ایک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے دینِ اسلام کو پسند فرمایا -اس دین کی بنیاد  پانچ ارکان پر رکھی گئی ہے ان میں سے پہلا رکن کلمہ شہادت اور دوسرا اہم رکن نماز ہے-قرآن میں اس کا ذکر بہت مقامات پر آیا ہے -نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا ہی در حقیقت نماز کو کامل طور پر ادا کرنا ہے-نماز میں خشوع و خضوع کو اپنانے کی لئے ہمارے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بہترین نمونہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔(الحزاب ، 21)

اس آیت کے تحت تفسیر صراط ا لجنان میں ہے کہ سیرت طیبہ کے ان تمام امور میں پیروی کا حکم ہے جو آپ کی خصوصیت نہیں ہیں-( تفسیر صراط الرجنان'جلد 7؛صفہ نمبر 586- مکتبہ المدینہ کراچی)

حضور اکرم کی نماز :آپ کی نماز انتہا درجہ تک خشوع و خضوع پر مشتمل ہوتی -حدیث:حضور اکرم جب نماز ادا فرماتے تو آپ کا سینہ ہانڈی کی طرح خوش مارتا -(مسند امام احمد, جلد 5,صفحہ نمبر 501.حدیث16326)

صحابہ کرام کی نماز میں خشوع و خضوع :

اسی طرح صحابہ کرام کی زندگیوں اور عبادات کو دیکھا جائے تو ان کی عبادات بھی خشوع و خضوع کو نمونہ نظر آتی ہیں -امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ احیا ءالعلوم میں فرماتے ہیں :کہ بعض صحابہ کرام رکوع میں اتنے پر سکون ہوتے کہ ان پر چڑیاں بیٹھ جاتیں گویا کہ وہ جمادات میں سے ہیں –(احیاءالعلوم جلد 1-صفحہ نمبر 228؛229-مکتبہ المدینہ)

اسلاف کی نماز :اسی طرح ہمارے اسلاف کا بھی یہی طرز عمل عمل رہا :

اعلی حضرت کی نماز :

حضرت علامہ مولانا حسین چشتی نظامی فرماتے ہیں اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جس قدر احتیاط سے نماز پڑھتے تھے آج کل یہ بات نظر نہیں آتی ہمیشہ میری دو رکعت ان کی ایک رکعت میں ہوتی تھی اور دوسرے لوگ میری چار رکعت میں کم سے کم چھ رکعت بلکہ آٹھ رکعت پڑھ لیا کرتے تھے (حیات اعلی حضرت جلد 1؛صفحہ نمبر 154 مکتبہ المدینہ) آج کے دور میں اسی کی جھلک ہمیں امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس قادری دام ظلہ میں نظر آتی ہے-

خشوع کا دنیاوی فائدہ:

حضرت سیدنا یونس بن عبید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں :دو خصلتیں ایسی ہیں اگر بندے میں وہ درست ہو جائیں تو اس کے باقی تمام معاملات درست ہو جائیں وہ نماز اور زبان ہیں۔(حلیۃ الاولیا؛جلد 3صفحہ نمبر 22،رقم 3086)

نماز مکمل طور پر درست اسی وقت ہوتی ہے جب اس کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے جیسا کہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہیں :نماز کا کمال ،نماز کا نور، نماز کی خوبی ،فہم و تدبر و حضور قلب (خشوع) ہے-(فتاوی رضویہ جلد6،صفحہ نمبر 205رضا فاونڈیشن)

خشوع کا اخروی فائدہ:

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہو کر ارشاد فرما رہے تھے -جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعتیں ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔(مسلم شریف جلد 118-حدیث553-دار ابن حزم ببروت )

خلاصہ کلام:

خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنا ہی در حقیقت نماز کو کامل طور پر ادا کرنا ہے یہی اخص الخاص کی نماز ہے یہی مقام ِاحسان ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان تعبد اللہ کانک تراہ. یعنی احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو. اگر یہ نہ ہو سکے تو یہ یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے. (بخاری, جلد 1,صفحہ50,دارالکتب العلمیہ بیروت.)

اللہ تعالیٰ ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.. آمین بجاہ النبی الامین