ام المومنین ام القاسم  حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا مسلمانوں کی پہلی امی جان رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ کا نام مبارک خدیجہ بنتِ خویلد ابنِ اسد ہے۔آپ رضی اللہ عنہا قرشیہ ہیں۔آپ کا نسب شریف قصٰی ابنِ کلاب میں حضور ﷺ سے مل جاتا ہے۔آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی نسبت سب سے کم واسطوں سے آپ کا نسب رسولِ کریم ﷺ سے ملتاہے۔آپ رضی اللہ عنہاکو آقا کریم ﷺ نے جنتی انگور کھلائے۔آپ ان 4 خواتین میں سے ہیں جنہیں آقا کریم ﷺ نے جنتی عورتوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے ۔

آپ نہایت مالدار اور پاکیزہ خاتون تھی۔آپ رضی اللہ عنہا کو زمانہ جاہلیت میں ہی طاہرہ کہہ کر پکارا جاتاتھا۔

آپ رضی اللہ عنہا کے سابقہ2 شوہر(ہالہ اور عتیق یکے بعد دیگرے) فوت ہوگئے تھے۔سردارانِ قریش نے پیغامِ نکاح دیا لیکن آپ نے قبول نہ کیا،پھر آپ نے پیارے آقا کریم ﷺ کے اخلاقِ کریمہ سے متاثر ہو کر رسول اللہ ﷺ کو نکاح کی درخواست کی۔چالیس سال کی عمر میں حضور ﷺ کے نکاح میں آئیں۔

(فیضان امہات المومنین،ص17،16)

اس وقت پیارے آقا کریم ﷺ کی عمر مبارک 25 برس تھی،اس بات میں کسی مؤرخ کا اختلاف نہیں ہے کہ آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور آپ کی زندگی میں کسی اور عورت سے نکاح نہ فرمایا۔(مسلم،ص1324، حدیث:2435)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی وہ خوش نصیب بی بی ہیں کہ نبوت کی سب سے پہلی خبر انہیں ملی۔سب سے پہلے آپ ہی حضور پر ایمان لائیں۔اعلانِ نبوت کے بعد تین برس تک حضورِ اقدس ﷺ انتہائی پوشیدہ طور پر اور نہایت راز داری کے ساتھ تبلیغِ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام قبول کر کے سیدُ المرسَلین ﷺ کے دامنِ اقدس سے وابستہ ہو گئے۔

(مواہب لدنیہ،1 / 454،455،460،461ملخصاً)

آپ رضی اللہ عنہا کی بڑی شان ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ہر ہر قدم پر آقا کریم ﷺ کا ساتھ دیا ۔آپ رضی اللہ عنہا پیارے آقا کریم ﷺ کی بہت محبوب زوجہ محترمہ ہیں ۔

روایت میں ہےکہ اُمّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے فرماتی ہیں کہ مجھے حضور نبی کریم، رؤف رحیم ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہ آتا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پرآتا حالانکہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھالیکن اکثر تاجدارِ رِسالت ﷺ ان کا ذکرِ خیر فرماتے تھے۔ بعض اوقات بکری ذبح کرتے اور اس کے اعضاء الگ الگ کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے۔ بسا اوقات میں یوں عرض کرتی کہ دنیا میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے سواکوئی عورت نہیں ہے۔آپ ﷺ ان کی اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے:وہ ایسی تھیں،وہ ایسی تھیں اور اُن سے میری اولاد ہوئی ہے ۔(بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے اوصاف:یہاں حدیثِ مبارک میں جو بیان ہوا کہ پیارے آقا کریم ﷺ ان کے اوصاف بیان فرماتے کہ وہ ایسی تھیں، وہ ایسی تھیں۔یہاں جناب خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بہت سی صفات کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ بہت روزہ دار،تہجد گزار،میری بڑی خدمت گزار،میری تنہائی کی مونس،میری غمگسار،غارِ حراء کے چلّے میں میری مددگار تھیں اور میری ساری اولاد انہی سے ہے۔وہ جناب فاطمہ زہرہ کی ماں ہیں قیامت تک کے سیدوں کی نانی رضی اللہ عنہا۔(مراۃ المناجیح،8/497ملخصًا)

پیارے آقا کریم ﷺ کے شہزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ نبی کریم ﷺ کی ساری اولاد آپ رضی اللہ عنہا سے تھیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رشک کرنا ذکر ہوا ہے۔ آئیے! حسد اور رشک میں فرق ملاحظہ فرمائیے ۔چنانچہ

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ417 صفحات پرمشتمل کتاب’’لباب الاحیاء ‘‘ ص254پر ہے : ’’حسد یہ ہے کہ جب کسی ( مسلمان ) بھائی کواللہ

پاک کی نعمت ملتی ہے تو حاسِد اِنسان اسے ناپسند کرتا ہے اور اس بھائی سے نعمت کا زوال چاہتا ہے۔ اگر وہ اپنے بھائی کو ملنے والی نعمت کو ناپسند نہیں کرتا اور نہ اس کا زوال چاہتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی ایسی ہی نعمت مل جائے تو اسے رشک کہتے ہیں۔سرکارِ والا تَبار،شفیعِ روزِ شُمارﷺ کافرمانِ عالیشان ہے : ’’مؤمن رشک کرتا اور منافق حسد کرتا ہے۔‘‘)

(مفہوم) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آقا کریم ﷺ کی محبوب ترین زوجہ محترمہ ہیں آپ رضی اللہ عنہا کاحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے متعلق رشک کرنا اس لیے تھاکہ جیسے آقا کریم ﷺ انکی وفات کے بعد انکو یاد فرماتے ہیں مجھے بھی یہ سعادت ملے (اسی حدیث شریف کی شرح میں فیضان ریاض الصالحین جلد 4 حدیث 344)

یادِ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

آقا کریم ﷺ کو آپ رضی اللہ عنہا سے ایسی محبت تھی کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آقا کریم ﷺ آپکو یاد فرماتے آپ کا ذکر خیر فرماتے آپ کی سہیلیوں کو ہدیہ بھجواتے

ایک روایت میں ہے کہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی بہن ہالہ بنتِ خُوَیلد نے سرکارِ دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی توآپ ﷺ کوحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کااجازت مانگنا یادآگیا اور آپ ﷺ نے جھرجھری لی ۔(بخاری، ص 962،حدیث: 3821)

اسی طرح 1اور

روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے توحضرت زینب نے بھی ابوالعاص کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اس مال میں وہ اپنا ہار بھیجا جو جناب خدیجہ کے پاس تھا جسے دے کر زینب کو ابولعاص کے ہاں بھیجا تھا تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ ہار دیکھا حضور اکرم ﷺ کو اس پر بہت ہی رقت طاری ہوئی اور فرمایا اگر تم لوگ مناسب سمجھو تو زینب کا قیدی چھوڑ دو اور ان کی چیزیں انہیں واپس کردو سب نے کہا ہاں ضرور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوالعاص سے عہد لیا کہ وہ جناب زینب کا راستہ خالی کر دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زید ابن حارثہ کو ا ور ایک انصاری کو بھیجا ان سے فرمادیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا تا آنکہ تم پر زینب گزریں تو انہیں اپنے ساتھ لے آنا مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3970)

اسی روایت کی شرح میں ہے کہ بطن یا جج جگہ کا نام ہے جو اس روایت کی شرح میں ہے

۔‘‘

آپ رضی اللہ عنہا کا وصال 10 رمضان المبارک کو نبوت کے

دسویں سال ہوا اس وقت آپ کی عمر مبارک 65 سال تھی آپ کی نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی کیونکہ اس وقت نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا

(فیضان امھات المؤمنین ص 36 اور 37)

آپکو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آقا کریم ﷺ نے بنفس نفیس آپ رضی اللہ عنہا کو قبر میں اتارا آپ کامزار مبارک جنت المعلی (مکہ مکرمہ میں ہے)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اللہ پاک آپ انکے درجات کو بلند فرمائے آمین اور انکے صدقے ہماری بلاحساب مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں انکا پڑوس عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبین و ﷺ