
لاپروائی ایک
اردو لفظ ہے جس کا مطلب ہے بے احتیاطی، بے فکری، یا عدم توجہ۔ یہ اس وقت استعمال
ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی کام، معاملے یا ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہ لے، یا اس کے
نتائج کی پروا نہ کرے۔
آج آپ کے
سامنے ایک نہایت اہم اور سبق آموز موضوع ہے اور وہ ہے لاپروائی ایک خاموش قاتل۔
زندگی ایک
قیمتی نعمت ہے اور اس زندگی کو بہتر بنانے کے لیے انسان کو شعور، ذمہ داری، اور
سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سے لوگ ایسی لاپروائی کا
شکار ہو جاتے ہیں جو آہستہ آہستہ ہماری کامیابی، خوشی اور سکون کو کھا جاتی ہے اسی
لیے اس کو ایک خاموش قاتل کا نام دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسی
عادت ہے جو بظاہر معمولی لگتی ہے، مگر اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ جسے اس
فرضی حکایت سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے:
فرضی
حکایت: گاڑی
تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔نوجوان گاڑی چلاتے ہوئے چند لمحوں کیلئے
اپنے موبائل فون پر آنے والے پیغامات (Messages) کا جائزہ لیتا اور پھر دوبارہ سامنے دیکھنے
لگتا،انجام کی پروا کئے بغیر کچھ دیر تک وہ اسی میں مگن رہا، بالآخر عین اس لمحے
جب نوجوان کی توجہ موبائل فون کی طرف تھی، اچانک مخالف سمت سے ایک تیز رفتار گاڑی
نمودار ہوئی اور نوجوان کے سنبھلنے سے پہلےدونوں گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرا چکی
تھیں۔
اس سے ملتے
جلتے واقعات آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں۔ ہماری ذرا سی غفلت اور لمحہ بھر کی
لاپروائی کا نتیجہ بھیانک ہوسکتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی ہم لاپروائی کرنے سے باز
نہیں آتے۔
لا
پروائی کے نقصانات: کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ صرف وقت کی لاپروائی کی
وجہ سے کتنے لوگ اپنی منزل تک پہنچنے سے محروم ہو جاتے ہیں؟ کتنے طالبِ علم امتحان
میں فیل ہو جاتے ہیں، صرف اس لیے کہ انہوں نے وقت پر تیاری نہیں کی؟ کتنے مریض صرف
اس لیے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ ڈاکٹر نے ذرا سی لاپروائی کی؟
لاپروائی صرف
ذاتی زندگی میں ہی نہیں، بلکہ معاشرتی، تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھی نقصان
کا باعث بنتی ہے۔ ایک استاد اگر تعلیم دینے میں لاپروائی کرے تو ایک پوری نسل کا
مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ایک انجینئر اگر پل بنانے میں لاپروائی کرے تو
سینکڑوں جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔
ہمیں یہ بات
سمجھ لینی چاہیے کہ لاپروائی صرف آج کا نقصان نہیں بلکہ آنے والے کل کا بھی دشمن
ہے۔
جیسے اگر ہم
آج اپنے فرائض و واجبات میں لاپروائی کریں گے تو یہ دنیا و آخرت دونوں میں اللہ اور
اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا سبب ہو گا اس لیے اپنے کل کو بہتر کرنے کے لیے آج محنت
کرنی ہو گی۔
انجام
پر غور کیجئے! لاپروائی
ایک خطرناک عادت ہے اس سے پیچھا چھڑانے کیلئے اس کے انجام پر غور کیجئے! مثلاً
حصول علم دین سے لاپروائی کا انجام جہالت ہے،وقت کی قدر نہ کرنے کا انجام حسرت اور
پچھتاوا ہے اورڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کا نتیجہ مریض کی موت ہے۔بہرحال دینی امور
ہوں یا دنیوی معاملات ہر نوجوان کو چاہئے کہ لاپروائی کی عادت ختم کر کے احساس
ذمّہ داری پیدا کرے۔تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکے۔
لاپروائی
سے بچنے کے اسباب: ہمیں خود کو منظم بنانا ہوگا، وقت کی قدر کرنی ہوگی
اور ہر کام کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ہر کام کو کرنے سے پہلے اس کے نتائج پر غور
کر لینا چاہیے تاکہ بعد کے مسائل سے بچا جاسکے۔

لاپروائی کا
مطلب ہے غفلت برتنا، دھیان نہ دینا یا بے توجہی دکھانا۔ لا پروائی غیر ذمہ داری کے
زمرے میں بھی آتی ہے۔ یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی کام، فرض، یا
تعلق میں سنجیدگی، توجہ یا ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرےجیسے
نماز میں
لاپروائی کرنا، وقت پر نہ پڑھنا یا دھیان نہ دینا۔
رشتوں میں
لاپروائی کرنا کسی اپنے کا خیال نہ رکھنا، جذبات کو نظرانداز کرنا۔گھریلو ذمہ
داریوں میں لاپروائی برتنا۔
کام میں
لاپروائی کرنا،کام کو صحیح طریقے سے نہ کرنا یا تاخیر کرنا توجہ اور اہمیت نہ دینا
یا کام کی نوعیت کے حساب سے اسکو نہ کرنا۔
کسی عہدہ یا
تنظیمی ذمہ داری میں لا پروائی کرنا،وقت پہ نہ پہنچنا، کام کو وقت پہ مکمل نہ کرنا
یا حساس نوعیت کی معلو مات کی حفاظت نہ کرنا یا ادارے کے اصو لوں کو نظر انداز
کرنا وغیرہ،اس طرح کی لاپر وائیاؔں بڑے نقصانات کا سبب بنتی ہیں اس لیے
لاپروائی کا
نتیجہ اکثر نقصان، افسوس یا تعلقات میں دراڑ، جاب سے ہاتھ دھونے اور بعض دفعہ جان
کے بھی لالے پڑ جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ وضاحت درج ذیل پہلوؤں سے کی جا سکتی
ہے:
1۔
جذباتی لاپروائی: جب
کوئی آپ کے جذبات کو نہ سمجھے، نہ ان کی قدر کرے، اور بےحس رہے، تو یہ جذباتی
لاپروائی کہلاتی ہے۔ جیسے: کسی کا حال نہ پوچھنا، دکھ یا خوشی میں ساتھ نہ دینا،
یا مسلسل نظر انداز کرنا۔
2۔
عملی لاپروائی: ذمہ
داریوں کو سنجیدگی سے نہ لینا۔ جیسے: بچوں کی تربیت میں لاپروائی، کام میں سستی،
یا وعدہ کر کے پورا نہ کرنا۔
3۔
دینی لاپروائی: اللہ
کے احکام میں سستی کرنا، نماز، روزہ، زکٰوۃ وغیرہ کو اہم نہ سمجھنا۔
4۔
جسمانی لاپروائی: اپنی
صحت، صفائی یا خوراک کا خیال نہ رکھنا۔ مثلاً بیمار ہو کر بھی دوا نہ لینا۔
لاپروائی اکثر
رشتے خراب کرتی ہے، کام برباد کرتی ہے، اور زندگی میں ندامت لاتی ہے۔
اسلام میں
لاپروائی یا غفلت کو ایک سنگین روحانی بیماری قرار دیا گیا ہے، جو انسان کو دنیا و
آخرت میں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس حوالے سے متعدد احادیث موجود ہیں جو ہمیں ہوشیار
اور بیدار رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔
احادیث
مبارکہ:
میں نے جہنم
کی مثل کوئی چیز نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا خواب غفلت میں ہو اور نہ ہی جنت
کی نعمتوں و سرور کے مثل کوئی چیز دیکھی ہے جس کا چاہنے والا خواب غفلت میں ہو۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، 2/272، حدیث: 5346)
غافل لوگوں
میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا (جنگ سے) بھاگنے والوں میں ثابت قدم رہنے والے
کے قائم مقام ہے۔ (معجم کبیر، 10/ 16،حدیث: 9797)
مجھے تم پر
فقر کا خوف نہیں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم پر دنیا پھیلا دی جائے گی جیسا کہ تم سے
پہلی قوموں پر پھیلائی گئی تھی، پس تم بھی اس دنیا کی خاطر پہلے لوگوں کی طرح باہم
مقابلہ کرو گے، اور یہ تمہیں غفلت میں ڈال دے گی جس طرح اس نے پچھلی قوموں کو غافل
کردیا۔ (بخاری، 4/225، حدیث: 6425)

ہر انسان بہت
سی اچھی اور بری عادتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو اسے فائدہ یا نقصان پہنچاتی ہیں،
نقصان دینے والی عادتوں میں سے ایک سستی اور لاپروائی بھی ہے جس کا اظہار ہم بہت
سے کاموں کو ٹال کر کرتے ہیں کہ آج نہیں تو چلو کل کرلیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: جس شخص کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہو اور وہ اسے دھوئے بغیر سو جائے پھر کوئی
چیز اسے کاٹ لے تو وہ شخص اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔ (مشكاة المصابيح، 2/97، حدیث: 4219)
مشہور مقولہ
ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو کیونکہ اگر آج کا کام وقت پر نہ کیا تو دوسرے دن
کل والا کام بھی کرنا پڑے گا جو نہ ہونے کی صورت میں سب کے سامنے شرمندگی سے دوچار
کردے گا۔
ہم بحیثیت
انسان کسی نہ کسی حد تک سستی سے کام لیتے ہیں لیکن یہ چیز ایک مسئلہ اس وقت بنتی
ہے جب آپ جانتے ہوں کہ وقت پر کام ختم نہ کرنے کا یقیناً نقصان ہی ہوگا لیکن ہم
پھر بھی تاخیر کرتے رہتے ہیں۔
ٹال مٹول اور
کاہلی کی عادت اگر پکی ہوجائے تو اس کے برے اثرات آپ کی صحت پر بھی پڑسکتے ہیں، آپ
مستقل طور پر ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، ورزش کو ملتوی کرتے ہوئے آپ مزید غیر
صحت مند خوراک کھاتے رہتے ہیں اور حتیٰ کہ کسی بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے
باوجود ڈاکٹر کے پاس جانے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔
صرف
قوت ارادی پر انحصار نہ کریں: ایک برطانوی نفسیاتی ماہر کا کہنا ہے
کہ لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم پختہ ارادہ کرلیں تو سستی سے چھٹکارا حاصل
کرسکتے ہیں۔
لیکن برطانوی
ماہرکے بقول قوت ارادی کام کا جذبہ پیدا کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے
لیکن یہ بہترین طریقہ نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ناگوار پہلوؤں کو نظر انداز
کر کے اپنا بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔
مثلاً اگر آپ
آدھے گھنٹے سے دوڑ رہے ہیں اور اب آپ کے پٹھوں میں درد ہو رہا ہے، تو ضروری نہیں
کہ یہ درد کوئی بری بات ہو اور اس کے خلاف لڑنا ضروری ہو، کیونکہ اگر آپ واقعی فٹ
ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ درد بھی اس کا حصہ ہے۔
جس
کام کو ٹال رہے ہیں اس میں کچھ مثبت تلاش کریں: کیا کسی کام
کو ٹالنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کو ناکام ہو جانے کا خطرہ ہے، تحقیق بتاتی ہے کہ
اس مسئلے کی وجہ ہمیشہ سستی اور وقت کا درست استعمال نہ کرنا نہیں ہوتی بلکہ اس کی
وجہ اپنے جذبات کو درست سمت میں استعمال نہ کرنا بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کو یہ فکر
ہے کہ آپ کسی کام میں ناکام ہو جائیں گے تو آپ اس کام کو ملتوی کرنے کے بہانے
ڈھونڈتے ہیں اور ناخوشگوار جذبات سے نہیں گزرنا چاہتے۔
اس قسم کی سوچ
پر قابو پانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے سامنے جو کام پڑا ہے، اس میں سے مثبت پہلو
تلاش کریں ہوسکتا ہے آپ اس میں کوئی نئی چیز سیکھ لیں اور آپ کو توقع سے زیادہ مزہ
آنے لگے۔
اپنی
تکلیف کو کم کریں: کسی کام کے آغاز کو جتنا آسان بنا سکتے ہیں بنائیں۔
کیا آپ نے کبھی ’چوائس آرکیٹیکچر‘ کے بارے میں سنا ہے؟ اس کی ایک عام مثال یہ ہے
کہ جب آپ خریداری کر کے دکاندار کو پیسے دے رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس چاکلیٹ کی
بجائے کوئی تازہ پھل پڑا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ زیادہ صحت افزا
چیزیں کھانا شروع کر دیتے ہیں۔

لاپروائی ایک
ایسا تصور ہے جو روزمرہ کی زندگی سے لے کر قانونی اور اخلاقی میدان تک ہر جگہ پایا
جاتا ہے سادہ الفاظ میں لاپروائی کا مطلب ہے کسی ایسے فرض کو پورا کرنا جو کسی خاص
صورتحال میں ایک معقول شخص سے توقع کی جاتی ہے اس میں دانستہ طور پر نقصان پہنچانے
کا ارادہ شامل نہیں ہوتا بلکہ یہ غفلت عدم توجہی یا غیر ذمہ داری کا نتیجہ ہے۔
قرآن کریم میں
غفلت کا ذکر: وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا
لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ﳲ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
بِهَا٘-وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ
بِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۷۹)
(پ
9، الاعراف: 179 ) ترجمہ: اور یقینا ہم نے بہت سے جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے
پیدا کیا ہے وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ یہی لوگ غفلت میں
پڑے ہوئے ہیں۔
نماز
میں لاپروائی: رسول
ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلی چیز جس کا بندے سے قیامت کے دن حساب لیا جائے گا وہ نماز
ہے اگر نماز درست ہوئی تو اس کا پورا عمل درست ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی تو اس
کا سارا عمل خراب ہوگا۔ (نسائی، ص 84، حدیث: 463) نماز میں لاپروائی اور سستی پوری
دین کی بنیاد کو کمزور کرتی ہے۔
لاپروائی سے
دل سخت ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کثرت سے قبروں کی زیارت کیا کرو یہ
تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ (ابن ماجہ، 2/251، حدیث: 1569)
لاپروائی دل
کو سخت کر دیتی ہے اور انسان کو موت اور اخرت سے غافل کر دیتی ہے

کسی بھی کام
کو کرنے سے پہلے اس کے اچھے یا برے نتائج پر غور کرلینا انتہائی مفید ہے،اس طرح
انسان بہت سارے نقصانات سے بچ جاتا ہے لیکن جب انجام کی پروا کئے بغیر آنکھیں بند
کرکے جوجی میں آئے کرلیا جائے یا زندگی کے اہم معاملات پر توجہ دینے کی بجائے ان
سے غفلت برتی جائے تو یہ لاپروائی ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔
اپنی
صحت کے بارے میں لاپروائی: مناسب غذا کھانا،اپنی صحّت کا خیال
رکھنا، بیمارہونے کی صورت میں علاج کروانا، جتنی نیند ضروری ہے اتنی نیند کرنا،
صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا آپ کے جسم کی ضرورتیں ہیں ان سے لاپروائی برتنا سخت
نقصان دہ ہے۔بعض نوجوان لاپروائی کاایسامظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنی طبعی ضروریات کا
بھی خیال نہیں رکھتےجس کے باعث آئے دن بیمار پڑے رہتے ہیں۔ پیارے آقا ﷺ نے مسلسل نفلی
روزے رکھنے اور رات کو نفلی قیام کرنے والے صحابی سے فرمایا:تم پر تمہارے جسم کا
بھی حق ہے اور تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے۔ (بخاری،1/649، حدیث:1975) یعنی ہمیشہ
روزہ رکھنے سے تمہارا جسم بہت کمزور ہوجائے گا اور بالکل نہ سونے سے نگاہ کمزور
پڑجانے کا خطرہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/188) معلوم ہوا کہ جسم کی حفاظت اور صحّت كا
خیال بے حد ضروری ہے اس بارے میں ہرگز غفلت نہیں کرنی چاہئے۔
برے
لوگوں کی صحبت میں لاپروائی: برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا،انہیں اپنا
دوست بنانا اور ان سے محبت کرنادنیا اور آخرت میں انتہائی نقصان دہ ہے حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: برے ہم نشین سے بچو
کہ تم اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔ (تاریخ ابن عساکر، 14/ 46) یعنی
جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست وبرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں اور لاپروائی
کرتے ہوئے برے لوگوں کی صحبت اختیار کر لیتے ہیں ہمیں ایسی لاپروائی سے بچنا چاہیے۔
وقت
کی لاپروائی : نماز
وقت پرادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے گویا یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اپنا ہر کام مقرّرہ
وقت پر کیا جائے۔ اسی لیے نمازی اپنی روزمرّہ زندگی کو نماز کے اوقات کے ساتھ
مرتّب کرتا ہے۔ مثلًا ظہر کے بعد فلاں کام کرنا ہے، عصر کے بعد فلاں جگہ جانا ہے
وغیرہ۔ لیکن بےنمازی کو نقصان کا ایک خدشہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت کی پابندی نہ کر
سکے اور زندگی کے معاملات عجیب و غریب ترتیب پر ہوں۔
سب سے پہلے
قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا،اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی
ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔ (معجم اوسط، 1/504، حدیث: 1859)
قرض
ادا کرنے میں لاپروائی سے کام لینا: کچھ لوگ ایک بڑی رقم قرض لیتے ہیں اور
پھر قرض خواہ کو بلا وجہ توڑ پھوڑ کر یعنی تھوڑی تھوڑی کرکے رقم لوٹاتے ہیں جبکہ
بعض تو قرض کے نام پر دوسروں کے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ہڑپ کرجاتے ہیں، ابھی تو
یہ سب آسان لگ رہا ہوگا لیکن قیامت میں بہت مہنگا پڑجائے گا۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : جو دنیا میں کسی کے تقریباً تین پیسے دین (یعنی قرض) دبا لے گا
بروز قیامت اس کے بدلے سات سو باجماعت نمازیں دینی پڑ جائیں گی۔ (فتاویٰ رضویہ، 25
/ 69ملخصاً )اوّلاً تو حتّی الامکان خود کو قرض لینے سے بچائیے اور اگر زندگی میں
کسی موقع پر قرض لینا بھی پڑ جائے تو قرض واپس کرتے وقت ایسا انداز نہ ہو جس سے آپ
کی عزت اور نیک نامی پر کوئی حرف آئے اور آپ کے دوسروں سے تعلقات خراب ہوں۔ ورنہ
قرض خواہ کو اس طرح پریشان کرنے کا ایک دنیاوی نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کی
نظروں میں ایسے آدمی کا اعتبار نہیں رہتا اور اگلی بار ضرورت پڑنے پرلوگ اسے قرض
دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ کریم مجھے اور آپ کو اپنے در کے سوا کسی کا
محتاج نہ بنائے۔ آمین

لا پروائی سے
مراد کسی بھی چیز کی پروا نہ کرنا۔ کچھ لوگ لاپروائی کو ایک مثبت رویہ سمجھتے ہیں،
کیونکہ ان کے خیال میں اس سے انسان آزاد اور بے فکر ہو جاتا ہے۔ تاہم، لاپروائی اکثر
منفی رویہ ہوتا ہے، کیونکہ اس سے انسان کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، حادثات
مالی نقصان وغیرہ۔
فرضی
حکایت: احمد
ایک طالبِ علم تھا جو اپنی پڑھائی میں بہت ہی لاپروا تھا۔ وہ اپنے اسباق کو نظر
انداز کرتا تھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا۔ ایک دن، احمد کے استاد نے
اسے ایک پروجیکٹ سونپا جو بہت ہی اہم تھا۔ احمد نے پروجیکٹ کو نظر انداز کیا اور
اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے چلا گیا۔
جب احمد واپس
آیا تو اسے پتا چلا کہ اس کے استاد نے اسے جو پروجیکٹ سونپا تھا وہ بہت ہی اہم تھا
اور اسے پورا کرنا ضروری تھا۔ احمد نے پروجیکٹ کو پورا کرنے کی کوشش کی لیکن اب
وقت بہت کم تھا جس کی وجہ سے وہ اسے پورا نہیں کر سکا۔ اسے اپنے استاذ محترم کے
سامنے بھی شرمندگی محسوس ہوئی احمد کی لا پروائی کے سبب وہ پروجیکٹ مکمل نہ ہو سکا۔
احمد کے استاد
نے اسے سمجھایا کہ لاپروائی کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اسے اپنی پڑھائی
میں لاپروائی کو ختم کرنا چاہیے۔ احمد نے اپنے استاد کی بات مانی اور اپنی پڑھائی
میں لاپروائی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
احمد نے اپنی
پڑھائی میں لاپروائی کو ختم کرنے کے بعد: اپنے اسباق میں کامیاب ہوا۔ اپنے استاد
کی نظروں میں عزت حاصل کی۔

لاپروائی
کا مطلب: لاپروائی
کا مطلب ہے بے فکری یا کسی چیز کی فکر نہ کرنا۔
لاپروائی ایک
ایسی عادت یا رویہ ہے جس میں انسان اپنے روز مرہ کے کاموں، فرائض یا ذمہ داریوں کو
سنجیدگی سے نہیں لیتا، اس میں غفلت برتتا ہے اور اس کی نتائج کی پروا نہیں کرتا۔
کسی بھی کام
کو کرنے سے پہلے اس کے اچھے یا برے نتائج پر غور کرلینا انتہائی مفید ہے، اس طرح
انسان بہت سارے نقصانات سے بچ جاتا ہے لیکن جب انجام کی پروا کئے بغیر آنکھیں بند
کرکے جو جی میں آئے کرلیا جائے یا زندگی کے اہم معاملات پر توجّہ دینے کی بجائے ان
سے غفلت برتی جائے تو یہ لاپروائی ہے۔لاپروائی ایک منفی رویہ ہے جو فرد، معاشرہ
اور اداروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں، جسے
اس فرضی حکایت سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
فرضی
حکایت: گاڑی
تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ نوجوان گاڑی چلاتے ہوئے چند لمحوں کیلئے
اپنے موبائل فون پر آنے والے پیغامات (Messages) کا جائزہ لیتا اورپھر دوبارہ سامنے دیکھنے
لگتا،انجام کی پروا کئےبغیر کچھ دیر تک وہ اسی میں مگن رہا، بالآخر عین اس لمحے جب
نوجوان کی توجّہ موبائل فون کی طرف تھی، اچانک مخالف سمت سے ایک تیز رفتار گاڑی
نمودار ہوئی اور نوجوان کے سنبھلنے سے پہلےدونوں گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرا چکی
تھیں۔ میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! اس سے ملتے جلتے واقعات آئے دن سننے میں آتے رہتے
ہیں۔ ہماری ذرا سی غفلت اورلمحہ بھر کی لاپروائی کانتیجہ بھیانک ہوسکتا ہے یہ
جانتے ہوئے بھی ہم لاپروائی کرنے سے باز نہیں آتے۔
لاپروائی
کے اسباب: غفلت
اور سستی، خود اعتمادی کی کمی یا حد سے زیادہ خود اعتمادی، وقت کی قدر نہ کرنا، ذمہ
داریوں کا احساس نہ ہونا، منفی سوچ اور غیر سنجیدگی، ذہنی دباؤ یا تھکن۔ آئیے!
روزمرہ کے معاملات میں کی جانے والی چند لاپروائیوں کا جائزہ لیتے ہیں:
اپنی
صحّت کے بارے میں لاپروائی: مناسب غذا کھانا،اپنی صحّت کا خیال
رکھنا، بیمارہونے کی صورت میں علاج کروانا، جتنی نیند ضروری ہے اتنی نیند کرنا،
صفائی ستھرائی کا خیال رکھناآپ کے جسم کی ضرورتیں ہیں ان سے لاپروائی برتنا سخت
نقصان دہ ہے۔بعض نوجوان لاپروائی کاایسامظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنی طبعی ضروریات کا
بھی خیال نہیں رکھتے جس کے باعث آئے دن بیمار پڑے رہتے ہیں۔ پیارے آقا ﷺ نے مسلسل نفلی
روزے رکھنے اور رات کو نفلی قیام کرنے والے صحابی سے فرمایا: تم پر تمہارے جسم کا
بھی حق ہے اور تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے۔ (بخاری، 1/649، حدیث:1975) یعنی ہمیشہ
روزہ رکھنے سے تمہارا جسم بہت کمزور ہوجائے گا اور بالکل نہ سونے سے نگاہ کمزور
پڑجانے کا خطرہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/188) معلوم ہوا کہ جسم کی حفاظت اور صحت كا
خیال بےحد ضروری ہے اس بارے میں ہرگز غفلت نہیں کرنی چاہئے۔
معاملات
میں لاپروائی: بعض
افراد گھر کے کئی معاملات میں بھی لاپروائی کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً خراب نل سے
مسلسل پانی بہہ رہا ہے، پنکھے، لائٹیں اور دیگر برقی آلات بلاضرورت استعمال ہورہے
ہیں لیکن انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ موبائل یا لیپ ٹاپ چارجنگ پر لگا کرعموماً
بھول جاتے ہیں، ماہرین کے مطابق برقی آلات کو کئی گھنٹوں تک چارجنگ پر لگائے رکھنا
آتشزدگی کا سبب بن سکتا ہےاور موبائل فونز سے آتشزدگی کے تو کئی واقعات رپورٹ
ہوچکے ہیں، لہٰذا احتیاط کیجئے! اس سے پہلے کہ لاپروائی آپ کو کسی بڑے نقصان سے
دوچار کردے۔
آخرت
کے بارے میں لاپروائی: دینی معاملات میں لاپروائی کرنادنیوی معاملات میں لاپروائی
سے بھی زیادہ خطرناک ہے مگر افسوس آجکل نوجوانوں کی اکثریت اس کا شکار ہے، یاد
رہے!نماز روزے اور دیگر فرائض و واجبات کی ادائیگی میں لاپروائی اور صغیر ہ و
کبیرہ گناہوں سے بچنے میں لاپروائی، اللہ و رسول کی ناراضی کے باعث ہلاکت و رسوائی
کا ذریعہ ہے۔
چنانچہ پارہ
17، سورۂ انبیاء کی آیت نمبر 1 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ
حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱)ترجمہ کنز
الایمان: لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں۔
وقت تیزی سے
گزر رہا ہے اور لاپروا انسان قیامت کے دن پیش آنے والی عظیم مصیبتوں اور شدید
ہولناکیوں سے بے فکر ہیں اور اس کے لئے تیاری کرنے سے منہ پھیرے ہوئے ہیں اور انہیں
اپنے انجام کی کوئی پروا نہیں۔
لاپروائی
کے نقصانات:
1۔
تعلیمی میدان میں: طالبِ علم اگر لاپروا ہو تو اس کے نتائج خراب آتے
ہیں، اس کا وقت ضائع ہوتا ہے اور وہ مواقع کھو دیتا ہے۔
2۔
پیشہ ورانہ زندگی میں: کام میں کوتاہی، دیر، یا غلطیوں سے نوکری خطرے میں
پڑ سکتی ہے۔
3۔
معاشرتی سطح پر: رشتے
خراب ہو سکتے ہیں، دوسروں کا اعتماد ختم ہو سکتا ہے۔
4۔
ذاتی زندگی میں: انسان
کو اپنے فیصلوں پر پچھتاوا ہوتا ہے اور وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر پاتا۔
لاپروائی
سے بچاؤ کے طریقے:
1۔
وقت کی پابندی: اپنے
دن کی منصوبہ بندی کریں اور وقت کا مؤثر استعمال کریں۔
2۔
ذمہ داری کا احساس: ہر کام کو ذمہ داری سے انجام دیں، چاہے وہ چھوٹا ہو
یا بڑا۔
3۔
خود احتسابی:روزانہ
اپنے کاموں کا جائزہ لیں کہ کہاں کوتاہی ہوئی اور کیسے سدھار سکتے ہیں۔
4۔
ترجیحات طے کرنا: اہم
اور غیر اہم کاموں میں فرق کریں اور پہلے اہم کام انجام دیں۔
5۔
ذہنی سکون حاصل کرنا: مناسب نیند، خوراک اور ورزش سے دماغی تھکن دور
کریں۔
انجام
پر غور کیجئے! لاپروائی
ایک خطرناک عادت ہے اس سے پیچھا چھڑانے کیلئے اس کے انجام پر غور کیجئے! مثلاً
حصولِ علمِ دین سے لاپروائی کا انجام جہالت ہے،وقت کی قدر نہ کرنے کا انجام حسرت
اور پچھتاوا ہے اورڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کا نتیجہ مریض کی موت ہے۔بہرحال دینی
امور ہوں یا دنیوی معاملات ہر نوجوان کو چاہئے کہ لاپروائی کی عادت ختم کر کے
احساس ذمّہ داری پیدا کرے۔تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکے۔

لاپروائی یہ
ہے کہ انجام کی پروا کیے بغیر جو جی میں آئے وہ کر لینا۔ یا زندگی کے اہم معاملات
پر توجہ دینے کے بجائے غفلت برتنا اور سستی و کاہلی سے کام لینا۔ یہ ایک مہلک مرض
ہے۔ جس میں مبتلا شخص اپنی اہم ذمہ داریوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔
اللہ پاک نے
اس کی عبادت سے غفلت و لاپروائی برتنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَفَحَسِبْتُمْ
اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵)(پ
18، المؤمنون: 118) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے
کار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔
حدیث
کی روشنی میں :
حضور ﷺ نے
فضول اور بےمقصد چیزوں کو ترک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ ان میں مشغول ہو کر
انسان ضروری امور سے بھی بے پروا ہو سکتا ہے۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی
کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار چیزوں کو ترک کر دے۔ (ترمذی، 4/142، حدیث: 2324)
ذرا سی لاپروائی
برتنے پر کسی کام کا نتیجہ بھیانک ہو سکتا ہے اور ہم مستقل طور پر اس کام کے کے
بارے میں پچھتاوے اور افسوس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس لاپروائی کے کئی اسباب و
صورتیں ہو سکتے ہیں جیسا کہ:
سوشل میڈیا کا
بے جا استعمال بھی ہمیں لاپروائی میں مبتلا کردیتا ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنے اہم
ترین کاموں کو ترک کر دیتے ہیں جیسے بعض لوگ سوشل میڈیا میں اس قدر مصروف ہو جاتے
ہیں کہ انہیں اپنی نماز تک کی فکر نہیں ہوتی۔
اللہ پاک کی
دی ہوئی نعمتوں سے لا پروا ہو کر انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر اور
شکر سے غافل ہو جاتا ہے اور اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنا بھی زوال نعمت
کا ایک سبب ہے۔
اسلام نے
رشتوں کو اہمیت دی ہے اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن آج کے دور
کے کئی لوگ اپنے رشتوں۔ سے لاپروا نظر آتے ہیں اور ان کے آپس کے تعلقات کمزور ہوتے
جارہے رہیں آخرت کو بھلا دینا کہ انسان دنیاوی کاموں میں حد سے زیادہ مشغول ہو کر
غفلت میں پڑ جائے اور اپنے انجام سے لاپروا ہو جائے۔
لاپروائی
کے نتائج : لاپروائی
کے بہت برے نتائج ہو سکتے ہیں جیسے رشتوں سے لاپروائی کی بنا پر رشتوں سے تعلقات
خراب ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی طبیب کی لاپروائی کے نتیجے میں مریض کی جان جا سکتی
ہے۔ متعین کیے گئے اہداف کی کوشش کرنے میں لاپروائی برتنے سے ہم اپنے اہداف حاصل
کرنے میں ناکام رہ سکتے ہیں اور اگر کوئی فرائض و واجبات میں لاپروائی سے کام لے
تو وہ آخرت میں دائمی ہلاکت کا شکار ہو سکتا ہے۔ الله پاک ہمیں اس مہلک مرض میں
مبتلا نہ کرے اور ہمیں اس مرض سے محفوظ رکھے۔

لاپروائی ایک ایسی
کیفیت ہے جو انسان کی زندگی میں مختلف پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ لاپروائی ایک اچھی
صفت نہیں ہے جو انسان کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل کر دیتی ہے۔ یہ نہ صرف
دنیا میں مشکلات کا باعث بنتی ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کے نقصانات ہیں۔ ہر انسان
بہت سی اچھی اور بری عادتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو اسے فائدہ یا نقصان دیتی ہیں
لیکن یہ چیز ایک مسئلہ اس وقت بنتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ وقت پر کام ختم نہ کرنے
کا یقینا نقصان ہی ہوگا۔
لاپروائی
کے منفی پہلو:
ذمہ
داریوں کی عدم ادائیگی: لاپروائی انسان کو اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز
کرنے کا باعث بنتی ہے اور فرائض ادا کرنے سے روکتی ہے۔
تعلقات
میں خرابی: لاپروائی
تعلقات میں خرابی اور عدم تفہیم کا باعث بن سکتی ہے۔
ناکامی:
لاپروائی
انسان کو اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام کر سکتی ہے۔
خسارہ
اور نقصان: یہ
صفت انسان کو وقت اور مواقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتی ہے۔
روحانی
زوال: لاپروائی
انسان کو اللہ کی یاد اور عبادات سے غافل کر دیتی ہے۔لاپروائی پر قرآن مجید میں پر
کئی آیات موجود ہیں۔
رسول اللہ ﷺ دعا
مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں تیری عاجزی اور سستی سے پناہ مانگتا ہوں۔ (نسائی، ص 865،
حدیث: 5459)
رسول اللہ ﷺ خود
بھی لاپروائی،غفلت اور سستی سے اللہ پاک پناہ مانگتے تھے جو لاپروائی کے نقصان کو
واضح کرتا ہے۔ انسان کو اپنی لاپروائی کے اسباب کو سمجھنا چاہیے۔ اپنے اہداف کا
تعین کرنا چاہیے اور اہم کاموں کو وقت پر پورا کرنا چاہیے۔لاپروائی سے بچنا ضروری
ہے تاکہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور ساتھ ہی ساتھ پرسکون زندگی گزارے۔
اللہ پاک ہمیں
لاپروائی اور غفلت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دنیا
و آخرت کی ناکامی کا سبب: انسان کی فطرت میں غلطی اور سستی کا
عنصر پایا جاتا ہے، مگر مسلسل غفلت اور لاپروائی ایک ایسا رویہ ہے جو اسے تباہی کی
طرف لے جاتا ہے۔ لاپروائی کا مطلب ہے کسی اہم چیز کو نظر انداز کر دینا، گویا وہ
غیر ضروری ہو۔ دین اسلام میں ایسی غفلت کو سخت ناپسند فرمایا گیا ہے۔
اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا (پ
15، الکہف: 28) ترجمہ: اور اس کا کہا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل
کر دیا۔ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ غفلت یعنی لاپروائی، دل کو اللہ
پاک کی یاد سے دور کر دیتی ہے اور ایسا شخص گمراہی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔
لاپروائی اکثر
جلدبازی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے، اور انسان صحیح وقت پر صحیح کام نہیں کرتا،
نتیجۃً پچھتاوے کا شکار ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص نگہبان
ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)
یہ حدیث ہمیں
احساس ذمہ داری کا درس دیتی ہے کہ انسان کو اپنی حیثیت کے مطابق اپنے فرائض انجام
دینا ہوں گے۔ لاپروائی دراصل اسی ذمہ داری سے فرار ہے۔
دعوتِ اسلامی
کے بانی شیخ طریقت، امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: لاپروائی سے
بچو، لاپروائی انسان کو گمراہی میں ڈال دیتی ہے۔ (نیکی کی دعوت، ص 13)
اسی رسالے میں
مزید فرمایا: جو دین کے کاموں میں لاپروا ہے، وہ دنیا کے کاموں میں بھی ناکام رہتا
ہے۔ (نیکی کی دعوت، ص 14)
طلبہ، تاجر،
ملازمین یا علماء ہر طبقہ اگر اپنی ذمہ داریوں میں سستی اور لاپروائی برتے تو
نتائج صرف انفرادی نہیں، اجتماعی طور پر معاشرہ بگڑتا ہے۔ نمازوں میں لاپروائی،
والدین کے حقوق میں غفلت، تعلیم میں سستی، یہ سب اعمال برکت سے محروم کر دیتے ہیں۔
مدنی انعامات
میں بھی بار بار ہمیں سستی و لاپروائی سے بچنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اگر ہم مدنی
انعامات کے مطابق زندگی گزاریں تو ہم بہت سی لاپروائیوں اور گناہوں سے بچ سکتے
ہیں۔ عبادات ادا کرنا دین کی بنیاد ہے، اور لاپروا انسان اس نعمت سے محروم ہو جاتا
ہے۔
لاپروائی ایک
خطرناک عادت ہے۔ اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس کے انجام پر غور کیجیے! مثال کے طور
پر علم دین حاصل کرنے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرنا جہالت ہے، وقت کی قدر نہ کرنے
کا انجام حسرت و پچھتاوا ہے اور ڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کا نتیجہ مریض کی موت
ہے۔
لاپروائی صرف
ایک عادت نہیں بلکہ ایک خطرناک بیماری ہے، جو وقت کی بربادی، برکت کے خاتمے اور
دین سے دوری کا سبب بنتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے
وابستہ رہ کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں، مدنی انعامات پر عمل کریں اور ہر کام کو
وقت پر انجام دینے والے بن جائیں۔

لاپروائی کا
مفہوم تو آپ لفظ لاپروائی پڑھتے ہی سمجھ گئے ہوں گے، کیونکہ آپ نے زندگی میں کبھی
نہ کبھی یہ لفظ یہ اصطلاح سنی ہوگی اور اس پر آپ کا بارہا عمل بھی رہا ہو گا۔ لاپروائی
کہتے ہیں کسی چیز یا عمل کی پروا نہ کرنا، اس کی فکر نہ کرنا، اگر فکر ہے بھی تو
اس پر عمل نہ کرنا۔ ہمارے بہت سے اجر والے کاموں میں لاپروائی شامل ہے۔ بعض لاپروائیاں
صرف دنیا میں نقصان کا سبب ہیں اور بعض آخرت میں بھی نقصان کا سبب ہیں۔جیسے اگر
کوئی بچہ اپنے سکول کا کام ٹھیک سے نہیں کرتا،کوئی عورت گھر کے کام نہیں کرتی
کھانا بنانے کپڑے دھونے میں لاپروائی کرتی ہے، کوئی مرد اپنا کام لاپروائی سے کرتا
ہے تو یہ اسکا دنیاوی نقصان ہے۔ مگر! جب کوئی بالغ نماز پڑھنے میں لاپروائی کرےکوئی
عورت پردہ کرنے میں، غیبت میں تکبر میں چغلی میں لاپروائی کرے تو یہ دین میں لاپروائی
ہے۔ اپنی آخرت کے بارے میں لاپروائی ہے یہ گناہ ہے۔ یہ گناہ ہے۔ کبھی کبیرہ کبھی
صغیرہ!
لاپروائی کی
دو اہم وجوہات ہو سکتی ہیں:
1۔ کام کو
ٹالتے رہنا ابھی کرتی ہوں، تھوڑی دیر تک بس تھوڑی اور دیر، اچھا کھانا کھا کر کرتی
ہوں اپنا کام، اچھا غسل کر لوں پھر آرام سے بیٹھ کے فریش ہو تو لازمی کر لوں گی،
اچھا۔۔۔آج نہیں کرسکی کل سے پکا سب کچھ ٹھیک ٹھیک وقت پر کروں گی۔
اس کا ایک
سادہ آسان سا حل ہے جب نماز کا ٹائم ہو تو فوراً پانچ تک گنتی گنیں اور اٹھ جائیں۔
جب ہوم ورک کرنا ہے تو فوراً پانچ تک گن کر کرنا شروع کر دیں۔ تحقیق کے مطابق
انسان جب نیا فیصلہ کرتا ہے جیسے میں نماز پڑھ لوں تو اس کو اس فیصلے سے واپس سستی
والے موڈ (mood)
میں آنے میں پانچ سیکنڈ لگتے ہیں۔
ان پانچ سیکنڈ
کو غنیمت جانے اور عمل شروع کر دیں فوراً۔
2۔ کام کی
خواہش ہونا مگر ارادہ نہ ہونا۔ مطلب؟ امام غزالی اپنی احیاء العلوم میں ارادہ کی
تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب انسان اپنی عقل سے کسی کام کا نتیجہ اور اس میں
بہتری کو معلوم کرلیتا ہے تو اس کی طبیعت میں بہتری کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ اس
کے اسباب حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان کیلئے ارادہ کرتا ہے تو یہ ارادہ شہوت کے
ارادے اور حیوانیت کے ارادے کے علاوہ ہے۔
لاپروائی
کا ایک علاج: حضرت
سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کی: مجھے
دین میں ایک ایسی بات بتادیجئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی حاجت نہ رہے۔ ارشاد
فرمایا: اٰمَنْتُ بِاللہ(میں اللہ پر ایمان لایا) کہہ اور ا س
پر قائم رہ۔ (مسلم، ص 40، حدیث: 62)
اگر آپ آج نیک
کام لاپروائی کی وجہ سے چھوڑیں گی تو کل قیامت میں آپ کیا کہیں گی؟ اللہ پاک میں
روز خواہش کرتی تھی مگر پھر دوسری چیزوں کو ترجیح دینے لگ جاتی تھی!

لغت میں
لاپروائی سے مراد غفلت، بے فکری اور بے احتیاطی ہے، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے
ہیں کہ کسی کام کی طرف توجہ نہ دینا یا صرف نظر کرنا، اہمیت نہ دینا وغیرہ اس کے
معنی میں آ جائے گا، یہ ایک وسیع موضوع ہے جس پر طویل کلام کیا جا سکتا ہے، دور
حاضر میں نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس لاپروائی کے سبب بھاری نقصان اٹھایا
جاتا ہے لیکن اس کے باوجود افسوس اس امر کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی جیسے بارش
کے پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہ کرنا نتیجتاً موسم برسات میں ملک میں
سیلابی صورتحال پیدا ہو جانا، ڈاکٹرز کی ذرا سی لاپروائی و غفلت مریض کی جان لے
سکتی ہے، کسی افسر یا نگران کی معمولی سی تاخیر پورا نظام درہم برہم کر سکتی ہے
اسی طرح دیگر شعبہ جات میں بھی لا پروائی کی مثالیں مل سکتی ہیں۔
لاپروائی ایک
ایسی عادت ہے جس میں انسان اپنی ذمے داریوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس کے نتائج
اکثر منفی ہوتے ہیں جیسے کام کی خرابی، اعتماد میں کمی اور دوسروں کو نقصان
پہنچنا۔ لاپروائی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان وقت کی قدر کرے، اپنے کام کو
سنجیدگی سے لے اور مکمل توجہ کے ساتھ انجام دے۔
قرآن و حدیث
میں بھی اس کے متعلق مضامین موجود ہیں، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ لَا تُلْقُوْا
بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- (پ 2، البقرۃ: 195) ترجمہ کنز
العرفان: اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی اپنے اعمال میں لاپروائی
سے کام نہ لو۔
اسی طرح ایک
جگہ فرمایا: اِنَّ الْاِنْسَانَ
لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ
تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠(۳) (پ 30، العصر:
2، 3) ترجمہ کنز العرفان: بیشک آدمی ضرور خسارے میں ہے مگر جو ایمان لائے اور
انہوں نے اچھے کام کیے۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کہ جو لوگ غفلت (لاپروائی) میں
اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ نقصان میں ہیں۔
اسی مضمون پہ
مبنی حدیثِ نبوی ملاحظہ ہو، چنانچہ کریم آقا کریم ﷺ امت کو نصیحت فرماتے ہوئے
ارشاد فرماتے ہیں: پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو: (1) جوانی کو بڑھاپے سے
پہلے (2) صحت کو بیماری سے پہلے (3) مال کو فقر سے پہلے (4) فرصت کو مصروفیت سے
پہلے اور (5) زندگی کو موت سے پہلے۔ (مستدرك، 5/435، حدیث: 7916)
ایک جگہ اللہ کے
آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو اپنے کام
غیرسنجیدگی اور لاپروائی سے کرے۔
اس ساری بحث
سے معلوم ہوا کہ جو انسان وقت کو ضائع کرتا اور اپنے روز مرہ کاموں میں غفلت و
نادانی سے کام لیتا ہے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ہم دیکھتے ہیں کہ جو طلبائے کرام و
طالبات سارا سال اپنے اسباق پر توجہ نہیں دیتے انہیں امتحان کے دنوں میں سخت
پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض نتیجۃً ناکام ہو جاتے ہیں ایسے ہی اگر حضرت
انسان اپنا مقصدِ حیات فراموش کر دے اور دنیاوی عیش و عشرت میں مشغول ہو کر اللہ و
رسول کی نافرمانی کرے تو اسے بروزِ حشر سخت شرمندگی اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور
اگر خدا ناخواستہ اللہ پاک کی رحمت شاملِ حال نہ رہی اور آقا ﷺ نے پہچاننے سے
انکار فرما دیا تو جہنم ہی ٹھکانا ہو گی لہذا بہتری اسی میں ہے کہ قرآن و سنت کے
مطابق زندگی بسر کی جائے۔