محمد وقار یونس (درجہ رابعہ،جامعۃ المدینہ فیضان
عبد اللہ
شاہ
غازی،کلفٹن کراچی)
رب
تعالیٰ نے انسان اور جنوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔اور یہی انسان کا
مقصد حیات ہے اور اس مقصد حیات کی تکمیل کے لئے رب تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو
ہدایت کے واسطے بھیجا تاکہ بھٹکی انسان ان اعلیٰ صفت انسانوں کے ذریعے اپنے خالق
حقیقی کو پہچانے اور ان کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی
صلی اللہ علیہ وسلم( جو کہ اللہ کے آخری نبی ہیں) تک چلتا رہا ہے ۔ان نفوس قدسیہ نے تبلیغ دین کا کام کماحقہ (جیسا کہ حق تھا ) ادا کیا ۔
لیکن جہاں میں خوش بخت لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھایا ۔وہی کچھ بدبخت قومیں بھی تھیں
جنہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا اور جہاں ابدی عذاب کے مستحق ہوئے وہاں رب عزوجل
نے دنیا میں بھی ان کی پکڑ فرمائی ۔انہی بدبخت
قوموں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیٰ نبینا
و علیہ الصلاۃ و السلام کی بھی تھیں ۔جن کا ذکر رب تعالیٰ نے اپنے کلام میں تقریبا
ً سولہ بار فرمایا ۔اب اس قوم کے کچھ نافرما
نیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
حضرت
لوط کی قوم بے حیائی کے اعلیٰ درجے پر فائز تھی کیونکہ وہ حلال عورتوں کو چھوڑ کر
لڑکوں سے شہوت کو پورا کیا کرتے یعنی ان سے بدفعلی کرتے تھے ان کے اس فعل کا ذکر
قرآن عظیم میں کم وبیش دس سے زائد مرتبہ آیا ہے ۔
اس
کے ساتھ قوم لوط رسول کو بھی جھٹلاتی تھی۔ ان کے تمام افعال بد کا صلہ ان کو یوں
ملا کہ ان پر آسمان سے پتھراؤ کیا گیا اور
پھر پتھر پر اس کے مرنے والا کا نام درج تھا ۔
ہمیں
اللہ پاک سے ڈر جانا چاہیے اور اس پاک ذات سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں
گناہوں کی دلدل سے نکال کر نیکی کی راہ پر گامزن فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم