محمد عاصم اقبال عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور )
حضور نبیِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہونے کے ساتھ ساتھ معلم
کائنات بھی ہیں۔ حضور علیہ السّلام نے اپنے امتیوں کی مختلف مواقع پرمختلف انداز
میں اصلاح و تربیت کی ہے۔ نبیِ کریم علیہ السّلام نے اپنے امتیوں کی تربیت کبھی
اپنے قول سے کبھی فعل سے اور کبھی اشاروں سے تربیت فرمائی ہے۔ ذیل میں ایسی چند
احادیث نقل کی جا رہی ہیں جن میں اشاروں سے تربیت فرمائی ہے:
(1)سواری
تیز چلانے میں کوئی خوبی نہیں ہے: حضرت
ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ آپ عرفہ کے دن نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ واپس ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
اپنے پیچھے اونٹوں کو سخت ڈانٹ ڈپٹ اور مار(کی آواز ) سنی ۔فَاَشَارَ بِسَوْطِهٖ
اِلَيْهِمْ وَقَالَ:يَااَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ فَاِنَّ
الْبِرَّ لَيْسَ بِالاِيضَاعِ یعنی
تو انہیں اپنے کوڑے سے اشارہ فرمایا اور حکم دیا کہ اے لوگو اطمینان اختیار کرو
تیز دوڑنے میں خوبی نہیں ۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/486، حدیث:2605 )
اس حدیث کا
مقصود یہ ہے کہ ہمیں سواری تیز چلانے سے
پرہیز کرنا چاہیے ۔ اس میں جہاں اپنی جان کی حفاظت ہوتی ہے وہیں دوسرے لوگوں کی
بھی جان محفوظ رہتی ہے ۔ کتنے ہی لوگ اس تیز رفتاری کی وجہ سے خود کو اور دوسروں
کو موت کی آغوش میں لے جاتے ہیں ۔
(2)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے باریک کپڑوں والی صحابیہ سے منہ موڑ لیا :حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ جناب
اسماء بنتِ ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہما رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں، حضور علیہ السّلام نے ان سے منہ پھیرلیا اور
فرمایا:يَا
اَسْمَاءُ، اِنَّ الْمَرْاَةَ اِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ اَنْ يُرَى
مِنْهَا اِلَّا هَذَا وَهَذَا وَاَشَارَ اِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ یعنی اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو جائز نہیں
کہ اس کا کوئی حصہ دیکھا جائے سوائے اِس کے اور اُس کے۔نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔ (ابوداؤد،4/75، حدیث:4104
)
اس حدیث سے
معلوم ہوا کہ اُس زمانہ میں بھی باریک کپڑے ایجاد ہوچکے تھے، اب تو بہت ہی بُرا
حال ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/121) اس حدیث سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو ماننے والیوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور ہرگز ہرگز ایسے کپڑے استعمال نہیں
کرنے چاہیے جن سے جسم کا کوئی بھی عضو نظر آئے۔دور ِ حاضر میں فتنے کی وجہ سے چہرے
اور ہاتھوں کو بھی چھپانا چاہیے ۔
(3)
شیطان کی طرح بال بکھرے ہوئے نہ رکھو : حضرت عطاء ابن یسار سےروایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم مسجد میں تھے تو ایک شخص سر اور داڑھی بکھیرے آیا ۔فَاشَارَ إِلَيْهِ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ كَاَنَّهُ يَاْمُرُهُ
بِاِصْلَاحِ شَعْرِهِ وَلِحْيَتِهِ فَفَعَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِنْ اَنْ
يَاْتِيَ اَحَدُكُمْ وَهُوَ ثَائِرُ الرَّاْسِ كَاَنَّهُ شَيْطَان تو آپ علیہ السّلام نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے
اشارہ کیا، گویا آپ اسے بال اور داڑھی کی درستی کا حکم دے رہے تھے، چنانچہ (وہ گیا
اور ) اس نے (بال اور داڑھی کو درست)کرلیا ۔ پھر واپس آیاتو رسولِ معظّم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی
شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے ۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/137، حدیث:4486 )
ہمیں شریعت کے
دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ایسی حالت بنا كر رکھنی چاہیے جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ
غیر مسلم بھی متأثر ہوں نہ کہ ایسی کہ
جس سے دوسروں کو ہم سے خوف آئے ۔
(4)
دوسروں کو حقیر مت سمجھو : حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سےروایت ہے، رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے ذلیل وحقیر جانے۔اَلتَّقْوَى هَاهُنَاوَيُشِيرُ
اِلیٰ صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرَ
اَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ،
وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ تقویٰ یہاں
ہے اور اپنے سینہ کی طرف تین بار اشارہ فرمایا، مزید فرمایا کہ انسان کے لیے یہ
شر کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان
کاخون ،مال اور اس کی آبرو حرام ہے ۔
(دیکھیے:مسلم، ص1064، حدیث: 6541 )
یعنی مسلمان
کو نہ تو دل میں حقیر جانو نہ اسے حقارت کے الفاظ سے پکارو یا برے لقب سے یاد کرو
نہ اس کا مذاق اڑاؤ، آج کل بعض لوگ نسب ، پیشہ اور غربت و افلاس کی وجہ سے اپنے
مسلمان بھائی کو حقیر سمجھتے ہیں حتی کہ صوبجاتی تعصب ہم میں بہت ہو گیا ہے کہ وہ
پنجابی ہے ، وہ بنگالی ہے ، وہ سندھی، اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیے ہیں، جس طرح
شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہو جاتا ہے، اسی
طرح جب حضور کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے حبشی ہو یا رومی۔اسلام میں
عزت تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے اور تقویٰ کا اصلی ٹھکانہ دل ہے۔تمہیں کیا خبر کہ جس
مسکین مسلمان کو تم حقیر سمجھتے ہو اس کا دل تقویٰ کی شمع سے روشن ہو اور وہ
الله کا پیارا ہو تم سے اچھا ہو۔(دیکھیے:مراٰةالمناجیح، 6/552 )
اللہ پاک ہم
سب کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن