بداخلاقى اىک اىسى مذموم ضفت ہے جس کے سبب انسان کا وقار
معاشرے مىں ختم ہو کر رہ جاتا ہے،
بداخلاقى کے متعلق سرکار مدىنہ صلى اللہ
علىہ وسلم نے ارشاد فرماىا: دو خصلتىں مومن مىں اکھٹى نہىں ہوسکتى، وہ بخل اور بداخلاقى ہىں۔(جامع الترمذى ابواب
البروالصلۃ ، باب ماجا فى الخىل الحدىث ۱۹۶۲،ج ۴ ، ص
۳۴۳)
بداخلاقى کے بعض نقصانات ىہ ہىں:
لوگوں کا کترانا :
بداخلاق شخص سے لوگ ملنا جھلنا ، بات چىت کرنا، تجارتى لىن
دىن، رشتہ دارى وغىرہ قائم کرنے سے کتراتے ہىں کىونکہ بات بات پرگالى گلوچ کرنے والا، لڑ ائى جھگڑے کرنے والا کس کو پسند ہوگا؟
۲۔معاشرے مىں عزت نہ ہونا:
بداخلاق شخص کتنے ہى بڑے منصب کا مالک اور بظاہر کتنے ہى
خوبصورت لباس مىں ملبوس کىوں نہ ہو، لىکن اگر اس کے اخلاق اچھے نہىں تو اىسوں کى
معاشرے مىں کوئى عزت نہىں ہوتى، کىونکہ اچھے کردار کى پہچان اچھے لباس ىا منصب سے
نہىں بلکہ اچھے اخلاق و اطور سے ہوتى ہے۔
۳۔ تبلىغ دىن مىں رکاوٹ :
بداخلاقى اشاعت اسلام و تبلىغ دىن مىں بہت بڑى رکاوٹ ہے،
کىونکہ اىک مبلغ جب تک حسىن
اخلاق کے زىور سے آراستہ نہ ہو تب تک وہ تبلىغ دىن کے فرائض کما حقہ ادا نہىں
کرسکتا، ىہ حسن اخلاق ہى تھا جس کے ذر ىعے
نبى کرىم صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے قرىب کىا۔ بداخلاقى کے سبب سامنے والے کے جذبات کا کىا حشر
ہوتا ہے اسے اىک فرضى حکاىت سے سمجھنے کى کوشش کرتے ہىں۔
حکاىت :
اىک
نوجوان بداخلاقى اور دىگر برائىوں مىں گھرا ہواتھا اور ہر کوئى اس بات سے بىزار
تھا، اىک دن اس کے والد نے اس سے کہا کہ اب جب بھى تم کسى کا دل دکھاؤ تو اپنے
کمرے کى دىوار مىں اىک کىل ٹھونک دىنا، چنانچہ وہ نوجوان اىسا کرنے لگا، چند دنوں
کے بعد اسے ىہ گراں محسوس ہونے لگا تو اس نے بداخلاقى مىں کمى کرنا شروع کردى، اىک دن اس کے والد
نے اس سے کہا کہ اب جس دن تم کسى سے بدتمىزى نہ کرو تو اس دن دىوار کىل دىوار سے
نکال دىنا، چنانچہ نوجوان اىسا کرنے لگا اور کىلوں مىں کمى ہونا شروع ہوگئى۔
الغرض دن گزرتے گئے
اور نوجوان مىں بدلا ؤ آناشروع ہوگىا، اور اپنى غلطى کا احساس بھى ہوا تو جن کى دل
آزارى کى تھى ان سے معذرت بھى کرلى ، اور
پھر وہ دن بھى آىا کہ دىوار مىں کوئى کىل باقى نہ رہى، اب والد محترم نے سمجھاىا
کہ اے مىرے بىٹے! ذرا اس دىوار کا حال دىکھو تم نے اگرچہ سارى کىلىں نکال دى ہوں لىکن اب پہلے جىسى
نہ رہى،ىہى حال سامنے والے کا ہوتا ہے جب ہم اس سے بداخلاقى سے پىش آئىں ، اگرچہ
بعد مىں ہم رسما ً سورى (SORRY) بول بھى دىں
اور وہ سامنے سے ىہ بھى کہہ دے کہ کوئى بات نہىں، مگر اس کے دل کو جو ٹھىس
پہنچى تھى اس کا احساس تو صرف اسی کو ہے۔
اللہ تبارک وتعالى سے دعا ہے کہ
ہمىں اچھے اخلاق اپنانے کى توفىق عطا فرمائے، ٍ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم