حضرت لُوط علیہ الصلوۃوالسلام کا شہر”سَدُوم“ہے جو ملکِ شام میں صوبہ ”حِمص“کا ایک مشہور شہر ہے حضرت لوط  علیہ الصلوۃوالسلام عراق کے شہر ”بابل “کے باشندے تھے پھر آپ وہاں سے ہجرت کر کے ”فلسطین“تشریف لے گئے آپ ملکِ شام کے ایک شہر” اُردن“میں مقیم ہوگئے اللہ تعالٰی نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور سدوم والوں کی ہدایت کے لیے بھیج دیا ایک روز حضرت لوط علیہ الصلوۃوالسلام کی قوم میں شیطان امردِ حَسین (یعنی خوبصورت لڑکے)کی شکل میں آیا اور اُس قوم کو اپنی جانب مائل کیایہاں تک کہ وہ بدفعلی میں کامیاب ہوگیایہ قوم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے (ماخذ مکاشفۃ القلوب ص76)

جب قوم لوط کی سرکشی اور بدفعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ عزوجل کا عذاب آگیا چنانچہ حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سےاتر پڑے پھر یہ مہمان بن کرحضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس پہنچے اور یہ سب فرشتے بہت حسین اور خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے ان مہمانوں کے حسن وجمال کو دیکھ کر اور اپنی قوم کی بدکاری کا خیال کرکےحضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام بہت فکر مند ہوئے تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادہ سے دیوار پر چڑھنے لگے حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھانا اور اس برے کام سے منع کرنا شروع کر دیا مگر یہ بدفعل اور سرکش قوم اپنے بےہودہ جواب اور برےاقدام سے باز نہ آئی تو آپ اپنی تنہائی اور مہمانوں کےسامنے رسوائی سے تنگ دل ہو کر غمگیں ورنجیدہ ہوگئے۔تو حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اے اللہ عزوجل کے نبی آپ بالکل کوئی فکر نہ کریں ہم لوگ اللہ عزوجل کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو ان بدکاروں پر عذاب لے کر اترےہیں لہٰذا آپ مومنین اور اپنے اہل وعیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبر دار کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہوجائے گاچنانچہ

حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام اپنےگھر والوں اور مومنین کو ہمرہ لے کر بستی سے باہر نکل گئے پھر حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چُور ہو کر زمین پر بکھر گئیں پھر کنکرکےپتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگ باری ہوئی کہ قوم لوط کے تمام لوگ مرگئے اور ان کی لاشيں بھی ٹکڑےٹکڑے ہو کر بکھر گئیں عین اس وقت جب کہ یہ شہر الٹ پلٹ ہورہا تھا حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام کی ایک بیوی جس کا نام "واعلہ" تھا جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہاکہ "ہائے رے میری قوم " یہ کہہ کر کھڑی ہوگئی پھر عذاب الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اوروہ بھی ہلاک ہوگئی چنانچہ

قرآنِ پاک میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے کہ (تو ہم نے اسے اوراس کے گھروالوں کو نجات دی مگراس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا) (پ8،الاعراف:84،83)جو پتھر اس قوم پر برسائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے اور ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا ۔

(تفسیرصاوی، ج2،ص691)

درس ہدایت:اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ لواطت کس قدر شدید اور ہولناک گناہ کبیرہ ہے کہ اس جرم میں قوم لوط کی بستیاں الٹ پلٹ کردی گئیں اور مجرمین پتھراؤ کے عذاب سے مر کر دنیا سے نیست ونابود ہوگئے۔ منقول ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک مرتبہ ابلیس لعین سے پوچھا کہ اللہ عزوجل کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ نا پسند ہے۔؟تو ابلیس نے کہا کے سب سے زیادہ اللہ عزوجل کویہ گناہ ناپسند ہے کہ مرد،مردسے بدفعلی کرے اور عورت ،عورت سے اپنی خواہش پوری کرے اور حدیث پاک میں ہے کہ عورت کا اپنی فرج کو دوسری عورت کی فرج سے رگڑنا یہ ان دونوں کی زنا کاری ہےاورگناہ کبیرہ ہے۔


                دنیا میں سب سے پہلے بد فعلی شیطان نے کروائی وہ حضرت لوط علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی قوم میں ایک امرد حسین یعنی خوب صورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا یہاں تک کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہو گیا اور اس کا ان کو ایسا چسکا لگا کہ اس برے کام کے عادی ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے ۔(ماخوذ ازمکاشفۃ القلوب ۔ص 76 )

حضرت لوط لوط علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام نے ان لوگوں کو اس فعل بد سے منع کرتے ہوئے جو بیان فرمایا اس کو پارہ 8 میں سورت الاعراف آیت نمبر 80اور 81میں ان لفظوں میں ذکر کیا گیا ہے: ترجمہ کنزالایمان :کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی ۔تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔

حضرت سید نا لوط علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کے دنیا و آخرت کی بھلائی پر مشتمل بیان عافیت نشان کو سن کر بے حیا قوم نے بجائے سر تسلیم خم کرنے کے جو بے با کانہ جواب دیا اسے پارہ 8 سورت الاعراف آیت نمبر 82 میں ان لفظوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے

ترجمہ کنزالایمان۔ اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں ۔(رسالہ قوم لوط کی تباہ کاریاں 2 ۔ 3)

قوم لوط پر لرزہ خیز عذاب نازل ہوگیا: جب قوم لوط کی سرکشی اور خصلت بدفعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا چنانچہ حضرت سید نا جبریل علیہ الصلاۃ والسلام چند فرشتوں کے ہمراہ امرد حسین یعنی خوب صورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت سید نا لوط علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس پہنچے ۔ان مہمانوں کے حسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت سید نا لوط علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام نہایت مشوش یعنی فکر مند ہوئے تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت سید نا لوط علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کے مکان عالی شان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بد فعلی کے برے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے حضرت سید نا لوط علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا مگر وہ اپنے بد ارادے سے باز نہ آئے ۔ آپ علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کو متفکر ورنجیدہ دیکھ کر حضرت سید نا جبریل علیہ الصلاۃ والسلام نے کہا یا نبی اللہ: آپ غمگین نہ ہوں،ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ عزوجل کا عذاب لے کر اترے ہیں، آپ مومنین اور اپنے اہل وعیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دور نکل جایئے اور خبردار ! کوئی شخص پیچھے مڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔ چنانچہ حضرت سید نا لوط علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام اپنے گھر والوں اور مومنوں کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے ۔ پھر حضرت سید نا جبریل علیہ الصلاۃ والسلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر ان بستیوں کو زمین پر الٹ دیا ۔ پھر ان پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قوم لوط کی لاشوں کے بھی پرخچے اڑ گئے !عین اس وقت جب کہ یہ شہر الٹ پلٹ ہو رہا تھا حضرت سید نا لوط علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کی بیوی جس کا نام واعلہ تھا جو کہ در حقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور اس کے منہ سے نکلا : ہاے رے میری قوم !یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی پھر عذاب الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہو گئی ۔

پارہ 8 سورت الاعراف آیت نمبر 83اور 84 میں ارشادِ رب العباد عزوجل ہوتا ہے ۔ ترجمہ کنزالایمان: تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس عورت ،وہ رہ جانے والوں میں ہوئی ۔ اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا ، تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا ۔

(رسالہ قوم لوط کی تباہ کاریاں ص 3اور 4اور 5)

بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔

( ماخوذ ازعجائب القرآن۔ ص 110 تا 112 تفسیر صاوی ج2 ص 691 )


حضرت لوط علیہ السلام کو منصبِ نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ اُردن کے مشرق اور فلسطین کے درمیان بحرِ مردار کے کنارے جنوبی حصّے میں سرسبز و شاداب علاقے تھے۔ یہ علاقے سُدوم اور عمورہ کے نام سے مشہور تھے ۔ ان علاقوں میں پانی وافر مقدار میں ہونے کی وجہ سے زمین زرخیز تھی۔ کھیتی باڑی بھی خوب ہوتی تھی۔ ہر قسم کے پھل، سبزیوں اور باغات کی کثرت تھی۔ یہاں کے لوگوں کو زندگی کی تمام تر آسائشیں حاصل تھیں۔انسان کے اَزلی و ابدی دشمن شیطان نے انہیں گمراہ کرنے کا یہ ’’بہترین موقع‘‘ ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ابلیس نے اس خوشحالی اور آسائش کی زندگی کو ان کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔جس  کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بستیوں کے مکین اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنے زور بازو پر مَحمول کرنے لگے اور عطائے خداوندی کو انہوں نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ رب کائنات کا خوف اور خشیت جب ان کا مقصود نہ رہا تو وہ غرور و تکبر سے بدمست ہو گئے اور یہی وہ غرور و تکبر تھا جس نے عزازیل جیسے عبادت گزار کو تا قیام قیامت شیطانیت کے وصف سے موسوم کر دیا اور اس کی تباہی کا موجب بن گیا۔ تکبر نے ہی عزازیل کو ذلیل و رسوا کر دیا اور اس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال دیا۔ اسی غرور کی بنا پہ اہل سدوم ان وادیوں کی سرسبزی اور شادابی کو اپنی ملکیت مانتے تھے اور دوسرے علاقوں کے باشندوں کا ان نعمتوں سے مستفید ہونا گواراہ نہیں کرتے تھے ۔

اسی طرح ان کی ایک اور بڑی نافرمانی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے قدرت کا مقرر کردہ طریقہ کار چھوڑ کر عورتوں کے بجائے مردوں اور لڑکوں سے اختلاط رکھنا اس قوم کا دستور بن گیا۔ سب سے پہلے ابلیس خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں مہمان بن کر اس بستی میں داخل ہوا۔ اور ان لوگوں سے خوب بدفعلی کرائی ۔اس طرح یہ فعلِ بد ان لوگوں نے شیطان سے سیکھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرنے لگے خباثت اور بے حیائی کی انتہا یہ تھی کہ عوام الناس سے لے کر قوم کے سردار اور حاکم تک اس عمل بد کو عیب نہیں گردانتے تھے بلکہ علی الاعلان فخریہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے تھے اور محفلوں میں ناپسندیدہ حرکات بیان کرتے تھے حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھانا اور اس فعل بد سے منع کرنا شروع کر دیا مگر یہ سرکش قوم اپنے بیہودہ افعال سے باز نہ آئی۔

اس قوم نے حضرت لوط علیہ السلام کی گستاخی بھی کی حضرت لوط علیہ السلام نے اپنے مہمانوں پر دروازہ بند کر لیا۔ پس وہ آئے اور انہوں نے دروازہ توڑا اور اندر داخل ہوگئے۔

اصلاح اور تزکیہ نفس کے لئے ہدایت کا یہ تربیتی پروگرام قوم پر نہایت شاق گزرا۔ وہ حضرت لُوط علیہ السلام سے متنفّر رہنے لگے اور ان کی سبق آموز باتوں کواپنی عیاشی کی زندگی کے لئے ایک رکاوٹ تصور کرنے لگے۔اورنوع انسانی کا یہ سرکش گروہ نافرمانی و بے حیائی اور اخلاق سوز افعال پر مُصر رہا۔جس بنا پر ان پر عذاب الہی مسلط ہوا۔


ماہنامہ فیضان مدینہ کے قارئین!

انبیاء کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی ، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے۔انہی میں سے ایک شخصیت حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہاران بن تارخ کے فرزند تھے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بابل سے ارضِ مقدس کی طرف ہجرت فرمائی۔ ابتدا میں اردن میں سکونت اختیار کی پھر اللہ نے انہیں سدوم اور اس کے قریب موجود دیگر بستیوں کی طرف مبعوث فرمایا یہاں کے باشندے طرح طرح کے گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے تھے۔

حضرت لوط علیہ السلام جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے وہ اپنے وقت کے بد ترین گناہوں، بری عادات اور قابل نفرت افعال میں مبتلا تھی، یہاں ان کے اعمال و افعال کی فہرست ملاحظہ کیجئے۔

(1)کفر و شرک کرنا

(2) حضرت لوط علیہ سلام کی

(3)تکذیب کرنا

(4)واجب حقوق کی ادائیگی میں بخل کرنا

(5)صدقہ نہ دینا

(6)مسافروں کی حق تلفی کرنا

(7)بات بات پر گالیاں دینا

(8)تالیاں اور سیٹیاں بجانا

(9)ریشمی لباس پہننا

(10)مونچھیں بڑی رکھنا اور داڑھیاں تراش دینا

(11)ایک دوسرے کا مذاق اڑانا

12 گانے باجے کے آلات بجانا

(13)شراب پینا

(14)مردوں اور نوجوان لڑکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بدفعلی کرنا

(15)لوگوں کے سامنے پورا برہنہ (ننگا) ہو جانا وغیرھم

مذکورہ بالا اعمال کی فہرست کو سامنے رکھتے ہوئے ہم عالمی سطح پر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں تو قومِ لوط کے اعمال میں سے شاید ہی کوئی ایسا عمل ہے جو فی زمانہ لوگوں میں نہ پایا جاتا ہو بلکہ ان سے بہت زیادہ گندے اعمال میں زیادہ شدت کے ساتھ مبتلا نظر آتے ہیں اور انتہائی افسوس کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی ایک تعداد بھی ان اعمال میں مبتلا نظر آتی ہے ۔

(ماخوذ سیرت الانبیا )

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


حضرتِ لوط علیہ السلام حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔اللہ تعالٰی نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا ۔ (صراط الجنان ،3/362 )

حضرتِ لوط علیہ السلام کی قوم انتہائی نافرمان اور بے ہودہ قوم تھی اور ان کی سب سے بڑی نافرمانی شرک تھی ۔ یہ قوم حضرتِ لوط علیہ السلام کو جھٹلاتی اور عذاب کی وعیدات سے نہ ڈرتی اور ہدایت حاصل نہ کرتی تھی ۔ (صراط الجنان ، 7/147)

شرک کے بعد اس قوم کا سب سے قبیح اور ذلیل فعل جو ان سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا تھا کہ یہ قوم حلال طیب عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے بد فعلی جیسے حرام اور خبیث چیز میں مبتلا تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مسافروں کے ساتھ بھی بد فعلی کرتے تھے حتّٰی کہ لوگوں نے اس طرف گزرنا موقوف کردیا ۔ (صراط ا لجنان ، 7/369)

حضرتِ لوط علیہ السلام کی قوم بد فعلی کے علاوہ ایسے ذلیل افعال اور حرکات کے عادی تھے جو عقلی اور عرفی دونوں طرح قبیح اور ممنوع تھے ، جیسے راہ گیروں کو قتل کر کے ان کا مال لوٹ کر لوگوں کا راستہ کاٹتے اور اپنی مجلسوں میں برے کام اور بری باتیں کرتے ، گالیاں دیتے ، فحش بکتے ، تالی اور سیٹیاں بجاتے ، ایک دوسرے پر کنکری وغیرہ پھینکتے ، شراب پیتے ، مذاق اُڑاتے ، گندی باتیں کرتے اور ایک دوسرے پر تھوکتے تھے ۔(صراط الجنان ،7/370)

حضرت لوط علیہ السلام نے اس قوم کو ان قبیح و ذلیل حرکات سے منع فرمایا اور نصیحت کی تو اس قوم نے جواباً دھمکی دی کہ اگر تم ہمیں روکنے سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں اس شہر سے نکال دیں گے ۔ (صراط الجنان ،7/147)

جب اس قوم کے راہِ راست پر آنے کی امید باقی نہ رہی تو حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے عذاب نازل کرنے والی وعید کو پورا کرنے کے لیے دعا فرمائی۔(صراط الجنان ،7/370)

اوراللہ تعالٰی نے قومِ لوط کو دردناک عذاب میں مبتلا کیا کہ پہلے اس بستی کو آسمان کی طرف اٹھا کر زمین پر دے مارا پھر آسمان سے پتھر یا گندھک اور آگ کی بارش برسائی ۔

(صراط الجنان ،7/148)

اللہ تعالٰی ہمیں اپنی پکڑ سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


امام ابو القاسم علی بن حسن بن عساکر لکھتے ہیں :۔

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے آپ علیہ السلام کا نام لوط بن ھاران تھا اور ھاران یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی تھے اس نسبت سے آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہوئے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ارض مقدسہ کی طرف بھیجا گیا اور حضرت لوط علیہ السلام کو چار شہروں کی طرف بھیجا گیا سدوم، اموراء، عاموراء، صبویراء، ان کی آبادی کا مجموعہ چار لاکھ تھا اور ان میں سب سے بڑا شہر سدوم تھا حضرت لوط علیہ السلام اسی میں رہتے تھے یہ شام کے شہرں میں سے ہے اور فلسطین سے ایک دن اور ایک رات کی مسافت پر واقع ہے اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو مہلت دی تھی انہوں نے اسلامی شرم و حیاء کے حجاب چاک کر دیئےاور بہت بڑی بے حیائی کا ارتکاب کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے درازگوش پر سوار ہو کر قوم لوط کے شہروں میں جاتے اور ان کو نصیحت کرتے وہ لوگ ان کی نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔

وہ سب سے بڑی بے حیائی لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو سارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کیلئے مردوں کے پاس جاتے ہو یقیناً تم حد سے گز چکے ہو۔

لواطت کو لواطت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بد فعلی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں پائی گئی تھی تو اس نسبت سے اس کا لواطت رکھ دیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قوم لوط کو دس عادتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیا گیا اور میری امت میں اس سے ایک عادت زیادہ ہوگی ان کے مرد ہم جنس پرست تھے، وہ غلیل سے شکار کرتے تھے ،حمام میں کھیلتے تھے ، کنکریاں مارتے تھے، دف بجاتے تھے، شراب پیتے تھے، داڑھی کٹاتے تھے، اور مونچھیں لمبی رکھتے تھے، سیٹی بجاتے تھے، اور تالیاں پیٹتے تھے، ریشم پہنتے تھے اور میری امت میں ان سے ایک عادت زیادہ ہوگی کہ عورتیں عورتوں سے جنسی خواہش پوری کریں گی ۔( کنزالعمال 10314مختصرتاریخ دمشق جلد 21صفحہ 236.تا241)

اللہ تعالیٰ قوم لوط کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم برھان رشید پارہ 8 سورۃ الاعراف میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان : تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم حد سے گزرگئے ۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں قوم لوط کے عمل کے بارے میں مذمت :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن لوگوں کو تم قوم لوط کا عمل کرتے پاؤ تو فاعل ( فعل کو کرنے والے ) اور مفعول بہ (جس کے ساتھ کیا گیا ہو) دونوں کو قتل کر دو۔

(سنن ابو داؤد؛ رقم الحدیث :4462 شعب الایمان ؛رقم الحدیث :5836)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے اپنی امت پر جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے ۔

(سنن الترمذی؛ رقم الحدیث : 1461)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ عزوجل اس مرد کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا جو مرد سے جنسی خواہش پوری کرے یا عورت سے عمل معکوس کرے ۔(سنن الترمذی؛ رقم الحدیث :1168)

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین


دنیا میں سب سے پہلے بد فعلی شیطان نے کروائی ۔وہ حضرت سیدنا  لوط علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کی قوم ہے۔ امرد حسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی جانب نہیں مائل کیا یہاں تک کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ اور اس کا ان کو ایسا چسکا لگا کہ اس برے کام کے عادی ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔( مکاشفۃ القلوب ،ص 76)

سیدنا لوط علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام نے سمجھایا :حضرت سیدنا لوط علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام نے ان لوگوں کو اس فعل بد سے منع کرتے ہوئے جو بیان فرمایا اس کو پارہ 8 سورۃ الاعراف آیت نمبر 80 اور 81 میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا۔ ترجمہ کنز الایمان : اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر ، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے ۔

حضرت سیدنا لوط علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کے دنیا و آخرت کی بھلائی پر مشتمل بیان عافیت نشان کو سن کر بے حیا قوم نے بجائے سر تسلیم خم کرنے کے جو بے باکانہ جواب دیا اسے پارہ 8 سورۃ الأعراف آیت نمبر 82 میں ان لفظوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے: ترجمہ کنز الایمان اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

پتھر نے پیچھا کیا:حضرتِ سیِّدُنالوطعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی قوم کا ایک تاجِر اُس وَقت کاروباری طور پر مکّۃُالمکرَّمہ زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا آیا ہوا تھا، اُس کے نام کا پتھر وَہیں   پَہُنچ گیا مگر فِرشتوں   نے یہ کہہ کر روک لیا کہ یہاللہ عَزَّوَجَلَّ کا حرم ہے۔ چُنانچِہ وہ پتھر40 دن تک حرم کے باہَر زمین و آسمان کے درمیان مُعَلّق ( یعنی لٹکارہا جُوں   ہی وہ تاجِر فارِغ ہوکر مکّۃُالمکرَّمہ زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًاسے نکل کر حرم سے باہَرہواکہ وہ پتھر اُس پر گر ا اوروہ وَہیں   ہلاک ہوگیا۔( مُکاشَفۃ الْقُلوب ص 76ماخوذاً(

بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا ۔

(عجائب القرآن)


حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ سلام کے بھتیجے تھے ۔اللہ پاک نے آپ علیہ سلام کو  سدوم اور اس کے قریب موجود بستیوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ آپ کی قوم طرح طرح کے گناہوں میں پڑی تھی ۔جن میں سے دس یہ ہیں:۔

1) کفر و شرک

2) واجب حقوق کو پورا نہ کرنے میں کمی

3) مسافروں کی حق تلفی

4)ان سے زبردستی بد فعلی کرنا

5)کبوتر بازی

6)تالیاں، سیٹیا بجانا

7)مجلسوں میں فحش باتیں کرنا

8)خوبصورت لڑکوں کو شہوت کی تسکین کے لیے دیکھنا ،ہاتھ ملانا

9)مردوں کا مردوں کے ساتھ اور اور عورتوں کا آپس میں بد فعلی کرنا

10)بد فعلی نہ کرنے والوں کو برا بھلا کہنا

ان میں موجود برے کاموں میں سے غیر شرعی ،غیر فطری اور غیر طبعی کام بد فعلی ہے۔ جس کو شروع کرنے والی یہی قوم ہے۔ اسی وجہ سے اس کام کو لواطت کہتے ہیں۔

آپ نے اپنی قوم کو اس برے کام پر تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا :کیا مخلوق میں تم ہی اس حرام اور خبیث کام کے لیے رہ گئے ہو؟ مردوں کے ساتھ بد فعلی کرتے ہو اور ان عورتوں کو چھوڑ بیٹھے ہوجنہیں اللہ پاک نے تمہاری بیویاں بنایا۔ تم اس خبیث عمل کی وجہ سے حد سے بڑھ گئے ہو۔ اس راستے پر چل کر میری اطاعت کرو جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں۔ اس قوم نے آپ کی ایک نہ مانی اور حضرت لوط علیہ سلام کی مخالفت پر اتر آئی۔ ان لوگوں نے آپ علیہ سلام کو دھمکی دی کہ تم اس کام کو برا کہنے سے باز نہ آئے تو ہم ضرور اس شہر سے نکال دیں گے۔ آپ علیہ سلام نے اپنی قوم کو عذاب الہی سے ڈرایا، ان سے قوم نے کہا :اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ اس فعل کے کرنے پر عذاب نازل ہوگا تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ ان کے اصرار کرنے پر رب کا عذاب نازل ہوا ۔حضرت لوط علیہ سلام ایمان والوں کو لے کر بستی سے نکل گئے جن بستیوں میں یہ قوم آباد تھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کے نیچے اپنا بازو ڈالا ۔ان بستیوں کو اونچا اٹھایا ۔پھر اس بلندی سے ان کو اندھا کر دیا ۔اس کے بعد پتھر برسا کر انہیں ہلاک کر دیا۔ رب تعالی نے انہیں بعد میں آنے والی امتوں کے لیے نشان عبرت بنایا۔

آج اگر ہم معاشرے کا جائزہ لیں تو بہت سے لوگ اس کام میں لگے پڑے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے ممالک نے اس حرام کام کو قانونا جائز قرار دیا ہے۔ شرم و حیا کا قتل گلی گلی نظر آتا ہے ۔اس فعل کے عادی بہت سے لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے ایک مہلک مرض ایڈز (AIDS)ہے۔کروڑوں لوگ اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ اس کام سے مکمل طور پر بچنے کی کوشش کریں۔

اس برے کام سے بچنے کے چند طریقے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:۔

1) اللہ پاک سے دعا کرنا

2) یہ تصور قائم کرنا کہ اللہ دیکھ رہا ہے

3) اچھے کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کرنا تاکہ ان کاموں کی طرف توجہ نہ جائے

4) اچھی صحبت اپنانا۔

اللہ ہمیں گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم 


رب تعالیٰ نے انسان اور جنوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔اور یہی انسان کا مقصد حیات ہے اور اس مقصد حیات کی تکمیل کے لئے رب تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو ہدایت کے واسطے بھیجا تاکہ بھٹکی انسان ان اعلیٰ صفت انسانوں کے ذریعے اپنے خالق حقیقی کو پہچانے اور ان کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم( جو کہ اللہ کے آخری نبی ہیں) تک چلتا رہا ہے ۔ان  نفوس قدسیہ نے تبلیغ دین کا کام کماحقہ (جیسا کہ حق تھا ) ادا کیا ۔ لیکن جہاں میں خوش بخت لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھایا ۔وہی کچھ بدبخت قومیں بھی تھیں جنہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا اور جہاں ابدی عذاب کے مستحق ہوئے وہاں رب عزوجل نے دنیا میں بھی ان کی پکڑ فرمائی ۔انہی بدبخت قوموں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ و السلام کی بھی تھیں ۔جن کا ذکر رب تعالیٰ نے اپنے کلام میں تقریبا ً سولہ بار فرمایا ۔اب اس قوم کے کچھ نافرما نیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔

حضرت لوط کی قوم بے حیائی کے اعلیٰ درجے پر فائز تھی کیونکہ وہ حلال عورتوں کو چھوڑ کر لڑکوں سے شہوت کو پورا کیا کرتے یعنی ان سے بدفعلی کرتے تھے ان کے اس فعل کا ذکر قرآن عظیم میں کم وبیش دس سے زائد مرتبہ آیا ہے ۔

اس کے ساتھ قوم لوط رسول کو بھی جھٹلاتی تھی۔ ان کے تمام افعال بد کا صلہ ان کو یوں ملا کہ ان پر آسمان سے پتھراؤ کیا گیا اور پھر پتھر پر اس کے مرنے والا کا نام درج تھا ۔

ہمیں اللہ پاک سے ڈر جانا چاہیے اور اس پاک ذات سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں گناہوں کی دلدل سے نکال کر نیکی کی راہ پر گامزن فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اس قوم میں پائی جانے والی  کئی برائیوں میں سے سرفہرست دو برائیاں تمام برائیوں کی جڑ کی حیثیت رکھتی ہیں جن میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام کی نبوت کا انکار کرنا ،دوسری نافرمانی :لواطت ( یعنی وہ معاملات جو میاں بیوی پردے میں رہ کر کرتے ہیں وہی معاملات دو مرد آپس میں کریں یعنی جسے عام لفظوں میں" اغلام بازی "کہا جاتا ہے )

اولاً: حضرت لوط علیہ السلام کو جھٹلانے کے بارے میں کچھ بات کرتے ہیں پھر لواطت پر کچھ سنیں گے ۔چنانچہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا : وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا،ترجمہ کنزالایمان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔

(پ 21،العنکبوت 69)

تو جسے اللہ پاک بڑا ظالم کہے اس کے ظلم کی انتہاء کیا ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔لیکن ان کے ظلم کی انتہا یہ بنی کہ جو کام ان سے پہلے دنیا میں نہ ہوا تھا وہ بھی انہوں نے کر دکھایا اور اس بدعت سیئہ کے ایسے موجد ہوئے کہ یہ کام اسی قوم کے نام سے مشہور ہوگیا۔یعنی لواطت اور لواطت کرنے والے شخص کو لوطی کہا جائے گا۔

دین اسلام دین حنیف ہیں اس کی حرمت (حرام ہونا )بحکم خدا وندی ہے مگر دیگر مذاہب سماوی و غیر سماوی میں اس کی ممانعت طبی نقصانات کے اعتبار سے ہے ۔ اس کا سب سے بڑا طبی نقصان "ایڈز"(Aids)بیماری ہے ۔جو کہ اب تک لاعلاج ہے اور اس کے کیسز کی شرح میں خطرناک حد تک اظافہ ہو رہا ہے۔ مزید نقصانات یہ ہے کہ خاندانی نظام کی تباہی و بربادی ،بےاولادی ذہنی دباؤ (Dipression) ،ٹینشن ۔جیسا کہ اب مغربی ممالک (Westurn Countries) کی حالت زار دیکھ سکتے ہیں ۔

گہرائی(Deep) میں جاکر دیکھا جائے تو اس ( لواطت) کے طبی نقصانات پر تحقیق (Research) کرنے والے خود بھی وہی رہتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ خود ہی دریافت کر کے ، طبی نقصانات بتا کر ،خود ہی اس گندے کام میں ملوث ہیں!

تو وجہ یہ ہے۔عقل ختم ہو گئی ہے کہ رب فرماتا ہے : اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ(۲۲) (پ9،انفال:23)ترجمہ کنزالایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتراللہ کے نزدیک وہ ہیں جو بہرے گونگے ہیں جن کو عقل نہیں ۔

جس کی بڑی واضح سی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت لوط علیہ اسلام نے انہیں بدفعلی سے روکا تو انہوں نے جواب دیا : قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ(۱۶۷)

ترجمہ کنزالایمان: بولے اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو ضرور نکال دئیے جاؤ گے ۔

(پ19،الشعراء:167)

کہاوت ہے: ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری

اسے تیسری بُرای کہا جا سکتا ہے "اللہ کے نبی کی گستاخی "اور یہ اللہ پاک کے ایسی نافرمانی ہے کہ جو ان کے لیے دنیا و آخرت میں لعنت کا سبب بنی، لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ترجمہ کنزالایمان: اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں (پ21 ،الأحزاب:57)

اللہ کریم ہمیں ان نافرمانیوں سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اللہ تعالیٰ قوم لوط کی نافرمانیوں اور برائیوں  کو قرآن مجید اس طرح بیان فرما رہے ہیں کہ:

اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہاکیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔ (پ8،اعراف:80)

حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھتیجے ہیں ، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اردن میں اُترے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہلِ سُدُوم کی طرف مبعوث کیا، آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔ قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا اسی پر حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ’’ کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو سارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی ، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کیلئے مردوں کے پاس جاتے ہو ، یقینا تم حد سے گزر چکے ہو۔) تفسیرصِرَاطُ الْجِنَان 362/3)

چنانچہ اس آیت سے  معلوم ہوا کہ اغلام بازی  حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی ایجاد ہے اسی لئے اسے’’ لواطت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکوں سے بدفعلی حرام قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔اسی طرح اللہ پاک نے اگلی آیت میں فرمایا :

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو بلکہ تم لوگ حد سے گزرے ہوئے ہو۔(پ8،اعراف:81)

اس آیت میں اللہ پاک نے فرمایا:(بیشک تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو) یعنی ان کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو اور وہ عورتیں جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے انہیں چھوڑتے ہو۔ انسان کو شہوت اس لئے دی گئی کہ نسلِ انسانی باقی رہے اور دنیا کی آبادی ہو اور عورتوں کو شہوت کا محل اور نسل چلانے کا ذریعہ بنایا کہ ان سے معروف طریقے کے مطابق اور جیسے شریعت نے اجازت دی اس طرح اولاد حاصل کی جائے، جب آدمیوں نے عورتوں کو چھوڑ کر ان کا کام مردوں سے لینا چاہا تو وہ حد سے گزر گئے اور انہوں نے اس قوت کے مقصدِ صحیح کو فوت کردیا کیونکہ مرد کو نہ حمل ہوتا ہے اورنہ وہ بچہ جنتا ہے تو اس کے ساتھ مشغول ہونا سوائے شیطانیت کے اور کیا ہے۔ ) تفسیرصِرَاطُ الْجِنَان/3366)

اللہ پاک ہم سب کو فعل بد سے بچائےاور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین