اللہ تعالیٰ نے انسان کو اولاد کی نعمت سے نوازا ہے اور اسلام میں اولاد کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن و حدیث میں اولاد کی نعمت کے بارے میں بہت سارے حوالے ملتے ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةًۙ-قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ﱂاِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۵) (پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ا س کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اُسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں ہے یہاں تک کہ جب اپنے زور کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوا عرض کی اے میرے رب میرے دل میں ڈال کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی اور میں وہ کام کروں جو تجھے پسند آئے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح(نیکی) رکھ میں تیری طرف رجوع لایا اور میں مسلمان ہوں۔

حدیث میں بھی اولاد کی نعمت کے بارے میں بہت سارے حوالے ملتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑھ کر نعمت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے افضل یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نیک اولاد عطا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے اولاد کی نعمت مانگنے کے لیے بہت سارے دعائیں بھی ہیں۔ یہ دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے: رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴) (پ 19، الفرقان:74) ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم کو اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ یہ دعا قرآن مجید کی سورۃ الفرقان کی آیت 74 ہے۔

اولاد بگڑنے کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں، جن میں سے کچھ اہم اسباب یہ ہیں:

1۔ والدین کی ناکافی توجہ: جب والدین اپنے بچوں کو مناسب توجہ اور وقت نہیں دیتے تو بچے بغاوت یا نافرمانی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

2۔ غلط رول ماڈلز: اگر والدین یا گھر کے قریب کے لوگ برے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بچے ان سے متاثر ہو کر اسی طرح کے رویے اپنا سکتے ہیں۔

3۔ کمزور تربیتی میتھڈز: اگر والدین بچوں کو مناسب تربیت اور حدود نہیں سکھاتے تو بچے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے لگتے ہیں۔

4۔ سماجی و ماحولیاتی اثرات: سماجی و ماحولیاتی عوامل بھی بچوں کے رویے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، جیسے کہ بدعتی دوست یا ٹیلی ویژن پر بدامنی والی تصویریں۔

5۔ تعلیم کی کمی: اگر بچوں کو مناسب تعلیم اور رہنمائی نہیں دی جائے تو وہ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہ سکتے ہیں۔

6۔ والدین کے درمیان تعطل: گھر میں والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے بچوں کے رویے پر منفی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

7۔ بچوں کی ضروریات کی ناکامی: اگر بچوں کی بنیادی ضروریات جیسے کہ محبت، حفاظت اور سکون کی کمی ہو تو وہ بدتمیزی اور بغاوت کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

یہ اسباب اکثر باہمی تعامل کے ساتھ کام کرتے ہیں، اور ہر بچے کی مختلف ضروریات اور حالات ہوتے ہیں۔

اولاد کی اچھی تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے، کیونکہ بچے کی شخصیت اور کردار سازی میں والدین کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے، موجودہ دور میں والدین کی لاپروائی، دینی تعلیمات سے دوری، اور دنیاوی مصروفیات نے بچوں کی تربیت پر منفی اثر ڈالا ہے۔

ذیل میں ان اسباب کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:

1۔ دینی تعلیمات سے غفلت: آج کل والدین اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم دلانے پر توجہ دیتے ہیں لیکن دینی تعلیمات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی تعلیم اور اسلامی اخلاقیات سکھانے کی بجائے، بچوں کو دنیاوی کامیابی کی دوڑ میں لگا دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بچے اسلامی اقدار سے دور ہو جاتے ہیں اور ان کا رویہ بگڑنے لگتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیں اور انہیں نیک اعمال کی طرف راغب کریں۔

2۔ والدین کی لاپرواہی اور بےجا محبت: کئی والدین بچوں کے ہر غلط کام کو نظرانداز کرتے ہیں اور ان پر سختی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بےجا محبت بچوں میں ضد، خودسری، اور نافرمانی پیدا کرتی ہے۔ بچوں کو حدود و قیود سکھانے کے بجائے انہیں ہر بات کی اجازت دینا ان کے بگڑنے کا سبب بنتا ہے۔ محبت کے ساتھ نظم و ضبط بھی ضروری ہے، تاکہ بچے صحیح اور غلط میں فرق کرنا سیکھیں۔

3۔ بچوں پر وقت نہ دینا: مصروف زندگی کے باعث والدین بچوں کے ساتھ وقت نہیں گزارتے، جس سے بچے توجہ کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین کی غیر موجودگی میں بچے انٹرنیٹ، موبائل فون، اور دیگر تفریحات میں مصروف ہو جاتے ہیں، جن کا غلط استعمال ان کے کردار کو متاثر کرتا ہے۔ والدین بچوں کے لیے وقت نکالیں، ان کے سوالات کے جوابات دیں، اور ان کے دوستوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔

4۔ غیر اسلامی ماحول: گھروں میں اسلامی ماحول کی کمی اور ٹی وی، موبائل، اور انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی مواد بچوں کے بگاڑ کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ جب بچوں کو نعتیں سننے یا دینی کتب پڑھنے کی بجائے فلمیں اور گانے سننے دیے جائیں، تو ان کا ذہن منفی رجحانات کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو غیر اسلامی ماحول سے دور رکھیں اور انہیں دینی اجتماعات میں شرکت کروائیں۔

5۔ والدین کا کردار اور عمل: والدین کی زندگی بچوں کے لیے عملی مثال ہوتی ہے۔ اگر والدین خود نماز، روزہ، اور دیگر دینی فرائض سے غافل ہوں، تو بچے بھی دینی احکام کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ والدین اپنے عمل سے بچوں کو دینی راستے پر چلنے کی ترغیب دیں۔

6۔ دوستوں کی صحبت: بچے کا بگڑنا اکثر اس کے دوستوں کی صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ برے دوست بچوں کو جھوٹ، دھوکہ دہی، اور دیگر غلط عادتوں کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ والدین بچوں کے دوستوں پر نظر رکھیں اور انہیں نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کریں۔

7۔ دعاؤں کی کمی: بچوں کی اصلاح کے لیے دعا کا کردار بہت اہم ہے، لیکن اکثر والدین بچوں کے لیے دعا کرنے سے غافل رہتے ہیں۔ والدین کو روزانہ بچوں کے لیے ہدایت اور نیک اعمال کی دعا کرنی چاہیے۔

8۔ عزت اور اعتماد کی کمی: والدین کا بچوں کو نظرانداز کرنا یا ان پر بلاوجہ سختی کرنا ان میں اعتماد کی کمی پیدا کر دیتا ہے۔ جب بچے کو عزت نہیں ملتی، تو وہ باغی رویہ اختیار کر لیتا ہے۔

اولاد کی تربیت ایک مقدس ذمہ داری ہے، جسے نبھانے کے لیے والدین کو دین اسلام کی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ دینی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں اور اپنی اولاد کو بھی ان پر عمل کرنے کی ترغیب دیں۔ بچوں کے لیے دعائیں، وقت دینا، اور انہیں اسلامی ماحول فراہم کرنا ان کے بگڑنے سے بچانے کے بنیادی اصول ہیں۔

اللہ پاک ہر اولاد کو نیک، صالح اور فرمانبردار بنائے، انہیں برے ماحول اور فتنے سے محفوظ رکھے، اور والدین کو اولاد کی بہترین دینی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔


اولاد بگڑنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، جن میں سے بعض اہم یہ ہیں:

والدین کی بے توجہی: اگر والدین اپنے بچوں کی تربیت، نگرانی اور ضروریات پر مناسب توجہ نہ دیں، تو بچے بگڑ سکتے ہیں۔ والدین کا بچوں کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی باتوں کو سننا بہت ضروری ہے۔

غصہ اور تشدد: اگر والدین یا دیگر بزرگ بچوں پر تشدد یا غصہ کرتے ہیں، تو اس سے بچے نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور ان میں بغاوت اور بدمعاشی کے رویے پیدا ہو سکتے ہیں۔

برا ماحول: اگر بچے ایسے ماحول میں پلتے ہیں جہاں نشہ، جوا یا اخلاقی فساد ہو، تو ان پر برا اثر پڑ سکتا ہے اور وہ ان برے عادات کو اپنا سکتے ہیں۔

مثبت رول ماڈلز کی کمی: اگر بچوں کے اردگرد مثبت اور اخلاقی رول ماڈلز نہیں ہیں، تو وہ اپنی زندگی کی سمت اور اقدار کو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔

تعلیمی ناکامی یا عدم دلچسپی: اگر بچے تعلیم میں پیچھے رہ جائیں یا ان کی حوصلہ افزائی نہ ہو، تو یہ انہیں مایوس کر سکتا ہے اور وہ منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کا غیر مناسب استعمال: انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری اور بے قابو استعمال بچوں میں منفی رویے پیدا کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر انہیں مناسب رہنمائی نہ ملے۔

خاندانی مسائل: والدین کے درمیان جھگڑے یا طلاق جیسے مسائل بچوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور ان کی ذہنی حالت کو متاثر کرتے ہیں، جس سے وہ بگڑنے لگتے ہیں۔

کمزوری یا ذہنی دباؤ: بچوں کی ذہنی حالت یا ان کے ذاتی مسائل بھی ان کے بگڑنے کا سبب بن سکتے ہیں، جیسے کہ احساس کمتری، کم خود اعتمادی، یا دلی مشکلات۔

دوستیوں کا منفی اثر: بچوں کی دوستیاں ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ اگر بچوں کے دوست منفی رویوں والے ہوں، جیسے کہ شرارت یا جرم میں ملوث ہوں، تو بچے بھی ان کی نقل کر سکتے ہیں۔

مادیت پرستی: جب والدین اپنے بچوں کو صرف مادی چیزوں کی اہمیت سکھاتے ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت پر دھیان نہیں دیتے، تو بچوں میں صرف دنیاوی چیزوں کی طلب بڑھ جاتی ہے، جو کہ ان کے بگڑنے کا سبب بنتی ہے۔

نا مناسب وقت گزارنا: اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ معیار وقت نہیں گزارتے، جیسے کہ مشترکہ سرگرمیاں، بات چیت یا کھیل، تو بچے خود کو اکیلا اور نظرانداز محسوس کرتے ہیں، جس کا اثر ان کی شخصیت پر پڑتا ہے۔

خود اعتمادی کی کمی: جب بچے خود کو کمزور یا ناکام سمجھتے ہیں، تو وہ بگڑنے لگتے ہیں۔ والدین کا کردار ان کی خود اعتمادی بڑھانے میں بہت اہم ہوتا ہے۔

خاندانی مالی مشکلات: معاشی پریشانیوں کا بچوں پر اثر پڑتا ہے۔ اگر خاندان مالی مشکلات کا شکار ہو اور بچوں کو احساس ہو کہ ان کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں، تو وہ بگڑنے لگ سکتے ہیں۔

یہ اسباب مجموعی طور پر بچوں کی تربیت اور ماحول کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں، اور ان پر قابو پانے کے لیے والدین کا متوازن اور حساس رویہ ضروری ہوتا ہے۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولادکے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں مگریاد رکھئے اولاد کی تربیت صرف ماں یامحض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے:  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔ جب نبی اکرم، نور مجسّم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے تلاوت کی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ! ہم اپنے اہل وعیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ سرکار مدینہ، فیض گنجینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:، تم اپنے اہل وعیال کو ان چیزوں کاحکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکوجو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ (در منثور، 8/225)

حضور پاک ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولادکی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)

یقینا وہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک وصالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد کو نیک یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ایک مرتبہ ایک مجرم کو تختہ دار پر لٹکایا جانے والا تھا۔جب اس سے اسکی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس کی یہ خواہش پوری کردی گئی۔جب ماں اس کے سامنے آئی تو وہ اپنی ماں کے قریب گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کان نوچ ڈالا۔ وہاں پر موجود لوگوں نے اسے سرزنش کی کہ نامعقول ابھی جبکہ تو پھانسی کی سزا پانے والا ہے تونے یہ کیا حرکت کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے پھانسی کے اس تختے تک پہنچانے والی یہی میری ماں ہے کیونکہ میں بچپن میں کسی کے کچھ پیسے چرا کر لایا تھا تو اس نے مجھے ڈانٹنے کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی اوریوں میں جرائم کی دنیا میں آگے بڑھتا چلاگیا اور انجام کار آج مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔

بچوں کی تربیت کب شروع کی جائے؟ والدین کی ایک تعدادہے جو اس انتظار میں رہتی ہے کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے جو چاہے کرے، تھوڑا بڑا ہوجائے تو اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گے۔ ایسے والدین کو چاہئیے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھر پور توجہ دیں کیونکہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار عمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ جو کچھ بچہ اپنے بچپن میں سیکھتا ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے کیونکہ بچے کا دماغ مثل موم ہوتا ہے اسے جس سانچے میں ڈھالنا چاہیں ڈھالا جا سکتا ہے، بچے کی یاداشت ایک خالی تختی کی مانند ہوتی ہے اس پر جو لکھا جائے گا ساری عمر کے لئے محفوظ ہوجائے گا۔

آج کل کے دور میں سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بھی اولاد بگڑنے کی بہت بڑی وجہ ہے اور یہ بیماری پوری دنیا میں عام ہوتی جارہی ہے اور بچے اسکے ذریعے بہت سے گناہوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال انہیں اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے یہاں تک اس میں پائے جانے والی بے حیائی اور کفریات ہمارے ایمان کے سلب ہونے کا ذریعہ بن جاتے ہیں معاذاللہ۔

اگر آج کل کے معاشرے میں غور کیا جائے تو ان حالات میں بچوں کو موبائل دینا اور ان کی طرف سے لاپرواہی اختیار کرنا معاشرے کے بگاڑ اور ایمان کی تباہی کا سبب ہے۔ اگر ہم بچوں کی پرورش اچھے و فہم انداز میں کریں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کریں تو یہی اولاد والدین کی بخشش کا وسیلہ بن جائیں۔

نیک اولاد کی خواہش تو ہر والدین کرتے ہیں لیکن ان کو نیک بنانے والے اعمال نہیں کرواتے۔ بچپن میں بچہ بچہ کہہ کر اسکی طرف سے لاپرواہی کرتے ہیں اور جب بچہ ہاتھ سے نکل جائے تو پھر اسکو سمجھاتے ہیں حالانکہ اب تو سمجھانے کا دور ختم ہوچکا اب وہ وہی کرے گا جسکی اسے تربیت دی گئی اچھی تربیت پر اچھے کام اور بری تربیت پر اپنے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی آزمائش بن جاتا ہے۔تو ہر والدین اپنی ذمہ داری کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کی بہترین طریقے سے تربیت کریں تاکہ بعد میں آپکے لیے سکون کا باعث بنے۔

اللہ ہمارے معاشرے کو بگاڑ سے محفوظ فرمائے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

اولاد اللہ پاک کی طرف سے ہمارے لئے ایک عظیم نعمت ہے اس کے ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اس کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور آخرت میں بھی اس کی نجات کا ذریعہ۔

اولاد کے نیک بننے میں والدین کی تربیت کا بہت بڑا عمل دخل ہے جو والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں تو اللہ پاک ان کو اس کا صلہ ضرور عطا کرتا ہے۔ اولاد کی تربیت دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق کرنا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن آج کل کے دور میں اس کا فقدان ہے اکثر والدین اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی اولاد بگڑ گئی ہے بات نہیں مانتی، بدتمیز ہے، صفائی ستھرائی کا لحاظ نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ۔

کون کس کا جواب دہ ہوگا: یادرکھئے!اگر سستی سے کام لیتے ہوئے اولاد کی اچھی تربیت نہ کی توبروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں اس کا جواب دینا ہوگا،حضور اکرم، نور مجسم ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری،2/159، حدیث: 2554)

موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی اور ٹی وی کا غلط استعمال: میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! بروز قیامت اس جواب دہی سے بچنے کیلئے اپنے بچوں کی مدنی تربیت کیجئے اوران کے بگڑنے والے اسباب کوبھی فراموش نہ کیجئے،جیسے آج کل موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی، ٹی وی اورانٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی نئی نسل کی تباہی اوربگڑنے کا ایک سبب ہیں، ابتداءًوالدین خود ہی یہ چیزیں بچوں کو دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بے خبر رہیں لیکن جب بچے ان چیزوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاکر،راتوں کی نیندیں اڑاکر گناہوں کی گندگی میں ڈبکیاں لگا کر خوب لت پت ہوجاتے ہیں تواس وقت باپ کی آنکھ کھلتی ہے مگر ”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت کے مصداق“ اب افسوس کرنا بے کار ہوتا ہے (یعنی نقصان ہوجانے کے بعدپریشان ہونے سے کیا فائدہ؟)اب اگر باپ اس گندگی سے نکالنا چاہے بھی تو بچے ان چیزوں کوچھوڑنے کوتیار نہیں۔ لہٰذااگربچوں کو ضرورتاً یہ جدید چیزیں دینی ہی ہیں توآپ بحیثیت باپ پیار محبّت سے ان چیزوں کے غلط استعمال کے نقصانات بھی ضرور بتائیے،صحیح استعمال سکھائیے،ضرورت ہوتو سادہ موبائل دلوائیےاور ان کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ کا وزٹ کروائیے۔

تربیت اولاد کے بہترین اصول:

(1) جو کچھ بچے کو سکھانا چاہتے ہیں وہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہو اس کے لئے والدین کو دین کا بنیادی علم حاصل ہونا بہت ضروری ہے۔

(2) اچھی نیت کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اولاد کی تربیت میں ہماری بنیادی نیت اللہ پاک کی رضا و خوشنودی ہونی چاہئے۔

(3) گھر یا خاندان کے تمام افراد کا ان اصولوں پر ایک جیسا عمل کرنا ضروری ہے اگر کوئی ایک فرد بھی بے جا لاڈ کرے گا اور بچّے کی غلط باتوں پر اس کی سرزنش نہیں کرے گا تو اس سے بچے کے بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور بڑوں کے بھی آپس میں تعلقات خراب رہتے ہیں۔

(4) بچے کی عقل اور سمجھ کے مطابق ہر بات کی پہلے وضاحت کریں پہلے بچے کو بتائیں کہ فلاں کام کرنے کا صحیح طریقہ یوں ہے اور غلط طریقہ یوں مثلاً چھوٹے بچے کو کہنا کہ کھانا سیدھے ہاتھ سے کھایا جاتا ہے الٹے ہاتھ سے نہیں۔ جب سیدھا ہاتھ بولیں تو بچّے کے سیدھے ہاتھ کی طرف اشارہ کریں تا کہ اسے معلوم ہو کہ یہ سیدھا ہاتھ ہے۔

(5) جوں جوں بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں سوال اس سمجھ کی چابی ہے والدین کو چاہئے کہ جو بھی تربیت کا نیا اصول بچوں پر لاگو کرنا ہو اس کو اچھی طرح سمجھایا جائے اس اصول پر بچہ جو بھی سوال کرے اس کا تسلی بخش جواب دیا جائے مثلاً تین یا چار سال کا بچہ پوچھ سکتا ہے کہ ہم سیدھے ہاتھ سے ہی کیوں کھاتے ہیں؟ تو والدین کو اس کا جواب اچھے انداز میں پیش کرنا ہوگا۔ ورنہ جو اصول بچہ مکمل طور پر سمجھے گا ہی نہیں تو ایسے اصول پر وہ شوق اور لگن کے ساتھ عمل نہیں کرے گا۔

(6) جب بھی بچہ مطلوبہ اصول پر عمل کرے تو اس عمل کرنے پر اس کو ہر بار Reward ضرور دیں۔ انسانی نفسیات ہے کہ چھوٹی عمر میں چند بار Reward ملنے پر کام کرنے کی پختہ عادت بن جاتی ہے لہٰذا جتنی چھوٹی عمر میں بچے کی تربیت شروع ہو اتنا آسان ہوتا ہے۔

بچے کی حوصلہ افزائی (Reward) کی مثالیں: بچے کی طرف توجہ سے دیکھنا بچے کی طرف دیکھ کر مسکرانا، بچے کو پیار کرنا اور سینے سے لگانا، شاباش دیتے ہوئے بچے کی پیٹھ تھپکنا بچے کی بات توجہ سے سننا اور اس کے سوالات کے جوابات دینا بچے کے ساتھ کھیلنا اس کی مثبت چیزوں کی تعریف کرتے رہنا کھانے کی پسندیدہ چیز (جو مضر صحت نہ ہو) دینا پسند کا کھلونا خرید کر دینا۔

بچے کی سرزنش (Sanction ) کی مثالیں: خاموشی کے ساتھ روٹھ کر ناراضی کا اظہار کرنا، چہرے کو دوسری طرف پھیر لینا، بچے کو بتانا کہ آپ اس سے فلاں کام کی وجہ سے ناراض ہیں، اسکرین ٹائم کو کم کردینا، پسندیدہ کھیل سے کچھ دیر کے لئے روک دینا، دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کر دینا۔

پہلے اپنی تربیت کیجیے: محترم اسلامی بہنو! اولاد کی مدنی تربیت میں سب سے اہم چیزباپ کی اپنی عملی حالت ہے اگر باپ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرناچاہتا ہے تو پہلےخوداپنے اعمال وکردار کی اصلاح کرنی ہوگی کیونکہ اسلامی طریقے پر اولاد کی تربیت کاخواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہوسکے گا،جب ماں باپ اوردیگر اہل خانہ بھی شریعت کے پابند ہوں گے،نماز،روزے کے پابندہوں گے،تلاوت قرآن کرنے والے ہوں گے،فلموں ڈراموں، گناہوں بھرے چینلز دیکھنےسے بچنے والے ہوں گے،جھوٹ، چغلی،غیبت جیسے امراض سے بچنے والے ہوں گے، کھانے پینے،اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے میں سنّت کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔مگر افسوس صد کروڑافسوس! آج کل جہاں باپ مغربی تہذیب اور اغیار کی عادت و اطوار سے متاثر ہو کر ان جیسے کام کرنے میں معاذ اللہ فخر محسوس کرتا، اسلامی لباس کو چھوڑ کرغیروں جیسا لباس پہنتا ہے، وہیں آج کی ماؤں نے بھی پردے کو خیربادکہہ کرگلی بازاروں میں بے پردہ گھومنا،فیشن کے نام پر تنگ وچست لباس پہن کر بدنگاہی کا سامان بننا شروع کردیاہےاور بے حیائی اور فحاشی سے بھرپورناچ گانے،فلمیں ڈرامے نہ صرف خود بلکہ بچوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھاکر دکھاتے،ذرانہیں شرماتے، بچوں کی تعلیم و تربیت کا حال یہ ہے کہ انہیں دینی علوم و فنون سکھانے کے بجائےمغربی تہذیب کے نمائندہ اداروں کے مخلوط ماحول (یعنی جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہوں)میں تعلیم دلوانے میں کوئی شرم و عار محسوس نہیں کرتے۔

یادرکھئے!ماں باپ کی بد اعمالی،مغربی تہذیب سے محبت اور روشن خیالی کے نام پر اخلاقی قدروں کی پامالی یقیناًاولاد بگڑنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔لہٰذاماں باپ کو چاہیے کہ پہلے خود اپنی عملی حالت درست کریں،نماز وروزے کی پابندی اورپیارے آقا،حبیب کبریا ﷺ کی سنتوں سے محبّت اوران پر عمل کی کوشش کریں۔جب ہمارے بچے ہمیں نیکیوں میں مشغول دیکھیں گے تو انہیں بھی رغبت ملے گی اوروہ بھی نیکیوں کی طرف مائل ہوں گے۔ ان شاء اللہ بچوں کی دینی تربیت کرنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ دنیا میں راحت و سکون،عزّت و وقار حاصل ہو گا،آخرت میں ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے کرم سے اولاد کی تربیت کے معاملے میں نہ صرف بری ہوں گے بلکہ اجروثواب بھی پائیں گے۔ ان شاء اللہ


اولاد کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی رونق سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ رونق اسی وقت ہے جب والدین کی جانب سے اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اولاد کی اچھے سے دنیا تعلیم و تربیت ہو سکے

اولاد کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی باپ کی طرف سے اس کی اولاد کیلئے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

ذیل میں بچوں کے بگڑنے کے چند اسباب بیان کئے گئے ہیں۔

(1)غلط ماحول: بچوں کو اگر بچپن سے ہی غلط ماحول ملے جہاں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہ ہو۔ گھر کے مکینوں میں آپس میں رنجشیں اور گالی گلوچ ہو، بات بات پر جھوٹ بولنا اور دوسروں کو برابھلا کہنا ہو تو بھلا ایسے ماحول میں بچہ کیونکر نیک بن سکتا ہے۔

(2) محبت و شفقت سے محرومی: محبت و شفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ کیونکہ بچے نہایت نازک جذبات اور احساسات رکھتے ہیں اور پیارو محبت کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر بچوں کو محبت و شفقت نہ ملے تو بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر شفقت اور مہربانی نہیں کرتا۔ (ابو داود، 4/372، حدیث:4943)

(3)بے جا لاڈ پیار: بے جا لاڈ پیار بھی بچوں کے بگڑنے کا اہم سبب ہے۔ بعض اوقات والدین بچے کے پیار میں اس کی ہر ضد پوری کرتے ہیں اور کبھی غلطی پر ٹوکتے بھی نہیں۔ اس سے بھی بچے بگڑ جاتے ہیں اور پھر بڑے ہونے پر مار پیٹ بھی انھیں سدھار نہیں پاتی بلکہ مزید باغی بنا دیتی ہے۔

(4)ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا: والدین کا اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور دوسرےکے ساتھ بے توجہی برتنا بھی بچوں کو بگاڑ دیتا ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن، جلن و حسد اور نفرت و مایوسی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور و برتری کے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو (کسی کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی نہ ہو)۔ (ابو داود، 3/408، حدیث:3544)

(5) سوشل میڈیا: اولاد بگڑنے میں سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ ابتداءً والدین خود ہی بچوں کو موبائل فون، ٹی وی اور ٹیبلٹ پی سی وغیرہ دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں محروم رہیں۔ مگر جب بچے ان چیزوں میں پڑ کر گناہوں میں لت پت ہو جاتے ہیں تب والدین کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔

اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کریں تاکہ بروز قیامت اولاد والدین کیلئے بخشش کا سامان بنے نہ کہ عذاب کا۔


بلاشبہ بچے ملک و قوم کا ااصل سرمایہ اور والدین کےلیے صدقہ جاریہ،اللہ پاک کا انعام اور ایک امانت ہے اولاد کی اچھی تربیت کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے بگڑتی ہوئی اولاد والدین کی دنیا و آخرت کےلیے رسوائی ہے اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

اولاد بگڑنے کے ذیل اسباب ہیں:

1۔ محبت و شفقت سے محرومی: محبت و شفقت سے محرومی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے لہذا ضروری ہے کہ بچوں کیساتھ پیار،محبت،اور نرمی سے پیش آیا جائے ان کا خیال رکھا جائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے چھین لی جاتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1398، حدیث: 2594)

2۔ حرام کمائی: والدین کو خوصاً اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ بچوں کی پرورش حرام کمائی سے نہ ہو حتیٰ کہ زمانہ حمل و رضاعت میں خود ماں کو چاہئے کہ حرام کمائی سے اجتناب لازم کرے حدیث مبارکہ میں ہے وہ گوشت ہرگز جنت میں داخل نہ ہوگا جو حرام میں پلا بڑھا ہے۔ (سنن دارمی، 2/209، حدیث: 2776)

3۔ درس شریعت نہ دینا: مکی مدنی آقا ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اورجب دس سال کے ہو جائے تو ان کو مار کر نماز پڑھاو اور ان کے بستر الگ کر دو۔(ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

4۔ بری صحبت: والدین مشاہدہ کرتے رہیں کہ ان کا بچہ کس قسم کی صحبت میں اٹھتا بیٹھتا ہے حدیث مبارکہ میں ہے: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے توتم میں سے ہرایک دیکھ لے کہ وہ کس کو دوست بنائے ہوئے ہے۔ (ابو داود، 4/341، حدیث: 4833)

5۔ یکساں سلوک نہ کرنا: والدین کا تمام اولاد کے ساتھ برابری کااسلوک رکھنا فرض ہے بلاوجہ شرعی کسی بچے کو نظر انداز نہ کریں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالی پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے میں بھی برابری کرو۔ (کنز العمال، 16/185، حدیث: 45342)

اس کے علاوہ بہت سے ایسے اسباب ہیں اللہ پاک ہم سب کو ان اسباب سے بچائے اور ہر مسلمان کو نیک صالح اولاد عطا فرمائے۔ آمین

اولاد اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے یہی اولاد والدین کے دل کا سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک راحت و سکون کا ذریعہ ہوتی ہے لیکن بسا اوقات ہی اولاد والدین کے لیے سکون و راحت بننے کی بجائے وبال جان بن جاتی ہے اولاد بگڑنے کے اسباب میں سے چند اسباب یہ ہیں : والدین کا اولاد کی تربیت پر بچپن ہی سے توجہ نہ دینا: اگر اولاد کی تربیت بچپن ہی سے صحیح خطوط پر نہ کی جائے تو یہ اولاد معاشرے میں والدین کے لیے شرم اور ذلت رسوائی کا باعث بنتی ہے جب والدین کا مقصد حیات حصول دولت، آرام طلبی، وقت گزاری،اور عیش گوشی بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور جب تربیت اولاد سے بے اعتنائی کے اثرات سامنے آتے ہیں تو یہی والدین ہر کس و ناقص کے سامنے اپنی اولاد بگڑنے کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں اولاد کی تربیت وہ اہم فرض ہے جس سے غفلت نہ صرف انفرادی مضر کا باعث ہے بلکہ اس سے تمام معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

حضور ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا بادشاہ نگران ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری،2/159، حدیث: 2554)

والدین کا اولاد کے ساتھ نہ کرنا والدین کا اولاد کے ساتھ مساوی سلوک نہ کرنے سے بھی اولاد بگڑتی ہے والدین بچوں میں کسی ایک کے ساتھ زیادہ پیار کریں تو بچے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور پھر وہ ضد بدتمیزی کی طرف جاتا ہے تو پھر بڑھتے بڑھتے اولاد نافرمانی کرنے لگ جاتی ہے۔

برے دوست بھی اولاد بگڑنے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے والدین یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کی اولاد کن کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے کن دوستوں کے ساتھ ان کا آنا جانا ہے جس سے اولاد نشے اور جوئے کی عادی بنتی اور والدین کے لیے معاشرے میں شرم و ذلت کا باعث بنتی ہے اگر اپنی اولاد کو نیک بنانا چاہتے ہیں تو اسے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ کیجیے اور خود بھی دینی ماحول سے ہر دم وابستہ رہیے اللہ پاک سب کی اولاد کو اپنے والدین کا اپنا فرمانبردار بنائے اور ان کے لیے صدقے جاریہ اور بنائے۔ آمین

اولاد اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اولاد کو دل کا پھل کہا گیا ہے۔ اس نعمت کی شکر گزاری کا ایک طریقہ اولاد کی اچھی تربیت ہے۔لیکن بعض اوقات اولاد بگڑنے کا سبب والدین کی سستی و کوتاہی ہوتی ہے جو والدین کے لیے پچھتاوے کا باعث بنتی ہے۔

اولاد بگڑنے کے اسباب درج ذیل ہیں:

1)سوشل میڈیا: آج کل موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی، ٹی وی اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال بھی نئی نسل کی تباہی اوربگڑنے کا ایک سبب ہیں ابتداءًوالدین خود ہی یہ چیزیں بچوں کو دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بے خبر رہیں لیکن جب بچے ان چیزوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاکر،راتوں کی نیندیں اڑاکر گناہوں کی گندگی میں ڈبکیاں لگا کر خوب لت پت ہوجاتے ہیں تواس وقت باپ کی آنکھ کھلتی ہےمگر، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت،کے مصداق اب افسوس کرنابے کار ہوتاہے۔

اس لیے والدین کو چاہیے کہ اولاد کو سوشل میڈیا سے بچائیں اور اگر استعمال کے لیے دیں بھی تو ان پر کڑی نظر رکھیں۔

2)بری صحبت:اولاد بگڑنے کے اسباب میں سے ایک سبب بری صحبت ہے۔ برے دوستوں کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے بہت سے بچے یا تو نشے کا عادی ہو جاتے ہیں یا کسی اور گندے کام میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور پھر والدین کے ہاتھوں سے بھی نکل جاتے ہیں یوں بچے بڑے ہو کر عادی مجرم اور بعض اوقات خطرناک مجرم بنتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی صحبتوں پر بھی نظر رکھیں کہ انکے بچوں کا اٹھنا، بیٹھنا، دوستی کس کے ساتھ ہے تا کہ برائی نظر آنے کی صورت میں وقت پر ہی اس کا خاتمہ کر دیا جائے۔

3)ترجیحی سلوک: والدین کا اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بےتوجہی برتنا بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن، جلن و حسد، نفرت و مایوسی اور رقابت وبغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور و برتری کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ تمام بچوں کے ساتھ یکساں سلوک رکھیں سب کو ایک جیسا پیار دیں تا کہ بچوں کے درمیان بھی پیار و محبت پیدا ہو۔

4)والدین کی بے جا سختی: اکثر والدین اپنے بچوں کی گئی شرارتوں کے لئے انہیں سمجھاتے ہیں اور اس کے لئے وہ سخت رویہ اختیار کرتے ہیں اور بعض اوقات مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو بچوں پر برا اثر ڈالتا ہے اور یہ بچوں کو بگاڑنے کا سبب بھی بنتا ہےاور بچوں کے باغی بننے کا سبب بنتا ہے بچے بار بار غلطی کرکے ہی سیکھتے ہیں لیکن والدین کا بات بات پر ان پر چلّانا ہر وقت غصہ، ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہنا غلط ہے۔ اس سے بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اور وہ اس ماحول میں اچھے سے نشوونما نہیں پاتے۔ اس لئے والدین کو چاہیے کہ اپنے برتاؤ میں میانہ روی اختیار کریں شفقت ومحبّت سے سمجھائیں، کیونکہ بے جا سختی بھی بچوں کو ڈھیٹ بنادیتی ہے۔

5)والدین کا بار بار احسان جتانا: اولاد بگڑنے کا ایک سبب بار بار احسان جتانا بھی ہے کہ جب والدین بار بار بچے کو کہیں ہم نے تمہیں کھلایا پلایا پڑھایا، اس طرح کا انداز بچوں کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے بلکہ ان میں بیگانہ پن کے احساسات جنم لیتے ہیں یہی چیز بڑھتے بڑھتے بچے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہے پھر وہ بڑا ہو کر والدین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ بچے کی غلطی پر اس پر احسان جتانے کی بجائے اسے احسن انداز میں نرمی و محبت کے ساتھ سمجھائے۔

اللہ پاک ہم سب کی نسلوں کو اپنے پیارے محبوب علیہ الصلاۃ والسلام کے صدقے سنوار دے اور اپنے محبوب علیہ الصلاۃ والسلام کا سچا پکا عاشق بنائے۔ آمین

حضور کریم ﷺ کا فرمان ہے: کسی باپ کی طرف سے اسکی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اسکی اچھی تربیت کرے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

ہمارے معاشرے میں جہاں ماں باپ، بہن بھائی اور نیک شوہر کی ضرورت ہوتی ہے وہیں پر لوگ نیک اولاد کی بھی تمنا کرتے ہیں تاکہ انکی نسل آگے بڑھ سکے اور وہ اولاد انکا بڑھاپے میں سارا بن سکے۔ والدین اولاد کی تمنا تو کر لیتے ہیں مگر انکی اچھی تربیت کرنا بھول جاتے ہیں اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے وہ اولاد غلط راستے پر نکل پڑتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں اولاد بگڑنے کے اسباب میں والدین کا اولاد پر توجہ نہ دینا، انکے غلط کام پر روک ٹوک نہ کرنا یا پھر بچوں کا غلط صحبت اختیار کرنا وغیرہ ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

اولاد کی تربیت کوئی عام کام نہیں ہے اس کےلیے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں جب ایک نسل کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوں گے تو اگلی نسل تباہ و برباد ہو جائے گی آج والدین اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ تو کرتے ہیں مگر دینی تعلیم دینا بھول جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو تین چیزوں کی تعلیم دو: (1) اپنے نبی کریم ﷺ کی محبت (2) اہل بیت کی محبت (3) اور قران پاک کی تعلیم۔(جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311)

جہاں بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں پر ماں باپ چار سال کی عمر میں بچوں کو سکول تو بھیج دیتے ہیں مگر سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کی سختی نہیں کرتے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جبکہ وہ 7 سال کے ہو جائیں اور جب 10 سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں مارو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

والدین اپنی جابز میں اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ بچوں پر مخصوص توجہ نہیں دے پاتے اور پھر اولاد ہاتھوں سے نکل جاتی ہے جب اولاد کو بچپن میں ہی اسلام کی تعلیم سے منور کروایا جائے تو اسکے اثرات انکی جوانی پر مثبت پڑھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بچپن میں علم حاصل کرنا پتھر پر نقش کی طرح ہے۔ (مجمع الزوائد، 1/333، حدیث: 5015)

اچھی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے آج کی اولاد اپنے والدین کو اولڈ ہاؤس میں بھیج دیتی ہے حالانکہ اس عمر میں والدین کو بچوں کی دعاؤں اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو مختلف نصیحتیں کی جو قرآن پاک میں ذکر کی گئی ہیں تو آج کے والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کو اچھی نصیحتیں کریں انکے ہر اچھے اور برے عمل پر نظر رکھیں تاکہ معاشرے میں اولاد بگڑنے والے مسائل کا حل ہو سکے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کا با ادب بنائے۔ آمین

عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرکے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں مگر یاد رکھیے اولاد کی تربیت صرف ماں یا باپ کی نہیں ددونوں کی ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔جب نبی اکرم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ کو سنائی تو صحابہ کرام یوں عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ ہم اپنے اہل وعیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں تو ارشاد فرمایا: تم اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کامو سے روکو جو رب کو ناپسند ہے۔ (در منثور، 8/225)

یقینا وہی اولاد آخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک و صالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد کو نیک یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے، جب والدین کا مقصد حیات حصول دولت آرام طلبی اور عیش کوشی بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور تربیت سے اولاد بے اعتناعی کے اثرات سامنے آتے ہیں تو سہی والدین ہر کس و ناکس کےسامنے اپنی اولاد بگڑنے کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں ایسے والدین کو غور کرنا چائے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں ان کا کتنا ہاتھ ہے کیو نکہ انہوں نے اپنے بچے کو A B C بولنا تو سیکھایا لیکن قرآن پڑھنا نہیں سکھایا مغربی تہزیب کے طور طریقے تو سمجھائے مگر رسول عربی کی سنتیں نہ سکھائی جنرل نالج کی اہمیت پر اس کے سامنے گھنٹوں کلام کیا مگر فرض علوم کی رغبت نہ دی اسے ہائے ہیلو کہنا تو سکھیا مگر سلام کرنے کا طریقہ نہ بتایا اس لیے اولاد کی ظاہری زیب وزینت اچھی غذا اچھے لباس اور دیگر ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی و روحانی تربیت کےلیے بھی کمربستہ ہو جائے اگر بچہ آگ کی طرف بڑھ رہا ہو تو والدین جب تک لپک کر اپنے بچے کو پکڑ نہ لیں انہیں چین نہیں آتا مگر افسوس یہی اولاد جب رب کی نافرمانیوں میں ملوث ہو کر جہنم کی طرف تیزی سے بڑھنے لگتی ہے والدین کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔چنانچہ اے عاشقان رسول آ پ کی اولاد اور اپنی ماں کی آنکھو کا نور ہی سہی لیکن اس سے پہلے اللہ کا بندہ نبی کریم کا امتی اور معاشرے کا فرد ہے۔

اولاد کے بگڑنے کے کئی اسباب ہوتے ہیں جن میں والدین کی تربیت کی کمی، ماحول کا اثر، بری صحبت، اور دین سے دوری شامل ہیں۔ اسلام ہمیں اولاد کی اچھی تربیت پر زور دیتا ہے اور ان کے کردار کو سنوارنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اگر والدین اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت نہیں دیتے تو اولاد میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔

1۔ والدین کی طرف سے تربیت کی کمی: والدین کی طرف سے توجہ نہ دینا، نیک عادات نہ سکھانا اور بچوں کے سوالات کے جوابات نہ دینا بھی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

2۔ بری صحبت کا اثر: بچوں پر دوستوں اور اردگرد کے ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اگر بچوں کی صحبت اچھی نہیں ہوگی تو اس کا اثر ان کے کردار پر بھی پڑے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ترمذی، 4/167، حدیث: 2385)

3۔ دینی تعلیم سے دوری: بچے جب دین سے دور ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو اہمیت نہیں دیتے تو بگاڑ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو قرآن و سنت کے مطابق انہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دے اور انہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سکھائیں۔

4۔ والدین کا کردار: بچوں کے سامنے والدین کا کردار ایک آئینہ ہوتا ہے۔ اگر والدین خود اچھے کردار کے حامل ہوں گے تو بچے بھی ان کی پیروی کریں گے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بچہ والدین کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے اگر والدین نیک اور صالح ہوں گے تو بچے بھی انہیں کی تقلید کریں گے۔

اولاد کی بہترین تربیت کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی نگرانی کریں، انہیں نیک اور صالح صحبت فراہم کریں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی پرورش کریں۔ اس طرح انشاءاللہ ہماری نسلیں بگاڑ سے محفوظ رہیں گی اور ایک مضبوط معاشرہ تشکیل پائے گا۔