اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت محمد اکرم، جامعۃ المدینۃ گلشن معمار کراچی

موجودہ حالات میں تقریباً ہر گھر کا سب سے بڑا
مسئلہ ہے اولاد کا بگڑا ہوا ہونا،اولاد کا نافرمان ہونا، والدین کی قدر نہ کرنا
وغیرہ۔ ان نا مساعد حالات کا ایک بڑا سبب والدین کا اولاد کا دینی و دنیاوی تربیت
سے غافل ہونا بھی ہے جب والدین کا مقصد حیات حصول دولت،آرام طلبی،وقت گزاری بن جائے تو
وہ اولاد کی تربیت کیا کرینگے عموما دیکھا گیا ہے بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی
ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔
یاد رکھئے اولاد کی
تربیت صرف ماں یا باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور
اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔جب نبی اکرم ﷺ نے یہ صحابہ کے سامنے
تلاوت کی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ!
ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم
اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو
جو رب تعالی کو نا پسند ہیں۔ (در منشور للسیوطی، 8/225)
لہذا اللہ پاک خود حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کی
شریعت کے مطابق تربیت کی جائے۔ لہذا ہمیں
اپنی اولاد کو بگڑنے سے بچانا چاہے۔ویسے ہر ملک،معاشرہ،اور ماحول میں اسباب مختلف
ہو سکتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
1۔ والدین کے درمیان عدم اتفاق: گھر
میں والدین کے درميان باہمی اتفاق نہ ہونا،اولاد بگڑنے کا اہم سبب ہے ہر وقت کے
لڑائی جھگڑے اور ناساز گار ما حول بد سکونی اولاد میں منفی رجحان پیدا کرتی ہے بچے
سکون کی تلاش کے لیے چور راستے ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں جو غلط راستوں پر لے جاتے ہیں
یا پھر ان میں تناؤ،خوف اور کم تری کا احساس پیدا ہوتا ہے
2۔ نظراندازی:اولاد کو نظر
انداز کرنا،انکو توجہ نہ دینا یا انکی ضروریات کو پورا نہ کرنا ان کے بگڑنے کا سبب
بن سکتا ہے۔بعض دفعہ زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے والدین اعتدال نہں رکھ پاتے جسکے
سبب بچے گھر کے باہر توجہ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں یا شرارتیں کر کے کسی کا نقصان
کر کے والدین کو متوجہ کر کے پریشان کرتے ہیں۔
3۔غلط تربیت:اولاد کی
ظاہری زیب و زینت،اچھی غذا اچھے لباس اور دیگر ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ انکی
اخلاقی وروحانی تربیت بھی بے حد ضروری ہے والدین اسکول و مدرسہ میں داخل کروا کے
بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔جوائنٹ فیملی میں چغلی،ٹوہ وغیرہ کی عادت ڈلوانا بچوں کے
بگڑنے کا سبب ہے۔بچوں کی اچھی تربیت تب ہی ممکن ہے جب والدین اور گھر کے دیگر
افراد قدر کفايت علم دین کے حامل ہوں۔
4۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال:دیکھا
جاتا ہےکہ جب چھوٹا بچہ رو رہا ہوتا ہے،کھانا نہیں کھا رہا ہوتا تو مائیں انکو
موبائل پکڑا دیتی ہیں جس میں بچہ گیم،میوزک یا کارٹون وغیرہ کی طرف متوجہ ہو کہ
رونا چپ ہوجاتا ہے یا کھانا کھانے لگ جاتا ہے اسطرح بچے کی عادت بن جاتی ہے جیسے
جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے عادت پختہ ہوتی جاتی ہے۔بڑے ہونے کے ساتھ موبائل دیکھنے کے
تقاضے بھی بدل جاتے ہیں پھر وہ ڈرامے،فلمیں،ٹک ٹاک ویڈیوز،منفی و جنسی ویڈیوز،غلط
اور نا مکمل معلومات حاصل کرتا ہے چونکہ والدین صحیح رہنمائی نہیں کرتے بچے کی
سوشل میڈیا ایکٹیویٹی پر نظر نہیں رکھتے جسکی وجہ سے بچہ بگڑتا چلا جاتا ہے اور
ایک وقت آتا ہے وہ اخلاقی اقدار کو پامال کر دیتا ہے۔
5۔ تعلیمی اداروں کا مخلوط اور منفی
ماحول: تربیت
اولاد اہم ذمہ داری ہے اسکو بوجھ سمجھتے ہوئے غفلت برتتے
ہیں اسکول وکالج وغیرہ کے سپرد کرکے مہنگی فیسیں دے کرسمجھتے ہیں کہ وہی صحیح غلط
جائز اور نا جائز کی تربیت دینگے بچوں کو ان خطرناک حا لات میں آزاد چھوڑ دیا تو
نفس و شیطان انہیں آلہ کار بنا لیتے ہیں پھر جب انکے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو
والدین ہر کسی کے سامنے اپنی اولاد بگڑنے کا رونا روتے ہیں۔ ایسے والدین کو غور
کرنا چاہے کہ اولاد کو اس حال میں پہچانے میں کس کا ہاتھ ہے۔
6۔ تربیت کرنے والوں کے قول و فعل میں تضاد:تربیت
کرنے والوں کے قول و فعل میں پایا جانے والا تضاد اولاد بگڑنے کا سبب بنتا ہے کہ
جس کام سے ہمیں منع کرتے ہیں خود کرتے ہیں۔ مثلاً جھوٹ بولنا، آپس میں لڑائی کرنا،
گالیاں دینا، غیبت کرنا، بڑوں کا ادب نہ کرنا، نمازوں کی پابندی نہ کرنا وغیرہ،
جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے بڑوں کی کوئی نصیحت ان کے دل میں گھر نہیں کرے گی۔
اولاد
کےبگڑنے کے اسباب از ام عبدالرحیم، جامعۃ المدینۃ سرجانی ٹاؤن کراچی

1۔ صحبت کا اثر والدین مشاھدہ کریں کہ ان کا
بچہ کس قسم کے بچوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔اگر اس کے قریب جمع ہونے والوں میں بری
عادت پائی جاتی ہیں یا وہ گمراہ عقائد رکھتے ہیں تو بچوں کو نرمی سے ایسے لوگوں سے
ملاقات کرنے سے روکیں، کیوں کہ صحبت اثر رکھتی ہے۔ صحبت صالح ترا صالح کند صحبت
طالح ترا طالح کند (اچھے آدمی کی مجلس تجھے اچھا اور برے آ دمی کی صحبت تجھے برا
بنا دےگی)
2۔ بے جا سختی اور مار پیٹ وقت بے وقت بچوں کو
ڈانٹتے رہنے سے بچوں کی خود اعتمادی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور زیادہ سختی کرنے سے
احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔کچھ والدین کی عادت ہوتی ہے کہ معمولی سی بات پر
بچے کو جھڑک دیتے ہیں اور اچھی خاصی پٹائی بھی کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں
ضد پیدا ہوتی ہے اور وہ باغی ہوجاتے ہیں پھر کسی کی بھی نہیں سنتے۔ فرمان امیر
اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ: برتن میں سوراخ کرنےکے بعد جتنا بھر لو خالی رہے گا
یعنی مار کر ہم بچے کو سمجھا نہیں رہے بلکہ اسے خود سے دور کر رہے ہیں۔ بچے کی
غلطی پر اسے مکار،جھوٹا، چور وغیرہ کے القاب سے نوازنے والے والدین سخت غلطی پر
ہیں بچہ سوچتا ہے جب مجھے لقب مل گیا تو میں کامل طور پر بن کر دکھا دوں۔
ہےفلاح
و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر
بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
3۔ بچوں میں یکساں تعلق نہ رکھنا۔ بلا وجہ شرعی کسی
بچہ بالخصوص بیٹی کو نظر انداز کر کے بیٹے کو اس پر ترجیح دینا بچوں کے نازک دل پر
بہت سخت گزرتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کے قلوب پر بغض و حسد کی تہہ جمنا شروع ہو
جاتی ہے جس کی وجہ سے انکی شخصیت بہت متاثر ہوتی ہے اور ان میں خود اعتمادی کی کمی
آنا شروع ہو جاتی ہے۔پیارے آقا ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے:بے شک اللہ تبارک و تعالی
یہ پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے
میں بھی۔ (کنز العمال، 16/185، حدیث: 45342)
4۔ فلم بینی اور سوشل میڈیا کے استعمالات۔ فلمیں
ڈرامے گانے باجے اور سوشل میڈیا کا استعمال آج کل کے بچوں اور نوجوانوں کا محبوب
مشغلہ بن چکا ہے جو آنکھ دیکھتی ہے دماغ اس کا اثر قبول کرتا ہے والدین بچوں کی ضد
کو ڈھال بنا کر ٹی وی اور اسمارٹ فون گھر لے آتے ہیں اور بچوں کے ہاتھ میں پکڑا
دیتے ہیں کہ بچے تنگ نہ کریں اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچوں کو پھر ایسی لت لگتی
ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور والدین سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔
5۔ علم دین سے دوری۔ اپنی اولاد کوکامل مسلمان
بنانے کے لیے زیور علم دین سے آراستہ کرنابے حد ضروری ہے۔مگر افسوس! آج دینی تعلیم
کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے اپنے بچوی کو دنیاوی علوم و فنون تو سکھائے جاتے ہیں
مگر قرآن کریم اور سنن و فرائض کا علم سکھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ اگر بچہ
ذہین و فطین ہو تو والدین اسے ڈاکٹر،انجینئر، پروفیسر بنانے کی جدو جہد میں لگ
جاتے ہیں اسکے لیے مخلوط تعلیمی زماداروں سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لیکن اگر گھر کا
کوئی بچی ضدی اور کند ذہن ہو تو اسے مدرسہ اور جامعہ کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔جب
بچہ مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرےگا، علم دین سے دوری اور بدعقیدی لوگوں
کی صحبت میں پروان چڑھےگا تو پھر اسے حلال و حرام،والدین و استاذ کا ادب اور گھر
والوں سی نرمی و محبت کی کوئی پہچان نہیں ہوگی۔
اللہ کریم ہماری اولادوں کی نیک و صالح حافظ قرآن و
عالم دین بنائے۔ آمین

اللہ پاک نے اس دنیا کو بنایا اور حضرت آدم علیہ
السلام کے ذریعے نسل انسانی کو بڑھایا۔ پہلے میاں بیوی ہوتے ہیں پھر اللہ پاک
انہیں اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر یہی ماں باپ بن جاتے ہیں۔ اولاد کی تربیت
اکثر ماں باپ کرتے ہیں وہ اولاد بگڑنے اور سنورنے کا بہت بڑا سبب ہوتے ہیں۔ آج کل
دیکھا جاتا ہے اکثر مسلمان اپنی اولاد کو صرف و صرف دنیاوی تعلیم دلواتے ہیں اور
اس کے لئے خوب کوشش کرتے ہیں اور انہیں مہنگے مہنگے اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ اس کے
برعکس ان کا اپنی اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کے معاملے میں غفلت کا عالم ہوتا ہے
کہ اکثریت کو دیکھ کر بھی قرآن کریم درست پڑھنا نہیں آتا۔
نیک اولاد اللہ کا عظیم انعام ہے۔ یہی وہ نیک اولاد
ہوتی ہے جو دنیا میں والدین کے لئے راحت جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔
یہی وہ اولاد ہوتی ہے جو والدین کے گزرنے کے بعد ان کی بخشش کا سامان بنتی ہے۔ جیسا
کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع
ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے: (1) صدقہ جاریہ (2)
وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3) نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (مسلم،
ص 886، حدیث:1631)
ایک اور مقام پر حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت
میں آدمی کا درجہ بڑھا دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے حق میں یہ کس طرح ہوا؟ تو
جواب ملتا ہے اس لیے کہ تمہارا بیٹا تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/185،
حدیث: 3660)
اولاد بگڑنے کے اسباب:
بچپن میں بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہی ساری عمر کرتا
ہے، بچپن کی عادتیں بھی بہت مشکل سے چھوٹتی ہیں۔ اس لئے بچے گھر کی چھوٹی موٹی
چیزیں چرا کر کھا جاتے ہیں یا کسی کے گھر سے چرا لاتے ہیں اگر انہیں مناسب وقت پر
والدین تنبیہ نہ کریں تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں پھر اولاد ہاتھ
سے نکل جاتی ہے۔ صحبت اثر رکھتی ہے اگر اپنے بچوں پر نظر نہ رکھی جائے کہ وہ کیسے
لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں تو بری صحبت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بھی اولاد
بگڑ جاتی ہے۔
ماں باپ کی جب ایک سے زائد اولادیں ہوتی ہیں تو اگر
انہیں کوئی چیز دینے اور پیار و محبت اور شفقت کرنے میں برابری نہ کی جائی (ایسا
بالخصوص بیٹی کے ساتھ کیا جاتا ہے) تو اولاد اس طرح ماں باپ سے دور ہو جاتی ہے۔ نبی
کریم ﷺ نے ہمیں اولاد میں سے ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کی تاکیدفرمائی
ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: بے شک اللہ پاک پسند کرتا ہے کہ تم
اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے میں بھی (برابری کرو)۔ (کنز
العمال، 16/185، حدیث: 45342)
حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص تاجدار رسالت ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے
میں اس کا بچہ آگیا۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کو بوسہ دیا اور پھر اپنی ران پر بٹھا
لیا۔ اسی دوران اس کی بچی بھی آگئی جسے اس نے اپنے سامنے بٹھا لیا (یعنی نہ اس کا
بوسہ لیا اور نہ گود میں بٹھایا) تو سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: تم نے ان دونوں کے
درمیان برابری کیوں نہ کی؟ (تربیت اولاد، ص 169)
اگر والدین کا مقصد حیات، حصول دولت، آرام طلبی،
وقت گزاری اور عیش کرنا بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور جب
ایسی تربیت اولاد کے اثرات سامنے آتے ہیں تو یہی والدین اپنی اولاد بگڑنے کا رونا
روتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے والدین کو غور کرنا چاہیے کہ اولاد کو اس حال
تک پہنچانے میں ان کا کتنا ہاتھ ہے۔ عموماً ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ بگڑی ہوئی
اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے
ہیں۔ مگر یاد رہے کہ تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت طفیل الرحمان ہاشمی، جامعۃ المدینۃ نارتھ کراچی

اولاد اللہ تبارک کی ایک عظیم نعمت ہے اولاد ہی کے
ذریعے نام و نسل کی بقاء ہے۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اس کو نیک و
صالح اولاد عطا فرمائے جو دنیا میں
بھی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بنے اور آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ یونہیں
دوسری جانب دیکھا جاتا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد والدین کیلئے دنیا و آخرت میں سخت
آزمائش بن جاتی ہے۔ موجودہ دور کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں افسوس ! آج کل کے
دور میں اکثر والدین اس بات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی اولاد بگڑ گئی ہے
بات نہیں مانتی، بدتمیز ہے، بری عادات کا شکار ہو گئی ہے، وغیرہ وغیرہ مگر یہ نہیں
سوچتے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ کسی بھی چیز کی روک تھام کیلئے اس کے اسباب پر غور
و فکر کرنا بے حد ضروری ہے یہاں اولاد بگڑنے کے چند ضروری اسباب پیش نظر ہیں:
1۔ تربیت والدین: اولاد کو نیک
یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے عموماً دیکھا گیا ہے کہ
بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری
الذمہ سمجھتے ہیں مگر یاد رہے کہ تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی
ذمہ داری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور
اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔
اولاد کی تربیت کیسے کی جائے؟ اس کے بہترین راہنما
اصول قرآن پاک نے بیان کئے ہیں اور ماڈرن سائیکالوجی سے بھی ان اصولوں کی تائید
ہوتی ہے۔ مثلاً: ایمان والوں کو نیک اعمال کی ترغیب دینے کیلئے اللہ پاک نے جنت کے
عالی شان نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اور برے اعمال پر جہنم کی سخت سزاؤں کی وعید سنائی
ہے اس اسلوب کو ترغیب و ترہیب کا نام دیا جاتا ہے اگر اس اسلوب کو صحیح معنوں میں
اپناتے ہوئے والدین اپنی اولاد کی ہر اچھی عادت و کام پر اس کی حوصلہ افزائی کرے
تو کچھ ہی عرصے میں اس کی یہ اچھائی والی عادت پختہ ہو جائے گی اور ناپسندیدہ اور
برے کام پر اگر سرزنش کی جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کی بری عادت ختم ہو جائے گی
یوں ان شاء اللہ ان کی اولاد ہر لحاظ سے بہتر ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیئے! بے جا سختی
اور ڈانٹ ڈپٹ ہو یا پیار اور محبت ہو دونوں ہی اولاد کو بگاڑ دیتے ہیں۔
2۔ از خود والدین کا کردار: اولاد
کے بہترین کردار کی تعمیر و تشکیل کیلئے خود والدین کا بہترین کردار ہونا بھی بے
حد ضروری ہے۔ والدین کے قول و فعل میں پایا جانے والا تضاد بھی بچے کے ننھے ذہن
کیلئے باعث تشویش ہوگا کہ ایک کام یہ خود تو کرتے ہیں مثلاً جھوٹ بولتے ہیں، آپس
میں جھگڑتے ہیں مگر مجھے منع کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بڑوں کی کوئی نصیحت
اسکے دل میں گھر نہ کر سکے گی اور یہ کبھی اچھائی کی طرف گامزن نہیں ہو سکے گا۔
3۔ اسلامی اقدار اور علم دین سے دوری: بگڑتی
ہوئی اولاد کا ایک اہم سبب اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا اور علم دین سے دوری ہے۔آپ
کی اولاد، آپ کے جگر کا ٹکڑا ہی سہی لیکن اس سے پہلے اللہ کا بندہ، نبی کریم ﷺ کا
امتی اور اسلامی معاشرے کا اہم فرد ہے۔ اگر والدین اپنی، اولاد کو اللہ کی بندگی،
سرکار مدینہ ﷺ کی غلامی، اسلامی معاشرے میں اس کی ذمہ داری نہ سکھا سکیں تو اسے
اپنا فرماں بردار بنانے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیجیئے کیونکہ یہ دین اسلام کی
تعلیمات ہی ہیں کہ جس پر عمل پیرا ہو کر بندہ اپنے والدین کا مطیع و فرمانبردار ہو
سکتا ہے۔ والدین کو غور کر لینا چاہیے کہ انہوں نے اپنی اولاد کو کس قدر اسلامی
تعلیمات اور علم دین سےآراستہ کیا؟ کیونکہ آج کل کے والدین ہی ہیں جنہوں اپنے بچے
کو ABC
بولنا تو سکھایا مگر قرآن پڑھنا نہ سکھایا، مغربی تہذیب کے طور طریقے تو خوب
سمجھائے مگر پیارے آقا ﷺ کی سنتیں نہ سکھائیں، جنرل نالج کی اہمیت پر اس کے سامنے
گھنٹوں کلام کیا مگر فرض دینی علوم کی رغبت نہ دلائی، اس کے دل میں مال و دولت کی
محبت تو ڈالی مگر عشق رسول ﷺ کی شمع فروزاں نہ کی، اس کو دنیاوی ناکامیوں کا خوف
تو دلایا مگر امتحان قبر و حشر میں ناکامی کی وحشت نہ دلائی، اسے ہیلو ہائے کہنا
تو سکھایا مگر سلام کرنے کا طریقہ نہ بتایا۔ یہ سب کچھ بچے کی طبیعت میں شیطانیت و
نفسانیت کو اتنا قدآور کر دیتے ہیں کہ اس سے پاکیزہ کردار کی توقع بھی نہیں کی جا
سکتی۔ پھر آخر کار یہی والدین اولاد بگڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
4۔ گھریلو ماحول اور بری صحبت: ان
تمام اسباب کے ساتھ ساتھ گھریلو ماحول اور صحبت (یعنی دوست احباب) کا بھی بچوں کی
زندگی میں گہرا اثر پڑتا ہے گھریلو ماحول میں خرابی اور بری صحبت بھی بچے کے بگڑنے
کا ایک اہم سبب بنتی ہے اگر گھر والے نیک سیرت، شریف، خوش اخلاق ہوں اور گھر کا
ماحول پاکیزہ ہو تو بچہ بھی حسن اخلاق و پاکیزہ کردار کا مالک بنے گا مگر اس کے
ساتھ اس کی اچھی صحبت کا ہونا بھی ضروری ہے انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس کے ساتھ
اٹھتا بیٹھتا ہے ان کی عادات کو اپناتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ صحبت اپنا اثر رکھتی
ہے لہذا والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو بگڑنے سے بچائے اور نیک بنانے کیلئے
اپنے گھر کے ماحول کو پاکیزہ بنائیں اور اس بات کا احتساب کرتے رہیں کہ ان کا بچہ
کس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کر رہا ہے۔
5۔ سوشل میڈیا اور موبائل فون: آج کے
دور میں سب سے اہم سبب جو آنے والی نسلوں کی بربادی کو فروغ دینے میں مصروف ہے وہ
موبائل فون اور سوشل میڈیا کا استعمال ہے مشاہدہ ہے کہ آج کے دور میں بچہ ہو یا
بڑا، بوڑھا ہو یا جوان، مذہبی و غیر مذہبی الغرض ہر فرد ہی اس وبا کی لپیٹ میں ہے
جہاں بچوں کے ہاتھوں میں کھلونے دیئے جاتے تھے وہاں اب موبائل فون اور ٹیبلیٹ جیسی
اشیاء پکڑائی جاتی ہیں۔ یہ بچوں کی ذہنی سطح کو برباد کر دیتا ہے، ان کو تعلیم سے
غافل کرتا ہے اور غیر اخلاقی حرکات میں ملوث کرنے کا ذریعہ بنتا ہے والدین اپنی
اولاد کو اس سے دور رکھنے میں کامیاب ہوجائے تو ان کی
اولاد بہت سی خرابیوں سے بچ سکتی ہے۔
تمام والدین کو چاہیے کہ ان اسباب پر غور و فکر
کرتے ہوئے اپنی اولاد کی پرورش کریں۔

اولاد کی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ
وہ اپنی اولاد کے روز کے معمولات پر نظر رکھیں تاکہ ان کی بہترتربیت کرسکیں۔ اولاد
کی تربیت میں زیادہ حصہ ماں کا ہوتا ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی
پہلی درسگاہ ہے۔
آج کل بچوں کے بگڑنے کے اسباب میں سرفہرست موبائل
کا استعمال ہے جو کہ بچوں کے اخلاق پروان کے روز کے معمولات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بچے موبائل گیمز اور موبائل کی دوسری چیزوں میں گم
ہو کراپنی ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں، اپنے روزمرہ کے کام سے غفلت برتتے ہیں اور ان
کو پس پشت ڈال کر موبائل پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔
ماحول کا اثر: بچوں کے مزاج
پر زیادہ اثر ان کے ماحول کا ہوتا ہے اگر ان کاماحول بہت اچھا اور دینی ہوگا ان کے
دوست اچھے ہوں گے تو ان کے بگڑنے کے امکانات کم ہوں گے کیونکہ بچہ جس ماحول میں
زیادہ وقت گزارتا ہے اسی کا اثر قبول کرتا ہے کیونکہ بچے وہ نہیں کرتے جو انہیں
کہا جاتا ہے بلکہ وہ کرتے ہیں،جو وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھیلنے والے ان کے
دوست ہیں جن کے ساتھ بچہ دن میں وقت گزارتا ہے یا انکے اسا تذہ ہیں اگر وہ اچھے
ہوں گے تو بچوں پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
قرآن کے مضامین سے ناآشنائی: بچوں
میں بگڑنے کی بڑی وجہ قرآن کے مضامین سے دوری ہے اگر ہم قران کے مضامین سے دور
رہیں گے اور اپنے بچوں کو دور رکھیں گے۔ صحابہ کرام، اکابرین دین کی دین سے محبت،
قربانیوں،قناعت پسندی کے واقعات سے لاعلمی ہوگی تو وہ زمانے میں غلط عادات کا شکار
ہو جائیں گے۔ جب انہیں اپنے حقوق کے بارےمیں،والدین کے حقوق کے بارے، میں استاد کے
حقوق کے بارے میں، پڑوسی کے حقوق کے بارے میں،کسی کی مدد کرنے کے بارے میں اور
دوسرے دینی احکامات کے بارے میں علم ہی نہیں ہوگا تو وہ گمراہ ہو سکتے ہیں۔
تربیت سے زیادہ تعلیم پر توجہ: ہم
تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن تربیت پر توجہ نہیں دیتے یہ بچوں کے بگڑنے
کی بڑی خاص وجہ ہے، بچوں میں تربیت نہ کرنے کی وجہ سے حسد، جھوٹ، چغلی، غیبت جیسی
عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں اگر بچوں کو جھوٹ بولنے اور غیبت کرنے اور ان تمام بری
عادتوں سے نہیں روکا جائے گا تو وہ ایک اچھے انسان نہیں بن سکیں گے بلکہ گھریلو
معاملات میں اور معاشرے میں ان عادتوں کی وجہ سے مزید برائیوں میں مبتلا ہو جائیں گے
اگر بچوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے تو اس بارے میں ان کی تربیت کرنی چاہیے کہ جھوٹ
بولنا نہ صرف گناہ ہے بلکہ اس کے معاشرے پر بہت برے اثرات پڑتے ہیں کیونکہ بچے
جھوٹ کے سہارے پر بڑی سے بڑی غلطی کر لیتے ہیں اور پھر جھوٹ بول کر الزام دوسروں
پر ڈال دیتے ہیں۔اسی طرح بچوں کے دیگر معاملات پر نظر رکھنی چاہیے جس کی وجہ سے ہم
بچوں کو بگڑنے سے بچا سکتے ہیں بچوں کو اگر روک ٹوک نہیں کی جائے گی اور ان کی
تربیت نہیں کی جائے گی تو وہ ان کے بگڑنے کا سب سے بڑا سبب بنے گی۔
والدین کی بری عادات: بچے وہ
کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو بچوں کے بگڑنے کا سبب یہ
بھی ہے کہ جب والدین کا رویہ نامناسب ہوگا،والدین بدمزاج ہوں گے، مادہ پرست ہوں
گے، بڑوں کی بے عزتی کرنے والے، چھوٹوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنے والے، جھڑک کر
پیش آنے والےہوں گے یا لوگوں سے نفرت کرنا، اپنی مرضی کے خلاف کوئی کام ہونے پر
واویلا مچانا،ہر بات میں، ہر معاملے میں اپنی پسند کو،اپنی رائے کو ترجیح دینا اور
دوسروں کی پسند اور رائے کواہمیت نہ دینا دوسروں کو کمتر سمجھنا، حسد کرنا،کمزوروں
پر ظلم کرنا اور طاقتور سے ڈر جانا اور دوسروں سے بغض رکھنا اگر والدین ان عادتوں
کے مالک ہوں گے تو وہی اثرات بچوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور بچےبھی انہیں عادتوں
کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ ان کی شخصیت بگاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
غلط بات پر بچوں کو سزا نہ دینا: غلط
بات پر بچوں کو سزا نہ دینا اور اس کو نافذ نہ کرنا یہ بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک
سبب ہے کیونکہ بچے اس بات کے عادی ہو جاتے ہیں کہ ہم کچھ بھی کر لیں یہ صرف
دھمکیاں ہیں ہمیں کوئی سزا بھگتنی نہیں پڑے گی یہ چیز بچوں کو غلطیوں کا عادی بنا
دیتی ہے اور پھر وہ معاشرے میں ایک غیر ذمہ دار شخص بن کر سامنے آتے ہیں اگر ان کو
بروقت سزا دے دی جائے تو ان کو اپنی غلطی کا اندازہ بھی ہو جائے گا اور وہ دوبارہ
اس کو کرنے سے بھی ڈریں گے لیکن ان پر سزا نافذ نہ کرنا یہ والدین کی سب سے بڑی
غلطی ہوتی ہے جو بچوں کو غلطیوں کااور گناہوں کا عادی بنا دیتی ہے اس لیے اسلام
میں سات سال کے بچے کو مار کر نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بچہ جب سات سال کا
ہو جاتا ہے اور وہ نماز پڑھنے میں غفلت کرتا ہے، نماز پڑھنے سے گھبراتا ہے تو اس
کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے لیے سزا بتائی گئی ہے۔یہ سزا اسی لیے بتائی گئی
ہے تاکہ بچے ڈر کر اور اپنی غلطی کے نتائج پہ نظر رکھتے ہوئے اس کام کو سرانجام
دیں۔
والدین کا بچوں سے بےجا لاڈ پیار: یہ
بھی اولاد بگڑنے کا ایک سبب ہے والدین ہر حال میں اپنے اولاد کی خواہش پورا کرنا
چاہتے ہیں لیکن اس بات کا انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی اگر تمام خواہشات کو
پورا کر دیا جائے گا تو ان کے اندر برداشت ختم ہو جائے گی اور برداشت ختم ہونے کی
وجہ سے وہ دنیا میں مشکلات کا سامنا نہیں کر پائیں گے انہیں ان کی خواہشات کو پورا
کرنے سے پہلے ان کو سمجھانا بھی چاہیے اور ہر خواہش پوری بھی نہیں کرنی چاہیے تاکہ
بچوں کو برداشت اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کی عادت ہو جائے ایسا نہ کرنے پروہ
اپنی ہر جائز اور ناجائز خواہش پورا کروانے کے عادی ہو جاتے ہیں اور بڑے ہو کر بھی
وہ اپنے تمام ضروریات کو جائزو ناجائز طریقے سے پورا کرنے کے عادی بن جاتے ہیں جو
کہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔
بچوں کی غلطیوں پر والدین کی حمایت: اولاد
بگڑنے کا ایک بڑا سبب بچوں کی غلطیوں پہ والدین کی حمایت کرنا ہے۔ بچے چاہے کتنی
بھی چھوٹی غلطی کریں والدین کو ان کی حمایت کسی صورت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس
طرح ان کی غلطیاں پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں اور انہیں ظلم کرنے اور اپنے دوستوں،ساتھیوں
یا کسی بھی جاندار کو یا کسی بھی انسان کو ستانے کی عادت ہو جاتی ہے اور ان میں
اچھے اور برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور انہیں کسی کا ڈر نہیں رہتا کہ ہمارے
والدین ہماری غلطیوں پر ہماری حمایت کر لیں گے ہم کسی کے ساتھ کچھ بھی کریں۔
بچوں کی دلچسپی کے مشاغل: بچوں
کی دلچسپی کے مشاغل اگر خلاف دین کا موں اور فضولیات پر مشتمل ہوں گے اوربچے فضول
مشاغل میں مصروف ہوں گے تو یہ بھی ان کے بگڑنے کا سبب ہے کیونکہ اس طرح ان کے اندر
کسی نیک مقصد کے لیے پریشانیاں، تکلیفیں اٹھانے اور قربانیاں دینے اور برداشت کرنے
کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا بچوں کی زندگی میں مقصدیت کا بھی رجحان نہیں ہوگا اور اس
کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی زندگی میں کسی نہ کسی نیک مقصد
کو پورا کرنے کا رجحان بچوں کو دیں کیونکہ یہ رجحان بچوں میں مثبت تبدیلی لا سکتا
ہے۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت عدنان عطاری، جامعۃ المدینۃ حبیبیہ دھوراجی کراچی

1) اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب ہیں ان میں
سے ایک اہم سبب تربیت کا نہ ہونا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور
اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاں مسلمان پر
اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہیں اہل خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنابھی اس پر
لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس
کے ماتحت ہیں ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یادلوائے یونہیں اسلامی تعلیمات
کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں۔
آج کل کچھ والدین اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو
چکے ہیں کہ اپنے اولاد کی تربیت کے لیے ٹائم نہیں نکالتے اپنی اولاد کو ٹائم نہیں
دیتے جس کی وجہ سے اولاد بگڑ جاتی ہے۔
اس کا حل: لہذا والدین
کو چاہیے کہ اپنے اولاد کی صحیح اسلامی تربیت کے لیے وقت نکالیں بچوں کو توجہ دیں۔
2) اسی طرح دوسرا اور اہم سبب موبائل ہے موبائل کے
ذریعے بچوں میں بگڑنے کا جو ریشو ہے وہ
بہت زیادہ ہے والدین اس بات کا رونا تو روتے ہیں کہ ہمارے بچے بگڑ گئے یہ کیا ہو
گیا؟ ہمارے ہاتھ سے نکل گئے! اگر یہ والدین ذرا سوچیں! کہ بچے کو موبائل لا کر کس
نے دیا تھا؟وہ واقعات یاد کریں کہ بچپن میں جب بچہ روتا تھا تو چپ کروانے کی خاطر
بچے کو موبائل ہاتھ میں کس نے پکڑایا تھا؟ بچہ جب تنگ کرتا تو بجائے اس کی پریشانی
سمجھنے کے چھٹکارے کے لیے اسے موبائل کس نے دیا تھا؟ بچے کو کھانا کھلانے کے لیے
موبائل اس کے ہاتھوں کس نے لا کر دیا تھا؟ پھر بچہ جب اس موبائل کا عادی ہو جائے
اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عادت مزید پختہ ہوجائے اولاد اس کا استعمال کر کر کے بگڑ
جائے پھر پچھتاوے کے سوا ماں باپ کے ہاتھ کچھ نہیں رہتا اب والدین سوائے پچھتاوے
کے اور کچھ نہیں کر سکتے کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت!
اس کا حل: لہذا والدین
کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں آج تھوڑی سی اپنی آسانی کے لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ
آگے کی پوری زندگی آپ بچے کی برباد کرنے میں حصہ دار بن جائیں۔
3)اولاد بگڑنے کا تیسرا سبب ٹی وی ہے۔یہاں میری
مراد ٹی وی پر آنے والے وہ کارٹون ہیں جن میں کبھی تو اسلام کے خلاف چیزیں دکھائی
جا رہی ہوتی ہیں،کبھی لڑائی کے نام پر بچوں کی ذہنیت کو برباد کیا جا رہا ہوتا ہے،
کبھی بے حیائی اور بے شرمی کو فروغ دیا جا رہا ہوتا ہے، جس میں بجائے آداب کے
بدتمیزی کا رول پلے کیا جا رہا ہوتا ہے۔ والدین ذرا سوچیں کہ بچے ایسے کارٹون دیکھ
کر بگڑیں گے نہیں تو پھر اور کیا ہوگا؟
اس کا حل: والدین کو
چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو کڈز مدنی چینل دکھائیں غلام رسول کنیز فاطمہ جیسے اسلامک
کارٹون دکھائیں جس کے ذریعے ان کے بچوں کی اسلامی تربیت ہو سکے اور آگے ان کی
زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔
4) اولاد بگڑنے کا ایک سبب ان کی ہر ضد کو پورا
کرنا ہے۔ بعض ماں باپ اپنی اولاد کی محبت میں ان کی ہر ضدوں کو پورا کر رہے ہوتے
ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ ان کی اولاد کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔ آج سے اگر
ان کی ضدوں کو کنٹرول نہیں کیا تو بڑے ہو کر یہ ضدیں بے لگام ہو جائیں گی اور پھر
اس وقت ماں باپ اپنی اولاد کی ضدوں کو نہ مانیں تو اولاد پھر بڑے بڑے قدم اٹھا
لیتی ہیں پھر اس کے بعد یہی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ پسند کی شادی نہ ہو سکنے پر
نوجوان نے خود کشی کرلی وغیرہ۔
اس کا حل: لہذا والدین
کو چاہیے کہ اپنے اولاد کی بہتری کے لیے بجائے ان کی ہر ضد کو پورا کرنے کے حکمت
عملی سے کام لیتے ہوئے ہر قدم اٹھاتے ہوئے پہلے یہ سوچ لیں کہ آیا یہ آگے جا کر
بچے کو فائدہ دے گا یا نقصان؟
5)اولاد بگڑنے کا ایک سبب سوشل میڈیا کا استعمال۔ والدین
اگر بچپن میں اولاد کو سوشل میڈیا کے استعمال کی کھلی اجازت دے دیں اس پر گرفت نہ
کریں تو بڑے ہو کر وہ بچہ پھر سوشل میڈیا کا ہر طرح کا استعمال کرتا ہے خواہ وہ
برا استعمال ہو یا اچھا پھر ماں باپ سر پکڑ کر رو رہے ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟
پھر اسی سوشل میڈیا کے ذریعے آپس میں لڑکوں لڑکیوں کے ناجائز تعلقات ہوتے ہیں پھر
آگے جا کر حالات بگڑ جاتے ہیں ہر انجام یہ ہوتا ہے کہ لڑکیاں اپنے گھروں سے بھاگ
جاتی ہیں اور والدین کے پاس پچھتاوے کی کچھ باقی نہیں رہتا۔
اس کا حل: والدین کو
چاہیے کہ وہ حتی الامکان بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھیں اس معاملے میں کڑی نظر
رکھیں۔
6) اولاد بگڑنےکی ایک اہم وجہ تعلیم کے لیے غلط
اداروں کا انتخاب۔ اگر آپ نے اپنے بچے کی تعلیم کے لیے ایسے ادارے کا انتخاب کیا
ہو جہاں اسلامی تعلیمات کا دور دور تک پتا نہ ہو، وہ تعلیم گاہ مخلوط ہو جہاں لڑکے
اور لڑکیاں ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہوں، ٹیچریں جینز پہنتی ہوں، جہاں آئے دن میوزیکل
فنکشن ہوتے ہیں۔تو بچہ بگڑے گا نہیں تو اور کیا ہوگا؟ ماں باپ سوچیں کہ وہ چاہتے
ہیں کہ ان کا بچہ ان کا ادب کرے، نیک بنے، اس کے باوجود والدین ایسی جگہ انہیں
تعلیم کے لیے چھوڑ دیں جہاں بچہ سنورنے کی بجائے بگڑ جائے؟
اس کا حل: والدین کو
چاہیے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اچھے اداروں کا انتخاب کریں الحمدللہ دعوت اسلامی
کے تحت انٹر نیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم دارالمدینہ بھی ہے جہاں پر بچوں کو دنیوی
تعلیم دی اسلام و شریعت کے مطابق دی جاتی ہے،ساتھ ساتھ ان کی اخلاق و آداب، دینی
تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
اسکے علاوہ اولاد بگڑنے کے اور بھی اسباب ہیں۔ لیکن
اہم بات کی طرف توجہ دلاتی چلوں کہ ان بیان کردہ اسباب کے ساتھ ان کا حل تو بیان
کردیا گیا لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ عمل کے لیے سراپا ترغیب بننا پڑتا ہے۔ اگر
والدین خود گھنٹوں موبائل میں لگے رہیں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے رہیں اور بچے
کو منع کریں کہ بیٹا موبائل استعمال نہیں کرتے اس سے نقصان ہوگا تو بچہ کیسے بات
مانے گا؟
لہذا والدین بھی اپنا کردار ایسا رکھیں۔بچے جیسا
اپنے ماں باپ کو دیکھتے ہیں ویسا ہی کرتے ہیں۔ اگر بچہ اپنی ماں کو نماز پڑھتے
دیکھے گا تو بچہ بھی نقل کرتے ہوئے نماز پڑھے گا لیکن یہی بچہ اگر اپنی ماں کو
ناچتے گاتے ہوئے دیکھے گا تو بچے کو بھی ناچنے اور گانے کی عادت ہی پڑے گی۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت محمد اسلم، جامعۃ المدینہ ام حبیبہ راشدی گوٹھ کراچی

بچوں کی تربیت ہر معاشرے کا بنیادی عنصر ہے، کیونکہ
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو ایک مہذب اور اچھا انسان بنائیں۔ تاہم، بعض
وجوہات کی بنا پر اولاد میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ جس سے نہ صرف بچے خود متاثر ہوتے
ہیں بلکہ خاندان اور معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں ہم کچھ بنیادی
وجوہات پر بات کریں گے جن کے باعث بچے بگڑ جاتے ہیں۔
1۔ والدین کی عدم توجہ: والدین
کی مصروفیات اور ان کی جانب سے وقت کی کمی بچوں میں بگاڑ کا ایک اہم سبب ہے۔ بچے
والدین کی توجہ چاہتے ہیں اور وہ یہ توجہ حاصل نہیں کرتے تو وہ دوسروں میں سکون و
توجہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات یہ انہیں برے لوگوں کی صحبت کی طرف لے جاتی ہے۔
جس کا اثر ان کی زندگی اور شخصیت پر منفی انداز میں پڑتا ہے۔
2۔ دوستانہ اور مثبت ماحول کا فقدان: گھر کا
ماحول بچوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر والدین کا
رویہ سخت اور بے لچک ہو تو بچے خود کو محدود محسوس کرتے ہیں اور اپنی باتیں اور
مسائل والدین کے ساتھ بانٹنے سے گھبراتے ہیں۔ اس کے برعکس،ایک دوستانہ ماحول میں
بچہ اپنے مسائل کو والدین کے ساتھ شیئر کرتا ہے جس سے والدین انہیں صحیح رہنمائی
فراہم کر سکتے ہیں۔
3۔ مذہبی اور اخلاقی تربیت کی کمی: اسلامی
تعلیمات اور اخلاقی اصول بچوں کو نیک اور دیندار انسان بننے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر
والدین اپنے بچوں کو دینی تعلیمات سے دور رکھیں اور انہیں اچھے برے کی تمیز نہ
سکھائیں تو وہ معاشرتی برائیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی دینی
اور اخلاقی تربیت فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے راستے سے نہ بھٹکیں۔
4۔ حد سے زیادہ سختی یا آزادی: بچوں
کی تربیت میں سختی اور آزادی دونوں ضروری ہیں،مگر دونوں میں توازن کا ہونا بھی
ضروری ہے۔اگر والدین زیادہ سختی کریں تو بچے ضدی اور باغی ہو سکتے ہیں، جبکہ زیادہ
آزادی دینے سے بچے اپنی مرضی کے مطابق غلط سرگرمیوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ والدین
کو چاہیے کہ وہ اعتدال کے ساتھ بچوں کو اپنی محبت اور رہنمائی فراہم کریں۔
5۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غیر مناسب
استعمال: آج
کل سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بچوں کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں،مگر ان کا غیر مناسب
اور بے جا استعمال بچوں میں بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ بہت سے بچے انٹرنیٹ پر
ناپسندیدہ مواد دیکھتے ہیں یا غلط سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ جو ان کی شخصیت
اور ذہنی نشوونما پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔

دور حاضر میں دیکھا جائے تو اولاد بگڑنے کاسب سے
بڑا سبب جو سامنے آیا وہ ہے موبائل فون جیسا فتنہ، دیکھا جائے تو بچے بچے کے ہاتھ
میں موبائل فون نظر آتا ہے اور انٹرنیٹ جیسی بیماری ہر گھر کی ضرورت بنی ہوئی ہے
جب بچوں کے پاس موبائل فون ہوتا ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں یہاں تک کے موبائل
فون کے آگے ہماری اولادیں کھانا بھی بھول جاتی ہیں بچے راتوں تک بےحیائی فلمیں
ڈرامے دیکھنے میں مشغول ہوتے ہیں اور پھر اس بےحیائی کو فیشن سمجھ کر اپنا لیتے
ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ بچوں کو دینی ماحول فراہم نہیں کیا جاتا اگر
دیکھا جائے تو آج کل والدین کے پاس بھی اولاد کے لیے وقت نہیں ہے جبکہ اولاد اللہ
کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے انکی پرورش کی ذمہ داری ماں اور باپ دونوں کی ہوتی
ہے۔
فرمان مصطفیٰ ﷺ: تم سب نگران ہو اور تم سب میں سے ہر
ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا بادشاہ نگران ہے اس سے اسکی
رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے
اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران
ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ایک بڑی وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ والدین کا ایک
دوسرے پر چلانا جھگڑا کرنا بھی بچوں کی تربیت پر برا اثر ڈالتا ہے جب والدین ایک
دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو اولادیں کیسے ادب کریں گی والدین کو چاہیے اپنے گھر
میں دینی ماحول بنائیں بچوں کو اولیائے کرام کی باتیں بتائیں نبیوں کے واقعات
سنائیں ان شاللہ اگر اللہ نے چاہا تو ہمارے گھروں کا ماحول بھی دینی بن جائے گا
اور ہماری بگڑی اولادیں بھی سنور جائے گی۔
ایک سبب یہ بھی ہے کہ کچھ والدین تعلیم کی کمی کے
باعث اپنی اولادوں کو دوسرے لوگوں کے سامنے انکو ڈانٹ دیتے ہیں ہر بات پر روک ٹوک
کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اپنے والدین سے بد ظن ہو جاتے ہیں اور اپنے والدین کو
اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں کیوں کہ والدین گھر میں اپنی اولادوں کی تربیت پر توجہ
نہیں دیتے۔
ایک سبب یہ بھی ہے کے کچھ والدین اپنے بچوں کی ہر
بات اور کام پر کہتے ہیں: تم نے ٹھیک نہیں کیا اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی نہیں
کرتے انکو دوسرے بچوں کی مثالیں دیتے ہیں اگر بچے نے کبھی کوئی اچھا کام کیا پھر
بھی ہم اسکی حوصلہ افزائی نہیں کرتے نہ اس میں کوئی نہ کوئی عیب نکال دیتے ہیں اس
وجہ سے بھی اولادیں بگڑ جاتی ہیں۔
اولادوں میں فرق کرنے کی وجہ سے بھی ایک کی تعریف
کرنا دوسرے کی خامیاں نکالنا اس وجہ سے ان بہن بھایوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہیں
وہ بہن بھائی ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں والدین کی کم عقلی کی وجہ سے
اولاد کی تربیت کی ذمہ داری ماں اور باپ دونوں کی ہوتی ہے والدین کو اولاد کے معاملات
میں ایک ہو کر کام لینا چاہیے جب والدین کی رائے الگ الگ ہوگی ماں کچھ کہے باپ کچھ
کہے اس سبب سے بھی اولاد کا نقصان ہوتا ہے اور وہ بگڑ جاتی ہے انہیں خود بھی علم نہیں
رہتا وہ کس کی رائے کو ترجیح دے اس سے بھی اولاد بگڑ جاتی ہے جب والدین ایک ہو جائیں
گے ہماری اولادیں بھی سنور جائیں گی۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت ہدایت اللہ،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ

اولاد اللہ پاک کی طرف سے ہمارے لیے ایک عظیم نعمت
ہے اس کے ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ
تعالی اس کو نیک اولاد اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اس کی انکھوں
کی ٹھنڈک بنے اور اخرت میں بھی اس کی نجات کا ذریعہ۔ اولاد کے نیک بننے میں والدین
کی تربیت کا بہت بڑا عمل دخل ہے جو والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں تو
اللہ پاک ان کو اس کا صلہ ضرور عطا کرتا ہے اولاد کی تربیت دین کی تعلیمات کے
مطابق کرنا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن آج کل کے دور میں اس کا فقدان ہے اکثر
والدین اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی اولاد بگڑ گئی ہے بات نہیں مانتی بدتمیز
ہے صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ۔
اولاد کی تربیت کیسے کی جائے؟ اس کے بہترین رہنما
اصول قران پاک میں بیان کیے ہیں، اپنی اولاد کو بری عادات کے ذریعے بگاڑنے کے
بجائے اپنی اولاد کو صدقہ جاریہ بنائیں انہیں برے کاموں سے روک کر اچھے کاموں کی
عادت ڈالیں کہ یہ آپ کے لیے دنیا میں تو فخر بنے بلکہ آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ
بنے اس کے بارے میں ایک واقعہ ہے ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ مردے قبروں سے نکل
کر زمین میں کوئی چیز سمیٹ رہے ہیں لیکن یہ ایک شخص نہایت اطمینان سے بیٹھا ہوا ہے
اس سے پوچھا کہ لوگ کیا چن رہے ہیں اس نے جواب دیا کہ زندہ لوگوں کے صدقے دعا یا
درود وغیرہ کی برکات سمیٹ رہیں اس سے پوچھا تم کیوں نہیں چنتے جواب دیا میرا ایک
بیٹا حافظ قران ہے جو روزانہ قران ایک قران پڑھ کر مجھے بخشتا یعنی ایصال ثواب
کرتا ہے۔ (روض الریاحین، ص 177 ملخصاً)
حضور ﷺ نے فرمایا: جب انسان مر جاتا ہے تو تین
اعمال کے علاوہ اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے نفع اٹھایا
جاتا ہو اور نیک اولاد۔ (مسلم، ص 684، حدیث: 4223)
فرمانِ امیر اہل سنت: نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے
اور ان کی دعاؤں کے طفیل فوت شدہ والدین کے لیے آسانیاں ہوتی ہیں اولاد کو نیک
بنانے کے لیے دعوت اسلامی کا دینی ماحول ایک بہترین ذریعہ ہے۔ (فیضان سنت، 1/357)
ہماری اولاد ہمارا سرمایہ ہے مگر ہم اس کی تربیت کے
حوالے سے کمزور ہیں ہماری اولاد کو برائیوں کی دیمک لگتی جا رہی ہے اگر ہم نے
انہیں اللہ کی نافرمانی اور جہنم سے بچانا ہے تو سب سے پہلے انہیں قرآن کریم کی تعلیم
دیں اور دین کی ضروری باتیں سکھائیں۔
اولاد بگڑنے کے اسباب: اولاد
بگڑنے میں والدین کا بھی ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ جب اولاد برے ناجائز کام کرتی ہے تو
والدین منع نہیں کرتے یہ کہہ کر درگزر کر دیتے ہیں کہ ابھی بچہ ہے بڑا ہوگا تو
سیکھ جائے گا کیسے سیکھ جائے گا بغیر سکھائے ہی سیکھ جائے گا تب منع نہیں کرتے تو
جب بگڑ جاتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ اولاد بات نہیں مانتی چھوٹی عمر میں ہی بچے
سیکھتے ہیں تو تب منع ہی نہیں کرتے اور نہ ہی کچھ سکھاتے ہیں والدین اولاد کو
بگاڑنے کے اسباب خود ہی پیدا کرتے ہیں سب سے بڑا سبب انہیں روکتے نہیں یہ کام نہیں
کرتا دوسرا سبب موبائل انٹرنیٹ ہے جس کے ذریعے اولاد بگڑ جاتی ہے اگر انٹرنیٹ کے
فوائد ہیں تو اتنے ہی نقصان بھی ہیں جیسا دیکھتے ہیں تو ویسا ہی کرتے ہیں اس لیے
اپنی اولاد کو ان سب چیزوں سے بچائیں تیسرا سبب کہ اولاد کیسی صحبت میں اٹھتی
بیٹھتی ہے بری صحبت کے ذریعے بھی اولاد بگڑ جاتی ہے۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت رمضان احمد، فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ

شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، اور انہیں پالنا کوئی
بڑا کام نہیں ہے یہ تو غیر مسلم بھی کر رہے ہیں جانور اور پرندے بھی کر رہے ہیں۔ مسلمان
ماں باپ کی حقیقی ذمہ داری اپنی اولاد کو دین کی تربیت دینا، اسلام والا ماحول
فراہم کرنا ہے۔ تاکہ اپنے بعد ایمان والی نسلیں چھوڑ جائیں۔ بروز قیامت ایک بڑا
سوال آپکی اولاد کے متعلق بھی پوچھا جائے گا!
یاد رکھئے! اگر سستی سے کام لیتے ہوئے اولاد کی
اچھی تربیت نہ کی توبروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں اس کا جواب دینا ہوگا، حضور
اکرم ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے
ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے
بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال
کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولادکی نگران ہے،اس سے ان
کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)
آئیے! اولادکی تربیت کے حوالے سے چند مدنی پھول
سنتے ہیں، جن کی روشنی میں ہم اپنے بچوں کی صحیح مدنی تربیت کرسکتے ہیں۔
بےجا لاڈ پیار: بچوں کے بگڑنے
کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچپن ہی سےباپ ان کی ہرخواہش کو پوری کرتا چلاجاتا
ہے،نتیجتاً بچے ضدی اور اپنی بات منوانے کے عادی بن جاتے ہیں، اس کا نقصان یہ
ہوتاہے کہ بعض اوقات کسی مجبوری کے سبب،باپ ان کی کوئی خواہش پوری نہ کرسکے تو بچے
رونا دھونا شروع کردیتے ہیں اورپھر باپ کوچاہتے،نہ چاہتے ہوئے،ان کی بات ماننی ہی پڑتی
ہے، جب بچے کا یہ ذہن بن جاتاہے کہ،جو روتاہےاس کا کام ہوتاہے،تو پھرآئے دن رو پیٹ
کر نت نئی فرمائشیں پوری کروانا ان کا معمول بن جاتاہےاوراس طرح یہ سلسلہ تھمنے کے
بجائے مزید بڑھتاہی چلاجاتا ہے۔لہٰذا اس کاحل یہی ہے کہ بچوں کی بے جاضدکے آگے
خودکوبے بس سمجھ کران کی ہربات اور مطالبات کو پورا کرنے سے گریز کیجئے، ورنہ یہ
لاڈ پیار ان کے بگاڑکاسبب بن سکتاہے۔
سب کے سامنے مت جھڑکیے: بچوں
کی تربیت کرنے میں ایک احتیاط یہ بھی کیجئے کہ ان کی غلطی پرسمجھاتے وقت سب کے
سامنے بلندآواز سےسمجھانے، ڈانٹنےیاجھڑکنے سے بچیے کیونکہ اس انداز سے قوی امکان
ہےکہ ان کی دل آزاری بھی ہو اوربات بھی بے اثر ہوجائے اور اس طرح سمجھانے سے بچہ
بھی ڈھیٹ بن سکتاہے،لہٰذا موقع پاکرتنہائی میں سمجھائیے،جیسا کہ حضرت ابو درداء
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس نے اپنے بھائی کو سب کے سامنے نصیحت کی، اس نے اس کو
ذلیل کر دیا اور جس نے تنہائی میں نصیحت کی اس نے اس کو مزیّن (آراستہ) کر دیا۔
(شعب الايمان،6/112، حديث:7441)
اولاد پر کڑی نظر رکھئے! اسی
طرح باپ کی ایک ذمّہ داری یہ بھی ہے کہ اپنی اولادپرکڑی نظر رکھے کہ اس کا
اٹھنابیٹھناکن لوگوں کے ساتھ ہے،لیکن فی زمانہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے اور بعض
کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ہمارے گھر کا ماحول سلجھا ہواہے،ہم نے اپنے بچے کی اچھی
تربیت کی ہے،ہمیں یقین ہے وہ کسی غلط راستے پر نہیں جاسکتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کےگھر
کا ماحول اچھا ہومگرآپ کا بچہ جس اسکول یا کالج میں جاتاہے،یا گلی محلے کے دوستوں
کے ساتھ اٹھتا بیٹھتاہے،ان میں ہر طرح کے اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، اس بات کی کیا
گارنٹی ہے کہ اسے وہاں بھی گھرجیسا ہی ماحول میسرہوگا۔لیکن باپ اسی خوش فہمی میں
مبتلا رہتاہے کہ میرابچہ بہت شریف ہے اوربچہ برے دوستوں کی صحبت میں پھنس کرجرائم کی
دنیا میں غرق ہوجاتاہے اور باپ کواس وقت ہوش آتاہے جب اس کا ہونہار بیٹا منشیات یا
فحاشی کے اڈّوں سے گرفتار ہوکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلاجاتاہے۔لہٰذا باپ کی ذمہ
داری صرف یہی نہیں کہ پیسہ بنانے کی مشین بن کرخوب دولت اکٹھی کرے اور اپنی اولاد
کو اچھے سےاچھا کھلائے پلائے اور دنیا کی ہر آسائش وسہولت انہیں مہیا کرنے کی کوشش
کرے بلکہ ان کی اچھی پرورش کے ساتھ ساتھ انہیں دینی تعلیم سکھانا،قرآن پڑھانا،فرض
علوم سکھانا،نبی ﷺ کی محبت سکھانا،اخلاق اچھے کرنے کی کوشش کرنا، نیکیوں کی طرف
راغب کرنا اور بری صحبت سے بچانابھی باپ پر لازم ہے،بروز قیامت اس کے بارے میں بھی
اس سے پوچھاجائے گا۔
اللہ مجھے دیکھ رہا ہے: حضرت
سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میری عمر 3 سال تھی اور میں رات
کو اٹھ کر اپنے ماموں حضرت محمد بن محمدبن سوّاررحمۃ اللہ علیہ کو تنہائی میں نمازپڑھتے
دیکھتا تھا۔ ایک دن میرے ماموں نے مجھ سے پوچھا: کیا تو اس اللہ کویاد نہیں کرتا
جس نے تجھے پیدا کیا؟ میں نے پوچھا:میں اسے کس طرح یاد کروں؟ انہوں نے فرمایا:جب
تم بستر پر لیٹنے لگو تو 3 بار زبان کو حرکت دئیے بغیر محض دل میں یہ کلمات کہو: اللہ
معی،اللہ ناظرٌ الیّ،اللہ شاھدی یعنی اللہ میرے ساتھ ہے، اللہ مجھے
دیکھ رہا ہے اللہ میرا گواہ ہے۔
آپ فرماتے ہیں: میں نے چند راتیں یہ کلمات پڑھے پھر
انہیں بتایا تو انہوں نے فرمایا: ہر رات 7 مرتبہ پڑھو۔ میں نے انہیں پڑھا،پھر
بتایا تو فرمایا: ہر رات 11 مرتبہ یہ کلمات پڑھو۔ میں نے اسی طرح پڑھا، تومیں نے
اس کی لذّت اپنے دل میں محسوس کی۔ جب ایک سال گزرگیا تو میرے ماموں نے مجھ سے
فرمایا:میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے یاد رکھو اورقبر میں جانے تک ہمیشہ
پڑھتے رہنا، تمہیں دنیا وآخرت میں نفع دے گا۔ میں نے کئی سال تک ایسا کیا تو اپنے
اندر اس کی لذّت کومحسوس کیا۔ پھر ایک دن میرے ماموں نے فرمایا: اے سہل ! اللہ جس
شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہواوراس کاگواہ ہو، وہ اس کی نافرمانی کیسے کرسکتا ہے؟
لہٰذااپنے آپ کو گناہ سےبچاؤ۔ (رسالۃ قشیریۃ، ص 39)
دیکھا آپ نے حضرت محمد بن محمدبن سوّاررحمۃ اللہ علیہ
نے اپنے بھانجے کی کس پیارے انداز سے مدنی تربیت فرمائی کہ بغیرڈانٹے،جھڑکے مدنی
پھول عطا فرمایا کہ کیا تو اس اللہ کویاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا؟ پھر
بھانجے بھی کیسے باعمل تھے کہ اپنے ماموں جان سے ملنے والے مدنی پھول کو دل وجان
سے قبول کرتے ہوئے، اس پرعمل کرنا شروع کردیااوراس کی برکت سے کیسے کیسے انوارو
تجلّیات سے نوازے گئے۔جی ہاں!یہ خوش نصیب بچہ آگے چل کرمقام ولایت پر فائز ہوا،جس
کو دنیا اب حضرت سہل بن عبد اللہ تستری
رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے اورجن کا فیضان اب بھی جاری و ساری ہے۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت منور حسین، جامعۃ المدینۃ معراج کے سیالکوٹ

اَلْعِلْمُ في صِغَرِهِ كالنَّقْشِ عَلَى الحَجَریعنی
بچپن میں سیکھنا پتھر پہ لکیر کی طرح ہے۔ عربی کی یہ کہاوت جتنی مشہور ہے اتنی ہی
سچّی بھی ہے، بچہ جو باتیں اور اخلاقیات سیکھتا ہے زندگی بھر انہیں پر عمل کرتا
ہے، چاہے وہ اچھائی کا سیدھا راستہ ہویا برائی کی تاریک وادی ہو۔ اگر آج ہم اپنے
بچّوں کی مدنی تربیت کریں گے تو ہی آگے چل کر وہ ملک وقوم کے خدمت گار اور معاشرے
کے بہتریں افراد بنیں گے۔
نیک اولاد اللہ تبارک وتعالیٰ کا عظیم انعام ہے
اولاد صالح کے لیے اللہ کے پیارے نبی حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی دعا مانگی
چنانچہ قرآن پاک میں ہے: رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ
ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) (پ3، اٰل
عمران: 38) ترجمہ کنز الایمان: اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے ستھری اولاد بے شک تو
ہی دعا سننے والا۔
نبی کریم ﷺ پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے، آپ
نے لوگوں کو جینے کا ڈھنگ سکھایا، عرب کا وہ معاشرہ جہاں بچیوں کو زندہ دفن کر دیا
جاتا تھا، وہاں آپ نے بچیوں کو ان کے حقوق فراہم کیے اور خود بھی بچیوں کے ساتھ
شفقت سے پیش آنے کا عملی نمونہ پیش فرمایا۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے والدین کی اوّلین ذمّہ
داری ہے کہ اپنی اولاد کو حضور سرور کائنات ﷺ کی محبّت سکھائیں چنانچہ امیر
المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ
تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ نور والے آقا، مدینے والے مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا:
اپنی اولاد کی تین خصلتوں پر تربیت کرو: (1) اپنے نبی ﷺ کی محبّت۔ (2) اہل بیت پاک
کی محبّت۔ (3) تلاوت قرآن۔بے شک قرآن کی تلاوت کرنے والا انبیاواصفیا کے ساتھ اس
روز عرش الہی کے سائے میں ہو گا جس دن عرش الہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا۔(جمع
الجوامع،1/ 126، حدیث: 782)
محمد
کی محبّت دین حق کی شرط اول ہے
اسی
میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
آج ہمارے معاشرے کی یہ ایک بد نما حقیقت ہے کہ
والدین کا اخلاق تو منفی ہوتا ہے لیکن بچے کے اخلاق کو مثبت دیکھنے کی خواہش ہوتی
ہے، والدین خود چاہے کتنے ہی غصیلے مزاج کے ہوں لیکن بچہ خوش مزاج ہونا چاہیے،
والدین خود بے پرواہ ہوں لیکن بچہ احساس ذمہ داری والا ہونا چاہیے، والدین خود
گالی گلوچ کے عادی ہوں لیکن بچے کی زبان پر گالی نہیں آنی چاہیے، غرض یہ کہ بچے کی
تربیت کے اس دوہرے معیار کی وجہ سے ہماری موجودہ نسل عملی طور پر کمزور اور مضطرب
نظر آتی ہے، ان میں نہ اخلاق کی مضبوطی ہوتی ہے، نہ عمل کی رغبت، ایسا ہونے سے پھر
بچے بگڑتے ہے اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔
(1)۔والدین بچوں سے اکثر یہ کہتے ہیں کہ کوئی مشکل
میں ہوتو اس کی مدد کرنی چاہیے اس سے اللہ پاک خوش ہوتا ہے اور ثواب بھی ملتا ہے،
لیکن وہی بچہ جب والد یا والدہ سے اپنی پڑھائی کے سلسلے میں مدد چاہتا ہے تو
والدین مصروفیت کی بنا پر اسے ٹال دیتے ہیں، اس تاثر سے بچے کے ننھے ذہن میں بیٹھ
جاتا ہے کہ مشکل میں کسی دوسرے کی مدد کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ زندگی بہت مصروف ہے۔
(2)۔ بچے کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ زندگی میں
ہمیشہ سچ بولنا چاہیے، لیکن اس نے اس بات سے مشاہدہ کیا کہ جب ابو کا کوئی دودست
ملنے آیا ہے تو ابو نے اسی بچے کو یہ پیغام دے کر بیجھا کہ جا کر کہہ دو کہ ابو
گھر پر نہیں ہے اس عملی مشاہدے سے بچے نے یہ سیکھا کہ جب کسی کام سے بچنا ہو تو
جھوٹ کا سہارا لے لینا چاہیے۔
(3)۔ بچے نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ غصہ کرنا، لڑائی
جھگڑا کرنا، گالی گلوچ یہ سب باتیں گندی ہے اچھے لوگ ایسے کام نیں کرتے، لیکن بچے
نے بار ہا یہ بھی دیکھا ہے کہ ممّی پاپا کی اکثر لڑائی ہوتی ہے اور جب بھی پاپا کو
غصہ آتا ہے پاپا مما کو گالیاں بھی دیتے ہے اور مارتے پیٹتے بھی ہیں، اب بچے کے
ذہن میں پھر یہ بات بیٹھ گئی کہ غصہ کرنا، لڑائی جھگڑا کرنا،گالی گلوچ یہ سب باتیں
بری تو ہے لیکن جس پر غصہ آجائے تو اس کا حل یہی ہے کہ غصہ اتار دیا جائے اور برا
بھلا کہہ کر دل ٹھنڈا کر لیا جائے۔
محترم والدین کرام ! یہ چند مثالیں اور ان کے نتیجے
ہمارے سامنے ہیں کہ بچے ہمارے افعال سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ اس سے پتہ یہی چلا کہ
والدین کے ایسا کرنے سے بچے کتنا بگڑ جاتے ہیں اگر والدین کی یہ خواہش ہے کہ بچوں
کی تربیت اعلی اخلاق پر ہو تو پہلے والدین کو خود اپنی اخلاقی حالت درست کرنی
ہوگی، اپنے رویّے اور زندگی گزارنے کے انداز میں تبدیلی لانی ہوگی۔
میری
آنے والی نسلیں تیرے عشق ہی میں مچلیں

فی زمانہ یہ ایک پریشان کن مسئلہ بن گیا ہے کہ آج
کل کے بچے سدھار کی طرف کم بلکہ بگاڑ کی طرف زیادہ مائل ہے۔یہ بچپن یا لڑکپن کے
زمانے کا بگاڑ سن بلوغ تک پہنچنے کے بعد چنگاری سے شعلہ بن جاتا ہے اس سلسلے میں
بچوں کےبگاڑ کے اسباب بہت زیادہ پیدا ہورہے ہیں۔
سب سے بڑا بگاڑ: والدین کا
اپنے بچوں میں ایک کوترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بےتوجہی برتنا بھی بچوں کے
بگڑنے کا ایک بڑا سسب ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن،جلن،حسد،نفرت،مایوسی اور
رقابت وبغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور وتکبر برتری وغیرہ
کےاسباب پیدا ہو جاتے ہیں۔
یہ بات نہایت قابل غور اور یاد رکھنے کے لائق ہے۔
جو احادیث سے بھی اور سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہے کہ بچہ تقریباً پانچ سال کی
عمر تک اپنے اطراف و جوانب جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن و
قلب پر نقش ہو جاتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ چند ماہ کا بھی نہیں ہوپاتا کہ
ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے
اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے اندر جذب کر چکا ہوتا ہے۔
سوچے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟ بچوں
کو اگر بچپن ہی میں غلط ماحول ملے جہاں حرام و حلال کی کوئی تمیز نہ ہو اور نہ ہی
وہ کسی کے حقوق جانتے ہونگے۔اور نہ ہی فرائص سے آگاہ ہونگے۔ گھر والوں کے آپس کے
اختلاف، جھگڑے، ہر ایک کو اپنے مفاد کی فکر، دوسروں کو ذلیل کرنا، جھوٹ بولنا، فحش فلمیں خود بھی دیکھنا اور بچوں
کو دکھانا۔فیشن و بےپردگی جن کو محبوب و مرغوب ہو، باترجمہ و تشریح قرآن و حدیث کا
مطالعہ اور دینی احکام جاننے اور ان پر عمل کی کوششوں اور دینی و تعمیری کاموں میں
حصہ لینے کی بجائے رومانی و فحش ناولوں کا جن کے گھروں میں چرچا ہو، دنیاوی
رنگینیوں میں مست ہوں کہ ذرہ برابر بھی خوف خدا ان کے دلوں میں نہ ہو اور نہ عذاب
آخرت سے بچنے کے لیے کوئی فکر ہو اور جن کی زندگیوں کا کوئی مقصد ہی نہ ہو۔ ایسے
ماحول سے کیوں کر آس لگائی جائے کہ وہاں کے بچے نیک صالح اور با اخلاق وبا کردار
بن کر پروان چڑھیں گے۔ اور پھر آس لگائی جارہی ہے کہ بچے نہ بگڑیں۔
محبت وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے والدین
خصوصاً والد کو اس بات کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی پرورش حرام کمائی
سے نہ کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو گوشت(جسم)حرام سے پرورش یافتہ ہے اس کا ٹھکانا
جہنم ہے۔ (معجم اوسط، 5/34، حدیث: 6495)
ظاہر ہے جہنم میں جانے والا جسم کیسے نیک اور صالح
بن سکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب والدین ہی اپنے بچوں کو ایک نظر سے نہ دیکھیں
گے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں گے تو ان کے دلوں میں نفرت ہی پیدا ہوگی اور
جب بچوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوگی تو کیسے نہیں بچے بگڑیں گے۔
بچوں کے سامنے طنز آمیز باتیں کرنا کہ یہ تو ناکارہ
ونالائق ہے۔ اسکو تو کچھ کرنا ہی نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔ بچوں کو زیادہ مارنا جس کی
وجہ سے بچے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔ ان پر کوئی بات اثر نہیں کرتی۔ اور پھر موبائل فون
کا استعمال جس کی وجہ سے بچے زیادہ بگڑ رہے ہیں۔
وہ لاپرواہ والدین جو اپنی اولاد کی تربیت پر آج کل
اپنے وقت کو صرف نہیں کر رہے ان کی اولاد بھی کل ان کو کوئی اہمیت نہیں دے گی اور
ان کے بڑھاپے کے وقت ان کی اولاد ان کو وقت نہ دے گی۔
بے تربیت اولاد کے نقصان کی طرف سورہ زمر کی آیت
نمبر 15 میں کہا گیا: قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ
خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اَلَا ذٰلِكَ هُوَ
الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ(۱۵) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ پوری ہار انہیں جو اپنی جان اور اپنے گھر والے
قیامت کے دن ہار بیٹھے ہاں ہاں یہی کُھلی ہار ہے۔
روایات میں ہے کہ خدا ایسے ماں باپ پر لعنت کرے جو
بچے کے عاق ہونے کا سبب بنیں۔