مولانامحمد عمیر عطاری مدنی زِیْدَشَرْفُہ

(ناظم ُالامور”مرکز خدمۃ الحدیث وعلومہ(دعوتِ اسلامی)“)

کتابُ اللہ کے بعد حدیثِ رسول پرہی ہمارے دین کی بنیاد ہے، بلکہ حدیثِ رسول کے بغیر کتاب اللہ کو کما حقہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ حدیث کا علم جتنا اہم ہےاتنا ہی مشکل بھی ہےاِس کے باوجود اسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے اسلاف نے اپنی زندگیاں وقف کیں ۔ محدثین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں علومِ حدیث کا خزانہ حاصل ہے۔

علمِ حدیث کی دوقسمیں:

حدیث بظاہر ایک لفظ ہےلیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔ اہلِ علم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ہر علم وفن کے اپنے اصول وضوابط ہوتے ہیں، اسی طرح علم حدیث کے بھی ہیں۔

علم حدیث کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

(1) روایتِ حدیث: یعنی وہ علم جو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اقوال، افعال، تقاریر، احوال واوصاف پر مشتمل ہو۔اِس علم کے ذریعے ہم حدیث کے معانی واستباط اورمعمول بہ ہونے کا علم حاصل کرتے ہیں۔

(2) درایت حدیث: یہ اُن قوانین کا علم ہےجن کے ذریعے”سند ومتن کےاحوال“جانے جاتے ہیں۔ اسی کو اصولِ حدیث یا مصطلح الحدیث کہتے ہیں۔یہ علم صحیح کو سقیم سےجدا کرکےدینِ اسلام کی روشن تعلیمات کی حفاظت کرتا ہے ۔

علم ِدرایت ِ حدیث کاثمرہ ”تحکیمِ حدیث“ ہے:

سند و متن کے احوال جاننے کے بعد باری آتی ہے حدیث پر حکم لگانے کی، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ علمِ اصولِ حدیث کی غایت و انتہا یہی ہے کہ حدیث کے حکم کو جان لیا جائے، نہ صرف علم اصول حدیث بلکہ علم جرح وتعدیل، علم الرجال، علم التاریخ، علمِ عللِ حدیث اور وہ سارے علوم جن کا مقصد صحت و ضعف کے اعتبار سے حدیث کا حال جاننا ہوتا ہے، ان سب علوم کی انتہایہیں پر ہوتی ہے کہ مذکورہ قول حدیث ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کس درجے کی؟

تحکیم حدیث کی اقسام

حدیث پر حکم لگانے کے تین طریقے ہو سکتے ہیں:

(1) نقلی (2) درایتی (3) نقلی و درایتی

(1)نقلی

اس میں حکمِ حدیث معتبر ائمہ کرام سے اخذ کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے احادیث پر حکم لگا کر صحیح کو ضعیف سے ممتاز کر دیا ہے، تو اگر منقولی حکم تک رسائی میسّر ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ دیگرخوبیوں کے ساتھ ساتھ درایت کے اعتبار سے بھی یہ حضرات ہم سے کہیں زیادہ فائق ہیں۔

(2)درایتی

کئی بار ایسا ہو جاتا ہے کہ منقولی حکم نہیں مل پاتا تو یہ ”کَمْ تَرکَ المُتَقَدِّمُ لِلّمُتَأخِّر“ کے قبیل سے ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں ہم پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ علومِ درایت کو پیشِ نظر رکھ کر حدیث کے حال کا دراسہ کریں تاکہ حکم تک پہنچ سکیں۔

(3)نقلی و درایتی

کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ منقولی حکم مل تو جاتا ہے لیکن اقوالِ ائمہ اس میں مختلف ہوتے ہیں، اس صورت میں علومِ درایت کے مطابق تطبیق وترجیح کا طریقہ اختیار کیا جائے۔

ہمارا مقصد چونکہ منقولی احکام سے متعلق ہے اس لئے ہم اسی پر اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں:

حکمِ حدیث کن کتابوں سے نقل کیا جائے؟

ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت کتب ذکر کیے جا رہے ہیں:

جوامع ، سنن وغیرہ:

(1)مستدرک علی الصحیحین از امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم شافعی : اس کے ساتھ امام ذہبی کی تلخیص لازمی دیکھنا چاہیے کہ امام ذہبی نے حکم کی موافقت کی ، تعقب کیا یا سکوت فرمایا۔

(2)الاحادیث المختارۃ از امام ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد مقدسی حنبلی: عموماً متقدمین سے نقل کرتے ہیں لیکن کئی مرتبہ مناقشہ بھی کرتے ہیں۔

(3)سنن ابی داود از امام ابو داود سلیمان بن اشعث سجستانی:اس کی احادیث کی بات کی جائے تو امام منذری نے اس کا (مختصر) لکھا اور کئی احادیث پر حکم بھی لگایا۔ اسی طرح امام یحی بن شرف نووی شافعی نے بھی (الإيجاز في شرح سنن أبي داود) کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں طہارت سے متعلق سو (۱۰۰) سے کچھ زائد احادیث پر حکم بیان کیا۔

(4)جامع الاصول از امام ابن الاَثیر مبارک بن محمد جزری: اس میں بھی کئی مقامات پر احادیث و رواۃ کے متعلق کلام موجود ہے۔

(5)سنن ترمذی از امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی:جہاں تک تعلق ہے اس کتاب کاتو مصنف نے خود احکام ذکر فرمائے ہیں، مزید تحقیق کے لئے ابو الفتح ابن سید الناس کی شرح (النفح الشذی فی شرح جامع الترمذی) کا مطالعہ فرمائیں۔احادیث الباب وغیرہ پر کلام موجود ہے۔

(6)سنن ابن ماجہ از امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید قزوینی: اس میں دو طرح کی احادیث ہیں، ایک وہ جو صحیحین اور دیگر سنن میں ہیں تو اس کا حکم مذکورہ کتب میں اگر ہوں تو وہاں سے دیکھ لیا جائے۔ دوسری وہ جو زوائد کہلاتی ہیں، ان زوائد کو امام احمد بن ابو بکر بوصیری شافعی نے ”مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ“ کے نام سے جمع کیا ہےاور حکم سے متعلق کلام بھی کیا ہے۔

(7)القول المسدّد فی الذّبّ عن مسند احمدازامام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

(8)حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ والنسائی از امام ابو الحسن محمد بن عبد الھادی سندی

احادیثِ احکام پر حکم:

(1)نصب الرایہ ازامام عبد اللہ بن یوسف زیلعی حنفی

(2)الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی: یہ کتاب در اصل نصب الرایہ للزیلعی کی تلخیص ہیں لیکن اضافی فوائد ونکات پر مشتمل ہے۔

(3)البدر المنیر فی تخریج احادیث الشرح الکبیر از امام ابن ملقن عمر بن علی شافعی: امام غزالی نے فقہ شافعی پر ایک کتاب (الوجیز) لکھی، امام رافعی نے (فتح العزیز) کے نام سے اس کی شرح لکھی، پھر ابن ملقن نے اس شرح کی احادیث کی تخریج کی اور ساتھ احکام بھی بیان کیے۔

(4)التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی: در اصل ابن حجر نے اپنے شیخ ابن ملقن کی ہی کتاب (البدر المنیر)کی تلخیص کی ہے اور مزید چند کتابوں کی احادیث کو بھی شامل کیا ہےاور ساتھ احکام پر گفتگو بھی فرمائی۔

(5)الاحکام الوسطی از امام عبد الحق بن عبد الرحمن الاشبیلی: عموما بغیر سند کے احادیث ذکر کرتے ہیں سوائے پہلے راوی کے پھر حدیث کے حکم سے متعلق کلام کرتے ہیں ۔

(6)السنن الکبری از امام احمد بن حسین بیہقی شافعی

(۷)خلاصۃ الاحکام از امام یحی بن شرف نووی شافعی

(۸)المجموع شرح المھذب از امام یحی بن شرف نووی شافعی

کتبِ دعوات:

(1)الترغیب والترھیب از امام عبد العظیم بن عبد القوی منذری شافعی

(۲)الاذکار از امام یحی بن شرف نووی شافعی

(۳)نتائج الافکار فی تخریج احادیث الاذکار از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

کتبِ شروحات:

(1)شرح السنۃ از امام حسین بن مسعود بغوی شافعی

(2)فیض القدیر شرح الجامع الصغیر از علامہ محمد عبد الرؤوف مناوی

(3)التیسیر بشرح الجامع الصغیر از امام محمد عبد الرؤوف مناوی

(4)السراج المنیر شرح الجامع الصغیر از امام علی بن احمد عزیزی شافعی

(5)مرقاۃ المفاتیخ شرح مشکاۃ المصابیح از امام علی بن سلطان محمدالقاری حنفی

(۶)شرح صحیح مسلم از امام یحی بن شرف نووی شافعی

(۷)فتح الباری از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

کتبِ تخریج وزوائد:

(1)الجامع الصغیر از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(2)الجامع الکبیر/جمع الجوامع از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(3)مجمع الزوائد از امام نور الدین علی بن ابو بکرہیثمی

(4)اتحاف الخیرۃ المہرۃ از امام احمد بن ابو بکر بوصیری شافعی

(5)المطالب العالیہ از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

(۶)المغنی عن حمل الاسفار از علامہ عبد الرحیم بن حسین عراقی شافعی: یہ امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم کی احادیث کی تخریج سے متعلق ہے۔

(۷)جامع الاحادیث از مفتی حنیف رضوی صاحب:اعلی حضرت کی تالیفات میں موجود حدیثوں کو اس کتاب میں جمع کیا اور امام اہلسنت نے جو حکم لگائے اسے بیان کیااور بعض اوقات اپنی طرف سے حکم ذکر کیا۔

کتب الرجال:

(1)الضعفاء الکبیر از امام محمد بن عمروعُقَیلی: راوی کے ترجمہ کے تحت اسی راوی کی سند سے حدیث ذکر کرتے ہیں تو راوی جس درجے کا ہوگا حدیث پر بھی وہی حکم لگے گا۔بعض اوقات حدیث سے راوی کا درجہ معلوم ہوتا ہے۔

(2)المجروحین از امام محمد بن حبان بُستی

(3)الکامل فی ضعفاء الرجال از امام عبد اللہ بن عدی جرجانی

(4)میزان الاعتدال از امام شمس الدین محمد بن احمد ذہبی

(5)لسان المیزان از امام ابن حجراحمد بن علی عسقلانی شافعی

کتبِ موضوعات وغیرہ

(1)الموضوعات از امام ابن جوزی عبد الرحمن بن علی حنبلی

(2)تعقبات ابن جوزی از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(3)اللآلی المصنوعۃ از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(4)ذیل اللآلی از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

(5)الموضوعات از امام حسن بن محمد صغانی حنفی

(۶)جزء فیہ الرد علی الصغانی از علامہ عبد الرحیم بن حسین عراقی شافعی

(۷)تنزیہ الشریعہ از امام ابن عَرّاق علی بن محمد شافعی

(۸)کشف الخفاءاز امام اسماعیل بن محمدعجلونی

(۹)العلل المتناہیہ از امام ابن جوزی عبد الرحمن بن علی حنبلی

(۱۰)سِفر السعادۃ از امام محمد بن یعقوب فیروزآبادی

(۱۱)شرح سفر السعادۃ از امام عبد الحق محدث دہلوی حنفی، فارسی

(۱۲)المقاصد الحسنہ از امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی

علل حدیث سے متعلق کتابوں سے بھی احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں، مزید یہ کہ خاص خاص موضوع پر لکھی گئی کتابیں یا اجزاء وغیرہ بھی ہیں جن میں حکم ہوتا ہےجیسے:

فضائل خلفاء راشدین و اہل بیت سے متعلق کتب:

(1)الصواعق المحرقہ از امام ابن حجراحمد بن محمد ہیتمی شافعی

(2)استجلاب ارتقاء الغرف از امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی

(3)تاریخ الخلفاء از امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکرسیوطی

درود شریف سے متعلق کتب:

(1)القول البدیع از امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی

(2)الدر المنضود از امام ابن حجراحمد بن محمد ہیتمی شافعی

یہاں احاطہ مقصود نہیں ،اگر مزیدنام شامل کیے جائیں تو ایک طویل فہرست تیار ہو سکتی ہے۔

وضاحت:

لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ نقلی حکم کئی بار صرف خاص سند کے اعتبار سے ہوتا ہےلہذا متنِ حدیث پر حکم جمیع جہات کو پیش نظر رکھ کر لگایا جائے گا، سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا اسی طرح سند کے صحیح ہونے سے متنِ حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتاکہ کبھی متن شاذ یا معلل ہوتی ہے۔

مذکورہ کلام صرف اُن معروف کتب کی نشاندہی کے لیے ہے جن سے منقولی احکام مل سکتے ہیں، باقی رہا اصلِ حدیث پر حکم کیسے لگے گا؟ متابع و شواہدات کے کیا اصول ہیں؟ ضعیف ہونے کی صورت میں کس کا ضعف کا پوراہو سکے گا اور کس کا نہیں؟ان سب کی تفصیل کے لیے متعلقہ کتب کا مطالعہ فرمائیں۔

28 ربیعُ الاخر1447مطابق22اکتوبر2025