پس منظر
ہند کے صوبے راجستھان کے علاقے
مارواڑ سے حافظ محمد عثمان رحمۃ اللہ علیہ جو اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کے عقیدت مند بھی تھے انہوں نے امامِ اہلسنت کو خط لکھا کہ ہمارے
علاقے سانبھر میں مولانا احمد علی شاہ حنفی نقشبندی اویسی تشریف لائے ہیں آپ کی
کتابوں کے ساتھ ساتھ مولانا احمد علی شاہ صاحب کے بیانات کی وجہ سے بہت سے لوگ
اپنے غلط عقیدے اور نظرئیے سے توبہ کرکے صحیح العقیدہ سنی ہوچکے ہیں، آپ اپنے ہر
بیان میں صلح کلی والوں (ندوہ والوں) کا ایسا رد کرتے ہیں کہ یہاں کے وہ لوگ جو انہیں صحیح
سمجھتے تھے اور ان کے عقیدت مند تھے اب
توبہ کرکے ان سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں، آج کل ان صلح کلی والوں کا ایک
مولوی یہاں آیا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مولوی احمد علی شاہ صاحب تو خود بد عقیدہ
اور جاہل ہیں اور اس کے کہنے سے کچھ لوگ بہک کر اس کے ساتھ بھی ہوگئے ہیں ان کو
سمجھایا تو کہتے ہیں کہ اگر مولانا احمد رضا خان صاحب ، مولانا احمد علی شاہ صاحب
کے عقائد ونظریات کو درست قرار دے دیں گے تو ہم اپنے نظریات سے توبہ کرکے ان کی
بات سنیں گے، لہٰذا آپ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ آپ ارشاد فرمائیں کہ مولانا احمد
علی شاہ صاحب آپ کے نظرئیے کے مطابق کیسے ہیں، آپ کے جواب سے امت کو بہت فائدہ
ہوگا۔ والسلام
اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ نے یہ جواب ارشاد
فرمایا: معزز حافظ محمد عثمان صاحب السلام
علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:آپ کا خط تشریف
لایا، یاد کرنے کا شکریہ۔ ایک دفعہ مولانا
احمد علی شاہ صاحب گھر پر تشریف لائے تھے یہ ان سے پہلی ملاقات تھی پھر عظیم آباد
، پٹنہ، بہار کے جلسے میں ملاقات ہوئی لیکن دونو ں ملاقاتوں میں صرف سلام ومصافحہ
ہوا کسی موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی، کسی انسان کے بارے میں گواہی دینا ایک اہم
اور نازک معاملہ ہے، میں مولانا احمد علی شاہ صاحب کے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں
کررہا بس یہ چاہتا ہوں کہ ان کے جو فضائل آپ کے خط کے ذریعے مختصراًسنے ہیں انہیں تفصیل سے جان لوں ، مولانا صاحب کی حق
پسندی سے امید ہے کہ وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش ہونگے کیونکہ صرف غیر مقلدین اور
ندوہ والوں کا فتنہ ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ سینکڑوں فتنے ہندوستان میں موجود ہیں
، میں بیس (20) چیزیں لکھتا ہوں جن
پر مولانا صاحب اپنی تصدیق فرماکر بھیج دیں۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سنیت کی پہنچان کے اصول
(۱) سید احمد خاں علی گڑھ اور اس کے پیروکارسب کفار ہیں۔
(۲) جو رافضی قرآنِ پاک کو نا مکمل کہے
یا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم یا ان کے علاوہ کسی غیر نبی کو، نبی سےافضل مانے،وہ کافر و مرتد ہے ۔
(۳) رافضی تبرائی فقہائے کرام کے نزدیک کافر ہے اور اس کے گمراہ بدعتی اور
جہنمی ہونے پر علمائے کرام کا اتفاق ہے۔
(۴) جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اللہ پاک کے قرب کے حوالے سے حضرت سیّدنا صديق اكبر اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما سے زیادہ فضیلت والا سمجھے، وہ گمراہ اور سنت کی خلاف ورزی كرنے والا ہے۔
(۵) جنگِ جمل و صفین میں امیر المومنین حضرت
علی کرم اللہ وجہہ الکریم حق پرتھے مگر ان کے سامنے آنے والے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی خطا، اجتہادی تھی جس کی وجہ سے ان کے بارے میں برے
جملے کہنا سخت حرام ہے اور ان کی شان میں گستاخی کرنا بلا شبہ
رافضیت ہےاور ایسا کرنے والااہلسنت سے خارج ہے۔ جو شخص کسی صحابی
کی شان میں (معاذ اللہ ) برے جملے کہے یا انہیں بُرا سمجھے یا ان میں سے کسی سے بغض رکھے
وہ پکاّ رافضی ہے۔
(۶) صدیوں سے مجتہد مطلق کے درجہ کو کوئی نہ پہنچا اور اس درجہ کو پہنچے بغیر تقلید كرنا فرض ہے،لہذا غیر مقلدین گمراہ
اور بددین ہیں۔
(۷) صدیوں سے اہلسنّت
چارگروہ :حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی میں ہی ہیں جو ان سے خارج ہے وه بدعتی، جہنمی ہے۔
(۸) وہابیوں کا پہلا استاد ابنِ عبدالوہاب نجدی اور دوسرا اسماعیل دہلوی ”تقویۃ الایمان“ كا مصنف ہیں اور دونوں سخت
گمراہ بددین تھے۔
(۹) اسماعیل دہلوی کی کتاب ”تقویۃ
الایمان“، ”صراطِ مستقیم“، ”رسالہ یکروزی“ اور ”تنویر العینین“ کھلی گمراہیوں اور
کفریہ باتوں پر مشتمل ہیں۔
(۱۰ )مولوی اسحٰق دہلوی کی کتاب ”مائۃ مسائل“ غلط و مردود مسائل، اہل سنّت اور جمہور كی مخالفت سے بھرپورہے۔
(۱۱) انبیائے کرام اور اولیائے کرام سے مدد
مانگنا ، انہیں حاجت کے وقت مدد کے لئے پکارنا یعنی یارسول اﷲ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم، یا علی کرم اللہ وجہہ الکریم، یا شیخ
عبدالقادر الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہنا اور انہیں اللہ پاک کے فیوض وبرکات جاری ہونے کا ذریعہ سمجھنا بلا شبہ درست اور جائز
ہے۔
(۱۲) دنیا کی ظاہری زندگی میں اور اس کے
بعدبھی انبیائے کرام علیہم السلام اور اولیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اللہ پاک کی عطا سے تصرف کرتے ہیں اور قیامت تک ان کا یہ فیضان جاری رہے گا۔
(۱۳) مُردوں کا سننا حق ہے ، عام مُردے
زندوں کو دیکھتے ہیں، ان كی باتيں سُنتے
اور سمجھتے ہیں پھر اولیائے کرام کی شان
توبہت بلند ہے۔
(۱۴) پہلے دن سے قیامت تک جو کچھ ہوا
یا ہوگا اﷲ پاک نے ایک ایک ذرّے کا حال اپنے آخری نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو بتادیا، لہٰذا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم ان تمام غیب کی باتوں کو شامل
ہے۔
(۱۵) اسماعیل دہلوی کے رسالہ ”یکروزی“
اور گنگوہی کی کتاب ”براہین قاطعہ“
میں اللہ سبحانہ وتعالی کے جھوٹ بولنے کو جو ممکن مانا گیا ہے،
یہ کھلی گمراہی ہے۔ پوری امت کا اس پر اجماع واتفاق ہے کہ ”اﷲ تعالیٰ کا جھوٹا ہونا“ یقیناً محال بالذات یعنی کسی بھی صورت ممکن ہی نہیں ہے۔ مسئلہ ”خلفِ وعید“
کولےکر جو اللہ سبحانہ وتعالی کے جھوٹ بولنے کو ممکن بتایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت میں ان
دونوں کاان کے اس ناپاک خیال سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
(۱۶) شیطان کے علم کو (معاذ اﷲ) رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علم سے بڑھ
کر سمجھنا جیسا کہ گنگوہی کی کتاب”براہین قاطعہ“ میں ہے، یہ کھلی گمراہی اور
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی واضح توہین ہے۔
(۱۷) میلاد شریف کی محفل میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کی خوشی میں تعظیماً کھڑا ہونا جس طرح صدیوں سے حرمین شریفین میں رائج
ہے، جائز ہے۔
(۱۸) شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے گیارھویں
شریف کی نیاز کرنا، اولیائے کرام کا عرس منانا اورمُردوں کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب
ہے۔
(۱۹) شریعت اور طریقت دونوں الگ الگ نہیں
ہیں، شریعت کی پیروی کے بغیر اﷲ تعالیٰ تک
رسائی ناممکن ہے، کوئی کتنے ہی بلند مرتبہ تک پہنچ جائے، جب تک عقل
باقی ہے اللہ تعالیٰ کے احکامات اس پر سے معاف نہیں ہوسکتے، بناوٹی صوفی شریعت کی مخالفت کو اپناکمال
سمجھتے ہیں سب گمراہ شیطان کے کھلونے ہیں، ”وحدتِ وجود“ کا نظریہ حق ہے جبکہ ”حلول“ اور ”اتحاد“ کا نظریہ جوآج کل کے بعض بناوٹی صوفی بکتے
ہیں یہ واضح کفر ہے ۔
(۲۰) ندوہ گمراہیوں اور بدعتوں کا گڑھ ہے، گمراہوں سے میل جول حرام ہے، ان کی تعظیم کرنا اللہ عزوجل کے غضب کو دعوت دینا ہے اور ندوہ کے فتنے کا دفاع کرنا
اللہ پاک کی لعنت کی طرف بلانا ہے، انہیں کسی دینی مجلس کارکن بنانا دین کو نقصان
پہنچانا اور گراناہے۔ ندوہ کے لیکچروں میں وہ باتیں بھری ہیں جن سے اﷲ عزوجل اور رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیزار اور بَری ہیں، اﷲ تعالیٰ تمام بدمذہبوں اور گمراہوں سے بچائے اور حقیقی سنّت پر ثابت قدم رکھے۔
پھر امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصدیق ومہر لگاتے ہوئے لکھا
کہ آج کل بہت سے لوگ
سنی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور عوام بیچارے دھوکے میں پڑتے ہیں،بعض وقتی مصلحت کے
پیش نظر زبان سے کہتے کچھ ہیں لیکن پھر موقع ملتے ہی مکر جاتے ہیں، کسی کی سنی
ہونے کی جانچ پڑتالی کے لئے یہ بیس پوائنٹس کافی ہیں اگر واقعی سنی ہوگا تو بغیر
کسی شک وشبہ کے انہیں درست سمجھے گا اور
قبول کرے گا ورنہ خود ہی گمراہی میں پڑے گا۔
تلخیص وتسہیل: مولانا
محمد کاشف سلیم عطاری مدنی
تاریخ: 17.06.2025