اچھے اخلاق بندے کی سعادت مندی کا پتا
دیتے ہیں جیسا کہ حُسْنِ اَخْلَاق کے پَیکر، مَکارمِ اَخْلاق کی بلندیوں کے رَہْبَر،نبی
محترم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مِنْ سَعَادَۃِ الْمَرْءِ حُسْنُ الْخُلُقِ یعنی حُسنِ اَخلاق بندے کی سعادت مندی میں سے ہے۔(شعب الایمان:باب فی حسن الخلق؛6/249؛حدیث 8039)اور بُرے اخلاق دین ودنیا کے نقصانات پہنچانے میں کوئی کَسَر نہیں چھوڑتے۔
حُسن اَخلاق اور بداَخلاقی کی تعریف:
بداخلاقی کے نقصانات
بیان کرنے سے پہلے اَخْلاق کی تعریف (Definition)ذہن نشین کرلیں ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:اگر نفس میں
موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کےباعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ
وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو
اسےحُسنِ اَخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سےبُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو
اسےبداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم:ج3:ص165؛مکتبۃ المدینہ)
بداخلاقی کے دنیوی اور اُخروی نقصانات:
کسی بھی چیز سے بچنے اور بچانے کے لیے اس کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے
اور بداخلاقی تو ایسی بُری صفت ہے کہ اس کے دنیوی اور اُخروی دونوں طرح کے نقصانات
ہیں، اُن میں سے چند ایک ملاحظہ کیجیے!
بداخلاقی جہنم میں جانے کا سبب ہے:
حضرت سیِّدُنافُضَیْل بن عِیاضعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَہَّابسے مروی ہےکہ بارگاہِ رسالت میں عرض
کی گئی:ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں
قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی
ہے۔توآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں
میں سے ہے۔( شعب الايمان،باب فی اکرام الجار،۷/ ۷۸، حديث:۹۵۴۵)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی
ہے کہ ''حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں( لے جانے والا) ہے فحش گوئی، بد اخلاقی
کی ایک شاخ ہے اوربداخلاقی جہنم میں (لے جانے والی )ہے ۔'' (جامع التر مذی ،کتاب البر و الصلۃ، رقم ۲۰۱۶)
منقول ہےکہ"اِنَّ
الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوْ ءِخُلُقِہٖ اَسْفَلَ دَرْکَ جَھَنَّمَ"یعنی انسان اپنے بُرے اخلاق کے
سبَب جَہَنَّم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔(مساویٔ الاخلاق للخرائطی،باب
ماجاء فی سوء الخلق من الکراهة،ص۲۲، حديث:۱۲)
بداخلاقی عمل کوخراب کردیتی ہے:
"شعب الایمان" میں ہے کہ بد اخلاقی عمل کو
اس طرح خراب کردیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔( شعب الايمان،باب فی حسن
الخلق،۶/ ۲۴۷، حديث:۸۰۳۶)
نیک لوگ بداخلاق
کواپنا رفیق نہیں بناتے:
حضرت
سیِّدُنافُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:اگر
کوئی اچھے اخلاق والا فاسق میرا رفیق سفر ہویہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی
بداخلاق عابد میرا رفیق سفر ہو۔ (احیاء العلوم:ج3:ص161:مکتبۃ
المدینہ)
سیدنا جنید بغدادی
رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ''میرے پاس اگر خوش اخلاق فاسق
بیٹھتے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ بد اخلاق قاری (عالم) بیٹھے ۔(فیضان احیاء
العلوم:272؛مکتبۃ المدینہ)
نیکیوں کی کثرت فائدہ نہیں دیتی:
حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:بد اخلاقی ایک ایسی آفت ہے کہ اس کے ہوتے
ہوئےنیکیوں کی کثرت بھی فائدہ مند نہیں ہوتی۔ (احیاء
العلوم:ج3:ص162:مکتبۃ المدینہ)
اللہ کریم ،صاحب خلقِ عظیم کے صدقے ہمیں بداخلاقی اور اسکے نقصانات سے محفوظ
فرمائے۔آمین
بداخلاقى اىک اىسى مذموم ضفت ہے جس کے سبب انسان کا وقار
معاشرے مىں ختم ہو کر رہ جاتا ہے،
بداخلاقى کے متعلق سرکار مدىنہ صلى اللہ
علىہ وسلم نے ارشاد فرماىا: دو خصلتىں مومن مىں اکھٹى نہىں ہوسکتى، وہ بخل اور بداخلاقى ہىں۔(جامع الترمذى ابواب
البروالصلۃ ، باب ماجا فى الخىل الحدىث ۱۹۶۲،ج ۴ ، ص
۳۴۳)
بداخلاقى کے بعض نقصانات ىہ ہىں:
لوگوں کا کترانا :
بداخلاق شخص سے لوگ ملنا جھلنا ، بات چىت کرنا، تجارتى لىن
دىن، رشتہ دارى وغىرہ قائم کرنے سے کتراتے ہىں کىونکہ بات بات پرگالى گلوچ کرنے والا، لڑ ائى جھگڑے کرنے والا کس کو پسند ہوگا؟
۲۔معاشرے مىں عزت نہ ہونا:
بداخلاق شخص کتنے ہى بڑے منصب کا مالک اور بظاہر کتنے ہى
خوبصورت لباس مىں ملبوس کىوں نہ ہو، لىکن اگر اس کے اخلاق اچھے نہىں تو اىسوں کى
معاشرے مىں کوئى عزت نہىں ہوتى، کىونکہ اچھے کردار کى پہچان اچھے لباس ىا منصب سے
نہىں بلکہ اچھے اخلاق و اطور سے ہوتى ہے۔
۳۔ تبلىغ دىن مىں رکاوٹ :
بداخلاقى اشاعت اسلام و تبلىغ دىن مىں بہت بڑى رکاوٹ ہے،
کىونکہ اىک مبلغ جب تک حسىن
اخلاق کے زىور سے آراستہ نہ ہو تب تک وہ تبلىغ دىن کے فرائض کما حقہ ادا نہىں
کرسکتا، ىہ حسن اخلاق ہى تھا جس کے ذر ىعے
نبى کرىم صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے قرىب کىا۔ بداخلاقى کے سبب سامنے والے کے جذبات کا کىا حشر
ہوتا ہے اسے اىک فرضى حکاىت سے سمجھنے کى کوشش کرتے ہىں۔
حکاىت :
اىک
نوجوان بداخلاقى اور دىگر برائىوں مىں گھرا ہواتھا اور ہر کوئى اس بات سے بىزار
تھا، اىک دن اس کے والد نے اس سے کہا کہ اب جب بھى تم کسى کا دل دکھاؤ تو اپنے
کمرے کى دىوار مىں اىک کىل ٹھونک دىنا، چنانچہ وہ نوجوان اىسا کرنے لگا، چند دنوں
کے بعد اسے ىہ گراں محسوس ہونے لگا تو اس نے بداخلاقى مىں کمى کرنا شروع کردى، اىک دن اس کے والد
نے اس سے کہا کہ اب جس دن تم کسى سے بدتمىزى نہ کرو تو اس دن دىوار کىل دىوار سے
نکال دىنا، چنانچہ نوجوان اىسا کرنے لگا اور کىلوں مىں کمى ہونا شروع ہوگئى۔
الغرض دن گزرتے گئے
اور نوجوان مىں بدلا ؤ آناشروع ہوگىا، اور اپنى غلطى کا احساس بھى ہوا تو جن کى دل
آزارى کى تھى ان سے معذرت بھى کرلى ، اور
پھر وہ دن بھى آىا کہ دىوار مىں کوئى کىل باقى نہ رہى، اب والد محترم نے سمجھاىا
کہ اے مىرے بىٹے! ذرا اس دىوار کا حال دىکھو تم نے اگرچہ سارى کىلىں نکال دى ہوں لىکن اب پہلے جىسى
نہ رہى،ىہى حال سامنے والے کا ہوتا ہے جب ہم اس سے بداخلاقى سے پىش آئىں ، اگرچہ
بعد مىں ہم رسما ً سورى (SORRY) بول بھى دىں
اور وہ سامنے سے ىہ بھى کہہ دے کہ کوئى بات نہىں، مگر اس کے دل کو جو ٹھىس
پہنچى تھى اس کا احساس تو صرف اسی کو ہے۔
اللہ تبارک وتعالى سے دعا ہے کہ
ہمىں اچھے اخلاق اپنانے کى توفىق عطا فرمائے، ٍ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم
اس دور ِ پرفتن مىں بدامنى و بے چىنى کاپورے عالم پر تسلط
ہے اور انسان اپنى بدعملىوں کے باعث انتہائى کرب و پرىشانى کى گرفت میں آچکا ہے، جب کہ اس کى اىک وجہ بداخلاقى بھى ہے
کىونکہ حسنِ اخلاق اىک اىسى چىز ہے کہ جس
کا خىال رکھنا انسان کے لىے ضرورى اور اس سے غفلت برتنا دىن و دنىا کے نقصان کا
موجب ہے۔
آقا صلى اللہ تعالی علیہ وسلم کى تشرىف آورى کا اىک اور مقصد لوگوں کے اخلاق و معاملات کو
درست کرکے ان کے اندر سے بداخلاقى کو جڑ سے اکھاڑنا بھى ہے چنانچہ جہا ں آپ صلى
اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے اچھے اخلاق
کى فہرست مرتب فرما کر زندگى کے تمام شعبوں پر اسے نافذ کىا وہىں بداخلاقى کے
نقصانات بىان کرکے اس سے بچنے کا حکم اور اس پر کار بند رہنے کى ہداىت فرمائى: اس کے متعلق حضور صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم نے ارشادفرماىا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: (جس مىں ىوں بھى ہے،
جس سے مىں برائى کا ارادہ کرتا ہوں اسے برے اخلاق دے دىتا ہوں۔ (جامع الاحادىث
الحدىث، ۱۵۱۲۹۔ج ۵، ص ۳۲۵)
ہرذى شعور سمجھ سکتا ہے کہ بداخلاقى مىں کوئى بھلائى نہىں
جب کہ نقصانات کا پہلو ہر جگہ نماىاں ہىں لہذا گھروں مىں مدنى ماحول نہ ہونے کى اىک وجہ بداخلاقى بھى ہے، کىونکہ اگر اپنے
اخلاق کو سنوار کر ان کىاصلاح کى کوشش نہ کى تو کہىں جہنم مىں نہ جا پڑىں، اللہ
عزوجل نے قرآن مجىد مىں ارشاد فرماىا: ۔ اے اىمان والو! اپنى
جانوں اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کے اىندھن آدمى اور پتھر ہىں۔(پ ۲۸، التحرىم ۶)
بداخلاقى کسى مسلمان کى بلاوجہ شرعى دل آزارى کے ذرىعے خدا و مصطفى صلى اللہ تعالىٰ علیہ و سلم کو اىذا دىنا ہے جیسا کا ىہ فرمانِ
مصطفى صلى اللہ علیہ وسلم ہے جس نے کسى
مسلمان کو اىذا دى اس نے مجھے اىذا دى اور جس نے مجھے اىذا دى اس نے اللہ عزوجل کو اىذا دى،(المعجم الاوسط ج ۲، ص ۳۸۷ حدىث ۳۶۷)
قطع رحم کى اىک صورت بداخلاقى بھى ہے جب آقاصلى
اللہ تعالىٰ علىہ وسلم نے فرماىا: رشتہ کاٹنے والا جنت
مىں نہىں جائے گا۔(بخارى ج ۴، ص ۹۷، حدىث ۵۹۸۴)
بداخلاقى پڑ وسىوں
کى حقىقت کو بھى نظر انداز کردىتى ہے، اىک شخص نے حضور صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم کى خدمت مىں عرض کى ىارسول اللہ صلى
اللہ تعالىٰ علیہ وسلم مجھے ىہ کىوں کر معلوم ہوکہ مىں
نے اچھا کىا ىا برا؟ فرماىا جب تم
پڑوسىوں کو ىہ کہتے ہوئے سنو کہ تمنے اچھ اکىا تو بىشک تمنے اچھا کىا اور جب ىہ
کہتے ہوئے سنو کہ تم نے بُرا کىا تو بےشک تم نے بُرا کىا۔ (ابن ماجہ ج ۴ ، ص ۴۷۹، حدىث ۴۲۲۳)
بداخلاقى سے مزىد اللہ کى ناراضگى ، لوگوں کى ناخوشى، فرشتوں کو اىذا، شىطان کو خوش کرنا، آپس مىں
محبت کا ختم ہونا، تکبر، نااتفاقى، سخت مزاجى، غصے کے وقت خود پر قابو نہ ہونا،
سخت دلى ، مسلمانوں کى خىر خواہى سے محرومى، ادائىگى حقوق مىں سستى، مسلمان کى عزت
کا عدم تحفظ، لوگوں پر ظلم کرنا جىسے نقصانات پھىلتے ہىں۔
ىقىنا بداخلاقى صرف بدبختوں کا حصہ اور شىطان کا ہتھىار ہے
اور حسن اخلاق مىں حسن ہى حسن، جب کہ بداخلاقى مىں کراہىت ہى کراہت ہے اور اس
سے بچاؤ کو اپنا دستوار العقل بنالىنے سے
رنج و مصائب مىں گھرى ہوئى دنىا حقىقى اور سچى مسرتوں سے پھر آشنا ہوسکتى ہے کسى
نے کىا خوب کہا ہے:
ہے
فلاں و کامرانى نرمى و آسانى مىں ہر
بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے!اچھےاَخْلاق کی
لازوال نعمت سے مالا مال خُوش نصیب مسلمان دُنیا و آخرت میں کامیاب و کامران اور
سب کا محبوب ہوتا ہے، جبکہ بُرے اَخْلاق کی
بیماری میں مبتلا لوگوں کو دُنیا و آخرت میں شرمندگی و افسوس کے سِوا کچھ ہاتھ نہ
آئے گا۔آئیے!بُرےاَخْلاق کے چند دِینی اور دُنیوی نُقصانات کے بارے میں سُنتے ہیں
چُنانچہ
بداَخْلاقی نحوست ہے:
بداَخْلاقی خُود بھی بدعملی ہے اور بہت سی بدعملیوں کا
ذریعہ ہے۔جُھوٹ،خیانت،وعدہ خلافی سب بداَخْلاقی کی شاخیں ہیں۔بد اَخْلاقی آپس کے
اختلاف کا باعث ہے۔بد اَخْلاقی آپس میں بغض و حسد اور جدائی پیدا کرتی ہے ، بداَخْلاقی
سے پیارے آقا صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پناہ طلب فرمائی بد اَخْلاقی و بدزبانی سے اللہ عَزَّ وَجَلَّناراض ہوتا ہے۔
بد اَخْلاقی عمل کو ایسے خراب کرتی ہے جیسے سِرکہ شہد
کوخراب کردیتا ہے۔
بد اَخْلاقی کے سبب گاہک دکاندار کے پاس آتے ہوئے
ہچکچاتے ہیں ۔
بداَخْلاقی بُرا شگون ہے۔
بداَخْلاقی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو وہ (بہت)بُرا آدمی
ہوتا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی بُرے اَخْلاقی ہے ۔ بےشک بے حیائی اور بد
اَخْلاقی کا اسلام کی کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔
بد اَخْلاقی تبلیغِ دین کی راہ میں بہت بڑی رُکاوٹ ہے۔
بد اَخْلاقی سے بسااوقات میاں بیوی میں طلاق کی نوبت
آجاتی ہے۔
بداَخْلاقی کی نحوست سے گھر کا سُکون برباد ہوجاتا ہے ،بداَخْلاق
ایک گُناہ سے توبہ کرتا ہے تو اُس سے بدتر گُناہ میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
بداَخْلاق شخص کو بارہا ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
الغرض بداَخْلاقی کثیر برائیوں کا مجموعہ اور دُنیا و آخرت میں ہلاکت و بربادی کا سبب ہے
،لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم نہ صرف خود اس آفت سے بچیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی اِس سے بچتے رہنے کی
ترغیب دلائیں۔اللہ
عَزَّ وَجَلَّ سب
مسلمانوں کو اچھےاَخْلاق کی لازوال دولت
نصیب فرمائے ۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ
بھاگتے ہیں سُن لے بد اَخْلاق
انساں سے سبھی
مسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا
عاجزی
(وسائل
بخشش مرمم،ص۶۹۸)
صَلُّوْا
عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اختلافات پر صبر کرنا اور دوسروں کو برداشت کرنا ہى اچھے اخلاق
ہے۔ دو خصلتىں کسى اىماندار آدمى مىں جمع نہىں ہوسکتىں، اىک بخل دوسرى ،بدخلقى
حضور صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے فرماىا: قىامت کے دن مىرے سب سے زىادہ قرىب وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق سب سے زىادہ بہتر ہونگے اور مجھ سے دور وہ لوگ ہوں گے جن کے بدترىن
اخلاق ہوں گے۔ (المشکوة ، باب البىان والشعر ص ۱۰ )
اپنے اردگرد لوگوں سے ہمىشہ خوش اخلاقى سے بات کرىں ناجانے
جن سے آپ سختى سے مخاطب ہوں وہ زندگى کے کسى تکلىف دہ مقام سے گزررہا ہو۔ اخلا ق اىک
دکان ہے، زبان اسکا تالا ہے، تالا کھلتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ دکان سونے کى ہے ىا
کوئلے کى بداخلاقى اعمال کو اسى طرح فاسد کردىتى ہے جس طرح سرکہ شہد کو۔
حضرت انس بن مالک رضى اللہ تعالٰىٰ عنہ سے مروى ہے کہ آپ صلى
اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے فرماىا: بداخلاقى اىمان کو اس
طرح فاسد کردىتى ہے۔جس طرح اىلوا کھانے کو فاسد کردىتا ہے۔(بىہقى فى الشعب جلد ۲،
ص ۲۴۷) اپنے اخلاق کو پھول جىسا بنالو اور کچھ نہىں تو پاس بىٹھنے والا خوشبو تو
حاصل کرے(شیخ سعدى رحمۃ اللہ علیہ)
خوبصورتى کى کمی کو
اچھے اخلاق پور اکرسکتے ہیں مگر اخلاق کى کمی کو خوبصورتی پورا نہىں کرسکتى۔ جو لوگ بدزبان ہوتے ہىں کوئى
بھى شرىف آدمى ان سے بات کرنا گوارا نہىں کرتا، ىہ عادت جب راسخ ہوجائے تو بدنامى کى بات بنتى
ہے جس سے انسان کى شہرت داغ دار ہوجاتى ہے، اور وہ کسى اچھى سوسائٹى کے قابل نہىں
رہتا۔
اللہ تعالىٰ نے انسان کو
عقل اس لىے بخشى ہے کہ وہ اپنى شرىں بىانى
سے دوسرے انسانوں کو مسحور کرے، دشمنوں کو خوش کن گفتگو سے مسخر کرلے، اىک آدمى
خواہ کتنا ہى پڑھا لکھا ہو، عقلمند، خوبصورت ہو شىار چالاک کىوں نہ ہو، اگر وہ
بدزبان ہے تو اس کى سارى صفات خاک مىں مل
جاتى ہىں ۔کوئى شخض نہ کسى کى عقل دىکھتا ہے نہ خوبصورتى اور نہ کوئى دوسرى ، صفت انسان کا
سب سے پہلا تعارف اس کى زبان کراتى ہے، اگر زبان شىرىں ہے تو سننے والا اس کا
گروىدہ ہوجاتا ہے لىکن زبان گندى ہے تو اس سے نفرت پىدا ہوجاتى ہے۔
حضرت ابودردا رضى اللہ عنہ رواىت کرتے ہىں کہ نبى کرىم صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرماىا: قىامت والے دن مومن کى مىزان مىں حسن
اخلاق سے زىادہ بھارى چىز کوئى نہىں ہوگى اور ىقىنا اللہ تعالىبدزبان اور بے ہود گى کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔(جامع
ترمذى)
حضرت عائشہ رضى اللہ تعالىٰ فرماتى ہىں کہ
جناب رسول اللہ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرماىا کہ قىامت کے دن اللہ تعالىٰ کے سامنے مرتبے مىں کم وہ شخص ہوگا
جس کى فحش گوئى اور بدزبانى کے ڈر سے لوگوں نے اس کو چھوڑ دىا ہو۔(بخارى و مسلم)
بداخلاقى ىہ بہت بُرى خصلت ہے جو
لوگوں مىں لڑائى جھگڑا اور جدائى کا باعث بن رہى ہے ،وہ معاشرے مىں جو سب سے تباہ
کن برائىوں مىں سے اىک برائى پائى جارہى ہے وہ بداخلاقى کا لوگوں مىں عام ہونا ہے۔
آپ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کو بھىجنے کا اىک مقصد ىہ بھى ہے لوگوں کے اخلاق و معاملات
کو درست کرىں، حسن ِ اخلاق کى نعمت صرف سعادت مندوں کا حصہ ہے اور اللہ عزوجل کا خاص الخاص انعام ہے اور حسن اخلاق مىں حسن ہى حسن ہے ،اور
بداخلاقى مىں کراہت ہى کراہت ہے۔
ہے فلاح و کامرانى
نرمى و آسانى مىں
ہر بنا کام بگڑ جاتا
ہے نادانى مىں
ىاد رکھئے بداخلاقى
گھروں کو اجاڑ کر رکھ دىتى ہے، دو لوگوں
مىں نفرت کا باعث ہے، بداخلاق شخص کبھى زندگى مىں کامىاب نہىں ہوپاتا، بداخلاقى کا
کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ ىہ لوگوں کى دل آزارى کا باعث بنتی ہے اور اس سے کئی گناہوں
کے دروازہ کھلتے ہیں ۔
حدىث مبارکہ کا
مفہوم پىش خدمت ہے کہ بندہ بداخلاقى کى وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے درجے مىں پہنچے
گا، بداخلاقى اىسا گناہ ہے جس کى بخشش نہىں۔( جہنم مىں لے جانے والے اعمال جلد اول ص ۲۶۸)
بعض احادىثِ مبارکہ کا مفہوم:
آپ نے دىکھا کہ بداخلاق شخص کى بخشش نہ ہونے کى وعىد اور ىہ
کتنى عبرت کى بات ہے۔ آہ ! جس کى بخشش
نہىں وہ تو حقىقت مىں برباد ۔بداخلاقى مىں شامل ہے کہ جب لوگ آپ سے توڑیں تو آپ
بھى ان سے توڑ دو اگر وہ آپ کو برا بھلا
کہىں تو آپ بھى ان کو برا بھلا کہو ، اور
حسنِ ااخلاق ىہ ہے کہ جب آپ سے کوئى توڑے آپ اس سے جوڑو، جب آپ کو کوئى محروم کرے تو آپ
اسے عطا کرو۔
بُرے اخلاق کى تباہ کارىوں کے متعلق فرامىن مصطفى صلى اللہ علیہ وسلم:
آپ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عالى
شان ہے: بداخلاقى عمل کو اس طرح برباد کردىتى ہے جىسے سرکہ شہد کو خراب کردىتا ہے۔
اىک اور فرمانِ مصطفى صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وآلہ وسلم : بداخلاقى بُر ا شگون ہے اور تم مىں بدترىن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے برا ہو۔
آپ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم ىہ دعا مانگا کرتے: اللھم اھدنى
لاحسن الاخلاق لا یھدى لا حسنھا الا نت
واصرف عنى سىیئھالا یصر ف سىیئھا الا انت ۔
ترجمہ :اے اللہ عزوجل مجھے اچھے اخلاق کى راہنمائى فرما کىونکہ اچھے اخلاق کى راہنمائى تو ہى فرماتا ہے اور مجھ سے بُرے اخلاق
دور رکھ کىونکہ بُرے اخلاق سے تو ہى دور رکھتا ہے۔
آئىے ہم نىت کرتے ہىں کہ اپنے اخلاق کو درست کرنے کى کوشش
کر ىں گے۔ان شاء اللہ عَزَّ وَجَلَّ
دىن
اسلام جہاں محبت و اخوت ، بھائى چارہ اور برداشت سیکھاتا ہے، وہىں پىارا دىن ہمىں دوسروں کى عزت و اکرام کرنا بھى
سکھاتا ہے اگر چہ وہ کافر و مشرک ہى کىوں نہ ہو کسی کے ساتھ بھى بداخلاقى کى اجازت نہىں دىتا۔
مگر
افسوس کہ فى زمانہ ہم اسلام کے اس سبق کو بھول گئے اور بداخلاقى کى
اىسى مثالىں قائم کررہے ہىں جو مشرکىن مکہ نے بھى پىش نہىں کى تھىں۔
اگر ہم اپنے پىارے آقا صلى اللہ تعالىٰ علیہ
وسلم
کے اخلاقِ کرىمہ کى بات کرىں تو پورا قرآن مجىد آپ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کے
اخلاق کى گواہى دىتا ہے، چنانچہ اللہ عزوجل نے قرآن مجىد مىں ارشاد فرماىا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) تَرجَمۂ
کنز الایمان: اور بیشک تمہاری
خوبو بڑی شان کی ہے(پ ۲۹، القلم آىت ۴)
ہمارے
پىارے آقا صلى
اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کا اخلاق تو اىسا تھا کہ کافر و مشرک آپ
کا اخلاق دىکھ کر مسلمان ہوجاتے، مگر افسوس ہم پىارے آقا صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کے
امتى ہو کر اپنے مسلمان بھائىوں کو تکلىف دىتے ان کا دل دکھاتے ہىں۔
اور
اس مىں سب سے بڑا کردار ہمارى زبان کا ہوتا ہے زبان ہی جسم کا وہ حصہ جس کے ذرىعے ہم لوگوں کے دلوں مىں
اتر سکتے ہىں اور لوگوں کے دلوں سے اتر سکتے ہىں بىشک اخلاق اىک دکان ہے اور زبان
اس کا تالا، تالا کھلتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ دکان سونے کى ہے ىا کوئلے کى ، لہذا
ہمىں ہر اىک سے اچھے اخلاق کے ساتھ پىش
آنا چاہىے کىونکہ انسان پر جو مصىبتىں اور پرىشانىاں آتى ہىں وہ برے اخلاق اور اس
کى زبان کى وجہ سے ہى آتى ہىں۔
زبان
ہى وہ شے ہے جس کا درست استعمال ہمىں جنت اور غلط استعمال ہمىں جہنم مىں لے جاسکتا
ہے۔ آپ نے اکثر دىکھا ہوگا کہ اگر گھر
مىں کوئى اىک شخص بداخلاق ہو تو اس سے تمام گھر والے پرىشان ہوتے ہىں، جس طرح اىک
گندى مچھلى پورے تالاب کو گندا کردىتى ہے۔
اسى طرح اىک بداخلاق شخص کى نحوست سے پورے گھر والے متاثر
ہوتے ہىں بداخلاقى کے کثىر نقصانات ہىں۔
بداخلاقى ، منافقت کى علامت ہے۔
بداخلاقى اللہ عزوجل کى ناراضگى کا سبب ہے۔
بداخلاق شخص کى کوئى عزت نہىں کرتا۔
بداخلاق شخص سے لوگ کنارہ کشى اختىار کرتے ہىں۔
بعض اوقات انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے
طبقے مىں پہنچ جاتا ہے۔باوجود ىہ کہ وہ عبادت گزار ہو
بداخلاقى دل کو سخت کردىتى ہے۔
بداخلاق انسان کى مثال اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کى طرح ہے جو قابل
استعمال نہىں رہتا۔
برے اخلاق، ڈسنے والے سانپ اور بچھو ہىں۔
بداخلاقى عبادت کو ضائع کردىتى ہے۔
حضرت سىدنا فضىل بن عىاض سے مروى ہے کہ بارگاہِ رسالت صلى اللہ تعالىٰ علىہ
وسلم میں عرض کى گئى
اىک عورت دن مىں روزہ رکھتى اور رات مىں قىام کرتى ہے، لىکن وہ بداخلاق ہے اپنى
زبان سے لوگوں کو تکلىف پہنچاتى ہے تو آپ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرماىا، اس مىں کوئى بھلائى نہىں وہ جہنمىوں مىں
سے ہے۔(احىا العلوم ج ۳ ص ۱۵۵، ۱۶۱)
ىاد رکھىے، ہمارى زندگى بہت مختصر سى ہے لہذا ہمىں اپنے
اخلاق کو اىسا بنانا چاہىے کہ ہمارے اس
دنىا سےجانے کے بعد لوگ ہمىں اچھے الفاظ کے ساتھ ىاد کرىں اور ہم اس دنىا سے عبرت
نہىں مثال بن کر جائىں۔
اللہ کرىم ہمىں بداخلاقى سے بچنے اور اپنے اخلاق سنوارنے کى
توفىق عطا فرمائے۔(آمىن)
انسان کی شخصیت کا
ایک اہم پہلو اس کی عادات و خصائل ہیں، عادات سے مراد انسان کے وہ ایک ہی طر ز کے
رویے ہیں جن کے تحت وہ مخصوص حالات میں ایک ہی ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
تقریباً 12 سال کی
عمر کے بعد عادتیں پختہ ہوتی جاتی ہیں بڑی عمر میں ان عادتوں کو تبدیل کرنا خاصا
مشکل ہوتا ہے۔ آپ کی ذات کی پہچان آپ میں موجود عادتوں سے ہوتی ہے۔اگر اچھی عادتیں
ہیں تو آ پ ایک معزز شخصیت سے جانے جائیں گے اگر بری عادتیں ہیں تو لوگ آپ کو ایک
اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے، بُری عادتوں میں سے ایک بُری عادت بداخلاقی کی بھی ہے
بداخلاقی کے نقصانات تو بہت سے ہیں لیکن دس بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
۱۔ بداخلاق شخص کے
پاس کوئی قریب جانا بھی پسند نہیں کرتا ، کوئی بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ جس کی
وجہ سے یہ بندہ معاشرے میں اکیلا رہ جاتا ہے، جب اکیلا رہ جاتا ہے تو اس کو طرح
طرح کے خیالات آنا شروع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بندہ نفسیات کا مریض بن جاتا ہے۔
۲۔ اگر بداخلاق شخص
بزنس مین ہے تو اس سے کوئی چیز لینا پسند نہیں کرتا۔
۳۔ کوئی بھی بندہ
بداخلاق شخص کے ماتحت یا ما فوق بن کر کام
کرنا پسند نہیں کرتا۔
۴۔گھر والے اس سے بے
زار ہوتے ہیں، پڑوسی تنگ آجاتے ہیں، محلے والے اس کو پسند نہیں کرتے، شہر والے اس
شخص سے دور بھاگتے ہیں۔
۵۔ بداخلاق شخص ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔
6۔ اگر بداخلاق ایک
طالب علم ہے تو وہ اپنی تعلیم میں کامیاب نہیں ہوگا۔
7۔اگر بداخلاق شخص
پریشان یا غمزدہ ہو تو لوگ اس کی پریشانی اور غم میں شریک نہیں ہوں گے اس کو اس کی
پریشانی میں اکیلے چھوڑ دیتے ہیں۔
8۔ کوئی شخص اس کی
مالی امداد، قرضہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔
9۔ کوئی شخص اس کو
کام پر رکھنے کو پسند نہیں کرتا۔ (اگر کوئی بے روزگار ہے تو اپنے گریبان میں دیکھے
کہ کہیں مجھ میں یہ خامی تو نہیں، اگر ہے تو اسے نکال دیں)
10۔بداخلاق شخص کو
مرنے کے بعد اس کو یادکرنے والا کوئی نہیں ہوتا، ہاں اگر کوئی یاد کرتا بھی ہے تو
بُرے لفظوں سے یاد
کرتا ہے۔
بات بات پر بھڑک
اٹھنا اور سخت لب و لہجہ اختیار کرنا کسی بھی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
بُری عادتوں کو تبدیل
کرنا اگرچہ خاصہ مشکل کام ہے لیکن یہ کرنا
آپ کی باقی زندگی کو اچھے انداز میں گزارنے کے لیے ناگزیر ہے، آپ اپنی خود اعتمادی
کے ذریعے ان بُری عادتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔