اپنی ذات کے آگے
کوئی اور نظر نہ آئے تو یہ خود غرضی کہلاتا ہے۔ذاتی و آرام و فائدہ و مقصد وپسند
ناپسندیا خوشی کے لیے دوسروں کے وجود اور حقوق کو نظر انداز کر دینا باقی سب کی
خوشیوں کو روند ڈالنا خود غرضی ہے۔ہماری زندگی میں بھی کئی مراحل ایسے آتے ہیں جب
ہم صرف وہ کام کرتے ہیں جس میں ہمارا فائدہ ہو۔ یہ انسان کی طبیت میں شامل ہے۔ یہ
عادت اس وقت تک مثبت ہے جب تک ہم اپنے فائدے کی بنیاد دوسروں کے نقصان پر نہیں
رکھتے۔
خودغرضی
کی ایک علامت: خودغرضی
کی ایک علامت یہ ہے کہ ہم کسی راستے کے ساتھ محبت اور خیال کرنے میں اتنے مگن
ہوجائیں کہ کوئی اور قریبی رشتہ متاثر ہو جائے یا نظر انداز ہونے لگے اور ہمیں اس
کا احساس بھی نہ ہو۔یہاں پر انسان صرف ترجیحات کوسمجھ کر توازن کرلے تو کامیاب
ہوجائے۔
انسان
کا اپنے رشتوں سے غم: اپنے رشتوں سے محبت اور بچھڑنے کا غم بھی ایک تکلیف
دہ حقیقت ہوتی ہے۔کسی اپنے کی موت ہو جائےتو رونے یا آہ و بکامیں سے اکثر یہ آواز آتی
ہے کہ اب میرا کیا ہوگا۔آپ نے بہت کم سنا ہوگا جب کوئی یہ کہے کہ جانے والے کا کیا
ہوگا۔ یہ بھی اپنی ذات سے محبت فکر کا قدرتی جذبہ ہے جو انسان میں پایا جاتا ہے۔
کامل
مومن: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں کامل ایمان والا وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیےبھی وہی
چیز پسند کرے جو اپنے لیےپسندکرتا ہے۔ (بخاری، 1/16، حدیث:13)
چراغ
بجھایا گیا لیکن کسی نے ایک لقمہ نہ کھایا: حضرت شیخ
ابوالحسن انکاکی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک بار بہت سے مہمان تشریف لے آئے۔رات جب
کھانے کا وقت آیا تو روٹیاں کم تھیں۔چنانچہ روٹیوں کے ٹکرے کر کے دسترخوان پر بیٹھ
گئے جب کچھ دیر بعد یہ سوچ کر کہ سب کھاچکے ہونگے چراغ لایا گیا تو تمام ٹکڑے جوں
کے توں موجود تھے۔ایثار کے جذبے کے تحت ایک لقمہ بھی کسی نے نہ کھایا تھا کیونکہ
ہر ایک کی یہی سوچ تھی کہ میں نہ کھاؤں تاکہ ساتھ والے مسلمان بھائی کا پیٹ بھر
جائے۔ (اتحاف السادۃ، 9/783)
ہمیں بھی چاہے
کہ جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کریں اللہ کریم
ہمیں حقیقی معنوں میں اچھے اخلاق والا بنائے۔ آمین