"بارگاہ الہٰی میں حاضری کےوقت دل کا لگ جانا یا بارگاہِ
الٰہی میں دلوں کو جھکا دینا خشوع کہلاتاہے"(الحدیقۃ الندیہ ،الخلق الثالث
والأربعون ١١٧/٢ماخوذا)
خشوع یعنی دل کا حاضر ہونا اللہ کی بہت
بڑی نعمت ہے
خشوع رضائے الہی پانے،نجات دلانے اور جنت میں لےجانےوالا عمل ہے جسے
اپنےاعمال میں خشوع حاصل ہوجاۓگویااسے اخلاص نصیب ہوگیا۔(جنت میں لےجانےوالےاعمال،
ص168) اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتاہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
ترجمہ کنزالعرفان:بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے، جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں(پ١٨،المؤمنون:١,٢)
تین فرامین مصطفیٰ
1:"نماز سکون اور عاجزی کانام ہے"(سنن ترمذی۔الحدیث
385،ج1ص۔394)
2:"کتنےہی قیام کرنےوالےایسےہیں کہ جنہیں نماز میں سواۓتھکاوٹ
اور مشقت کےکچھ حاصل نہیں ہوتا" (سنن ابن ماجہ۔الحدیث169.ج۔2۔ص32)
3:"بندہ نماز پڑھتا رہتاہےمگر اسکےلیےاسکاچھٹا یا دسواں حصہ بھی نہیں
لکھا جاتا بےشک بندےکےلیے اسکی نماز میں سے وہی لکھا جاتا ہے جسےوہ سمجھ کر ادا
کرے"(سنن ابی داؤد، الحدیث796,ج 1,ص306)
صحابہ کرام اور نماز:
حضرت ابوبکر نماز میں میخ(کھونٹے)کی طرح،حضرت عبد الله بن زبیر ستون کی طرح اور
بعض صحابہ رکوع میں اتنےپرسکون ہوتے کہ ان پر چڑیا بیٹھ جاتیں.(احیاء العلوم
(اردو)ج 1,ص521)
جب نماز کا وقت آتاتوحضرت علی کےچہرےکارنگ متغیر ہو جاتا اور آپ پر لرزہ
طاری ہوجاتا، پوچھاگیاآپ کو کیا ہوگیاہے فرمایا"الله کی اس امانت کی ادائیگی کا
وقت آگیاجسےالله
نے آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگر انہوں نےمعذوری ظاہر کردی اور میں نے
اسے اٹھالیا،(رضوان اللہ اجمعین)(مکاشفۃ القلوب۔ص100,مکتبۃ المدینہ)
نماز میں خشوع کیسےپیداہو؟
1: خشوع کے فضائل کا مطالع کیجئے کہ خشوع کے ساتھ دو رکعت ادا کرنا بغیر خشوع کے
پوری رات قیام کرنےسےافضل ہے۔(احیاء العلوم ج۔1 ص 473(اردو)
2: اعضاء میں خشوع پیدا کیجیۓ سرکارِ مدینہ صلی الله علیہ وسلمنےایک شخص کو اپنی
داڑھی سےکھیلتےدیکھا تو فرمایا اگر اس کےدل میں خشوع ہوتا تو اعضاء میں بھی خشوع
ہوتا۔
(نوادر الاصول، الاصل السابع والارربعون والماءتان۔ص1007,حدیث،1310)
3: دل میں نرمی پیداکیجئے دل کی سختی اعمال میں خشوع کو روکتی ہےاسکا علاج
یہ ہے کہ بندہ موت کو کثرت سے یاد کرے زبان اور پیٹ کا قفل مدینہ لگاۓاور
بلا ضرورت ہنسنےسے پرہیز کرے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات۔ص263)
عدم خشوع کے نقصان۔
عدم خشوع نہایت ہی مہلک مرض اور عبادات کےثواب میں کمی کا باعث ہےشیطان
اپنی ذریت کےساتھ عبادات میں خشوع کو اولاً کم کرتاہےاور پھر آہستہ آہستہ ختم
کردیتاہےیوں عبادت برائے نام رہ جاتی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات۔ص261)
خشوع وخضوع کے معنى:
خشوع و خضوع ىہ دو الفاظ ہىں، خشوع کا تعلق
اعضائے ظاہرى سے ہے جب کہ خضوع کا تعلق دل سے ہے۔
خشوع کامعنى ہے بدن مىں عاجزى پىدا کرنا مثلا جب
کسى عہدے دار سے بات کى جاتى ہے تو
انتہائى لجاجت ، نرمى اور عاجزى کے ساتھ بات کى جاتى ہے اور دورانِ گفتگو بدن بھى
جھک جاتا ہے اس انداز سے بات کرنے کو خاشعانہ انداز کہتے ہىں۔اسى طرح نماز کو اس
کے ظاہرى اداب ، فرائض وواجبات اور سنن و مستحبات کے ساتھ اچھى طرح ادا کرنا۔
خضوع کے معنى دل کے عاجزى کے ہىں، جىسے کوئى
بندہ کسى سنى عالم ِ دىن ىا امام مسجد ىا اپنے پىر صاحب سے ملتا ہے تو ان کى عزت و
عظمت دل مىں ہونے کى وجہ سے ظاہرى جسم کى عاجزى کے ساتھ ساتھ دل سے بھى عاجزى والا
انداز اپناتا ہے اس کو خضوع کہتے ہىں۔
(مدنى مذاکرہ قسط
نمبر۲۵)
نماز مىں خشوع و خضوع کى اہمىت:
قرآن پاک کى روشنى مىں :
نماز مىں خضوع و خضوع کى بڑى اہمىت ہے چنانچہ
پارہ 18 سورہ المومنون کى آىت نمبر 1 اور 2 مىں ارشاد ہوتا ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
تَرجَمۂ کنز الایمان: بىشک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز
مىں گڑ گڑاتے ہىں۔
ان آىاتِ مبارکہ کے تحت حضرت علامہ مولانا سىد
محمد نعىم الدىن مراد آبادى علیہ الرَّحمہ فرماتے ہىں: ان کے دلوں مىں خدا کا خوف ہوتا ہے
اور ان کے اعضائے ساکن ہوتے ہىں، بعض مقربىن نے فرماىا کہ نماز مىں خشوع ىہ ہے کہ
اس مىں دل لگا ہوا اور دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور نظر جائے نما ز سے باہر نہ
جائے اور گوشہ چشم سے کسى طرف نہ دىکھے۔
نماز مىں خشوع و خضوع کى اہمىت احادىث کى روشنى
مىں :
حضرت سىدنا ابوہرىرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے
رواىت کى ہے کہ نبى کرىم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اىک
شخص کو دورانِ نماز اپنى داڑھى سے کھىلتے ہوئے دىکھا تو فرماىا ، اگر اس کا دل
خشوع والا ہوتا تو اس کے اعضا بھى خشوع کرتے۔
حکاىات:
حضرت عمر فاروق رضی
اللہ تعالٰی عنہ نے منبر پر بىٹھ کر فرماىا: بسا اوقات انسان
اسلام کى حالت مىں بوڑھا ہوجاتا ہے مگر وہ اللہ
تعالىٰ کے لىے نماز ٹھىک نہىں کرسکتا، پوچھا گىا وہ کىسے؟ فرماىا اس کا خضوع و
خشوع پورا نہىں رکھتا، اللہ تعالىٰ کى طرف
انابت نہىں رکھتا۔(مکاشفۃ القلوب)
خشوع کے معنیٰ ہیں:
دل کا فعل اور ظاہری اعضاء (یعنی
ہاتھ پاؤں) کا عمل۔ (تفسیرِ کبیر ج ۸ ص۲۵۹)
دِل کا فعل یعنی اﷲ پاک کی عظمت پیشِ نظر ہو، دنیا سے تَوَجُّہ ہٹی
ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔ اور ظاہری اَعضَا کا عَمَل یعنی سُکون سے کھڑا
رہے، اِدھر اُدھر نہ دیکھے، اپنے جِسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے اور کوئی عَبَث
بے کار کام نہ کرے۔ (ماخوذ از تفسیرِ کبیر ج ۸ ص۲۵۹، مدراک ص ۷۵۱، صاوی ج ۴ ص۱۳۵۶)
حضور محدثِ بریلوی سیدی اعلی حضرت لکھتے ہیں نماز کا کمال، نماز کا نُور،
نمازکی خُوبی فَہَمࣿ وتَدَبُّروحُضُورِقلب(یعنی خشوع) پر ہے ْ(فتاوٰی رضویہ ج ۶ ص ۴۰۵)
مطلب یہ کے اعلیٰ درجے کی
نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ اَمِیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمان
ابنِ عفّان رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں:
میں نے اﷲ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سُنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت
آئے اور وہ اچھی طرح وضو کر کے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طریقے سے رکوع
کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا
کفَّارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا اِرتکاب نہ کر ے اور یہ(یعنی
گناہوں کی معافی کا سلسلہ) ہمیشہ ہی ہوتا ہے( کسی زمانےکے ساتھ خاص نہیں ہے)۔(مسلم
ص ۱۱۶ حدیث
۵۴۳)
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری
تعالیٰ ہے: اِنَّنِیْۤ
اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ
لِذِكْرِیْ(۱۴)
ترجمہ کنزالعرفان: بیشک میں ہی اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری
عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔
صحابہ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوَان رُکوع میں اتنے پُر سکون ہوتے کہ اُن پر چڑیاں بیٹھ
جاتیں گویا وہ جمادات (یعنی بےجان چیزوں) میں سے ہیں۔(احیاء العوم ج ۱ ص ۲۲۸،۲۲۹)
خشوع کى
تعرىف:
دل کا فعل اور ظاہرى اعضا کا عمل( تفسىر کبیر ۸۵ ، ج۸، ص ۵۹)
دل کا
فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو، اور نماز مىں دل لگا ہوا ہو، اور
ظاہرى اعضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑا رہے،
اِدھر اُدھر نہ دىکھے اپنے جسم اور کپڑو ں کے ساتھ نہ کھىلے ، اور کوئى خبىث و
بىکار کام نہ کرے ( ماخوذ اذا تفسىر کبىر
ج۸،ص۲۵۹، مدارک ص ۷۵۱، ج۴،ص۱۲۵)
نماز مىں
خشوع کىا ہے؟: علامہ بدر الدىن
عىنى رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہىں، نماز مىں خشوع
مستحب ہے۔(عمد ة القارى ج ۴ ، ص ۳۹۱،
۔۔۔۷۴۱)
اعلىٰ
حضرت رحمۃ
اللہ علیہ لکھتے ہىں، نماز کا کمال
نماز کا نور، نما زکى خوبى فہم و تدبر و حضور قلب (ىعنى خشوع) پر ہے۔ (فتاوىٰ
رضوىہ ج۴، ص ۲۵۵)،
مطلب ىہ ہے کہ اعلىٰ درجہ کى نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا
کى جائے
اللہ پاک پارہ ۱۸، سورہ
المومنىن کى آىت نمبر۱ اور ۲ مىں ارشاد
فرماتا ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)تَرجَمۂ
کنز الایمان:
بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(مؤمنون، 1،2)
تفسىر صراط الجنان جلد ۶، ص۹۹۴ پر ہے، اس آىت
مىں اىمان والوں کو بشارت دى گئى ہے بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے اور ہمىشہ کے
لىے جنت مىں داخل ہو کر ہر ناپسندىدہ چىز
سے نجات پاجائىں گے۔ (تفسىر کبىر ج۹، ص رو ح البىا ن ج ۴، ص۴۴ ملتقا) مزىد صفحہ
۴۹۶ پر ہے: اىمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں، اس وقت ان کے دلوں
مىں اللہ کرىم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن ہوتے
ہىں۔
نماز مىں
ظاہرى و باطنى خشوع کسے کہتے ہىں؟:
نماز مىں خشوع ظاہرى بھى ہوتا ہے اور باطنى بھى
، ظاہرى خشوع ىہ ہے کہ نماز کے آداب کى مکمل رعاىت کى جائے مثلا نظر نماز سے باہر
نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسى طرف نہ دىکھے، آسمان کى طرف نظر نہ اٹھائے، کوئى
عبث و بىکار کام نہ کرے، کوئى کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے اس کے دونوں
کنارے لٹکاتے ہوں، انگلىاں نہ چٹخائے اور
ہر قسم کى حرکات سے باز رہے، باطنى خشوع ىہ ہے کہ اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو، دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور
نماز مىں دل لگا ہو ،(تفسىر صراط الجنان ج۴، ص ۴۹۴)
اىک صحابى رضى اللہ عنہ بىان کرتے ہىں، مىں نے اللہ پاک کے پىارے حبىب صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کو ىہ
فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز
کا وقت آىا اور وہ اچھى طرح وضو کرکے ۔ خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طرىقے سے
رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفار ہ ہوجاتى ہے جب تک کہ وہ کسى
کبىرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور ىہ ( ىعنى گناہوں کى معافى کا سلسلہ) ہمىشہ ہى
ہوتا ہے۔(مسلم ص ۱۱۴، حدىث ۵۴۳)
بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہىں، بروز قىامت لوگ نماز والى ہیئت پر
اٹھائے جائىں گے ىعنى نماز مىں جس کو جتنا
اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے اس کے مطابق ان کا حشر (ىعنى اٹھاىا جانا ہوگا، اللہ پاک اىسى نماز کى طرف نظر نہىں فرماتا جس مىں
بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔
ىا اللہ عزوجل
ہمىں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کى سعادت عناىت فرما۔
غیب
کی خبریں بتانے والے پیارے آقا صلی اللہ علیہ
وسلم نے
فرمایا جب اذان ہوتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے تاکہ
اذان نہ سن سکے۔ اذان کے بعد پھر آجاتا ہے اور جب اقامت ہوتی ہے تو پھر بھاگ جاتا
ہےاقامت کے بعد آکر نمازی کو وسوسہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور اس کی بھولی ہوئی
باتوں کے بارے میں کہتا ہے فلاں باتب یاد کرو فلاں بات یاد کرو حتی کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں
پڑھی ہیں (بخاری جلد 1 صفحہ 222 حدیث 608)
پیارے اسلامی
بھائیو! شیطان تو اول نماز پڑھنے سے روکتا ہے اور اگر نمازی نماز شروع کرنے میں
کامیاب ہوجائے تو شیطان اس نماز میں وسوسے ڈالتا ہے خشوع وخضوع کو باقی نہیں رہنے دیتا
تو اس سے خشوع و خضوع کی اہمیت سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ شیطان ہر اس کام سے منع
کرتا ہے جس کا کوئی اخروی فائدہ ہوتا ہےاس کے علاوہ اگر خشوع و خضوع کے فضائل
بزرگان دین کے انداز اور خشوع کو ترک کرنے کے نقصانات کی طرف غور کیا جائے تو اس کی
اہمیت واضح ہو جاتی ہے آئیے اس کے بارے میں چند معلومات حاصل کرتے ہیں:
خشوع
و خضوع سے نماز پڑھنے کے فضائل: قَدْ
اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)تَرجَمۂ
کنز الایمان:
بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز
میں گڑگڑاتے ہیں۔(مؤمنون،
1،2)
اسی
طرح (پارہ 22 سورۃ احزاب آیت نمبر 35) میں اچھے لوگوں کی بہت سے وصف بیان کئے گئے
ان میں ایک وصف ایک یہ بھی ہے۔ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ ترجمہ کنزالایمان:
اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں۔(الاحزاب ، ۲۵ )
پھر
ان اوصاف کے حامل بندے اور بندیوں کا اجر بیان فرماتے ہوئے اسی آیت کے آخر میں
فرمایا: اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ
اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)۔ترجمہ
کنزالایمان :ان سب کے لئے اللہ نے
بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔(ایضاً)
نیز
حدیثوں میں بھی بہت سے فضائل آئے ہیں ایک فضیلت یہ ہیں کہ حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے
اللہ پاک
کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو
دیکھا کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے فرما رہے ہیں جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے پھر
ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعتیں ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے
(مسلم صفحہ 618 حدیث 553)
(جنت واجب ہو جاتی ہے) کہ بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے
مراد دنیا میں اسے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے مرتے وقت ایمان پر قائم رہتا ہے قبر
و حشر میں آسانی سے پاس ہوتا ہے (مراۃ المناجیح جلد 1 صفحہ 236)
مکتبۃالمدینہ
کا رسالہ راہ علم کے صفحہ 87 پر ہے ،یہ بھی یاد رہے نماز کو خشوع وخضوع سے ادا
کرنا اور تحصیل علم یعنی علم حاصل کرنے میں لگے رہنا فکر و غم کو دور کرتا ہے
احادیث
میں خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے کی ترغیب: ایک حدیث پیش خدمت ہے کہ بخاری شریف کی
طویل حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ
السلام نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ
وسلم
میں عرض کی احسان کیا ہے فرمایا احسان یہ ہے کہ
اللہ پاک
کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہو سکے کہ یہ یقین رکھو کہ
وہ تمھیں دیکھ رہا ہے (بخاری جلد 1 صفحہ 31)
بزرگان دین کا انداز:
(1)
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز میں ایسے
ہوتے گویا(گڑی ہوئی) میخ (کھونٹی) ہیں, (2) بعض صحابہ کرام علیہم
الرضوان رکوع میں اتنے پرسکون ہوتے کہ ان پر چڑیا بیٹھ جاتی گویا کہ
وہ جمادات یعنی بے جان چیزوں میں سے ہیں (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 228 ,229) تابعی
بزرگ حضرت سیدنا مسلم بن یسار رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس قدر توجہ سے نماز پڑھتے کہ آس پاس کی کچھ خبر نہ ہوتی ایک
بار نماز میں مشغول تھے کہ قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن آپ احساس تک نہ ہوا یہاں تک کہ
بجھا دی گئی. (اللہ والوں کی
باتیں جلد 2 صفحہ 447)
خشوع
وخضوع ترک کرنے کے نقصانات:
اللہ پاک
ایسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں
بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 417)
اللہ پاک نے نماز مىں خشوع وخضوع اختىار کرنے والوں
کى تعرىف مىں متعدد آىات مبارکہ ارشاد فرمائى ہىں ، چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے:
فی صلاتہم خاشعون: تَرجَمۂ کنز الایمان: اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔۱
على صلاتھم دائمون :تَرجَمۂ کنز الایمان: اپنى نماز کے پابند ہیں۔۲
على صلاتھم یحافظون : تَرجَمۂ کنز الایمان: اپنى نمازکی حفاظت کرتے ہیں۔۳
ىقىناً پىارے اسلامى بھائىو! صحىح نماز وہ ہى ہے
جس کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کىا جائے ، کىونکہ جس طرح نماز ادا کرنے کى شرائط
ہوتى ہىں اسى طرح نماز کے قبول ہونے کی بھی شرائط ہیں جن میں نماز کو خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنا سرفہرست ہے۔
چنانچہ خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے بارے مىں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)۴
تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک مراد کو پہنچے وہ اىمان والے جو اپنى
نماز مىں گڑ گڑاتے ہىں۔
خشوع و خضوع کى اہمىت پر مشتمل احادىث مبارکہ :
خشوع و خضوع کى اہمىت کا اندازہ نبى کرىم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کى احادىث مبارکہ سے بھى لگاىا جاسکتا ہے ، آئىے!
اس ضمن مىں دو حادىثِ مبارکہ پىش کى جاتى ہىں۔
۱۔ پىارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان ہے کہ اللہ پاک اپنے بندے کى طرف متوجہ رہتا ہے جب تک وہ
اپنى توجہ نماز سے نہىں ہٹاتا۔۵
۲۔اىک اور حدىث پاک میں ہمارےپىارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرماىا کہ مىرى امت کے دو آدمى نمازپڑھىں گے ان کے رکوع و سجود اىک جىسے ہوں گے
مگر ان کى نمازوں مىں زمىن و آسمان کا فرق ہوگا اىک مىں خشوع ہوگا اور دوسرى بغىر
خشوع کے ہوگى۔۶
خشوع و خضوع کى اہمىت پر مشتمل واقعات:
اسى طرح خشوع و خضوع کى اہمىت کا اندازہ ہمارے
صحابہ کرام اور بزرگانِ دىن کے واقعات سے بھى لگاىا جاسکتا ہے ، چنانچہ حضرت سىدنا
صدىق اکبر رضی
اللہ تعالٰی عنہ جب نماز مىں کھڑے ہوتے تو اىسا معلوم ہوتا جىسے
کوئى بىخ(کىل) گڑى ہوئى ہے، اسى طرح بعض صحابہ کرام رکوع مىں اتنے پرسکون ہوتے کہ
ان پر چڑىا بىٹھ جاتى گوىا کہ وہ جمادات (بے جان چىزىں ) ہىں ۔۷
پىارے اسلامى بھائىوں! خشوع وخضوع کا ىہ اندازکىوں نہ ہو کہ اىک عقلِ سلىم ىعنى
اس بات کا تقاضا کرتى ہے کہ جب دنىاوى شان و شوکت والے انسانوں کے حضور لوگ
انتہائى تعظىم سے حاضر ہوتے ہىں تو اللہ پاک
جو کہ بادشاہوں کا بھى بادشاہ ہے اس کے حضور تو بطرىق اولىٰ تعظیم و تکرىم سے حاضر
ہونا چاہىے۔
اللہ پاک ہمىں بھى خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے
کى توفىق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
۱۔سورة المؤمنون آىت۲
۲ْ۔سورة الانعام آىت۹۶
۳۔سورہ المعارج ، آىت ۲۳
۴۔سورہ المومنون آىت ۲۔۱
۵۔ابوداؤد، کتاب الصلوة باب التفات فى
الصلاة۔۱/۳۴۴ ،،آلحدىث ۹۸۹
۶۔کشف الخفا خاتمہ ىختم بہا الکتاب ۲/۳۷۶
کسی بھی عبادت کے لطف وسرورکاحصول اس وقت
ممکن ہے جب اسے دل جمعی ،خوش اسلوبی اور حضورِ قلب یعنی خشوع سے ادا کیا جائے۔نماز
بذات خود ایک عمدہ عبادت ہے لیکن اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع وخضوع کے ساتھ
ادا کی جائے کیونکہ رب کائنات نے اپنے پیارے کلام میں ایسی نماز پڑھنے والوں کی
تعریف فرمائی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
ترجمہ کنزالایمان:بیشک مراد کو پہنچے
ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔[1]
خشوع
کی تعریف:
خشوع کے معنی ہیں :" دل
کا فعل اور ظاہری اعضا(یعنی ہاتھ پاؤں )کا عمل۔"[2]
نماز میں ظاہِری و باطِنی خشوع کسے کہتے ہیں ؟
نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا
ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی
جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ
دیکھے، آسمان کی
طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں (یعنی کندھوں )
پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں (ہاں اگر ایک کَنارا دوسرے کندھے پر ڈا ل دیا
اور دوسرا لٹک رہا ہے تو حرج نہیں )، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ
ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل
لگا ہو۔ [3]
نماز
میں خشوع وخضوع کا حکم شرعی:
علامہ
بدرالدین عینی رَحْمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں : نماز میں خشوع مستحب ہے۔ [4]
یکسوئی سے نماز پڑھنے والا:
حضرت سیِّدُنا عُقْبَہ بن عامِر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے اللہ پاک کے پیارے حبیب صَلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے یہ ارشاد
فرمارہے تھے:’’جو مسلمان اچھی طرح وُضو کرے پھرظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو
رکعتیں ادا کرے تو اُس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔‘‘ [5]
غووفکروالی دورکعت نماز:
حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’غور وفکر کے
ساتھ دو رَکعت نماز پڑھنا غافل دل کے ساتھ پوری رات قیام (یعنی عبادت) کرنے
سے بہتر ہے۔‘‘[6]
جتنا خُشوع اُتنا ثواب:
حضرت سیِّدُنا عماربن یاسر رضی
اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :میں نے اللّٰہ پاک کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سناکہ
’’آدَمی نماز سے فارغ ہو کر لوٹتا ہے لیکن اُس کے لیے (نماز کا) صرف دسواں
، نواں ، آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا، پانچواں ، چوتھا، تیسرا یا نصف (یعنی آدھا
) حصَّہ ثواب لکھا جاتا ہے۔‘‘ [7]علامہ عبد الرء وف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :حدیث ِ پاک کی مراد یہ ہے کہ خشوع اورغوروفکر
وغیرہ نماز کو کامل (یعنی مکمل )بنانے والی چیزوں کے اعتبار سے نماز
کا ثواب ملتا ہے جیسا کہ باجماعت نماز میں ہوتا ہے کہ کسی کو پچیس درَجہ
ثواب ملتا ہے اور کسی کو ستائیس دَرَجہ۔ [8]
خُشوع سے نَماز پڑھنا گناہوں کا کفّارہ:
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ
سیِّدُناعثمان ابنِ عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا
وقت آئے اوروہ اچھی طرح وُضو کرکے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور دُرُست
طریقے سے رُکوع کرے تو وہ نماز اُس کے پچھلے گناہوں کا کفَّارَہ ہوجاتی ہے
جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا اِرتکاب نہ کرے اور یہ( یعنی گناہوں کی مُعافی کا
سلسلہ) ہمیشہ ہی ہوتاہے (کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے)۔[9]
اللہ پاک ہمیں بھی خشوع وخضوع والی نماز کی برکات نصیب
فرمائےاورہمارا شمارا بھی مخلصین وخاشعین میں فرمادے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
ہوں میری ٹوٹی پھوٹی نمازیں خدا قبول
نماز کا کمال نماز کا نور اور نماز کى خوبى فہم
و تدبر اور حضور قلب ىعنى خشوع پر ہے، مطلب ىہ کہ اعلىٰ درجے کى نماز وہ ہے جو
خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کى جائے۔
اللہ کرىم ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
ترجمہ: بے شک اىمان والے کامىاب ہوگئے وہ جو اپنى نمازوں مىں خشوع و خضوع کرنے
والے ہىں۔
تفسىر صراط الجنان جلد ۶، صفحہ ۴۹۴ پر ہے: اس
آىت مىں اىمان والوں کو اشارہ (ىعنى خوش خبرى) دى گئى ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک فضل سے اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے ، اور
ہمىشہ کے لىے جنت مىں داخل ہو کر ہر ناپسند چىز سے نجات پاجائىں گے۔
مزىد صفحہ ۴۹۶ پر ہے، اىمان والے خشوع و خصوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں، اس وقت
ان کے دلوں مىں اللہ تعالىٰ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن
(ىعنى ٹھہرے ہوئے پرسکون) ہوتے ہىں۔
حدىث پاک :
حضرت
سىدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں مىں نے اللہ پاک کے پیارے حبىب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
دىکھا کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے ىہ ارشاد فرمارہے تھے جو مسلمان اچھى طرح وضو کرے
پھر ظاہر و باطن کى ىکسوئى کے ساتھ دو
رکعتىں ادا کرے تو اس کے لىے جنت واجب
ہوجاتى ہے،(مسلم ص ۱۱۸، حدىث ۵۵۳)
خشوع کى تعرىف :
خشوع کے معنى ہىں دل کا فعل اور ظاہرى اعضا
(ىعنى ہاتھ پاؤں کا عمل)
( تفسىر کبىر ج ۸، ص ۹۵۸)
دل کا فعل ىعنى اللہ تعالىٰ پاک ک عظمت بىش نظر ہو، دنىا سے توجہ بٹى ہوئى
ہو اور نماز مىں دل لگا ہو، اور ظاہرى اعضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑاہو، ادھر ادھر نہ دىکھے، اپنے جسم اور کپڑوں کے
ساتھ نہ کھىلے اور کوئى عبث و بے کار کام نہ کرے ۔
(ماخوذ و تفسىر کبىر
ج ۸، ص ۲۵۹، مدارک ص ۷۸۱، صاوى ج۴،ص ۱۳۵۶)
اللہ پاک اىسى نماز کى طرف نظر نہىں فرماتاجس مىں
بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔(احىا العلوم ج ۱، ص ۴۷۰)
خشوع سے نماز پڑھنا گناہوں کا کفارہ:
ایک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے دینِ اسلام کو
پسند فرمایا -اس دین کی بنیاد پانچ ارکان
پر رکھی گئی ہے ان میں سے پہلا رکن کلمہ شہادت اور دوسرا اہم رکن نماز ہے-قرآن میں
اس کا ذکر بہت مقامات پر آیا ہے -نماز کو خشوع و
خضوع کے ساتھ ادا کرنا ہی در حقیقت نماز کو کامل طور پر ادا کرنا ہے-نماز میں خشوع
و خضوع کو اپنانے کی لئے ہمارے لئے حضور
اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بہترین نمونہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ
ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔(الحزاب
، 21)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط ا لجنان میں ہے
کہ سیرت طیبہ کے ان تمام امور میں پیروی
کا حکم ہے جو آپ کی خصوصیت نہیں ہیں-( تفسیر صراط الرجنان'جلد 7؛صفہ نمبر 586-
مکتبہ المدینہ کراچی)
حضور اکرم کی نماز :آپ کی نماز انتہا درجہ تک خشوع و خضوع پر مشتمل ہوتی -حدیث:حضور
اکرم جب نماز ادا فرماتے تو آپ کا سینہ ہانڈی کی طرح خوش مارتا -(مسند امام احمد,
جلد 5,صفحہ نمبر 501.حدیث16326)
صحابہ کرام کی نماز میں خشوع و خضوع :
اسی طرح صحابہ کرام کی زندگیوں اور عبادات کو دیکھا جائے
تو ان کی عبادات بھی خشوع و خضوع کو نمونہ
نظر آتی ہیں -امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ احیا ءالعلوم میں فرماتے ہیں :کہ بعض صحابہ کرام رکوع میں اتنے پر سکون
ہوتے کہ ان پر چڑیاں بیٹھ جاتیں گویا کہ وہ جمادات میں سے ہیں –(احیاءالعلوم جلد
1-صفحہ نمبر 228؛229-مکتبہ المدینہ)
اسلاف کی نماز :اسی طرح ہمارے اسلاف کا بھی یہی طرز عمل عمل رہا :
اعلی حضرت کی نماز :
حضرت علامہ مولانا حسین چشتی نظامی فرماتے ہیں اعلی حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جس قدر احتیاط سے نماز پڑھتے تھے آج کل یہ بات
نظر نہیں آتی ہمیشہ میری دو رکعت ان کی ایک رکعت میں ہوتی تھی اور دوسرے لوگ میری
چار رکعت میں کم سے کم چھ رکعت بلکہ آٹھ رکعت پڑھ لیا کرتے تھے (حیات اعلی حضرت
جلد 1؛صفحہ نمبر 154 مکتبہ المدینہ) آج کے دور میں اسی کی جھلک ہمیں امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس قادری دام ظلہ میں نظر آتی ہے-
خشوع کا دنیاوی فائدہ:
حضرت سیدنا یونس بن عبید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں
:دو خصلتیں ایسی ہیں اگر بندے میں وہ درست ہو جائیں تو اس کے باقی تمام معاملات
درست ہو جائیں وہ نماز اور زبان ہیں۔(حلیۃ الاولیا؛جلد 3صفحہ نمبر 22،رقم 3086)
نماز مکمل طور پر درست اسی وقت ہوتی ہے جب اس کو خشوع و خضوع کے ساتھ
ادا کیا جائے جیسا کہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہیں :نماز کا کمال ،نماز کا نور، نماز کی خوبی
،فہم و تدبر و حضور قلب (خشوع) ہے-(فتاوی رضویہ جلد6،صفحہ نمبر 205رضا فاونڈیشن)
خشوع کا اخروی فائدہ:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان
کرتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہو کر ارشاد
فرما رہے تھے -جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعتیں ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔(مسلم شریف جلد 118-حدیث553-دار
ابن حزم ببروت )
خلاصہ کلام:
خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنا ہی در حقیقت نماز کو
کامل طور پر ادا کرنا ہے یہی اخص الخاص کی نماز ہے یہی مقام ِاحسان ہے جس کے بارے
میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان تعبد اللہ کانک تراہ. یعنی احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو. اگر
یہ نہ ہو سکے تو یہ یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے. (بخاری, جلد 1,صفحہ50,دارالکتب
العلمیہ بیروت.)
اللہ تعالیٰ ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے.. آمین بجاہ النبی الامین
خشوع کے معنی ہیں دل کا فعل اور ظاہری اعضا کا عمل. (تفسیر
کبیر، جلد ٨،صفحہ ٢٥٩،مطبوعہ داراحیاءالتراث العربی بیروت)
دل کا فعل یعنی اللہ
پاک کا خوف و عظمت پیش نظر ہو دنیا سے بلکل غافل ہو
اور دل نماز میں لگا ہوا ہو. اور ظاہری اعضاء کا عمل یعنی سکون سے کھڑا رہے اور
کوئی عبث و بے کار کام نہ کرے. ( مدارك، صفحہ ٧٥١،مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت:
(مفہوماً)
نماز پنجگانہ اللہ
پاک کی وہ نعمت عظمیٰ ہے جو اس نے اپنے کرم عظیم سے خاص ہمیں عطا فرمائی ہے چاہئے
یہ تو تھا کہ ہم اس کی قدر کریں مگر ہمارے
معاشرے کا ہر دوسرا مسلمان اس سے غافل ہوتا ہے. اللہ پاک کا قرآن کریم پارہ ١٨ سورۃ المؤمنون کی آیت نمبر ١ اور ٢ میں ارشاد ہے
:-
قَدْ
اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ
هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو
اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں ۔
اس آیت کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ ایمان والوں کو خوشخبری دی
گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضلِ خاص
سے اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنّت کے حقدار ہو گئے اور ہر نا پسندیدہ چیز سے نجاتِ ابدی پا گئے.
دوسری آیت کی تشریح کچھ یوں ہے کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں
اور نماز ادا کرتے وقت ان کے دلوں میں اللہ کریم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے
ہیں. (تفسیر صراط الجنان، جلد ٦،صفحہ ٤٩٦-٤٩٤، مطبوعہ مکتبۃالمدینہ (مفہوماً)
اے عاشقان نماز! دوسری آیت کریمہ کی وضاحت میں جو ایمان
والوں کے اوصاف بیان ہوئے کہ نماز ادا کرتے وقت ان کے دلوں میں اللہ کریم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے
تو یہ اوصاف تب ہی پیدا ہو سکتے ہیں جب نماز ادا کرتے وقت یہ گمان کیا جائے کہ
بندہ اللہ کو دیکھ
رہا ہے اگر یہ نہ ہو سکے تو یہ یقین ہو کہ اللہ
بندے کو دیکھ رہا ہے. جیسا کہ احیاء العلوم میں ہے کہ اللہ پاک ایسی نماز کی طرف
نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے. (احیاء العلوم
(اردو) جلد ١،صفحہ ٤٧٠، مطبوعہ مکتبۃالمدینہ)
اے عاشقان نماز! عبادت کرنے والا اس طرح عبادت
کرے گویا وہ اللہ ربُّ العزّت کو دیکھ رہا ہے. یہ اخصُّ
الخواص یعنی خاصوں میں سے مخصوص بندوں کا مقام ہے جن کو لوگ نماز کی حالت میں
اِن کے خشوع و خضوع میں ہونے کی بنا پر دیکھتے تو یہ سمجھتے یہ گویا کوئی ستون ہیں
بعد میں ان کو بتایا جاتا کہ وہ کوئی ستون نہیں بلکہ حضرت سیدنا ربیع بِن خُثيم رحمۃ اللّٰه تعالٰی علیہ ہیں انہوں نے اندھیرے کی وجہ سے حضرت کو ستون
سمجھا. (رسالہ قُشیریہ،صفحہ ٤١٦،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
اے عاشقان نماز! نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نماز میں آنکھ بند رکھنا مکروہ(تنزیہی) ہے،
مگر جب کھلی رہنے میں خشوع نہ ہوتا ہو تو بند کرنے میں حرج نہیں، بلکہ بہتر ہے.
(بہار شریعت، جلد ١،صفحہ ٦٣٤،مطبوعہ مکتبۃالمدینہ)
خادم نبی صلی اللّٰه تعالٰی علیہ والہ وسلم حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللّٰه تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان و عبرت نشان ہے : جو شخص
نمازوں کو ان کے وقت میں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرے تو اس کی نماز سفید اور روشن
ہو کر یہ کہتی ہوئی نکلتی ہے : اللّٰه پاک
تیری حفاظت فرمائے جس طرح تو نے میری حفاظت کی، اور جو شخص نماز بے وقت ادا کرے
اور اس کے خشوع و خضوع کا لحاظ نہ کرے تو وہ نماز سیاہ و تاریک ہو کر یہ کہتی ہوئی
نکلتی ہے اللّٰه پاک تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا،
یہاں تک کہ اللّٰه پاک جھاں چاہتا ہے وہ نماز اس جگہ پہنچ جاتی ہے
پہر وہ بوسیدہ کپڑے کی طرح لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے. (معجم
اوسط، جلد ٢،صفحہ ٢٢٧،حدیث ٣٠٩٥،مطبوعہ دارالفکر بیروت)
اے عاشقان نماز!
خشوع کا حاصل ہونا اللّٰه ربُّ العزّت کی
نہایت عظیم نعمت ہے. ہمیں بھی خشوع و خضوع حاصل کرنے کے لیے خوب کوشش کرنی چاہیے
اور اس کے لیے گِڑگِڑا کر دعائیں مانگیں چاہئیں جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللّٰه تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم یوں دعا مانگا کرتے :
اَللّٰھُمَّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ
صَلَاةٍ لَّا تَنْفَعُ: اے اللہ میں تیری
پناہ لیتا ہوں اس نماز سے جو نفع نہ دے. (ابو داؤد، جلد٢، صفحہ ١٣١، حدیث
١٥٤٩،مطبوعہ داراحیاءالتراث العربی بیروت).
اللّٰه پاک ہمیں خشوع و خضوع کی اہمیت کو سمجھنے اور
خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین!
خشوع اے خدا! تو نمازوں میں دیدے
اِجابت
کرم سے دعاؤں میں دیدے.
حکاىت:
حضرت
مسلم بن ىسار رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ اىک بار نماز مىں مشغول تھے کہ قرىب آگ بھڑک اٹھى لىکن آپ کو احساس تک نہ ہوا حتى کہ آگ بجھادى گئى۔(اللہ والوں
کى باتىں، ج۲، ص ۴۴۷)
اس حکاىت سے پتا چلا کہ ہمارے بزرگانِ دىن رحمہم اللہ المبین اس قدر خشوع کے ساتھ نماز پڑھتے کہ آس پاس کى
خبر ہى نہ رہتى۔
خشوع کسے کہتے ہىں؟ خشوع کى کىا اہمىت ہے نماز
مىں خشوع کے کىا فوائد و برکات ہىں؟آئىے جانتے ہىں۔
خشوع کى تعرىف :
لغت مىں خشوع کے معنى ہىں، انکسارى کرنا،
ڈرنا۔(القاموس)
جب کہ امىر اہلسنت اپنى ماىہ ناز تصنىف مىں خشوع
کى تعرىف اس طرح کرتے ہىں کہ دل کا فعل اور ظاہرى اعضا کا عمل۔
دل کا فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو، دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو
اورنماز مىں دل لگا ہوا ہو اور ظاہرى ا عضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑا ر ہے ، ادھر
ادھر نہ دىکھے، اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھىلے اور کوئى عبث و بے کار کام نہ
کرے۔(فىضانِ نماز ص ۲۸۲)
اللہ عزوجل پارہ ۱۸ سورہ ا لمومنون اکى آىت نمبر ۱
اور دو مىں ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز
مىں گڑ گڑاتے ہىں۔
تفسیر صراط الجنان مىں ہےکہ اىمان والے خشوع و
خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں، اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن ہوتے ہىں۔
(صراط الجنان،ج ۶، ص۴۹۶)
سب سے بڑا انعام :
نماز مىں خشوع کا سب سے بڑا انعام ىہ ہے کہ رب
کرىم نے نماز مىں ڈرنے والے مؤمنىن کو مراد کو پہنچنے والے ارشاد فرماىا۔
حدىث پاک :
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ کرتے ہىں، مىں نے اللہ پاک کے پىارے حبىب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
دىکھا کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے ىہ ارشاد
فرمارہے ہىں، جو مسلمان اچھى طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کى ىکسوئى کے ساتھ دو ر
کعتىں ادا کر ے۔
تو اس کے لىے جنت واجب ہوجاتى ہے؟
قارئىن کرام ! ہم نماز مىں خشوع کى اہمىت کا
اندازہ اس مثال کے ذرىعے بھى لگاتے ہىں کہ اگر ہمىں کوئى اپنے گھر ضرورى مشورے کے
لىے ىا وىسے ہى بلائے اور ہم چلے تو جائىں
مگر جب وہ ہم سے بات کرے تو ہم اس کى بات پر توجہ کے بجائے اکتاہٹ کا اظہار کرىں
اور اىسا ردعمل کرىں جس سے وہ محسوس کرے کہ ہمارے نزدىک اس کى باتوں اور وقت کى کوئى اہمىت نہىں ہے، تو کىا خىال ہے آپ
کا ، آئندہ کبھى وہ ہم سے وقت لے گا، وقت
لىنا تو درکنار بات تک کرنا پسند نہىں کرے گا۔
محترم قارئىن ! ىہى معاملہ ہمارى نمازوں کا ہے، اگر ظاہرى جسم
کے ساتھ رب کے حضور حاضر ہو بھى جاتے ہىں تو ہمارا باطن (دل) دنىاوى آلائشوں سے
بھرپور ہوتا ہے، گھر بار کى فکر، کام کى فکر اور مختلف قسم کى پرىشانىوں مىں ہمارا دل لگا ہوتا ہے۔
ىاد رکھئے! اللہ رب العزت ہمارى دل کى حالت کو جانتا ہے اور ہمارے دلوں
کے حالات و التفات کو جاننے کے باوجود ہمىں اپنے در کى حاضرى سے محروم نہىں فرماتا
ىہ اس کا کرم اور فضل ہے۔
امام غزالى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ خشوع کے
حوالے سے لکھتے ہىں، نماز ذکرو قرات اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مناجات و کلام کرنے کا نام ہے اور ىہ حضور قلب (ىعنى خشوع) کے بغىر حاصل
نہىں ہوسکتا۔
(لباب الاحىا ص ۶۷،مکتبہ المدىنہ مطبوعہ)
اے عاشقانِ رسول، نماز مىں خشوع و خضوع کے کثىر
دنىاوى فائدے بھى ہىں جىسا کہ راہِ علم مىں ہےکہ نماز کو خشوع و خصوع کے ساتھ ادا
کرنا کرنا اور تحصىل علم مىں لگے ر ہنا فکر و غم کو دور کرتا ہے۔(راہِ علم، ص ۹۲)
روزى مىں برکت کا مضبوط ترىن ذرىعہ ىہ ہے کہ
انسان نماز کو خشوع و خضوع تعدىل ارکان کا لحاظ کرتے ہوئے اور تمام واجبات اور سنن
و آداب کى پورى طرح رعاىت کرتے ہوئے ادا کرے۔(راہ علم ص ۹۲)
امىر اہلسنت، اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے
فرمان کا خلاصہ بىان فرماتے ہوئے لکھتے ہىں، اعلى درجہ کى نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کى جائے۔(فىضانِ نماز ص ۲۸۲)
نما ز مىں خشوع خضوع پىدا کرنے اور اس کى اہمىت کو اجاگر کرنے کے لىے امىر اہلسنت کى تصنىف لطىف
فىضانِ نماز کے حصہ خشوع و خضوع سے نماز
پڑھنے کے فضائل کا مطالعہ بے حد مفىد ہے۔
رب کرىم ہمىں نمازوں مىں خشوع و خصوع عطا
فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
خشوع اے خدا تو نمازوں مىں دے دے
اجابت کرم سے دعاوں مىں دے دے
نماز ِ پنجگانہ رب عَزَّوَجَلَّ کى وہ عظىم نعمت
ہے کہ جو اس نے اپنے کرم سے ہمىں عطا فرمائی، ہم سے پہلے کسى اور کو نہ ملى، ہمارى
کسى قدر خوش نصىبى کہ رب عَزَّوَجَلَّ نے ہم پر نماز فرض فرمائى اور اس کے سبب بہت
زىادہ ثواب عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم پر ىہ احسان فرماىا کہ اس کى برکت سے ہمارے گناہ معاف کردىتا ہے بشرطىکہ وہ
خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کى جائے، کىونکہ نماز کا نور نماز کا کمال حضور قلب پر
ہے، ىعنى اعلىٰ درجے کى نماز وہى ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کى جائے۔
خشوع و خضوع کى اہمىت قرآن کى روشنى مىں:
رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ
خٰشِعُوْنَۙ(۲) (پ:۱۸سورہ مؤمنون آىت:۲،۱) تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز مىں
گڑگڑاتے ہىں۔
اس آىتِ مبارکہ مىں اىمان والوں کے چند اوصاف
بىان ہوئے ہیں جن مىں پہلا وصف ہے کہ اىمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا
کرتے ہىں اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ کا
خوف ہوتا اور ان کے اعضا ساکن ہوتے ہىں۔(مدارک ، المومنون ص ۷۵۱)
خشوع کى تعرىف :
خشوع کا معنى ہے، دل کا فعل اور ظاہرى اعضا کا
عمل
دل کا فعل ىعنى اللہ عزوجل کى عظمت پىش نظر ہو، دنىا کى جانب توجہ مبذول نہ
ہو اور نماز مىں دل لگا ہو، جب کہ ظاہرى اعضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑا رہنا، نہ
ادھر ادھر دىکھے، نہ کپڑوں اور جسم سے کھىلے اور نہ کوئى بے کار کام کرے۔(تفسىر کبىرج ۸)
خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کى فضىلت حدىث
کى روشنى مىں:
رسول کرىم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرماىا، جس مسلمان شخص پر فرض نماز کاوقت آجائے اور وہ ا س نماز کا وضو اچھى طرح
کرے پھر نماز مىں اچھى طرح خشوع اور رکوع کرے تو وہ نماز اس کے سابقہ گناہوں کا
کفارہ ہوجاتى ہے جب تک کہ وہ کوئى کبىرہ گناہ نہ کرلے اور ىہ سلسلہ ہمىشہ جارى رہے
گا۔(مسلم کتاب الطہارة)
جنت کى بشارت:
سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرماىا، جو اچھى طرح وضو کرلے پھر ظاہر و باطن کى ىکسوئى کے ساتھ دو رکعتىں ادا
کرلے تو اس کے لىے جنت واجب ہوجائے گى۔
سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى نماز کا انداز :
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز ادا فرماتے تو آپ کا سىنہ مبارکہ ہانڈى کى
طرح جوش مارتا۔
صحابۂ کرام علیہم الرضوان کى نماز کا
انداز:
حضرت ابوبکر صدىق رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز
مىں اس طرح ہوتے گوىا (گڑى ہوئى) مىخ کھونٹى ہو۔
بعض صحابہ کرا م علیہمُ الرِّضوان رکوع
مىں اىسى پرسکون ہوتے کہ ان پر چڑىا بىٹھ جاتى گوىا کہ وہ جمادات (بے جان چىزوں)
مىں سے ہىں۔(احىا العلوم ج ۱)
نماز مىں خشوع خصوع کىسے حاصل ہو:
نماز مىں خشوع خضوع حاصل کرنے کے بہت سے طرىقے
ہىں اىک طرىقہ ملاحظہ کىجئے:
کہ نماز مىں پڑھى جانے والى سورتوں اور اذکار،
تسبىحات وغىرہ کے معانى معلوم ہوں اور ان کے ترجمے ىاد کرلىے جائىں تاکہ اس بات سے
آگاہى ہوں کہ اپنے رب کے حضور کىا عرض کررہے ہىں، اِنْ
شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مکمل طورپر خشوع
خضوع سے نمازا ادا کرنے کى سعادت نصىب ہوگى۔
خشوع و خضوع سے نماز نہ پڑھنے کا نقصان :
اللہ پاک اىسى نماز کى طرف نظر نہىں فرماتا جس مىں
بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرلے۔
حاصل الکلام یہ ہے کہ کاش کہ خشوع و خصوع کے
ساتھ نماز پڑھنا نصىب ہوجائے ، کہ ہمارى نمازىں ان کے پسندىدہ بندوں کى نمازوں کا
نمونہ بن جائىں،
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمىں
خشوع و خضوع کے ساتھ اخلاص کے ساتھ نماز وں کى ادائىگى کى سعادت عطا فرمائے۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نمازوں مىں اىسا گماىا الہى
نہ پاؤں مىں اپنا پتاىا الہى
نمازوں مىں عطا کر خشوع ىا الہى
عبادت مىں کردے مگن ىا الہى