قبل از اسلام عورت کی حیثیت

اسلام سے قبل اگر دنیا کے مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت دیکھی جائے تو معلوم ہو گاکہ عورتیں مردوں کی محکوم تھیں، مرد خواہ باپ ہوتا یا شوہر، بیٹا ہوتا یا بھائی، ان سے جیسا چاہے سلوک کرتا، عورتوں کی حيثيت بس ایک خدمتگار کی سی تھی، ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا

لیکن اسلام کی صبح نور کیا طلوع ہوئی ہر طرف کفر اور ظلم و ستم کا اندھیرا بھی ختم ہو گیا اور یوں بیٹیوں کو اسلام کی برکت سے ایک نئی زندگی ملی۔جو لوگ پہلے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے ، اب بیٹیوں کو اپنی آنکھوں کا تارہ سمجھنے لگے کیونکہ بے کسوں کے غمخوار ، حبیب پروردگار ﷺ پاک علیہ والہ وسلم نے ان کے سامنے نہ صرف اپنی شہزادیوں سے محبت کا عملی نمونہ پیش کیا بلکہ یہ مدنی ذہن بھی بنایا کہ بیٹیوں کو عار نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ اللہ پاک کی رحمت اور مغفرت کا ذریعہ ہیں۔

.اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّى اللہ پاک نے اولاد بالخصوص بیٹیوں کی پرورش کے متعلق فضائل بیان فرما کر ان کی اہمیت کو بھی خُوب اُجاگر فرمایا۔

چنانچہ بیٹیوں کے فضائل پر مشتمل حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں

قيامت تک مدد کی بشارت

حضور پاک، صاحب لولاک ﷺ پاک علیہ و آلہ و سلم کا فرمانِ رحمت نشان ہے:جب کسی کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ہے تو اللہ عَزَّ وَ جَلَّ اس کے گھر فرشتوں کو بھیجتا ہے ، جو آکر کہتے ہیں:اے گھر والو!تم پر سلامتی ہو۔پھر فرشتے اپنے پروں سے اس لڑکی کا احاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے

سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں:ایک کمزور لڑکی کمزور عورت سے پیدا ہوئی، جو اس کی کفالت کرے گا قیامت تک اس کی مدد کی جائے گی۔(1)

[1] المعجم الصغیر، الجزء ا، ١/ ٣٠

حضور ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں اللہ پاک نے حضور ﷺ کو بیٹیوں کی رحمت سے نوازا آپ کو اپنی شہزادیوں سےبہت محبت تھی چنانچہ

رسول خدا صلى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ الہ وسلم کی اولاد پاک کے نام مبارک ملاحظہ فرمائیں

سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالک و مختار صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم کے تین شہزادے:

(1)... حضرت سيدنا قاسم رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہ

(2)... حضرت عَبْدُ اللہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہ

(3)... حضرت ابراہیم رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہ

اور چار شہزادیاں:

(1)... حضرت سَيِّدَ تُنا زينب رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا

(2)... حضرت رُ فِيہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا

(3)... حضرت اُمِّ کُلثوم رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا

(4).. حضرتِ فَاطِمَہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا

رسول اللہ ﷺ کو سب سے پیاری حضرت فاطمتہ رضی اللہ عنہا تھیں چنانچہ:

جگر گوشۂ رسول

اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عَنِ الْعُيُوبِ صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم کا ارشاد ہے:فاطمہ (رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا) تمام اہل جنت یا مؤمنین کی عورتوں کی سردار ہے۔مزید فرمایا:فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔(مِشْكُوۃ الْمَصَابِيح، کتاب المناقب، باب مناقب اہل بيت النبي صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم، ج2، ص 435-436، الحديث:6138 - 6139)

رسول اللہ ﷺ

نے حضرت فاطمتہ الزہرہ کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دیا جس سے رسولِ کریم ﷺ کی ان سے محبت ظاہر ہوتی ھے کیونکہ یہ فطری عمل ہے کہ جس سے محبت ہوتی ھے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے محبت ہوجاتی ھے اور جس سے محبوب کو ایذا ھوتی ھے محب کو وہ ناگوار ھوتی ہیں

اللہ پاک ہمیں اہل بیعت کی سچی محبت نصیب فرمائے آمین

(آقا شہزادی کونماز کے لئے بیدار کرتے

حضرت انس بن مالک رَضِيَ اللہ تَعَالَى عنہ فرماتے ہیں:چھ مہینے تک نبی اکرم صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم کا یہ معمول رہا کہ نمازِ فجر کے لئے جاتے ہوئے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا کے گھر کے پاس سے گزرتے تو فرماتے:اے اہل بیت!نماز ، اللہ عَزَّ وَ جَلَّ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو!کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( التَّرْمِذي، كتاب تفسير القرآن، باب ومن سورۃ الاحزاب، ص 741، حدیث:3206)

حضرت زینب بنت رسول اللہ ﷺ

رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں

نا خوشگوار واقعہ:رسول کریم ﷺ نے مدینہ پاک ہجرت کرنے کے بعد بی بی زینب رضی اللہ عنہا کو لینے کے لئے دو صحابہ کرام کو مکہ شریف بھیجا جن میں سے ایک حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے دیور کنانہ آپ کو لے کر مکے سے روانہ ہوئے ، کفار کو جب اس کی خبر ہوئی تو ایک جماعت مزاحمت کے لئے پہنچ گئی۔انہوں نے حضرت زینب کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا جس سے ان کا حمل ضائع ہو گیا ، یہ دیکھ کر کنانہ نے ترکش سے تیر نکال کر سامنے رکھ دیئے اور کہا کوئی بھی سامنے آیا تو وہ ان سے بچ کر نہیں جا سکے گا! لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ٹھہرو ہماری بات سن لو!محمد (ﷺ ) کی بیٹی کو دن دہاڑے لے کر جاؤ گے تو یہ ہماری کمزوری کی دلیل ہوگی ، ویسے بھی ان کی بیٹی کو روکنے کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ، لہذا ابھی تم انہیں واپس لے جاؤ جب شور شرابا کم ہو جائے تو رات کو انہیں چوری چھپے لے جانا گنا نہ نے اس تجویز کو قبول کر لیا اور انہیں واپس لے گئے ، چند روز بعد ایک رات کو انہیں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کے پاس پہنچا دیا اور وہ انہیں نہایت ادب و عزت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینے لے آئے۔

(السيرۃ النبويۃ لابن ہشام، ص 271)

پیارے آقا کی محبت:حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ک

بعد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و الہ و سلم ان کی قبر میں اترے تو آپ مغموم و پریشان تھے پھر جب باہر تشریف لائے تو پریشانی اور غم کے آثار زائل ہو چکے تھے ، فرمایا:مجھے زینب کی کمزوری یاد آگئی تو میں نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس کی قبر کی تنگی اور غم میں تخفیف کا سوال کیا، تو اللہ پاک نے ایسا ہی کیا اور اسے اس پر آسان فرما دیا

معرفۃ الصحابۃ، 140/5

حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ

گلشن مصطفے کے مہکتے پھولوں میں سے ایک پھول حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں جو رسولِ کریم ﷺ کی بیٹیوں میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے چھوٹی اور حضرت ام کلثوم و بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہما سے بڑی ہیں۔

تیمار داری پر خصوصی عنایت جنگِ بدر کے وقت حضرت رقیہ سخت بیمار ہو گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان کو ان کی تیمار داری کا حکم دیا ، بیوی کی تیمار داری کے باعث جنگ میں شرکت نہ کرنے کے باوجود رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے انہیں مجاہدین بدر میں شمار فرمایا ، مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا اور شر کائے بدر کے برابر اجر عظیم کی خوشخبری بھی عطا فرمائی۔معرفۃ الصحابۃ، 141/5 ماخوذاً

حضرت ام کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ

حضرت اُم کلثوم اپنی ماں حضرت خدیجہ کے ساتھ بہت مشابہت رکھتی تھیں۔ان کے دل کا سرور اور آپ علیہ سلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔

حضرت اُمِ کلثوم کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔6 سال تک حضرت عثمان کے ساتھ خوشگوار گھریلو زندگی بسر کرنے کے بعد شعبان و ہجری میں حضرت ام کلثوم کا انتقال ہو گیا۔آپ کے غسل و کفن کے انتظامات کی حضور نے خود نگرانی فرمائی، خود نماز جنازہ پڑھائی اور آپؐ کی مغفرت کی دعا مانگی۔تمام صحابہ کرام نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔

سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات کا آپ کو سخت ملال ہوا۔ صحیح بخای میں ہے کہ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک بار آپ ام کلثوم کی قبر پر تشریف فرما تھے اور آپ کی آنکھوں سے شدت غم کی وجہ سے آنسو جاری تھے۔

کا ہر عمل ہمارے لیے مشعل راہ ھے سبحان اللہ آقا ﷺ کی اپنی شہزادیوں سے کیسی محبت تھی اللہ پاک ہمیں بھی حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

اللہ پاک ہمیں اولاد کے حقوق ادا کرنے اور خصوص بالخصوص بیٹیوں سے شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔