دین اسلام ایک ضابطہ حیات ہے۔ محمد مصطفی ﷺ دینِ اسلام کے ذریعے ہماری مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔ اگر ہم محمد مصطفی کے بتائے ہوئے راستے اور آپ کی سیرت پر چلتے ہیں تو آخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ اب یہ تعین کرنا ہوگا کہ کونسے کام کو اپنا کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور کونسے کام کا ارتکاب کرنے سے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے گناہ عام ہوتے جا رہے ہیں آئیے بے مروتی کے بارے میں چند معلومات ملاحظہ فرمائیں۔

تعریف: بے مروتی کا مطلب ہے کہ کسی کے ناراض ہونے کی پرواہ نہ کرنا۔انسانی معاشرت کا مزاج ہی ایسا ہے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے بعض ایسے مطالبات بھی رکھتے ہیں جنہیں پورا کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے نہ ممنوع۔ اس طرح کے مطالبات طاقت رکھنے کے باوجود پورے نہ کرنا بے مروتی ہے۔

بے مروتی کا اظہار چونکہ متعین صورتوں میں نہیں ہوتا، اس لیے ہم نمونے کے طور پر اس کے چند مظاہر کا ذکر کرتے ہیں:

مراتب کا پاس نہ کرنا: بعض مراتب معاشرتی سطح پر اہمیت کے حامل گردانے جاتے ہیں اور ان کی یہ اہمیت صرف معاشرت میں پائی جانے والی صورت کی حد تک ہی نہیں ہوتی بلکہ خود شریعت میں بھی یہ قابل قبول ہوتی ہے۔ اس معاملے میں معاشرتی اقدارکو نظر انداز کرنا بے مروتی ہے مثلاً استاد کا ایک مرتبہ ہے اور اس کی فضیلت خود شریعت سے بھی ثابت ہے تاہم استاد کے ادب کی تقریباً تمام صورتیں معاشرے کے مجموعی مزاج سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر وہ صورتیں شریعت کی مخالفت پر مبنی نہ ہوں تو ان کی پابندی کرنا ایک صحت مند نفسیات کے لیے ضروری ہے اور یہی مروت ہے۔

سچ کو خوامخواہ درشت اور کڑوا بنا کر پیش کرنا: اچھے اچھے دین دار لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سچائی کو بدتمیزی اور دل آزاری کی حد تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ بے مروتی کی وہ قسم ہے جو شرعاً بھی مذموم ہے۔

اپنے خود ساختہ اصولوں کی ایسی پاسداری کرنا کہ کسی مستحق کی مدد یا کسی دوست کی مدارت میں خلل پڑ جائے۔ ایسے آدمی سے عموماً اس طرح کی باتیں سرزد ہوتی ہیں:میں تین بجے کے بعد کسی سے نہیں ملتا خواہ کچھ ہوجائے۔چار بجے میری یہ مصروفیت ہوتی ہے جسے میں کسی بھی قیمت پر ترک نہیں کرتا وغیرہ۔ اس طرح کی ضابطہ پرستی بھی عین بے مروتی ہے۔ کسی سے ذہنی یا طبعی مناسبت نہ ہو تو اس پر اپنی بیزاری ظاہر کردینا اور یہ سمجھنا کہ اس طرح میں نے ایک تومعاملات کی صفائی کا حق ادا کردیا اور دوسرے اپنے وقت کے ضیاع کا دروازہ بند کردیا۔یہ بے مروتی تو ہے ہی انسانیت میں کمی کی بھی دلیل ہے۔

لوگ کوئی کام کہیں تو صاف انکار کردینا۔ دوستوں یا تعلق والوں سے اگر کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس پر غضبناک ہوجانا یا ترک تعلق کا فیصلہ کرلینا۔مختصر یہ کہ بے مروتی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کا مادہ کم ہوجاتا ہے۔ یہ ایسا ضرر ہے جس کی موجودگی میں آدمی اچھا بندہ بننے کی صلاحیت سے محروم ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ بامروتی مداہنت اور دکھاوا نہیں ہے۔ انسان کی زندگی میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں جن میں وہ سختی اور مضبوطی اختیار کرنے کا مکلف ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر معاشرتی معانی میں مروت کا مظاہرہ دراصل مروت نہیں۔ صاحب مروت آدمی کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ بلاوجہ دل آزاری سے بچتا ہے ا ور اپنا حرج کرکے دوسروں کے کام آتا ہے یعنی خوش خلق اور ایثار والا ہوتا ہے۔بے مروتی کا واحد علاج خدمت خلق ہے۔ لوگوں کے کاموں میں مستعدی کے ساتھ شریک رہنے سے مروت کا وصف اپنے حقیقی معنوں میں پیدا ہوجاتا ہے۔

ایک مسلمان کو کس حد تک بامروت ہوناچاہیے؟ اس کا نمونہ ہمیں اسوۂ حسنہ سے ملتا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ لوگ آپﷺ سے ملنے آتے یا دعوت پر آتے تو بعد میں دیر تک بیٹھے رہتے اس سے آپﷺ کو تکلیف ہوتی لیکن آپﷺ مروت کے مارے خاموش رہتے اور برداشت کرتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بارے میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پیغمبر تو مارے مروت کے خاموش رہتے ہیں تمہیں خود اس کا خیال رکھناچاہیے کہ نبی کی ایذا کا سبب نہ بنو۔ (پ 22، الاحزاب:53)

اللہ پاک ہمیں بے مروتی جیسے مرض سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین