حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد انور،جھمرہ سٹی فیصل آباد

قبل از اسلام عورت کی حیثیت
اسلام سے قبل اگر
دنیا کے مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت دیکھی جائے تو معلوم ہو گاکہ عورتیں
مردوں کی محکوم تھیں، مرد خواہ باپ ہوتا یا شوہر، بیٹا ہوتا یا بھائی، ان سے جیسا
چاہے سلوک کرتا، عورتوں کی حيثيت بس ایک خدمتگار کی سی تھی، ان کے ساتھ جانوروں سے
بدتر سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا
لیکن اسلام کی صبح
نور کیا طلوع ہوئی ہر طرف کفر اور ظلم و ستم کا اندھیرا بھی ختم ہو گیا اور یوں بیٹیوں
کو اسلام کی برکت سے ایک نئی زندگی ملی۔جو لوگ پہلے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے میں
فخر محسوس کرتے تھے ، اب بیٹیوں کو اپنی آنکھوں کا تارہ سمجھنے لگے کیونکہ بے کسوں
کے غمخوار ، حبیب پروردگار ﷺ پاک علیہ والہ وسلم نے ان کے سامنے نہ صرف اپنی شہزادیوں
سے محبت کا عملی نمونہ پیش کیا بلکہ یہ مدنی ذہن بھی بنایا کہ بیٹیوں کو عار نہ
سمجھا جائے کیونکہ یہ اللہ پاک کی رحمت اور مغفرت کا ذریعہ ہیں۔
.اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّى اللہ پاک نے اولاد
بالخصوص بیٹیوں کی پرورش کے متعلق فضائل بیان فرما کر ان کی اہمیت کو بھی خُوب
اُجاگر فرمایا۔
چنانچہ بیٹیوں کے فضائل پر مشتمل حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں
قيامت تک مدد کی بشارت
حضور پاک، صاحب لولاک ﷺ پاک علیہ و آلہ و سلم کا فرمانِ
رحمت نشان ہے:جب کسی کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ہے تو اللہ عَزَّ وَ جَلَّ اس کے
گھر فرشتوں کو بھیجتا ہے ، جو آکر کہتے ہیں:اے
گھر والو!تم پر سلامتی ہو۔پھر فرشتے اپنے پروں سے اس لڑکی کا احاطہ کر لیتے ہیں
اور اس کے
سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں:ایک کمزور لڑکی کمزور عورت سے
پیدا ہوئی، جو اس کی کفالت کرے گا قیامت تک اس کی مدد کی جائے گی۔(1)
[1] المعجم الصغیر، الجزء ا، ١/ ٣٠
حضور ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں اللہ پاک نے حضور ﷺ کو بیٹیوں کی
رحمت سے نوازا آپ کو اپنی شہزادیوں سےبہت محبت تھی چنانچہ
رسول خدا صلى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ الہ وسلم کی اولاد پاک
کے نام مبارک ملاحظہ فرمائیں
سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالک و مختار صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم کے تین
شہزادے:
(1)... حضرت سيدنا قاسم رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہ
(2)... حضرت عَبْدُ اللہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہ
(3)... حضرت ابراہیم رَضِيَ اللہ تَعَالَى
عَنْہ
اور چار شہزادیاں:
(1)... حضرت سَيِّدَ تُنا زينب رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا
(2)... حضرت رُ فِيہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى
عَنْہا
(3)... حضرت اُمِّ کُلثوم رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا
(4).. حضرتِ فَاطِمَہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى
عَنْہا
رسول اللہ ﷺ کو سب سے پیاری حضرت فاطمتہ رضی اللہ عنہا تھیں
چنانچہ:
جگر گوشۂ رسول
اللہ کے محبوب،
دانائے غیوب، منزہ عَنِ الْعُيُوبِ صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم
کا ارشاد ہے:فاطمہ (رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا) تمام اہل جنت یا مؤمنین کی
عورتوں کی سردار ہے۔مزید فرمایا:فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو
ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔(مِشْكُوۃ الْمَصَابِيح، کتاب المناقب، باب مناقب
اہل بيت النبي صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم، ج2، ص 435-436، الحديث:6138 - 6139)
رسول اللہ ﷺ
نے حضرت فاطمتہ الزہرہ کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دیا
جس سے رسولِ کریم ﷺ کی ان سے محبت ظاہر ہوتی ھے کیونکہ یہ فطری عمل ہے کہ جس سے
محبت ہوتی ھے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے محبت ہوجاتی ھے اور جس سے محبوب کو
ایذا ھوتی ھے محب کو وہ ناگوار ھوتی ہیں
اللہ پاک ہمیں اہل بیعت کی سچی محبت نصیب فرمائے آمین
(آقا شہزادی کونماز کے لئے بیدار کرتے
حضرت انس بن مالک
رَضِيَ اللہ تَعَالَى عنہ فرماتے ہیں:چھ مہینے تک نبی اکرم صَلَّى اللہ تَعَالَى
عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم کا یہ معمول رہا کہ نمازِ فجر کے لئے جاتے ہوئے حضرت سیدہ
فاطمۃ الزہراء رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا کے گھر کے پاس سے گزرتے تو فرماتے:اے
اہل بیت!نماز ، اللہ عَزَّ وَ جَلَّ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو!کہ تم سے
ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( التَّرْمِذي، كتاب
تفسير القرآن، باب ومن سورۃ الاحزاب، ص 741، حدیث:3206)
حضرت زینب بنت رسول اللہ ﷺ
رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں
نا خوشگوار واقعہ:رسول کریم ﷺ نے مدینہ پاک ہجرت کرنے کے
بعد بی بی زینب رضی اللہ عنہا کو لینے کے لئے دو صحابہ کرام کو مکہ شریف بھیجا جن
میں سے ایک حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے دیور
کنانہ آپ کو لے کر مکے سے روانہ ہوئے ، کفار کو جب اس کی خبر ہوئی تو ایک جماعت
مزاحمت کے لئے پہنچ گئی۔انہوں نے حضرت زینب کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا جس
سے ان کا حمل ضائع ہو گیا ، یہ دیکھ کر کنانہ نے ترکش سے تیر نکال کر سامنے رکھ دیئے
اور کہا کوئی بھی سامنے آیا تو وہ ان سے بچ کر نہیں جا سکے گا! لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ
گئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ٹھہرو
ہماری بات سن لو!محمد (ﷺ ) کی بیٹی کو دن دہاڑے لے کر جاؤ گے تو یہ ہماری کمزوری کی
دلیل ہوگی ، ویسے بھی ان کی بیٹی کو روکنے کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ، لہذا ابھی تم
انہیں واپس لے جاؤ جب شور شرابا کم ہو جائے تو رات کو انہیں چوری چھپے لے جانا گنا
نہ نے اس تجویز کو قبول کر لیا اور انہیں واپس لے گئے ، چند روز بعد ایک رات کو
انہیں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کے پاس پہنچا دیا اور وہ
انہیں نہایت ادب و عزت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینے لے آئے۔
(السيرۃ النبويۃ لابن ہشام، ص 271)
پیارے آقا کی محبت:حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ک
بعد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و الہ و سلم ان کی قبر میں
اترے تو آپ مغموم و پریشان تھے پھر جب باہر تشریف لائے تو پریشانی اور غم کے آثار
زائل ہو چکے تھے ، فرمایا:مجھے زینب کی کمزوری یاد آگئی تو میں نے اللہ رب العزت کی
بارگاہ میں اس کی قبر کی تنگی اور غم میں تخفیف کا سوال کیا، تو اللہ پاک نے ایسا
ہی کیا اور اسے اس پر آسان فرما دیا
معرفۃ الصحابۃ، 140/5
حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ
گلشن مصطفے کے مہکتے پھولوں میں سے ایک پھول حضرت رقیہ رضی
اللہ عنہا بھی ہیں جو رسولِ کریم ﷺ کی بیٹیوں میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے چھوٹی
اور حضرت ام کلثوم و بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہما سے بڑی ہیں۔
تیمار داری پر خصوصی عنایت جنگِ بدر کے وقت حضرت رقیہ سخت بیمار
ہو گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان کو ان کی تیمار داری کا حکم دیا ، بیوی کی تیمار
داری کے باعث جنگ میں شرکت نہ کرنے کے باوجود رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم
نے انہیں مجاہدین بدر میں شمار فرمایا ، مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا اور شر
کائے بدر کے برابر اجر عظیم کی خوشخبری بھی عطا فرمائی۔معرفۃ الصحابۃ، 141/5
ماخوذاً
حضرت ام کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ
حضرت اُم کلثوم اپنی ماں حضرت خدیجہ کے ساتھ بہت مشابہت
رکھتی تھیں۔ان کے دل کا سرور اور آپ علیہ سلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔
حضرت اُمِ کلثوم کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔6 سال تک حضرت عثمان
کے ساتھ خوشگوار گھریلو زندگی بسر کرنے کے بعد شعبان و ہجری میں حضرت ام کلثوم کا
انتقال ہو گیا۔آپ کے غسل و کفن کے انتظامات کی حضور نے خود نگرانی فرمائی، خود
نماز جنازہ پڑھائی اور آپؐ کی مغفرت کی دعا مانگی۔تمام صحابہ کرام نے نماز جنازہ میں
شرکت کی۔آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔
سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات کا آپ کو سخت ملال ہوا۔
صحیح بخای میں ہے کہ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک بار آپ ام کلثوم کی قبر
پر تشریف فرما تھے اور آپ کی آنکھوں سے شدت غم کی وجہ سے آنسو جاری تھے۔
کا ہر عمل ہمارے لیے مشعل راہ ھے سبحان اللہ آقا ﷺ کی اپنی
شہزادیوں سے کیسی محبت تھی اللہ پاک ہمیں
بھی حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
اللہ پاک ہمیں اولاد کے حقوق ادا کرنے اور خصوص بالخصوص بیٹیوں
سے شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ نور حسین،معراج کے سیالکوٹ

حضور اکرم ﷺکی چار بیٹیاں تھیں:حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ،
حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ
عنہا۔آپ ﷺ اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے۔حضور اکرم ﷺحضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کے ساتھ بہت ہی شفقت اور محبت کا معاملہ فرمایا کرتے۔نبی اکرم ﷺجب سفر پر تشریف
لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپس
تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے۔
(1) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب ﷺکی خدمتِ اقدس میں حاضر
ہوتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے ، ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ، پھر ان کا ہاتھ اپنے
ہاتھ میں لے لیتے ، اسے بوسہ دیتے پھر ان کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے۔اسی طرح
جب آپ ﷺحضرت فاطمہرضی اللہ عنہاکے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ ﷺکو دیکھ کر کھڑی
ہو جاتیں ، آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتیں پھراس کو چُومتیں اورآپﷺ کو اپنی
جگہ پر بٹھاتیں۔( ابی داؤد، کتاب الادب ، با ب ماجاء فی القیام، حدیث 5217، ج4 ص454)
(2) حضرت ز ینب رضی
اللہ عنہا رسول اکرم ، نورِ مجسم ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو اعلانِ نبوت سے دس
سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔جنگ ِ بدر کے بعد حضور پرنور، شافعِ یوم النشور ﷺنے
ان کو مکہ سے مدینہ بلالیا۔جب یہ ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پر سوار ہوکر مکہ سے باہر
نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا۔ایک ظالم نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین
پر گرا دیا جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا۔نبی کریم رء وف رّحیم ﷺ کو اس واقعے
سے بہت صدمہ ہوا چنانچہ آپ نے ان کے فضائل میں ارشادفرمایا: ھِیَ اَفْضَلُ
بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ یعنی یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے فضیلت والی ہے
کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔جب آٹھ ہجری میں حضرت زینب رضی
اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا تو نمازِ جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر میں
اتارا۔(شرح العلامۃ الزرقانی ، باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج2، ص318، ماخوذاً)
(3) حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نجاشی
بادشاہ نے حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک ﷺ کی خدمت میں کچھ زیورات بطورِ
تحفہ بھیجے جن میں ایک حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی۔نبی کریم ﷺ نے اس انگوٹھی
کو چھڑی یا انگشتِ مبارکہ سے مس کیا اور اپنی نواسی امامہ کو بلایا جو شہزادیٔ
رسول حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں اور فرمایا:اے چھوٹی بچی!اسے تم
پہن لو۔( ابی داود، کتاب الخاتم، باب ماجاء فی ذھب للنساء ، حدیث4235، ج4، ص125)
(4) حضرتِ ابوقتا دہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت
کرتے ہیں کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ
الْعُیوب ﷺہمارے پاس تشریف لائے تو آپ (اپنی نواسی)امامہ بنت ابوالعاص کو اپنے
کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں
اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔
(بخاری ، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد ،
حضرت اُمِّ سلمہ رضی
اللہ عنہا جب حضورِ اقدس ﷺ کے نکاح مبارک میں آئیں تو ان کی ایک بیٹی زینب دودھ پیتی
تھیں ، رسولُ اللہ ﷺ تشریف لاتے تو بڑی محبت سے پوچھتے:زُناب کہاں ہے؟ زُناب کہاں
ہے؟ كبرىٰ للنسائی ، 5 / 294 ، حدیث:8926
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد سلیم،معراج کے سیالکوٹ

ہمارے پیارے آخری نبی ﷺ کی چار شہزادیاں ہیں۔
1۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا
2۔حضرت کلثوم رضی اللہ عنہا
3۔حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
4۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
اقا ﷺ کو اپنی تمام شہزادیوں سے بہت زیادہ محبت تھی تمام سے
بہت محبت شفقت فرماتے جیسا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا جو کہ آپ ﷺ کی سب سے بڑی
شہزادی ہیں ان کو مصیبت پہنچنے پر آپ ﷺ بہت زیادہ غمگین ہوئے اور ان کو فضیلت والا
فرمایا
(صحابیات صالحات کے اعلی اوصاف جلد اول میں ہے )
حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو
اعلان نبوت سے 10 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں یہ ابتدائے سلام میں ہی مسلمان ہو چکی تھی اور
جنگ بدر کے بعد حضور ﷺ نے انہیں مکہ سے مدینہ بلا لیا تھا مکہ میں کافروں نے ان پر
جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ان کا تو پوچھنا ہی کیا!حد ہو گئی کہ جب یہ ہجرت کے
ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کے مکہ سے باہر نکلی تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا
اور ایک بد نصیب کافر ہبار بن اسود جو بڑا ہی ظالم تھا نے نیزہ مار کے ان کو اونٹ سے
زمین پر گرا دیا جس کے صدمے سے ان کا حمل ساقط ہو گیا یہ دیکھ کر ان کے دیور کنانہ
بولا اگرچہ کافر تھا ایک دم تیش میں اگیا اور اس نے جنگ کے لیے تیر کمان اٹھا لیا یہ
ماجرہ دیکھ کر ابو سفیان نے درمیان میں پڑھ کے راستہ صاف کروا دیا اور یہ مدینہ
منڑوا پہنچ گئی حضور اکرم ﷺ کے قلب کو اس واقعہ سے بڑی چوٹ لگی چنانچہ اپ ﷺ نے ان
کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت فضیلت والی ہے
کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی
اگر اپ ﷺ کی دختر کو کوئی مشکل یا مصیبت پیش ا جاتی تو آپ ﷺ
علیہ ہ وسلم دے غمگین ہو جاتے آپ ﷺ کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے انتہا محبت
تھی آپ ﷺ نے اس محبت کی وجہ سے خاتون جنت کا لقب عطا فرمایا حضرت فاطمہ الزہرا رضی
اللہ عنہا سے اتنے شدید محبت تھی۔کہ آپ رضی اللہ عنہا کے متعلق اقا ﷺ نے فرمایا
شان خاتون جنت میں ہے
دلبر امنہ سرتاج عاشہ والد فاطمہ ﷺ نے ارشاد فرمایا فاطمہ
رضی اللہ عنہا میرے جسم کا حصہ ہے جو اسے نہ گوارا وہ مجھے نہ گوارا جو اسے پسند
وہ مجھے پسند روز قیامت سوائے میرے نسب میرے سبب اور میرے ازواج رشتوں کے تمام نسب
منقطع یعنی ختم ہو جائیں گے اقا ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بہت سے القابات
سے نوازا اپ ﷺ نے اپ رضی اللہ عنہا کو جنتی عورتوں کی سردار فرمایا شان خاتون جنت
میں ہیں اقا ﷺ نے ارشاد فرمایا۔فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام جہانوں کی اور تو اور سب
جنتی عورتوں کی سردار ہیں مزید فرمایا۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے دل کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا
اس نے مجھے ناراض کیا اور ایک روایت میں ہے ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی
تکلیف میری تکلیف ہے
(مشکاۃ المصابیح جلد دو حدیث6139)
سیدہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
اقا ﷺ اپنی تمام بیٹیوں سے بڑھ کر ان سے محبت فرماتے جب اپ
رضی اللہ عنہ نے کام کاج کے لیے کسی غلام کی فرمائش کی تو اپ ﷺ علیہ ہ وسلم نے اپ
رضی اللہ عنہا کو تسبیحات سے نواز دیا جسے تسبیحات فاطمہ کہتے ہیں اپ ﷺ نے اپ رضی
اللہ عنہ کو اس وقت طبی نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لیے بہترین وظائف سے نوازا۔
سید المرسلین خاتم النبیین ﷺ کو اس قدر شفقت تھی کہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو حضور ﷺ اپ رضی اللہ عنہا
کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے اپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتے
اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
زہرا جدوں وی ائے
کھڑے ہو گئے رسول
اپنوں کہواں شفقت یا پیار فاطمہ
اور جب حضور پرنور ﷺ اپ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے
تو اپ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ علیہ ہ وسلم کے تعظیم کے لیے قیام فرماتیں اپ ﷺ کے
مبارک ہاتھوں کو تھام کر بوسہ دیتی اور اپنی جگہ بٹھاتیں
( ابو داؤد حدیث 5217)
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد جاوید،معراج کے سیالکوٹ

حضور ﷺ کی شہزادیوں کی تعداد چار ہے
1حضرت زینب
2حضرت رقیہ
3حضرت ام کلثوم
4حضرت فاطمہ( رضی اللہ عنہم)
حوالہ( زرقانی جلد 2 ص 193 و مدارج النبوۃ جلد 3 ص 451)
المواہب اللدنيۃ وشرح الزرقاني ، باب ذكر اولادہ الكرام، ج
٤ ، ص ٣١٤،٣١٣ ومدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ٢ ، ص ٤٥٠ ،٣١4
حضرت زینب رضی اللہ
یہ حضور اقدس ﷺ کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں۔
اعلانِ نبوت سے دس سال قبل جب کہ حضور ﷺ کی عمر شریف تیس
سال کی تھی مکہ مکرمہ میں ان کی ولادت ہوئی۔یہ ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہوگئی
تھیں
حوالہ( زرقانی جلد ٣ص١٩5تا١٩4.. المواہب اللدنيۃ وشرح الزرقاني، باب فى ذكر اولاد الكرام، ج
٤ ، ص ٣١٨ - ٣١٩)
حضور ﷺ کا تہبند حضر ت زینب کا کفن
حضور اقدس ﷺ نے ان
کے کفن کے لیے اپنا تہبند شریف عطا فرمایا اور اپنےدست مبارک سے ان کو قبر میں
اتارا۔
حوالہ( المواہب اللدنيۃ وشرح الزرقانی، باب فی ذکر اولادہ
الكرام، ج ٤ ، ص ٣٢١،٣١٨ و مدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ٢ ، ص ٤٥٧ )
حضور کی حضرت زینب کی بیٹی سے محبت
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کو بڑی محبت تھی۔آپ ان
کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔
حوالہ( زرقانی جلد ٣ص١٩٦،المواہب اللدنيۃ وشرح الزرقاني ،
باب في ذكر اولادہ الكرام ، ج ٤ ، ص ٣٢١
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
یہ اعلان نبوت سے سات برس پہلے جب کہ حضور ﷺ کی عمر شریف
کاتینتیسواں سال تھا پیدا ہوئیں ور ابتداء اسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئیں
حوالہ( زرقانی جلد ٣ص١٩٧تا١٩٩)
حضرت رقیہ کی تماداری
۔جنگ بدر کے دنوں میں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بہت سخت بیمار
تھیں۔چنانچہ حضور ﷺ
علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جنگ بدر میں شریک
ہونے سے روک دیا اور یہ حکم دیا کہ وہ حضرت بی بی رقیہ رضی الہ علی نبی کی تیار یاری
کریں
حوالہ(زرقانی ج٣ص١٩٨تا١٩المواہب اللدنيۃ وشرح الزرقاني، باب
فی ذکر اولادہ الكرام ، ج ٤ ، ص ٣٢٢، ٣٢٤
حضرت ام کلثوم
یہ پہلے ابولہب کے بیٹے عتیبہ کے نکاح میں تھیں لیکن ابولہب
کے مجبور کردینے سے بد نصیب عتیبہ نے ان کو رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی اور اس
ظالم نے
بارگاہ نبوت میں انتہائی گستاخی بھی کی۔یہاں تک کہ بدزبانی
کرتے ہوئے حضور رحمۃن یاللعالمین ﷺ پر جھپٹ پڑا اور آپ کے مقدس پیراہن کو پھاڑ
ڈالا۔اس مبتلا نہیں ہے گستاخ کی بے ادبی سے آپ کے قلب نازک پر انتہائی رنج و صدمہ
گزرا اور جوش غم میں آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل پڑے کہ یا اللہ!اپنے کتوں میں
سے۔کسی کتے کو اس پر مسلط فرمادے
( دعانبوی کا اثر )
ابولہباور عتیبہ
دونوں تجارت کے لیے ایک قافلہ کے ساتھ ملک شام گئے اور مقام زرقا میں ایک راہب کے پاس رات میں
ٹھہرے راہب نے قافلہ والوں کو بتایا کہ یہاں درندے بہت ہیں۔لیہ
سن کر ابولہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ اے لوگو محمد (ﷺ ان ہی لہ عنہ سے علیہ سلام نے میرے بیٹے عتیبہ کے لیے ہلاکت کی دعا کر دی ہے۔لہذا تم لوگ تمام
تجارتی سامانوں کو اکٹھا کر کے اس کے اوپر عتیہ کا بستر لگا دوچنانچہ قافلہ
والوں نے عتیبہ کی حفاظت کا پورا بندو بست کیا لیکن رات میں بالکل نا گہاں ایک شیر
آیا اور سب کو سونگھتے ہوئے کود کر عتیبہ کے بستر پر پہنچا اور اس کے سر کو چبا
ڈالا۔لوگوں نے ہر چند شیر کو تلاش کیا مگر کچھ بھی پتا نہیں چل سکا کہ یہ شیر کہاں
سے آیا تھا ؟ اور کدھر چلا گیا۔
حوال (زرقانی جلد 3 ص 197 تا 198
المواہب اللدنيۃ وشرح الزرقاني، باب في ذكر اولادہ الكرام،
ج ٤ ، ص ٣٢٦،٣٢5
حضرت فاطمہ
یہ شہنشاہ کونین ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ان کا نام فاطمہ اور لقب
زہرا اور بتول ہے۔
اللہ اکبر!ان کےفضائل ومناقب کا کیا کہنا؟ان کےمراتب ودرجات
کے حالات سے کتب احادیث کے صفحات مالا مال ہیں۔جن کا تذکرہ ہم نے اپنی کتاب عرفت
فاطمہ حقانی تقریریں میں تحریر کر دیا ہے۔حضور اقدس ﷺ پاک علیہ وسلم کا ارشاد ہے
سیدۃ نساء العالمین ( تمام جہان کی عورتوں کی سردار ) اور سیدۃ
نساء اہل الجنۃ (اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ان کے حق میں ارشاد نبوی ہے
کہ فاطمہ میری بیٹی میرے بدن کی ایک بوٹی
ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ شفیق عطاری،معراج کے سیالکوٹ

خاتون جنت سےسرگوشی:حضور ﷺ نےمرض وفات میں بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان کےکان میں
کچھ فرمایا تو وہ رونے لگیں،پھر بلایا اور دوبارہ کچھ فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں۔جب
پوچھا گیا تو کہا : حضورﷺ نے مجھ سےفرمایا:ان
کا وصال اسی بیماری میں ہوجائے گا تو میں
روپڑی پھر مجھے خبر دی کہ میں سب سے پہلے( وفات پاکر) ان سے ملوں گی تو میں ہنسنےلگی۔( بخاری 3/153 حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی
شادی: اسی سال ٢ھ میں حضور ﷺ کی سب سے پیاری
بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی خانہ ابادی حضرت علی کرم اللہ وجحہ الکر یم
کے ساتھ ہوہی _ یہ شادی اتنہائی مقاد اود سادگی کے ساتھ ہو ئی _ حضود ﷺ نےحضرت انس
رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حضرت ابوبکرصدیق وعمرعثمان عبدالرحمن بن عوف اود
دوسرے چند مہاجرین وانصاررضوان اللہ علیہم احمین کو مدعو کریں چناچہ جب صہابہ کرام
دضی اللہ پاک عنھم جمع ہو گئے تو حضورﷺ نےخطبہ پڑھا اور نکاح پڑھا دیا- شہشاہ
کو نسین ﷺ نےشہزادی اسلام حضرت بی بی فا طمہ رضی اللہ عنہا کو جہیزمیں جو
سامان دیا اس کی فہرست یہ ہے ایک کملی بان
کی ا یک
چا ر پا ئی چمر ے
کا گد ا
جس میں رو ئی کی جگہ
کھجو ر کی چھا ل بھر ی ہو ئی تھی ایک چھا گل ایک مشک ؛ دو
؛چکیا ں ؛دو مٹی کے گھڑ ے - حضر ت حا ر ثہ بن نعما ن
انصاری رضی الّلہ عنہ
نے اپنا ایک مکا ن حضو ر
ﷺ کو اس
لئے نذ ر کر د یا کہ اس میں حضر ت علی اور حضر ت بی بی فا
طمہ رضی اللہ عنہا
سکو نت فر مائیں جب حضر ت
فا طمہ رضی اللہّ رخصت
ہو کر نئے گھرمیں گئں تو عشاء
کی نما ذ کے بعد حضو ر ﷺ تشر یف
لائے اور ایک بر تن میں پا نی
طلب فر ما یا اور اس میں کلی فر ما کر حضر ت علی رضی اللہّ
عنہا سینہ اور باذووں پر پا نی چھڑ کا پھر حضر ت
فاطمہ رضی اللہ عنہا
کو بلا یا اور ان
کے سر اور سینہ پر بھی پانی چھڑ کا اور
پھر یوں دعا فر ما ئ کہ یا اللہ میں علی اور فا طمہ اور ا ن
کی اولاد کو تیر ی پناہ میں ریتا ہوں کہ یہ سب شیطان کے شر
سے محفو ظ رہیں (زرقانی ج٢ص4) ہم شکل مصطفٰے ﷺ
حضر ت سید ہ فا طمہ الذ ہر ا
رضی اللہ عنہا سر
سے
پاو ں تک ہم شکل
مصطفے ﷺ تھیں آپ
رضی اللہ عنہا کی
چا ل ڈھال ،وضع قطع
حضو ر ﷺ
کےمشا بہ تھی - اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہا کورسو ل ﷺ
کی جیتی جا گتی تصو
یر
بنایا تھا ،ام المو مین حضر ت
سید تنا عائشہ صدیقہ طیبہ
طا ہر ہ ر ضی اللہ عنہا فر ما تی ہیں کہ میں نے ر سو ل
اللہ ﷺ کی صاحبزادی
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑ ھ کر کسی کو عادت و ا طوار سیر ت وکرادار اور نشت وبر خاست میں آپ ﷺ پاک علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا (مرات ا لمناجیح
ج٨ ص 45٣ ) بابا جان کی مشقت کو دیکھ
کر رونا:حضر ت ابوثلعبہ خشنی رضی اللہ
عنہ سےروایت ہے حضور ﷺ جب کبھی سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا فرماتے اس
کے بعد پہلےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کےگھر اور پھر ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے
گھر تشریف لے جاتےروای فرماتے ہیں ایک مرتبہ آپ ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لاے تو انہوں نے اپنا ہاتھ
سرکار ﷺ کے رخسا ر پر انوار پر رکھ دیا
اور عرض گزار ہوئیں میرے ماں باپ آپ پرقربان آپ ﷺ کے کپرے پھٹے پرانے ہوچکے ہیں آپ
ﷺ نے ارشاد فرمایا اے فاطمہ رضی اللہ عنہا تیرے باپ کو اللہ پاک نے ایک اسیے کام
کےلیے بھیجا ہے روے زمین پر کوئی شہری اور دیہاتی گھر نہ بچے گا مگر اللہ تیرےباپ کے ذریعے یہ کام( یعنی دین اسلام) عزت کے ساتھ پہچادے گا یہ دین وہاں تک پہنچ کر
رہےگا جہاں تک رات کی پہنچ ہے (العجم
والکبیر) دعا: اللہ پاک ہمیں بھی آ پ ﷺ کی صا حبزادیاں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے امین۔
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد نواز،فیضان عائشہ صدیقہ مظفر پورہ سیالکوٹ

رحمتوں والے نبی،رسول ہاشمی ﷺ بیٹیوں سے بے انتہا محبت فرماتے تھے،ان کے
ساتھ شفقت سے پیش آتے ، ان سے رحمت اور محبت والا سلوک فرمایا کرتے تھے۔آقا جان ﷺ
اپنی ہر شہزادی سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے۔پیارے آقا جان ﷺ کی چار شہزادیاں ہیں
:
(1)حضرت زینب رضی اللہ عنہا
(2)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
(3)حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا
(4)حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا
پہلی شہزادی:حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہیں،آپ حضور ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں۔آپ کی ولادت
اعلانِ نبوت سے 10سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔حضور جان رحمت ﷺ نے آپ کا نام زینب
رکھا ۔
حضور جان رحمت، شفیع امت ﷺ کی حضرت زینب رضی
اللہ عنہا سے محبت:ام المومنین حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں:اہل مکہ نے غزوۂ بدر کے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدئیے بھیجے۔ابو
العاص بن ربیع کے فدیے کا مال حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بھیجا اس میں وہ ہار بھی
تھا جو آپ کی والدہ ام المومنین حضرت خدیجہ
الکبری رضی اللہ عنہا نے آپ کو جہیز میں دیا تھا ،ہار کو دیکھ کر آقا جان ﷺ پر بہت
شدت کی رقت طاری ہوگئی ،چنانچہ صحابہ کرام سے فرمایا: تم لوگوں کی رائے ہو تو زینب
کا قیدی چھوٹ دیا جائے اور اس کی چیزیں اس
کو واپس کر دی جائیں؟صحابہ کرام علیہم
الرضوان نےاس پر سر تسلیم خم کیا یعنی بات مانی اور ابو العاص بن ربیع کو بغیر فدیے
کے بطور احسان رہا کر دیا۔(ابو داود،ص 429 ،حدیث: 2692)
مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ہے:اس ہار کو دیکھ کر حضور ﷺ کو اپنی
زوجہ حضرت محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد
آئی تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی غربت وبے کسی کا خیال فرما کر آپ ﷺ پر گریہ طاری
ہوگیا۔ (مرقاۃ المفاتیح، ص 480 ،حدیث:3980)
دوسری شہزادی :حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ہیں۔آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے چھوٹی ہیں۔آپ کی ولادت اعلان نبوت سے سات سال پہلے مکہ مکرمہ
میں ہوئی۔حضور ﷺ کی دیگر شہزادیوں کی طرح حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے بھی بہت زیادہ محبت تھی،ان کو اپنی نگاہ
توجہ میں رکھتے،ان کی خبر گیری فرماتے اور ان کے گھر تحائف وغیرہ بھجوایا کرتے تھے
۔
آقا جان ﷺ کی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے محبت :ایک دن آقا جان ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو
رکابی میں گوشت دے کر ان کے ہاں بھیجا، جب یہ واپس آئے تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ حضرت
رقیہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کا ذکر خیریعنی اچھا ذکر کیا۔(معجم کبیر،1/42،حدیث: 95)
تیسری شہزادی:حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہیں،یہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے چھوٹی ہیں،ان
کی ولادت اعلان نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں
ہوئی ،آقا جان ﷺ نے اپنی اس شہزادی کا نام مبارک ام کلثوم رکھا۔دیگر شہزادیوں کی
طرح حضور ﷺ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے بے انتہا محبت فرماتے تھے، حضور ﷺ کی
دو شہزادیاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں،حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے
وصال کے بعد آقا جان ﷺ نے اللہ پاک کے حکم سے اپنی شہزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا
کا نکاح آپ سے فرمایا ۔
چوتھی شہزادی:حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔آپ کی
ولادت اعلان نبوت سے ایک سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی ،آقا جان ﷺ نے آپ کا نام
مبارک فاطمہ رکھا ۔
حضور رحمت،شفیع امت ﷺ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما
سے محبت :دلبر آمنہ،سر تاج عائشہ،والد فاطمہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:فاطمہ
رضی اللہ عنہا میرے جسم کا حصہ ہے۔جو اسے ناگوار وہ مجھے ناگوار جو اسے پسند مجھے
وہ پسند۔روز قیامت سوائے میرے نسب و سبب اور میرے ازدواجی رشتوں کے تمام نسب منقطع
ہو جائیں۔(مستدرک، 4/ 144،حدیث:4701)
اللہ پاک کے محبوب ﷺ کا ارشاد ہے:فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام
جہانوں کی عورتوں اور سب جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔مزید فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑاہے
جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(مشکوۃ المصابیح، 2/436،حدیث: 6139)
سیدہ زاہرہ طیبہ
طاہرہ جان احمد کی
راحت پہ لاکھوں سلام
آپ نے پڑھا کہ رسولِ کریم،رؤوف رحیم ﷺ کو اپنی شہزادیوں سے کتنا لگاؤ تھا! حالانکہ دور جاہلیت میں بیٹی پر ظلم کے پہاڑ
توڑے جاتے تھے،انہیں منحوس،بوجھ،ذلت و رسوائی کا سبب سمجھا جاتا اور معاذ
اللہ زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔اس سے
معلوم ہوا کہ سرور کونین ﷺ نے اس جہالت وبریریت کے خلاف صرف تعلیمات ہی نہیں ارشاد
فرمائیں بلکہ عملاً بھی اس کی زبردست کاٹ فرمائی۔اللہ پاک ہمیں بھی آقا جان ﷺ کی سیرت
مبارک پر چلتے ہوئے اپنی بیٹیوں سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ طارق محمود،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

حضور سید المرسلین،خاتم النبیین ﷺ کی اپنی شہزادیوں کے ساتھ
مَحبت اور شفقت ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کی شخصیت کا ایک اہم حصہ ہے اور آپ کی
اپنی شہزادیوں سے محبت و شفقت اس بات کی نشانی ہے کہ آپ ایک شفیق والد اور انسان ہیں
اور اِس کا ذکر حدیثوں میں بھی کیا گیا ہے۔آپ نہ صرف اپنے اہلِ خانہ بلکہ اپنی
شہزادیوں سے بھی بے پناہ محبت ، احترام اور شفقت فرماتے تھے۔اللہ پاک بھی ان سے کتنی محبت فرماتا
ہے کہ قرآن پاک میں بھی ان کاذکر فرمادیا۔چنانچہ اللہ پاک نے قرآن کریم کے پارہ 22
سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرمایا:وَ
اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ
الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ22،الاحزاب:33) ترجمہ کنزالایمان:اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اللہ
تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو!کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک
کرکے خوب ستھرا کردے۔
تفسیر صراط الجنان:یعنی تمام احکامات اور ممنوعات میں اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت کرو۔ لہٰذا
تم میں سے کسی کی شان کے لائق یہ بات نہیں کہ جس چیز کا اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ نے حکم
دیا تم ا س کی مخالفت کرو۔(تفسیر صاوی، 5 / 1638)
یعنی اے میرے حبیب کے گھر والو!اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ
گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔(تفسیر
نسفی، ص940ملخصاً)
امام عبد اللہ بن
احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ان آیات(یعنی اس آیت اور اس کے بعد والی آیت)میں رسولِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت کو نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ گناہوں سے بچیں اور تقویٰ و پرہیزگاری کے پابند رہیں۔یہاں گناہوں کو ناپاکی سے اور پرہیزگاری کو پاکی سے تشبیہ دی
گئی کیونکہ گناہوں کا مُرتکب اُن سے ایسے
ہی مُلَوَّث ہوتا ہے جیسے جسم نجاستوں سے
آلودہ ہوتا ہے اور اس طرزِ کلام سے مقصود یہ ہے کہ عقل رکھنے والوں کو گناہوں سے نفرت دلائی جائے اور تقویٰ و پرہیزگاری کی ترغیب دی جائے۔(تفسیر نسفی، ص941،940)
کیا بات ہے ہمارے آقا ﷺ کے گھرانے کی کہ رب بھی انہیں محبت سے بتا رہا ہے کہ کون سے کام کریں
اور کس کام سے بچیں۔بہت ساری احادیث بھی
کتب میں موجود ہیں کہ جو آپ ﷺ کی اپنی شہزادیوں سے محبت کو بیان کرتی ہیں:
1)حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت:فاطمہ میرے جگر
کا ٹکڑا ہے،جو اِسے رنجیدہ کرتا ہے،وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔( بخاری ، 3/471،حدیث:5230)
2) فاطمۃ دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں۔(مسلم ،ص1023،حدیث:)
3)جب حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، تو
نبی کریم ﷺ نے اُٹھ کر انہیں اپنی جگہ پر بٹھایا اور اُن کے ساتھ محبت سے بات کی۔(ابوداود،4/454،
حدیث:5217)
4)فاطمۃ میرے میرے جگر کا ٹکڑا ہے،جو اُسے تکلیف دیتا ہے وہ
مجھے تکلیف دیتا ہے۔(مشکاۃ
المصابیح، 2/436،حدیث:6139) (مسلم، ص1021 ، حدیث:6307)
2)حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا سے محبت:جنگِ بدر کے موقع پر حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں
تو آپ ﷺ نے حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو آپ کی تیمار
داری کا حکم دیا۔بیوی کی تیمار داری کے
باعث جنگِ بدر میں شرکت نہ کرنے کے باوجود بھی آپ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کومجاہدینِ
بدر میں شمار فرمایا اور مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا اور شرکاءِ بدر کے
برابر اجر کی خوش خبری بھی عطا فرمائی۔( معرفۃ الصحابہ ، 5/141 ماخوذاً )
3)حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے محبت:حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت حضرت محمد ﷺ نے بڑی
غمگینی اور محبت کے ساتھ فرمایا:میرے لئے تم سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو تم میں سے
میری طرف سب سے زیادہ قریب ہو اور آپ کی محبوب بیٹی زینب ہے۔(مسلم ، حدیث:2449 )
4)حضرت
اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا سے محبت:حضرت انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا کے بارے میں
فرمایا: جس نے میری بیٹی کو عزت دی اُس نے مجھے عزت دی۔( ابنِ ماجہ ،حدیث:144 )
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ ریاض،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

الحمدللہ !اسلام نے بیٹی کو عظمت بخشی اور اس کا وقار بلند
کیا ہے۔مسلمان اللہ پاک کا عاجز بندہ اور
اس کے احکام کا پابند ہوتا ہے۔بیٹا ملے یا بیٹی یا بے اولاد رہے ہر حال میں اسے
راضی برضا رہنا چاہیے۔اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو 4 بیٹیاں عطا کیں جن کا
مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
پہلی
شہزادی :اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی حضرت
بی بی زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔
حضرت بی
بی زینب رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کی محبت :حضرت بی بی
زینب رضی اللہ عنہا کی جب وفات شریف ہوئی تو اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی ﷺ نے
ان کے کفن کے لیے اپنا تہبند شریف عطا فرمایا اور اپنے بابرکت ہاتھوں سے انہیں قبر
میں اتارا۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول پاک ﷺ ان کی قبر میں تشریف
لے گئے تو آپ مغموم و پریشان تھے پھر جب باہر تشریف لائے تو پریشانی اور علم
کےآثار ظاہر زائل ہو چکے تھے، فرمایا: مجھے زینب کی کمزوری یاد آئی تو میں نے اللہ
پاک کی بارگاہ میں اس کی قبر کی تنگی اور
غم میں تخفیف کا سوال کیا تو اللہ پاک نے ایسا ہی کیا اور اسے اس پر آسان کر دیا۔(
معرفۃ الصحابۃ ، 5/140 )
دوسری
شہزادی :آپ کی دوسری شہزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ہیں۔
حضرت رقیہ
رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کی محبت:جنگِ بدر کے وقت
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سخت بیمار ہوگئیں تو رسولُ اللہ ﷺ نے حضرتِ عثمان رضی
اللہ عنہ کو ان کی تیمار داری کا حکم دیا ، بیوی کی تیمار داری کے باعث جنگ میں
شرکت نہ کرنے کے باوجود رسولُ اللہ ﷺ نے انہیں مجاہدینِ بدر میں شمار فرمایا ،
مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا اور شرکائے بدر کے برابر اجرِ عظیم کی خوشخبری
بھی عطا فرمائی۔( معرفۃ الصحابۃ ، 5 / 141 ماخوذاً )
تیسری
شہزادی :آپ ﷺ کی تیسری شہزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہیں۔
حضرت ام
کلثوم رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کی محبت:9 ہجری میں
حضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات
ہوئی۔رسولِ خدا،احمد مجتبیٰ ﷺ کی اس شہزادی کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کے
بابا جان،رحمتِ عالمیان ﷺنے ان کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی اور انہیں مدیْنۂ
مُنَوَّرَہ کے قبرستان جنّتُ البقیع میں دفن بھی فرمایا۔(شرح زرقانی،4/325۔327)
چوتھی
شہزادی :آپ کی سب سے آخری اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔
حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کی محبت :آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جب بھی میں جنت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہوں تو فاطمہ کی خوشبو سونگھ لیتا
ہوں۔(معجم کبیر،22/400،حدیث:1000)( مستدرک،4/140،حدیث:4791)
جب حضرت فاطمہ پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو
حضور ﷺ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر بوسہ دیتے اور اپنی
جگہ پر بٹھاتے اور جب حضور ﷺ بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تو
وہ بھی آپ کی تعظیم کے لیے کھڑی ہو جاتیں اور پیارے آقا ﷺ کے مبارک ہاتھ کو تھام
کر چومتیں اور اپنی جگہ پر بیٹھاتیں۔(ابوداود،4/454،حدیث:5217)
آپ نے پڑھا کہ آپ ﷺ اپنی شہزادیوں سے کتنی محبت فرماتے تھے۔الحمدللہ!ہم
آپ ﷺ کی امتی ہیں تو ہمارا یہ حق ہے کہ ہم آپ کی تعلیمات پر عمل کریں۔آپ کی سنت پر
عمل کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں سے محبت کریں ، انہیں برا بھلا نہ کہیں کہ فرمان مصطفےٰ
ﷺ ہے: بیٹیوں کو برا مت کہو بے شک میں بھی بیٹیوں والا ہوں۔( مسند الفردوس ،2 / 415 ، حدیث : 7556)آئیے!بیٹیوں کے فضائل پر مبنی 3 فرامین مصطفےٰ ﷺ پڑھئے:
آپ ﷺ نے فرمایا: بیٹیوں
کو برا مت سمجھو ، بے شک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔( مسند امام احمد،6/134 ،حدیث: 17378 )
آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ
اسے ایذا نہ دے اور نہ ہی برا جانے اور نہ
بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ پاک اس
کو جنت میں داخل فرمائے گا ۔(مستدرک،5/ 248 ،حدیث: 7428 )
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس
کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ جنت میں
داخل ہوگا ۔( ترمذی، 3/ 366 ،حدیث: 1919 )
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد ریاض،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

زمانہ جاہلیت میں لوگ
اپنی بیٹیوں کو معاذ اللہ زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔مگر الحمدللہ دینِ اسلام نے بیٹی کو عظمت بخشی اور اس کا
وقار و مرتبہ بلند کیا۔انسان کو چاہیے کہ اللہ پاک بیٹا عطا فرمائے یا بیٹی یا بے
اولاد رکھے تو ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہے۔پارہ 25 سورۃ الشوری کی آیت نمبر
49 اور 50 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:لِلّٰهِ
مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ
اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ(۴۹)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ
ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ
قَدِیْرٌ(۵۰)ترجمہ کنز الایمان:اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی
سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے۔یا
دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بے شک وہ علم و قدرت والا
ہے۔
حضرت علامہ عبد المصطفٰے اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سیرتِ مصطفےٰ
صفحہ نمبر 687 پر لکھتے ہیں:اس بات پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضور ﷺ کی اولاد
کرام کی تعداد چھ ہے۔دو فرزند حضرت قاسم و حضرتِ ابراہیم رضی اللہ عنہما اور چار صاحبزادیاں حضرتِ زینب وحضرتِ رقیہ
وحضرتِ امِ کلثوم وحضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنھنّ ہیں۔بعض مورخین نے تین فرزند کہا ہے۔اس طرح ملا کر آپ کی اولاد پاک
سات بنتی ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے سب سے
بڑی شہزادی ہیں۔حضور ﷺ نے ان کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا:یہ میری بیٹیوں میں اس
اعتبار سے بہت ہی زیادہ فضیلت والی ہیں کہ میری جانب ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت
اٹھائی۔حضور ﷺ نے ان کے کفن کے لیے اپنا تہبند شریف عطا فرمایا اور اپنے دستِ
مبارک سے ان کو قبر میں اتارا۔حضرتِ زینب رضی اللہ عنہا کے بعد حضرت رقیہ اور پھر
حضرتِ امِ کلثوم اور سب سے چھوٹی شہزادی حضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنہن ہیں۔
بیٹیوں کے فضائل پر مشتمل حضور ﷺ کے ارشاداتِ
مبارکہ:
1)بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو،بے شک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔(مسندِ
امام احمد،6/134،حدیث: 17378)
2)جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اُسے ایذا نہ دے اور نہ ہی
بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ پاک اُس کو جنت میں داخل فرمائے گا۔(مستدرک،5/248،
حدیث:7428 )
3)جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ
اچھا سُلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔( ترمذی،3/366، حدیث:1919 )
حضور ﷺ اپنی تمام شہزادیوں سے بے انتہا شفقت و محبت فرماتے
تھے مگر اپنی سب سے چھوٹی شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ پیار فرمایا
کرتے تھے جو آپ کی سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ان کا نام فاطمہ اور لقب زہرا
اور بتول ہے۔آقا ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بے شمار فضائل ارشاد فرمائے ہیں، چند فضائل یہ
ہیں:
▪حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:یہ سیدۃ
نساء العالمین (تمام جہان کی عورتوں کی سردار ) اور سیدۃ نساء اہل الجنۃ ( اہل جنت
کی تمام عورتوں کی سردار ) ہیں۔(مواہب لدنیۃ مع شرح زرقانی،4/335،336)
▪فاطمہ میری بیٹی میرے بدن کی
ایک بوٹی ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(مواہب
لدنیۃ مع شرح زرقانی،4/335،336)
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ نذیر،بہار مدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

نبی کریم ﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔رسول کریم
ﷺ نے بیٹیوں کو عزت دی تحفظ دیا اور محبت دی۔عرب کے لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے
تھے اوربیٹیوں کی قدر نہ کرتے تھے لیکن نبی اکرم ﷺ چونکہ پوری دنیا کے لیے رحمت بن
کر آئے تو بیٹیوں کے لیے بھی رحمت بن کر آئے۔آپ نے بچیوں کو حقوق فراہم کیے اور
اپنی شہزادیوں سے محبت کر کےدنیا کو بتا دیا کہ بیٹیاں محبت کرنے والیاں ہیں ان سے
محبت کی جائے۔نبی کریم ﷺ کی اپنی شہزادیوں سے بے انتہا محبت تھی۔نبی کریم ﷺ کی چار
شہزادیاں ہیں:
حضرت زینب رضی اللہ عنہا
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
نبی کریم ﷺ کی اپنی شہزادیوں سے محبت کے چند انداز ملاحظہ کیجئے:
حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے محبت کا اظہار:آپ حضور ﷺ کی بڑی شہزادی ہیں،آپ نے جب ہجرت کی تو اس کے لیے کافی آزمائش کا سامنا
کرنا پڑا۔حضور ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا:یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت ہی
زیادہ فضیلت والی ہیں کہ میری جانب ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔(شرح
زرقانی علی مواہب لدنیہ،4/318)(مستدرک،2/565، حدیث:2866)
تصویر مصطفےٰ:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ
طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے چال ڈھال شکل و شباہت اور بات چیت میں
فاطمہ عفیفہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی
کو حضور اکرم ﷺ سے مشابہ نہیں دیکھا۔جب
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاآپ کی بارگاہ میں
حاضر ہوتیں تو حضور انور ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے،آپ کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتے
اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔جب حضور پرنور ﷺ آپ کے پاس تشریف لاتے تو آپ کے استقبال کے
لیے کھڑی ہو جاتیں اور آپ کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔(الادب
المفرد، ص264،حدیث:1000)
رسول اللہ کی جیتی
جاگتی تصویر کو دیکھا کِیا
نظارہ جن انکھوں نے تفسیر نبوت کا
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمداسلام،بہار مدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

آقا ﷺ کی بیٹیوں سے محبت کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا
سکتا ہے کہ آپﷺ کے آنے کے بعد اور بیٹیوں کو رحمت بتانے کے بعد ہی اور جو بیٹیوں
کے متعلق آپﷺ نے احادیث بیان کیں ان کے کیا کہنے کہ ان کے بعد ہی معاشرے میں بیٹیوں
کو عزت، مان سب کچھ ملا ہے۔
آقاﷺ کی چار (4) شہزادیاں ہیں:
1 )حضرت زینب رضی
اللہ عنہا
2)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
3)حضرت ام کلثوم رضی
اللہ عنہا
4) حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا
حضرت زینب رضی اللہ عنہا اعلان نبوت سے دس سال قبل مکہ میں
پیدا ہوئیں اور ہجرت کے آٹھویں سال وصال ہوا۔حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اعلان نبوت
سے سات سال قبل پیدا ہوئیں اور آپ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں اور
آپ کا وصال 19 رمضان 2 ہجری میں بیس سال کی عمر میں ہوا۔حضرت ام کلثوم رضی اللہ
عنہا حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بعد حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں
اور آپ کا وصال شعبان 9 ہجری میں ہوا۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح 2 ہجری کو حضرت علی رضی اللہ
عنہ سے ہوا۔آپ چونکہ آقا ﷺ کی سب سےچھوٹی اور لاڈلی بیٹی ہیں اس وجہ سے آپ کا آقا ﷺ
سےپیار کا عالم یہ تھا آپ کا وصال آقا ﷺ کے 6 ماہ بعد 3 رمضان کو ہوا۔( زرقانی علی المواھب، 4/ 318 تا 329)
آپﷺ کی سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جو ابتدائے
اسلام میں اسلام لائیں تھیں جنگ بدر کے بعد حضورﷺ نے ان کو مکہ سے مدینہ بلا لیاتھا۔مکہ
میں کافروں نے ان پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ان کا تو پوچھنا ہی کیا!حد ہو گئی کہ جب یہ ہجرت کے
ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک دیا
اور ایک بد نصیب کافر ہبار بن اسود جو بڑا ظالم تھا اس نے نیزہ مار کر ان کواونٹ
سے زمین پر گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا ان کو دیکھ کر ان کے دیور
کنانہ کو جو اگرچہ کافر تھا ایک دم طیش میں آگیا اس نے جنگ کے لیے تیر کمان اٹھا لیا
یہ ماجرا دیکھ کر ابو سفیان نے درمیان میں پڑ کر راستہ صاف کرادیا اور یہ مدینہ
منورہ پہنچ گئیں۔حضورﷺ کے قلب کو اس واقعہ سے بڑی چوٹ لگی ، چنانچہ آپ نے ان کے
فضائل میں ارشاد فرمایا:یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سےبہت فضیلت والی ہے کہ میری
طرف ہجرت میں اتنی بڑی مصیبت اُٹھالی۔اس واقعہ میں ان کی آقاﷺ سے محبت اور آقاﷺ کی
ان سے محبت کا پتا چلتا ہے اور اہل بیت نے جو مشکلیں برداشت کیں ان کا بھی معلوم
ہوتا ہے۔
(جنتی زیور، ص499)
اسی طرح آپ اپنی ساری شہزادیوں سے محبت کرتے اور حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کے بھی واقعات ہیں کہ جب آقا ﷺ تشریف لاتے تو آپ محبت و احترام میں
کھڑی ہو جاتیں اور جب آپ آتیں تو آقاﷺ آپ کے لیے کھڑے ہو جاتے اور آپ کو اپنی جگہ
پر بیٹھاتے۔(ابوداود،4/454، حدیث:5217)
آقاﷺ نے فرمایا:فاطمہ میری بیٹی میرے بدن کی
ایک بوٹی ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(مواہب لدنیۃ مع شرح زرقانی،4/335،336)
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ سید ابرار حسین،جیل روڈ پاکپورہ سیالکوٹ

دین اسلام نے کفر و شرک کے اندھیروں کو دور کیا اور زمانہ
جاہلیت کی رسموں کو بھی تبدیل کیا،ہمیں اسلامی تعلیمات کے ساتھ معاشرے میں زندگی
گزارنے کے آداب سکھائے اور طریقے بتائے۔نیز ہمارے مدنی آقا ﷺ نے یہ سب عملی طور پر کر کے بھی دکھایاجیسے زمانہ جاہلیت
میں بچیاں زندہ درگور کردی جاتی تھیں مگر ہمارے پیارے دین اسلام نے بچیوں کو عزت دی،ان
کے حقوق بیان کیے،ان سے محبت و شفقت کا درس دیا،ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی طرف
رہنمائی کی،ان کو زندہ دفن کرنے سے منع کیا،ان کی پرورش کے فضائل بیان کیے اور جنت
کی بشارت دی۔
ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ بچوں پر بہت شفقت فرماتےاور اپنی
شہزادیوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔پیارے آقا کریم ﷺ کی چاروں شہزادیوں کے نام یہ ہیں:حضرت
زینب،حضرت رقیہ،حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہن۔یہ سب آقا کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبری کی اولاد ہیں۔
بیٹیوں
کو برا مت کہو:پیارےنبی ﷺ نے فرمایا:بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو،بے شک وہ
محبت کرنے والیاں ہیں۔(مسند اِمام احمد،6/134،حدیث:17378)
حضرت زینب رضی اللہ عنہا:آپ حضور ﷺ کی بڑی شہزادی ہیں،آپ نے جب ہجرت کی تو اس کے لیے کافی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔حضور ﷺ نے ان کے بارے
میں فرمایا:یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت ہی زیادہ فضیلت والی ہیں کہ میری
جانب ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔(شرح زرقانی علی مواہب لدنیہ،4/318)(مستدرک،2/565،
حدیث:2866)
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ایک صاحبزادی تھیں حضرت امامہ رضی اللہ عنہا،ان سے
بھی آقا ﷺ کی بہت محبت تھی۔چنانچہ
نجاشی بادشاہ نے
آقا ﷺ کی بارگاہ میں کچھ زیورات بطور تحفہ بھیجے جن میں ایک حبشی نگینے والی
انگوٹھی بھی تھی، نبی کریم ﷺ نے اپنی نواسی امامہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا:اے
چھوٹی بچی!تم اسے پہن لو۔( ابو داود، 4/ 125، حدیث:4235)
پیارے آقا کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی شہزادی فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہاہیں یہ آپ ﷺ کی سب سے
زیادہ لاڈلی بیٹی ہیں۔ہمارے پیارے نبیﷺ کی پیاری بیٹی سیدۂ کائنات حضرتِ بی بی
فاطمہ رضی اللہ عنہا جب نبی کریم ،رؤوف و رحیم ﷺ کے پاس آتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہو
کران کی طرف متوجِّہ ہو تے ، پھر اپنے پیارے پیارے ہاتھ میں اُن کا ہاتھ لے کراُسے
بوسہ دیتے پھر اُنہیں اپنی جگہ بٹھا تے۔اسی طرح جب نبی کریم ﷺ حضرت بی بی فاطِمہ رضی
اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں ، آپ کا مبارک ہاتھ اپنے
ہاتھ میں لے کر چُومتیں اور آپ ﷺ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔(ابوداود،4/454، حدیث:5217)
اس سےمعلوم ہوا کہ جن کی بیٹیاں ہیں انہیں ان کا اچھے طریقے سےخیال رکھنا چاہیے اور ان کی اچھی
تعلیم و تربیت کرنی چاہیے....
بچی کو پکارنے کا پیار بھرا انداز:حضرت اُمِّ سلمہ رضی
اللہ عنہا جب حضورِ اقدس ﷺ کے نکاح مبارک میں آئیں تو ان کی ایک بیٹی زینب دودھ پیتی
تھیں ، رسولُ اللہ ﷺ تشریف لاتے تو بڑی محبت سے پوچھتے:زُناب کہاں ہے؟ زُناب کہاں
ہے؟(سنن كبرىٰ للنسائی ، 5 / 294 ، حدیث:8926)
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم والدین کو اولاد
کے حقوق اداکرنے اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے اور اولاد کو
اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔آمین
بجاہِ خاتمِ النبین ﷺ