اسلامی قانون میں طلاق کا مطلب ہے نکاح کے بندھن کو ختم کرنا۔ یہ لفظ عربی میں گرہ کھولنے کے معنی رکھتا ہے۔ فقہا کے مطابق طلاق کا مطلب ہے نکاح کو مخصوص الفاظ کے ذریعے ختم کرنا۔ اسلام میں طلاق ایک جائز مگر ناپسندیدہ عمل ہے، جسے صرف آخری حل کے طور پر اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ شریعت نے نکاح کو مضبوط بندھن قرار دیا ہے اور طلاق کو اس بندھن کو توڑنے کا آخری راستہ سمجھا جاتا ہے۔

طلاق ایک سنجیدہ معاملہ ہے جو پورے خاندان پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی بارگاہ میں سب سے ناپسندیدہ حلال کام طلاق دینا ہے۔ (ابو داود،2/370، حدیث:2178)یہ حدیث طلاق کے جواز کو تسلیم کرتی ہے، لیکن اس کی ناپسندیدگی کو بھی واضح کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق طلاق سے پہلے مصالحت کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے جیسے کہ خاندان کے بزرگوں کی مداخلت اور باہمی گفتگووغیرہ تاکہ خاندان تباہ ہونے سے بچ جائیں اور اس کا بیان قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ جیسا کہ سورۃ النسا آیت نمبر 35 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا(۳۵)ترجمہ کنز العرفان: اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک منصف مرد کے گھروالوں کی طرف سے بھیجو اور ایک منصف عورت کے گھروالوں کی طرف سے (بھیجو) یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا،خبردار ہے۔

نیز یہ کہ آج کل عورتیں اعلیٰ قسم کا کھانا نہ ملنے پر، میک اپ کا سامان نہ ملنے پر، رشتے داروں کے ہاں جانے کی اجازت نہ ملنے پر، مشترکہ گھر میں جدا کمرہ ملنے کے باوجود علیحدہ گھر کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر اور اسی قسم کی دیگر معمولی معمولی باتوں پر طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں یہ ناجائز و گناہ ہے اور ایسی عورتوں کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی کی گئی: چنانچہ حدیث مبارک میں ہے: جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر شدید ضرورت کے طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، 2/402، حديث:1190)

اور ایسے ہی وہ ماں باپ اور بہن بھائی اور دیگر رشتے دار جو عورت کو مذکورہ وجوہات کی بنا پر طلاق لینے پر ابھارتے ہیں اور شوہر کو دھمکاتے اور اس سے طلاق کا مطالبہ کرتے ہیں اور عورت کو جبراً گھر (میکے ) میں بٹھالیتے ہیں وہ سب بھی اس گناہ اور وعید میں شریک ہیں اور بعض احادیث میں بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورتوں کو منافقہ قرار دیا ہے۔ (طلاق کے آسان مسائل، ص 10، 11)

طلاق کے منفی اثرات: خاندان کے مختلف افراد پر طلاق کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

بچوں پر ہونے والے منفی اثرات: بعض و اوقات طلاق کی بناء پر بچوں کا والدین سےرابطہ بھی کم ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں کے لیے طلاق ایک جذباتی صدمہ بن جاتی ہے۔ وہ الجھن غصہ، خوف اور افسردگی جیسے جذبات محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ جذبات بعض اوقات تعلیمی کارکردگی میں کمی اور سماجی تنہائی کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ والدین کی طلاق کے بعد بچوں کے تعلقات خاندان کے دیگر افراد جیسے دادا، دادی چچا اور خالہ کے ساتھ بھی متاثر ہو سکتے ہیں، جس سے خاندان کی مجموعی ہم آہنگی میں کمی آتی ہے۔اور یوں سب کے دل ایک دوسرے کیلئے بد گمانی کا شکار رہتے ہیں

زوجین(میاں بیوی ) پر ہونے والے منفی اثرات: طلاق ان کی جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی حالت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد کو بہت سے جسمانی و نفسیاتی مسائل لاحق ہو جاتے ہیں جو کہ ان کی بچوں کے ساتھ تعلقات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔

طلاق کے خاندان کے دیگر افراد پر منفی اثرات: اگر یہ شادی رشتہ داروں میں ہوئی ہو تو پورے پورے خاندان اجڑ جاتے ہیں، ایک دوسرے پر جاں لٹانے والے ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور اگر پہلے سے دشتہ دار نہ بھی ہوں تب بھی طلاق بہت سی برائیوں کی جڑ بنتی ہے کہ دونوں کہ خاندان والے اپنے اپنے رفیق کو درست ثابت کرنے کیلئے جھوٹ ٫بہتان تراشی جیسے بہت سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض و اوقات بیچارے بوڑھے والدین اس سبب سے اپنے بچوں کی فکر میں بے حال ہو جاتے ہیں اور ان کی یہ پریشانی انہیں ہر وقت بے چین رکھتی ہے۔

اسی لیے بہتر ہے کہ یہ فیصلہ لینے سے پہلے صلح کی ہر ممکن کوشش کرلی جائے۔ لہذا پیاری اسلامی بہنو! ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر صبر و برداشت پیدا کریں تاکہ بہت سے خاندانوں کے سر سبز و شاداب باغ اجڑنے سے بچ جائیں اور ہم اللہ پاک و رسول ﷺ کی ناراضگی سے خود کو بچا سکیں۔

اللہ پاک ہمیں دین کے معاملات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔


ایک پاکیزہ رشتہ جسکے ذریعے بہت سے گناہوں کی کاٹ ہوتی ہے، جس کے ذریعے آدھا ایمان محفوظ ہو جاتا ہے، جس کے ذریعے انسان کی نسل بڑھتی ہے، جس کے ذریعے دو خاندان آپس میں جڑتے ہیں وہ رشتہ نکاح کا ہے۔

نکاح پیارے حبیب ﷺ اور دیگر انبیا کی سنت بھی ہے۔ افسوس کہ اس پاکیزہ رشتے کی اہمیت کئی لوگوں نے صحیح معنوں میں سمجھی ہی نہیں نادان ہیں وہ مرد جو طلاق کے ذریعے اور وہ عورتیں جو خلع کے ذریعے ذرا ذرا سی بات پر یہ رشتہ توڑ دیتے ہیں، یاد رہے کہ یہ رشتہ اگرچہ چند الفاظ کے ذریعے ٹوٹ تو جاتا ہے لیکن بعض اوقات اسکے نقصان ناقابلِ تلافی ہو جاتے ہیں۔

رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے: حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے۔ (ابو داود،2/370، حدیث:2178)

طلاق کے ذریعے نہ صرف 2 افراد بیوی شوہر علیحدہ ہوتے ہیں بلکہ طلاق 2 خاندانوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ بعض اوقات تو ان 2 خاندانوں کا خونی رشتہ ہوتا ہے طلاق کے ذریعے ان کے درمیان قطع رحمیاں ہو جاتی ہیں، جبکہ قطع رحمی کی کتنی وعیدات ہیں۔

مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ساری امّت کا اس پر اتّفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم حرام ہے۔ (بہار شریعت، 3/558، حصہ: 16)

طلاق کے ذریعے ان 2 خاندانوں میں بعض اوقات دشمنیاں اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ وہ انتقام کی آگ میں ایسے بھڑک جاتے ہیں کہ پھر وہ نہ آگے دیکھتے ہیں نہ پیچھے بلکہ قتل و غارتگری تک پہنچ جاتے ہیں بالآخر دونوں خاندان اجڑ جاتے ہیں، اسی طرح جن شوہر بیوی میں علیحدگی ہوتی ہے اگر وہ صاحب اولاد ہیں تو ان کے بچے بیچارے رُل جاتے ہیں، اگر بچے ماں کے پاس رہیں تو باپ کی شفقت، پیار کو ترس جاتے ہیں، اگر باپ کے پاس رہیں تو ماں کی محبتوں بھری آغوش سے محروم ہو جاتے ہیں۔

ایسے بچے جب دوسرے بچوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ ان بچوں کو ماں باپ دونوں کا پیار مل رہا ہے، ان کا گھر خوشیوں سے بھرا تو انہیں دیکھ کر پھر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، پھر ایسے بچے بعض اوقات باغی بھی ہو جاتے ہیں۔

بعض اوقات طلاق کے ذریعے 2 خاندان تو الگ ہو جاتے ہیں لیکن ساتھ میں وہ ان لوگوں کی زندگیاں مشکل ہو جاتی ہیں کہ جن کی دونوں خاندانوں سے رشتہ داریاں ہوں اب انہیں دونوں طرف سے دھمکیاں ملتی ہیں کہ اگر ان کے ساتھ میل ملاپ رکھا تو ہم سے رشتہ ختم، یہی بات دوسری طرف کے خاندان سے سننے کو ملتی ہے۔

بعض اوقات یہ ہوتا ہے آپس میں وٹہ سٹہ( یعنی ایک کی بہن جسکے نکاح میں گئی اس مرد کی بہن پہلی لڑکی کے بھائی کے نکاح میں ہو ) ہوتا ہے اب اگر کسی وجہ سے ایک رشتہ ٹوٹتا ہے تو دوسرا رشتہ بلا عذر توڑ دیا جاتا ہے یوں بغیر غلطی کے دوسری لڑکی بھی تکلیف اٹھاتی ہے۔

جب طلاق ہو جائے تو آج کل جو حالات ہیں الامان والحفیظ جو ایک دوسرے کے خلاف غیبتوں، تہمتوں کے دروازے کھلتے ہیں، جس کے ذریعے مزید آپس میں رنجشیں بڑھتی ہیں۔


طلاق کے خاندان پر بہت سے برے اثرات ہو سکتے ہیں نکاح سے ناصرف دو لوگوں کی بلکہ پورے خاندان کی زندگیاں جڑی ہوتی ہے جہاں طلاق کے برے اثرات ان کے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں وہیں لڑکیوں کے ماں باپ بہن بھائیوں کی زندگیاں بھی بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں آئیے ہم جانتے ہیں کہ طلاق خاندان پر کس طرح اثر کرتی ہے۔

طلاق کے بچوں پر اثرات: طلاق کے برے اثرات میں سے سب سے بڑا اثر بچوں پر پڑتا ہے ماں باپ کے طلاق کے نتیجے میں بچوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں بچوں میں احساس تحفظ ختم ہو جاتا ہے اور بھروسہ کرنا ختم کر دیتے ہیں بچے ڈپریشن وسٹریس کے مریض بن جاتے ہیں ان کے ذہن پر اور بھی بہت سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کی تعلیمی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے بچوں میں ا حساس کمتری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ خود کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔

طلاق کے والدین پر اثرات:جس طرح طلاق بچوں کی زندگی متاثر کرتی ہے اسی طرح لڑکی کے والدین کی زندگی اور عزت کو بھی متاثر کرتی ہے والدین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے والدین کو خاندان والوں اور دوستوں کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت سی گھریلو ں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بہنوں کی زندگیوں پر اثر: ہمارے معاشرے میں بہت جہالت پھیل چکی ہے غیبت و طعنہ زنی بہت زیادہ ہو چکی ہے اسی لئے طلاق شادی شدہ بہن اور غیر شادی شدہ بہن کی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے شادی شدہ بہن کو اپنے سسرال والوں کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور غیر شادی شدہ بہن کے لیے اچھے رشتے نہیں آتے اگر آبھی جائے تو بعض اوقات یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ جب ایک بہن طلاق لے سکتی ہے تو دوسری بھی لے سکتی ہے اور بہت سی باتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بھائیوں کی زندگی پر اثرات:جب ایک بہن طلاق لے کر آتی ہے تو بھائی کی زندگی بھی بہت متاثر ہوتی ہے بعض اوقات معاشی تنگی کی وجہ سے اور بعض اوقات لوگوں کی وجہ سے زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور اگر بہن بھائی کی اولاد ہو تو پھر مشکلات اور بڑھ جاتی ہے اور رشتوں میں دراڑیں آنا شروع ہو جاتی ہیں الغرض طلاق نہ صرف دو لوگوں کی بلکہ پورے خاندان کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں سنتوں کے مطابق اچھی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے سب کی مشکلات آسان فرما ئے اور ہمارے معاشرے سے جہالت کا خاتمہ فرمائے اور دین کی روشنی سے ہمارے معاشرے کو منور فرمائے۔ آمین


طلاق ایک سماجی مسئلہ ہے جو نہ صرف میاں بیوی کی زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے خاندان پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جب دو افراد جو نکاح کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہیں، تو یہ صرف دو افراد کی علیحدگی نہیں ہوتی بلکہ ان کے اردگرد موجود تمام رشتے بھی متاثر ہوتے ہیں۔

سب سے پہلا اور گہرا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ بچے ماں باپ دونوں کی محبت اور توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں وہ یا تو ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی ذہنی اور جذباتی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ اکثر بچے احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں عدم تحفظ کا احساس جنم لیتا ہے۔

طلاق والدین کے لیے بھی ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ ایک طرف علیحدگی کا دکھ ہوتا ہے اور دوسری طرف تنہائی، مالی مشکلات اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے طلاق کے بعد زندگی زیادہ مشکل ہو سکتی ہے، کیونکہ انہیں نہ صرف گھر چلانا ہوتا ہے بلکہ معاشرتی رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

خاندان کے دوسرے افراد جیسے کہ والدین، بہن بھائی اور رشتہ دار بھی اس عمل سے متاثر ہوتے ہیں۔ خاندان میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے اور رشتہ داروں کے درمیان دوریاں بڑھ سکتی ہیں۔ بعض اوقات طلاق کا اثر خاندان کے وقار اور عزت پر بھی پڑتا ہے، خاص طور پر روایتی معاشروں میں۔

طلاق ایک سنجیدہ فیصلہ ہے جس کے اثرات محض دو افراد تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے ایسے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں اور اگر ممکن ہو تو اختلافات کو باہمی گفتگو اور مشاورت سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ خاندان کی بنیادیں محفوظ رہ سکیں۔


طلاق کی تعریف: طلاق ایک عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں: چھوڑ دینا یا آزاد کرنا۔ اسلامی اصطلاح میں طلاق کا مطلب ہے: نکاح کے بندھن کو ختم کرنا، یعنی شوہر کا اپنی بیوی کو شریعت کے مطابق جدا کر دینا تاکہ دونوں ایک دوسرے کے لیے غیر محرم ہو جائیں۔

طلاق ایک ناپسندیدہ مگر بعض حالات میں جائز عمل ہے، جس کی اجازت اسلام نے مخصوص شرائط کے ساتھ دی ہے، جب شوہر اور بیوی کے درمیان نباہ ممکن نہ رہے۔

طلاق کے خاندان پر اثرات: طلاق کی صورت میں ایک لڑکی ہی نہیں اس کا خاندان اور اس کے خاندان کی عزت و وقار کے لیے بھی بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ کسی ایک لڑکی کی طلاق کے سبب اس خاندان کی دوسری لڑکیوں کی شادیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ دوسری لڑکیوں کے لیے جب رشتے آتے ہیں تو لوگ یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ اس گھر میں تو پہلے سے ایک طلاق شدہ لڑکی موجود ہے اس طرح دوسری لڑکیوں کے رویہ، معاملات اور اخلاق و کردار کو بھی خورد بین سے دیکھا اور جانچا جانے لگتا ہے۔

طلاق ایک گہرا اثر ڈالنے والا عمل ہے جو نہ صرف میاں بیوی بلکہ پورے خاندان پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ اثرات جذباتی نفسیاتی معاشی اور سماجی پہلوؤں پر محیط ہوتے ہیں۔ ذیل میں طلاق کے خاندان پر پڑنے والے اہم اثرات کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

بچوں پر اثرات: جذباتی عدم تحفظ والدین کی علیحدگی بچوں میں غم، غصہ، الجھن اور اضطراب جیسے جذبات پیدا کرتی ہے۔ بچے اکثر خود کو اس صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، جس سے ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔

تعلیمی کارکردگی میں کمی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلاق یافتہ والدین کے بچے تعلیمی میدان میں کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔نفسیاتی مسائل طلاق کے بعد بچے ذہنی دباؤ، بے چینی اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں، جو ان کی طویل مدتی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

خاندان پر اثرات:

رشتوں میں دراڑ: طلاق کے بعد خاندان کے افراد کے درمیان تعلقات متاثر ہوتے ہیں، جس سے خاندان میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔

معاشی مشکلات: علیحدگی کے بعد دونوں فریقین کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سماجی دباؤ خصوصاً خواتین کو طلاق کے بعد معاشرتی بدنامی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

نفسیاتی اور سماجی اثرات: طلاق یافتہ افراد اکثر تنہائی اور افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں، خاص طور پر اگر ان کے پاس مضبوط سماجی حمایت نہ ہو۔

بچوں کی سماجی نشوونما میں رکاوٹ: والدین کی علیحدگی بچوں کی سماجی مہارتوں اور تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے، جس سے وہ مستقبل میں رشتوں میں مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

اگرچہ طلاق کے منفی اثرات نمایاں ہیں، لیکن بعض اوقات یہ قدم خاندان کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب رشتہ زہریلا یا نقصان دہ ہو۔ ایسے حالات میں والدین اگر بچوں کی بھلائی کو مقدم رکھیں اور باہمی تعاون سے فیصلے کریں تو بچوں کی ذہنی صحت اور فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

طلاق ایک ایسا عمل ہے جس کا تاوان پورے خاندان کو ادا کرنا پڑتا ہے۔طلاق ایک شادی نہیں بلکہ ایک ایسی زندگی کا خاتمہ بھی ہوتا ہے جس کا حصہ والدین اور بچے دونوں ہوتے ہیں۔اس کے نتائج دور رس ہیں اور اس عمل کے نتائج سے گزرناآسان کام نہیں۔ طلاق زندگی کی اتنی بڑی تبدیلی ہے جو بچوں سمیت خاندان سمیت ہر فرد کو متاثر کرتی ہے۔بہت سے جذباتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جن سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔

خاندان کے طلاق کے بارے میں لوگ منفی رائے قائم کرتے ہیں، طلاق کی وجہ سے نہ صرف ازدواجی رشتہ خراب ہوتا ہے بلکہ خاندان بھی ٹوٹ جاتے ہیں، جب طلاق ہوتی ہے تو خاندان میں نہ صرف مالی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں بلکہ بچوں کے ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہیں۔

طلاق کے ہتھیار کو بے دریغ استعمال کرنے کی وجہ سے معاشرے کا امن و سکون اور اعلی اقدار روبہ زوال ہیں۔ معاشرتی زندگی میں سخت بے چینی واضطراب ہے۔ دلخراش اور جذبات کو لہو لہان کرنے والے بیسیوں واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے اور روح پر غم و اندوہ چھا جاتا ہے اس لیے چاہیے کہ دونوں طرف کے نا اتفاقی کی بجائے اتفاقی ہونی چاہیے تاکہ نازک سے رشتے کو بچایا جا سکے۔نکاح کے ساتھ جڑا ہوا ایک معاملہ طلاق کا بھی ہے کہ بعض اوقات ایک ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے تو جدائی تک نوبت آجاتی ہے۔ اب اس جدائی کا طریقہ کیا ہونا چاہئے، اس معاملے میں مختلف مذاہب میں مختلف طریقے رائج ہیں، لیکن اسلام کا طریقہ ان سب میں معتدل اور فریقین کے لئے بہترین ہے۔ اس طریقے پر عمل نہ کرکے اگر کوئی شخص نقصان اٹھائے یا دوسرے کو نقصان پہنچائے تو یہ اس کا اپنا معاملہ ہے، طریقے پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور یہ حقیقت ہے کہ اسلامی طریقے کی پوری طرح پیروی کی جائے تو پھر اس سے بہتر طریقہ ممکن نہیں۔

اگر میاں بیوی میں کچھ ان بن ہوجائے تو آپس میں افہام و تفہیم یعنی بیٹھ کر ایک دوسرے کو سمجھا کر معاملہ صحیح کرلیں اور اپنی زندگی لوگوں، خاندان اور اپنے بچوں کے سامنے تماشہ نہ بنائیں، چنانچہ فرمایا: وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ-فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا(۳۴) ( پ5، النساء: 34 ) ترجمہ کنز العرفان: اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ( نہ سمجھنے کی صورت میں ) ان سے اپنے بستر الگ کرلو اور ( پھرنہ سمجھنے پر ) انہیں مارو پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو ( اب ) ان پر ( زیادتی کرنے کا ) راستہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بہت بلند، بہت بڑا ہے۔

طلاق کے بعد شوہر حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے کہ شادی پر ہمارا اتنا خرچہ ہوا تھا، فلاں موقع پر ہم نے اتنی رقم خرچ کی تھی، فلاں موقع پر بیوی کو یہ تحفہ دیا تھا، لہٰذا اب یہ ساری رقم بیوی یا اس کے گھر والے ہمیں ادا کریں۔ شوہر کو حکم دیا گیا کہ یہ حرکتیں نہ کرے اور یہ اس کے لیے ہر گز جائز نہیں، بلکہ شوہر نے جو کچھ بیوی کو دے دیا، وہ اب بیوی کا ہے، شوہر کو اس میں سے کچھ بھی واپس طلب کرنا حلال نہیں۔

دین اسلام کے ان احکام کو ذرا دل کی گہرائیوں سے پڑھیں اور غور کریں کہ جب طلاق جیسے جدائی کے مرحلے میں دین اسلام قدم قدم پر عورتوں کے حقوق کی رعایت اتنے شان دار انداز میں کرتا ہے تو عام زندگی میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی کیسی خوبصورت تعلیم و تاکید ہوگی۔طلاق کی وجہ سے خاص طور پر بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑوں کو خود ہی سلجھانے کی کوشش کریں تاکہ بعد میں یہ بڑے مسائل تک نہ پہنچیں۔

اللہ پاک ہمیں امن و سکون سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔