حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہونے کے ساتھ ساتھ معلم کائنات بھی ‏ہیں۔ حضور علیہ السّلام نے اپنے ‏امتیوں کی مختلف مواقع پرمختلف انداز میں اصلاح و تربیت کی ‏ہے۔ نبیِ کریم علیہ السّلام نے اپنے امتیوں کی تربیت کبھی اپنے قول سے ‏کبھی فعل سے اور کبھی ‏اشاروں سے تربیت فرمائی ہے۔ ذیل میں ایسی چند احادیث نقل کی جا رہی ہیں جن میں اشاروں سے تربیت ‏فرمائی ہے:‏

‏(1)سواری تیز چلانے میں کوئی خوبی نہیں ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ آپ عرفہ کے دن نبیِ کریم صلَّی ‏اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ واپس ہوئے نبیِ ‏کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے پیچھے اونٹوں کو سخت ڈانٹ ڈپٹ اور مار(کی آواز ) سنی ‏۔فَاَشَارَ بِسَوْطِهٖ اِلَيْهِمْ وَقَالَ:يَااَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ فَاِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالاِيضَاعِ یعنی تو انہیں اپنے کوڑے سے اشارہ فرمایا ‏اور ‏حکم دیا کہ اے لوگو اطمینان اختیار کرو تیز دوڑنے میں خوبی نہیں ‏۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/486، حدیث:2605 )‏

اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ ہمیں سواری تیز چلانے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اس میں جہاں اپنی جان کی حفاظت ہوتی ‏ہے وہیں ‏دوسرے لوگوں کی بھی جان محفوظ رہتی ہے ۔ کتنے ہی لوگ اس تیز رفتاری کی وجہ سے خود کو اور ‏دوسروں کو موت کی آغوش میں ‏لے جاتے ہیں ۔

‏(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے باریک کپڑوں والی صحابیہ سے منہ موڑ لیا ‏:حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ جناب ‏اسماء بنتِ ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہما رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ‏حاضر ہوئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں، ‏حضور علیہ السّلام نے ان سے منہ پھیرلیا اور فرمایا:يَا اَسْمَاءُ، اِنَّ الْمَرْاَةَ اِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ اَنْ يُرَى مِنْهَا اِلَّا هَذَا وَهَذَا ‏وَاَشَارَ اِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ یعنی اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے ‏تو جائز نہیں کہ اس کا کوئی حصہ دیکھا جائے سوائے اِس کے اور اُس ‏کے۔نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی ‏طرف ‏ اشارہ فرمایا۔ (ابوداؤد،4/75، حدیث:4104 ) ‏

‏ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُس زمانہ میں بھی باریک کپڑے ایجاد ہوچکے تھے، اب تو بہت ہی بُرا حال ہے۔(مراٰۃ المناجیح، ‏‏6/121) اس ‏حدیث سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ماننے والیوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور ہرگز ہرگز ایسے کپڑے استعمال ‏‏نہیں کرنے چاہیے جن سے جسم کا کوئی بھی عضو نظر آئے۔دور ِ حاضر میں فتنے کی وجہ سے چہرے اور ہاتھوں کو بھی ‏چھپانا چاہیے ‏۔

‏(3) شیطان کی طرح بال بکھرے ہوئے نہ رکھو ‏: حضرت عطاء ابن یسار سےروایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ ‏وسلَّم مسجد میں تھے تو ایک شخص ‏سر اور داڑھی بکھیرے آیا ۔فَاشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ كَاَنَّهُ يَاْمُرُهُ بِاِصْلَاحِ ‏شَعْرِهِ وَلِحْيَتِهِ فَفَعَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِنْ اَنْ يَاْتِيَ اَحَدُكُمْ وَهُوَ ثَائِرُ الرَّاْسِ كَاَنَّهُ شَيْطَان تو ‏آپ علیہ السّلام نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، گویا آپ اسے ‏بال اور داڑھی کی درستی کا حکم دے رہے تھے، چنانچہ (وہ گیا اور ‏‏) اس نے (بال اور داڑھی کو درست)کرلیا ۔ پھر واپس آیاتو رسولِ معظّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏فرمایا : کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں ‏سے کوئی شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے ‏۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/137، حدیث:4486 ) ‏

ہمیں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ایسی حالت بنا كر رکھنی چاہیے جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی متأثر ‏ہوں نہ کہ ایسی کہ جس سے دوسروں کو ہم سے خوف آئے ۔

‏(4) دوسروں کو حقیر مت سمجھو ‏: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سےروایت ہے، رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان ‏‏مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے ذلیل وحقیر جانے۔اَلتَّقْوَى هَاهُنَاوَيُشِيرُ اِلیٰ صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ ‏الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَ اَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینہ کی طرف تین ‏بار اشارہ فرمایا، مزید فرمایا کہ انسان کے لیے یہ شر کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان ‏‏کاخون ،مال اور اس کی آبرو حرام ہے ‏۔ (دیکھیے:مسلم، ص1064، حدیث: 6541 ) ‏

یعنی مسلمان کو نہ تو دل میں حقیر جانو نہ اسے حقارت کے الفاظ سے پکارو یا برے لقب سے یاد کرو نہ اس کا مذاق اڑاؤ، آج کل ‏بعض ‏لوگ نسب ، پیشہ اور غربت و افلاس کی وجہ سے اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھتے ہیں حتی کہ صوبجاتی تعصب ہم میں بہت ہو گیا ‏ہے کہ وہ پنجابی ہے ، وہ بنگالی ہے ، وہ سندھی، اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیے ہیں، جس طرح شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس ‏چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ‏ہو جاتا ہے، اسی طرح جب حضور کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے حبشی ہو یا رومی۔اسلام ‏میں عزت تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے اور تقویٰ کا اصلی ٹھکانہ دل ہے۔تمہیں کیا خبر کہ جس مسکین مسلمان کو ‏تم حقیر سمجھتے ہو اس کا ‏دل تقویٰ کی شمع سے روشن ہو اور وہ الله کا پیارا ہو تم سے اچھا ہو۔‏(دیکھیے:مراٰةالمناجیح، 6/552 ) ‏

اللہ پاک ہم سب کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن ‏