محترم قارئین
ہمارے اسلاف کرام رحمہم
اللہ المبین مطالعہ کا اس قدر شوق
و ذوق رکھتے تھے کہ اپنا کوئی لمحہ بھی ضائع کرنا پسند نہ فرماتے جیسا کہ خطیب
بغدادی رحمہ
اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ راہ چلتے بھی مطالعہ
کرتے تھے تاکہ آنے جانے کا وقت ضائع نہ ہو۔( اخبار الاخبار مع مکتوبات ص ۳۱۲
بحوالہ اصلاح کے مدنی پھول ۱، ص ۳۰۵)
اسی طرح کئی
اور واقعات ہمیں ورطہ حیرت میں ڈالتے ہیں کہ شاید ان نفوس قدسیہ کے نزدیک مطالعہ
کرنے میں وہ لذت تھی جو ایک شدید پیاسے شخص کو ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتی ہے،
یا اس ماں کی طرح سکون ملتا ہے جس کابرسوں سے کھویا ہوا بچہ مل گیا ہو، البتہ یہاں بزرگانِ دین کے شوق مطالعہ کے حوالے
سے چند شاندار واقعات ذکر کیے جاتے ہیں۔
(۱)ہزاروں
کتابوں کا مطالعہ :
علامہ ابن
جوزی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی
طرح سیر نہیں ہوتی۔ جب کوئی نئی کتاب پر نظر پڑتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی
خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ آپ رحمہ اللہ مطالعہ کرنے کے اتنے شوقین کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے صرف اپنےبچپن میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ
فرمایا نیز اس علم کے شیدائی نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ فرمایا جس میں چھ ہزار کتابیں
تھیں اور مزید فرماتے ، کتب الحنفیہ ، کتب الحدوری ، کتب عبدالوہاب کتب ابی محمد
وغیر ھا جتنے کتب خانے میرے دستر س میں تھے سب کا مطالعہ کر ڈالا۔( صید الخاطر ۳۳۸، بحوالہ اصلاح کے مدنی پھول حضہ ۱،ص ۳۰۶)
(۲) نیند سے زیادہ لذت بخش شے :
عرب و عجم کے جلیل القدر محدث حضرت سیدنا علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے شوق مطالعہ کے
متعلق فرماتے ہیں: مطالعہ کرنا میرا شوق و روز کا مشغلہ تھا بچپن میں بھی مجھے
کھیل کود اور آرام و آسائش کے مطابق کچھ معلوم نہ تھا ، بارہا ایسا ہوا کہ مطالعہ کرتے آدھی رات
ہوجاتی تو والد محترم سمجھاتے۔ کیا کرتے ہو؟
یہ سنتے ہی فوراً لیٹ جاتا اور عرض
کرتا سونے لگا ہوں کچھ دیر کے بعد پھر اٹھ کر مطالعہ شروع کردیتا۔ بسا اوقات دورانِ مطالعہ سر کے بال اور عمامہ
وغیرہ چراغ سے چھوکرجُھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مشغولیت کے سبب پتا ہی نہ چلتا
گویا، حضرت سیدنا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نیند سے زیادہ لذت بخش شے مطالعہ کرکے اپنی علمی پیاس بجھانا
تھا۔( وقت ہزار نعمت ،
مصنف خلیفہ تاج الشریعہ مولانا محمد افروز
قادری، ص ۷۵، مطبوعہ انس پبلشر کراچی)
ّ(۳)مطالعہ
کرتے ہوئے موت :
حضرت احمد بن یسار ثعلب نحوی رحمۃ اللہ علیہ لغت و ادب کے امام
تھے کتابوں سے جنون کی حد تک عشق تھا، عالم یہ تھا کہ اگر کوئی دعوت دیتا
تو قبول کرنے میں شرط ضرور لگاتے کہ دعوت میں میرے مطالعہ کے لیے جگہ کا اہتمام کیا جائے گا، آپ ؎رحمۃ ؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎اللہ
علیہ
کے مطالعہ میں انہماک کا عالم یہ تھا کہ ایک دن راہ چلتے مطالعہ میں مصروف تھے،
سامنے سے گھوڑا آرہا تھا مطالعہ کی مشغولیت نے اس کا احساس نہ ہونے دیا اور
گھوڑے نے انہیں کھڈ میں گرا ڈالا ، بے ہوش
ہوئے گھر لائے گئے تو زندگی کی باز ی ہار گئے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔(ایضاً)
(۴)۔جب
دیکھتا پڑھتے دیکھتا:
حضور مفتی
الاعظم ہند
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں جب
مولانا سردار احمد
رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھتا پڑھتے
دیکھتا۔ مدرسہ میں قیام گاہ پر حتی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی،
اگر جماعت میں تاخیرہوتی تو دیگر اذکار و وظائف کی بجائے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے مزید محدث الاعظم پاکستان
مولانا سردار احمد
رحمہ اللہ کے کے بارے میں آتا ہے
کہ آپ نماز ، عشا کے بعد اپنے سامنے کتاب رکھ کر بیٹھ جاتے اور مطالعہ کرتے ہوئے
بسا اوقات فجر کی اذان ہوجاتی۔( حیات محدث اعظم پاکستان ص ۳۴)