میرے پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے بزگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم بہت ذوق و شوق سے مطالعہ کیا کرتے تھےبطور ترغیب دو حکایتیں ملاخطہ کیجئے :

امام شیبانی (علیہ رحمة اللہ الغنی)کا شوقِ مطالعہ :

امام شیبانی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ شب بیداری فرمایا کرتے تھے آپ کے پاس مختلف قسم کی کتابیں رکھی ہوتی تھیں جب ایک فن سے اُکتا جاتے تو دوسرے فن کے مطالعے میں لگ جاتے اور یے بھی منقول ہے آپ اپنے پاس پانی رکھا کرتے تھے جب نیند کا غلبہ ہونے لگتا تو پانی کے چھینٹے دے کر نیند کو دورفرما لیتے اور فرمایا کرتے تھے نیند گرمی سے لہٰذا اسے ٹھنڈے پانی سے دور کرو۔

(تعلیم المتعلم طریق التعلم ۱۰)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مطالعے کا اتنا شوق تھا آپ رات کے تین حصے کرتے، ایک حصہ میں عبادت، ایک حصہ میں مطالعہ، اور بقیہ حصہ میں آرام فرماتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں ؛ مجھے اپنے والد کی میراث میں تیس ہزار درہم ملے تھے۔ اُن میں سے پندرہ ہزار میں نے علم نحو، اور شعر و ادب اور لغت وغیرہ کی تعلیم و تحصیل میں خرچ کیا۔ اور پندرہ ہزار حدیث و فقہ کی تکمیل پر خرچ کیا ۔(تاریخِ بغداد ج ۲، ص ۱۷۰ دارلکتب علمیہ بیروت)

حضرت شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی کا شوقِ مطالعہ:

محقق علی الا طلاق، خاتم المحدثین حضرت علّامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کُتُب بینی کا حال بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں مطالعہ کرنا میرا شب و روز کا مشغلہ تھا۔ بچپن سے ہی میرا یہ حال تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ کھیل کود کیا تھا ۔؟

بار ہا ایسا ہوا کہ مطالعہ کرتے آدھی رات ہو گئی تو والد مترم سمجھاتے بابا! کیا کرتے ہو ۔؟ یہ سُنتے ہی فوراً لیٹ جاتا اور جواب دیتا ؛ سونے لگا ہوں،، پھر کچھ دیر گزر جاتی تو اُٹھ بیٹھتا اور پھر سے مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔ بسا اوقات یوں بھی ہوا کہ دورانِ مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر جُھلس جاتے لیکن مطالعے میں مگن ہونے کی وجہ سے پتا نہ چلتا۔،،

(اشعۃ العمات ج ۱ مقدمہ ص ۷۲ مطبوعہ فرید بک سٹا ل لاہور)

مطالعہ علم کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہےجس کی اہمیت کے پیش نظر بزرگان دین نے اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات کتب بینی میں صرف کیے ہیں۔آج ہمارے لیے اس بات کافیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ جنہوں نے اپنا وقت مطالعہ میں استعمال کیا واقعی وہ لمحات نہ صرف ان کی اپنی زندگی کے لیے مفید ترین ثابت ہوئے بلکہ بعد میں آنے والوں کے لیے مختلف علوم وفنون میں نئی راہیں کھولنے کا سبب بھی بنے۔اسی حقیقت کے پیش نظر ہر اس شخص کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے جسے بڑا مرتبہ ومنصب چاہیے۔علامہ برہان الدین ابراہیم زرنوجی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (المتوفی 610ھ) اپنی کتاب"تعلیم المتعلم طریق التعلم" میں لکھتے ہیں:

تَرُوْمُ الْعِزَّ ثُمَّ تَنَامُ لَیْلًا یَغُوْضُ الْبَحْرَ مَنْ طَلَبَ الَّلآلِی

توعزت کا طلبگارہےاورپھررات کوسوبھی جاتا ہے ارے غافل موتی حاصل کرنے کے لیے پہلے سمندر میں غوطے لگانے پڑتے ہیں۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم ترجمہ بنام راہ علم؛ص40؛المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی)

بطورترغیب وتحریص چندعاشقان مطالعہ بزرگان دین کے واقعات پیش خدمت ہیں تاکہ ہمیں بھی مطالعہ کرنےکا جذبہ ملے:

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا شوق:

پانچویں صدی ہجری کے عظیم بزرگ علامہ جمال الدین عبدالرحمٰن ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے شوق مطالعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:میری طبیعت کتب کے مطالعہ سے کبھی سیر نہیں ہوئی،جب بھی کسی نئی کتاب پر نظر پڑتی تو لگتا جیسے کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہو۔میں نے مدرسہ نظامیہ کے کتب خانہ میں موجود 6ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے۔مجھے جب بھی کوئی کتاب ملتی فوراً اس کا مطالعہ کرنے لگتا۔اگر میں کہوں کہ میں نے 20 ہزار کتب کا مطالعہ کیا تو بظاہر یہ تعداد زیادہ معلوم ہوگی لیکن یہ میری طلب سے کم ہے۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ اس وقت کے طلبہ کی کم ہمتی مجھ پر واضح ہوگی اور مجھے ان کتب کے مطالعہ سے بزرگوں کے اخلاق وحالات،ان کی بلند ہمتیں،مضبوط حافظہ،عبادات کا ذوق اور اعلیٰ علوم کا ایسا خزانہ ملا جوبغیر مطالعہ کے حاصل نہ ہوسکتا تھا۔لہٰذا جو حصول علم دین میں کما حقہ کامیابی پانا چاے وہ کثرت سے مطالعہ کرے بالخصوص بزرگان دین کے حالات زندگی اور ان کی کتب پڑھے کیونکہ ان کی کوئی بھی کتاب فائدے سے خالی نہیں ہے۔ ( صیدالخاطر،-۳۳۸فصل قدماء العلماوھمتھم العالیة،ص،۴۴۸ملخًصابتقدم و تاخر)

امام محمد بن حسن شیبان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نامور شاگرد حضرت سیدنا محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمیشہ شب بیداری فرمایا کرتے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس مختلف قسم کی کتابیں رکھی ہوتی تھیں جب ایک فن سے اکتا جاتے تو دوسرے فن کے مطالعے میں لگ جاتے تھے۔یہ بھی منقول ہے کہ آپ اپنے پاس پانی رکھا کرتے تھے جب نیند کا غلبہ ہونے لگتا تو پانی کے چھینٹے دے کر نیند کو دور فرماتے اور فرمایا کرتے: نیند گرمی سے ہے لہذا اسے ٹھنڈے پانی سے دور کرو۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص10)

امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ استاد صاحب سے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی بلکہ چوتھائی کتاب استاد صاحب سے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب کا خود مطالعہ کرتے اود یاد کرکے سنادیا کرتے تھے۔اسی طرح دو جلدوں پر مشتمل العقود الدریة جیسی ضخیم کتاب فقط ایک رات میں مطالعہ فرمالی۔(حیات اعلیٰ حضرت،1/70،213)

علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

نویں صدی ہجری کے جلیل القدر محدث علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:مطالعہ کرنا میرا شب وروز کا مشغلہ تھا،بچپن میں بھی مجھے کھیل کود اور آرام وآسائش کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا،بارہا ایسا ہوا کہ مطالعہ کرتے آدھی رات ہوجاتی تووالد محترم سمجھاتے:کیا کرتے ہو؟یہ سنتے ہی میں فوراً لیٹ جاتا اور عرض کرتا:سونے لگا ہوں۔کچھ دیر کے بعد پھر اُٹھ کر مطالعہ شروع کردیتا۔بسااوقات دوران مطالعہ سرکے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھوکرجھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مشغولیت کے سبب پتا ہی نہ چلتا۔ (اخبارالاخیارمع مکتوبات،تجلیة القلوب بقدس الملکوت بشرح دعاءالقنوت،ص۳)

محدث اعظم پاکستان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

محدث اعظم پاکستان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب مسجد میں حاضر ہوتے اور نماز باجماعت میں کچھ تاخیر ہوتی تو کسی کتاب کا مطالعہ شروع کردیتے اسی طرح نماز عشاء کے بعد کتب سامنے رکھ کر بیٹھ جاتے اور مطالعہ کرتے،بسااوقات فجر کی اذانیں شروع ہوجاتیں،استاد گرامی صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ٍیہ نے آپ کی اَن تھک محنت دیکھی تو خادم کو ہدایت فرمائی کہ سردار احمد کو نماز مغرب سے پہلے کھانا کھلادیا کروتاکہ مطالعہ میں حرج نہ ہو۔(حیات محدث اعظم۔ص36ملخصاً،رضا فاؤنڈیشن لاہور1425ھ)

مفتی احمدیارخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاشوق:

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دوران طالب علمی میں رات مطالعہ کے لیے جو تیل ملتا تھا وہ تقریباً آدھی رات تک چلتا۔چراغ تو بجھ جاتا مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شوق علم کا دیا جلتا رہتا چنانچہ جب مدرسہ کا چراغ گل ہوجاتا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ باہر نکل آتے اور گلی میں جلتے ہوئے بلب کی روشنی میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے میں مصروف ہوجاتے۔(حالات زندگی۔حیات سالک،ص82 ملخصاً)

اللہ کریم ان مخلص عاشقان مطالعہ کی برکات میں سے ہمیں بھی حصہ نصیب فرمائے اورہم بھی اپنے اوقات کو قیمتی بنانے والے بن جائیں۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم


اللہ پاک نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں ہیں جن کاکوئی بشری طاقت احاطہ نہیں کرسکتی ۔اللہ پاک فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے (ابراہیم ۳۴)

اللہ پاک کی ان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت وقت بھی ہے ،یہ ایک ایسا قیمتی متاع ہے کہ اس کی ضرورت زندگی کے ہر شعبہ میں مسلم ہے ،چاہےوہ کاروبارہو یا گھر ،تعلیم وتعلم ہو، یاسفر وحضر یا پھر عبادات و معاملات ہوں، الغرض کوئی بھی شعبہ ہو اور موجودہ مصروف ترین اور سائنسی دور میں اس کی اہمیت کے پیشِ نظر نئی نئی ایجا دات وجود میں آرہی ہیں جن کا بنیادی مقصد آسانی ،ترقی ،کامیابی،اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کا م کرنا ہے ،وقت کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانِ عالی بہترین رہنمائی کرتا ہے: "پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو!جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،صِحَّت کو بیماری سے پہلے،مال داری کوتنگدستی سے پہلے،فُرصت کومَشغُولیَّت سے پہلےاور زِندگی کوموت سے پہلے"۔ {شعب الایمان ،باب الذھد وقصر الامل،ج۱۲،ص۴۷۷،حدیث ۹۷۶۸}

یہ حدیث علم وعمل ،عبادت و ریاضت بلکہ دنیا و آخرت کے کثیر أمور کو جامع ہے ، ایک بزرگ فرماتے ہیں :علماء وعقلاء سب اس پر متفق ہیں کہ انسان کی سب سے اہم پو نجی جس کو بچا کر بچا کراستعمال کرنا چاہیے وہ وقت ہے۔{ذیل طبقات حنابلہ ج۱،ص۱۴۶}

دنیا کی تاریخ میں جن شخصیات کا ہم ذکرِخیر کرتے ہیں ان کی نمایا ں خو بیو ں میں سے ایک خاص وصف اپنے وقت کی قدر دانی بھی ہےاور جن حضرات نے وقت کی قدر کی اللہ نے ان کے لئے بڑے بڑے کام آسان کردیئے ۔مثلاامام محمد علیہ الرحمۃ نے ایک ہزار کتب تحریر فر مائیں ،ابن عقیل علیہ الرحمۃ نے ایک کتاب آٹھ سو۸۰۰ جلدوں کی تحریر فرمائی ،امام غزالی علیہ الرحمۃ نے "یاقوت التاویل "نامی کتاب چالیس جلدوں میں لکھی ،امام ابن جریر علیہ الرحمۃ نے اپنی زندگی میں تین لاکھ اٹھاون ہزار صفحات لکھے ،علامہ باقلانی علیہ الرحمۃ نے صرف "معتزلہ فرقہ "کے رد میں ستر ہزار صفحات لکھے ،محدث ابن شاہین علیہ الرحمۃ نے کتب کی تحریر میں سات سو درہم کی روشنائی استعمال کی ،علامہ ابن جوزی علیہ الرحمۃ نے زمانہ طالب ِعلمی بیس ہزار کتب کا مطالعہ کیا،اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے اپنی زندگی میں لاکھوں فتوے تحریر کیے۔{علم وعلماء کی اہمیت ص۲۰۔۲۹ ملتقطا }

لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے وقت کو مفید اور نیک کاموں صرف کرکے اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں، فالتو وقت گزرنا کتنے بڑے نقصان کی بات ہے وہ اس حدیثِ مبارَک سے سمجھئے چُنانچِہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے ''اہلِ جنّت کوکسی چیز کا بھی افسوس نہیں ہوگا سوائے اُس ساعت (یعنی گھڑی ) کے جو (دنیا میں)اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذِکر کے بِغیر گزرگئی۔'' (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر ج۲۰ ص۹۳۔۹۴ حدیث ۱۷۲)

ہمارے بزرگوں کی زندگیاں وقت کی قدر ،علم سےمحبت، مطالعہ اور تصنیف وتالیف میں صرف ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے نام ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہمارے سر عقیدت سے جھک جاتے ہیں اور ہماری زبان ان کی تعریف کرنا شروع کر دیتی ہے بزرگان دین کے عظیم کارناموں اور محنتوں کی وجہ سے آج ہمارے لئے دین اتنا آسان ہو چکا ہے-

ان کے شب و روز کی محنتوں نے ہمیں بے پناہ مشقتوں سے بچا لیا، ان کے وقت کی قدر کرنے نے ہمارے لئے دین کے راستے آسان کر دیئے، ان کی بلند ہمتوں نے ہمارے لئے قرآن وحدیث کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی راہیں ہموار کردیں، لہذا بزرگانِ دین کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، بزرگانِ دین کی عادات و اطوار کو اپنا کے ہم نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، تلاوت قرآن، نوافل کی ادائیگی اور نیکی کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مطالعہ کرنا بھی بزرگانِ دین کی عادات میں شامل تھا۔ ہمارے بزرگان دین پوری پوری رات مطالعہ کیا کرتے تھے ،راہ چلتے مطالعہ کیا کرتے تھے،جبکہ آج کل کے طلباء میں کہ مطالعہ کا ذوق ناپید ہو رہا ہے۔

مطالعہ کی عادت ڈالنے کے لئے بزرگانِ دین کے مطالعہ کے واقعات پڑھنا بہت مفید ہے۔علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "جو حصول علم دین میں کماحقہٗ کامیابی پانا چاہے وہ کثرت سے مطالعہ کرے بالخصوص بزرگانِ دین کے حالاتِ زندگی اور ان کی کتب پڑھے کیونکہ ان کی کوئی بھی کتاب فائدے سے خالی نہیں ہے ۔

(صید الخاطر ص 338 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1422ھ)

آئیے مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لیے بزرگان دین کے شوقِ مطالعہ کے کچھ واقعات پڑھتے ہیں ۔

(1) خاتم المحدثین حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنے شوق مطالعہ کے متعلق فرماتے ہیں : مطالعہ کرنا میرا شب و روز کا مشغلہ تھا، بچپن ہی سے میرا یہ حال تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ کھیل کود کیا ہے؟ آرام و آسائش کے کیا معانی ہیں؟ سیر کیا ہوتی ہے؟بارہا ایسا ہوا ہے کہ مطالعہ کرتے کرتے آدھی رات ہوگئی تو والد محترم سمجھاتے: بابا کیا کرتے ہو؟ یہ سنتے ہی میں فوراً لیٹ جاتااور عرض کرتا: سونے لگا ہوں پھر جب کچھ دیر گزر جاتی تو اٹھ بیٹھتا اور پھر سے مطالعے میں مصروف ہو جاتا بسا اوقات یوں بھی ہوا کہ دوران مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر جُھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتہ نہ چلتا۔

(اشعة اللمعات، جلد اول، مقدمہ، صفحہ 72، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)

(2) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے اسلاف مطالعہ کا اس قدر ذوق رکھتے تھے کہ اپنا کوئی لمحہ بھی ضائع کرنا پسند نہ فرماتے ایسا وہ کیوں کرتے تھے، آئیے اس کا جواب پانچویں صدی کے جلیل القدر بزرگ حضرت سیدنا علامہ جمال الدین عبد الرحمٰن ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے لیتے ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنے شوق مطالعہ کا حال یوں بیان فرماتے ہیں:میری طبیعت کتب کے مطالعہ سے کبھی سیر نہیں ہوئی جب بھی کبھی کسی نئی کتاب پر نظر پڑتی تو لگتا جیسے کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہو ۔میں نے مدرسہ نظامیہ کے کتب خانے میں موجود چھ ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے۔مجھے جب بھی کوئی کتاب ملتی ہاتھوں ہاتھ اس کا مطالعہ کرنے لگتا- اگر میں کہوں کہ میں نے بیس (20) ہزار کتب کا مطالعہ کیا تو بظاہر یہ تعداد زیادہ معلوم ہوگی لیکن یہ میری طلب سے کم ہے ۔

(صید الخاطر ص 338 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1422ھ)

(3) مشھور محدث امام محمد بن مسلم ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شوق مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ کتابوں کے انبار میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے میں اس طرح مصروف ہوجاتے کہ آس پاس کی خبر نہ رہتی ۔ان کی زوجہ محترمہ ہررات تیار ہو کر ان کے انتظار میں بیٹھ رہتیں کہ میری طرف متوجہ ہوں گے لیکن آپ بدستور مطالعہ میں منہمک رہتے۔آخر ایک دن وہ بگڑ کر کہنے لگے "خدا کی قسم! یہ کتابیں مجھ پر تین سو سوکنوں سے بھی زیادہ بھاری ہیں

(روحانی حکایات، صفحہ 31، مطبوعہ ضیاء الدین پبلیکیشنز کراچی)

(4) حضرت سیدنا امام محمد رحمۃ اللہ تعالی ہمیشہ شب بیداری فرمایا کرتے تھےاور آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے پاس مختلف فنون کی کتابیں رکھی ہوتی تھیں۔ جب ایک فن پڑھتے پڑھتے تھک جاتے تو دوسرے فن کے مطالعے میں لگ جاتے تھے۔

(راہ علم، صفحہ 73 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، فصل تحصیل علم کے موزوں اوقات کا بیان )

(5) امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ تعالی مطالعہ میں مصروف و مستغرق ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ کھجوریں کھا گئے جس کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالی کی وفات ہوگئی ۔

(تذکرة المحدثین صفحہ 226 مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)

(6) محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد علیہ الرحمہ کو مطالعےکا اتنا شوق تھا کہ کے مسجد میں نماز باجماعت میں کچھ تاخیر ہوتی تو کسی کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کر دیتے۔ جب آپ منظر اسلام بریلی شریف میں زیر تعلیم تھے تو ساتھی طلباء کے سو جانے کے بعد بھی محلہ سوداگران میں لگی لالٹین کی روشنی میں اپنا سبق یاد کیا کرتے تھے ۔

(سیرت صدرالشریعہ، صفحہ 201، مطبوعہ مکتبۃ اعلی حضرت لاہور)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی کثرت سے مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

ہمارے اسلاف و اکابر جنہىں اللہ تعالىٰ نے مختلف علوم و فنون مىں امامت کا درجہ عطافرماىا وہ مطالے کے بارے مىں کىا فرماتے ہىں اور انہوں نے اس کو کتنى اہمىت دى ؟ درجِ ذىل اقوال حکاىات سے اندازہ لگائىے۔

حضرت سىدنا امام بخارى سے عرض کى گئى، حافظے کى دوا کىا ہے؟ فرماىا: ادمان النظرفى الکتب یعنی کتب بینی کرنا ۔

حضرت امام برہان الدىن زرقونى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں : اے طالبِ علم تو ہمىشہ درس و مطالعہ مىں مصروف رہ اس سے کبھى جُدا نہ ہو کىونکہ مطالعہ کے سبب ہى علم مىں ترقى ممکن ہوسکتى ہے۔(تعلىم التعلىم طرىق القلم ص ۵۹)

چالىس سال تک مطالعہ:

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہىں: مجھ پر چالىس سال اس حال مىں گزرے ہىں کہ سوتے جاگتے کتاب مىرے سىنے پر رہتى تھى۔ (جامع بىان العلم ج ۲، ص ۳۹۰)

کتاب دلچسپ رفىق:

خلىفۃ المسلمىن حضرت عمر بن عبدالعزىز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پوتےحضرت عبداللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سب سے ملنا جلنا موقوف کردىا تھا اور قبرستان مىں رہنے لگے تھے، ہمىشہ ہاتھ مىں کتاب دىکھى جاتى تھى اىک بار آپ سے اس بارے مىں سوال کىا گىا؟ تو کہنے لگے مىں نے قبر سے زىادہ واعظ، کتاب سے زىادہ دلچسپ رفىق اور تنہائى سے زىادہ بے ضررساتھى کوئى نہىں دىکھا۔(علم اور علما کى اہمىت ص ۴۱)

استغراق مطالعہ کا علم :

حافظ ابن حجر عسقلانى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہىں ، اىک دن مجلس مذاکرہ مىں امام مسلم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اىک حدىث کے بارے مىں استفسار کىا گىا اس وقت آپ اس حدىث کے بارے مىں کچھ نہ بتاسکے، گھر آکر اپنى کتابوں مىں اس حدىث کى تلاش شروع کردى، قرىب ہى کھجوروں کا اىک ٹوکرا بھى رکھا ہواتھا ، امام مسلم کے استغراق اور انہماک کا ىہ عالم تھا کہ کھجوروں کى مقدار کى طرف آپ کى توجہ ہی نہ گئی اور حدىث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالى ہوگىا اور غىر ارادى طور پر کھجوروں کا زىادہ کھالىنا ہى ان کى موت کا سبب بن گىا،(تذکرة المحدثىن ص ۱۲۳)

سارى سارى رات مطالعہ:

حضرت امامحمد بن ادرىس شافعى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں کہ مىں اىک مرتبہ سارى رات امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ىہاں رہا آپ نے سارى رات اس طرح گزارى کہ آپ مطالعہ کرتے کرتے لىٹ جاتے کچھ دىر بعد اٹھ بىٹھتے اور پھر مطالعہ شروع کردىتے ( کچھ دىر طلبہ کے ساتھ ۱۲۵)

محرر مذہب حنفى امام محمد بن حسن شىبانى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سوتے بہت کم تھے زىادہ تر وقت مطالعہ اور لکھنے لکھانے مىں گزرتا، کسى نے اس بارے مىں پوچھا تو بڑا نصىحت آمواز جواب ارشاد فرماىا:

مىں کىسے سو سکتاہوں حالانکہ مسلمان ہم ( علماء) پر اعتماد اور بھروسا کرکے اس لىے مطمئن ہو کر سوتے ہىں کہ جب کوئى مسئلہ درپىش ائے گا تو ہم امام محمد کے پاس جا کر پوچھ لىں گے اور اگر ہم سو کر وقت گزار دىں تو اس مىں دىن کا ضىاع ہے۔

مطالعہ اور وقت کى قدر :

علامہ ذہبى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تذکرة الحافظ ج ۲، ص ۱۱۴ مىں حضرت خطىب بغدادى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ راہ چلتے ہى مطالعہ کىا کرتے تھے تاکہ آپ کے آنے جانے کا وقت ضائع نہ ہو۔٠(علم اور علما کى اہمىت ص۲۲)

۸۰ فنون پر کتابىں تحرىر کىں :

حافظ ابن رجب حنبلى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہىں، ابو الوفا بن عقىل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں ۔ مىں کھانے کے وقت کو مختصر کرنے کى بہت کوشش کرتا ہوں، اکثر روٹى کے بجائے چورہ بھگو کر استعمال کرتا ہوں تاکہ مطالعہ کے لىے زىادہ وقت بچ جائے۔(علم اور علما کى اہمىت ص ۲۳)

آپ نے مزىد فرماىا: مطالعہ کرتے کرتے جب آنکھىں جواب دىنے لگتى ہىں تو مىں لىٹ کر مسائل سوچنے لگ جاتا ۔

امام ابن جوزى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں: ابوالوفا بن عقىل نے ۸۰ فنون پر کتابىں لکھى ہىں او ران کى اىک کتاب ۸۰۰ جلدوں پر مشتمل ہے اس کے بارے مىں کہا جاتا ہے ىہ دنىا سب سے بڑى کتاب ہے۔(اىضا ص ۲۰)

ہزارکتب کا مطالعہ :

امام ابن جوزى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تحدىثِ نعمت کے طور پر بىان کرتے ہىں: دوسرے لڑکے دجلہ کے کنارے کھىلا کرتے تھے اور مىں کسى کتاب کے اوراق لے کر کسى طرف نکل جاتا اور الگ تھلگ بىٹھ کر مطالعہ مىں مشغول ہوجاتا تھا۔( علم اور علما کى اہمىت ص ۲۰)

مزىد فرماتے ہىں: مىرى طبىعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سىر نہىں ہوتى تھى، جب کسى نئى کتاب پر نظر پڑتى ہے تو اىسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئى خزانہ ہاتھ آگىا ہو۔

مىں نے زمانہ طالبِ علمى مىں بىس ہزار کتابوں کا مطالعہ کىا، مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے بزرگوں، سلف کے حالات و اخلاق ان کى علمى ہمت، قوت حافظہ، رزق عبادت اور علوم نادرہ کا اىسا اندازہ ہوا جو ان کتابوں کے بغىر نہىں ہوسکتا تھا، اس کا نتىجہ ىہ ہوا کہ مجھے اپنے زمانے کے لوگوں کى سطح پست معلوم ہونے لگى، اور اس وقت کے طالب علم کى کم علمى منکشف ہوگئى، مىں نے مدرسہ نظامىہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کىا جس مىں چھ ہزار کتابىں ہىں، اسى طرح بغداد کے مشہور کتب خانے ا۔کتب الحنفىہ، ۲، کتب الحمىرى ، ۳، کتب عبدالوہاب ، ۴، کتب ابى محمد وغىرہ کا مطالعہ کر ڈالا(اىضا ص ۲۹)

لاجواب و بے مثال مطالعہ :

اللہ تعالىٰ کى نشانى علامہ عبدالوہاب شعرانى قدس النورانى نے تفاسىر، شروح احادىث، لغات ، اصول وکلام قوائد سىرت تصوف وغىرہ کى لاتعداد کتب کا نہ صرف اىک بار مطالعہ کىا بلکہ بعض کتب جو کئى کئى جلدات پر مشتمل ہىں، انہىں کئى کئى بار پڑھا صرف مطالعہ تفسىر ملاحظہ کىجئے اور حىرت کے سمندر مىں ڈوب جائىے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تفسىر بغوى ، تفسىر ابن زہرہ ، تفسىر ابن کثىر، تفسىر ابن النقىب المقدس (۱۰۰ جلدىں) اىک اىک بار تفسىرقرطبى دوبار تفسىر خازن، تفسىر درِ منثور اور عبدالعزىز الدىرنى کى تفسىر صغىرہ کبىرہ تىن تىن بار تفسىر بىضاوى پانچ بار تفسىر ابن عادل سات بار، تفسىر کواشى، دس بار اور تفسیر جلالىن کا تىس بار مطالعہ فرماىا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مطالعہ کے متعلق مزىد جاننے کے لىے (طبقات امام شعرانى ص ۳۱،۳۳) کو دىکھا جاسکتا ہے۔

عاشقِ مطالعہ کى نرالى موت :

علامہ حافظ کو جو کتاب مىسر آتى اس کا اول تا آخر بالاستعاب مطالعہ کرتے کتب خانہ کرائے پر لے کر رات بھر مطالعہ کتب مىں مصروف رہتے، زندگى کے آخرى اىام مىں فالج کا حملہ ہوا جس کے نتىجے مىں جسم کا کچھ حصہ ناکارہ ہوگىا لىکن پھر بھى مطالعہ کتب مىں مصروف رہتے اىک دن مطالعہ کتب مىں مشغول تھے کہ اچانک کتب کا عظىم ذخىرہ ہر طرف سے اوپر آپڑا جس کى تاب نہ لاتے ہوئے عاشقِ مطالعہ کتب انتقال کر گئے۔ (خلىفہ الزمن از علامہ عبدالفتاح ابو غرہ ص ۳۴)

پىر مہر على شاہ کا مطالعہ :

قبلہ عالم حضرت پىر سىد مہر على شاہ مجدد گولڑوى قدس سرہ کے متعلق منقول ہے کہ بسا اوقات اىسا ہوتا کہ موسم سرما کى طوىل راتىں عشا ءکى نماز کے بعد مطالعہ مىں ہى گرزرتىں حتى کہ اسی حالت مىں فجر کى اذان ہوجاتى(مہر منىر ص ۷۹)

محدث اعظم پاکستان کا مطالعہ :

محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے طالبِ علمى کا زمانہ تھا اور اس وقت آپ کے مادرِ علمى جامعہ رضوىہ مظہر السلام مىں بجلى نہىں تھى اور نہ ہى محلہ سوداگران برىلى مىں بجلى آئى تھى، دىگر طلبا تو رات کو سوجاتے مگر محدث اعظم پاکستان رات کو بارہ اىک بجے تک مىونسپل کمىٹى کے لىمپ کے نىچے کھڑے ہو کر اپنا سباق ىاد فرماىا کرتے تھے، حضرت حجۃ الالسلام مولانا حامد رضا خان کو معلوم ہوا تو مہتم کو مولانا سردار احمد کے کمرے مىں لىمپ کا انتظام کرنے کا حکم دىا۔(حىات محد ث اعظم ص ۳۴)

جب دىکھتا پڑھتے دىکھا:

حضرت مفتى اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں مىں جب مولاناسردار احمد کو دىکھتا پڑھتے دىکھتا مدرسے مىں قىام گاہ پر حتى کہ جب مسجد مىں آتے تو بھى کتاب ہاتھ مىں ہوتى، اگرجماعت مىں تاخىر ہوتى تو بجائے دىگر اذکار واورد کے مطالعہ مىں مصروف ہوجاتے۔(حىات محد ث اعظم)

شائق مطالعہ کى حوصلہ افزائى:

مولانا معىن الدىن شافعى کا بىان ہے: اجمىر شرىف مىں مولانا سردار احمد کى محنت کا ىہ عالم تھا کہ نماز عشاء کے بعد آپ سامنے کتاب رکھ کر بىٹھ جاتے اور مطالعہ کرتے ہوئے بسا اواقات فجر کى اذان ہوجاتى، اس محنت و لگن کو دىکھ کر حضور صدر الشرىعہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے طباخ( باروچى) کو حکم فرماىا۔ سردار احمد کو نمازِ مغرب سے پہلے کھانا دے دىا کرو تاکہ اس کے مطالعہ مىں حرج نہ ہو۔(اىضا)


راہ علم کا سفر آسان نہیں ہے، مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دشوار منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتی ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بڑے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ علمِ دین حاصل کیا کرتے تھے، بطورِ ترغیب کچھ واقعات پیش خدمت کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے مصر کا سفر محض اس لیے اختیار کیا کہ حضرت عتبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث سنیں، حضرت امام شیبانی علیہ الرحمۃ شب بیداری کیا کرتے تھے اور مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے، جب آپ کو نیند آنے لگتی تو منہ پر پانی کے چھینٹیں مارتے تاکہ نیند ختم ہوجائے،

آپ علیہ الرحمۃ کو مطالعے کا اس قدر شوق تھا کہ آپ نے رات کے تین حصے کیے تھے ایک عبادات کا حصہ ایک مطالعے کا اور ایک حصہ آرام کا ہوتا۔

حضرت شاہ عبدالمن دہلوی اس قدر شوق سے مطالعہ فرماتے کہ دورانِ مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر جُھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے آپ کو پتا ہی نہ چلتا ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مطالعہ کے شوق کا یہ عالم تھا کہ دو جلدوں پر مشتمل القودا الدریہ جیسی ضخیم کتاب فقط ایک رات میں مطالعہ فرمالی۔

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کو مطالعہ کا اس قدر شوق ہے کہ آپ نے اپنے گھر میں ایک کتاب گھرکتب خانہ بنایا اور اس میں سینکڑوں کتابیں اپنے علم کے گوہر و نایاب سمائے ہوئے ہیں

افسوس جہا ں آج کل دور اسلاف کی اور بہت سے واقعات مٹتے جارہے ہیں وہیں مطالعہ کا شوق بھی ناپید ہوچکا ہے، بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہیں اور دینی مطالعہ کرتے ہوں ، سوشل میڈیا میں گم ہو کر لوگ اپنا بہت ہی زیادہ وقت ضائع کررہے ہیں، دعوت اسلامی جہاں اور بہت کچھ عطا کررہی ہے، وہیں امیر اہلسنت ہر ہفتے ایک رسالہ بھی عطا کررہے ہیں ۔

مطالعہ کا معنی و مقصد:

مطالعہ کا مشہور و معروف معنی ہے کتابیں پڑھنا بزرگانِ دین کے شوقِ مطالعہ کا مقصد علمِ دین کا حصول ہے وہ علم دین کےحریص تھے انہوں نے علمِ دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا۔

فرضی حکایت:

احمد گھر میں داخل ہوا حسب عادت سلام کیا مگر اپنے چھوٹے بھائی حامد سے سلام کا جواب نہ پا کر اس کاکندھا ہلا کر پوچھا ، کوئی بات ہے؟ جس کی وجہ سے پریشان ہو؟

حامد: بھائی جان ! اشارہ فرماتے ہوئے کہ ذاتی مطالعہ علم دین حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے مگر ہم تو روزانہ پانچ گھنٹے جامعۃ المدینہ میں علمِ دین حاصل کرتے ہیں بعد میں اس کی دہرائی بھی کرتے ہیں پھر ذاتی مطالعہ کی کیا حاجت ؟

احمد:حامد ! علمِ دین جتنا حاصل کیا جائے کم ہے علمِ دین وہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کی تہہ تک پہنچنانا ممکن ہے، اور علم کا حصول بغیر مطالعہ ایسا ہے جیسے پانی کے بغیر کنواں دوعالم کے مالک و مختار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا حکمت مومن کا گمشدہ خزانہ ہے لہذا مومن اسے جہاں پائے وہیں اس کا زیادہ حق دار ہے۔( سنن ترمذی ج۴، ص ۳۱۴) اور مطالعہ کرنا تو ہمارے بزرگانِ دین کا طریقہ ہے۔

حامد : کیا بزرگانِ دین بھی کتاب کا مطالعہ کرتے تھے؟

احمد: جی ہاں ہمارے بزرگانِ دین تو عبادت سمجھ کر مطالعہ فرماتے تھے شوقِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ علامہ ابن جوزی رحمۃا للہ علیہ نے زمانہ طالبِ علمی میں اپنے مدر سہ کے کتا ب خانے میں موجود تقریبا ًچھ ہزار کتب کا مطالعہ فرمایا ۔

امام محمد شیبانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے آپ رات کے تین حصے کرتے ایک حصہ میں عبادت، ایک حصہ میں مطالعہ اور بقیہ حصہ میں آرام فرماتے تھے۔(تاریخ بغداد ج ۲، ص ۷۹)

علامہ شیخ عبدالحق محد ث دہلوی رحمۃاللہ علیہ کو بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق تھا آپ فرماتے ہیں مطالعہ کرنا میرا شب و روز کا مشغلہ تھا بچپن سے ہی یہ حال تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ کھیل کو دکیا ہے ؟آرام و آسائش کے کیا معنی ہیں؟ سیر کیا ہوتی ہے ؟ بسا اوقات یوں بھی ہوا کہ دوران مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چُھو کر جُھلس جاتے مگر مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتا نہ چلتا ۔(اشعۃ اللمعات ج۱، مقدمہ ص ۷۲)

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کا تو سبب یہ بنا کہ انہوں نے مطالعہ میں مشغول ہو کر ضرورت سے زیادہ کھجوریں تناول کرلیں جو مرض الموت کا سبب بنیں ۔(تہذیب التہذیب ۸، ص ۱۵۰ )

حامد: بھائی جان ! اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کا شوق مطالعہ کیسا ہے؟

احمد : اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے شوق مطالعہ کا تو انداز ہی نرالہ تھا آپ نے کبھی استاذ صاحب سے چوتھائی کتاب سے زیادہ نہ پڑھی، بقیہ کتاب کا خود مطالعہ فرماکر یا د کر لیتے۔(حیات اعلیٰ حضرت ج ۱، ص ۷۹)

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دو جلدوں پر مشتمل "العقود الدریۃ "کتاب کا فقط ایک رات میں مطالعہ فرمایا۔(حیات اعلیٰ حضرت ج ۱، ص ۷۹)

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے علم ِ دین کے حصول کا ذریعہ ہی مطالعہ کو بنایا ۔آپ اس قدر ہمہ تن گوش ہو کر مطالعہ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات آپ کو کسی کی آمد کا علم ہی نہ ہوتا، مطالعہ کے ساتھ ساتھ کتب کا ادب بھی کرنا ہے کیونکہ با ادب ، با نصیب بے ادب بے نصیب علم حاصل کرکے اس پر عمل بھی کرنا ہے اور اسے سکھانا بھی ہے کیونکہ اگر علم جسم ہے تو عمل اس کی روح اور علم سکھانا اس کی غذا ہے،

حامد : بھائی جان ! ان شا ءاللہ میں بزرگانِ دین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مطالعہ بھی کروں گا، علم پر عمل کروں گا اور اسے دوسروں کو سکھاؤں گا اور بالخصوص کتابوں کا ادب کروں گا۔

مطالعہ کی لغوی و اصطلاحی بحث:

لفظ مطالعہ کا مادہ طلوع ہے اور اس کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو اس سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا۔جبکہ اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ بذریعہ " تحریر مصنف یا مؤلف کی مراد کو سمجھنا مطالعہ کہلاتا ہے ۔

مطالعہ کا علم دو حصوں میں بٹا ہوا ہے: (۱)۔فضل والا علم (۲) دوسرا غضب والا علم

پہلے کی مثال حضرت آدم علیہ السلام کا علم جب کہ دوسرے کی مثال شیطان کا علم ،لہذا عقل مند کو چاہیے کہ ان کتب کا مطالعہ کرے جو فضل والا علم کا حصول آسان بنائیں

جن شخصیات نے دین و دنیا کے متعلق نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں ان کی صفات حسنہ میں سے ایک اہم صفت مطالعہ ہے یہی وصف ان کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بنا۔

اپنی شخضیات میں سے ہمارے بزرگانِ دین بھی ہے جنہوں نے اپنی زندگی بے وجہ امور سے خالی کرکے مطالعہ میں صرف کردی، اور اپنی زندگی کو مطالعہ کے ذریعہ اپنی نجات کا ذریعہ بنایا، ہمارے بزرگانِ دین کا شوق مطالعہ ایسا تھا کہ آج بھی لوگ ان کی سیرت میں ان کے شوق مطالعہ کو پڑھتے ہیں تو رشک کرتے ہیں انہیں شخضیات میں سے تین شخضیات کے شوقِ مطالعہ کو ذکر کیا جاتا ہے۔

۱۔ پہلی شخضیت

:حضرت امام مسلم علیہ الرحمہ کا شوق مطالعہ:

ایک دن کسی علمی مجلس میں حدیث پاک کی مشہور کتاب مسلم شریف کے مؤلف امام مسلم بن ججاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی حدیث کے بارے میں استفسار کیا گیا تو اپ نے گھر آکر وہ حدیث تلاش کرنا شروع کردی، قریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا بھی رکھا ہوا ت ھا آپ حدیث کی ت لاش کے دوران ایک ایک کھجور اٹھا کر کھاتے رہے دوران مطالعہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے استغراق اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ کھجوروں کی مقدار کی جانب آپ کی توجہ نہ ہوسکی، اور حدیث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا، غیر ارادی طور پر اتنی زیادہ کھجوریں کھالینے کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئے اور اسی مرض میں آپ کا انتقال ہوگیا۔(تہذیب التہذیب ج ۸ ، ص ۱۵۰)

۲، دوسری شخضیت

: حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کا شوق ِمطالعہ:

حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنی کتب بینی کا حال بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، مطالعہ کرنا میرا شب روز کا مشغلہ تھا بچپن ہی سے میرا یہ حال تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ کھیل کود کیا ہے؟ آرام و آسائش کے کیا معنی ہیں ؟ سیر کیا ہوتی ہے بار ہا ایسا ہوا کہ مطالعہ کرتے آدھی رات ہوگئی تو والد صاحب سمجھاتے بابا کیا کرتے ہو ؟یہ سنتے ہی میں فورا ً لیٹ جاتا اور جواب دیتا سونے لگا ہوں، پھر جب کچھ دیر گزرتی تو اُتھ بیٹھتا اور پھر سے مطالعہ میں مصروف ہوجاتا بسااوقات یوں بھی ہوا کہ دوران مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر جُھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتا نہ چلتا۔(اشعۃ اللعمات جلد اول مقدمہ ص ۷۲)

۳ ۔ تیسری شخضیت :

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا شوقِ مطالعہ:

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے شوقِ مطالعہ اورذہانت کا بچپن ہی میں یہ عالم تھا کہ استاذ سے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی بلکہ چوتھائی کتاب استاذ سے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب کا خود مطالعہ کرتے اور یاد کرکے سنایا کرتے تھے اسی طرح دو جلدوں پر مشتمل العقود الدریہ جیسی ضخیم کتاب فقط ( صرف) ایک رات میں مطالعہ فرمائی۔(حیات اعلیٰ حضرت ج ۱، ص ۷۹)

قارئین دیکھا آپ نے کہ ہمارے بزرگانِ دین کا شوق مطالعہ کیسا تھا تو لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ان بزرگانِ دین کی پیروی کرتے ہوئے اپنے وقت کو بچاتے ہوئے فضول کاموں میں صرف کرنے کے بجائے مطالعہ میں گزاریں کیونکہ مطالعہ ذہن کو کھولتا اور نتائج سے باخبر کرتا ہے اور فصیح اللسان بناتا اور غور و فکر کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں شوق مطالعہ عطا فرمائے امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

عبدالقادربن واحد بخش،درجہ خامسہ  مرکز ی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی

پیارے اسلامی بھائیو جب سے دنیا بنی ہے تعلیم و تعلم کا سلسلہ چلتا رہا ہے ہر زمانے کے لوگوں نے علم کو سہارا بنا کر اپنے مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے کیونکہ علم ہی ایک ایسا نور ہے جو انسان کو ہر طرح کی جہالت سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اور اسی علم کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ۔ ترجمۃ کنزالایمان : تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔(سورۃ الزمر ،۹) (صراط الجنان جلد 10 صفحہ 9) اور یہ بات بھی قابل فراموش نہیں کہ علم ہمیشہ سے عمل کا امام رہا اور تھوڑا علم زیادہ عمل سے افضل ہے۔

اور یاد رکھیں کہ: علم کو حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک اہم ترین ذریعہ مطالعہ ہے. مطالعہ کہتے ہیں "غور, توجہ, دھیان اور کسی چیز کو اس سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے دیکھنے کو"۔

کتب بینی کو بھی مطالعہ کہتے ہیں اور اسی غوروفکر یعنی مطالعہ قرآن و حدیث میں تعلیم دی گئی ہے۔

حدیث پاک میں ہے اللہ تعالی کی عبادت کسی بھی ایسی چیز کے ساتھ نہیں کی جاسکتی جو توفیق سے افضل ہو یعنی دین میں غوروفکر کرنا سب سے افضل عبادت ہے۔

المختصر یہ کہ ہمارے بزرگوں نے بھی علم کے اسی ذریعے یعنی مطالعہ کو ہتھیار بنا کر باطل کو جھکا رکھا اور اپنی اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھیں انہی کی انتھک محنت اور کثرت مطالعہ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں اتنی آسانی سے وہ چیزیں مل جاتی ہے جو شاید ہمیں کئی سال لگانے سے نہ ملتی۔ ذیل میں چند بزرگوں کا شوق مطالعہ اور انکا کامیابی کی بلندیوں کو چھونے کا انداز پڑھ کر ہم بھی اپنے دل میں کثرت مطالعہ کا شوق پیدا کریں۔

1. چالیس سال سینے پر کتاب:

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں ہیں مجھ پر چالیس سال اس حال میں گزرے کہ سوتے جاگتے کتاب میرے سینے پر رہتی. (جامع بیان العلم )

2. بغداد کے کتب خانے پڑھ ڈالے:

امام ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کبھی سیر نہیں ہوتی اگر میں کہوں کہ میں نے طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو بہت زیادہ معلوم ہوگا میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا جس میں چھ ہزار کتابیں تھیں اسی طرح بغداد کے جو بھی مشہور کتب خانے تھے سب کا مطالعہ میں نے کر ڈالا۔ (ایضاً)

3. رات کو پندرہ، بیس مرتبہ اٹھتے:

محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ ایک سفر میں میں امام بخاری کے ساتھ تھا آپ رات کو پندرہ، بیس مرتبہ اٹھتے، چراغ جلاتے اور احادیث پر کچھ نشان لگا کر لیٹ جاتے. (وقت ہزار نعمت ہے،75)

4. مطالعہ کا نشہ نس نس میں سما گیا تھا:

حضرت احمد بن یسار صاحب لغت و ادب کے امام تھے مطالعہ کا نشہ نس نس میں بس گیا تھا، عالم یہ تھا کہ کوئی دعوت دیتا تو شرط لگاتے کہ میرے لیے مطالعہ کی جگہ کا اہتمام ہوگا؟ مطالعہ میں انہماک کا یہ عالم تھا کہ راہ چلتے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھے کہ سامنے گھوڑا آیا آپ کو پتہ نہ چلا گھوڑے کی وجہ سے آپ کا انتقال ہوگیا ۔ (ایضا)

5. روٹی کے ٹکڑے پیس کر پی جاتا:

حضرت داؤد طائی علیہ رحمۃ روٹی کے ٹکڑے پیس کر پی جاتے اور فرماتے جتنا وقت میں انسان روٹی چبا کر کھائے گا اتنی دیر میں 50 آیات پڑھ لے گا (وقت ہزار نعمت، )

6. علم کے شوق میں راتوں کو سوتے نہ تھے:

امام محمد بن حسن شیبانی کے نام سے سے تو فقہ کا ادنیٰ طالب علم بھی واقف ہے۔ مطالع انکی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی علم کے شوق میں رات سوتے نہ تھے طشت میں پانی رکھا ہوتا نیند آتی تو پانی سے دور کر لیتے ایک موضوع سے اکتاتے تو دوسرا شروع کردیتے علم کے انہماک میں اپنے لباس تک کا ہوش نہ رہتا گھر والے میلے کپڑے اترواتے اتنے مطالعہ میں مصروف ہوتے (حدائق الحنفیہ)

7. ایک حدیث کے لئے کی راتیں سفر:

حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ میں ایک حدیث کے لیے کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں سفر کیا کرتا (علم و علما بحوالہ المدخل، حدیث 304)

8. دو سال پہلو کے بل نہ سوئے:

صاحب ریاض صالحین حضرت امام نووی علیہ الرحمہ پانچویں صدی کے عظیم الشان محدث گزرے ہیں آپ کی زمانہ طالب علمی میں جدوجہد کا عالم یہ تھا کہ دو سال تک پہلو کے بل زمین پر نہیں سوئے بس بیٹھے بیٹھے ہی کچھ آرام کر لیتے اور مطالعہ میں مشغول ہوجاتے اور اور آپ راہ چلتے ہوئے بھی مطالعہ نہ چھوڑتے۔ (وقت ہزار باحوالہ قسمت الزمن)

9. دو کان کرایہ پر لے کر مطالعہ کرتے:

عمرو بن محبوب جاحظ معتزلی تھا لیکن ان کے ادبی کارناموں کو عربی ادب میں کبھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ مطالعہ کا شوق اتنا تھا کہ کتابوں کی دکان کرایہ پر لے کر راتوں کو مطالعہ کرتا۔ (ایضا)

اللہ کریم ہمیں ان بزرگوں کے مطالعے سے حصہ نصیب کرے اور ہمیں بھی مطالعہ کے میدان میں اترنے کی سعادت دے آمین۔

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: ہر چیز کے لیے ایک راستہ ہے اور جنت کا راستہ علم ہے۔(رسالہ العلم والمتعلم ص۲۹، الدیلمی فی مسند الفردوس عن ابن عمر رضی الہ عنہما)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : علم عبادت سے افضل ہے(الحدیث)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! علم حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ کتب بینی (مطالعہ کرنا) بھی ہے۔

کتب بینی : کتب بین کی عادت کے بغیر علم میں قابل قدر مقام حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ قرآن نے اقراء کہا تو صاحب قرآن کے امتی پڑھتے ہی چلے گئے اور زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھتے گئے۔

اسلاف کا شوق مطالعہ: پیارے پیارے اسلامی بھائیوں آئیے اب ہم اسلاف کے اسی شوق کا مطالعہ کرتے ہیں۔

1۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں: مطالعہ کو مقدم اور ضروری سمجھناکیونکہ حصول علم میرا نصیب العین ہے۔

2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہسے پوچھا گیا کہ حفظ کی دوا کیا ہے آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کتب بینی ( مطالعہ کرنا) امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے مسلم شریف ترتیب دی ایک حدیث کی تلاش میں اس قدر منہمک ہوئے ہوئے کہ کھجوروں کا ایک ٹوکرا ختم کر گئے اور کثیر المقدار کھجوریں آپ کے وصال کا سبب بنیں۔

3۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہفرماتے تھے: مجھ پر چالیس سال اس حال میں گزرے ہیں کہ سوتے جاگتے کتاب میرے سینے پر رہتی۔

4۔خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہکے پوتے عبداللہ بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہنے سب سے ملنا جھلنا ترک کردیا تھا اور قبرستان میں رہنے لگے ہمیشہ ہاتھ میں کتاب ہوتی، گویا قبرستا ن میں اپنے اسی رفیق سے لذت حاصل کرتے۔

5۔امام محمد رحمۃ اللہ علیہفقہ حنفی کے ستون ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہکے مایہ ناز شاگرد ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ رات کا اکثر حصہ مطالعہ کتب میں گزارتے مطالعہ کے شغف کا یہ عالم تھا کہ پہنا ہوا لباس میلا ہوجاتا مگر بدلنے کی فرصت نہ لتی۔ انہماک ِمطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی آپ کو سلام کرتا تو آپ اسے دعا دیتے تھے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہکی بیٹی کہتی ہیں: امام محمد گھر میں بیٹھے ہوتے اوران کے گردو پیش کتابوں کے ڈھیر ہوا کرتا تھا، ان کا مشغلہ صرف کتب بینی اور مطالعہ و تحریر رہ گیا تھا، آپ علیہ الرحمۃ مطالعہ کے وقت کسی سے گفتگو بھی نہ فرماتے

شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہپنے ذو ق مطالعہ کا تذکرہ خود فرماتے ہیں:

اور وہاں تحصیل علم میں اتنا مشغول رہا کہ تعلیم و مطالعہ کتب سے شب وروز میں دو تین گھنٹے فرصت ملتی

اور اس پر طرہ یہ کہ گھر پر جتنا وقت ملتا اس میں کوئی لمحہ بیکار نہ بیٹھتا بلکہ مطالعہ کتب بحث و تکرار میں لگادیتا تھا۔رات دن پڑھتا تھا۔ پڑھتے پڑھتے رات کے بارہ بجے جا تے والد ماجد فرماتے بیٹا کیا کررہے ہو، تو میں فورا ًلیٹ جاتا تاکہ جھوٹ نہ ہوجائے اور پھر عرض کرتا جی میں سورہا ہوں فرمائیے کیا حکم ہے اس کے بعد پھر پڑھنے لگتا ا،اکثر ایسا ہوا کہ چراغ کی لو سے میرے عمامہ اور سرکے بالوں کو آگ لگ گئی اور مجھے اس وقت پتا چلتا جب حرارت میرے دماغ تک پہنچتی تھی۔

مؤرخ شہرزوری نے البیروی کے متعلق لکھا ہے:

اس کا ہاتھ قلم کو آنکھ مطالعے کو دل غور وفکر کو صرف کھانے کے اوقات میں چھوڑتا ہے۔

امام زہری رحمۃ اللہ علیہکا مطالعہ کے وقت یہ عالم ہوتا کہ اِدھر اُدھر کتابیں پڑھی ہوتی تھیں وہ ان کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے تھے کہ انہیں دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہیں ہوا کرتی تھی۔ا ن کی اہلیہ نے جب ایک دن ان کے مطالعہ کا انہماک دیکھا تو کہنے لگیں۔ واللہ لھذاہ الکتب اشد علی حسن ثلاث ضرائر ترجمہ ۔ مجھے اللہ کی قسم یہ تمہاری کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔

صاحب روح المعانی علامہ محمد آلوسی حنفی پر ہر وقت یہ دلہن سوار بیٹھی تھی کہ علم میں اضافہ بڑھتا چلا اکثر یہ شعرو ردِ زبان رہتا تھا ۔ (سھری لتنقیح العلوم الذلی من فصل عانیة وطیب عناق) ترجمہ۔علم کی نوک پلک سنوارنے کے لیے حسین و جمیل عورت کی ملاقات سے لذیذ تر ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو کتب بینی کے ذوق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ١۔کس قدر کتب اکھٹی کیں؟(لائبریری) ۲۔کس قدر کتب تحریر کیں۔(شعبہ تصنیف و تالیف)

آئیے ان دو باتوں کی روشنی میں اسلاف کے اس شوق کا مطالعہ کریں :

ابو جعفر احمد بن عباس کے پاس چار لاکھ کتابیں تھیں۔

الواقدی کے گھر سے ان کی وفات کے بعد کتابوں کے چھ سو صندوق نکلے۔

یحیی بن مصیر نے وفات کے بعد کتابوں سے بھری ۱۱۴ الماریاں چھوڑیں

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہنے اوسطاً روزانہ ۱۶ صفحات رقم بھی کیے یعنی لکھے۔

امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اوسطاًروزانہ ۴۰ صفحات رقم کیے۔

البیرونی کی تصانیف کی فہرست ہی ساتھ اوراق پر مشتمل تھی اور ان تصانیف کا وزن اس قدر تھا کہ ایک اونٹ ان تما م کو نہ اٹھا سکتا تھا۔ مسلم اسکالروں کی تصانیف کا ایک سرسری جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے طوالت کے ڈر سے صرف چند اسما کا ذکر کررہا ہوں بعض مصنفین کی تعداد تصانیف میں خلاف ہے۔

امام احمد رضا فاصل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۰۰۰

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۶

علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ۵۵۰ یا ۵۰۰

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ۲۰۰

ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ ۲۵۰

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۳

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ۹۹۹

امام ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ۱۵۰

امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ ۳۴۰ یا ۲۶۹

حاکم نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ ۱۰۰۰

عبداللطیف بغدادی رحمۃا للہ علیہ ۱۶۰

خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ۱۰۰

ابوبکر محمد بن الزکریا رازی رحمۃ اللہ علیہ ۱۸۴

یعقوب ابن اسحاق الکندی ۲۴۱۔۲۲۵

مسلمانوں کے علمی اشتیاق کا اندازہ ذیل کے واقعات سے بھی لگایاجاسکتا ہے۔

شیخ علی بن عیسی علیہ الرحمہ کہتے ہیں، میں نے ابو ریحان البیرونی سے اس وقت ملاقات کی جب وہ بستر مرگ پر تھے اسی وقت انہوں نے مجھ سے ایک قانونی نکتے کی تشریح چاہی میں نے ان کی حالت زار پر رحم کھا کر کہا، اس قسم کے سوالات کے لیے یہی وقت رہ گیا ہے۔ ؟ انہوں نے جواب دیا۔(بھلے آدمی اسی نکتہ کے نہ جاننے سے بہتر ہے کہ میں مرنے سے پہلے اسے جان لوں)

کسی نے خواب میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہسے حالت نزاع کی تکلیف کے متعلق پوچھنا آپ نے فرمایا: نزع کے وقت بھی میں مکاتب کے مسائل میں سے ایک مسئلہ میں تامل کررہا تھا اسی غور وفکر اور تدبر کی وجہ سے مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ میری روح کیسے نکلی ۔

حضرت یحیی رحمۃ اللہ علیہامام مالک رحمۃ اللہ علیہکے درس میں حاضر تھے شوربرپا ہوا کہ ہاتھی آگیا ہاتھی آگیا سارے طلب علم درس چھوڑ کر بازار چلے گئے صرف حضرت یحییٰ رحمۃ اللہ علیہپیچھے رہے، امام مالک علیہ الرحمہ نے فرمایا: تمہارے اندیس میں ہاتھی نہیں ہوتے تم بھی دیکھ آؤ، آپ علیہ الرحمہ نے عرض کی یا سیدی میں ہاتھی دیکھنے نہیں آیا علم سیکھنے کے لیے آیا ہوں۔ ہمارے جلیل القدر اسلاف نے جس ذوق و لگن اور محنت سے علم و حکمت کے گوہرپاروں کو سمیٹا اور چار دانگ عالم میں پھیلایا، تاریخ انسانی کی وہ داستان ہے کہ آج بھی ہمیں اس پر فخر ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ تاریخ ِعلم کے ا یسے واقعات کو پڑھیں تاکہ علم کے لیے ہمارے ذوق و جستجو میں اضافہ ہو۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ اور طلبا اپنے قیمتی اوقات کو مطالعہ کے لیے وقف کریں کیونکہ علم ہی باعثِ فضیلت ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں :

فا الفضل الا لالعل العلم انہم

علی الہدی المن استھدی ادلاء

(فضیلت تو صرف اہل علم کے لیے ہے اور وہی ہدایت طلب کرنے والوں کے رہنما ہیں۔)

لیکن یاد رہے ، نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

آج وقت کو ضائع کرنا مشغلہ بن گیا ہے، طلبا کے لیے وقت بے قیمت ہوگیا ہے فضول کاموں اور بحثوں کے لیے دن رات مشغول ہیں لیکن اپنے اصل مقصد سے غافل ہیں۔ وقت کی افادیت کو نہ سجھنے والا کبھی عروج کی منازل طے نہیں کرسکتا۔

انسان کو بناتاہے اکمل مطالعہ

ہے جنمِ دل کے واسطے کامل مطالعہ

دنیا کے ہر ہنر سے ہے افضل مطالعہ

کرتا ہے آدمی کو مکمل مطالعہ

مطالعہ کی اہمیت اقوالِ زریں کی روشنی میں:

۱۔مطالعہ انسان کے اخلاق کا معیار ہے۔

۲۔دماغ کے لیے مطالعہ اور جسم کے لیے ورزش ضروری ہے۔

۳۔دنیا میں ایک باعزت اور ذی علم بننے کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔

۴۔کسی نے کہا مطالعہ روح کی غذا ہے

۵۔دینی کتب کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے

۶۔مطالعہ ایک مسرت ہے

حضرت امام زہری رحمۃاللہ علیہ : آپ کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اِدھر اُدھر کتابیں ہوتیں اور آپ مطالعے میں ایسے مصروف ہوتے کہ دنیا و مافیہا کی کی خبر نہ رہتی۔ بیوی کو کب گوارا ہوسکتا تھا کہ اس کے سوا کسی اور کی اس قدر گنجائش شوہر کے دل میں ہو، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی نے بگڑ کر کہا: واللہ لھذا لکتب علی بین ثالث صدائد ترجمہ ۔ اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔

حضرت خطیب بغدادی رحمہ اللہ علیہ : آپ کے مطالعہ کا عالم یہ تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ راہ میں چلتے بھی مطالعہ کرتے اس لیے کہ آنے جانے کا وقت ضائع نہ ہو۔

حضرت حکیم ابوانصر قادری رحمہ اللہ علیہ : حضرت حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن کا عالم میں بڑا شہرہ تھا، زمانہ طالب علمی میں رات کو بادشاہوں کی قندیلوں تلے کھڑے ہو کر کتاب کا مطالعہ کرتےتھے۔ ان کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ اپنا تیل خرید کر مطالعہ کا انتظام کرتے آج ہمارے پاس سب کچھ میسر ہے پھر بھی مطالعہ سے محروم ۔

رات کو بھی مطالعہ میں منہمک رہتے:

حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ایک صاحب جوان کے ہم سبق تھے فرماتے تھے کہ میں نے ان کے بارے میں دیکھا کہ وہ رات کو چراغ جلائے کتاب کھول کر بیٹھے اور اس کی بعد چراغ بجھا کر لیٹ جاتے پھر تھوڑی دیر بعد چراغ جلاتے اور مطالعہ کرتے کہتے ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک رات میں سترہ(17) دفعہ اٹھ کر چراغ جلایااور مطالعہ کیا ۔ اب جس نے سترہ مرتبہ اٹھ کر چراغ جلایا وہ رات کو سوتے کیا ہوں گے؟ کئی مرتبہ لوگ دیکھتے کہ چار پائی پر بیٹھتے ہیں اور وہ اسی عشا کے وضو سے اٹھ کر فجر کی نماز پڑھ لیتے تھے۔

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ: حضرت علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا جس میں چھ ہزار کتابیں تھیں۔

حضرت علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ : آپ کا یہ عالم تھا کہ باوجود ریاحی امراض میں مبتلاہونے کے بھی بغیر وضو کتاب کو ہاتھ نہ لگاتے تھے ایک بار مطالعہ میں انہوں نے سترہ (17)بار وضو کیا، وجہ یہ ہے کہ علم نور ہے اور وضو بھی نور ہے، جس کی وجہ سے علم کا نور وضو کے نور کی وجہ سے زیادہ ہوجائے گا۔

ولی کامل پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ :

آپ مطالعہ کے اس قدر شوقین تھے موسم سرما کی طویل راتیں عشا ءکی نماز کے بعد مطالعہ میں ہی گزر جاتیں اور اسی حالت میں اذانِ فجر ہوجاتی۔آپ خود اپنے طالبِ علمی کے بارے میں فرماتے ہیں: ایک روز استاد صاحب نے پوچھا مطالعہ کرکے آئے ہو یا نہیں؟ مجھے اس وقت مطالعہ کا صحیح مطلب معلوم ہی نہیں تھا میں نے سمجھا مطالعہ زبانی یاد کرنے کو کہتے ہیں اس لیے اگلے دن تمام اسباق زبانی یاد کرکے سناے، تو استاد صاحب کی حیرانی کی انتہا نہ رہی بس ثابت ہوا کہ مطالعہ کا شوق علم کی ترقی کا زینہ ہے۔

حضرت ابو معشر تجم کا مطالعہ : آپ کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ آپ خراسان سے مکہ جاتے ہوئے بغداد کا ایک کتب خانہ خزانہ الحکمت دیکھنے کا فیصلہ کیا وہاں پہنچ کر مطالعہ میں اتنا محو ہوئے کہ مکہ جانا ہی بھول گئے۔

موجودہ حالات :

آج کل عجیب بد ذوقی سے طلبا اور اساتذہ میں مطالعہ کی شوق ختم ہوتا جارہا ہے اگر شوق ہے تو غیر درسی کتابیں اخبار بینی میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔ اور سلف صالحین کا مطالعہ ذوقِ تالیف وتصنیف ہمارے سامنے ہے، جن سے صاف طور پر معلوم ہوتاہے کہ ان حضرات کا مقصد حیات بس ایک ہی تھاوہ ہے ،علم میں درجہ کمال حاصل کرنا،یہ مطالعہ کے ساتھ ہوگا۔


محترم قارئین ہمارے اسلاف کرام رحمہم اللہ المبین مطالعہ کا اس قدر شوق و ذوق رکھتے تھے کہ اپنا کوئی لمحہ بھی ضائع کرنا پسند نہ فرماتے جیسا کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ راہ چلتے بھی مطالعہ کرتے تھے تاکہ آنے جانے کا وقت ضائع نہ ہو۔( اخبار الاخبار مع مکتوبات ص ۳۱۲ بحوالہ اصلاح کے مدنی پھول ۱، ص ۳۰۵)

اسی طرح کئی اور واقعات ہمیں ورطہ حیرت میں ڈالتے ہیں کہ شاید ان نفوس قدسیہ کے نزدیک مطالعہ کرنے میں وہ لذت تھی جو ایک شدید پیاسے شخص کو ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتی ہے، یا اس ماں کی طرح سکون ملتا ہے جس کابرسوں سے کھویا ہوا بچہ مل گیا ہو، البتہ یہاں بزرگانِ دین کے شوق مطالعہ کے حوالے سے چند شاندار واقعات ذکر کیے جاتے ہیں۔

(۱)ہزاروں کتابوں کا مطالعہ :

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی۔ جب کوئی نئی کتاب پر نظر پڑتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ آپ رحمہ اللہ مطالعہ کرنے کے اتنے شوقین کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے صرف اپنےبچپن میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ فرمایا نیز اس علم کے شیدائی نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ فرمایا جس میں چھ ہزار کتابیں تھیں اور مزید فرماتے ، کتب الحنفیہ ، کتب الحدوری ، کتب عبدالوہاب کتب ابی محمد وغیر ھا جتنے کتب خانے میرے دستر س میں تھے سب کا مطالعہ کر ڈالا۔( صید الخاطر ۳۳۸، بحوالہ اصلاح کے مدنی پھول حضہ ۱،ص ۳۰۶)

(۲) نیند سے زیادہ لذت بخش شے :

عرب و عجم کے جلیل القدر محدث حضرت سیدنا علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے شوق مطالعہ کے متعلق فرماتے ہیں: مطالعہ کرنا میرا شوق و روز کا مشغلہ تھا بچپن میں بھی مجھے کھیل کود اور آرام و آسائش کے مطابق کچھ معلوم نہ تھا ، بارہا ایسا ہوا کہ مطالعہ کرتے آدھی رات ہوجاتی تو والد محترم سمجھاتے۔ کیا کرتے ہو؟

یہ سنتے ہی فوراً لیٹ جاتا اور عرض کرتا سونے لگا ہوں کچھ دیر کے بعد پھر اٹھ کر مطالعہ شروع کردیتا۔ بسا اوقات دورانِ مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھوکرجُھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مشغولیت کے سبب پتا ہی نہ چلتا گویا، حضرت سیدنا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نیند سے زیادہ لذت بخش شے مطالعہ کرکے اپنی علمی پیاس بجھانا تھا۔( وقت ہزار نعمت ، مصنف خلیفہ تاج الشریعہ مولانا محمد افروز قادری، ص ۷۵، مطبوعہ انس پبلشر کراچی)

ّ(۳)مطالعہ کرتے ہوئے موت :

حضرت احمد بن یسار ثعلب نحوی رحمۃ اللہ علیہ لغت و ادب کے امام تھے کتابوں سے جنون کی حد تک عشق تھا، عالم یہ تھا کہ اگر کوئی دعوت دیتا تو قبول کرنے میں شرط ضرور لگاتے کہ دعوت میں میرے مطالعہ کے لیے جگہ کا اہتمام کیا جائے گا، آپ ؎رحمۃ ؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎اللہ علیہ کے مطالعہ میں انہماک کا عالم یہ تھا کہ ایک دن راہ چلتے مطالعہ میں مصروف تھے، سامنے سے گھوڑا آرہا تھا مطالعہ کی مشغولیت نے اس کا احساس نہ ہونے دیا اور گھوڑے نے انہیں کھڈ میں گرا ڈالا ، بے ہوش ہوئے گھر لائے گئے تو زندگی کی باز ی ہار گئے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔(ایضاً)

(۴)۔جب دیکھتا پڑھتے دیکھتا:

حضور مفتی الاعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں جب مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھتا پڑھتے دیکھتا۔ مدرسہ میں قیام گاہ پر حتی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی، اگر جماعت میں تاخیرہوتی تو دیگر اذکار و وظائف کی بجائے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے مزید محدث الاعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمہ اللہ کے کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نماز ، عشا کے بعد اپنے سامنے کتاب رکھ کر بیٹھ جاتے اور مطالعہ کرتے ہوئے بسا اوقات فجر کی اذان ہوجاتی۔( حیات محدث اعظم پاکستان ص ۳۴)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنے اسلاف کرام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خوب خوب مطالعہ کر نے کی سعادت نصیب فرمائے۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم