لاپروائی کا
مفہوم تو آپ لفظ لاپروائی پڑھتے ہی سمجھ گئے ہوں گے، کیونکہ آپ نے زندگی میں کبھی
نہ کبھی یہ لفظ یہ اصطلاح سنی ہوگی اور اس پر آپ کا بارہا عمل بھی رہا ہو گا۔ لاپروائی
کہتے ہیں کسی چیز یا عمل کی پروا نہ کرنا، اس کی فکر نہ کرنا، اگر فکر ہے بھی تو
اس پر عمل نہ کرنا۔ ہمارے بہت سے اجر والے کاموں میں لاپروائی شامل ہے۔ بعض لاپروائیاں
صرف دنیا میں نقصان کا سبب ہیں اور بعض آخرت میں بھی نقصان کا سبب ہیں۔جیسے اگر
کوئی بچہ اپنے سکول کا کام ٹھیک سے نہیں کرتا،کوئی عورت گھر کے کام نہیں کرتی
کھانا بنانے کپڑے دھونے میں لاپروائی کرتی ہے، کوئی مرد اپنا کام لاپروائی سے کرتا
ہے تو یہ اسکا دنیاوی نقصان ہے۔ مگر! جب کوئی بالغ نماز پڑھنے میں لاپروائی کرےکوئی
عورت پردہ کرنے میں، غیبت میں تکبر میں چغلی میں لاپروائی کرے تو یہ دین میں لاپروائی
ہے۔ اپنی آخرت کے بارے میں لاپروائی ہے یہ گناہ ہے۔ یہ گناہ ہے۔ کبھی کبیرہ کبھی
صغیرہ!
لاپروائی کی
دو اہم وجوہات ہو سکتی ہیں:
1۔ کام کو
ٹالتے رہنا ابھی کرتی ہوں، تھوڑی دیر تک بس تھوڑی اور دیر، اچھا کھانا کھا کر کرتی
ہوں اپنا کام، اچھا غسل کر لوں پھر آرام سے بیٹھ کے فریش ہو تو لازمی کر لوں گی،
اچھا۔۔۔آج نہیں کرسکی کل سے پکا سب کچھ ٹھیک ٹھیک وقت پر کروں گی۔
اس کا ایک
سادہ آسان سا حل ہے جب نماز کا ٹائم ہو تو فوراً پانچ تک گنتی گنیں اور اٹھ جائیں۔
جب ہوم ورک کرنا ہے تو فوراً پانچ تک گن کر کرنا شروع کر دیں۔ تحقیق کے مطابق
انسان جب نیا فیصلہ کرتا ہے جیسے میں نماز پڑھ لوں تو اس کو اس فیصلے سے واپس سستی
والے موڈ (mood)
میں آنے میں پانچ سیکنڈ لگتے ہیں۔
ان پانچ سیکنڈ
کو غنیمت جانے اور عمل شروع کر دیں فوراً۔
2۔ کام کی
خواہش ہونا مگر ارادہ نہ ہونا۔ مطلب؟ امام غزالی اپنی احیاء العلوم میں ارادہ کی
تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب انسان اپنی عقل سے کسی کام کا نتیجہ اور اس میں
بہتری کو معلوم کرلیتا ہے تو اس کی طبیعت میں بہتری کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ اس
کے اسباب حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان کیلئے ارادہ کرتا ہے تو یہ ارادہ شہوت کے
ارادے اور حیوانیت کے ارادے کے علاوہ ہے۔
لاپروائی
کا ایک علاج: حضرت
سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کی: مجھے
دین میں ایک ایسی بات بتادیجئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی حاجت نہ رہے۔ ارشاد
فرمایا: اٰمَنْتُ بِاللہ(میں اللہ پر ایمان لایا) کہہ اور ا س
پر قائم رہ۔ (مسلم، ص 40، حدیث: 62)
اگر آپ آج نیک
کام لاپروائی کی وجہ سے چھوڑیں گی تو کل قیامت میں آپ کیا کہیں گی؟ اللہ پاک میں
روز خواہش کرتی تھی مگر پھر دوسری چیزوں کو ترجیح دینے لگ جاتی تھی!