حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیاں

حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے، مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی، بلکہ طرح طرح سے آپ کی تحقیر و تذلیل کرتی رہی اور قسم قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے آپ کو ستاتی رہی، یہاں تک کہ کئی بار ان ظالموں نے آپ کو اس قدر زدو کوب کیا کہ آپ کو مردہ خیال کرکے کپڑوں میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا مگر آپ پھر مکان سے نکل کر دین کی تبلیغ فرمانے لگے۔مگر ان ایذاؤں اور مصیبتوں پر بھی آپ یہی دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے پروردگار ! تو میری قوم کو بخش دے اور ہدایت عطا فرما کیونکہ یہ مجھ کو نہیں جانتے ہیں۔

حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغ کے جواب میں قوم نے سرکشی کا مظاہرہ کیا، آپ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دیا توحید کو ماننے اور شرک کو چھوڑنے سے انکار کردیا اور اس کے علاوہ د ھمکی دی کہ اگر تم اپنے وعظ و نصیحت اور دین کی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم پتھر ۔۔۔مار کر قتل کردیں گے، اس انکار و تکذیب اور دھمکیوں کے ساتھ آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ جملے بھی کہنے لگے کہ یہ پاگل ہے، یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوگئی کہ اے نوح ! اب تک جو لوگ مومن ہوچکے ہیں ان کے سوا اور دوسرے لوگ کبھی ہرگز ہرگز ایمان نہیں لائیں گے،اس کے بعد آپ اپنی قوم کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے، اور آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لیے دعا فرمادی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ایک کشتی تیار کریں چنانچہ ایک سو برس میں آپ نے لگاتے ہوئے ساگوان کے درخت تیار ہوگئے،

اور آپ نے ان درختوں کی لکڑیوں سے ایک کشتی بنالی، اس میں تین درجے تھے، نچلے طبقے میں درندے، پرندے اور حشرات الارض وغیرہ اور درمیانی طبقے میں چوپائے وغیرہ جانوروں کےلیے اور بالائی طبقے میں خود اور مومنین کےلیے جگہ بنائی، جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اڑاتی تھی کوئی کہتا کہ اے نوح (علیہ السلام ) اب تم بڑھئی بن گئے ؟ حالانکہ پہلے تم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں، کوئی کہتا اے نوح، اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنارہے ہو۔َ؟

آپ علیہ السلام ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو لیکن مت گھبراؤ جب خدا کا عذاب بصورتِ طوفان آجائے گا تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے، ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے اور ان کی ہلاکت کا وقت آگیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے اس عذاب کے نازل ہونے کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ جب تم تندور میں سے پانی جوش مارتا دیکھو تو سمجھ لینا کہ عذاب کے نزول کا وقت آپہنچا۔

حضرت نوح علیہ السلام کے اہل خانہ کے یہ کل سات افراد تھے اور وہ لوگ جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے یہ کل 80 افراد تھے، صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا تو آسمان سے زبردست بارش برسی اور یہ لگاتار چالیس دن رات برستی رہی، پانی پہاڑوں سے اونچا ہوگیا یہاں تک کہ ہر چیز اس میں ڈوب گئی، حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا کنعان اور ایک بیوی کافرہ تھی یہ بھی اس طوفان میں غرق ہوگئے۔اللہ پاک ہمیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔


اللہ پاک نے ہر قوم کی طرف کسی نہ کسی نبی کو مبعوث فرمایا،  تاکہ قوم ہدایت پا جائے، مگر دیگر قوم کی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی نافرمانی کی، حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے، مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی، بلکہ طرح طرح سے آپ کی تحقیر و تذلیل کرتی رہی اور کسی قسم قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے آپ کو ستاتی رہی، یہاں تک کہ کئی بار ان ظالموں نے آپ کو اس قدر زدوکوب کیا کہ آپ کو مردہ خیال کر کے کپڑوں میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا، مگر آپ پھر مکان سے نکل کر دین کی تبلیغ فرمانے لگے، اسی طرح بارہا آپ کا گلا گھونٹتے رہے، یہاں تک کہ آپ کا دم گھٹنے لگا اور آپ بے ہوش ہو جاتے ہیں مگر ان ایذاؤں اور مصیبتوں پر بھی آپ یہی دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے پروردگار! تو میری قوم کو بخش دے اور ہدایت عطا فرما، کیونکہ یہ مجھ کو نہیں جانتے۔اور قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیّت کرکے مرتا تھا کہ نوح علیہ السلام بہت پرانے پاگل ہیں، اس لئے کوئی ان کی باتوں کو نہ سنے اور ان کی باتوں پر دھیان دے، یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوئی کہ اے نوح!اب تک جو لوگ مؤمن ہو چکے ہیں، ان کے سوا اور دوسرے لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لئے دعا فرمادی، اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ایک کشتی تیار کریں، جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اڑاتی تھی، کوئی کہتا کہ اے نوح!اب تم بڑھئی بن گئے، حالانکہ پہلے تم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں، کوئی کہتا اے نوح!اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنا رہے ہو؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے، غرض طرح طرح کا مذاق اور بدزبانیاں اور طعنہ بازیاں کرتے رہتے تھے، آپ ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو، لیکن گھبراؤ مت، جب خدا کا عذاب بصورتِ طوفان آ جائے گا تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے، پھر جب طوفان آیا تو طوفان میں کشتی والوں کے سوا ساری قوم اور کل مخلوق غرق ہو کر ہلاک ہوگئی۔(عجائب القران، صفحہ نمبر 316۔318)اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا ایمان سلامت رکھے۔آمین


اللہ عزوجل کے نبی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پوجا کرنے والی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ  لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا درد ناک عذاب آئے گا ،تاکہ ان کے لیے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے ۔

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم اگر تم خالصتاً اللہ عزوجل کی عبادت اور اس کی وحدانیت کا اقرار نہ کرو گے اور ان بتو ں سے کنارہ کشی اختیار نہ کرو گے تو مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے درد ناک عذاب نہ آ جائے

جب حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے ترغیب دینے کی بناء پر بھی ان کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو حضرت نوح علیہ السلام نے دعوت دینے کا ایک اور انداز اختیار کیا ،حضرت نوح السلام نے اپنی قوم سے فرمایا :"تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے عزت حاصل کرنے کی امید نہیں رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں کئی حالتوں سے گزار کر بنایا کہ پہلے تم نطفہ کی صورت میں ہوئے ،پھر تمہیں خون کا لوتھڑا بنایا، پھر گوشت کا ٹکڑا بنایا یہاں تک کہ اس نے تمہاری خلقت کامل کی ،اور تمہارا اپنی تخلیق میں نظر کرنا ایسی چیز ہے جو کہ اللہ پاک کی خالقیت ،قدرت اور اسکی وحدانیّت پر ایمان لانے کو واجب کرتی ہے۔

جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور اس چیز سے ڈرایا جس سے ڈرانے کا اللہ نے حکم دیا تھا تو قوم نے ان کی بات نہ مانی اور حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکامات لے کر آئے تھے انہیں رد کر دیا ،اس پر حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی :

اے میرے رب ! عزوجل (تو جانتا ہے کہ ) میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری توحید اور تیری عبادت کی طرف بلایا ، تیرے عذاب اور تیری قدرت سے ڈرایا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیا ڈال لیں تاکہ میری دعوت کو سن نہ سکیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور منہ چھپا لیے ۔پھر میں نے انہیں محفلوں میں اس طرف بلند آواز سے اعلانیہ بلایا جس طرف بلانے کا تونے مجھے حکم دیا تھا اور ایک ایک سے آہستہ اور خفیہ بھی کہا اور دعوت دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔

درس ھدایت: قران کریم کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قوم نوح جو کہ اللہ عزوجل کی نا فرمانیوں کی وجہ سے کیسے غرق ہوئی اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی خیریت کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی نا فرمانیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں اور دوسروں کو بھی بچاتے رہیں ۔


مختصر تعارف :-

اللہ عزوجل کے نبی حضرتِ نوح علیہ السلام کے دور کی ایک قوم تھی جس کا نام قوم نوح تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا اور حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی چھوڑ دینے اور صرف اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کے دلائل بیان کیے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر انہیں غضب اور عذاب سے ڈرایا لیکن انہوں نے نوح علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے مگر چند افراد کے علاوہ ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی۔

خاصیت :-

اس قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیت کر کے مرتا تھا کہ نوح (علیہ السلام ) بہت پرانے پاگل ہیں معاذ اللہ اس لئے کوئی ان کی باتوں کو نہ سنے اور نہ ان کی باتوں پر دھیان دے ، یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوئی کہ اے نوح ! اب تک جولوگ مؤمن ہو چکے ہیں ان کے سوا اور دوسرے لوگ بھی ہرگز ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے بعد آپ اپنی قوم کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے ۔ اور آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لئے دعافرمادی۔

نافرمانیاں:-

۱. جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اڑاتی تھی۔

۲. کوئی کہتا کہ اےنوح! اب تم بڑھئی بن گئے؟ حالانکہ پہلےتم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں ۔

۳. کوئی کہتا کہ اے نوح! اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنار ہے ہو؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے؟ غرض طرح طرح کا تمسخر واستہزاء کرتے اور قسم قسم کی طعنہ بازیاں اور بدزبانیاں کرتے رہتے تھے اور آپ ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو لیکن مت گھبراؤ جب خدا کا عذاب بصورت طوفان آ جائے گا تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے۔

جب طوفان آ گیا تو آپ نے کشتی میں درندوں، چرندوں اور پرندوں اور قسم قسم کے حشرات الارض کا ایک ایک جوڑا نر ومادہ سوار کر دیا اور خود آپ اور آپ کے تینوں فرزند یعنی حام، سام اور یافث اور ان تینوں کی بیویاں اور آپ کی مومنہ بیوی اور 72 مؤمنین مردوعورت کل 80 انسان کشتی میں سوار ہو گئے اور آپ کی ایک بیوی ’واعلہ‘‘ جو کافر تھی ، اور آپ کا ایک لڑکا جس کا نام’’ کنعان‘‘ تھا، یہ دونوں کشتی میں سوارنہیں ہوئے اور طوفان میں غرق ہو گئے۔)تفسیر صاوی،پ 12،ھود :36۔39 )

قرآن کریم میں اللہ عزوجل نےاس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ

وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۚۖ(۳۶)وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۳۷)وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ ؕ(۳۸)فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۹) (پ12، ہود: 36-39)

ترجمۂ کنزالایمان : اور نوح کو وحی ہوئی کہ تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکےتو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں اور کشتی بنا ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سےاور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گےجیسا تم ہنستے ہو تو اب جان جاؤ گےکس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے۔

درس ھدایت: قرآن کریم کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قوم نوح اللہ عزوجل کی نا فرمانیوں کی وجہ سے غرق ہوئی اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے خیریت و بقا کے لیے اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی نافرمانیوں سے ہميشہ بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔( عَجَائبُ القُرآن مع غرائب القران )


حضرت نوح علیہ السلام کا تعارف:

حضرت نوح علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکریا عبدالغفار ہے اور آپ حضرت ادریس علیہ السلام کے پڑپوتے تھے، آپ کا لقب"نوح" اس لئے ہوا کہ آپ کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے تھے۔چالیس یا پچاس سال کی عمر میں آپ نبوت سے سرفراز فرمائے گئے اور 950سال آپ اپنی قوم کو دعوت فرماتے رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ برس دنیا میں رہے تو آپ کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی۔

مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟

مذھبی اختلاف کی ابتداء سے متعلق مفسرین نے کئیں اقوال ذکر کئے ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک لوگ ایک دین پرر ہے، پھر ان میں اختلاف واقع ہوا تو حضرت نوح علیہ السلام ان کی طرف مبعوث فرمائے گئے، دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے کشتی سے اُترنے کے وقت سب لوگ ایک دین پر تھے۔

جب اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا:اے میری قوم! میں تمہیں اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے پر اللہ کے عذاب کا صریح ڈر سنانے والا ہوں۔

آپ نے اپنی قوم کو عبادتِ الہی کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرمایا: اے میری قوم!ایمان قبول کر کے اللہ پاک کی عبادت کرو، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور ایسا ہے ہی نہیں کہ جس کی عبادت کی جا سکے، وہی تمہارا معبود ہے اور جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں، اس میں اگر تم میری نصیحت قبول نہ کرو گے اور راہِ راست پر نہ آؤ گے، تو مجھے تم پر بڑے دن یعنی روزِ قیامت یا روزِ طوفان کے عذاب کا خوف ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پجا ری تھی، اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا، تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔

یاد ہے!کہ حضرت نوح علیہ السلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں، جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ کی قوم پر ہی دنیوی عذاب آیا۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے آپ کی نبوت کو جھٹلایا، حضرت نوح علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی جو آپ ان تک پہنچا دیتے تھے، اسے قبول نہ کیا، ایک عرصے تک عذابِ الہی سے خوف دلانے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ لوگ اپنی بات پر ڈٹے رہے تو ان پر اللہ پاک کا عذاب نازل ہوا۔

جو مؤمنین حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، اللہ پاک نے عذاب سے محفوظ رکھا اور باقی سب کو غرق کر دیا، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے دشمنوں پر اس وقت تک دنیاوی عذاب نہیں آتے، جب تک وہ پیغمبر کی نافرمانی نہ کریں:

ترجمہ کنزالعرفان:"اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں، جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔"(سورہ بنی اسرائیل:15)

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں تھیں، مگر آپ کی اولاد کے سوا کسی کی نسل نہ چلی، اسی لئے آپ کو آدمِ ثانی کہتے ہیں۔

وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے ان بتوں کے نام ہیں، جنہیں وہ پوجتے تھے، ان لوگوں کے بت تو بہت تھے مگر یہ پانچ(وَدّ، سُواع، یَغوث، یَعُوق اور نَسْر) ان کے نزدیک بڑی عظمت والے تھے۔

وَدّ مرد کی صورت پر تھا، سُوااع عورت کی صورت پر، یَغوث شیر کی شکل میں، یَعُوق گھوڑے کی شکل میں اور نَسْرگدھ کی شکل میں تھا۔

یہ وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اللہ والے بیٹھا کرتے تھے، وہاں ان کے مجسمے بنا کر رکھ دو، ان بتوں کے نام بھی ان نیک لوگوں کے نام پر ہی رکھ دو، لوگوں نے عقیدت کے طور پر ایسا کر دیا، لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے، جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہوگیا تو ان مجسموں کی پوجا ہونے لگ گئی۔

محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے نام تھے، یہ بہت عبادت گزار تھے، جب ان کا انتقال ہوگیا تو لوگ غمزدہ ہوگئے تو شیطان نے لوگوں کو بہلا کر کہ میں ان کی تصویر بنا دیتا ہوں، انہیں دیکھ کر تمہیں سکون میسّر ہوگا اور ان کی تصویر بنا کر مسجد کے کونے میں رکھ دی، پھر ایک وقت ایسا آیا، لوگوں نے اللہ کی عبادت چھوڑ کر ان کی پوجا شروع کر دی، یہاں تک کہ اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا، جنہوں نے ان لوگوں کو اللہ کی وحدانیت اور عبادت کی دعوت دی۔

بعض مفسرین کے نزدیک حضرت نوح علیہ السلام کی قوم سے یہ بت منتقل ہوکر عرب میں پہنچے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان بتوں کو طوفان نے مٹی میں دفن کر دیا تھا تو وہ اس وقت سے مدفون ہی رہے، یہاں تک کہ شیطان نے عرب کے مشرکین کے لئے انہیں زمین سے نکال دیا۔(تفسیر صراط الجنان)


درود شریف کی فضیلت:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جس نے مجھ پر سو مرتبہ درود پاک پڑھا، اللہ پاک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نفاق اور جہنم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قیامت شہداء کے ساتھ رکھے گا۔"

اللہ تعالی نے لوگوں کی طرف بہت سے رسول بھیجے، اسی طرح قومِ نوح کی طرف اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور انہوں نے اپنی قوم کو بُت پرستی چھوڑ دینے اور صرف اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی دعوت دی، ان کے سامنے اللہ کی قدرت و وحدانیت کے دلائل بیان کئے، اللہ کی نافرمانی کرنے پر اس کے غضب سے ڈرایا، لیکن انہوں نے آپ علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

جب 900 سال سے زیادہ عرصے تک دعوت دیتے رہنے کے باوجود قوم اپنی سرکشی سے باز نہ آئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی کوشش اور قوم کی ہٹ دھرمی عرض کی اور کافروں کی تباہی و بربادی کی دعا کی تو اللہ تعالی نے ان کی قوم کے کفار پر طوفان کا عذاب بھیجا اور وہ لوگ ڈبو کر ہلاک کر دیئے گئے۔

نافرمانیاں

1۔حضرت نوح کی قوم بتوں کی پُجا ری تھی، اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے ہی سے ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا۔

جب حضرت نوح علیہ السلام نے قوم کو اس چیز سے ڈرایا، جس سے ڈرانے کا حکم تھا تو ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور جو احکامات حضرت نوح اللہ تعالی کی طرف سے لائے تھے، انہیں رَدّ کر دیا۔

حضرت نوح علیہ السلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں، جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السلام کی قوم پر ہی دنیوی عذاب آیا۔

2۔حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو رات دن توحید کی دعوت دی، لیکن جتنی بار انہیں ایمان لانے کی ترغیب دی گئی، ان کی سرکشی میں اضافہ ہوتا گیا۔

3۔اس قوم کے رئیس سرکش اور مالدار اولاد والوں نے دوسرے لوگوں کو بھی گمراہی میں مبتلا کر دیا اور انہوں نے مال کے غُرور میں مبتلا ہوکر کفر و سرکشی میں بڑھتے رہے اور انہوں نے بڑے مکر و فریب کر کے اپنی طرف آنے والے رسول کو جھٹلایا۔

4۔اس قوم کے سرکش لوگوں نے دوسرے لوگوں کو ایمان قبول کرنے سے روکا اور حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں کو ایذائیں دیں۔

5۔ مالدار کافروں نے اپنی عوام سے کہا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی وجہ سے اپنے معبودوں کی عبادت ہرگز ترک نہ کرنا اور ہرگز وَدّ، سُواع، یغوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہ چھوڑنا، یہ ان بتوں کے نام ہیں، جن کی یہ قوم پوجا کیا کرتی تھی، ان کی نافرمانیوں کے سبب ان کو ہلاک کر دیا گیا۔

اللہ پاک ہمیں اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی کرنے اور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا ایمان پر خاتمہ فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالی کے بہت ہی برگزیدہ نبی گزرے ہیں،  آپ کی عمر بہت لمبی تھی، آپ تقریباً ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دینِ حق کا پیغام پہنچاتے رہے، مگر اس کے باوجود وہ غافل اور نافرمان قوم آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائی، بلکہ آپ کو مختلف طریقے سے اذیتیں دے کر شیطانی کردار ادا کرتی رہی، کئی بار ایسا بھی ہوا اس ظالم قوم نے اللہ کے اس مقدس نبی حضرت نوح علیہ السلام کو اس قدر تکلیف پہنچائی کہ آپ کو بے ہوش کر دیا اور آپ کو مُردہ خیال کرکے کپڑے میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا، مگر اس کے باوجود آپ مسلسل ان کے حق میں دعا فرماتے، اللہ تعالی کے غضب سے بچانے کے لئے آپ ان کے لئے دعائے خیر کرتے، آپ فرماتے" اے میرے ربّ! تو میری قوم کو معاف فرما دے اور ان کو ہدایت عطا فرما، جب اس قوم کی نافرمانیاں حد سے تجاوز کر گئیں، تو اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی اور حکم ارشاد فرمایا:اے نوح علیہ السلام!اب تک جو لوگ مؤمن ہو چکے ہیں، ان کے سوا دوسرے لوگ تم پر ایمان ہرگز نہیں لائیں گے، لہذا آپ ایک کشتی تیار کر یں، حکمِ الٰہی سُنتے ہی آپ کشتی تیار کرنے لگے، جو اسّی گزلمبی پچاس گز چوڑی تھی، سو سال تک کی مسلسل جدوجہد کے بعد لکڑی کی تاریخی کشتی تیار ہوئی۔

جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی نافرمان قوم آپ کا مذاق اُڑاتی، کوئی کہتا اے نوح! تم بڑھئی کب سے بن گئے، کوئی یہ کہتا اے نوح!اس زمین پر کیا تم کشتی چلاؤگے؟

کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے؟(نعوذ باللہ)غرض طرح طرح سے آپ کا مذاق اڑایا جاتا، آپ ان کے جواب میں صرف یہی فرماتے کہ اے نافرمانوں!آج تم میرا مذاق اڑا رہے ہو، جب خدا کا عذاب طوفان کی شکل میں آئے گا تو پھر تمہیں حقیقت کا پتہ چلے گا۔( صاوی جلد دوئم، صفحہ 182تا183)

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا پیشہ:

حضرت نوح علیہ السلام کے والد کا نام شیث تھا، آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اس وقت مبعوث فرمایا، جب بتوں کی عبادت اور شیطانوں کی اطاعت شروع ہوچکی تھی، لوگ کُفر اور گمراہی میں مبتلا ہو چکے تھے تو یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کلامِ مقدس میں بارہا مقامات پر بُتوں کی پوجا سے روکا گیا ہے اور ان کی مذمت اور بے بسی کا جابجا ذکر کیا گیا ہے کہ نفع اور نقصان کا تعلق ان سے نہیں اور نہ ہی یہ کسی کا نفع کرسکتے ہیں، جب ان کی ماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے اُوپر سے مکھی کو بھی نہیں اُڑا سکتے، تو تمہارا نفع اور نقصان کیا کر سکتے ہیں، تو اس کی ابتداء کیسے ہوئی؟

ابنِ جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن قیس سے روایت کی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان کچھ نیک لوگ تھے اور ان کے پیروکار ان کی اقتداء کرتے تھے، جب وہ نیک لوگ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاروں نے کہا: کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنائیں، تو اس سے ہماری عبادت میں زیادہ ذوق و شوق ہوگا، سو انہوں نے ان نیک لوگوں کی تصویریں بنادیں، جب وہ فوت ہوگئے اور ان کی دوسری نسل آئی تو ابلیس ملعون نے ان کے دل میں یہ خیال ڈالاکہ ان کے آباء تصویروں کی عبادت کرتے تھے اور اسی سبب سے ان پر بارش ہوئی، سو انہوں نے ان تصویروں کی عبادت کرنا شروع کر دی۔

وَد، یغوث، یعوق، سر غ، نسر، ود تمام نیک تھے، امام ابنِ حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اِمام باقر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی کہ وَد ایک نیک شخص تھا اور وہ اپنی قوم میں بہت محبوب تھا، جب وہ فوت ہو گیا تو اس کی قوم کے لوگ بابل کی سر زمین میں اس کی قبر کے اردگرد بیٹھ کر روتے رہے، جب ابلیس نے ان کی آہ وبکا دیکھی تو وہ ایک انسان کی صورت میں متمثل ہو کر آیا اور کہنے لگا:"میں نے تمہارے رونے کو دیکھا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے لئے بُت کی ایک تصویر بنا دوں، تم اپنی مجلس میں اس تصویر کو دیکھ کر اسے یاد کیا کرو تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا تو اس نے بُت کی تصویر بنا دی، جس کو وہ اپنی مجلسوں میں رکھ کر اس کا ذکر کیا کرتے، جب ابلیس نے یہ منظر دیکھا تو کہا:میں تم میں سے ہر ایک کے گھر بُت کا ایک مجسمہ بنا کر رکھ دوں، تا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے گھر میں بُت کا ذکر کیا کرے، اُنہوں نے اس بات کو بھی مان لیا، پھر ہر گھر میں وَد کا ایک بُت بنا کر رکھ دیا گیا، پھر ان کی اولاد بھی یہی کچھ کرنے لگی، پھر اس کے بعد ان کی جو بھی نسلیں آئیں، تو وہ بھول گئیں کہ وَد ایک انسان تھا، وہ اس کو خدا مان کر اس کی عبادت کرنے لگیں، پھر انہوں نے اللہ تعالی کو چھوڑ کر اس بُت کی پرستش شروع کر دی، پس اللہ پاک کو چھوڑ کر جس بُت کی سب سے پہلے پرستش شروع کی گئی، وہ وَد نام کا بُت تھا۔(تبیان القرآن، جلد 4، صفحہ 191)

اللہ تعالی نے سورہ نوح میں ان کے نام ذکر کئے ہیں کہ

وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًا ۚ۔

ترجمۂ کنز الایمان: اور بولے ہر گز نہ چھوڑنا اپنے خداؤں کو اور ہر گز نہ چھوڑنا وَدّ اورنہ سُوَاع اور یَغوث اور یَعوق اور نَسر کو (پ29، نوح:23)

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو تبلیغ فرمائی کہ میری دعوت کے تین بنیادی اصول ہیں:

1۔کفر و شرک چھوڑ دو، اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کرو، اس سے تمہارے عقائد درست ہوں گے، توہمات اوروسوسوں سے تمہاری عقلیں آزاد ہوں گی اور جب نورِ توحید چمکے گا تو تمہارا سینہ وادی ایمن بن جائے گا۔

2۔تم تقویٰ کو اپنا شعار بنا لو، جب تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے تو فسق و فجور کی بالیدگیوں سے تمہارا دامن پاک ہو جائے گا، ظلم و ستم، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ و غیبت، خود غرضی اور حرص کا تمہارے معاشرے میں نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا، خود سوچو! اس طرح تمہارے معاشرے میں کتنی خوش آئن تبدیلی رُونما ہوگی۔

3۔تم میری اطاعت کرو، تمہارے ربّ نے مجھے مرشد و رہنما بنا کر مبعوث فرمایا ہے، میں تمہیں سیدھی راہ پر لے چلوں گا اور منزلِ مراد تک پہنچا دوں گا، جب تم مجھے اپنا رہنما اور پیشوا تسلیم کر لو گے تو تم میں انتشار اور طوائف الملوکی کی بجائے قومی اتحاد پیدا ہو جائے گا، تم منظم اور متحد ملت کی طرح قوت اور شوکت سے زندگی بسر کرو گے۔

سب سے پہلے بت پرستی کا آغاز کرنے والا عمرو بن لحیّ بن قمعہ تھا، یہ ان لوگوں سے متاثر ہوا، اس نے تین سو چالیس سال کی طویل عمر پائی، کعبہ کی تولیت پانچ سو سال تک اس کی اور اس کی اولاد کے پاس رہی اور اس نے بُت پرستی کو رواج دینے میں اپنی پوری کوششیں صرف کیں، کعبۃ اللہ جس کو حضرت خلیل علیہ السلام نے اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا، اسی بد بخت کے زمانے میں بت خانہ بنا، عرب کے مختلف قبائل کے ہاں جو بُت تھے، ان میں سے جن بتوں کو بڑی شہرت اور ناموری حاصل تھی، وہ پانچ بت تھے جن کے نام وَد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے۔

کشتی تیار کرنے کا حکم:

ارشاد باری تعالی ہے:وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔

ترجمۂ کنز العرفان" اور ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ ۔"(پ12، ہود:37)

حکم ملتے ہی حضرت نوح علیہ السلام کمر بستہ ہو گئے، لکڑی لائی جارہی ہے، اسے چیرا جا رہا ہے، تختے نکالے جا رہے ہیں، دیگر ضروری چیزیں فراہم کی جا رہی ہیں، آپ علیہ السلام کل تک تو ایک وعظ وتذکیر کرنے میں مصروف و محو تھے، اب تیشہ اور آری ہاتھ میں لئے دنیا و مافیہا سے بے خبر کشتی بنائی جا رہی ہے، آپ علیہ السلام کے ہم وطنوں کو مذاق اور تمسخر کرنے کا ایک انوکھا بہانہ مل گیا، طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں، حضرت!کیا نبوت چھوڑ کر بڑھئی بن گئے ہیں، صاحب!کیا یہ کشتی خشکی میں چلے گی، یہاں تو کوئی دریا اور سمندر نہیں، غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں، آپ تعمیلِ حکم میں مصروف رہے، اللہ کے نبی نے کشتی تیار کر دی، اس کا طو ل وعرض کتنا تھا، اس کی بلندی کتنی تھی، کھڑکیاں اور دروازے کتنے تھے، ان کی منزلیں کتنی تھیں، ان تمام تفصیلات کا عبرت پذیری سے کوئی تعلق نہیں، مختصراً وہ اتنی وسیع تھی کہ اس میں حضرت نوح علیہ السلام کا کُنبہ، آپ علیہ السلام کے پیروکار اور جانوروں کا جوڑا جوڑا سما سکتا تھا، جب کشتی تیار ہوگئی تو عذاب کا مقررہ وقت بھی آگیا۔

فرمانِ باری تعالی ٰہے: حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُۙ-قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ ؕ-وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ۔

جب ہمارا حکم آیا اور تنور اُبلا ہم نے فرمایا کشتی میں سوار کرلے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر ومادہ اور جن پر بات پڑچکی ہے ان کے سوا اپنے گھر والوں اور باقی مسلمانوں کو اوراس کے ساتھ مسلمان نہ تھے مگر تھوڑے (پ12، ہود:آیت40)


حضرت نوح علیہ السلام کا تعارف:

آپ علیہ السلام کا اسم گرامی یشکر یا عبدالغفار اور لقب نوح ہے، نیز طوفان کے بعد چونکہ آپ علیہ السلام سے نسل انسانی چلی اس لیے آدم ثانی کہلاتے ہیں اور آپ علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بہت عظیم اوصاف سے نوازا اور آپ علیہ السلام پر بہت سے انعامات فرمائے۔

آپ علیہ السلام کی بعثت:

حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد رفتہ رفتہ بت پرستی کی وبا عام ہو گئی کفر و ضلالت کے اندھیروں میں گھرے ان لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا صحیح قول کے مطابق اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔

تبلیغ کا فرمانے پر قوم کی نافرمانی:

اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو تبلیغ کا حکم ارشاد فرمایا چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: انا ارسلنا نوحا الی قومہ ان انذر قومک من قبل ان یأتیھم عذاب الیم۔

ترجمہ کنز الایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔(پ29،نوح:1)از سیرت الانبیاء

آپ علیہ السلام نے حکم الہی کی تعمیل کرتے ہوئے تبلیغ فرمائی تو تبلیغ کے جواب میں قوم نے نافرمانی اور سرکشی کا مظاہرہ کیا، آپ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دیا، توحید کو ماننے اور شرک کوچھوڑنے سے انکار کر دیا،اور اس کے علاوہ دھمکی دی کہ اگر تم اپنی وعظ و نصیحت اور دین کی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں پتھر مار مار کر قتل کر دیں گے اس انکار و تکذیب اور دھمکیوں کے ساتھ آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ جملے بھی کہنے لگے آگے قوم کے سخت ناروا سلوک کے باوجود آپ علیہ السلام انہیں توحید پر ایمان لانے اور عبادت الہی کی دعوت دیتے رہے اور قوم کے جہالت سفاہت سے بھر پور جواب سن کر کمال کا مظاہرہ کرتے رہے۔

قوم کا نافرمانی پر ڈٹے رہنا:

قوم نے آپ علیہ السلام پر اعتراضات وارد کیے تو آپ علیہ السلام نے انہیں غور و فکر کی دعوت دی اور اعتراضات کے جواب دیے اور آپ علیہ السلام سے عذاب الہی کا مطالبہ کیا تو آپ علیہ السلام نے انہیں تنبیہ فرمائی نیز ان لوگوں نے آپ علیہ السلام سے متکبرانہ کلام کیا اور آپ علیہ السلام کو سنگساری کی دھمکی دی اور آپ علیہ السلام کی بات نہ مانی اور 80 افراد کے علاوہ کسی نے ایمان قبول نہ کیا،جب معلوم ہو گیا کہ اب مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا تب آپ علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں مناجات کیں پھر آپ کی دعا قبول ہوئی اور کفار اپنی نافرمانیوں کے سبب انجام کو پہنچے۔

روز قیامت قوم کا انکار:

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا،ان سے کہا جائے گا: آپ نے تبلیغ کی تھی؟وہ عرض کریں گے: ہاں یا رب! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا تمہیں تبلیغ کی گئی تھی؟وہ کہیں گے: ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا-فرمایا جائے گا: اے نوح! تمہارے گواہ کون ہیں؟عرض کریں گے: محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت-حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہیں لایا جائے گا،تم گواہی دو گے کہ انہوں نے تبلیغ کی تھی- (بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب قولہ تعالی:(وکذلک جعلناکم امۃ...الخ) ، 520/4،حدیث:7349.)از سیرت الانبیاء

محترم قارئین! قرآن مجید اور احادیث طیبہ میں پچھلی قوموں اور ان کے حالات کا ذکر ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احکامات الہی کی نافرمانی دنیا اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہے لہذا عبرت حاصل کرنی چاہیے اور نصیحت حاصل کرتے ہوئے نافرمانی سے بچتے رہنا چاہیے رب کریم ہمیں اپنے احکامات پر عمل پیرا رہنے کی سعادت سے سرفراز فرمائے اور دنیا اور آخرت میں ذلت و رسوائی سے بچائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم بتوں کی پجاری تھی، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے ہی سے ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔(صراط الجنان، 10/361، 362)

حضرت نوح علیہ السّلام ساڑھے نوسو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے مگر ان کی بد نصیب قوم ایمان نہیں لائی بلکہ طرح طرح سے آپ کی تحقیر و تذلیل کرتی رہی اور قسم قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے آپ کو ستاتی رہی یہاں تک کہ کئی بار ان ظالموں نے آپ کو اس قدر زدوکوب کیا کہ آپ کو مُردہ خیال کر کے کپڑوں میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا۔ مگر آپ پھر مکان سے نکل کر دین کی تبلیغ فرمانے لگے۔ اسی طرح بارہا آپ کا گلا گھونٹتے رہے یہاں تک کہ آپ کا دَم گھٹنے لگا اور آپ بے ہوش ہو جاتے، اور قوم کا حال یہ تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیت کر کے مرتا تھا کہ نوح (علیہ السّلام) بہت پرانے پاگل ہیں اس لئے کوئی ان کی باتوں کو نہ سنے اور نہ ان کی باتوں پر دھیان دے۔ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص316ملتقطاً)

حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم نے اس قدر نافرمانیاں کیں کہ آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی:

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ(۵) فَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَآءِیْۤ اِلَّا فِرَارًا(۶) وَ اِنِّیْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْۤا اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وَ اَصَرُّوْا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًاۚ(۷)

ترجمۂ کنزُ العرفان: اے میرے رب ! بیشک میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی۔ تو میرے بلانے سے ان کے بھاگنے میں ہی اضافہ ہوا۔ اور بیشک میں نے جتنی بار انہیں بلایا تا کہ تو انہیں بخش دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور وہ ڈٹ گئے اور بڑا تکبر کیا۔(پ29، نوح:5تا7)

اور مزید عرض گزار ہوئے: قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِیْ وَ اتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْهُ مَالُهٗ وَ وَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًاۚ(۲۱) وَ مَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًاۚ(۲۲) وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ﳔ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاۚ(۲۳)

ترجمۂ کنزُالعرفان: نوح نے عرض کی: اے میرے رب! بیشک انہوں نے میری نا فرمانی کی اور ایسے کے پیچھے لگ گئے جس کے مال اور اولاد نے اس کے نقصان ہی کو بڑھایا۔ اور انہوں نے بہت بڑا مکرو فریب کیا۔ اور انہوں نے کہا: تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ہرگز وَدّ اور سُواع اور یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر (نامی بتوں) کو نہ چھوڑنا۔(پ29، نوح:21تا23)



خالق کائنات عزوجل نے مخلوق کی  رُشد و ہدایت کے لیے بہت سے انبیائے کرام و رسولانِ عظام علیہم الصلوة والسلام کو مبعوث فرمایا، ان ہی بزرگ ہستیوں میں سے ایک حضرت نوح علیہ السلام بھی ہیں جو کہ بعثت کے اعتبار سے سب سے پہلے رسول ہیں ۔

آ پ علیہ السّلام کا اسمِ گرام یشکر یا عبد الغفار ہے جب کہ آپ علیہ السلام حضرت ادریس علیہ السلام کے پرپوتے تھے چونکہ آپ علیہ السلام بہت زیادہ گریہ و زاری کیا کرتے تھے، اس وجہ سے اپ کا لقب نوح (گری وزاری کرنے والا) ہوا ۔ آپ علیہ ا لسلام کی عمرمبارک کے متعلق ارشاد ہوا۔

ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس ر ہا۔( العنکبوت:14)

قرآنی تصریح کے مطابق حضرت نوح علیہ ا لسلام کی حیات ظاہری 950 برس تھی، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت ادریس علیہ ا لسلام کے عہد تک سب لوگ ایک ہی شریعت و دین پر تھے پھر ان میں اختلاف ہوا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ ا لسلام کو ایک نئی شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔

جب حضر ت نوح علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پیغامِ حق لے کر تشریف لائے تو بجائے اس (التفسیر المظہری ۳/۳۶۷)پیغام کو قبول کرنے او رحکم کی بجا آوری کے قوم کے لوگوں نے اپنی سرکشیوں میں اضافہ کردیا اور آپ علیہ السلام کی نافرمانی کرکے طرح طرح سے اذیتیں دینے اور تکالیف پہنچانے میں مشغول ہوگئے۔

نبوت کا انکار:

جب حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے پاس تشریف لائے اور اعلان نبوت فرمایا تو ان لوگوں نے آپ علیہ السلام کی نبوت کو قبول نہ کیا۔

بت پرستی پر ڈٹے ر ہنا:

قوم کے لوگوں کو بت پرستی چھوڑ دینے اور صرف ایک اللہ واحد وقہار کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو ان نافرمانوں نے اس کا انکار کیا اور بت پرستی پر قائم رہنے کو اختیار کیا، وحدانیت الہی کو تسلیم نہ کرنا آپ علیہ السلام نے ان کے سامنے اللہ تبارک و تعالیٰ کی واحدانیت ( ایک ہونے) کے کثیر دلائل بیان کیے اور نافرمانی کرنے پر عذابِ الہی سے ڈرایا پھر بھی وہ بے وقوف قوم باز نہ آئی اور سوائے چند کے بقیہ لوگوں نے عبادت واطاعت سے اعراض کیا۔

احکاماتِ الہی سے رو گردانی :

وحی کے ذریعے جو احکامات آپ علیہ السلام پرنازل ہوئے جب ان کو اپنی قوم کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے اس سے روگردانی کی اور مستحقینِ عذاب میں خود کو شامل کیا۔ان نافرمانیوں کے باوجود حضرت نوح علیہ السلام نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور اپنی قوم کے لیے دعائے خیر کرتے رہے لیکن جب قوم کی بے راہ روی حد سے تجاوز کر گئی تو آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعائے ہلاکت فرمادی پھر ربِ کائنات عزوجل کے حکم سے آپ علیہ ا لسلام نے ایک کشتی تیار کی ، پھر جب طوفان کی صورت میں عذاب آیا توحضرت نوح علیہ السلام اپنے چند رفقا کے ہمراہ کشتی میں سوار ہوگئے اور ظلم و زیادتی ، کفر وشرک میں غرق قوم تباہ و برباد ہوگئی اس عذاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے۔

ترجَمۂ کنزُالایمان: تو انہوں نے اسے(نوح علیہ السلام کو) جھٹلایاتوہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور اپنی آیتیں جھٹلانے والوں کو ڈبو دیا بیشک وہ اندھا گروہ تھا۔(الاعراف 64)

مولائے کر یم اسے قبول فرمائے اور ہمیں اپنی نافرمانیوں سے محفوظ رکھے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن کریم میں اللہ پاک نے مختلف انبیاء کی اقوام کے حالات و واقعات کا ذکر فرمایا تاکہ آئندہ آنے والے لوگ ان کے حالات و واقعات کو پڑھ سن کر اس سے نصیحت کا سامان کریں ، انہیں قوموں میں سے ایک قوم اللہ پاک کے پیارے نبی نوح علیہ السّلام کی قوم ہے یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے اللہ عزوجل نے حضرت نوح علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی بتا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا عذاب نازل ہوگا ۔

یاد رہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اللہ پاک کے سب سے پہلے دنیا میں بھیجے گئے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کی قوم پر دنیاوی عذاب آیا ۔

( جلالین ، سورہ نوح ، تحت الآیۃ1,ص، 473 )

اب ذیل میں قوم نو ح کی چند ایسی نافرمانیاں ذکر کی جاتی ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ لوگ غضب الہی کے سزاوار ہوئے۔

1 ۔ جب نوح علیہ السلام نے اپنی قوم تک اللہ پاک کا پیغام پہنچایا اور اس چیز سے ڈر آیا جس سے ڈرانے کا اللہ نے حکم دیا تھا تو قوم نے ان کی بات نہ مانی اور حضرت نوح جو احکام لے کر آئے تھے انہیں رد کردیا ۔

2۔ نوح علیہ السلام اپنی قوم کو ترغیب دے کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کی دعوت دیتے رہے لیکن وہ لوگ آپ علیہ السلام کو ایک لمبے عرصے تک جھٹلاتے رہے تو اللہ پاک نے ان سے بارش روک لی اور چالیس سال تک ان کی عورتوں کو بانجھ کر دیا ان کے اموال ہلاک ہوگئے ان کے جانور مر گئے۔

3 ۔ قوم نو ح کے غریب اور چھوٹے لوگ ان کے سرکش رئیسوں کی پیروی کرنے لگے جو اپنے مال و دولت کے غرور میں مست ہوکر کفروشرک کی سرکشی میں پڑے رہتے اور ان کے امیروں نے بہت مکروفر یب کئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو جھٹلایا لوگوں کو ایمان قبول کرنے اور حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کرنے اور ان کی دعوت سننے سے روکا اور اور حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں کو ناحق سزا ئیں دیں تو ان نافرمانیوں کے سبب اللہ پاک نے ان لوگوں پر دنیا میں بھی عذاب نازل فرمایا اور آخرت میں بھی عذاب کا ان سے وعدہ کیا ۔

اللہپاک ہمیں قرآن پاک میں غور و فکر کرنے اور اس سے حاصل ہونے والے دروس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے اور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کرنے سے سدا محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین