہوسکتا ہے۔(فتاویٰ امجدیہ، 2/336)

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

عبدہ المذنب فضیل رضا العطاری عفی عنہ الباری

25شعبان المعظم 1437 ھ/02جون 2016 ء