عبد الرحیم عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان بہارِ مدینہ کراچی پاکستان
)
اِسلام کے سنہری اُصولوں کی خوبصورتی اور اِنسانی حُقوق کے
تَحَفُّظ اور معاشرے میں بھائی چارگی کے فَروغ کے لئے ایک دوسرے کی عیب پوشی
اِنتہائی ضَروری ہے، دورِ حاضر میں مسلمانوں کے باہمی تَعَلُّق اور باہمی محبت کا
خاتِمہ ہوتا ہوا دِکھائی دیتا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھائی اپنے بھائی کا
دُشمَن ہے۔جِسکی ایک اَہَم وجہ تجسس(عیب جوئی) ہے، جو ہمارے معاشرے پر انتہائی
بُرا اثر ڈالتا ہے۔ ہر شخص اپنی بُرائیوں کو چھوڑ کَر دوسروں کی بُرائیاں ڈھونڈنے
اور تجسس (عیب جوئی) کرنے میں مَشغول نظر آتا ہے جو کہ دُنیَوی طور پر بھی باہمی
تَعَلُّق و محبت کے خاتِمے کا سبب بنتا ہے اور اُخرَوی طور پر بھی خطرناک ثابِت ہو
سکتا ہے۔
جتنی فِکر اور جتنا
تجسس(عیب جوئی) لوگ دوسروں کے طَرزِ زندگی پر کرتے ہیں اگر اِتنا تَفَکُّر اپنے
اندر موجود بُرائیوں پر کیا جائے تو شاید ہر فرد اپنی بُرائیوں کی اِصلاح کرنے میں
کامیاب ہوجائے، کیونکہ معاشرہ افراد سے ،اور افراد فرد سے مُشتَق (بنا ہوا)ہے،اگر
ہر فرد اپنے عُیوب کی اِصلاح کرنے میں گامزَن ہوجائے تو اِس طرح معاشرے میں نِکھار
پیدا ہو سکتا ہے۔
بے شک اللہ پاک نے اپنی قُدرتِ کامِلہ سے ساری کائنات کو
تخلیق فرمایا اور ہر چیز کو اُسی نے وُجود بخشا (پ14،الحجر:86 )اگر بات کی جائے
انسان کی تو اِسے اللہ پاک نے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ شَرف عطا فرمایا، لیکن
ہر انسان میں کوئی نُقص یا خَرابی ہوتی ہے،انسانوں میں انبیا کے علاوہ کوئی بھی
گناہ سے پاک نہیں ( ہر کوئی کہیں نا
کہیں کسی غَلَطی پر ہوتا ہے، کسی کی عادات و اَخلاق درست نہیں ہوتے جیسے؛ غُصّے کا
تیز ہونا یامُسکُرانے کی عادت نہ ہونا وغیرہ۔ اور کسی انسان کے مُعاملات درست نہیں
ہوتے جیسے؛ کھانے پینے کا انداز صحیح نہ ہونا ، چلنے کا بیٹھنے کا طریقہ درست نہ
ہونا وغیرہ۔ اسی طرح اللہ پاک نے بعض انسانوں میں کچھ عُیوب بھی رکھے جسکی یقیناً
کوئی حِکمَت ہوتی ہے، جیسے کسی کی آنکھ کا صحیح نا ہونا، ہاتھ پاؤں سے مَعزُور
ہونا، کَم سننا وغیرہ۔ لیکن اِن تمام چیزوں میں کسی دوسرے مسلمان کو ہر گِز یہ
اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے تَجَسُّس (عیب جوئی) میں پڑے )پ:۲۶،الحجرات:۱۲( اور اُس کے عُیوب
کی ٹَٹول(کھوج بین) کر کے اُن عُیوب کو لوگوں میں اِسکی تَذلیل کی نِیَت سے بیان
کرے۔
تجسس کی تعریف: لوگوں کی خُفیَہ (چھپی ہوئی) باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تَجَسُّس(عیب
جوئی) کہلاتا ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الرابع و العشرون،3/160)
تجسس کی مذمت احادیث میں: عَرَبی کا ایک مَقُولہ (کَہاوَت) ہےکَمَا تَدِینُ تُدَانُجیسی کرنی ویسی بھرنی۔ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے، اور یہ
قانونِ قدرت ہے کہ جو جس کے ساتھ غلط کرتا ہے اُس کے ساتھ بھی غلط ہوتا ہے جبکہ وہ
اِس کا (تجسس کا) عادی ہو، چنانچہ:
(1) حضرت ابو بَرزَہ اَسلَمی سے روایت ہے؛ نبئِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے اُن لوگوں کے گِروہ جو زَبان سے ایمان
لائے اور ایمان اُن کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، اور اُنکی
چھپی ہوئی باتوں کی ٹَٹول نہ کرو، اِس لئے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چُھپی
ہوئی چیز کی ٹَٹول کرے گا اللہ پاک اُس کی ٹَٹول کرے گا (یعنی اسکے عیب ظاہر
فرمادے گا) اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر فرمائے گا)، اُس کو
رُسوا کر دے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ،4/354،حدیث:4880)
تجسس (عیب جوئی) ایسا گُناہ ہے جو آپس میں نفرت پیدا کرتا
ہے، مَحَبَّت ختم کرتا ہے، اور اِس گُناہ کا مُرتَکِب(کرنے والا) غیبَت، حَسَد،
اور بَدگُمانی جیسے گُناہوں میں بھی پَڑ جاتا ہے، اور یہ تمام گُناہ باہَمی مَحَبت
کو ختم کردیتے ہیں جِسکی مذمت نبئِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمائی،چنانچہ؛
(2) حضرتِ ابوہریرہ سے
روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اپنے آپ کو بَدگُمانی سے بچاؤ، کیونکہ بَدگُمانی بَدترین جھوٹ ہے، اور نہ تو تجسس
(عیب جوئی) کرو، نہ کسی کی باتیں خُفیَہ سُنو، نہ نَجِش (دوسرے پر بَڑائی چاہنا)
کرو، اور نہ ایک دوسرے پر حَسَد و بُغض کرو، نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو، اور اے
اللہ پاک کے بندوں بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،جلد6، حدیث:5028)
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو طرح طرح کے
کاموں سے منع کرتے ہیں جبکہ وہ خود ان کاموں میں مبتلا حالانکہ ترغیب کے لئے سراپہ
ترغیب بننا پڑتا ہے، چنانچہ۔
(3) حضرت عبداللہ بِن
عَمرو نے فرمایا: کسی شخص کے گُمراہ ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ لوگوں میں وہ چیزیں
دیکھے جو اِس کو اپنے اندر نظر نہیں آتیں، اور جو کام وہ خود کرتا ہے اِن کاموں پر
دوسروں کی مذمت کرے، اور لا یعنی (بے مقصد) باتوں سے اپنے ہم نشین کو ایذاء
پہنچائے۔(الجامع لشعب الایمان، حدیث:6335)
ظاہر ہے کسی کی عیب جوئی کرنا اور اُس کے معاملات میں پڑے
رہنا اور اُس کی خُفیہ باتیں جان کر اُس کے عُیوب لوگوں میں بیان کرنا اُس کے لئے یقیناً
تکلیف والی بات ہے کیونکہ کوئی انسان بھی یہ برداشت نہیں کر پاتا کہ معاشرے میں
اُس کی تَذلیل ہو بلکہ ہر شخص ہی اپنی عزت اَفزائی چاہتا ہے۔ اور کسی بھی انسان کو
بِلاوَجہ تکلیف دینا سخت گُناہ ہے، اور سامنے والا اگر مسلمان ہے تو پھر اُس کا
مقام اور بلند ہے، نبئِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمانوں کو تکلیف دینے
سے منع فرمایا، چنانچہ؛
(4) حضرتِ ابنِ عمر سے
روایت ہے کہ ایک مرتبہ محبوبِ ربِّ اکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مِنبَر پر
تشریف فرما ہوئے پھر بُلند آواز سے اِعلان فرمایا، اے اُن لوگوں کے گِروہ جو زبان
سے ایمان لائے اور ایمان اُن کے دِلوں تک نہ پہنچا مسلمانوں کو نہ تو ایذاء دو نہ
اُنہیں عار دلاؤ (شرمندہ کرو) اور نہ اُن کے خُفیہ عیب ڈھونڈو، کیونکہ جو اپنے
مسلمان بھائی کے خُفیہ عُیوب کی تلاش کرے گا تو اللہ پاک اُس کے عُیوب ظاہر فرما دے
گا اگرچہ اُس کے گھر میں ہوں، اور اُسے رُسوا کردے گا اگرچہ وہ اپنی منزل میں
کرے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد6،حدث:5044)
ہمیشہ انسان کو اپنے عیبوں پر نظر رکھنی چاہئے، اور جب بھی
کسی کا کوئی عیب نظر آئے تو اپنے عیبوں کو یاد کرنا چاہئے، جب ہر ایک خود کو درست
کرنے اور خود کی اصلاح میں لگ جائے گا تو تقریباً معاشرہ برائیوں سے بچنے میں کامیاب
ہوجائے گا، چنانچہ۔
(5) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حضرت عبداللہ
اِبنِ عبَّاس فرماتے ہیں: جب تم اپنے ساتھی کے عیب کا ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو
اپنے عیبوں کو یاد کرو۔ (شعب الایمان،الرابع والاربعون من شعب الایمان۔۔الخ، فصل فیما
ورد۔۔۔الخ،5/311،حدیث:2758)