پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت محمد نواز، جامعۃ المدینہ مظفرپورہ سیالکوٹ
پودے اور درخت
ہماری زندگی کا بہت اہم جز ہے پودوں کے بغیر زمین پر زندگی بسر کرنا دشوار ہے
کیونکہ درختوں اور پودوں کے ذریعے انسان سانس لیتا ہے پودوں سے کاربن ڈائی آکسائڈ
حاصل ہوتی ہے پودے لگانا ایک ثواب جاریہ کا ذریعہ ہے۔
پودے لگانا
ہمارے پىارے آقا ﷺ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو آزاد
کروانے کے لیے 300 کھجور کے درخت آقا کریم ﷺ نے اپنے دست اقدس سے زمین میں لگائے
جو کہ بہت جلد بارآور ہوگئے۔ (مسند امام احمد، 9/189، حدیث: 23798)
ایک بار مدینے
کے تاجدار ﷺ کہیں تشریف لے جا رہے تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوملاحظہ فرمایا
کہ ایک پودا لگا رہے ہیں۔ استفسار فرمایا: کیا کر رہے ہو ؟عرض کی: درخت لگا رہا
ہوں۔ فرمایا: میں بہترین درخت لگا نے کا طریقہ بتا دوں! سبحٰن اللہ والحمد للہ ولا
الٰہ الّا اللہ واللہ اکبر پڑھنے سے ہر کلمہ کے عوض (یعنی بدلے) جنّت میں ایک درخت
لگ جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 252،
حدیث: 3807)
پودے لگانے کے
فضائل پر دو فرامین مصطفے ٰ ﷺ ملاحظہ کیجیے:
1۔ جو
مسلمان درخت لگائے ىا فصل بوئے پھر اس مىں سے جو پرندہ ىا انسان یا چوپایا کھائے تو
وہ اس کى طرف سے صدقہ شمار ہو گا۔ (بخاری، 2 / 85،
حدیث: 2320)
2۔ جس نے کسى
ظلم و زىادتى کے بغىر کوئى گھر بناىا ىا ظلم و زىادتى کے بغىر کوئى درخت اگایا، جب
تک اللہ پاک کى مخلوق مىں سے کوئى اىک بھى اس مىں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو
اس(لگانے والے) کو ثواب ملتا رہے گا۔ (مسندامام احمد، 5/ 309،
حدیث: 15616 )
شجر
کاری کے فوائد: موجودہ
دور میں کاغذ بھی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت کا روپ دھار چکا ہے۔ پرنٹنگ پریس،
اسٹیشنری اور دیگر کئی شعبے کاغذ کے بوتے پر ہی قائم ہیں۔ اگر درخت ختم ہوجائیں تو
کاغذ سے وابستہ سارے شعبے بھی بند ہو جائیں اس لیے کہ کاغذ کا حصول درختوں کی ہی
مرہون منّت ہے۔ انسانی صحت کے لیے پھلوں اور میوہ جات کی اہمیت کا بھی کوئی سمجھ
بوجھ رکھنے والا انکار نہیں کر سکتا اور یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو انواع واقسام
کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان پھلوں کو کھا کر
ہی جیتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے میں بہت سے افراد کی معیشت باغبانی اور پھل فروشی
سے جڑی ہوئی ہے۔ بیماری سے محفوظ رہنے یا بیماری سے جان چھڑانے کے لیے جڑی بوٹیوں کا
استعمال انسانی تاریخ کا حصّہ ہے اور یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ جڑی بوٹیاں
درختوں اور پودوں سے ہی حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ
جو دوا درخت یا پودے کی جڑ سے حاصل ہو اسے جڑی اور جو اوپر اگی ہو اسے بوٹی کہتے
ہیں۔ مسواک کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺ کی میٹھی میٹھی سنّت ہے، اس سنّت کی ادائیگی کے
لیے بھی شجرکاری کرنی ہو گی کیونکہ مسواک درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ قحط سالى
یعنی بارشوں کا بند ہوجانا انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں، جانوروں اور حشرات الارض کی
سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے کا بھی پیغام ہے۔ بارش ہوتی ہے تو اناج اور سبزہ اگتا ہے اور
جاندار اپنی اپنی غذائیں کھاکر زندگی کی شمع روشن رکھتے ہیں۔ تو ان بارشوں کو
برسانے میں بھی درختوں کا کردار ہے اس لیے کہ درخت اپنى جڑوں مىں جذب شدہ پانى کو
ہوا مىں خارج کرتے ہىں جس سے فضا میں نمی پیدا ہوتی ہے۔ پھر ىہ نمى بادل بناتی ہے
اور وہ بادل رم جھم رم جھم برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔ زمىن زرخىز ہوکر اناج، پھل اور
سبزیاں اگاتی ہے۔ درخت اپنی جڑوں میں پانی محفوظ کرلیتے ہیں اور پھر قحط سالی کے
ایّام میں زمىن کو پانى فراہم کر کے بنجر ہونے سے بچاتے ہیں۔ اگر درخت نہ ہوں تو
بارشیں بھی نہ ہوں لہٰذا زندہ رہنے کے لیے شجرکاری ضروری ہے۔
سبزے کی طرف
دیکھنے سے بینائی تیز ہوتی ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار
چیزیں آنکھوں کی (بینائی کی) تقویّت کا باعث ہیں: (1) قبلہ رخ بیٹھنا(2) سوتے وقت
سرمہ لگانا (3) سبزے کی طرف نظر کرنا اور
(4) لباس کو پاک و صاف رکھنا۔ (احیاء العلوم، 2/ 27(
الحمدللہ ہم
نے درخت لگانے کے فضائل اور اسکے فوائد بھی ملاحظہ فرمائے ماہ اگست میں امیر اہل
سنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے مریدین کو پودے لگانے کے حوالے سے حکم ارشاد فرماتے
ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بہت ہی میٹھی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔ آئیے عزم کرتے
ہیں پودے لگانے ہیں اور درخت بنانے ہیں۔ ان شاء اللہ
اللہ پاک
ہمارے مرشد امیر اہل سنت کو درازی بالخیر عمر عطا فرمائے۔ آمین