اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت منور حسین، جامعۃ المدینۃ معراج کے سیالکوٹ
اَلْعِلْمُ في صِغَرِهِ كالنَّقْشِ عَلَى الحَجَریعنی
بچپن میں سیکھنا پتھر پہ لکیر کی طرح ہے۔ عربی کی یہ کہاوت جتنی مشہور ہے اتنی ہی
سچّی بھی ہے، بچہ جو باتیں اور اخلاقیات سیکھتا ہے زندگی بھر انہیں پر عمل کرتا
ہے، چاہے وہ اچھائی کا سیدھا راستہ ہویا برائی کی تاریک وادی ہو۔ اگر آج ہم اپنے
بچّوں کی مدنی تربیت کریں گے تو ہی آگے چل کر وہ ملک وقوم کے خدمت گار اور معاشرے
کے بہتریں افراد بنیں گے۔
نیک اولاد اللہ تبارک وتعالیٰ کا عظیم انعام ہے
اولاد صالح کے لیے اللہ کے پیارے نبی حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی دعا مانگی
چنانچہ قرآن پاک میں ہے: رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ
ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) (پ3، اٰل
عمران: 38) ترجمہ کنز الایمان: اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے ستھری اولاد بے شک تو
ہی دعا سننے والا۔
نبی کریم ﷺ پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے، آپ
نے لوگوں کو جینے کا ڈھنگ سکھایا، عرب کا وہ معاشرہ جہاں بچیوں کو زندہ دفن کر دیا
جاتا تھا، وہاں آپ نے بچیوں کو ان کے حقوق فراہم کیے اور خود بھی بچیوں کے ساتھ
شفقت سے پیش آنے کا عملی نمونہ پیش فرمایا۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے والدین کی اوّلین ذمّہ
داری ہے کہ اپنی اولاد کو حضور سرور کائنات ﷺ کی محبّت سکھائیں چنانچہ امیر
المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ
تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ نور والے آقا، مدینے والے مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا:
اپنی اولاد کی تین خصلتوں پر تربیت کرو: (1) اپنے نبی ﷺ کی محبّت۔ (2) اہل بیت پاک
کی محبّت۔ (3) تلاوت قرآن۔بے شک قرآن کی تلاوت کرنے والا انبیاواصفیا کے ساتھ اس
روز عرش الہی کے سائے میں ہو گا جس دن عرش الہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا۔(جمع
الجوامع،1/ 126، حدیث: 782)
محمد
کی محبّت دین حق کی شرط اول ہے
اسی
میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
آج ہمارے معاشرے کی یہ ایک بد نما حقیقت ہے کہ
والدین کا اخلاق تو منفی ہوتا ہے لیکن بچے کے اخلاق کو مثبت دیکھنے کی خواہش ہوتی
ہے، والدین خود چاہے کتنے ہی غصیلے مزاج کے ہوں لیکن بچہ خوش مزاج ہونا چاہیے،
والدین خود بے پرواہ ہوں لیکن بچہ احساس ذمہ داری والا ہونا چاہیے، والدین خود
گالی گلوچ کے عادی ہوں لیکن بچے کی زبان پر گالی نہیں آنی چاہیے، غرض یہ کہ بچے کی
تربیت کے اس دوہرے معیار کی وجہ سے ہماری موجودہ نسل عملی طور پر کمزور اور مضطرب
نظر آتی ہے، ان میں نہ اخلاق کی مضبوطی ہوتی ہے، نہ عمل کی رغبت، ایسا ہونے سے پھر
بچے بگڑتے ہے اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔
(1)۔والدین بچوں سے اکثر یہ کہتے ہیں کہ کوئی مشکل
میں ہوتو اس کی مدد کرنی چاہیے اس سے اللہ پاک خوش ہوتا ہے اور ثواب بھی ملتا ہے،
لیکن وہی بچہ جب والد یا والدہ سے اپنی پڑھائی کے سلسلے میں مدد چاہتا ہے تو
والدین مصروفیت کی بنا پر اسے ٹال دیتے ہیں، اس تاثر سے بچے کے ننھے ذہن میں بیٹھ
جاتا ہے کہ مشکل میں کسی دوسرے کی مدد کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ زندگی بہت مصروف ہے۔
(2)۔ بچے کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ زندگی میں
ہمیشہ سچ بولنا چاہیے، لیکن اس نے اس بات سے مشاہدہ کیا کہ جب ابو کا کوئی دودست
ملنے آیا ہے تو ابو نے اسی بچے کو یہ پیغام دے کر بیجھا کہ جا کر کہہ دو کہ ابو
گھر پر نہیں ہے اس عملی مشاہدے سے بچے نے یہ سیکھا کہ جب کسی کام سے بچنا ہو تو
جھوٹ کا سہارا لے لینا چاہیے۔
(3)۔ بچے نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ غصہ کرنا، لڑائی
جھگڑا کرنا، گالی گلوچ یہ سب باتیں گندی ہے اچھے لوگ ایسے کام نیں کرتے، لیکن بچے
نے بار ہا یہ بھی دیکھا ہے کہ ممّی پاپا کی اکثر لڑائی ہوتی ہے اور جب بھی پاپا کو
غصہ آتا ہے پاپا مما کو گالیاں بھی دیتے ہے اور مارتے پیٹتے بھی ہیں، اب بچے کے
ذہن میں پھر یہ بات بیٹھ گئی کہ غصہ کرنا، لڑائی جھگڑا کرنا،گالی گلوچ یہ سب باتیں
بری تو ہے لیکن جس پر غصہ آجائے تو اس کا حل یہی ہے کہ غصہ اتار دیا جائے اور برا
بھلا کہہ کر دل ٹھنڈا کر لیا جائے۔
محترم والدین کرام ! یہ چند مثالیں اور ان کے نتیجے
ہمارے سامنے ہیں کہ بچے ہمارے افعال سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ اس سے پتہ یہی چلا کہ
والدین کے ایسا کرنے سے بچے کتنا بگڑ جاتے ہیں اگر والدین کی یہ خواہش ہے کہ بچوں
کی تربیت اعلی اخلاق پر ہو تو پہلے والدین کو خود اپنی اخلاقی حالت درست کرنی
ہوگی، اپنے رویّے اور زندگی گزارنے کے انداز میں تبدیلی لانی ہوگی۔
میری
آنے والی نسلیں تیرے عشق ہی میں مچلیں