خالق کائنات عزوجل نے مخلوق کی  رُشد و ہدایت کے لیے بہت سے انبیائے کرام و رسولانِ عظام علیہم الصلوة والسلام کو مبعوث فرمایا، ان ہی بزرگ ہستیوں میں سے ایک حضرت نوح علیہ السلام بھی ہیں جو کہ بعثت کے اعتبار سے سب سے پہلے رسول ہیں ۔

آ پ علیہ السّلام کا اسمِ گرام یشکر یا عبد الغفار ہے جب کہ آپ علیہ السلام حضرت ادریس علیہ السلام کے پرپوتے تھے چونکہ آپ علیہ السلام بہت زیادہ گریہ و زاری کیا کرتے تھے، اس وجہ سے اپ کا لقب نوح (گری وزاری کرنے والا) ہوا ۔ آپ علیہ ا لسلام کی عمرمبارک کے متعلق ارشاد ہوا۔

ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس ر ہا۔( العنکبوت:14)

قرآنی تصریح کے مطابق حضرت نوح علیہ ا لسلام کی حیات ظاہری 950 برس تھی، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت ادریس علیہ ا لسلام کے عہد تک سب لوگ ایک ہی شریعت و دین پر تھے پھر ان میں اختلاف ہوا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ ا لسلام کو ایک نئی شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔

جب حضر ت نوح علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پیغامِ حق لے کر تشریف لائے تو بجائے اس (التفسیر المظہری ۳/۳۶۷)پیغام کو قبول کرنے او رحکم کی بجا آوری کے قوم کے لوگوں نے اپنی سرکشیوں میں اضافہ کردیا اور آپ علیہ السلام کی نافرمانی کرکے طرح طرح سے اذیتیں دینے اور تکالیف پہنچانے میں مشغول ہوگئے۔

نبوت کا انکار:

جب حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے پاس تشریف لائے اور اعلان نبوت فرمایا تو ان لوگوں نے آپ علیہ السلام کی نبوت کو قبول نہ کیا۔

بت پرستی پر ڈٹے ر ہنا:

قوم کے لوگوں کو بت پرستی چھوڑ دینے اور صرف ایک اللہ واحد وقہار کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو ان نافرمانوں نے اس کا انکار کیا اور بت پرستی پر قائم رہنے کو اختیار کیا، وحدانیت الہی کو تسلیم نہ کرنا آپ علیہ السلام نے ان کے سامنے اللہ تبارک و تعالیٰ کی واحدانیت ( ایک ہونے) کے کثیر دلائل بیان کیے اور نافرمانی کرنے پر عذابِ الہی سے ڈرایا پھر بھی وہ بے وقوف قوم باز نہ آئی اور سوائے چند کے بقیہ لوگوں نے عبادت واطاعت سے اعراض کیا۔

احکاماتِ الہی سے رو گردانی :

وحی کے ذریعے جو احکامات آپ علیہ السلام پرنازل ہوئے جب ان کو اپنی قوم کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے اس سے روگردانی کی اور مستحقینِ عذاب میں خود کو شامل کیا۔ان نافرمانیوں کے باوجود حضرت نوح علیہ السلام نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور اپنی قوم کے لیے دعائے خیر کرتے رہے لیکن جب قوم کی بے راہ روی حد سے تجاوز کر گئی تو آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعائے ہلاکت فرمادی پھر ربِ کائنات عزوجل کے حکم سے آپ علیہ ا لسلام نے ایک کشتی تیار کی ، پھر جب طوفان کی صورت میں عذاب آیا توحضرت نوح علیہ السلام اپنے چند رفقا کے ہمراہ کشتی میں سوار ہوگئے اور ظلم و زیادتی ، کفر وشرک میں غرق قوم تباہ و برباد ہوگئی اس عذاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے۔

ترجَمۂ کنزُالایمان: تو انہوں نے اسے(نوح علیہ السلام کو) جھٹلایاتوہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور اپنی آیتیں جھٹلانے والوں کو ڈبو دیا بیشک وہ اندھا گروہ تھا۔(الاعراف 64)

مولائے کر یم اسے قبول فرمائے اور ہمیں اپنی نافرمانیوں سے محفوظ رکھے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم