دنیا میں سب سے پہلے بدفعلی شیطان نے کروائی، وہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا،ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہو گیا، لوگ اس بُرے کام کے عادی ہو گئے، اس طرح کے وہ عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس بُرے کام سے منع کرتے ہوئے جو فرمایا وہ قرآنِ کریم میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو،جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو،عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔(پ8، الاعراف: 80- 81)حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے یہ سن کر ان کا کہنا سننے کی بجائے جو جواب دیا اس کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ8، الاعراف: 82)اس سے معلوم ہوا !اغلام بازی یعنی بدفعلی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی ایجاد ہے،اسے ”لواطت“کہتے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا!لڑکوں سے بدفعلی کرنا حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا:اس شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہو، جو قومِ لوط والا عمل کرے۔

قومِ لوط پر عذاب

جب قومِ لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو ان پر اللہ پاک کا عذاب آگیا،حضرت جبرائیل علیہ السلام کچھ فرشتوں کے ساتھ خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حسن و جمال اور اپنی قوم کی بد فعلی کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکر مند ہوئے، کچھ دیر بعد ان کی قوم کے بد فعلوں نے ان کے گھر کو گھیر لیا اور مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے،حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو سمجھایا، مگر وہ باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو دُکھی دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:آپ فکر نہ کریں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں، آپ اپنے اہل و عیال اور مؤمنین کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیں اور کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے،ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا، چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام نے ایسا ہی کیا، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اُس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئےاور اُن بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھر ان پر پتھروں کا مینہ برسااور ان کی لاشوں کے پرخچے اُڑ گئے۔ جب یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی ”واعلہ“ جو منافقہ تھی، قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور کہا: ہائے رے میری قوم! اس پر اللہ پاک کے عذاب کا پتھر گرا اور وہ بھی ہلاک ہوگئی، بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا، جواس پتھر سے ہلاک ہوا۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے ناپسندیدہ گناہ

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ شیطان سے پوچھا: اللہ پاک کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ ابلیس بولا: جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے۔(تفسیرروح البیان، 3/ 197)

اَمرد بھی جہنم کا حق دار!

اَمرد سے دوستیاں کرنے والے شیطان کے وار سے خبردار رہیں، اگر اَمرد رَضامندی سے یا پیسوں یا نوکری وغیرہ کے لالچ میں بدفعلی کروائے گا تو وہ بھی گنہگار اور جہنم کا حق دار ہے۔حضرت وکیع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:جو شخص قومِ لوط کی طرح بد فعلی کرے گا اور توبہ کئے بغیر مرے گا،تو تد فین کے بعد اسے قومِ لوط کے قبرستان میں منتقل کر دیا جائے گا اور اس کا حشر قومِ لوط کے ساتھ ہوگا۔(تاریخ ابنِ عساکر، 45/ 406)

لواطت کاعمل عقلی اور طبّی دونوں اعتبار سے انتہائی خبیث ہے،عقلی اعتبار سے اس طرح کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے۔ لواطت کرنے والا اپنی فطرت کے خلاف چل رہا ہے اور فطرت کے خلاف چلنا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔دوسری خباثت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے نسلِ انسانی میں اضافہ رُک جاتا ہے۔تیسری خباثت یہ ہے کہ اس عمل کی وجہ سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے۔ چوتھی خباثت یہ ہے کہ لواطت کا عمل ذلت ورُسوائی اور آپس میں عداوت و نفرت پیدا ہونے کا ایک سبب ہے،نیزعقلِ سلیم رکھنے والے کے نزدیک وہ عمل ضرورخبیث ہے جو ذلت و رسوائی اور نفرت پیدا ہونے کا سبب بنے۔یہ بدکاری تمام جُرموں سے بڑا جرم ہے، اس جُرم کی وجہ سے قومِ لوط پر عذاب آیا جو دوسری عذاب پانے والی قوموں پر نہ آیا۔

چھپ کے لوگوں سے کئے جس سے گناہ وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے

کام زِنداں کے کئے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے

ارے او مجرم و بے پرواہ! دیکھ سرپہ تلوار ہے کیا ہونا ہے

ان کو رحم آئے تو آئے ورنہ وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے

(حدائق بخشش)


اللہ پاک نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے بہت سے نبیوں کو مبعوث فرمایا،جنہوں نے اپنی قوموں کو واحد و یکتا اللہ پاک پر ایمان لانے کی دعوت دی،  ان میں سے جن کو اللہ پاک نے توفیق دی، انہوں نے دعوتِ اسلام کو قبول کیا اور جن قوموں نے اللہ پاک پر ایمان لانے سے انکار کیا، وہ عذابِ نار کی مستحق ہوئیں۔انہی میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ہے، آپ نے اپنی قوم کو دینِ حق کی دعوت دی اور فعلِ بد سے روکا،قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا، اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہوجو سارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کے لئے مَردوں کے پاس جاتے ہو۔(تفسیرصراط الجنان، پ8،الاعراف:80)جب حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اصلاحی وعظ سنایا تو اس پر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ ان کی نافرمانی کرتے ہوئے جو کہا، اس کو قرآنِ پاک کی زبان میں پڑھئے:ترجمۂ کنزالایمان:اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا تھا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ 8، الاعراف:82)جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئیں اور وہ اپنی بدفعلیوں سے باز نہ آئے تو حضرت لوط علیہ السلام کی غمگین و رنجیدہ ہوگئے تو اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ زمین پر تشریف لائے اور حضرت لوط علیہ السلام سے فرمایا:اے اللہ پاک کے نبی!آپ بالکل فکر نہ کریں، ہم لوگ اللہ پاک کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر عذاب لے کر اُترے ہیں،لہٰذا آپ صبح ہونے سے قبل اپنے مؤمنین اور اہل و عیال کو لے کر اس بستی سے دور چلے جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔(عجائب القرآن، ص 111ملخصاً)آپ کے بستی سے جانے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پانچوں بستیوں کو اپنے پَروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے، کچھ اُوپر جا کر ان بستیوں کو اُلٹ دیا،یہ آبادیاں گر کر چکنا چور ہو گئیں۔پھر پتھروں کی برسات ہوئی جس سے قومِ لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔قومِ لوط کی نافرمانیوں کے سبب ان کی بستیاں اُلٹ پَلٹ کر دی گئیں اور مجرموں پر پتھر کی برسات کر کے انہیں نیست و نابود کر دیا گیا۔


اللہ پاک کے محبوب،  دانائے غیوب منزہ عن العیوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ تقرب نشان ہے:بے شک بروزِ قیامت لوگوں میں سے قریب تر وہ ہوگا، جو مجھ پر سب سے زیادہ دُرود بھیجے گا۔

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، آپ علیہ السلام ”سدوم“کے نبی تھے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ہجرت کر کے ملکِ شام میں آئے تھے اور حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السلام کی بہت خدمت کی تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے آپ نبی بنائے گئے۔سبحان اللہ

دنیا میں سب سے پہلے بد فعلی شیطان نے کروائی، وہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں اَمردِحسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو بُرائی کی جانب مائل کیا اور گندہ کام کروانے پر مائل ہوگیا۔جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بد فعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا،چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام نہایت مُسوْس یعنی فکرمند ہوئے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالی شان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانون کے ساتھ بد فعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکر ورنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمگین نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں،آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دُور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مُڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھران پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کےبھی پَرخچے اُڑ گئے، عین اس وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ”واعلہ“تھا،جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھ لیا اور اُس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی، تو عذابِ الہٰی کا ایک پتھر اسے بھی پڑا اور وہ ہلاک ہوگئی۔بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔

آنکھوں میں سرِ حشر نہ بھر جائے کہیں آگ

آنکھوں پہ میرے بھائی لگا کو قفلِ مدینہ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:آخری زمانے میں کچھ لوگ لُوطیَّہ کہلائیں گے اور یہ 3 طرح کے ہوں گے:

1۔وہ جو بشہوت صرف اَمر دوں کی صورتیں دیکھیں گے اوران سے بات چیت کریں گے۔

2۔اور جو ان سے ہاتھ ملائیں گے اور گلے بھی ملیں گے۔

3۔جو اُن کے ساتھ بدفعلی کریں گے، ان سبھی پر اللہ پاک کی لعنت ہے، مگر وہ جو توبہ کر لیں گے۔(تو اللہ پاک ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور وہ گناہوں سے بچے رہیں گے۔)


حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔حضرت لوط علیہ السلام کو اہلِ سروم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا پر نبی بنائے گے۔(تفسیر صراط الجنان، سورۃالاعراف، آیت 80)

1: بد فعلی

شیطان حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں ایک خوبصورت نوجوان کی شکل میں داخل ہوا اور ان لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے لگا یہاں تک کہ ان کو اپنی طرف مائل کرنے اور گندہ کام کر وانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ لوگ اس کے عادی ہو گئے اور نوبت یہاں تک آئی کہ وہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کر نے لگے۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں،ص2)

2: اپنے نبی کی بے ادبی

حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے ان لوگوں کو اس عمل سے منع کیا جو سورۂ اعراف کی آیت نمبر 81،80 میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے: ترجمہ ٔکنز الایمان:”کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے آتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم حد سے گزر گئے۔“بے حیا قوم نے شرمندہ ہونے کی بجائے جو بے باکانہ جواب دیا اس کا ذکر سورۃ الاعراف،آیت نمبر 82 میں کچھ یوں ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہیے ہیں۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں، ص3،2)اس آیتِ مبارَکہ میں ان لوگوں کی اپنے نبی علیہ السلام کی بے ادبی بیان کی گئی ان پر لازم تھا کہ اپنے نبی علیہ السلام کی اطاعت کرتے اور اس بُرے کام سے باز آ جاتے مگر یہ اطاعت کرنے کی بجائےاپنے نبی علیہ السلام کو بستی سے نکالنے کے در پے ہو گئے۔

3: نبی کے مہمانوں کی بے حرمتی

حضرت جبریل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ خوبصورت لڑکوں کی صورت میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس تشریف لائے۔ آپ (یعنی حضرت لوط علیہ السلام) ان مہمانوں کے حسن و جمال اور قوم کی بد کاری کے خیال سے نہایت فکر مند تھے کہ کچھ ہی دیر میں قوم کے بدکاروں نے آپ کے مکانِ عالی شان کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اس بُرے ارادے سے آپ کے گھر مبارک کی دیوار پرچڑھنے لگے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا مگر وہ اپنے اس بُرے ارادے سے باز نہیں آئے۔اس پر آپ علیہ السلام غمگین ہوئے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا: اے اللہ پاک کے نبی! رنجیدہ نہ ہوں! ہم اللہ پاک کے فرشتے ہیں اور ان پر اللہ پاک کا عذاب لے کر آئے ہیں۔ (قوم لوط کی تباہ کاریاں،ص 4)

نا فرمانیوں کا انجام

ان کی نا فرمانیوں کا انجام کچھ اس طرح سے ہوا کہ جب حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام سے عرض کی:آپ صبح سے پہلے اپنے اہل و عیال اور مومنین کو ساتھ لے کر بستی سے نکل جائیے اور خبر دار! کوئی شخص پیچھے مڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھےورنہ وہ بھی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔ چونکہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے اہل وعیال اور مومنین کو ساتھ لے کر بستی سے جا چکے تھے تو اب حضرت جبریل علیہ السلام شہر کی پانچوں بستیوں کو زمین سے لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور اوپر (بلندی) پر جا کر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھر قومِ لوط پر پتھروں کی ایسی بارش ہوئی کہ ان کی لاشوں کے بھی پَرَخچے اُڑ گے۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں،ص 4)


اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں کئی انبیائے کرام اور ان کی قوموں کا ذکر کیا ہے،  جس میں ہمارے لئے عبرت اور درس بھی ہے، حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں،یہ لوگ حضرت لوط علیہ السلام عراق کے شہر بابل کے رہنے والے تھے، اللہ پاک نے آپ کو نبوت عطا فرما کر سدوم والوں کی ہدایت کے لئے بھیجا،سدوم شہر کی بستیاں نہایت آباد اور سرسبز و شاداب تھیں، جس کی وجہ سے مسافر اکثر اس بستی میں مہمان بن کر آتے تھے، بستی والے مہمانوں کی آمد و رفت سے بڑے تنگ تھے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان نے بستی والوں کو گمراہ کیا کہ جو بھی مہمان آئے، اُس کے ساتھ بدفعلی کرو تو سب سے پہلے شیطان خود ایک خوبصورت لڑکا بن کر اس بستی میں آ یا اور خوب بدفعلی کروائی، لوگ اس کے بہت زیادہ عادی بن چکے تھے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں سے شہوت پوری کرنے لگے۔قوم کی ان بُری عادات سے حضرت لوط علیہ السلام نے اس طرح بیان فرمایا، سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 80 اور 81 میں اللہ پاک نے بیان کیا، حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان:”کیا وہ بے حیائی کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔“قوم کی بدفعلی سے حضرت لوط علیہ السلام بہت فکرمند ہوگئے،حضرت لوط علیہ السلام کے پاس وہ فرشتے آئے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے،پھر یہ فرشتے مہمان بن کر آپ علیہ السلام کے پاس پہنچے، جو حسین لڑکوں کی شکل میں تھے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے آپ علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور بدفعلی کرنے کے لئے دیوار پر چڑھنے لگے۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو پریشان دیکھ کر فرمایا:اے اللہ پاک کے نبی! آپ بالکل فکر نہ کریں،ہم اللہ پاک کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں،جو ان بدکاروں پر عذاب لے کر اُترے ہیں،لہٰذا آپ مؤمنین اور تمام اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار! کوئی پیچھے مُڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور بستی والے عذاب میں مبتلا ہوگئے،اللہ پاک نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی، لیکن انہوں نے پھر بھی توبہ نہ کی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بستی کو اپنے پروں پر اُٹھایا اور تھوڑی بلندی پر جا کر بستی کو اُلٹ دیا،جس سے بستی زمین پر بکھر گئی، پھر اتنی تیز پتھروں کی بارش ہوئی کہ بستی کے تمام لوگ مَر گئے اور ان کی لاشیں چور چور ہو گئیں، پتھروں پر مرنے والوں کا نام لکھا گیا تھا، اس طرح یہ قوم سخت عذاب میں مبتلا ہوئی۔اللہ پاک ہمیں پاکیزہ سوچ عطا فرمائے۔آمین


اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں اُمّتِ محمدی  کی عبرت و نصیحت کیلئے سابقہ اُمّتوں کی نافرمانیوں کو بیان فرمایا ہے۔ انہی میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بھی ہے۔حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلاماُردن میں اُترے۔اللہ پاک نے آپ کو اہلِ سُدوم کی طرف مبعوث کیا،آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔قومِ لوط کی سب سے بڑی نافرمانی اور خباثت لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا۔اِغلامبازی حضرت لوط علیہ السلامکی قوم کی ایجاد ہے اسی لئے اسے’’ لواطت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔احادیثِ مبارکہ اور بزرگانِ دینکے آثار میں لواطت کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا:’’لَعَنَ اللہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘اس شخص پر اللہ پاک کی لعنتہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔

(سننِ کبری للنسائی،ابواب التعزیرات والشہود، من عمل عمل قوم لوط،4/322، حدیث:7337)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو قومِ لوط والا عمل کرتے پاؤ تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کردو۔(ابوداود، کتاب الحدود، باب فیمن عمل عمل قوم لوط،4/211،حدیث:4462)

حضرت ابو سعیدصعلوکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عنقریب اس اُمتمیں ایسی جماعت پیدا ہو گی جن کو لوطی کہا جائے گا اور ا ن کی تین قسمیں ہیں:ایک وہ جو محض دیکھتے ہیں،دوسرے وہ جو ہاتھ ملاتے ہیں اور تیسرے وہ جو اس خبیث عمل کا ارتکاب کرتے ہیں۔

(کتابُ الکبائر، ص-63-64)(تفسیرصراط الجنان،پ8،الاعراف، تحت الآیۃ:80)

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں پائی جانے والی بعض نافرمانیاں یہ ہیں: راہگیروں کو لوٹتے اور اپنے ساتھیوں کی خیانت کرتے۔
بےحیائی والی گفتگو، قصہ گوئی اور مختلف قسم کے برے کام اور بری باتیں کرتے حتی کہ اپنی مجلسوں میں ذرہ بھر حیا نہ کرتے۔
بعض اوقات ان
کی مجلسوں میں برے کام کیے جاتے مگر وہ ان پر ناپسندیدگی کا اظہار تک نہ کرتے۔کوئی نصیحت ان پر اثر نہ کرتی۔
حتی کہ انہوں نے اپنی طرف بھیجے ہوئے رسول کو اپنی بستی سے باہر نکالنے کا ارادہ کیا اور ان کو کمزور سمجھا اور ان سے مذاق و
ٹھٹھا کیا۔(قصص الانبیاء)ان کی نافرمانیوں کے نتیجے میں الله پاک نے ان پر ایسا عذاب بھیجا جو ان کے وہم و گمان میں نہ تھا اور ان کو بعد میں آنے والوں کیلئے باعثِ عبرتو نصیحت اور مثال بنادیا۔ارشادِ باری ہے:فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُشْرِقِیۡنَ ﴿ۙ۷۳ فَجَعَلْنَا عٰلِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیۡہِمْ حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ﴿ؕ۷۴ترجمۂ کنز العرفان: تو دن نکلتے ہی انہیں زوردار چیخ نے آپکڑا۔ تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کردیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے۔(پ14،الحجر: 74-73)اللہ پاک ہمیں عبرت حاصل کرنے، اپنی نافرمانی سے بچنے، اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ان کی نافرمانیوں کا ذکر آیاتِ قرآنی میں موجود ہے:کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوۡطِۣ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿۱۶۰﴾ۚۖ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوۡھُمْ لُوۡطٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۶۱﴾ۚ اِنِّیۡ لَکُمْ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿۱۶۲﴾ۙ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۶۳﴾ۚ وَمَاۤ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیۡہِ مِنْ اَجْرٍۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۴﴾ؕ

تفسیر:ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے اس وقت آپ علیہ السلام کو جھٹلایا۔آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اے میری قوم! کیا تم شرک اور دیگر گناہوں پر اللہ پاک کے عذاب سے نہیں ڈرتے؟بے شک میں تمہارے ربّ کریم کی طرف سے تمہارے لئے اس کی وحی اور رِسالت پر امانت دار رسول ہوں تو تم اللہ پاک کے رسول کو جھٹلا کر اپنے اُوپر اللہ پاک کا عذاب نازل ہونے سے ڈرو اور جس سیدھے راستے پر چلنے کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں، اس میں میری اطاعت کرو۔میں اس تبلیغ و تعلیم پر تم سے کچھ اُجرت اور دنیوی منافع کا مطالبہ نہیں کرتا،میرا اَجر و ثواب تو صرف ربّ کریم کے ذمّۂ کرم پر ہے۔(تفسیرروح البیان،پ19، الشعراء، تحت الآیۃ:6۔160، 164)

166 آیت نمبر: وَ تَذَرُوۡنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ اَزْوٰجِکُمۡ ؕ بَلْ اَنۡتُمْ قَوْمٌ عَادُوۡنَ ﴿۱۶۶۔

آیت نمبر 167: قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمْ تَنۡتَہِ یٰلُوۡطُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیۡنَ ﴿۱۶۷۔

تفسیر:حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے فرمایا: تمہارے لئے تمہارے ربّ نے جو بیویاں بنائی ہیں، کیا تم ان حلال طیّب عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے بدفعلی جیسی حرام اور خبیث چیز میں مبتلا ہوتےہو؟ بلکہ تم لوگ اس خبیث عمل کی وجہ سے حد سے بڑھنے والے ہو۔(تفسیرمدارک، پ19، الشعراء، تحت الآیۃ: 166، ص829 ملتقظاً)

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب:

آیتِ قرآنی: آیت نمبر 172:ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیۡنَ ﴿۱۷۲۔

آیت نمبر 173:وَ اَمْطَرْنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنۡذَرِیۡنَ ﴿۱۷۳۔

تفسیر: ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات دینے کے بعد دوسروں کو اللہ پاک نے ان کی بستیاں اُلٹ کر ہلاک کر دیا اور ان پر پتھروں یا گندھک اور آگ کی خاص بارش برسائی تو جن لوگوں کو اللہ پاک کے عذاب سے ڈرایا گیا اور وہ ایمان نہ لائے، ان پر کی جانے والی یہ بارش کتنی بُری تھی۔(تفسیرروح البیان،پ19، الشعراء، تحت الآیۃ: 173/172، 6/302 ملتقظاً)

دعا:اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنی نافرمانی والے کاموں سے بچا کر ہم سے سدا کے لئے راضی ہو جا اور ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے کئی انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا، انہی میں سے حضرت لوط علیہ السلام ہیں۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں،الله پاک نے آپ علیہ السلام کو سدوم اور اس کے قریب موجود دیگر بستیوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہاں کے باشندے طرح طرح کے گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوئےتھے جو اس وقت کے بدترین گناہ اور قابلِ نفرت افعال تھے، ان کا سب سے بڑا اور قبیح ترین جرم مَردوں کے ساتھ بد فعلی کرنا تھا۔قرآنِ مجید میں حضرت لوط علیہ السلام کا انہیں متنبہ فرمانے اور ان کی نافرمانی کرنے کا بیان مذکور ہے: ترجمہ ٔکنز الایمان:اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے اور اس قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ8،الاعراف:80 تا 82)

آپ علیہ السلام انہیں قبول ِحق کی دعوت دیتے اور وہ سرکشی کرتے یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کو ان کے قبول ِحق کی امید نہ رہی اور ان لوگوں نے عذابِ الٰہی کا مطالبہ کر دیا۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنز الایمان: اور لوط کو نجات دی جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بیشک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا کیا تم مردوں سے بد فعلی کرتے ہو اور راہ مرتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر الله کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔

(پ20،العنکبوت:28،29)

اس کے بعد اس قوم پر عذاب اس طرح آیا کہ رات کو حضرت لوط علیہ السلام اپنی دو صاحبزادیوں اور دیگر اہلِ ایمان کو لے کر بستی سے نکل گئے۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے قومِ لوط کے شہر جس طبقۂ زمین میں تھے اس کے نیچے اپنا بازو ڈالا اور ان پانچوں شہروں کو جن میں سب سے بڑا سدوم تھا اور ان میں چار لاکھ آدمی بستے تھے، اس ساری بستی کو نہایت اونچا اٹھایا پھر اس بلندی سے اس کو اوندھا کر کے پلٹ دیا، اسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایک زوردار چیخ بھی ماری اور جو لوگ اس وقت بستی میں موجود نہ تھے وہ جہاں کہیں سفر میں تھے وہیں انہیں لگاتار پتھر برسا کر ہلاک کر دیا۔بعض مفسرین نے فرمایا:بستیاں الٹنے کے بعد ان ہی پر لگاتار پتھر برسائے گئے۔(تفسیرخازن،ھود،تحت الآیۃ: 82، 365/2، ملتقطا- از سیرت الانبیاء)ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنز الایمان:تو دن نکلتے انہیں چنگھاڑ نے آ لیا تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کر دیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے۔ (پ14،الحجر:73،74) نیز یہ قوم اور کئی قومیں اپنی نافرمانی کی وجہ سے عذاب کا شکار ہوئیں۔اللہ پاک ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ فرمائے۔ آمین


اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے جتنے نبی مبعوث فرمائے،  ان میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام کی قوم تھی، جس کو قومِ لوط کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہ قوم شہر ”سدوم“ میں رہتی تھی جو ”حمص“ کا ایک مشہور شہر ہے۔اس قوم کو شیطان نے بدفعلی پر اُکسایا اور وہ اس کی پیروی کرنے لگے، اُن کو اس کی ایسی عادت پڑی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا جس کا ذکر پارہ 8 سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 80 اور 81 میں موجود ہے، مگر اس قوم نے حضرت لوط علیہ السلام کی بات ماننے کے بجائے ان کو اپنی بستی سے نکالنے کا فیصلہ کیا جس کا ذکر پارہ نمبر 8 سورۃُ الاعراف کی آیت نمبر 82 میں موجود ہے۔ان پر اللہ پاک کا عذاب نازل ہوا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کچھ فرشتوں کو ساتھ لے کر بہت حسین لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لائے، قوم نے ان کے ساتھ بدفعلی کا ارادہ کیا، اس سے حضرت لوط علیہ السلام بہت پریشان ہوئے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کو سب بتایا کہ ہم اللہ پاک کا عذاب لے کر نازل ہوئے ہیں، انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کو اپنے رفقا کے ساتھ بستی سے دُور نکل جانے اور پیچھے مُڑ کر نہ دیکھنے کو کہا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام کے جانے کے بعد شہر کی پانچوں بستیوں کو اوپر اُٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پھر کنکروں کی بارش ہونے لگی، یوں قومِ لوط تباہ و برباد ہو گئی۔اللہ پاک ہمیں اپنے قہر سے محفوظ فرمائے۔آمین


اللہ پاک کے نبیوں میں سے ایک نبی حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔آپ علیہ السلام ”سدوم“ کے نبی تھے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ہجرت کرکے ملکِ شام میں آئے تھے،نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے آپ نبی بنائے گئے۔(نور العرفان)

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں بہت سی بُرائیاں پیدا ہو گئی تھیں، وہ باہر سے آنے والے تاجروں اور سوداگروں کو عجیب و غریب طریقوں سے لُوٹ لیا کرتے تھے۔(سیرت الانبیاء قدم بہ قدم، قصص القرآن)

دنیا میں سب سے پہلے بد فعلی شیطان نے کروائی،وہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا،یہاں تک کہ گندا کام کروانے میں کامیاب ہوگیا،اس کااُن کو ایسا چسکا لگا کہ وہ اس بُرے کام کے عادی ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔( مکاشفۃ القلوب، ص 86 ماخوذ اً)حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے جو بیان فرمایا، اس کو پارہ8، سورۃُ الاعراف،آیت نمبر 80 اور 81 میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے:ترجمہ: کیا وہ بے حیائی کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔

جب قومِ لوط کی سرکشی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکرمند ہوئے، تھوڑی دیر میں قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔

حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو رنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمگین نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں۔ چنانچہ

حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنوں کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھران پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کے پَرخچے اُڑ گئے، یوں وہ قوم ہلاک ہوگئی۔بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا،جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔( عجائب القرآن، ص 110 تا112، تفسیر صاوی، 2/691 ماخوذ اً)


اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ ہر پیغمبر نے اپنی اپنی قوم کو ایک اللہ پاک کی عبادت کرنے اور بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین کی۔  جیسے جیسے وقت گزرتا گیا،بت پرستی بڑھتی گئی۔ایک وقت ایسا آیا کہ جب لوگ ہم جنس پرستی جیسے گناہ کے ارتکاب میں دھنستے چلے گئے۔قومِ لوط وہ پہلی قوم تھی جس نے اس فعلِ بد کی شروعات کی جیسا کہ ارشاد ہوا:وَلُوۡطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الْفٰحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمۡ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰ترجمہ: اور ہم نے لوط ( علیہ السلام ) کو بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔ (7.80) اس قوم کی طرف اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو تبلیغ کے لئے بھیجا۔ جس کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو اُردن کے شہر سدوم میں پیغمبر بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو لَا اِلٰہ اِلَّااللہ کی دعوت دی۔

اللہ پاک نے ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے فرشتے بھیجے جو انسان کا روپ دھار کر آئے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیٹی نے ان خوبصورت نوجوانوں کو دیکھا تو فوراً اپنے والد کو آگاہ کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام انہیں اپنے گھر لے آئے۔آپ اپنی قوم کی ہم جنس پرستی کی عادت کی وجہ سے بہت گھبرا گئے کہ کہیں ان کی قوم ان خوبصورت نوجوانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ نہ بنالے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا:وَ لَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَا لُوۡطًا سِیۡٓءَ بِہِمۡ وَ ضَاقَ بِہِمۡ ذَرۡعًا وَّ قَالَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَصِیۡبٌ۔ترجمہ: جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے: آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے۔(11.77) حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی ان لوگوں کا ساتھ دیتی تھی،لہٰذا اس نے فوراً قوم کے لوگوں کو ان خوبصورت نوجوانوں کی خبر دی۔وہ لوگ فوراً حضرت لوط علیہ السلام کے دروازے پر آ گئے جیسا کہ ارشاد ہوا:اِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ شَہۡوَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النِّسَآءِ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ ترجمہ: تم مَردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو۔(7.81)آپ علیہ السلام نے انہیں اس بد فعلی سے باز رہنے کو کہا اور فرمایا:عورتوں سے جائز طریقے سے اپنی نفسی خواہش پوری کرو لیکن وہ لوگ باز نہ آئے جیسا کہ ارشاد ہوا: قَالُوۡا لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا لَنَا فِیۡ بَنٰتِکَ مِنۡ حَقٍّ ۚ وَ اِنَّکَ لَتَعۡلَمُ مَا نُرِیۡدُ ترجمہ: انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تو ہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے۔ (11.79) تب ان خوبصورت نوجوانوں نے بتایا:ہم فرشتے ہیں اور ان پر عذاب نازل کرنے آئے ہیں۔ فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کو راتوں رات اپنی بیٹیوں کے ہمراہ اس علاقے سے نکل جانے کو کہا۔ حضرت لوط علیہ السلام کے نکلتے ہی فرشتوں نے اس علاقے کو اٹھا کر زمین پر اوندھا پٹخ دیا جیسا کہ ارشاد ہوا:فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ۬ ۙ مَّنۡضُوۡدٍ۔ ترجمہ: پھر جب ہمارا حکم آپہنچا ہم نے اس بستی کو زیرو زبر کر دیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے۔ (11.82) ان کے کچھ نشانات لوگوں کے لئے باعثِ عبرت ہیں۔اللہ پاک ہمارے گناہ معاف فرمائے اور ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس بد فعلی سے محفوظ فرمائے۔ آمین


حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، آپ سدوم کے نبی تھے،آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کرکے ملکِ شام میں آئے تھے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے نبی بنائے گئے۔(نورالعرفان، ص255- قوم لوط کی تباہ کاریاں، ص 1 تا 2)اللہ پاک نے ان کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا، آپ ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے اور فعلِ بد سے روکتے، قومِ لوط بیانِ عافیت نشان کو سُن کر نہیں مانے،سر تسلیمِ خم کرنے کے بجائے بے باکانہ نافرمانیاں کرتے رہے۔ان کی سب سے بڑی خباثت لواطت(یعنی لڑکوں سے بدفعلی) کرنا تھی، اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان:کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو، وہ جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی۔(پ8،الاعراف:80) آپ نے ان کو بے حیائی کی باتوں سے منع فرمایا تو ایک نے بھی آپ کی بات نہ مانی اور اس ممنوع کام کو ترک نہ کیا،اسی لئے اللہ پاک نے انہیں وہ سزا دی کہ وہ ہمیشہ کے لئے عبرت کا مرقع بن کر رہ گئے۔قومِ لوط کی صرف یہی ایک نافرمانی نہیں تھی، بلکہ وہ کئی طرح کی نافرمانیوں میں گرفتار تھے، ان کا کام راستوں میں ڈاکے ڈال کر راستے کا سارا مال لوٹ لینا تھا، اس طرح یہ لوگوں کی اذیت کا سبب بنتے اور اس طرح لوگوں کو اذیت پہنچانا بھی خدا کی نافرمانی ہے۔اسی طرح قومِ لوط کی ایک نافرمانی اپنے دوستوں سے خیانت کرنا بھی تھی،وہ اپنے دوستوں کی امانتوں کا خیال نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس میں خیانت کے مرتکب ہوتے تھے، اسی پر بس نہیں تھا، بلکہ وہ عام اجتماع کے مقامات پر طرح طرح کی فحش باتیں اور فحش حرکات کرتے،بلکہ بعض اوقات مجلس میں بھی بدفعلی کا ارتکاب کرتے اور بالکل حیا نہ کرتے،ان میں بےحیائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ان پر نہ کسی نصیحت کا اثر ہوتا تھا، نہ کسی کے سمجھانے سے باز آتے تھے،انہیں نہ موجودہ گناہوں سے شرم تھی،نہ سابقہ گناہوں پر ندامت اور نہ ہی مستقبل میں اصلاح کی نیت، اسی لئے اللہ پاک نے انہیں سخت سزا دی، انہوں نے اپنے نبی سے یہاں تک کہہ دیا کہ(قصص الانبیاء،ص 225)ترجمۂ کنزالایمان:اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ (العنکبوت:29/29) چنانچہ ان پر عذابِ الٰہی نازل ہو گیا، اللہ پاک نے ان کی بستیوں کو اس طرح اُلٹ کر دیا کہ ان کا اوپر والا حصّہ نیچے ہو گیا، پھر مسلسل پتھروں کی بارش سے انہیں نظروں سے اوجھل کر دیا۔(قصص الانبیاء، ص 232)اللہ پاک ہم سب کو اپنی نافرمانی والے کاموں سے محفوظ فرمائے۔آمین