اسلام ایسا دین ہے جو فطرت سے ہم آہنگی اور ماحول کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے،قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں زمین کو آباد کرنے اور سرسبز و شاداب بنانے اور اس سے رزق حاصل کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ارشاد باری ہے: فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّاۙ(۲۷) وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًاۙ(۲۸) وَّ زَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًاۙ(۲۹) وَّ حَدَآىٕقَ غُلْبًاۙ(۳۰) وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّاۙ(۳۱) مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْؕ(۳۲) (پ 20، عبس: 27-32) ترجمہ: پھر ہم نے اس میں اناج اگایا، اور انگور اور ترکاری، اور زیتون اور کھجوریں، اور گھنے باغ، اور میوے اور چارہ، یہ سب تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کے لیے ہے۔

اس آیہ مبارکہ میں اللہ نےزمین سے مختلف قسم کی نباتات اگانے کا ذکر فرمایا ہے جو جانداروں کے لئے رزق کا ذریعہ ہیں، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمین کو بنجر چھوڑنے کے بجائے اسے آباد کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا مطلوب ہے۔ زمین، ہمارا گھر، ایک وسیع و عریض باغ ہے جس میں قدرت نے بیشمار رنگ اور خوشبوئیں بکھیر رکھی ہیں۔ اس باغ کو مزید دلکش اور مفید بنانے کیلئے انسان ہمیشہ سے کوشاں رہا ہے۔ پودا لگانا اور درخت بنانا اسی کوشش کا اہم حصہ ہے، یہ محض ایک عمل نہیں بلکہ ایک ایسا سفر ہے جو ایک ننھے سے بیج یا پودے سے شروع ہو کر ایک تناور درخت کی صورت میں مکمل ہوتا ہے۔ یہ سفر نہ صرف زمین کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

درخت زمین کی سانس ہیں، یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں جس سے ہوا صاف اور تازہ رہتی ہے، یہ فضائی آلودگی کو کم کرتے ہیں اور ہمارے سیارے کو گرم ہونے سے بچاتے ہیں۔ انکی جڑیں مٹی کو مضبوطی سے پکڑے رکھتی ہیں جس سے زمین کا کٹاو رک جاتا ہے اور سیلاب کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔درخت بارش برسانے کا بھی ذریعہ ہیں کیونکہ ان کے پتے بخارات خارج کرتے ہیں جو بادل بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ درخت حیاتیاتی تنوع کا بھی خزانہ ہیں، یہ بیشمار پرندوں، کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کے لئے گھر اور خوراک کا ذریعہ ہیں۔

ایک تناور درخت اپنے اردگرد ایک مکمل ماحولیاتی نظام بنالیتا ہے جہاں زندگی مختلف روپوں میں پروان چڑھتی ہے۔ انسانوں کے لئے بھی درختوں کی اہمیت ڈھکی چھپی نہیں، ان سے لکڑی حاصل ہوتی ہے جو ہمارے گھروں، فرنیچر اور دیگر ضروریات کو پورا کرتی ہے، درختوں سے ہمیں تازہ سبزیاں اور صحت بخش پھل ملتے ہیں جو ہماری زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے کوئی درخت لگایا اور وہ بڑا ہوا،یہاں تک کہ اس میں پھل آیا تو اللہ اس کے لئے اس پھل کے برابر ثواب لکھتا ہے۔ گویا پودا لگانا اور درخت بنانا عظیم سنت نبوی ﷺ اور اقوال صالحین کی روشنی میں نہایت با برکت عمل ہے۔ اس میں دنیوی اور اخروی دونوں طرح کے فوائد مضمر ہیں۔

یہ صدقہ جاریہ، باعث اجر عظیم اور ماحول کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس سنت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنی استطاعت کے مطابق پودے لگانے اور درخت بنانے میں حصہ لیں۔

ایک بار مدینے کے تاجدار ﷺکہیں تشریف لے جا رہے تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوملاحظہ فرمایا کہ ایک پودا لگا رہے ہیں۔ استفسار فرمایا: کیا کر رہے ہو ؟عرض کی: درخت لگا رہا ہوں۔ فرمایا: میں بہترین درخت لگا نے کا طریقہ بتا دوں! سبحٰن اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الّا اللہ واللہ اکبر پڑھنے سے ہر کلمہ کے عوض (یعنی بدلے) جنّت میں ایک درخت لگ جاتا ہے۔ (1) اس روایت سے معلوم ہوا کہ پودے لگانا صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا بھی عمل مبارک رہا ہے۔

اللہ پاک نے درختوں اور پودوں کو انسان کى خدمت کے لیے لگایا ہوا ہے پودا لگانے یعنی شجر کاری کرنے کے بےانتہا فوائد بھی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

سائنسی فوائد: سائنسى تحقیق کے مطابق درخت اور پودے گندى ہوا(کاربن ڈائى آکسائیڈ) لے کر اپنى پاکیزہ ہوا (آکسیجن) فراہم کرتے ہیں، درجہ حرارت کو بڑھنے نہىں دیتے، درخت اور پودے فضائى آلودگی میں کمى کرتے ہیں، درخت اور پودوں کی کثرت سے ماحول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے، درخت لینڈ سلائڈنگ(یعنی مٹی یا چٹان کے تودے کا پھسل کر اونچی جگہ سے گرنے) کی روک تھام کا بھی باعث بنتے ہیں،یوں ہی درخت اور پودے گلوبل وارمنگ مىں بھی کمى کا سبب بنتے ہیں۔

معاشی و معاشرتی فوائد:شجر کارى کے ذریعے بہت سے معاشى اور معاشرتى فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلاً درخت لکڑى کے حصول کا ذریعہ ہیں اور لکڑی کا انسانی ضروریات کو پوری کرنے میں کلیدی کردار ہے۔

یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو انواع واقسام کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان پھلوں کو ہی کھا کر جیتے ہیں۔

بیماری سے محفوظ رہنے یا بیماری سے جان چھڑانے کے لیے جڑی بوٹیوں کا استعمال انسانی تاریخ کا حصّہ ہے اور یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ جڑی بوٹیاں درختوں اور پودوں سے ہی حاصل کی جاتی ہیں۔

مسواک کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺکی میٹھی میٹھی سنّت ہے، اس سنّت کی ادائیگی کے لیے بھی شجرکاری کرنی ہو گی کیونکہ مسواک درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

شور شرابا انسان کے لیے بے سکونی اور ذہنی تناؤ کا سبب بنتا ہے۔ نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ درخت شور شرابے کو اپنے اندر جذب کر کے پرسکون ماحول فراہم کرتے ہیں۔

کپڑا انسان کی بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی گزارنا بھی انتہائی دشوار ہے ہماری اس ضرورت کو پورا کرنے کا سہرا بھی درختوں کے سر ہے اس لیے کہ کپڑا کپاس (Cotton) کے پودے سے حاصل ہوتا ہے۔

طبعی فوائد: درختوں اور پودوں کے طبعى فوائد بھى کم نہیں مثلاً اولاد کى پىدائش میں معاون قوّت کے لیے بھى درخت مفید ہوتے ہىں۔ ماہرین کے مطابق درختوں کے درمىان رہنے والے انسان کى تخلیقى صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ بہرحال درختوں کے بہت سے فوائد ہیں جنہیں پانے کے لیے خوب خوب درخت لگانے کی حاجت و ضرورت ہے۔

پودا لگانے کی احتیاطیں:جہاں اچھی نیّت سے پودا لگانا كار ثواب ہے وہیں اس میں کچھ بےاحتیاطی گناہ کا بھی سبب بن جاتی ہے لہٰذا پودا لگاتے وقت نہایت محتاط رہیئے تاکہ بدمزگی اور گناہ سے بچا جا سکے۔ مثلاً حکومت کى زمین پر جہاں قانوناً منع ہو وہاں نہ لگائیے،

کسى کى ذاتى زمین پر مالک کی اجازت کے بغیر پودا نہ لگائیں، وقف کی جگہوں مثلاً مساجد، مدارس اور جامعات وغیرہ میں درخت لگانے سے پہلے دار الافتا اہلسنّت سے شرعی راہ نمائی لے لی جائے۔

پودے لگانے کے بعد ان کی نگہداشت رکھنا، ان کو وقت پر پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ پودے چند ہی دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جائیں گے یا پھر کسی جانور کی غذا بن جائیں گے۔اگر ان کی درست انداز میں آبیاری نہ کی گئی اور انہیں ایسے ہی لگاکر چھوڑ دیا گیا تو یہ درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے۔لہٰذا جب بھی پودا لگائیں تو یہی مقصد پیش نظر رکھیں کہ فقط پودا نہیں لگانا بلکہ پودا لگانا ہے اور اسے درخت بنانا ہے،کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جس نے کوئى درخت لگایا اور اس کى حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دىنے لگا تو اس مىں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس(لگانے والے) کے لىے صدقہ ہے (2)

اللہ کریم ہم سب کو ہر کام شریعت کے تقاضوں کے مطابق بجا لانے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

(1) ابن ماجہ، 4/ 252، حدیث: 3807

(2) مسند امام احمد، 5/ 574، حدیث: 16586


پاکستان میں بھی ہر سال شجر کاری مہم کا آغاز زور و شور سے ہوتا ہے محکمہ جنگلات درختوں اور پودوں کی اہمیت سے آگاہی کے سلسلے میں زبر دست مہم بھی چلاتے ہیں سیمینارز کے علاوہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی اس کی تشہیر کی جاتی ہے اسی طرح شاہراہوں پر بھی بڑے بڑے بینر آویزاں کئے جاتے ہیں جن پر درختوں اور پودوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ درخت اور پودے انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں اور آج اس کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے اسی لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کم از کم ایک پودا ضرور لگائے تاکہ آنے والے دور میں وہ ایک تناور درخت بن کر کھڑا ہو۔

پودے لگانا سنت نبوی ہے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے ہر فرد کو کم از کم ایک پودا اپنے حصے کا ضرورلگانا چاہیے۔

فرمان مصطفی: درخت لگانا ایسی نیکی ہے جو بندے کی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے جبکہ وہ اپنی قبر میں ہوتا ہے۔ (مجمع الزوائد، 1/308، حديث: 719)

درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگاتا ہے اور درخت سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کیلئے وہ صدقہ ہوتا ہے۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/572، حدیث:16586)

صدقہ روز محشر کا ٹھنڈا سایہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہو گا۔ (مسند امام احمد، 28/568، حدیث: 17333)

پودے لگانا کیوں ضروری ہے؟ درخت پانی اور مٹی سے کیمیکلز اور دیگر آلودگیوں کو فلٹر کرتے ہیں۔ درخت بارش کو روکتے ہیں، جو سیلاب سے بچاتا ہے اور زمینی پانی کو دوبارہ چارج کرتا ہے۔ درختوں کو لان کے مقابلے میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ ہوا میں جو نمی چھوڑتے ہیں وہ دیگر زمین کی تزئین کی پودوں کی پانی کی ضروریات کو نمایاں طور پر کم کر سکتے ہیں۔

پودوں کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ممکنہ طور پر نقصان دہ گیسز جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ کاربن مونو آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ ایک بڑا درخت 4 افراد کے لیے ایک دن کی آکسیجن پیدا کرتا ہے۔ آب و ہوا کی بحالی، ہوا کے معیار میں بہتری مٹی کا تحفظ اور جنگلی زندگی کی بقا کے لیے درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پودوں سے ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟ درخت بارش کے پانی کو جذب اور ذخیرہ کرتے ہیں، جس سے زمین کے نیچے صاف پانی کو ذخیرہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ندیوں میں کیمیکلز کی نقل و حمل اور سیلاب کو روکتے ہیں۔ درخت سے گرے ہوئے پتے بہترین کھاد بناتے ہیں جو مٹی کو افزودہ کرتے ہیں۔ درختوں نے انسانی وجود کی ابتدا سے لے کر اب تک اسے سہارا دیا ہوا ہے۔

درختوں کے فائدے: درخت لگانے کے بہت سارے فوائد ہیں۔ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں ره سکتا۔ درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں، درخت اور پودے لگانے سے ما حول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔

درخت نہ لگانے کے نقصانات: صفائی کی کمی اور ٹریفک و کارخانوں کا دھواں فضا کو آلودہ بنا رہا ہے جو کہ دمہ، کینسر، دل کے امراض، فالج، شوگر اور آنکھوں کی جلن جیسی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔

آپ کو اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی شجر کاری کا بڑا پیارا واقعہ سناتی ہوں جو یقیناً آپ ﷺ کا معجزہ بھی تھا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پہلے ایک یہودی کے غلام تھے جس نے ان کی آزادی کی ایک شرط یہ بھی رکھی کہ تین سو کھجور کے پودے لگاؤ اور ان کی دیکھ بھال کرو جب وہ بڑے ہو کر پھل دینے لگیں گے تو تم آزاد ہو جاؤ گے۔

نبی اکرم ﷺ کو پتا چلا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ساری تیاری کر کے مجھے بتا دینا میں پودے خود لگاؤں گا۔ چنانچہ نبی پاک ﷺ تشریف لائے اور سارے پودے اپنے ہاتھ مبارک سے لگائے سوائے ایک پودے کے وہ کسی اور صحابی نے لگا دیا تھا، پھر پتا ہے کیا ہوا؟ اس ایک پودے کے علاوہ سارے پودوں پر ایک سال میں ہی پھل آگیا۔

جب حضور ﷺ کو اس ایک پودے پتا چلا تو آپ نے اسے خود دوبارہ لگا دیا اور وہ بھی ایک سال میں پھل دار ہوگیا۔ (تاریخ دمشق، 21/395)

آؤ لو گو سب ملکر اک شجر لگاتے ہیں سر پہ ٹھنڈی چھت والا ایک گھر بناتے ہیں


پودے اور درخت ہماری زندگی کا بہت اہم جز ہے پودوں کے بغیر زمین پر زندگی بسر کرنا دشوار ہے کیونکہ درختوں اور پودوں کے ذریعے انسان سانس لیتا ہے پودوں سے کاربن ڈائی آکسائڈ حاصل ہوتی ہے پودے لگانا ایک ثواب جاریہ کا ذریعہ ہے۔

پودے لگانا ہمارے پىارے آقا ﷺ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو آزاد کروانے کے لیے 300 کھجور کے درخت آقا کریم ﷺ نے اپنے دست اقدس سے زمین میں لگائے جو کہ بہت جلد بارآور ہوگئے۔ (مسند امام احمد، 9/189، حدیث: 23798)

ایک بار مدینے کے تاجدار ﷺ کہیں تشریف لے جا رہے تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوملاحظہ فرمایا کہ ایک پودا لگا رہے ہیں۔ استفسار فرمایا: کیا کر رہے ہو ؟عرض کی: درخت لگا رہا ہوں۔ فرمایا: میں بہترین درخت لگا نے کا طریقہ بتا دوں! سبحٰن اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الّا اللہ واللہ اکبر پڑھنے سے ہر کلمہ کے عوض (یعنی بدلے) جنّت میں ایک درخت لگ جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 252، حدیث: 3807)

پودے لگانے کے فضائل پر دو فرامین مصطفے ٰ ﷺ ملاحظہ کیجیے:

جو مسلمان درخت لگائے ىا فصل بوئے پھر اس مىں سے جو پرندہ ىا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کى طرف سے صدقہ شمار ہو گا۔ (بخاری، 2 / 85، حدیث: 2320)

2۔ جس نے کسى ظلم و زىادتى کے بغىر کوئى گھر بناىا ىا ظلم و زىادتى کے بغىر کوئى درخت اگایا، جب تک اللہ پاک کى مخلوق مىں سے کوئى اىک بھى اس مىں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو اس(لگانے والے) کو ثواب ملتا رہے گا۔ (مسندامام احمد، 5/ 309، حدیث: 15616 )

شجر کاری کے فوائد: موجودہ دور میں کاغذ بھی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت کا روپ دھار چکا ہے۔ پرنٹنگ پریس، اسٹیشنری اور دیگر کئی شعبے کاغذ کے بوتے پر ہی قائم ہیں۔ اگر درخت ختم ہوجائیں تو کاغذ سے وابستہ سارے شعبے بھی بند ہو جائیں اس لیے کہ کاغذ کا حصول درختوں کی ہی مرہون منّت ہے۔ انسانی صحت کے لیے پھلوں اور میوہ جات کی اہمیت کا بھی کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا انکار نہیں کر سکتا اور یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو انواع واقسام کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان پھلوں کو کھا کر ہی جیتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے میں بہت سے افراد کی معیشت باغبانی اور پھل فروشی سے جڑی ہوئی ہے۔ بیماری سے محفوظ رہنے یا بیماری سے جان چھڑانے کے لیے جڑی بوٹیوں کا استعمال انسانی تاریخ کا حصّہ ہے اور یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ جڑی بوٹیاں درختوں اور پودوں سے ہی حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ جو دوا درخت یا پودے کی جڑ سے حاصل ہو اسے جڑی اور جو اوپر اگی ہو اسے بوٹی کہتے ہیں۔ مسواک کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺ کی میٹھی میٹھی سنّت ہے، اس سنّت کی ادائیگی کے لیے بھی شجرکاری کرنی ہو گی کیونکہ مسواک درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ قحط سالى یعنی بارشوں کا بند ہوجانا انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں، جانوروں اور حشرات الارض کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے کا بھی پیغام ہے۔ بارش ہوتی ہے تو اناج اور سبزہ اگتا ہے اور جاندار اپنی اپنی غذائیں کھاکر زندگی کی شمع روشن رکھتے ہیں۔ تو ان بارشوں کو برسانے میں بھی درختوں کا کردار ہے اس لیے کہ درخت اپنى جڑوں مىں جذب شدہ پانى کو ہوا مىں خارج کرتے ہىں جس سے فضا میں نمی پیدا ہوتی ہے۔ پھر ىہ نمى بادل بناتی ہے اور وہ بادل رم جھم رم جھم برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔ زمىن زرخىز ہوکر اناج، پھل اور سبزیاں اگاتی ہے۔ درخت اپنی جڑوں میں پانی محفوظ کرلیتے ہیں اور پھر قحط سالی کے ایّام میں زمىن کو پانى فراہم کر کے بنجر ہونے سے بچاتے ہیں۔ اگر درخت نہ ہوں تو بارشیں بھی نہ ہوں لہٰذا زندہ رہنے کے لیے شجرکاری ضروری ہے۔

سبزے کی طرف دیکھنے سے بینائی تیز ہوتی ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار چیزیں آنکھوں کی (بینائی کی) تقویّت کا باعث ہیں: (1) قبلہ رخ بیٹھنا(2) سوتے وقت سرمہ لگانا (3) سبزے کی طرف نظر کرنا اور (4) لباس کو پاک و صاف رکھنا۔ (احیاء العلوم، 2/ 27(

الحمدللہ ہم نے درخت لگانے کے فضائل اور اسکے فوائد بھی ملاحظہ فرمائے ماہ اگست میں امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے مریدین کو پودے لگانے کے حوالے سے حکم ارشاد فرماتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بہت ہی میٹھی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔ آئیے عزم کرتے ہیں پودے لگانے ہیں اور درخت بنانے ہیں۔ ان شاء اللہ

اللہ پاک ہمارے مرشد امیر اہل سنت کو درازی بالخیر عمر عطا فرمائے۔ آمین


میں نے ایک دفعہ چڑیا پالی اور میں اسے دانہ کھلاتی رہی کچھ دنوں بعد چڑیا اڑ گئی پھر میں نے کبوتر پالا کچھ دنوں کے بعد وہ بھی اڑ گیا پھر میں نے گلہری پالی اس کو بھی دانہ کھلاتی رہی کچھ دنوں کے بعد وہ بھی بھاگ گئی پھر میں نے درخت لگایا تو یہ تینوں واپس آگئے تو معلوم ہوا کہ درخت قدرت کی سب سے قریب قریب چیزوں میں سے ایک ہے آج کل ہمارے ملکوں کا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ رہا ہے گرمی بڑھ رہی ہے ٹمپریچر اتنا بڑھ رہا ہے کہ ہم اس کو نارمل کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں اگر ہم درخت نہیں لگائیں گے تو ہمارے ٹمپریچر میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اس لیے پودا لگائیں اور درخت بنائیں ہم پودے تو لگاتے ہیں لیکن شاید ہم ان پودوں کی کیئر نہیں کرتے کچھ دنوں کے بعد پانی نہ دینے کی وجہ سے یا مناسب طریقے سے خیال نہ رکھنے کی وجہ سے وہ ختم ہو جاتے ہیں تو یہ ذہن بنائیں کہ پودا لگائیں درخت بنائیں ان کی حفاظت کریں یہ ہمارے لیے صدقہ جاریہ بھی ہوگا اور درخت لگانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ درخت ہمیں چھاؤں دیتے ہیں آج ہم چھاؤں میں کھڑا پسند کرتے ہیں یا گاڑی کو بائیک کو چھاؤں میں کھڑا کرنا پسند کرتے ہیں لیکن درخت لگانا پسند نہیں کرتے تو لہذا یہ ذہن بنائیں کہ پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے: جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے اگر کوئی مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے اور اس پودے سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کے لیے وہ صدقہ جاریہ ہوگا۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا ایک اور فرمان ہے: جس نے کوئی درخت لگایا اور پھر اس کی حفاظت کی اور اس کی دیکھ بھال کی پھر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا اور اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اس کے لیے صدقہ شمار کیا جائے گا۔

درخت لگانے کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں جیسے درخت پرندوں کا گھر ہے۔ درخت فضائی آلودگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جنگلات کے کٹائی پودوں جانوروں اور انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس لیے ہمیں درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیئے۔ درخت ہمارے لیے قدرت کا بہترین تحفہ ہے۔ درخت ماحول کو خوبصورت اور صاف ستھرا بناتے ہیں۔ شجرکاری بڑی نیکی کا کام ہے۔

نبی پاک ﷺ کی سنت بھی ہے ہمارے وطن کو ضرورت بھی ہے اس دنیا میں اس وقت جو گلوبل وارمنگ ہے اس کی ایک وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ درخت کاٹے جا رہے ہیں موسم بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے الحمدللہ اس ضرورت کو محسوس کیا گیا اور اس وقت پاکستان میں کم و بیش 30 لاکھ پودے FGRF کی طرف سے لگائے جا چکے ہیں ہمارا نعرہ ہے پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے کئی پودے تو درخت بن بھی چکے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی درخت لگایا جب تک اللہ پاک کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اس میں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو اس (لگانے والے) کو ثواب ملتا رہے گا۔ (مسند امام احمد، 24/382، حدیث: 15616)

درخت ہماری زندگی اور ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں موجودہ دور میں جو ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان سے بچنے کا واحد حل زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ ماحول دوست پودے زمین کا زیور اور آکسیجن کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے۔ درخت خوراک، پناہ گاہ، آکسیجن، لکڑی اور دیگر بے شمار فوائد فراہم کرتے ہیں۔ درخت ہوا کو صاف اور ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں مٹی کے کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ کو روکتے ہیں دماغی صحت اور ماحول کو بہتر بناتے ہیں۔

درخت بڑھتی ہوئی سموگ، شدید گرمی اور قدرتی آفات کو روکتے ہیں درختوں سے انسانوں کے ساتھ جانور اور پرندے بھی سایہ، پھل اور پناہ گاہ حاصل کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے سرکاری سطح پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو ٹاسک دیا جائے اپنے اپنے علاقوں کے بڑے زمینداروں، نمبرداروں اور بلدیاتی نمائندوں کو فری پودے دیئے جائیں اور وہ اپنے اپنے حلقوں میں محفوظ جگہ پر لگوائیں جہاں انکی دیکھ بھال بھی ہو سکے، شہر سے تمام چکوں کو جانے والے روڈز اور نہروں کے دونوں اطراف پودے لگائیں۔

حکومت کی طرف سے کسان حضرات کیلئے پالیسی بنا دی جائے جس کھال سے زمین (زرعی رقبے) کو پانی لگایا جاتا ہے ہر کھال کے ساتھ ساتھ ہر 20 سے 30 فٹ کے فاصلے پر درخت لگائے جائیں، جس سے انسان، جانور اور پرندے مستفید ہونے کے ساتھ ماحول بہتر اور خوشگوار ہوگا۔

حکومتی اداروں کے ساتھ عوام الناس بھی ہر وہ این جی اوز اور سماجی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کریں جو بڑھ چڑھ کر شجر کاری مہم میں حصہ لیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ پودے لگاتے ہیں۔

درخت لگائیں زندگیاں بچائیں اور پاکستان کو سر سبز بنائیں۔ اگر آپ کا زمین کا گھر ہے اور گلی ایسی چوڑی ہے کہ پودا لگایا جاتا ہے(قانونی یا عرفی طور پر ممانعت نہیں ہے) تو آپ اپنے گھر کے باہر پودا ضرور لگائیں پھر اس کی نگہداشت کر تے ہوئے اسے درخت بھی بنائیں بڑے شہروں میں فلیٹ میں رہنے والے اتنے مواقع نہیں پاتے لیکن آپ دعوت اسلامی کے فلاحی ادارے FGRF کے تحت مختلف پارکوں اور عوامی مقامات پر پودے لگا سکتے ہیں اس کے لئے FGRFکے مقامی ذمہ داران سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے۔ ان شاء اللہ


پودا لگانا ماحول اور انسانیت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ہر شہر کی آب وہوا مختلف ہوتی ہے،اسی کے مطابق پودے لگائے جائیں تو زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ پودے لگانے سے پہلے ان کے ماہرین مثلا باغبان وغیرہ سے مشاورت کر لی جائے کیونکہ بعض پودوں کے لگانے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے،ان کے لیے مخصوص پیمائش پر گھڑے کی کھدائی اور اس گھڑے میں مخصوص پانی کی مقدار رکھنا بھی ضروری ہوتی ہے۔

ماہرین سے مشاورت کے بعد پودے لگائیں گے تو ان شاء اللہ کثیر فوائد حاصل ہوں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں ہریالی ہوگی،بالخصوص وطن عزیز پاکستان کی ہر گلی محلے میں درختوں اور پودوں کی یہ ہریالی دیکھ کر عشاقانِ مدینہ گنبد خضرا کی یاد تازہ کریں گے۔

پودے لگانا ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی پودے لگانے کی ترغیب اور فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ پودے لگانے کے فضائل پر تین فرامین آخری نبی ﷺ ملا خظہ کیجئے۔

1۔ جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)

2۔ جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس(لگانے والے)کے لیے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/574، حدیث:16586)

3۔ جس نے کسی ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی گھر بنایا یا ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا،جب تک اللہ پاک کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اس میں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو،اس (لگانے والے کو)ثواب ملتا رہے گا۔ (مسند امام محمد، 5/309،حدیث 15616)

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ درخت لگانا بہت اجرو ثواب کا کام ہے۔

شجر کاری کے معاشی اور معاشرتی فوائد: شجر کاری (یعنی درخت لگانے)کے ذریعے بہت سے معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثلا درخت لکڑی کے حصول کا ذریعہ ہیں اور لکڑی کا انسانی ضروریات کو پوری کرنے میں کلیدی کردار ہے،فرنیچر، کھڑکیاں، دروازے، وغیرہ بنانے کے لیے اب بھی لکڑی کا ہی استعمال ہوتا ہے۔

انسانی صحت کے لیے پھلوں اور میوہ جات کی اہمیت کا بھی کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا انکار نہیں کر سکتا اور یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو انواع واقسام کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان پھلوں کو کھا کر ہی جیتے ہیں۔

مسواک کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت ہے،اس سنت کی ادائیگی کے لیے بھی شجر کاری کرنی ہو گی کیونکہ مسواک بھی درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

پودے لگانے کی احتیاطیں: پودے لگانے کے بعد انکی نگہداشت رکھنا،ان کو وقت پر پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ پودے چند ہی دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جائیں گےیا پھر کسی جانور کی غذا بن جائیں گے۔

یاد رکھیں!پودے کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے جس طرح والدین چھوٹے بچے کی ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں اور خوب تن دہی سے اس کی پرورش کرتے ہیں، اگر تھوڑی سی بےتوجہی ہو جائے تو بچہ کئی بیماریوں کی زد میں آسکتاہے، اسی طرح پودوں کا بھی معاملہ ہے کہ انکی درست انداز میں آبیاری نہ کی گئی اور انہیں ایسے ہی لگ کر چھوڑ دیا گیا تو یہ درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائے گے۔

البتہ جب یہ پودے تن آور درخت بن جائیں تو پھر انہیں خاص توجہ کی حاجت نہیں رہتی بلکہ درخت بن جانے کے بعد یہ از خو د باقی رہ سکتے ہیں۔

نیز پودے لگا نے کے بعد انکی صفائی ستھرائی اور کانٹ چھانٹ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہےتاکہ کسی کو بھی ان کی شاخوں اور ان سے جھڑنے والے پتوں وغیرہ سے ایذا نہ ہو۔

اہل فارس کی طویل عمر ہونے کی وجہ: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارسی کے رہنےوالے تھے۔فارس کے رہنے والے لوگوں کی عمریں طویل ہوتی تھی، اس کی وجہ بیان کرتے ہوے مفسرین کرام فرماتے ہیں:فارس کے بادشاہ نہروں کی کھدائی اور شجر کاری میں بہت رغبت رکھتے تھے،اسی وجہ سےان کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھیں۔

ایک نبی علیہ السلام نے فارس کے لوگوں کی لمبی عمر سے متعلق اللہ پاک کی بارگاہ میں استفسار کیا تو،اللہ پاک نے انکی طرف وحی فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد کرتے ہیں، اسی وجہ سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی آخری عمر میں کھیتی باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ (تفسیر کبیر، 6/367)

اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہمارے وطن عزیز کی خیر فرمائے اور ہم سب کو شجرکاری کی مہم میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔

پودا لگانا ایک نہایت اہم اور برکتوں سے بھرپور عمل ہے جو نہ صرف ماحول کو بہتر بناتا ہے ہے بلکہ انسانیت کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اسلام میں درخت لگانے کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے کیونکہ یہ عمل نہ صرف زندگی کو بڑھاتا ہے بلکہ ثواب کا باعث بھی بنتا ہے اس طرح پودا لگانے سے نہ صرف دنیاوی فائدے حاصل ہوتے ہیں بلکہ یہ ایک نیک عمل کے طور پر آخرت میں بھی اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی پودے لگانے کی ترغیب اور فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ نیز پودے لگانے کے فضائل پر 3 فرامین مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ کیجئے:

1۔ جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)

2۔ جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل الله کے نزدیک اس (لگانے والے) کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/ 574، حدیث: 16586)

3۔ جس نے کسی ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا جب تک الله کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اس میں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو اس (لگانے والے) کو ثواب ملتا رہے گا۔ (مسند امام احمد، 5/ 309، حدیث: 15616) ان احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ درخت یا پودا لگانا اسلام میں نہایت پسندیدہ عمل ہے اور یہ انسان کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتا ہے اگر کوئی جانور، پرندہ یا انسان بھی اس سے فائدہ اٹھائے تو الله اس پر اجر عطا فرماتا ہے۔

اہل فارس کی طویل عمر ہونے کی وجہ: حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فارس کے رہنے والے تھے۔ فارس کے رہنے والوں کی عمریں طویل ہوتی تھی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مفسرین کرام فرماتے ہیں: فارس کے بادشاہ شجر کاری میں بہت رغبت رکھتے تھے اسی وجہ سے ان کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھیں۔ ایک نبی علیہ السلام نے فارس کے لوگوں کی لمبی عمر سے متعلق الله کی بارگاہ میں استفسار کیا تو الله نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد رکھتے ہیں اسی وجہ سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے بھی اپنی آخری عمر میں کھیتی باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ (تفسیر کبیر، 6/ 367)

ایک بار مدینے کے تاجدار ﷺ کہیں تشریف لے جا رہے تھےحضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ایک پودا لگا رہے ہیں۔ استفسار فرمایا: کہ کیا کر رہے ہو؟ عرض کی: درخت لگا رہا ہوں۔ فرمایا: بہترین درخت لگانے کا طریقہ بتا دوں! سبحٰن الله والحمدلله و لا الٰہ الّا الله و الله اکبر پڑھنے سے ہر کلمہ کے عوض (یعنی بدلے) جنّت میں ایک درخت لگ جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 252، حدیث: 3807)

اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ پودے لگانا صحابہ کرام کا بھی طریقہ ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مذکورہ کلمات کو پڑھنے سے ہر ہر کلمے کے بدلے جنّت میں ایک ایک درخت لگا دیا جاتا ہے۔

درخت لگانے کی اچھی اچھی نیتیں: درخت لگانے کے لئے بہت سی اچھی اچھی نیتیں کی جا سکتی ہیں مثلاً:

1: درخت لگا کر آقا جان ﷺ کی ادا کو ادا کروں گا، کیوں کہ درخت لگانا آپ ﷺ سے ثابت ہے۔

2: صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی درخت لگائے اور کھیتی باڑی کی، لہذا شجر کاری کر کے ان کی ادا کو ادا کروں گا۔

3: درخت لگا کر ماحولیاتی آلودگی کو کم کروں گا، تا کہ مسلمانوں کے لئے راحت و سکون کا سامان ہو۔

4: درخت لگا کر صدقہ کا ثواب کماؤں گا، اس طرح کہ درخت آکسیجن پیدا کرتے ہیں جو انسان اور جانوروں کے لئے یکساں مفید ہے۔

اس کے علاوہ بھی حسب حال اچھی اچھی نیتیں کی جا سکتی ہیں۔

اہم بات! پودے لگانے کے بعد ان کا خیال رکھنا، ان کو وقت پر پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک ان کی خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پودے چند دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جائیں گے یا پھر کسی جانور کی غذا بن جائیں گے۔

یاد رکھیے! پودے کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے کہ جس طرح والدین چھوٹے بچے کی ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر تھوڑی سی بے توجہی ہو جائے تو بچہ کئی بیماریوں کی زد میں آ سکتا ہے، اسی طرح پودوں کا بھی معاملہ ہے کہ اگر ان کی درست انداز میں آبیاری نہ کی جائے انہیں لگا کر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو یہ درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے۔ نیز پودے لگانے کے بعد ان کی صفائی ستھرائی اور کانٹ چھانٹ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔


دعوت اسلامی کے شعبہ فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (FGRF) نے پودا لگانا ہے درخت بناناہے کے مقصد سے 30 جولائی 2021 میں اس مہم کا آغاز کیا جس میں شیخ طریقت امیر اہلسنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اوردعوت اسلامی کے ہر سطح کے ذمہ داران اور اسلامی بھائیوں نے بھرپور حصہ لیا اورFGRF کی جانب سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق جنوری 2021ء سے اب تک ملک وبیرون میں ہزاروں مقامات پر 2ملین (یعنی 20لاکھ)سے زائد پودےلگائے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ مزید پودے لگانے اور لگائے گئے پودوں کی نگہداشت کا کام بھی بحسن خوبی انجام دیا جارہا ہے۔

شجرکاری جو اس وقت ایک اہم ایشو ہے، مقامی اور عالمی طور پر کانفرنسز سمینارز ہورہے ہیں،تشہیری مہمیں چلائی جارہی ہیں لوگوں کو درخت لگانے کی ترغیبیں دلائی جارہی ہیں، ہمارا پیارا دین اسلام جو کہ انسان کے وجود وبقاء کا ضامن دین فطرت ہے، اس میں ظاہری وباطنی اور انفرادی و اجتماعی نظافت وپاکیزگی پر بہت زور دیا گیا ہے، اس نے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے شجرکاری کی اہمیت بتائی چنانچہ:

اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی درخت لگا یا اور اس کی حفا ظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہا ں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہرپھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد،5/574، حدیث: 18586)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جومسلمان درخت لگا ئے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جوپرند ہ یا انسا ن کھا ئے تو وہ اسکی طر ف سے صدقہ شما ر ہوگا۔ (مسلم،ص 840، حدیث: 1553)

دوسری روایت میں ہے کہ مسلمان جو کچھ اگائے پھر اس میں سے کوئی انسان یا جانور یا پرند ہ کھائے تو وہ اس کے لئے قیامت تک صدقہ ہوگا۔ (مسلم، ص 839، حدیث:1552)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں وہ سات چیزیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک درخت لگانا بھی ہے۔ (مجمع الزوائد، 1/ 408، حدیث: 769)

مشہور صحابی رسول حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دمشق میں ایک جگہ کھیتی بورہا تھا، ایک شخص میرے قریب سے گزرا تو اس نے مجھ سے کہا کہ آپ صحا بئی رسول جیسا منصب حاصل ہونے کے باوجود یہ کام کررہے ہیں! تو میں نے اس سے کہا میرے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلد بازی مت کرو کیونکہ میں نے رسول پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے فصل بوئی تو اس فصل میں سے آدمی یا مخلوق میں سے جو بھی کھائے گا وہ اس کے لئے صدقہ شمار ہو گا۔ (مسند امام احمد،10/ 421، حدیث: 27576)

درخت لگانے کے طبعی اور طبی فوائد:

آکسیجن کی فراہمی کا ذریعہ: یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں اور آکسیجن کی انسانی زندگی میں ضرورت سے ہر شخص آگاہ ہے۔

خوشگوار ماحول کا سبب: یہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب کرکے ماحول کو خوشگوار بنانے میں اپنا اہم کردار اداکرتے ہیں۔

ادویات کے حصول کا ذریعہ: مختلف اقسام کی ادویات کے بنانے میں درختوں کی جڑیں اورپتے وغیرہ استعمال ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق پودوں اور جڑی بوٹیوں پر مشتمل ادویات کے کاروبار کا حجم دنیا بھر میں تقریباً 83 ارب ڈالر ہے۔

ذہنی تناؤ اور ڈپریشن میں کمی اور انسانی صحت کا ضامن: درختوں کی موجودگی کو خوشگوارصحت مند زندگی کی ضامن بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں دیکھنے اور اس کے درمیان رہنے سے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پرخوشگوار تازگی کا احساس ہوتا ہے جونہ صرف ذہنی طور پر بلکہ کئی جسمانی امراض سے محفوظ رکھتے ہوئے انہیں صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

صوتی آلودگی میں کمی: ماہرین کے مطابق اربن پلاننگ میں اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے ارد گرد اور زیادہ شور شرابے والے مقامات جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے ماحول کوپرسکون بنایاجاسکتا ہے۔ آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اس عظیم مہم میں حصہ لینے کی کوشش عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین


ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام اور فضا کو سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے درخت لگانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔جن علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت موجود ہوتے ہیں اس علاقے کو سیلاب کا خطرہ بے حد کم ہوتا ہے۔

درخت کی جڑیں نہ صرف خود اضافی پانی کو جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد دیتی ہیں جس کے باعث پانی جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔شدید گرمی کی صورت میں درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں۔

درخت لگانے کی وجہ سے زمینی کٹاؤ سے بھی حفاظت ہوتی ہے،درختوں کی موجودگی تناؤ اور ڈپریشن کو کم کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور انسان کے دل و دماغ کو سکون ملتا ہے۔

درخت لگانے کی اہمیت کا اندازہ حضور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارے پیارےنبی محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی درخت لگا یا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہا ں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہرپھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/ 574، حدیث: 18586)

مشہور صحابی رسول حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دمشق میں ایک جگہ کھیتی بورہا تھا، ایک شخص میرے قریب سے گزرا تو اس نے مجھ سے کہا کہ آپ صحا بئی رسول جیسا منصب حاصل ہونے کے باوجود یہ کام کررہے ہیں! تو میں نے اس سے کہا میرے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلد بازی مت کرو کیونکہ میں نے رسول پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے فصل بوئی تو اس فصل میں سے آدمی یا مخلوق میں سے جو بھی کھائے گا وہ اس کے لئے صدقہ شمار ہو گا۔ (مسند امام احمد،10/ 421، حدیث: 27576)

زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں اور اپنی ذہنیت کو سکون دیں اس سے مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں اگر ہم چھوٹا سا پودا لگاتے ہیں تو وہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے درخت بنے گا۔

ایک تحقیق کے مطابق اگر آنے والے زمانے میں درخت نہ رہیں تو سانس لینا بھی دشوار ہوگا ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہیے۔