تعزیت سے متعلق احکام

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ (1)تین دن بعد تعزیت کا حکم کیا ہےمکروہِ تنزیہی یا تحریمی؟ (2)کلماتِ تعزیت کیا ہیں ۔کیا کلماتِ دعاء اور صرف یہ کہنا آپ کی والدہ کا پتا چلا اللہ پاک مغفرت فرمائے یہ کلماتِ تعزیت ہیں یا نہیں ؟(3)تعزیت کا مقصد کیا ہے اور یہ کیوں کی جاتی ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:(1)تعزیت کا وقت وفات سے تین دن تک ہے افضل یہ ہے کہ پہلے ہی دن تعزیت کی جائے۔ البتہ جس شخص کو فوتگی کا علم نہ ہو تو وہ بعد میں بھی تعزیت کر سکتا ہے۔باقی لوگوں کے لئے تین دن([1])بعد تعزیت کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔([2])

سیّدی اعلیٰ حضر ت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں: ”پہلے ہی دن ہونا بہتر و افضل ہے فی الدر المختار اَوَّلُہَا اَفْضَلُھَا یعنی ایام تعزیت“ یعنی تعزیت کے ایام میں سب سے افضل پہلا دن ہے۔(فتاویٰ رضویہ،9/395)

(2)تسلّی اور دُعا دونوں طرح کے الفاظ تعزیت کے کلمات کہلاتےہیں۔ ([3])تعزیت کاطریقہ بیان کرتےہوئے صدر الشَّرِیعہ بدرُ الطریقہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِرشاد فرماتے ہیں:”تعزیت میں یہ کہے، اللہ تَعَالٰی میّت کی مغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو صبر روزی کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے۔ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے اِن لفظوں سے تعزیت فرمائی:لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَاَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّیخدا ہی کا ہے جو اُس نے لیا دیا اور اُس کے نزدیک ہرچیز ایک میعادِمقرر(وقتِ مقرر)کے ساتھ ہے۔“ (بہار شریعت، 1 /852، حصہ4،مکتبۃ المدینہ)

مُفسِّرِ شَہِیْر حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:”تعزیت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں جس سے اس غمزَدہ کی تسلی ہوجائے یہ الفاظ بھی کتبِ فقہ میں منقول ہیں۔فقیر کا تَجْرِبَہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں کو واقعاتِ کربلا یاد دلائے جائیں اور کہا جائے کہ ہم لوگ تو کھا پی کر مرتے ہیں وہ شاہزادے تو تین دن کے روزہ دار شہید ہوئے تو بہت تسلی ہوتی ہے۔“

(مراٰۃ المناجیح، 2/507)

(3) تعزیت کا بنیادی مقصد لَوَاحِقِیْن کے غم میں شریک ہو کر اُنہیں حوصلہ دینا اور انہیں صبر کی تلقین کرنا ہے۔تعزیت مَسْنُوْن عمل ہے اور اگر قریبی رشتہ ہوتو صِلَۂ رَحمی کے تقاضے کے پیشِ نظر تعزیت کی اَہْمِیَّت مزید بڑھ جاتی ہے یونہی حقِّ پڑوس اور حقِّ رفاقت یا دوستی یا ساتھ کام کرنا وغیرہ وہ تعلقات ہیں جن میں تعزیت کرنا اور لَوَاحِقِیْن کو حوصلہ دینا اِنتہائی اَہَم عمل ہے۔اس عمل سے ایک طرف رشتہ داروں یا ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والوں سے تعزیت کرنے ،تسلِّی دینے اور میت کے لئے دُعا کرکے لَوَاحِقِیْن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے لَوَاحِقِیْن پر پہاڑ جیسے صَدْمَہ کا بوجھ کم ہوتاچلا جاتا ہے۔ تو دوسری طرف تعزیت کرنے والا خودغرضی اور مطلب پرستی کا شکار نہیں ہوتاکیونکہ جو انسان اپنے رشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے وہ مِلَنْسار کہلاتا ہے اور مِلَنْسار ہونا اَخلاقِیات میں ایک اچھا وصف ہے۔ فیضُ القدیر میں ہے: امام نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ تعزیت کا مطلب یہ ہے کہ صبر کی تلقین کی جائے اور ایسی باتیں ذکر کی جائیں جو میت کے لَوَاحِقِیْن کوتسلی دیں اور اُن کے غم اور مصیبت کو ہلکاکریں۔(فیض القدیر، 6/232)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


[1]۔۔وَاَوَّلُهَا اَفْضَلُ وَتُكْرَهُ بَعْدَهَا اِلَّا لِغَائِبٍ(درمختار مع ردالمحتار، 3/177)

[2]۔۔ ردالمحتار میں ہے: ”وَالظَّاهِرُ اَنَّهَا تَنْزِيْهِيَّة ٌ “( ردالمحتار، 3/177)

[3] ۔۔ تَصْبِيْرهم وَالدُّعَاء لَهُمْ بِهٖ “ (ردالمحتار، 3/174)