مبشر رضا عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور پاکستان)
الله پاک کی رضا پانے حصولِ جنت اور دنیا و آخرت کی سرخروئی
و کامیابی کے لئے ہر طرح کے گناہ سے بچنا ضروری ہے پھر بعض گناہوں کا تعلق ظاہری
اعضا سے ہوتا ہے۔ جیسے قتل، غیبت، چغلی اور بعض گناہ باطنی ہیں جیسے تجسس۔
تجسس کی تعریف: لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے۔(احیاء العلوم
،2/643)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یاد رہے تجسس یعنی اپنے کسی بھی
مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب کو تلاش کرنا یا اس کے لئے سعی (کوشش) کرنا شرعاً ممنوع
ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 321)
قراٰن و احادیث میں تجسس کی بے شمار مذمت بیان کی گئی ہے۔ جیسا
کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)حضرت علامہ مولانا سید
محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ " خزائن العرفان" میں اس آیت
مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال
کی جستجو میں نہ رہو ۔جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے ۔( باطنی بیماریوں
کی معلومات، ص319)
اسی طرح احادیث کر یمہ میں بھی تجسس کی مذمت بیان کی گئی ہے
جس میں سے چند ملاحظہ ہوں ۔
(1) محشر کی رسوائی کا سبب : حضور اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو! جو زبانوں سے تو ایمان لے
آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کو ایذا مت دو،
اور نہ ان کے عیوب کو تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا
اللہ پاک اُس کا عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اُسے
رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانہ میں ہو۔ (شعب الایمان ، باب فی
تحریم اعراض الناس، 5/296، حدیث: 6704، بتغیر)
(2)کتے کی شکل میں اٹھایا جائے گا : نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : غیبت کرنے والوں ، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو
الله (قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔ ( الترغيب والترهيب، 3/325 ، حدیث :10)
(3) عیب تلاش کرنے کی ممانعت :رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے،ایک دوسرے کے
ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو،حسد نہ کرو،بغض نہ کرو،ایک دوسرے سے
رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ۔( مسلم ، کتاب البرّ
والصّلۃ والآداب ، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس... الخ ، ص1386 ، الحدیث: 2563)
(4) کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا: سرکار مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جو شخص کسی قوم کی
باتیں کان لگا کر سنے حالانکہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے ہوں یا اس بات کو چھپانا
چاہتے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ (صَحیح
بُخاری، 4/423،حدیث :7042)
(5) دنیا و آخرت کی کیا رسوائی کا سبب : حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے مسلمان بھائی کا عیب چھپایا
اللہ پاک قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب ظاہر
کریگا اللہ پاک اس کے عیب ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ اسے اسی کے گھر میں رسوا کر دے
گا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الحدود، باب الستر علی المومن ۔۔۔۔۔۔الخ،ص 2629،حدیث: 2546)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ذرا غور سے سوچئے اس تجسس کا کیا
فائدہ محض ذاتی مفاد کا حصول جبکہ اس کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی،
دنیا و آخرت کی رسوائی کا سبب، اللہ پاک کی نظر ِرحمت اور انعاماتِ جنت سے محرومی
اور جہنم ٹھکانہ بننے کا سبب۔ تجسس نے نہ کسی کو بلندی دی اور نہ ہی شائستگی بخشی
بلکہ ہمیشہ دنیا و آخرت میں رسوائی کا ہی سبب ہے۔
تجسس سے
بچنے کا طریقہ : تجسس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ قراٰن و احادیث میں اس
کے بیان کیے گئے عذابات کا مطالعہ کرے اور سوچے کہ اگر اس میں سے کوئی عذاب مجھ پر
مسلط کر دیا گیا تو میرا کیا بنے گا۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں
تجسس جیسی موذی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد حدیر فرجاد(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی کراچی پاکستان)
دینِ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں سب کے حقوق کا خیال رکھا
گیا ہے جہاں حقوق الله ہیں اسی کے بعد حقوقُ العباد کا بھی معاملہ درپیش آتا ہے۔ جہاں
مسلمان کو دوسرے مسلمان کے لئے بد گمانی ، دھوکہ دینے وغیرہ سے منع اور اس کی مذمتیں
قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہی تجسس کی مذمت بھی قرآن و احادیث میں بیان کی گئی
ہے۔ لیکن آہ صدر کڑور افسوس کہ آج مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی ٹوہ (تجسس) میں
لگا ہوا ہے کہ کسی طرح اس کا معاملہ معلوم ہو جائے تو پھر اس پر اس کو بلیک میل
کرونگا (الامان والحفیظ) ۔ اللہ پاک تجسس کی مذمت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)آیت کی تفسیر : یعنی
مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی جستجو میں نہ رہو جسےاللہ پاک
نے اپنی ستّاری سے چھپایا۔ ( تفسیر خزائن العرفان)
حدیث اول : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسولُ الله (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا
کہ اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ یہ بد ترین جھوٹ ہے اور نہ تو عیب جوئی کرو نہ
کسی کی باتیں خفیہ سنو اور نہ نجش کرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو نہ ایک دوسرے کی
غیبت کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ ۔(مسلم و بخاری، مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ، جلد 6)
حدیث ثانی: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: اے وہ لوگو جو زبان سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دِل میں ابھی تک
ایمان داخِل نہیں ہوا! مسلمانوں کی غیبت مت کرو اور نہ ان کے عُیُوب کو تلاش کرو کیونکہ
جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اُس کا عیب ظاہِر فرما دے گا
اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہِر فرما دے تو اُسے رُسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر
کے اندر ( چُھپ کر بیٹھا ہوا ) ہو ۔
تجسس کی تعریف : لوگوں کی خُفیَہ (چھپی ہوئی) باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تَجَسُّس(عیب
جوئی) کہلاتا ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الرابع و العشرون)
تجسس کی مثال : (1) کسی سے یہ پوچھنا رات دیر تک جاگتے رہتے
ہو فجر بھی پڑھتے ہو یا نہیں؟ (2) اسی طرح بلا اجازتِ شرعی کسی کا کوئی عیب معلوم
کرنے کے لیے اس کا پیچھا کرنا اس کے گھر جھانکنا وغیرہ بھی تجسس میں شامل ہے۔ ( آئیے
فرض علوم سیکھئے، ص711)
تجسس کا حکم : مسلمان کی عیب جوئی (عیب تلاش کرنا ) حرام ہے۔ (فتاوی رضویہ، 14/271)
تجسس کے اسباب : (1) بغض و کینہ(2 )حسد( 3) چغل خوری کی عادت (ایسا شخص ایک دوسرے تک باتیں پہنچانے
کے لئے لوگوں کے عیب تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے۔ )( آئیے فرض علوم سیکھئے ،ص712)
تجسس سے بچنے کے طریقے : (1) اپنے عیبوں پر نظر رکھئے اور انہیں دور کرنے میں لگ جائیں اور بے جا سوچنا
چھوڑ دیں۔ (2) اللہ پاک کی رضا کے لیے آپس میں محبت کیجئے اور دل سے مسلمانوں کا بغض
و کینہ نکال دیجئے۔ ( آئیے فرض علوم سیکھئے ،ص712)
اللہ پاک اس مہلک بیماری سے ہر مسلمان کو بچائے اور
مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے اللہ کی رضا کے لئے محبتیں اُجاگر ہو جائیں
اور مسلمانوں کے دل اپنے مسلمان بھائی کے لئے بغض و کینہ سے پاک ہو جائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الكريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد ثقلین عطاری(درجہ رابعہ جامعۃُ المدينہ فیضان امام غزالی گلستان کالونی فیصل
آباد پاکستان )
دینِ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے۔ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دینِ اسلام
کے ذریعے ہماری مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔ اگر ہم محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے راستے اور آپ کی سیرت
پر چلتے ہیں تو آخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ اب یہ تعین کرنا ہوگا کہ
کونسے کام کو اپنا کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کی سکتی ہے اور کونسے کام کا ارتکاب
کرنے سے ذلیل و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے
گناہ عام ہوتے جا رہے ہیں جن میں سے ایک تجسس کی بھی بیماری ہے۔ آئیے تجسس کے بارے
میں کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں:۔
تجسس کی تعریف : لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے ۔( باطنی بیماریوں
کی معلومات ، ص 318 )
الله پاک نے پارہ 26 سورة الحجرات کی آیت نمبر 12 میں ارشاد
فرمایا :﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین
مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ " خزائن العرفان" میں اس آیت مبارکہ
کے تحت فرماتے ہیں : یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی
جستجو میں نہ رہو ۔جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے ۔
آئیے اب تجسس (یعنی عیب تلاش کرنا) کی مذمت میں چند احادیثِ
کریمہ ملاحظہ فرمائیے۔
(1) بھائی بھائی ہو جاؤ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی بدترین جھوٹ ہے۔ اور فرمایا کہ نہ ہی
تم ایک دوسرے کے عیب تلاش کرو اور حرص نہ کرو اور حسد نہ کرو اور بغض نہ رکھو اور
نہ ایک دوسرے سے روگردانی کرو۔ اللہ کے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کے بندے آپس میں ایک دوسرے کے
بھائی بھائی ہو جاؤ۔(صحیح مسلم، حدیث : 36 65)
(2) تانبے کے ناخن : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب مجھے میرے رب نے معراج
دی تو میں اس قوم پر گزرا جن کے
تانبے کے ناخن تھے کہ وہ اپنے چہرے اور سینے کھرچ رہے تھے تو میں نے پوچھا اے جبریل
یہ کون لوگ ہیں عرض کیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں اور ان کی
آبرؤوں میں مشغول ہوتے ہیں ۔(مشکوۃ المصابیح، حديث: 5046)
(3) رسوا کرا دیتا: اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو جو زبان سے تو ایمان لے آئے ہو مگر
تمہارے دِل میں ابھی تک ایمان داخِل نہیں ہوا! مسلمانوں کی غیبت مت کرو اور نہ ان
کے عُیُوب کو تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک
اُس کا عیب ظاہِر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہِر فرما دے تو اُسے رُسوا
کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ( چُھپ کر بیٹھا ہوا ) ہو ۔(شعب الایمان، ج:
5 ، حدیث : 6704)
اس حدیثِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور
انکے عیب تلاش کرنا منافق کا طریقہ ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہیں
دنیا اور آخرت میں ۔
(4) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا: رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غیبت کرنے والا، چغل خور اور پاکباز
لوگوں کے عیب تلاش کرنے والے کو اللہ پاک قیامت کے دن کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔
(الترغیب و الترهيب ، ج 3، حدیث:10)
(5)
برباد کر دیا: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضور سے سنا نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا : اگر تو لوگوں کے عیب تلاش کرتا پھرے گا تو تونے ان کو برباد کر دیا یا ان
کو خراب کرنے کی کوشش کی۔
تجسس کا حکم : مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے۔
آئیے موضوع کی مناسبت کی وجہ سے عیب چھپانے کی فضلیت پر ایک
حدیث ملاحظہ کیجئے تاکہ عیب چھپانے کا ذہن بنے۔
قیامت کے دن عیبوں پر پردہ : حضرت عبد الله بن عمر رضی
اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مسلمان بھائی کے عیب
کی پردہ پوشی فرمائی تو قیامت کے دن اللہ اس کے عیب کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (صحیح
البخاری ،2/ 126 حديث: 2442 )
اللہ پا ک ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب چھپانے کی
توفیق عطا فرمائے۔ (اٰمین) تجسس کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی
369 صفحات پر مشتمل کتاب "باطنی بیماریوں کی معلومات" کا مطالعہ کیجئے۔
آیت مبارکہ :﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)اس آیت میں دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ مسلمانوں کی
عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہو، جسے اللہ پاک نے اپنی
ستاری سے چھپایا ہے۔
مسلمانوں کے عیب تلاش کرنے کی ممانعت: اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا
اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے ،یہاں اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیث ِپاک ملاحظہ
ہو، چنانچہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان
ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں
کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے
گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی
اللہ (پاک) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے
مکان کے اندر ہو۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4880)
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب
تلاش کرنا منافق کا شِعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ
جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے، یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب
ضرور ہو گا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل
و خوار ہو جائے۔ لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ان کی اس
حرکت کی بنا پر کہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت
و رسوائی سے دوچار ہو جائیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :
تجسس نہ کرو اور خبریں معلوم نہ کرو اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے کی
مخالفت نہ کرو اور سب اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ۔ (بخاری)
اللہ پاک نے گھر میں داخل ہونے کا کے لئے اجازت مانگنے کا
حکم دیا ہے تاکہ (داخل ہونے والا اچانک داخل ہو کر) راز کو نہ جان سکے بلکہ ان کے
رازوں اور عیبوں کی حفاظت ہو سکے۔ (بخاری و مسلم شریف)
حضرت ابن عباس رضی
اللہُ عنہما سے روایت ہے۔ ہیں کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے
اللہ پاک قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب
ظاہر کرے اللہ پاک اس کا عیب ظاہر فرمائے گا یہاں تک کہ اسے اس کے گھر میں رسوا کر
دے گا۔
حضرت معاویہ رضی اللہُ
عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر کو لوگوں کے باطن اور ان کے راز ٹٹولنے
کے درپے ہوگا تو تم انہیں (خراب) بگاڑ دے گا یا فرمایا ممکن ہے تو انہیں کردے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے دوست ہے کہ جس شخص نے کوئی
جھوٹا خواب گھڑ لیا جو اس نے نہیں دیکھا تھا تو اسے یہ حکم دیا جائے گا کہ وہ دو
جو کے دانوں کے درمیان گرہ لگائے تو اس کا عذاب کم ہو سکے گا جبکہ ایسا وہ ہر گز
نہیں کر سکے گا۔ اور جو شخص لوگوں کی باتیں سنتا ہے حالانکہ وہ اسے نہیں سنانا چاہتے
۔
ارشادِ باری ہے :﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔
(پ26، الحجرات: 12)صدرُ الافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی اس آیت کے
تحت فرماتے ہیں یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چُھپے حال کی جستجو میں
نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستّاری سے چُھپایا۔ حدیث شریف میں ہے : گمان سے بچو
گمان بڑی جھوٹ بات ہے اور مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اُن کے ساتھ حرص و حسد ،
بغض ،بے مروتی نہ کرو ۔ اے اللہ کے بندو! بھائی بنے رہو جیسا تمہیں حکم دیا گیا
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر ظلم نہ کرے، اس کو رسوا نہ کرے اس کی تحقیر نہ
کرے تقویٰ یہاں ہے تقویٰ یہاں ہے تقویٰ یہاں ہے اور(یہاں کے لفظ سے اپنے سینے کی
طرف اشارہ فرمایا ) آدمی کے لئے یہ برائی بہت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر دیکھے
ہر مسلمان مسلمان پر حرام ہے اس کا خون بھی اس کی آبرو اس کا مال ۔ اللہ پاک تمہارے
جسموں اور صورتوں اور عملوں پر نظر نہیں فرماتا لیکن تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے
(بخاری و مسلم ) ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ”جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی
کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا “
تجسس کی تعریف: لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے ۔(احیاء
العلوم، 2/643 )
حدیث:(1) رسولِ اکرم تاجدارِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : و
مَن استمع الی حدیث قوم و هم له كارهُون اؤ يفرون منہ صُبّ فی اُذنِہ الْآنُکُ
یومَ القیامۃ وَ مَن صوّر صورۃ عذِّبَ و کُلِّف انْ ینفخَ فِیھَا و لیسَ بنافخ۔۔ ۔”یعنی جس نے لوگوں کے ناپسند کرنے اور نا چاہنے کے
باوجود ان کی باتوں کی طرف کان لگائے روزِ قیامت اس کے کانوں میں سیسہ اُنڈیلا
جائے گا اور جو تصویر بنائے اسے عذاب دیا جائے گا اور اسے اس بات کی تکلیف دی جائے
گی کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ روح نہ پھونک سکے گا ۔“(بخاری شریف، 4/ 422 ،حدیث
: 7042 )
حدیث (2): نبئ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے وہ لوگوں! جو
زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا !
مسلمانوں کو ایذا مت دو اور نہ ان کے عیب کو تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی
کا عیب تلاش کرے گا اللہ کریم اس کا عیب ظاہر فرمادے گا اور اللہ پاک جس کا عیب
ظاہر فرمادے تو اسے رسوا کردیتا ہے اگر وہ اگر وہ اپنے تہہ خانے میں ہو ۔(شُعبَ
الِایمان )
(3) غیبت کرنے
والوں ، چغل خوروں اور پاک پاز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک کتوں کی
شکل میں اُٹھائے گا۔(الترغیب و الترھیب، 3/ 325 ،حدیث : 10 )
حکیم الاُمت علامہ مفتی احمد یار نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں تمام انسان
قبروں سے بشکلِ انسانی اُٹھیں گے پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہوجائیں
گی۔ (بگڑ جائیں گے مثال کے طور پر مختلف جانوروں جیسی شکل ہو جائیں گے) (مراۃالمناجیح،
6/ 660 )
برہنہ کرنے سے بڑھ کر گناہ : اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ روحُ
اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے اپنے حواریوں سے ارشاد فرمایا :اگر تم
اپنے بھائی کو اس حال میں سوتا پاؤ کہ ہوا نے اس کے جسم سے کپڑا ہٹا دیا ہے (جس کی
وجہ سےاس کا ستر ظاہر ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں ) تو تم کیا کرو گے؟ انہوں نے
عرض کی : اس کی ستر پوشی کریں گے اور اُسے ڈھا نپ دیں گے۔ تو آپ علیہ السّلام نے
ارشاد فرمایا : بلکہ اس کا ستر کھول دو گے حواریوں نے تعجب کرتے ہوئے کہا : سُبحان
اللہ ! یہ کون کرے گا ؟؟ تو آپ علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی
اپنے بھائی کے (عیوب وغیرہ ) کے بارے میں کچھ سنتا ہے تو اُسے بڑھا چڑھا کر بیان
کرتا ہے اور یہ برہنہ کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔ (احیاء العلوم، 2/644 )
عبد الرحیم عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان بہارِ مدینہ کراچی پاکستان
)
اِسلام کے سنہری اُصولوں کی خوبصورتی اور اِنسانی حُقوق کے
تَحَفُّظ اور معاشرے میں بھائی چارگی کے فَروغ کے لئے ایک دوسرے کی عیب پوشی
اِنتہائی ضَروری ہے، دورِ حاضر میں مسلمانوں کے باہمی تَعَلُّق اور باہمی محبت کا
خاتِمہ ہوتا ہوا دِکھائی دیتا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھائی اپنے بھائی کا
دُشمَن ہے۔جِسکی ایک اَہَم وجہ تجسس(عیب جوئی) ہے، جو ہمارے معاشرے پر انتہائی
بُرا اثر ڈالتا ہے۔ ہر شخص اپنی بُرائیوں کو چھوڑ کَر دوسروں کی بُرائیاں ڈھونڈنے
اور تجسس (عیب جوئی) کرنے میں مَشغول نظر آتا ہے جو کہ دُنیَوی طور پر بھی باہمی
تَعَلُّق و محبت کے خاتِمے کا سبب بنتا ہے اور اُخرَوی طور پر بھی خطرناک ثابِت ہو
سکتا ہے۔
جتنی فِکر اور جتنا
تجسس(عیب جوئی) لوگ دوسروں کے طَرزِ زندگی پر کرتے ہیں اگر اِتنا تَفَکُّر اپنے
اندر موجود بُرائیوں پر کیا جائے تو شاید ہر فرد اپنی بُرائیوں کی اِصلاح کرنے میں
کامیاب ہوجائے، کیونکہ معاشرہ افراد سے ،اور افراد فرد سے مُشتَق (بنا ہوا)ہے،اگر
ہر فرد اپنے عُیوب کی اِصلاح کرنے میں گامزَن ہوجائے تو اِس طرح معاشرے میں نِکھار
پیدا ہو سکتا ہے۔
بے شک اللہ پاک نے اپنی قُدرتِ کامِلہ سے ساری کائنات کو
تخلیق فرمایا اور ہر چیز کو اُسی نے وُجود بخشا (پ14،الحجر:86 )اگر بات کی جائے
انسان کی تو اِسے اللہ پاک نے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ شَرف عطا فرمایا، لیکن
ہر انسان میں کوئی نُقص یا خَرابی ہوتی ہے،انسانوں میں انبیا کے علاوہ کوئی بھی
گناہ سے پاک نہیں ( ہر کوئی کہیں نا
کہیں کسی غَلَطی پر ہوتا ہے، کسی کی عادات و اَخلاق درست نہیں ہوتے جیسے؛ غُصّے کا
تیز ہونا یامُسکُرانے کی عادت نہ ہونا وغیرہ۔ اور کسی انسان کے مُعاملات درست نہیں
ہوتے جیسے؛ کھانے پینے کا انداز صحیح نہ ہونا ، چلنے کا بیٹھنے کا طریقہ درست نہ
ہونا وغیرہ۔ اسی طرح اللہ پاک نے بعض انسانوں میں کچھ عُیوب بھی رکھے جسکی یقیناً
کوئی حِکمَت ہوتی ہے، جیسے کسی کی آنکھ کا صحیح نا ہونا، ہاتھ پاؤں سے مَعزُور
ہونا، کَم سننا وغیرہ۔ لیکن اِن تمام چیزوں میں کسی دوسرے مسلمان کو ہر گِز یہ
اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے تَجَسُّس (عیب جوئی) میں پڑے )پ:۲۶،الحجرات:۱۲( اور اُس کے عُیوب
کی ٹَٹول(کھوج بین) کر کے اُن عُیوب کو لوگوں میں اِسکی تَذلیل کی نِیَت سے بیان
کرے۔
تجسس کی تعریف: لوگوں کی خُفیَہ (چھپی ہوئی) باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تَجَسُّس(عیب
جوئی) کہلاتا ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الرابع و العشرون،3/160)
تجسس کی مذمت احادیث میں: عَرَبی کا ایک مَقُولہ (کَہاوَت) ہےکَمَا تَدِینُ تُدَانُجیسی کرنی ویسی بھرنی۔ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے، اور یہ
قانونِ قدرت ہے کہ جو جس کے ساتھ غلط کرتا ہے اُس کے ساتھ بھی غلط ہوتا ہے جبکہ وہ
اِس کا (تجسس کا) عادی ہو، چنانچہ:
(1) حضرت ابو بَرزَہ اَسلَمی سے روایت ہے؛ نبئِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے اُن لوگوں کے گِروہ جو زَبان سے ایمان
لائے اور ایمان اُن کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، اور اُنکی
چھپی ہوئی باتوں کی ٹَٹول نہ کرو، اِس لئے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چُھپی
ہوئی چیز کی ٹَٹول کرے گا اللہ پاک اُس کی ٹَٹول کرے گا (یعنی اسکے عیب ظاہر
فرمادے گا) اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر فرمائے گا)، اُس کو
رُسوا کر دے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ،4/354،حدیث:4880)
تجسس (عیب جوئی) ایسا گُناہ ہے جو آپس میں نفرت پیدا کرتا
ہے، مَحَبَّت ختم کرتا ہے، اور اِس گُناہ کا مُرتَکِب(کرنے والا) غیبَت، حَسَد،
اور بَدگُمانی جیسے گُناہوں میں بھی پَڑ جاتا ہے، اور یہ تمام گُناہ باہَمی مَحَبت
کو ختم کردیتے ہیں جِسکی مذمت نبئِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمائی،چنانچہ؛
(2) حضرتِ ابوہریرہ سے
روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اپنے آپ کو بَدگُمانی سے بچاؤ، کیونکہ بَدگُمانی بَدترین جھوٹ ہے، اور نہ تو تجسس
(عیب جوئی) کرو، نہ کسی کی باتیں خُفیَہ سُنو، نہ نَجِش (دوسرے پر بَڑائی چاہنا)
کرو، اور نہ ایک دوسرے پر حَسَد و بُغض کرو، نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو، اور اے
اللہ پاک کے بندوں بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،جلد6، حدیث:5028)
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو طرح طرح کے
کاموں سے منع کرتے ہیں جبکہ وہ خود ان کاموں میں مبتلا حالانکہ ترغیب کے لئے سراپہ
ترغیب بننا پڑتا ہے، چنانچہ۔
(3) حضرت عبداللہ بِن
عَمرو نے فرمایا: کسی شخص کے گُمراہ ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ لوگوں میں وہ چیزیں
دیکھے جو اِس کو اپنے اندر نظر نہیں آتیں، اور جو کام وہ خود کرتا ہے اِن کاموں پر
دوسروں کی مذمت کرے، اور لا یعنی (بے مقصد) باتوں سے اپنے ہم نشین کو ایذاء
پہنچائے۔(الجامع لشعب الایمان، حدیث:6335)
ظاہر ہے کسی کی عیب جوئی کرنا اور اُس کے معاملات میں پڑے
رہنا اور اُس کی خُفیہ باتیں جان کر اُس کے عُیوب لوگوں میں بیان کرنا اُس کے لئے یقیناً
تکلیف والی بات ہے کیونکہ کوئی انسان بھی یہ برداشت نہیں کر پاتا کہ معاشرے میں
اُس کی تَذلیل ہو بلکہ ہر شخص ہی اپنی عزت اَفزائی چاہتا ہے۔ اور کسی بھی انسان کو
بِلاوَجہ تکلیف دینا سخت گُناہ ہے، اور سامنے والا اگر مسلمان ہے تو پھر اُس کا
مقام اور بلند ہے، نبئِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمانوں کو تکلیف دینے
سے منع فرمایا، چنانچہ؛
(4) حضرتِ ابنِ عمر سے
روایت ہے کہ ایک مرتبہ محبوبِ ربِّ اکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مِنبَر پر
تشریف فرما ہوئے پھر بُلند آواز سے اِعلان فرمایا، اے اُن لوگوں کے گِروہ جو زبان
سے ایمان لائے اور ایمان اُن کے دِلوں تک نہ پہنچا مسلمانوں کو نہ تو ایذاء دو نہ
اُنہیں عار دلاؤ (شرمندہ کرو) اور نہ اُن کے خُفیہ عیب ڈھونڈو، کیونکہ جو اپنے
مسلمان بھائی کے خُفیہ عُیوب کی تلاش کرے گا تو اللہ پاک اُس کے عُیوب ظاہر فرما دے
گا اگرچہ اُس کے گھر میں ہوں، اور اُسے رُسوا کردے گا اگرچہ وہ اپنی منزل میں
کرے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد6،حدث:5044)
ہمیشہ انسان کو اپنے عیبوں پر نظر رکھنی چاہئے، اور جب بھی
کسی کا کوئی عیب نظر آئے تو اپنے عیبوں کو یاد کرنا چاہئے، جب ہر ایک خود کو درست
کرنے اور خود کی اصلاح میں لگ جائے گا تو تقریباً معاشرہ برائیوں سے بچنے میں کامیاب
ہوجائے گا، چنانچہ۔
(5) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حضرت عبداللہ
اِبنِ عبَّاس فرماتے ہیں: جب تم اپنے ساتھی کے عیب کا ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو
اپنے عیبوں کو یاد کرو۔ (شعب الایمان،الرابع والاربعون من شعب الایمان۔۔الخ، فصل فیما
ورد۔۔۔الخ،5/311،حدیث:2758)
محمد اویس عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان عطار سخی حسن کراچی،
پاکستان)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جس طرح حضور اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دین کے احکام کو بیان فرمایا اسی ان کاموں کو بھی بیان فرمایا
جن کے کرنے سے بندہ عذاب و ثواب کا حق دار بنتا ہے، انہی میں سے ایک کام تجسس بھی ہے۔
جسے کرنے سے بندہ عذاب کا حقدار بنتا ہے۔ کسی مسلمان کے چھپے ہوئے عیبوں کو تلاش
کرنے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے ۔تجسس کی مذمت مختلف احادیث مبارکہ میں بیان کی
گی ہے، جن میں سے 5 احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے
اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی
ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز
کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا
اور جس کی اللہ (پاک) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا،
اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4880)
اللہ پاک کے محبوب ،دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : اے وہ لوگوں! جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں
ابھی ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کو ایذا مت دو ،اور نہ ان کے عیوب کو تلاش کرو
کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کا عیب ظاہر فرما دے
گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اسے رسوا کر دیتا ہے اگر چہ وہ اپنے
گھر کے تہہ خانے میں ہو۔(شعب الایمان باب فی تحریم اعراض الناس، 5/ 296 ،حدیث:
6704 ،بتغیر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ
میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کو بھول جاتا ہے۔( شعب الایمان، الرابع
والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، 5/ 311، حدیث: 6761)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: جب تم
اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو۔( شعب
الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، 5/ 311، حدیث: 6758)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غیبت
کرنے والوں، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ (قیامت کے
دن) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ الصبھانی ص 97،حدیث:
220،الترغیب والترھیب ،3/325 ،حدیث:10)
اللہ پاک ہمیں دوسروں
کے عیب تلاش کرنے سے بچنے، اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمین
تجسس کی تعریف: لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے ۔( باطنی بیماریوں
کی معلومات ، ص 318 )
قراٰن مجید اور کئی احادیث لوگوں کے عیب ٹٹولنے سے منع کیا
گیا یعنی لوگوں کی عیب جوئی نہ کرو ان کے چھپے حال جاننے کی جستجو میں نہ رہو جسے
اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے ۔ جن احادیثِ کریمہ میں تجسس کی مذمت بیان کی
گئی۔ آئیے ان میں سے پانچ احادیث پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
حدیث (1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بد گمانی سے بچتے
رہو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ، آپس میں ایک دوسرے کی برائی کی تلاش میں
نہ لگے رہو ، نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو ، نہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرو ، بلکہ
اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کے رہو ۔( صحیح البخاری ، حدیث : 6724 )
حدیث (2) حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے ان لوگوں کے گروہ ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان
ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا ، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی
باتوں کی ٹٹول نہ کرو ، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی
ٹٹول کرے گا ، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کو ظاہر کر دے گا اور جس کے عیب اللہ
ظاہر کرے گا اس کو رسوا کردے گا ، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو ۔( سنن ابو داؤد
، ادب کا بیان ، فصل فی الغیبۃ ، حدیث : 4880 )
اس حدیث پاک کے تحت مفسر قراٰن مفتی قاسم عطاری قادری صاحب
لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا
منافق کا شِعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی
دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے ، یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہو
گا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل و خوار
ہو جائے لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ان کی اس حرکت کی
بنا پر کہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت و رسوائی
سے دوچار ہو جائیں ۔( تفسیر صراط الجنان ، سورة الحجرات ، تحت الآیۃ 12 )
حدیث (3) عیب پوشی کی فضیلت: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:جو شخص کسی مسلمان کے عیب چھپائے اللہ پاک
قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا ۔
حدیث (4) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جو شخص ایسی چیز دیکھے جس کو چھپانا چاہیے اور اس نے چھپا دی تو ایسا ہے جیسے
مَوْءوْدَہ (یعنی زندہ زمین میں دبا دی جانے والی بچی) کو زندہ کیا ۔(
سنن ابو داؤد ، کتاب الادب ، حدیث : 4819 )
(5)
لوگوں کی بجائے اپنے عیب تلاش کریں: حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جب تم اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو
تو اس وقت اپنے عیبوں کو یاد کرو ۔( شعب الایمان ، حدیث: 6758 )
اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے ، اپنے عیبوں
کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ محمد مصطفیٰ عطاری بن محمد جاوید عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان
بخاری کراچی پاکستان)
ایک ایسا گناہ اور بری عادت جو آج ہر دوسرے میں پائی جاتی
ہے اور جس کے اندر یہ عادت (habit) پائی جاتی انہیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا اور وہ گناہ (sin) اور بری عادت
" تجسس" ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آخر تجسس ہے کیا
؟ کیونکہ اگر ہمیں اس گناہ اور برائی کے بارے میں معلوم ہوگا تو ہی ہم اس برائی سے
بچ سکیں گے ۔
تعریف: لوگوں کی
خفیہ باتیں (یعنی چھپی ہوئی باتیں) اور عیب جاننے کی کوشش کرنا "تجسس" کہلاتا
ہے ۔اور چونکہ دینِ اسلام کی نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے
اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت کی قدر اسلام کی نظر میں مزید
بڑھ جاتی ہے ، اسی لیے دینِ اسلام نے ان تمام افعال سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ جن سے
کسی انسان کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہو ، ان افعال میں سے ایک فعل کسی کے عیب تلاش
کرنا اور اسے دوسروں کے سامنے بیان کر دینا ہے جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم
کرنے میں بہت بڑا کردار ہے ، اس وجہ سے جہاں اس شخص کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ جس کا عیب لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائے وہیں وہ شخص بھی لوگوں کی نفرت
اور ملامت کا سامنا کرتا ہے۔ جو عیب تلاش کرنے اور انہیں ظاہر کرنے میں لگا رہتا
ہے ، یوں عیب تلاش کرنے والے اور جس کا عیب بیان کیا جائے ، دونوں کی عزت و حرمت
چلی جاتی ہے ،اس لئے دینِ اسلام نے عیبوں کی تلاش میں رہنے اور انہیں لوگوں کے
سامنے شرعی اجازت کے بغیر بیان کرنے سے منع کیا اور اس سے باز نہ آنے والوں کو سخت
وعیدیں سنائیں تاکہ ان وعیدوں سے ڈر کر لوگ اس برے فعل (کام ) سے باز آ جائیں اور
سب کی عزت و حرمت کی حفاظت ہو ۔
چنانچہ قراٰن مجید اور احادیث مبارکہ میں بھی اس گناہ کی
مذمت بیان کی گئی ہے ۔ چنانچہ ، اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی
عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہو۔ جسے اللہ پاک نے اپنی
ستاری سے چھپایا ہے ۔
صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد
آبادی رحمۃُ اللہ علیہ " خزائن العرفان" میں اس
آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے
حال کی جستجو میں نہ رہو ۔جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ گمان سے بچو گمان بڑی جھوٹی بات ہے اور
مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو ، ان کے ساتھ حرص و حسد ، بغض ،بے مروتی نہ کرو ، اے اللہ
پاک کے بندو! بھائی بھائی بنے رہو ۔جیسا تمہیں حکم دیا گیا ، مسلمان مسلمان کا
بھائی ہے، اس پر ظلم نہ کرے ، اس کو رسوا نہ کرے ، اس کی تحقیر نہ کرے ، تقوی یہاں
ہے ، تقوی یہاں ہے ، تقوی یہاں ہے ۔ ( اور یہاں کے لفظ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ
فرمایا)
آدمی کے لیے یہ برائی بہت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر
دیکھے ، ہر مسلمان مسلمان پر حرام ہے اس کا خون بھی ، اس کی آبرو بھی ، اس کا مال
بھی ، اللہ پاک تمہارے جسموں اور صورتوں اور عملوں پر نظر نہیں فرماتا لیکن تمہارے
دلوں پر نظر فرماتا ہے ۔(بخاری مسلم)
حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی
کرتا ہے اللہ پاک روز قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔
اب اس کی مذمت سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں : چنانچہ
حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ان لوگوں کے گروہ جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان
کے دلوں میں داخل نہیں ہوا ، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی
ٹٹول نہ کرو ، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے
گا ، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کردے ) گا اور جس کی اللہ
(پاک ) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا ) اس کو رسوا کر دے گا ، اگرچہ وہ مکان
کے اندر ہو ۔(ابو داؤد ، کتاب الادب ، باب فی الغیبۃ ، 4/354 ، حدیث:4880)
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب
تلاش کرنا منافق کا شعار (یعنی طریقہ) ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی
ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے ، یقیناً اس میں بھی کوئی
نہ کوئی عیب ضرور ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ
معاشرے میں ذلیل و خوار ہوجائے۔ لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا
چاہئے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ (چھپے ہوئے) عیوب
ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہو جائیں ۔
اور اس گناہ کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے حواریوں
سے ارشاد فرمایا: اگر تم اپنے بھائی کو اس حال میں سوتا پاؤ کہ ہوا نے اس ( کے جسم
) سے کپڑا ہٹا دیا ہے ( جس کی وجہ سے اس کا ستر ظاہر ہوچکا ہو تو ایسی صورت میں )
تم کیا کرو گے ؟ انہوں نے عرض کی : اس کی ستر پوشی کریں گے اور اسے ڈھانپ دیں گے ۔
تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: بلکہ تم اس کا ستر کھول دو گے۔ حواریوں نے تعجب
کرتے ہوئے کہا : سبحان اللہ! یہ کون کرے گا ؟ تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: تم میں
سے کوئی اپنے بھائی کے (عیوب وغیرہ ) کے بارے میں کچھ سنتا ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر
بیان کرتا ہے اور یہ اسے برہنہ کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے ۔(احیاء العلوم ، 2/
644) اس سے معلوم ہوا کہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کا گناہ انسان کو برہنہ کرنے
سے بھی زیادہ ہے ۔
اس گناہ کی مذمت کے متعلق ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو : چنانچہ
اللہ کے محبوب ، دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غیبت
کرنے والوں ،چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک ( قیامت
کے دن ) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا ۔( التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ الاصبھانی ص97 ،
حدیث:220 ، الترغیب والترہیب، 3/ 325 ، حدیث: 10 )
مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکلِ انسانی اٹھیں گے
پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ ( یعنی بگڑ جائیں گی مثلاً
مختلف جانوروں جیسی ہو جائیں گی ) (مراة المناجیح، 6/660)
ان سب باتوں سے ہمیں معلوم ہوا کہ یہ گناہ کس قدر بڑا ہے جس
کی ہمیں ذرہ بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ کبھی کسی کے عیب تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں
تو کبھی کسی اور کے اور اس بات کی طرف تو دھیان ہی نہیں ہوتا کہ خود کیا کر رہے ہیں
کن کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور اگر عام طور دیکھا جائے تو وہ لوگ اکثر پریشان ہی
رہتے ہیں جو ان کاموں میں لگے ہوتے ہیں کہ وہ کیا کرتا ہے اس کے پاس اتنا پیسا
کہاں سے آیا اس طرح کی فضول باتوں میں لگے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو ذہنی سکون نہیں
دے پاتے اور بعد میں شکایت یہ ہوتی ہے کہ معلوم نہیں کیوں اتنی بے سکونی ہو رہی ہے
دل بے چین ہے تو ذرا غور کیجئے کہ آپ بھی کہیں اس گناہ اور برائی میں مبتلا تو نہیں
جس کی اس قدر مذمت قراٰن مجید اور احادیث مبارکہ میں آئی ہے کیونکہ ہم اس گناہ کو
کر بھی رہے ہوتے ہیں مگر ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا تو دیکھئے اور غور کیجئے کہ کیا
آپ واقعی اس گناہ کے مرتکب (کرنے والے ) تو نہیں ہو رہے اگر ایسا ہو تو پھر اس
گناہ کو فوراً ہی خود سے دور کیجئے اور خود بھی اس سے دور ہو جائے کیونکہ ایک عاشقِ
رسول کبھی بھی وہ کام کرنا ہی نہیں چاہے گا جس کی مذمت قراٰن و حدیث میں آئی اور
اس کی اتنی خطرناک وعیدیں بیان کی گئی ہوں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس گناہ سے خود بھی
دور ہو جائیں اور اس گناہ کو بھی خود سے بہت دور کر دیں ، کیونکہ ہمارا مقصد تو
صرف اللہ پاک کو راضی کرنے والے کام کرنا ہے اور جن کاموں میں اللہ پاک کی رضا نہیں
بلکہ ناراضگی ہے تو اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے ۔
اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ، اور ہم سب کو
اپنی اور اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا والے کام کرنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مہلکات دو طرح کے ہوتے ہیں : ظاہری اور باطنی۔ جبکہ باطنی
مہلکات ظاہری سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں باطنی مہلکات سے مراد وہ مہلکات(بیماریاں)جن
کا تعلق باطنی عضو (دل) کے ساتھ ہو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص،23) باطنی مہلکات
ایسی خطرناک بیماریاں ہوتی ہیں کہ اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو یہ انسان کی صحت،
جسم، دنیا یہاں تک کہ اس کی آخرت کو بھی برباد کر دیتی ہیں۔ اُنہی باطنی مہلکات میں سے ایک تجسّس بھی ہے۔ تجسّس
یہ کہ لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا۔ (احیاء العلوم، 2/ 643)
تجسّس ایسی بیماری ہے کہ بندے کی عبادت و ریاضت کو برباد کر دیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا
حاتم اصم رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا: عیب نکالنے ولا عبادت گزار نہیں ہو سکتا۔(
منہاج العابدین، ص164) ہمارے ربّ کریم نے ہمیں قراٰنِ کریم کی آیت کے ذریعے تجسّس
کرنے سے منع فرمایا :﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ
ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)اسی طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں
اپنی احادیث مبارکہ کے ذریعے تجسّس کی مذمّت فرمائی اور بچنے کا حکم بھی دیا۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث میں سے چند یہ ہیں۔
(1)کتوں
کی شکل میں: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا غیبت
کرنے والے، چغل خور اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت
کے دن) کتّوں کی شکل میں اٹھائے گا ۔(شعب الایمان،5/ 296)مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام انسان قبروں سے انسانی شکل میں اٹھیں گے پھر
محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ بگڑ جائیں گی۔(مراٰۃ المناجیح، 6/ 660)
ذرا سوچیں کہ ہم
لوگ دنیا میں کتّے کو کتنا حقیر سمجھتے ہیں ،اگر کسی کھانے میں منہ ڈال دے تو ہم
اس کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ اگر روزِ محشر ہمیں کتّے کی شکل میں کر دیا گیا
تو ہماری کتنی ذلت و رسوائی ہوگی۔(الامان)
(2) قیامت
کے دن عیب ظاہر :حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ
لوگوں جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا
مسلمانوں کو ایذا مت دو،اور نہ ان کے عیب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا
عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اُس کے عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر
فرما دے تو اسے رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں ہو۔ (الترغیب
والترہیب،3/ 325)
ہمیں بھی سوچنا چاہیےکہ جس کے اللہ پاک عیب ظاہر فرما دے
اور اسے رسوا کردے تو اس کے لیے دنیا وآخرت میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے پھر اس کا
ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔
(3) بھائی بھائی ہو جاؤ: حضور جانِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے کو
بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، اور نہ تو عیب جوئی کرو نہ کسی کی باتیں
خفیہ سنو، اور نہ تجسس کرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض کرو، نہ ایک دوسرے کی غیبت
کرو اور اے الله کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ۔ (صحيح البخاری، حدیث : 5143)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں حدیث شریف میں ہے کہ مبارک ہو کہ جسے
اپنے عیبوں کی تلاش دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھے۔ (مرقات)یعنی وہ اپنے عیب
ڈھونڈنے میں ان سے توبہ کرنے میں ایسا مشغول ہو کہ اسے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے کا
وقت ہی نہ ملے۔ (مرآۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ج6 ،حدیث :8502)
نہ تھی اپنے جو عیبوں کی ہم
کو خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائی پر جو نظر تو
جہاں میں کوئی برا نہ رہا۔(احمد یار خان نعیمی)
(4) دوسروں کے عیب ڈھونڈنا خود اپنا عیب: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: انسان
کے لیے یہی بہت بڑا عیب ہے کہ جو عیب خود اس کے اپنے اندر ہے اس پر تو اس کی نظر
نہیں پڑتی لیکن وہ دوسروں کے عیب کو دیکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو غیر اہم باتوں کی
وجہ سے تکلیف پہنچاتا ہے۔ (الکافی، 2/ 520)
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان خطا کا پتلا ہے ۔ انسانوں
میں انبیا کے علاوہ کوئی بھی گناہوں سے معصوم نہیں لہذا دوسروں کی عیب جوئی کرتے
رہنا خود انسان کی اپنی کمزوری ہے۔ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
فرمان کے مطابق دوسروں کی عیب جوئی کرنا بجائے خود اس شخص کے لیے عیب ہے۔
(5)انسان کا اپنا گوشت خون والا اس کے منہ میں: مروی ہے کہ معراج کی رات حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن پر کچھ افراد مقرر تھے اِن میں سے بعض افراد
نے اُن لوگوں کے جبڑے کھول رکھے تھے اور بعض دوسرے افراد اُن کا گوشت کاٹتے اور
خون کے ساتھ ہی اُن کے منہ میں دھکیل دیتے ۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا کہ اے جبریل یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی یہ لوگوں کی غیبتیں اور اُن کی عیب جوئی
کرنے والے ہیں۔(مسند الحارث، کتاب الایمان، باب ما جاء فی الاسراء، 1/172،حدیث:
27)
ذرا ہمیں بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر دنیا میں ہم جو گوشت
کھاتے ہیں اس میں ہلکی سی بو آجائے یا ہلکا سا بھی خون لگا ہو تو ہم اسے کھانا
پسند نہیں کرتے تو ہم اپنا ہی گوشت خون والا کس طرح کھا سکتے ہیں ۔(الامان)
اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تمام باطنی مہلکات سے
اور بالخصوص تجسّس سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔ اور ہمیں اپنے عیب تلاش کرنے کی
توفیق عطا فرمائے نہ کہ دوسروں کے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سید زید بخاری عطاری(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار کراچی پاکستان)
الحمدللہ الکریم دینِ اسلام ایک مکمل دین ہے، جس کو
"مکمل ضابطۂ حیات" سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور ایسا ہی ہے! کیونکہ دینِ
اسلام وہ خوبصورت دین ہیں جو انسان کی ہر ہر شعبے میں اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ چاہے
وہ اعتقادیات ہوں، عبادات ہوں یا معاشرتی معاملات، پھر انسان مرد ہو یا عورت، ایک
دن کا بچہ ہو یا 100 سال کا بوڑھا، ملازم ہو یا کاروباری، سب کو شریعت مطہرہ نے
زبردست احکام عطا فرمائے ہیں، انسان کی معاشی زندگی میں اللہ پاک نے بہت سی چیزوں
کے کرنے کا حکم دیا ہے، اور کئی اشیاء سے منع فرمایا ہے، انہیں میں سے ایک
"تجسس" ہے جو کہ ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں
لگے رہنا! گویا کہ انسانوں کا وطیرہ بن چکا ہے، ایک بھاری تعداد ایک دوسرے کی تانک
جھانک میں لگی نظر آتی ہے، کوئی کسی کے عیب تلاش کرنے کی کوشش میں ہے، تو کوئی کسی
کے عیبوں کو ظاہر کرنے کی جستجو میں لگا ہے، جب کہ اللہ پاک نے "قراٰن مجید، برھان
رشید" میں واضح فرمایا :﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ
ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)
کئی احادیث مبارکہ میں بھی اس مذموم فعل سے منع فرمایا گیا
ہے، جن میں سے چند پیش کی جاتی ہیں۔ چنانچہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی
بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد
نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی
بھائی ہو جاؤ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ
والتّجسّس... الخ، ص1386، حدیث: 2563)
اس کی شرح میں مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مبارک ہو! اسے جو اپنے عیب ڈھونڈنے میں، ان سے توبہ کرنے میں، ایسا مشغول ہو کہ
اسے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے کا وقت ہی نہ ملے۔(مرآۃ المناجیح شرحِ مشکاۃ المصابیح،جلد6،تحت
الحدیث:5028)
نہ تھی اپنے جو عیبوں کی ہم
کو خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا۔
دوسروں کے عیب ٹٹولنے والا اپنی خیر منائے:ابو برزہ اسلمی
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اے ان لوگوں کے گروہ! جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں
ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نا کرو، اس لیے
کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ
چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کردے)گا اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے (یعنی اسے
ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کر دے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہوں۔(ابوداؤد،کتاب
الادب،باب فی الغیبۃ،4/354،حدیث:4880)
دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے اپنا احتساب کیا
جائے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی
آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے، اور اپنی آنکھوں کو بھول جاتا ہے!!
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جب تم
اپنے ساتھی کے عیب ظاہر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو۔(شعب
الایمان، الرابع و الاربعون من شعب الایمان،باب فی تحریم اعراض الناس،5/ 311،حدیث:6761،6758)
مسلمان کے عیب چھپانے کے تو فضائل ہیں: چنانچہ؛ حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کے عیب پر پردہ رکھا، اللہ پاک اس کے عیوب
پر پردہ رکھے گا۔ (بخاری،کتاب المظالم و الغصب،باب لایظلم المسلم....الخ،2/126،حدیث:2442)
یہ ہے ہمارا خوبصورت اسلام! اور یہ ہے ہمارے دین کی تعلیم،
الحمدللہ الکریم! یہاں بطور خاص اخبار والے، میڈیا والے، سوشل میڈیا والے توجہ کریں،
جن میں کچھ حضرات کا کام ہی دوسروں کے عیب تلاش کرنا ہے، یہ سیاست یا مخالفت یا
روشن خیالی اور اظہارِ رائے کے ناموں سے حرام کام حلال نہیں ہو جاتے ہیں۔ اللہ پاک
سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین۔
یا اللہ پاک! ہمیں
مسلمانوں کے پوشیدہ اور ظاہر عیب تلاش کرنے، اور انہیں آگے بیان کرنے، سے محفوظ
فرما، اور ہمیں مسلمان بھائیوں کے عیب چھپانے والا بنا، بلکہ اپنے عیب تلاش کر کے،
ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد اویس بن رفیق(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ ابو عطار کراچی پاکستان)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے پیارے فرامین سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی
ہے کہ ایک انسان کی عزت و حرمت بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس
کی عزت و حرمت کی قدر مزید بڑھ جاتی ہے، اسی لئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ان تمام اَفعال سے بچنے کا حکم دیا ہے جن سے کسی انسان کی عزت و حرمت
پامال ہوتی ہو، ان افعال میں سے ایک فعل تجسس (کسی کے عیب تلاش کرنا) اور اسے
دوسروں کے سامنے بیان کر دینا ہے جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت
بڑا کردار ہے۔ چنانچہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے فرامین
سے ہماری تجسس (کسی کے عیب تلاش کرنے)کے حوالے سے بھی اصلاح فرمائی ہے۔ آئیے تجسس
کی مذمت پر 5 احادیث پڑھیے اور اس مذموم صفت سے بچئے۔
(1)رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے
اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی
ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز
کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا
اور جس کی اللہ (پاک) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کر دے گا،
اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4 / 354، حدیث: 4880)
(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کے عیب پر پردہ رکھا، اللہ
پاک قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔( بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا
یظلم المسلم... الخ، 2 / 126، حدیث: 2442)
(3)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو شخص ایسی چیز دیکھے جس کو چھپانا چاہیے
اور اس نے پردہ ڈال دیا (یعنی چھپادی) تو ایسا ہے جیسے مَوْء
ُوْدَہ (یعنی زندہ زمین میں دبا دی جانے والی بچی) کو زندہ کیا۔(
ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الستر علی المسلم، 4 / 357، حدیث: 4819)
(4)حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کو بھول
جاتا ہے۔( شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد...
الخ، 5 / 311، حدیث: 6761)
(5)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں :جب تم
اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو۔( شعب
الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، 5 / 311، حدیث: 6758)
اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے، اپنے عیبوں
کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین